باب نمبر 7
وہ ’یہوواہ کے حضور بڑھتے گئے‘
1، 2. (الف) اُس وقت کا منظر بیان کریں جب سموئیل نے بنیاِسرائیل کو جلجال میں اِکٹھا کِیا ہوا تھا۔ (ب) اِس بات کی ضرورت کیوں پیش آئی کہ سموئیل لوگوں کو توبہ کی ترغیب دیں؟
ہمارے کیلنڈر کے مطابق یہ مئی یا جون کا مہینہ تھا۔ یہ وہ مہینے تھے جن میں بارشیں نہیں ہوتی تھیں۔ گندم کی لہلہاتی فصلیں کٹائی کے لیے تیار تھیں۔ پوری اِسرائیلی قوم شہر جلجال میں جمع تھی کیونکہ خدا کے وفادار بندے سموئیل نے اُنہیں وہاں بلایا تھا۔ اُس وقت سموئیل کو ایک نبی اور قاضی کے طور پر خدمت کرتے ہوئے بہت سال بیت چُکے تھے۔ سموئیل نے لوگوں کی طرف دیکھا اور وہ سب خاموش ہو کر اُن کے بولنے کا اِنتظار کرنے لگے۔ سموئیل کیا کر سکتے تھے تاکہ اُن کی بات لوگوں کے دل پر اثر کرتی؟
2 لوگ اِس بات کو نہیں سمجھ رہے تھے کہ صورتحال کتنی سنگین ہے۔ اُنہوں نے یہ مطالبہ کِیا تھا کہ کوئی اِنسانی بادشاہ اُن پر حکومت کرے۔ اُنہیں اِس بات کا احساس نہیں تھا کہ ایسا کرنے سے اُنہوں نے خدا کی توہین اور اُس کے نبی کی بےعزتی کی ہے۔ وہ لوگ ایک لحاظ سے یہوواہ کو اپنے بادشاہ کے طور پر رد کر رہے تھے۔ سموئیل اُن لوگوں کو توبہ کرنے کی ترغیب کیسے دے سکتے تھے؟
3، 4. (الف) سموئیل نے لوگوں سے بات کرتے وقت اپنے بچپن کا ذکر کیوں کِیا؟ (ب) ہمیں سموئیل کی مثال پر کیوں غور کرنا چاہیے؟
3 سموئیل نے اپنی بات کو اِس طرح شروع کِیا: ”مَیں تو بڈھا ہوں اور میرا سر سفید ہو گیا۔“ سموئیل لوگوں سے جو کچھ کہنے والے تھے، اُس کی اہمیت اُن کے سفید بالوں کی وجہ سے بڑھ گئی تھی۔ پھر اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی: ”مَیں لڑکپن سے آج تک تمہارے سامنے ہی چلتا رہا ہوں۔“ (1-سمو 11:14، 15؛ 12:2) حالانکہ سموئیل بوڑھے ہو چُکے تھے لیکن وہ اپنے بچپن کو نہیں بھولے تھے۔ اُن کے ذہن میں اُن دنوں کی یادیں ابھی بھی تازہ تھیں۔ اُنہوں نے بچپن میں جو فیصلے کیے تھے، اُن کی بدولت وہ مضبوط ایمان کے مالک بن گئے تھے اور ساری عمر وفاداری سے خدا کی خدمت کر پائے تھے۔
4 لیکن سموئیل کے لیے اپنے ایمان کو مضبوط رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا کیونکہ اُنہیں اکثر ایسے لوگوں کے بیچ رہنا پڑا جو ایمان سے خالی اور خدا کے نافرمان تھے۔ آج ہمارے لیے بھی اپنے ایمان کو مضبوط رکھنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ دُنیا ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے جن کا ایمان کھوکھلا ہے اور جو خدا کے معیاروں کو نظرانداز کرتے ہیں۔ (لُوقا 18:8 کو پڑھیں۔) لہٰذا ہم سموئیل کی مثال پر غور کرنے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اِس سلسلے میں آئیں، پہلے یہ دیکھیں کہ سموئیل کا بچپن کیسا تھا۔
