اپنے باطن کی آواز پر کان لگائیں
”وہ قومیں جو [خدا کی] شریعت نہیں رکھتیں اپنی طبیعت سے شریعت کے کام کرتی ہیں۔“—رومیوں ۲:۱۴۔
۱، ۲. (ا) بہتیرے لوگوں نے دوسروں کے لئے مہربانی دکھانے کے لئے کیا کِیا ہے؟ (ب) بائبل میں دوسروں کے لئے فکرمندی دکھانے کی کونسی مثالیں پائی جاتی ہیں؟
ریلوے اسٹیشن کے پلیٹفارم پر کھڑا ایک ۲۰ سالہ لڑکا مرگی کا دورہ پڑنے سے ریل کی پٹڑی پر گر گیا۔ اپنی بیٹیوں کے ساتھ وہاں کھڑے ایک آدمی نے یہ منظر دیکھ کر نیچے چھلانگ لگا دی اور اُس شخص کو کھینچ کر ریل کی پٹڑی سے باہر نکال لیا۔ یوں اُس نے اُسے دونوں طرف سے آنے والی گاڑیوں سے بچا لیا۔ بعض لوگ جان بچانے والے اِس آدمی کو ہیرو کہنے لگے۔ لیکن اُس نے کہا: ”ہر شخص کو اچھے کام کرنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ مَیں نے شہرت یا عزت حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ ہمدردی کی وجہ سے اُس کی جان بچائی ہے۔“
۲ آپ شاید کسی ایسے شخص کو جانتے ہوں جس نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر دوسروں کی مدد کی ہو۔ دوسری جنگِعظیم کے دوران بہت سے لوگوں نے ایسا ہی کِیا تھا۔ اُنہوں نے یہودیوں کو پناہ دی جن کی جان کو خطرہ تھا۔ ذرا اُس وقت کو بھی یاد کریں جب پولس رسول اور اُس کے ساتھ سفر کرنے والے ۲۷۵ لوگوں کا جہاز سسلی کے نزدیک مالٹا کے جزیرے پر تباہ ہو گیا تھا۔ اِس موقع پر مقامی لوگ اِن اجنبیوں کی مدد کے لئے آئے اور ”خاص مہربانی“ دکھائی۔ (اعمال ۲۷:۲۷–۲۸:۲) اُس اسرائیلی لڑکی کی مثال پر بھی غور کریں جسے اپنی زندگی تو خطرے میں نہیں ڈالنی پڑی لیکن اُس نے اپنے ارامی آقا کی بھلائی کے لئے مہربانی اور فکرمندی دکھائی تھی۔ (۲-سلاطین ۵:۱-۴) اِس کے علاوہ، یسوع مسیح کی نیک سامری کی تمثیل کو یاد کریں۔ ایک کاہن اور لاوی ایک ادھمؤے یہودی کو دیکھ کر کترا کر چلے گئے لیکن ایک سامری نے اُس کی مدد کرنے کے لئے خاص کوشش کی۔ اِس تمثیل نے کئی صدیوں سے مختلف ثقافتوں کے لوگوں کے دلوں کو چھو لیا ہے۔—لوقا ۱۰:۲۹-۳۷۔
۳، ۴. لوگوں کا دوسروں کے لئے خودایثاری کا جذبہ دکھانا ارتقا کے نظریے کی بابت کیا ظاہر کرتا ہے؟
۳ سچ ہے کہ ہم ’اخیر زمانہ کے بُرے دنوں‘ میں رہ رہے ہیں کیونکہ بیشتر لوگ ”تندمزاج“ اور ”نیکی کے دشمن“ ہیں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۳) اِس کے باوجود، ہم نے یقیناً دوسروں کو نیک کام کرتے دیکھا ہوگا۔ شاید ہم نے خود بھی اُن کی نیکی سے فائدہ اُٹھایا ہو۔ اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر دوسروں کی مدد کرنے کا میلان اتنا عام ہے کہ بعض اِسے ”مہربانیوشفقت“ کا نام دیتے ہیں۔
