باب نمبر 12
اُنہوں نے خدا سے تسلی پائی
1، 2. جب ایلیاہ یزرعیل کی طرف دوڑ رہے تھے تو غالباً وہ کن واقعات کے بارے میں سوچ رہے تھے؟
اندھیرا گہرا ہو رہا تھا لیکن ایلیاہ بارش میں دوڑتے جا رہے تھے۔ یزرعیل تک پہنچنے کے لیے ابھی اُنہیں کافی سفر کرنا تھا۔ حالانکہ ایلیاہ کوئی جوان آدمی نہیں تھے پھر بھی وہ مسلسل دوڑتے رہے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ ”[یہوواہ] کا ہاتھ ایلیاؔہ پر تھا۔“ وہ اپنے اندر ایسی توانائی محسوس کر رہے تھے جو شاید اُنہوں نے پہلے کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ اُن کی رفتار اِتنی زیادہ تھی کہ اُنہوں نے اخیاب کے شاہی رتھ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا جسے گھوڑے کھینچ رہے تھے۔—1-سلاطین 18:46 کو پڑھیں۔
2 ذرا تصور کریں کہ بارش کی بوندیں ایلیاہ کے چہرے سے ٹکرا رہی ہیں، وہ اپنی پلکیں جھپک کر بارش کے قطروں کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ اُس دن ہونے والے حیرانکُن واقعات کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ اُس دن ایلیاہ کے خدا یہوواہ کی جیت ہوئی تھی اور یہ ثابت ہو گیا تھا کہ وہی سچا خدا ہے۔ ایلیاہ کے پیچھے طوفان کے اندھیرے میں ڈوبا کرمل کا اُونچا پہاڑ تھا جس پر یہوواہ نے اُن کی دُعا کا جواب دیا تھا اور بڑے زبردست معجزے کے ذریعے یہ ثابت کِیا تھا کہ بعل ایک جھوٹا دیوتا ہے۔ بعل کے سینکڑوں نبیوں کے چہروں سے جھوٹ کا نقاب اُتر چُکا تھا اور اُنہیں قتل کر دیا گیا تھا کیونکہ وہ اِسی لائق تھے۔ اِس کے بعد ایلیاہ نے یہوواہ سے دُعا کی تھی کہ وہ خشکسالی کو ختم کر دے جس نے ساڑھے تین سال سے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ ایک بار پھر یہوواہ نے ایلیاہ کی دُعا قبول فرمائی تھی اور موسلادھار بارش برسائی تھی۔—1-سلا 18:18-45۔
3، 4. (الف) جب ایلیاہ یزرعیل کی طرف جا رہے تھے تو اُن کے دل میں اُمیدیں کیوں جاگ اُٹھی ہوں گی؟ (ب) ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
3 کرمل سے یزرعیل تک 30 کلومیٹر (19 میل) کے اِس سفر کے دوران ایلیاہ بڑے پُراُمید ہوں گے کہ اب ملک کی صورتحال بدل جائے گی۔ وہ سوچ رہے ہوں گے کہ اُس دن ہونے والے واقعات کو دیکھنے کے بعد اخیاب کو اپنی بُری روِش ترک کرنی ہوگی؛ بعل کی پرستش چھوڑنی ہوگی؛ اپنی بیوی ملکہ اِیزِبل کے ہاتھ روکنے ہوں گے اور یہوواہ کے بندوں کو اذیت پہنچانی بند کرنی ہوگی۔
4 جب ہر کام ویسے ہی ہو رہا ہو جیسے ہم چاہتے ہیں تو یہ فطری بات ہے کہ ہمارے دل میں بہت سی اُمیدیں جاگ اُٹھتی ہیں۔ ہم سوچنے لگ سکتے ہیں کہ ہماری بڑی بڑی مشکلیں ماضی کا حصہ بن گئی ہیں اور اب ہمارے حالات بہتر ہوتے جائیں گے۔ اگر ایلیاہ نے بھی ایسا سوچا ہوگا تو اِس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ وہ بھی ”ہماری طرح اِنسان تھے اور ہمارے جیسے احساسات رکھتے تھے۔“ (یعقو 5:17) لیکن ایلیاہ کی مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں۔ دراصل کچھ ہی گھنٹوں بعد ایلیاہ اِتنے خوفزدہ اور بےحوصلہ ہو گئے کہ موت کی خواہش کرنے لگے۔ آخر ایسا کیا ہو گیا تھا کہ ایلیاہ کے احساسات ایک دم سے بدل گئے؟ اور یہوواہ خدا نے اپنے نبی کی مدد کیسے کی تاکہ وہ اپنے ایمان کو پھر سے مضبوط کر سکے اور اپنے اندر ہمت پیدا کر سکے؟ آئیں، دیکھیں کہ ایلیاہ کی کہانی نے آگے کون سا موڑ اِختیار کِیا۔