کمعمری میں خدا کی خدمت
5، 6. (الف) سموئیل کا بچپن دوسرے بچوں سے کیسے فرق تھا؟ (ب) سموئیل کے والدین کو یہ یقین کیوں تھا کہ سیلا میں اُن کی اچھی دیکھبھال کی جائے گی؟
5 سموئیل کا بچپن عام بچوں کی طرح نہیں تھا۔ ابھی اُن کا دودھ چھڑائے کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ وہ خیمۂاِجتماع میں رہنے لگے۔ اُس وقت اُن کی عمر شاید تین سال یا اِس سے تھوڑی زیادہ تھی۔ خیمۂاِجتماع شہر سیلا میں تھا جو اُن کے آبائی شہر رامہ سے تقریباً 32 کلومیٹر (20 میل) کے فاصلے پر تھا۔ اُن کے والدین القانہ اور حنّہ نے اُنہیں خدا کو دے دیا تھا تاکہ وہ ساری عمر ایک نذیر کے طور پر اُس کی خدمت کریں۔a لیکن کیا اِس کا یہ مطلب تھا کہ اُن کے ماں باپ اُن سے پیار نہیں کرتے تھے اور اُنہیں بےسہارا چھوڑ گئے تھے؟
6 ایسا ہرگز نہیں تھا۔ سموئیل کے والدین جانتے تھے کہ سیلا میں اُن کی اچھی دیکھبھال کی جائے گی۔ سموئیل، کاہنِاعظم عیلی کے ساتھ کام کرتے تھے اِس لیے بِلاشُبہ عیلی نے اُن کی دیکھبھال کا اِنتظام کِیا ہوگا۔ سموئیل کے والدین اُن کے حوالے سے غالباً اِس لیے بھی زیادہ فکرمند نہیں تھے کیونکہ خیمۂاِجتماع میں کچھ عورتیں بھی خدمت کرتی تھیں۔—خر 38:8؛ قضا 11:34-39۔
7، 8. (الف) اِس بات کا کیا ثبوت ہے کہ سموئیل کے والدین اُنہیں کبھی نہیں بھولتے تھے؟ (ب) آجکل والدین حنّہ اور القانہ سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
7 حنّہ اور القانہ کبھی بھی اپنے بیٹے کو بھولتے نہیں تھے۔ سموئیل کی پیدائش دراصل خدا کی طرف سے حنّہ کی دُعا کا جواب تھا۔ حنّہ نے یہ منت مانی تھی کہ اگر خدا اُنہیں ایک بیٹا بخشے گا تو وہ اِسے عمر بھر اُس کی خدمت کرنے کے لیے دے دیں گی۔ جب حنّہ ہر سال سیلا جاتیں تو وہ سموئیل کے لیے ایک جُبّہ سلائی کر کے لے جاتیں تاکہ وہ اِسے پہن کر خیمۂاِجتماع میں خدمت کریں۔ بِلاشُبہ سموئیل اپنے ماں باپ سے مل کر بہت خوش ہوتے ہوں گے۔ جب القانہ اور حنّہ اُنہیں اچھی اچھی نصیحتیں کرتے ہوں گے اور یہ بتاتے ہوں گے کہ خدا کے گھر میں خدمت کرنا کتنا بڑا اعزاز ہے تو اُن کی باتوں پر کان لگانے سے سموئیل کو ضرور فائدہ ہوتا ہوگا۔
8 آجکل والدین حنّہ اور القانہ سے ایک اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ عموماً والدین اپنے بچوں کی جسمانی ضروریات پوری کرنے میں لگے رہتے ہیں اور اِس بات کو نظرانداز کر دیتے ہیں کہ اُن کے بچوں کو یہوواہ کا دوست بننے کی ضرورت ہے۔ لیکن سموئیل کے ماں باپ نے اپنی زندگی میں یہوواہ کو پہلا مقام دیا۔ اِس بات کا سموئیل پر گہرا اثر ہوا اور وہ بڑے ہو کر پُختہ ایمان کے مالک بنے۔—امثال 22:6 کو پڑھیں۔