۴ خودایثاری کے جذبے کے تحت دوسروں کی مدد کرنے کا میلان تمام لوگوں اور ثقافتوں میں پایا جاتا ہے۔ یہ میلان اِس نظریے کی نفی کرتا ہے کہ انسان کا وجود ”بقائےاصلح“ کے اصول کا محتاج ہے۔ اِس اصول کے مطابق نباتات یا حیوانات میں سے صرف وہی زندہ رہتے ہیں جو اپنے اندر ماحول کے مطابق ڈھل جانے کی صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں۔ انسانی جینوم (ڈیایناے) کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے سلسلے میں امریکی حکومت کی کوششوں کی پیشوائی کرنے والے ایک ماہرِجینیات فرانسس سیلرز کولنز نے بیان کِیا: ”خودایثاری کا رُجحان ارتقا کے عقیدے کی حمایت کرنے والوں کے لئے ایک بہت بڑی مشکل پیدا کر دیتا ہے۔ ایک شخص میں خودایثاری کا جذبہ ہے یا نہیں اِس بات کا اندازہ اُس میں موجود خودغرضی کی موروثی خصوصیت کی بِنا پر نہیں لگایا جا سکتا۔“ اُس نے یہ بھی کہا: ”بعض لوگ خودایثاری کے جذبے کے تحت خود کو کسی دوسری نسل، قوم، مذہب یا خاندان کے لوگوں کے لئے وقف کر دیتے ہیں جن سے وہ واقف بھی نہیں ہوتے۔ . . . خودایثاری کے اِس رُجحان کو ڈارون کے ارتقا کے نظریے سے بیان نہیں کِیا جا سکتا ہے۔“
”ضمیر کی آواز“
۵. عام طور پر لوگوں میں کیا چیز نظر آتی ہے؟
۵ ڈاکٹر کولنز نے ہمارے خودایثاری کے اِس جذبے کے ایک پہلو کی نشاندہی کرتے ہوئے لکھا: ”اگرچہ ہمیں پتہ ہوتا ہے کہ خودایثاری کے بدلے میں ہمیں کچھ نہیں ملے گا توبھی ضمیر کی آواز ہمیں دوسروں کی مدد کرنے کی تحریک دیتی ہے۔“a ڈاکٹر کولنز کا لفظ ”ضمیر“ استعمال کرنا ہمیں اُس حقیقت کی یاد دلا سکتا ہے جسے پولس رسول نے یوں بیان کِیا تھا: ”جب وہ قومیں جو شریعت نہیں رکھتیں اپنی طبیعت سے شریعت کے کام کرتی ہیں تو باوجود شریعت نہ رکھنے کے وہ اپنے لئے خود ایک شریعت ہیں۔ چُنانچہ وہ شریعت کی باتیں اپنے دِلوں پر لکھی ہوئی دکھاتی ہیں اور اُن کا دل [”ضمیر،“ کیتھولک ترجمہ] بھی اِن باتوں کی گواہی دیتا ہے اور اُن کے باہمی خیالات یا تو اُن پر الزام لگاتے ہیں یا اُن کو معذور رکھتے ہیں۔“—رومیوں ۲:۱۴، ۱۵۔
۶. سب لوگ خدا کے حضور جوابدہ کیوں ہیں؟
۶ رومیوں کے نام اپنے خط میں پولس رسول نے واضح کِیا کہ ہمارے اردگرد کی چیزیں خدا کی موجودگی کا ثبوت دیتی اور اُس کی صفات ظاہر کرتی ہیں اِس لئے ہم خدا کے حضور جوابدہ ہیں۔ جیہاں ”دُنیا کی پیدایش کے وقت“ سے ایسا ہی ہے۔ (رومیوں ۱:۱۸-۲۰؛ زبور ۱۹:۱-۴) سچ ہے کہ بیشتر لوگ اپنے خالق کو نظرانداز کرکے بداخلاق طرزِزندگی میں پڑ جاتے ہیں۔ مگر خدا کی مرضی یہ ہے کہ انسان اُس کی راستی کو تسلیم کریں اور اپنے بُرے کاموں سے توبہ کریں۔ (رومیوں ۱:۲۲–۲:۶) یہودیوں کو موسیٰ کے ذریعے خدا کی شریعت دی گئی تھی اِس لئے اُن کے پاس ایسا کرنے کی ایک خاص وجہ موجود تھی۔ تاہم، جن لوگوں کے پاس ”خدا کا کلام“ نہیں تھا اُنہیں بھی خدا کے وجود کو تسلیم کرنا تھا۔—رومیوں ۲:۸-۱۳؛ ۳:۲۔
۷، ۸. انصاف کی خوبی کتنی عام ہے، اور اِس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟
۷ لوگوں کے پاس خدا کو جاننے اور اُسکی مرضی کے مطابق کام کرنے کی ایک اَور ٹھوس وجہ اُنکی صحیح اور غلط میں امتیاز کرنے کی باطنی صلاحیت ہے۔ جب ہم انصاف کرتے ہیں تو اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم ضمیر رکھتے ہیں۔ ذرا تصور کریں: کچھ بچے جھولا لینے کیلئے لائن میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہیں۔ ایک بچہ لائن میں کھڑے بچوں کو نظرانداز کرتے ہوئے سب سے آگے جاکر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اِس پر بہت سے بچے کہتے ہیں، ’یہ ٹھیک نہیں ہے!‘ اب خود سے پوچھیں، ’یہ کیونکر ممکن ہے کہ بچے بھی انصاف کی خوبی ظاہر کرتے ہیں؟‘ اُن کے اِس ردِعمل سے پتہ چلتا ہے کہ اُن کے اندر اچھے اور بُرے میں امتیاز کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ پولس رسول نے لکھا: ”جب وہ قومیں جو شریعت نہیں رکھتیں اپنی طبیعت سے شریعت کے کام کرتی ہیں“ یہاں وہ یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ ”اگر“ وہ ایسا کرتی ہیں گویا کبھیکبھار ایسا ہوتا ہے۔ بلکہ اُس نے کہا ”جب“ وہ اپنی طبیعت سے شریعت کے کام کرتی ہیں تو اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بار بار ایسا کِیا جاتا ہے۔ اِس کا مطلب ہے کہ لوگ ”اپنی طبیعت سے شریعت کے کام“ کرتے ہیں یعنی اُن کی اچھے اور بُرے میں امتیاز کرنے کی باطنی صلاحیت اُنہیں ایسے کام کرنے کی تحریک دیتی ہے جن کی بابت وہ خدا کی شریعت میں پڑھتے ہیں۔
۸ اچھے اور بُرے میں امتیاز کرنے کا یہ میلان بہت سے ممالک میں دیکھا گیا ہے۔ انگلینڈ کی کیمبرج یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے بیان کِیا کہ بابلیوں، مصریوں، نیز یونانیوں اور آسٹریلیا کے اصلی باشندوں اور مقامی امریکیوں کے پاس ”بوڑھوں، بچوں اور کمزوروں کے لئے ظلموستم، قتلوغارت، بےوفائی اور بُرائی سے باز رہنے اور مہربانی سے پیش آنے کے لئے“ ایک جیسے اصول تھے۔ اِس کے علاوہ، ڈاکٹر کولنز نے لکھا: ”اچھے اور بُرے میں امتیاز کرنے کا نظریہ تمام انسانوں میں پایا جاتا ہے۔“ کیا اِس سے آپ کو رومیوں ۲:۱۴ کے الفاظ یاد نہیں آتے؟
آپ کا ضمیر کیسے کام کرتا ہے؟
۹. ضمیر کیا ہے، اور کسی کام کو کرنے سے پہلے یہ آپ کی مدد کیسے کر سکتا ہے؟
۹ بائبل بیان کرتی ہے کہ ضمیر اپنے کاموں کو جانچنے اور پرکھنے کی باطنی صلاحیت ہے۔ گویا آپ کے اندر سے یہ آواز آتی ہے کہ آیا کوئی کام صحیح ہے یا غلط۔ پولس رسول نے اپنے اندر کی اِس آواز کا ذکر یوں کِیا: ”میرا ضمیر بھی رُوحاُلقدس کی ہدایت سے گواہی دیتا ہے۔“ (رومیوں ۹:۱، کیتھولک ترجمہ) مثال کے طور پر، جب آپ کو کسی کام کے اچھے یا بُرے ہونے کا فیصلہ کرنا پڑتا ہے تو ضمیر کی آواز آپ کو پہلے ہی سے اِس کی بابت آگاہ کر دیتی ہے۔ آپ کا ضمیر مستقبل میں کئے جانے والے کسی کام کو جانچنے اور یہ سمجھنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہے کہ ایسا کرنے کی صورت میں کیا واقع ہوگا۔