ایلیاہ کی کہانی میں ایک نیا موڑ
5. کرمل پر ہونے والے واقعات کو دیکھنے کے بعد کیا اخیاب کے دل میں یہوواہ کے لیے عزت اور احترام پیدا ہوا؟ وضاحت کریں۔
5 جب اخیاب یزرعیل میں اپنے محل پہنچا تو اُس نے کسی بھی طرح یہ ظاہر نہیں کِیا کہ اُس نے اپنی روِش بدل لی ہے۔ بائبل میں لکھا ہے: ”اخیاؔب نے سب کچھ جو ایلیاؔہ نے کِیا تھا اور یہ بھی کہ اُس نے سب نبیوں کو تلوار سے قتل کر دیا اِؔیزِبل کو بتایا۔“ (1-سلا 19:1) ذرا غور کریں کہ اُس دن ہونے والے واقعات کے بارے میں بات کرتے وقت اخیاب نے یہوواہ کا ذکر تک نہیں کِیا۔ وہ اِنسانی سوچ کا مالک تھا اور اِتنے حیرتانگیز واقعات کو دیکھنے کے باوجود یہ نہیں سمجھ پایا تھا کہ اُن سب کے پیچھے یہوواہ کا ہاتھ تھا۔ اُس کی نظر میں وہ سب ”ایلیاؔہ نے کِیا تھا۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُس کے دل میں یہوواہ کے لیے عزت اور احترام پیدا نہیں ہوا تھا۔ اخیاب کی بات سننے کے بعد اُس کی بیوی نے کیسا ردِعمل دِکھایا جس کے اندر خدا کے بندوں کے لیے زہر بھرا ہوا تھا؟
6. ملکہ اِیزِبل نے ایلیاہ کو کیا پیغام بھیجا؟
6 اِیزِبل غصے سے پاگل ہو گئی۔ طیش کے عالم میں اُس نے ایلیاہ کو یہ پیغام بھیجا: ”اگر مَیں کل اِس وقت تک تیری جان اُن کی جان کی طرح نہ بنا ڈالوں تو دیوتا مجھ سے ایسا ہی بلکہ اِس سے زیادہ کریں!“ (1-سلا 19:2) اِیزِبل نے ایلیاہ کو دھمکی دی کہ وہ اُن کی جان لے کر رہے گی۔ اُس نے یہ قسم کھائی کہ بعل کے نبیوں کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے وہ ایک دن کے اندر اندر ایلیاہ کو قتل کروا دے گی۔ یہاں تک کہ اُس نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ ایسا نہ کر سکی تو اُس کی اپنی جان چلی جائے۔ ذرا تصور کریں کہ ایلیاہ نے اُس طوفانی رات میں یزرعیل پہنچ کر کہیں پناہ لی ہے اور اُن کی آنکھ لگ گئی ہے۔ پھر اچانک اُنہیں نیند سے جگا کر ملکہ کا خوفناک پیغام سنایا جاتا ہے۔ اِسے سُن کر ایلیاہ پر کیا اثر ہوا؟
ایلیاہ پر مایوسی اور خوف کا غلبہ
7. اِیزِبل کی دھمکی کا ایلیاہ پر کیا اثر ہوا اور ایلیاہ نے کیا کِیا؟
7 اگر ایلیاہ کو یہ اُمید تھی کہ اب ملک بعل کی پرستش کی گِرفت سے آزاد ہونے والا ہے تو اِیزِبل کا پیغام سُن کر اُن کی ساری اُمیدیں چکناچُور ہو گئی ہوں گی۔ حالیہ واقعات کے بارے میں جاننے کے بعد بھی اِیزِبل ٹس سے مس نہیں ہوئی تھی۔ وہ پہلے ہی ایلیاہ کے کئی ساتھیوں کو قتل کروا چُکی تھی اور ایسا لگ رہا تھا کہ اب ایلیاہ کی باری ہے۔ (1-سلا 18:4) اِیزِبل کی دھمکی کا ایلیاہ پر کیا اثر ہوا؟ بائبل میں لکھا ہے: ”ایلیاؔہ ڈر گیا۔“ شاید ایلیاہ کی آنکھوں کے سامنے اُس بھیانک موت کا منظر چل رہا تھا جو اِیزِبل اُن کو دینا چاہتی تھی۔ اگر ایلیاہ کے ذہن میں ایسی سوچیں آ رہی تھیں تو بِلاشُبہ اُن کی ہمت ٹوٹ گئی ہوگی۔ بہرحال ایلیاہ ”اپنی جان بچانے کے لیے بھاگا۔“—1-سلا 19:3، نیو اُردو بائبل ورشن۔