9، 10. (الف) خیمۂاِجتماع کے بارے میں سموئیل کے احساسات کیسے تھے؟ (ب) خیمۂاِجتماع کے حوالے سے کچھ تفصیلات بتائیں۔ (فٹنوٹ کو بھی دیکھیں۔) (ج) سموئیل کو کون سی ذمےداریاں دی گئی تھیں؟ (د) آپ کے خیال میں بچے سموئیل کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
9 ذرا اپنے ذہن میں اُس وقت کی تصویر بنائیں جب سموئیل بڑے ہو رہے تھے۔ وہ سیلا کے اِردگِرد کے پہاڑوں پر جاتے ہوں گے جہاں سے پورے شہر کا نظارہ کِیا جا سکتا تھا۔ پھر جب اُن کی نظر خیمۂاِجتماع پر پڑتی ہوگی تو اُن کا دل خوشی اور فخر سے بھر جاتا ہوگا۔ خیمۂاِجتماع واقعی ایک مُقدس جگہ تھی۔b اِسے تقریباً 400 سال پہلے موسیٰ کی نگرانی میں بنایا گیا تھا اور یہ پوری زمین پر وہ واحد مقام تھا جہاں سچے خدا یہوواہ کے بندے مل کر اُس کی عبادت کرتے تھے۔
10 سموئیل کو خیمۂاِجتماع سے بڑا لگاؤ تھا۔ بائبل میں لکھا ہے: ”سموئیلؔ جو لڑکا تھا کتان کا افود پہنے ہوئے [یہوواہ] کے حضور خدمت کرتا تھا۔“ (1-سمو 2:18) افود بغیر بازوؤں والا ایک لباس ہوتا تھا جو کاہن پہنا کرتے تھے۔ حالانکہ سموئیل کاہن نہیں تھے پھر بھی وہ یہ لباس پہنتے تھے۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مختلف کاموں میں کاہنوں کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ اُن کی ذمےداریوں میں صبح کے وقت خیمۂاِجتماع کے صحن کا دروازہ کھولنا اور عمررسیدہ عیلی کی خدمت کرنا شامل تھا۔ بِلاشُبہ سموئیل کو یہ کام کرنا بڑا اچھا لگتا ہوگا۔ لیکن پھر اُنہوں نے کچھ ایسی باتیں دیکھیں جن کی وجہ سے اُن کا معصوم دل کشمکش میں پڑ گیا۔ خیمۂاِجتماع میں بہت ہی گھناؤنے کام ہو رہے تھے۔
بُرے ماحول میں خدا کا وفادار
11، 12. (الف) حُفنی اور فینحاس کس وجہ سے گُناہوں میں ملوث تھے؟ (ب) حُفنی اور فینحاس خیمۂاِجتماع میں کون سے گُناہ کر رہے تھے؟ (فٹنوٹ کو بھی دیکھیں۔)
11 سموئیل ابھی چھوٹے ہی تھے جب اُنہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے لوگوں کو سنگین گُناہ کرتے دیکھا۔ عیلی کے دو بیٹے تھے جن کے نام حُفنی اور فینحاس تھے۔ سموئیل کی کتاب میں بتایا گیا ہے: ”عیلیؔ کے بیٹے بہت شریر تھے۔ اُنہوں نے [یہوواہ] کو نہ پہچانا۔“ (1-سمو 2:12) اِس آیت میں جو دو باتیں درج ہیں، اُن کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ دراصل عیلی کے بیٹے اِس لیے شریر تھے کیونکہ وہ یہوواہ کو نہیں پہچانتے تھے۔ اُن کے دل میں یہوواہ کے حکموں کا ذرا بھی احترام نہیں تھا۔ اور اِسی وجہ سے اُنہیں اُس کے خلاف گُناہ کرنے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔
12 شریعت میں واضح طور پر بتایا گیا تھا کہ کاہنوں کی کیا ذمےداریاں ہیں اور اُنہیں خیمۂاِجتماع میں کیسے قربانیاں چڑھانی چاہئیں۔ یہوواہ نے یہ ساری تفصیل اِس لیے بتائی تھی کیونکہ یہ قربانیاں خدا کے اُس اِنتظام کی طرف اِشارہ کرتی تھیں جس کی بِنا پر اِنسان خدا سے گُناہوں کی معافی حاصل کر سکتے ہیں، اُس کی نظر میں پاک ٹھہر سکتے ہیں اور اُس سے برکتیں اور رہنمائی پا سکتے ہیں۔ لیکن حُفنی اور فینحاس اِن قربانیوں کی بےحُرمتی کر رہے تھے اور اُنہوں نے دیگر کاہنوں کو بھی اِس کام میں اپنے پیچھے لگایا ہوا تھا۔c
13، 14. (الف) خیمۂاِجتماع میں ہونے والی بُرائیوں کا اُن لوگوں پر کیا اثر ہو رہا تھا جو خلوصِدل سے خدا کی عبادت کرنا چاہتے تھے؟ (ب) ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ عیلی نہ تو اچھے باپ ثابت ہوئے اور نہ ہی اچھے کاہنِاعظم؟
13 یہ ساری بُرائیاں دیکھ کر سموئیل کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا ہوگا۔ وہ اِس بات سے اَور بھی زیادہ پریشان ہوتے ہوں گے کہ کاہن یہ بُرائیاں کھلمکُھلا کر رہے ہیں اور اُنہیں روکنے والا کوئی نہیں۔ سموئیل کئی ایسے غریبوں اور مظلوموں کو دیکھتے ہوں گے جو خیمۂاِجتماع میں تسلی پانے کی اُمید سے آتے تھے لیکن نااُمید، دُکھی اور بےعزت ہو کر چلے جاتے تھے۔ اُنہیں یہ جان کر بھی دُکھ ہوتا ہوگا کہ حُفنی اور فینحاس خیمۂاِجتماع میں خدمت کرنے والی کچھ عورتوں کے ساتھ حرامکاری کر رہے ہیں اور ایسا کرنے سے جنسی تعلقات کے حوالے سے خدا کے حکموں کو توڑ رہے ہیں۔ (1-سمو 2:22) غالباً اِس صورتحال میں سموئیل کی ساری اُمیدیں عیلی سے وابستہ تھیں۔
14 عیلی کے پاس یہ اِختیار تھا کہ وہ اِس بگڑی ہوئی صورتحال کو ٹھیک کرنے کے لیے کارروائی کرتے۔ کاہنِاعظم کے طور پر وہ خیمۂاِجتماع میں ہونے والے ہر کام کے ذمےدار تھے۔ اور ایک باپ کے طور پر اُن کا یہ فرض تھا کہ وہ اپنے بیٹوں کی اِصلاح کرتے۔ حُفنی اور فینحاس کی حرکتوں کی وجہ سے نہ صرف اُنہیں خود نقصان ہو رہا تھا بلکہ بہت سے اَور لوگوں کو بھی تکلیف پہنچ رہی تھی۔ لیکن عیلی نہ تو اچھے باپ ثابت ہوئے اور نہ ہی اچھے کاہنِاعظم۔ اُنہوں نے اپنے بیٹوں کی بس ہلکی پھلکی ڈانٹ ڈپٹ کی۔ (1-سموئیل 2:23-25 کو پڑھیں۔) لیکن اُن کے بیٹوں کی سختی سے اِصلاح کی جانی چاہیے تھی۔ وہ ایسے گُناہ کر رہے تھے جن کی سزا موت کے سوا اَور کچھ نہیں تھی۔
15. عیلی کو یہوواہ کی طرف سے کیا پیغام ملا اور کیا اِسے سُن کر عیلی اور اُن کے بیٹوں نے اپنی روِش بدلی؟
15 صورتحال اِس حد تک خراب ہو گئی کہ یہوواہ نے ”ایک مردِخدا“ کو جس کا نام بائبل میں نہیں بتایا گیا، عیلی کو سزا کا پیغام سنانے کے لیے بھیجا۔ یہوواہ نے عیلی سے کہا: ”تُو اپنے بیٹوں کی مجھ سے زیادہ عزت کرتا ہے۔“ پھر خدا نے یہ پیشگوئی کی کہ عیلی کے دونوں بیٹے ایک ہی دن مر جائیں گے، عیلی کے خاندان کو تکلیفوں کا سامنا ہوگا، یہاں تک کہ اُن کے خاندان سے کہانت کا اعزاز بھی لے لیا جائے گا۔ کیا اِس پیغام کو سُن کر عیلی اور اُن کے بیٹوں نے اپنی روِش بدل لی؟ بائبل سے ایسا کوئی اِشارہ نہیں ملتا۔—1-سمو 2:27–3:1۔