۱۰. ہمارا ضمیر عام طور پر کس طرح کام کرتا ہے؟
۱۰ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ کسی کام کو کرنے کے بعد آپ کا ضمیر آپ کو ملامت کرتا ہے۔ بادشاہ ساؤل سے بھاگنے کے بعد داؤد کو خدا کے ممسوح بادشاہ کی شان میں گستاخی کرنے کا موقع ملا۔ اُس نے اِس موقع سے فائدہ اُٹھایا۔ مگر اِس کے بعد ”داؔؤد کا دل بےچین ہوا۔“ (۱-سموئیل ۲۴:۱-۵؛ زبور ۳۲:۳، ۵) اگرچہ اِس بیان میں لفظ ”ضمیر“ استعمال نہیں ہوا توبھی داؤد نے جوکچھ محسوس کِیا وہ اُس کے ضمیر کا ردِعمل تھا۔ ہم سب بھی اپنے ضمیر کی آواز پر ایسا ہی ذہنی دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ مثلاً کوئی کام کرنے کے بعد ہم اِس بات سے پریشان ہو جاتے ہیں کہ ہم نے یہ کام کیوں کِیا۔ ٹیکس ادا نہ کرنے کی وجہ سے جب بعض لوگوں کے ضمیر نے اُنہیں ملامت کی تو وہ اِس قدر پریشان ہوئے کہ بعدازاں اُنہوں نے اپنے ٹیکس ادا کر دئے۔ دیگر اشخاص نے اپنے ضمیر کے ملامت کرنے کی وجہ سے اپنے ساتھی کے سامنے زناکاری جیسے گُناہ کا اقرار کِیا۔ (عبرانیوں ۱۳:۴) تاہم، جب کوئی شخص اپنے ضمیر کی آواز پر دھیان دیتا ہے تو اُسے اطمینان اور سکون کا احساس ہوتا ہے۔
۱۱. صرف اپنے ’ضمیر کی راہنمائی‘ کے مطابق چلنا کیوں خطرناک ہو سکتا ہے؟ مثال دیں۔
۱۱ کیا ہمیں صرف اپنے ’ضمیر کی راہنمائی‘ کے مطابق ہی چلنا چاہئے؟ اپنے ضمیر کی آواز سننا اچھی بات ہے لیکن یہ ہمیں غلط راہ پر بھی لے جا سکتی ہے۔ جیہاں، ہماری ”باطنی انسانیت“ ہمیں گمراہ کر سکتی ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۱۶) ایک مثال پر غور کریں۔ بائبل ہمیں مسیح کے ایک سرگرم پیروکار ستفنس کے بارے میں بتاتی ہے جو ”فضل اور قوت سے بھرا ہوا“ تھا۔ بعض یہودیوں نے ستفنس کو یروشلیم سے باہر نکال کر اُسے سنگسار کر دیا۔ ساؤل (جو بعد میں پولس رسول بن گیا) بھی وہاں موجود تھا اور ستفنس کے ”قتل پر راضی تھا۔“ ایسا لگتا ہے کہ اُن یہودیوں کو یقین تھا کہ اُنہوں نے بالکل صحیح کام کِیا ہے اِس لئے اُن کے ضمیر نے اُنہیں پریشان نہ کِیا۔ ساؤل کے سلسلے میں بھی ایسا ہی تھا کیونکہ اِس کے بعد بھی وہ ”خداوند کے شاگردوں کو دھمکانے اور قتل کرنے کی دُھن“ میں رہا۔ صاف ظاہر ہے کہ اُس وقت اُس کا ضمیر اُسے صحیح راہنمائی فراہم نہیں کر رہا تھا۔—اعمال ۶:۸؛ ۷:۵۷–۸:۱؛ ۹:۱۔
۱۲. ایک طریقہ کونسا ہے جس سے ہمارا ضمیر متاثر ہو سکتا ہے؟
۱۲ اُس وقت ساؤل کا ضمیر کس چیز سے متاثر ہوا ہوگا؟ ایک چیز تو دوسروں کے ساتھ اُس کی قریبی رفاقت ہو سکتی ہے۔ ہم میں سے بیشتر کو فون پر کسی ایسے شخص کے ساتھ بات کرنے کا اتفاق ہوا ہوگا جس کی آواز بالکل اپنے والد جیسی ہے۔ ممکن ہے کہ کسی حد تک بیٹے نے یہ آواز ورثے میں پائی ہو لیکن اُس کے والد کا لبولہجہ بھی اُس کی آواز کو متاثر کر سکتا ہے۔ اِسی طرح، یسوع مسیح سے نفرت کرنے اور اُس کی تعلیمات کو ترک کرنے والے یہودیوں کے ساتھ قریبی تعلق ساؤل پر اثرانداز ہوا ہوگا۔ (یوحنا ۱۱:۴۷-۵۰؛ ۱۸:۱۴؛ اعمال ۵:۲۷، ۲۸، ۳۳) جیہاں، ساؤل کے ساتھیوں نے اُس کی باطنی آواز یعنی اُس کے ضمیر کو متاثر کِیا ہوگا۔