8. (الف) ایک موقعے پر پطرس کے ساتھ کیا ہوا؟ (ب) ہم ایلیاہ اور پطرس کے واقعات سے کون سا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
8 صرف ایلیاہ ہی خدا کے وہ بندے نہیں تھے جو کبھی خوف میں مبتلا ہوئے تھے۔ اُن کے زمانے کے سینکڑوں سال بعد پطرس رسول بھی ایسی ہی صورتحال کا شکار ہوئے۔ ایک مرتبہ جب یسوع نے پطرس کو اپنے ساتھ پانی پر چلنے کو کہا تو وہ ”طوفان کی شدت“ کو دیکھ کر ڈر گئے اور ڈوبنے لگے۔ (متی 14:30 کو پڑھیں۔) ایلیاہ اور پطرس کے واقعات سے ہم ایک اہم سبق سیکھتے ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری ہمت برقرار رہے تو ہمیں اُن خطروں کے بارے میں سوچ سوچ کر خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے جن کا ہمیں سامنا ہو سکتا ہے۔ اِس کی بجائے ہمیں پورے اِعتماد سے یہوواہ کو تکتے رہنا چاہیے جو ہمیں اُمید اور ہمت بخشتا ہے۔
ایلیاہ مرنے کی خواہش کرنے لگے
9. ایلیاہ کے سفر کا حال بیان کریں اور یہ بتائیں کہ اُن کے جذبات کیسے تھے۔
9 خوف کے مارے ایلیاہ یزرعیل سے بھاگ گئے۔ وہ جنوب مغرب کی طرف تقریباً 150 کلومیٹر (95 میل) کا فاصلہ طے کر کے بیرسبع پہنچ گئے جو کہ یہوداہ کی جنوبی سرحد پر واقع ایک شہر تھا۔ اُنہوں نے اپنے خادم کو وہیں چھوڑ دیا اور اکیلے ویرانے میں چلے گئے۔ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ اُنہوں نے ”ایک دن کی منزل“ طے کی۔ ایسا لگتا ہے کہ اُنہوں نے صبح سویرے اپنا سفر شروع کِیا تھا اور اپنے ساتھ کھانا اور کوئی اَور ضروری چیز بھی نہیں لی تھی۔ حالانکہ سورج آگ برسا رہا تھا اور اُس اُجاڑ اور ویران علاقے میں چلنا بہت دشوار تھا لیکن اُن پر اِس قدر خوف طاری ہو گیا تھا کہ وہ بس چلتے ہی جا رہے تھے۔ جوںجوں سورج غروب ہو رہا تھا، ایلیاہ کی ہمت جواب دے رہی تھی۔ آخرکار افسردگی اور تھکاوٹ سے بےحال ہو کر وہ جھاؤ کے ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ اُس بنجر علاقے میں یہ وہ واحد جگہ تھی جس کی چھاؤں میں ایلیاہ پناہ لے سکتے تھے۔—1-سلا 19:4۔
10، 11. (الف) ایلیاہ نے جو دُعا کی، اُس کا کیا مطلب تھا؟ (ب) حوالہشُدہ آیتوں کو اِستعمال کرتے ہوئے خدا کے اُن بندوں کے احساسات بیان کریں جن کی ہمت ٹوٹ چُکی تھی۔
10 شدید مایوسی کی اِس گھڑی میں ایلیاہ نے یہوواہ سے دُعا کی اور کہا: ”مَیں اپنے باپدادا سے بہتر نہیں ہوں۔“ ایلیاہ جانتے تھے کہ اُن کے باپدادا مٹی میں مٹی ہو چُکے ہیں اور وہ کسی کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ (واعظ 9:10a) اُنہیں لگ رہا تھا کہ وہ بھی اپنے باپدادا کی طرح کسی کے کام نہیں آ سکتے۔ اِسی لیے اُنہوں نے کہا: ”بس ہے۔“ وہ سوچ رہے تھے کہ اُن کے زندہ رہنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