16. (الف) بائبل سے کیسے پتہ چلتا ہے کہ جیسے جیسے سموئیل کی عمر بڑھ رہی تھی، خدا کے ساتھ اُن کی دوستی مضبوط ہو رہی تھی؟ (ب) 1-سموئیل 2:18 اور 21 میں سموئیل کے بارے میں جو باتیں لکھی ہیں، اُنہیں پڑھ کر آپ کو کیسا محسوس ہوتا ہے؟
16 خیمۂاِجتماع میں ہونے والی بُرائیوں کا سموئیل پر کیا اثر ہوا؟ بائبل میں جہاں عیلی کے بیٹوں اور دیگر کاہنوں کے بُرے کاموں کا ذکر ملتا ہے وہاں بیچ بیچ میں سموئیل کے بارے میں اچھی باتوں کا ذکر بھی ملتا ہے۔ یاد کریں کہ 1-سموئیل 2:18 میں بتایا گیا تھا کہ ”سموئیلؔ جو لڑکا تھا . . . [یہوواہ] کے حضور خدمت کرتا تھا۔“ اِتنی چھوٹی عمر میں بھی سموئیل نے اپنا پورا دھیان خدا کی خدمت پر لگایا ہوا تھا۔ اِسی باب کی 21 آیت میں ہم سموئیل کے بارے میں ایک اَور خاص بات پڑھتے ہیں۔ اِس میں لکھا ہے: ”وہ لڑکا سموئیلؔ [یہوواہ] کے حضور بڑھتا گیا۔“ جیسے جیسے سموئیل عمر میں پُختہ ہو رہے تھے، خدا کے ساتھ اُن کی دوستی بھی پُختہ ہو رہی تھی۔ اگر ہم بھی خدا کے ساتھ ایسی مضبوط دوستی قائم کریں گے تو ہم بھی بُرے لوگوں کے اثر میں آنے سے محفوظ رہیں گے۔
17، 18. (الف) مسیحی نوجوان اُس صورت میں سموئیل کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں جب اُن کے اِردگِرد لوگ بُرے کام کرتے ہیں؟ (ب) یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ سموئیل صحیح راہ پر چل رہے تھے؟
17 سموئیل آسانی سے یہ بہانہ پیش کر سکتے تھے کہ اگر کاہنِاعظم اور اُن کے بیٹے خدا کے حکموں کو نظرانداز کر سکتے ہیں تو وہ بھی جو جی چاہے، کر سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں کبھی بھی اِس بات کو گُناہ کرنے کا بہانہ نہیں بنانا چاہیے کہ دوسرے لوگ بھی تو غلط کام کر رہے ہیں۔ ایسا کرنا تب بھی صحیح نہیں ہوگا جب ہم اہم ذمےداریاں نبھانے والے لوگوں کو غلط کاموں میں ملوث دیکھتے ہیں۔ آج بہت سے مسیحی نوجوان، سموئیل کی مثال پر عمل کرتے ہیں اور اُس صورت میں بھی ’یہوواہ کے حضور بڑھتے جاتے‘ ہیں جب اُن کے اِردگِرد بعض لوگ اچھی مثال قائم نہیں کرتے۔
18 سموئیل کو یہوواہ کی فرمانبرداری کرنے کا کیا صلہ ملا؟ بائبل میں لکھا ہے: ”وہ لڑکا سموئیلؔ بڑھتا گیا اور [یہوواہ] اور اِنسان دونوں کا مقبول تھا۔“ (1-سمو 2:26) لہٰذا یہوواہ، سموئیل کی وفاداری سے بہت خوش تھا۔ اِس کے علاوہ وہ لوگ بھی سموئیل کو پسند کرتے تھے جو خدا کے حکموں پر عمل کرتے تھے۔ اور سموئیل کو اِس بات کا یقین تھا کہ خدا سیلا میں ہونے والی بُرائی کو ختم کرنے کے لیے کارروائی کرے گا۔ لیکن شاید اُن کے ذہن میں یہ سوال تھا کہ ایسا کب ہوگا۔ پھر ایک رات اُنہیں اُن کے سارے سوالوں کے جواب مل گئے۔