۱۳. ایک شخص کا ماحول اُس کے ضمیر پر کس طرح اثرانداز ہو سکتا ہے؟
۱۳ جس طرح ایک شخص کا لبولہجہ اُس کے ماحول سے متاثر ہو سکتا ہے اُسی طرح ماحول یا ثقافت کسی شخص کے ضمیر پر اثرانداز ہو سکتے ہیں۔ (متی ۲۶:۷۳) قدیم اسوریوں کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہوگا۔ وہ اپنی فوجی طاقت کی وجہ سے مشہور تھے۔ اُن کے بنائے گئے نقشونگار میں اُنہیں قیدیوں پر تشدد کرتے دکھایا گیا ہے۔ (ناحوم ۲:۱۱، ۱۲؛ ۳:۱) یوناہ کے دنوں میں نینوہ کے رہنے والے لوگوں کے بارے میں بیان کِیا گیا ہے کہ وہ ”اپنے دہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کر سکتے“ تھے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اِس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے تھے کہ خدا کی نظر میں کونسے کام اچھے ہیں اور کونسے بُرے۔ تصور کریں کہ اِس ماحول نے نینوہ میں پرورش پانے والے لوگوں کے ضمیر پر کیسا اثر ڈالا ہوگا! (یوناہ ۳:۴، ۵؛ ۴:۱۱) اِسی طرح آجکل بھی کسی شخص کا ضمیر اُس کے اردگرد کے لوگوں کے ماحول سے اثرپذیر ہو سکتا ہے۔
اپنے باطن کی آواز کو بہتر بنائیں
۱۴. ہمارا ضمیر پیدایش ۱:۲۷ میں درج الفاظ کی عکاسی کیسے کرتا ہے؟
۱۴ یہوواہ خدا نے آدم اور حوا کو ضمیر کی بخشش سے نوازا تھا۔ لہٰذا، ہمیں یہ بخشش اُن سے ورثے میں ملی ہے۔ پیدایش ۱:۲۷ ہمیں بتاتی ہے کہ انسان خدا کی صورت پر بنائے گئے ہیں۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارا بدن خدا جیسا ہے۔ کیونکہ خدا روحانی ہے جبکہ ہم جسمانی ہیں۔ خدا کی صورت پر ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے اندر خدا جیسی صفات ہیں جس میں ضمیر کی بخشش اور اچھے بُرے میں امتیاز کرنے کی صلاحیت شامل ہے۔ یہ حقیقت ظاہر کرتی ہے ہم اپنے خالق کے بارے میں سیکھنے اور اُس کے نزدیک جانے سے اپنے ضمیر کو اَور زیادہ پُختہ اور قابلِبھروسا بنا سکتے ہیں۔
۱۵. ہم اپنے آسمانی باپ کو جاننے سے کیسے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں؟
۱۵ بائبل بیان کرتی ہے کہ یہوواہ خدا نے ہمیں زندگی کی نعمت سے نوازا ہے اِس لئے وہ ہمارا باپ ہے۔ (یسعیاہ ۶۴:۸) پس آسمان یا زمین پر زندگی کی اُمید رکھنے والے وفادار مسیحی خدا کو باپ کہہ کر مخاطب کر سکتے ہیں۔ (متی ۶:۹) ہمیں ہمیشہ اپنے باپ کے نزدیک جانے اور اُس کے خیالات اور معیاروں کو جاننے کی خواہش رکھنی چاہئے۔ (یعقوب ۴:۸) بیشتر لوگ ایسا کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ وہ اُن یہودیوں کی مانند ہیں جن سے یسوع مسیح نے کہا تھا: ”تُم نے کبھی اُس کی آواز سنی ہے اور نہ اُس کی صورت دیکھی۔ اور اُس کے کلام کو اپنے دلوں میں قائم نہیں رکھتے۔“ (یوحنا ۵:۳۷، ۳۸) اگرچہ ہم نے کبھی خدا کی آواز تو نہیں سنی توبھی اُس کے کلام کو پڑھنے سے ہم اُس کے بارے میں جان سکتے، اُس کی مانند بن سکتے اور اُس کی طرح محسوس کر سکتے ہیں۔
۱۶. یوسف کی مثال ضمیر کی تربیت اور اِس کی آواز سننے کی بابت کیا ظاہر کرتی ہے؟
۱۶ یوسف کی مثال پر غور کریں۔ وہ فوطیفار کے گھر میں رہتا تھا۔ فوطیفار کی بیوی نے یوسف کو ورغلانے کی کوشش کی۔ اگرچہ وہ اُس دور میں رہتا تھا جب نہ تو بائبل لکھی گئی تھی اور نہ ہی دس حکم دئے گئے تھے توبھی یوسف نے فوطیفار کی بیوی کو جواب دیا: ”مَیں کیوں اَیسی بڑی بدی کروں اور خدا کا گنہگار بنوں؟“ (پیدایش ۳۹:۹) یوسف کا یہ ردِعمل محض اپنے خاندان کو خوش کرنے کے لئے نہیں تھا۔ کیونکہ اُس کا خاندان تو اُس سے بہت دُور تھا۔ وہ بنیادی طور پر خدا کو خوش کرنا چاہتا تھا۔ یوسف شادی کے خدائی معیار سے واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ایک مرد صرف ایک بیوی رکھ سکتا ہے۔ نیز، وہ دونوں ”ایک تن“ ہوں گے۔ یوسف نے غالباً یہ بھی سنا ہوگا کہ جب ابیملک کو یہ پتہ چلا کہ ربقہ شادیشُدہ ہے تو اُس نے محسوس کِیا کہ اُسے اپنے پاس رکھنے سے اُس کے لوگوں پر مصیبت آ سکتی ہے۔ یہوواہ خدا نے اِس معاملے میں زناکاری کی بابت اپنے نقطۂنظر کو واضح کِیا اور اُنہیں برکت دی۔ اِن واقعات سے واقف ہونے کی وجہ سے یوسف نے اپنے ضمیر کی آواز پر دھیان دیا جس نے اُسے جنسی بداخلاقی کو رد کرنے کی تحریک دی تھی۔—پیدایش ۲:۲۴؛ ۱۲:۱۷-۱۹؛ ۲۰:۱-۱۸؛ ۲۶:۷-۱۴۔
۱۷. ہم کیوں اپنے آسمانی باپ کی مانند بننے کے سلسلے میں یوسف سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں؟
۱۷ بِلاشُبہ، ہم یوسف سے زیادہ بہتر حالت میں ہیں۔ ہمارے پاس پوری بائبل موجود ہے جس کے ذریعے ہم اپنے باپ کے خیالات اور احساسات کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ اِس کے علاوہ، یہ ہمیں بتاتی ہے کہ خدا کن کاموں سے خوش ہوتا اور کن سے منع کرتا ہے۔ ہم جتنا زیادہ بائبل کو جانیں گے اُتنا ہی زیادہ ہم خدا کے نزدیک جا سکتے اور اُس کی مانند بن سکتے ہیں۔ جب ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمارا ضمیر ہمیں اپنے آسمانی باپ کی سوچ اور مرضی کے مطابق کام کرنے کی تحریک دے گا۔—افسیوں ۵:۱-۵۔
۱۸. ماضی کے اثرات کے باوجود، ہم اپنے ضمیر کو پُختہ بنانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟
۱۸ ہمارے ضمیر پر ماحول کے اثرات کی بابت کیا ہے؟ ممکن ہے کہ ہم اپنے رشتےداروں کی سوچ اور کاموں سے متاثر ہوں۔ جس ماحول میں ہم نے پرورش پائی ہے وہ بھی ہم پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔ اِس وجہ سے شاید ہمارے ضمیر کی آواز دب گئی ہو۔ ہمارے ضمیر کی ”آواز“ ہمارے اردگرد رہنے والے لوگوں سے بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ اگرچہ ہم اپنے ماضی کو نہیں بدل سکتے توبھی ہم ایسے دوستوں اور ماحول کا انتخاب کرنے کا عزم کر سکتے ہیں جو ہمارے ضمیر پر اچھا اثر ڈالیں گے۔ اِس کے لئے سب سے اہم بات ایسے وفادار مسیحیوں کے ساتھ رفاقت رکھنا ہے جو کافی عرصے سے اپنے آسمانی باپ کی مانند بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اِس سلسلے میں مسیحی اجلاس شاندار مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ہم اجلاس سے پہلے اور اُس کے بعد اپنے مسیحی بہنبھائیوں کی رفاقت سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ ہم اُن کی بائبل پر مبنی سوچ اور ردِعمل کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ ہم اِس بات پر بھی غور کر سکتے ہیں کہ جب اُن کا ضمیر اُنہیں خدا کے نقطۂنظر اور اُس کی راہوں کی بابت آگاہ کرتا ہے تو وہ کتنی جلدی اِس کی آواز پر دھیان دیتے ہیں۔ اِس طرح ہمیں اپنے ضمیر کو بائبل معیاروں کے مطابق ڈھالنے میں مدد مل سکتی ہے اور ہم زیادہ بہتر طور پر خدا کی خوبیاں منعکس کر سکتے ہیں۔ جب ہم اپنے باطن کی آواز کو اپنے آسمانی باپ کے اصولوں کے مطابق ڈھالتے اور ساتھی مسیحیوں کے عمدہ نمونے پر عمل کرتے ہیں تو ہمارا ضمیر اَور زیادہ پُختہ ہو جائے گا اور ہم اِس کی آواز کو سننے کی طرف مائل ہوں گے۔—یسعیاہ ۳۰:۲۱۔
۱۹. ضمیر کے کونسے پہلو ابھی تک ہماری توجہ کے مستحق ہیں؟
۱۹ بعض لوگ متواتر اپنے ضمیر کی آواز پر کان لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگلا مضمون ہماری توجہ مسیحیوں کو درپیش بعض معاملات پر دلائے گا۔ ایسے معاملات پر غور کرنے سے ہم ضمیر کے کردار کو اَور زیادہ اچھی طرح سمجھنے کے قابل ہوں گے۔ ہم دیکھ سکیں گے کہ لوگوں کے ضمیر مختلف کیوں ہو سکتے ہیں نیز، ہم کیسے اپنے ضمیر کی آواز پر کان لگا سکتے ہیں۔—عبرانیوں ۶:۱۱، ۱۲۔
[فٹنوٹ]
a اِسی طرح، ہارورڈ یونیورسٹی کے علمِنجوم پر تحقیق کرنے والے ایک پروفیسر نے لکھا: ”خودایثاری کے جذبے سے ایک ایسا سوال جنم لے سکتا ہے . . . جس کا سائنسی جواب حیوانوں کا مشاہدہ کرنے سے بھی نہیں ملتا۔ ممکن ہے کہ اِس کا مستند جواب ہمیں ایک بالکل مختلف زاویے سے مل جائے جس کا تعلق مہربانیوشفقت جیسی خداداد خوبیوں اور ہمارے ضمیر سے ہے۔“
آپ نے کیا سیکھا؟
• تمام لوگوں میں ضمیر یا اچھے اور بُرے میں امتیاز کرنے کی صلاحیت کیوں پائی جاتی ہے؟
• ہمیں صرف اپنے ضمیر کی راہنمائی کے مطابق ہی کیوں نہیں چلنا چاہئے؟
• ہم کن طریقوں سے اپنے باطن کی آواز کو اَور بہتر بنا سکتے ہیں؟
[صفحہ ۱۰ پر تصویریں]
داؤد کے ضمیر نے اُسے ملامت کی . . .
ترسس کے ساؤل کے ضمیر نے اُسے ملامت نہ کی
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
ہم اپنے ضمیر کی تربیت کر سکتے ہیں