”فرما کیونکہ تیرا بندہ سنتا ہے“
19، 20. (الف) ایک رات خیمۂاِجتماع میں سموئیل کے ساتھ کیا ہوا؟ (ب) سموئیل، عیلی کے ساتھ کیسے پیش آئے؟ (ج) سموئیل کو کیسے پتہ چلا کہ اُنہیں کون پکار رہا ہے؟
19 صبح ہونے والی تھی لیکن ابھی بھی اندھیرا تھا۔ خیمۂاِجتماع کا بڑا چراغ اب تک جل رہا تھا۔ ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ تبھی سموئیل نے سنا کہ کسی نے اُن کو پکارا ہے۔ وہ سمجھے کہ عیلی نے اُنہیں بلایا ہے۔ عیلی کافی بوڑھے ہو چُکے تھے اور اُن کی نظر بھی بہت کمزور ہو گئی تھی۔ سموئیل اُٹھے اور ”دوڑ کر“ عیلی کے پاس گئے۔ ذرا تصور کریں کہ سموئیل ننگے پاؤں بھاگتے ہوئے عیلی کے پاس جا رہے ہیں تاکہ اُن سے پوچھیں کہ اُنہیں کس چیز کی ضرورت ہے۔ یہ بات قابلِغور ہے کہ سموئیل، عیلی کے ساتھ محبت اور احترام سے پیش آئے۔ سچ ہے کہ عیلی نے غلطیاں کی تھیں لیکن وہ اب بھی یہوواہ کی طرف سے مقررہ کاہنِاعظم تھے۔—1-سمو 3:2-5۔
20 سموئیل نے عیلی کو جگایا اور اُن سے کہا: ”تُو نے مجھے پکارا سو مَیں حاضر ہوں۔“ لیکن عیلی نے اُن سے کہا: ”مَیں نے نہیں پکارا۔ پھر لیٹ جا۔“ اِس کے بعد دو اَور مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آخر عیلی سمجھ گئے کہ سموئیل کو کون پکار رہا ہے۔ کافی عرصے سے یہوواہ نے رُویا یا کسی نبی کے ذریعے اپنے بندوں سے کلام نہیں کِیا تھا۔ اور اِس کی وجہ کو سمجھنا مشکل نہیں کیونکہ خیمۂاِجتماع میں بہت سے بُرے کام ہو رہے تھے۔ بہرحال عیلی جان گئے کہ یہوواہ پھر سے کلام کر رہا ہے اور اب کی بار اُس نے سموئیل کو چُنا ہے۔ عیلی نے سموئیل کو کہا کہ وہ لیٹ جائیں اور اُنہیں بتایا کہ جب دوبارہ آواز آئے تو کیا جواب دیں۔ سموئیل نے عیلی کی بات مانی۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد اُنہیں دوبارہ سے یہ آواز آئی: ”سموئیلؔ! سموئیلؔ!“ اُنہوں نے جواب دیا: ”فرما کیونکہ تیرا بندہ سنتا ہے۔“—1-سمو 3:1، 5-10۔
21. ہم آج یہوواہ کی بات کیسے سُن سکتے ہیں اور ایسا کرنے کا کیا فائدہ ہے؟
21 آخرکار ایک لمبے عرصے بعد سیلا میں یہوواہ کا کوئی بندہ اُس کی سُن رہا تھا۔ اور اِس واقعے کے بعد سموئیل عمر بھر یہوواہ کی سنتے رہے۔ کیا آپ بھی ہمیشہ یہوواہ کی بات سنتے ہیں؟ آج ہم یہ توقع نہیں کر سکتے کہ ہمیں بھی رات کے وقت آسمان سے کوئی آواز سنائی دے۔ ہم تو ایک لحاظ سے کسی بھی وقت خدا کی آواز سُن سکتے ہیں۔ ہمارے پاس اُس کا کلام بائبل موجود ہے۔ ہم جتنی زیادہ خدا کی بات سنیں گے اور اُس کے کہے پر عمل کریں گے، ہمارا ایمان اُتنا زیادہ مضبوط ہوتا جائے گا۔ سموئیل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔
22، 23. (الف) سموئیل شروع میں جس پیغام کو سنانے سے ڈر رہے تھے، وہ کیسے سچ ثابت ہوا؟ (ب) 1-سموئیل 3:19 سے سموئیل کے بارے میں کیا پتہ چلتا ہے؟
22 سموئیل اُس رات کو کبھی بُھلا نہیں پائے ہوں گے کیونکہ وہ رات اُن کی زندگی میں بہت خاص تھی۔ خدا نے اُنہیں اپنا ترجمان اور نبی مقرر کر لیا تھا۔ شروع شروع میں سموئیل، عیلی کو یہوواہ کا پیغام سنانے سے ڈر رہے تھے۔ دراصل اِس پیغام میں خدا نے یہ بتایا تھا کہ وہ بہت جلد عیلی کے خاندان کے حوالے سے اپنی پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہے۔ لیکن پھر سموئیل نے ہمت جٹائی اور عیلی کو سب کچھ بتا دیا۔ عیلی نے خاکساری سے یہوواہ کے فیصلے کو تسلیم کِیا۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ ساری باتیں حرفبہحرف پوری ہوئیں جو یہوواہ نے فرمائی تھیں۔ بنیاِسرائیل نے فلستیوں کے ساتھ جنگ کی؛ حُفنی اور فینحاس ایک ہی دن میں مر گئے اور جب عیلی نے یہ سنا کہ دُشمن فوج نے یہوواہ کے صندوق کو قبضے میں لے لیا ہے تو وہ بھی فوت ہو گئے۔—1-سمو 3:10-18؛ 4:1-18۔
23 وقت کے ساتھ ساتھ خدا کے وفادار نبی کے طور پر سموئیل کی شہرت بڑھتی گئی۔ بائبل میں بتایا گیا ہے: ”[یہوواہ] اُس کے ساتھ تھا۔“ اِسی وجہ سے وہ سب پیشگوئیاں پوری ہوئیں جو سموئیل نے خدا کے نبی کے طور پر کیں۔—1-سموئیل 3:19 کو پڑھیں۔
’سموئیل نے یہوواہ سے عرض کی‘
24. بنیاِسرائیل نے کیا مطالبہ کِیا اور یہ سنگین گُناہ کیوں تھا؟
24 کیا بنیاِسرائیل نے سموئیل کی مثال سے سیکھا اور اپنی روِش بدل کر خدا کے حکموں کی پیروی کی؟ جی نہیں۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اُنہوں نے اِس بات پر ناخوشی کا اِظہار کِیا کہ ایک نبی اُن کے معاملوں کا فیصلہ کر رہا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ دوسری قوموں کی طرح اُن کا بھی ایک اِنسانی بادشاہ ہو۔ یہوواہ کی ہدایت پر سموئیل نے لوگوں کا مطالبہ مان لیا۔ لیکن اُنہیں بنیاِسرائیل کو یہ احساس دِلانا تھا کہ اُنہوں نے کتنا سنگین گُناہ کِیا ہے۔ وہ کسی اِنسان کو نہیں بلکہ یہوواہ کو رد کر رہے تھے۔ لہٰذا سموئیل نے لوگوں کو جلجال میں بلایا۔
25، 26. سموئیل نے جلجال میں لوگوں کو یہ احساس کیسے دِلایا کہ اُنہوں نے یہوواہ کے خلاف سنگین گُناہ کِیا ہے؟
25 اب ذرا پھر سے اُس منظر کا تصور کریں جب سموئیل جلجال میں بنیاِسرائیل سے مخاطب تھے۔ سموئیل نے لوگوں کو بتایا کہ وہ بچپن سے اب تک وفاداری سے خدا کی خدمت کرتے آئے ہیں۔ پھر ”سموئیلؔ نے [یہوواہ] سے عرض کی“ کہ وہ گرجچمک کے ساتھ تیز بارش برسائے۔—1-سمو 12:17، 18۔
26 لیکن ایک ایسے موسم میں گرجچمک کے ساتھ تیز بارش کیسے ہو سکتی تھی جس میں عموماً بالکل بارش نہیں ہوتی؟ اگر لوگ سموئیل کی اِس بات پر شک کر رہے تھے یا اُن کا مذاق اُڑا رہے تھے تو اُن کے مُنہ جلد ہی بند ہو گئے۔ اچانک آسمان پر کالی گھٹائیں چھانے لگیں۔ تیز ہوا سے گندم کی فصل زور زور سے جھولنے لگی۔ بجلی شدت سے کڑکنے لگی۔ اور پھر بارش ہونے لگی۔ یہ سب دیکھ کر لوگوں پر کیا اثر ہوا؟ وہ ”[یہوواہ] اور سموئیلؔ سے نہایت ڈر گئے۔“ آخرکار اُنہیں یہ احساس ہو گیا کہ اُنہوں نے کتنا سنگین گُناہ کِیا ہے۔—1-سمو 12:18، 19۔
27. یہوواہ اُن لوگوں کو کیا اجر دیتا ہے جو سموئیل جیسا ایمان ظاہر کرتے ہیں؟
27 اصل میں یہ یہوواہ تھا جس نے سموئیل کے ذریعے لوگوں کو توبہ کی طرف مائل کِیا تھا۔ اِس طرح یہوواہ نے ایسا کام کرنے میں سموئیل کی مدد کی جو وہ اپنے بلبوتے پر نہیں کر سکتے تھے۔ اور یوں اُس نے اُنہیں اُن کے ایمان کا اجر دیا۔ دراصل یہوواہ، سموئیل کے بچپن سے مختلف طریقوں سے اُن کی مدد کرتا آیا تھا۔ یہوواہ کبھی نہیں بدلتا۔ وہ آج بھی اپنے اُن بندوں کا ساتھ دیتا ہے جو سموئیل جیسا ایمان ظاہر کرتے ہیں۔
a نذیر جو منت مانتے تھے، اُس کے تحت وہ اِس بات کے پابند ہوتے تھے کہ وہ بعض کام نہیں کریں گے جیسے کہ شراب پینا اور بال کٹوانا۔ اُن میں سے زیادہتر ایک مخصوص مُدت تک نذیر کے طور پر خدمت کرنے کی منت مانتے تھے۔ لیکن کچھ لوگ جیسے کہ سمسون، سموئیل اور یوحنا بپتسمہ دینے والے ساری عمر نذیر رہے۔
b خیمۂاِجتماع کی لمبائی 3.13 میٹر (7.43 فٹ) اور چوڑائی 4.4 میٹر (6.14 فٹ) تھی اور اِس کا ڈھانچا لکڑی کا تھا۔ خیمۂاِجتماع کی تعمیر میں اعلیٰ معیار کی چیزیں اِستعمال کی گئی تھیں، مثلاً تخس یعنی دریائی بچھڑے کی کھال، کڑھائی کیے ہوئے خوبصورت کپڑے اور سونے اور چاندی کی پَرت والی مہنگی لکڑی۔ خیمۂاِجتماع ایک صحن کے بیچ میں ہوتا تھا جس کی لمبائی 5.44 میٹر (146 فٹ) اور چوڑائی 2.22 میٹر (73 فٹ) تھی۔ اِس صحن میں ایک بڑی قربانگاہ تھی۔ بعد میں خیمۂاِجتماع کی اطراف میں کاہنوں کے لیے کمرے بھی بنائے گئے۔ شاید سموئیل اِنہی میں سے کسی کمرے میں سوتے تھے۔
c سموئیل کی کتاب کے مطابق وہ لوگ دو طریقوں سے قربانیوں کی بےحُرمتی کر رہے تھے۔ پہلی بات یہ تھی کہ شریعت میں صاف صاف بتایا گیا تھا کہ کاہن قربانی والے جانور کے کون سے حصے لے سکتے تھے۔ (اِست 18:3) لیکن یہ بُرے کاہن اِس ہدایت کی خلافورزی کر رہے تھے۔ وہ اپنے نوکروں کو اُس جگہ بھیجتے جہاں گوشت اُبالا جا رہا ہوتا۔ پھر یہ نوکر ایک بڑا کانٹا دیگچے میں ڈالتے اور جو بھی اچھا ٹکڑا کانٹے میں لگ جاتا، اُسے لے لیتے۔ دوسری بات یہ تھی کہ جب لوگ قربانگاہ پر قربانیاں گزراننے آتے تو اِن کاہنوں کی ہدایت پر اُن کا کوئی نوکر لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا اور یہوواہ کے حضور جانور کی چربی چڑھانے سے پہلے ہی اُن سے کچا گوشت مانگتا۔—احبا 3:3-5؛ 1-سمو 2:13-17۔