11 کیا یہ حیرت کی بات ہے کہ خدا کا نبی اِس قدر بےحوصلہ ہو چُکا تھا؟ جی نہیں۔ بائبل میں خدا کے کئی ایسے وفادار بندوں کا ذکر کِیا گیا ہے جو اِس حد تک مایوسی میں ڈوب گئے تھے کہ مرنے کی خواہش کرنے لگے تھے، مثلاً رِبقہ، یعقوب اور موسیٰ۔—پید 25:22؛ 37:35؛ گن 11:13-15۔
12. اگر آپ کبھی افسردگی کا شکار ہو جاتے ہیں تو آپ ایلیاہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
12 بائبل میں لکھا ہے: ”آخری زمانے میں مشکل وقت آئے گا۔“ (2-تیم 3:1) آج ہم اِسی زمانے میں رہ رہے ہیں۔ لہٰذا اِس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کہ خدا کے وفادار بندے بھی کبھی کبھار مایوس ہو جاتے ہیں۔ اگر آپ پر بھی کبھی افسردگی کے جذبات حاوی ہو جاتے ہیں تو ایلیاہ کی طرح یہوواہ کے سامنے کُھل کر اپنے احساسات بیان کریں۔ یاد رکھیں کہ یہوواہ ”خدا . . . بڑی تسلی بخشتا ہے۔“ (2-کُرنتھیوں 1:3، 4 کو پڑھیں۔) کیا یہوواہ نے ایلیاہ کو بھی تسلی بخشی؟
یہوواہ نے اپنے بندے کو سنبھالا
13، 14. (الف) یہوواہ نے اپنے فرشتے کے ذریعے ایلیاہ کے لیے فکرمندی کیسے ظاہر کی؟ (ب) ہمیں کس بات سے تسلی ملتی ہے؟
13 ذرا سوچیں کہ جب یہوواہ نے آسمان سے یہ دیکھا ہوگا کہ اُس کے عزیز بندے کی اِتنی بُری حالت ہے اور وہ ویرانے میں درخت کے نیچے پڑا اپنے لیے موت مانگ رہا ہے تو اُسے کیسا لگا ہوگا۔ یہوواہ کے احساسات کا اندازہ ہمیں اِس بات سے ہوتا ہے کہ جب ایلیاہ گہری نیند سو رہے تھے تو یہوواہ کے ایک فرشتے نے اُنہیں بڑے پیار سے چُھو کر جگایا اور اُن سے کہا: ”اُٹھ اور کھا۔“ ایلیاہ اُٹھے اور اُنہوں نے وہ تازہ اور گرم روٹی کھائی اور وہ پانی پیا جو فرشتہ اُن کے لیے لایا تھا۔ کیا ایلیاہ نے فرشتے کا شکریہ ادا کِیا؟ بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہوں نے بس روٹی کھائی، پانی پیا اور سو گئے۔ شاید ایلیاہ اِتنا ٹوٹا ہوا محسوس کر رہے تھے کہ اُن کا بولنے کو بھی دل نہیں چاہ رہا تھا۔ بہرحال فرشتے نے اُنہیں دوبارہ جگایا اور غالباً یہ صبح کا وقت تھا۔ ایک بار پھر اُس نے اُن سے کہا: ”اُٹھ اور کھا۔“ یہ قابلِغور بات ہے کہ فرشتے نے اُن سے یہ بھی کہا: ”یہ سفر تیرے لئے بہت بڑا ہے۔“—1-سلا 19:5-7۔
14 یہوواہ نے اپنے فرشتے کو یہ بتایا ہوا تھا کہ ایلیاہ کہاں جانے کا اِرادہ رکھتے ہیں۔ اُس فرشتے کو یہ بھی پتہ تھا کہ ایلیاہ اپنی طاقت سے یہ سفر طے نہیں کر سکتے۔ ہمارے لیے بھی یہ بات بڑی تسلی کا باعث ہے کہ یہوواہ جانتا ہے کہ ہم اُس کی خدمت میں کیا کرنے کا اِرادہ رکھتے ہیں اور اُسے معلوم ہے کہ کون سے کام ہمارے بس سے باہر ہیں۔ (زبور 103:13، 14 کو پڑھیں۔) آئیں، اب اِس بات پر غور کریں کہ یہوواہ کے فرشتے نے ایلیاہ کو جو کھانا دیا، اُس سے اُنہیں کیسے فائدہ ہوا۔
15، 16. (الف) یہوواہ کی طرف سے ملنے والے کھانے کی بدولت ایلیاہ کیا کرنے کے قابل ہوئے؟ (ب) جس طریقے سے یہوواہ آج اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے، اُس کے لیے ہمیں اُس کا شکرگزار کیوں ہونا چاہیے؟
15 بائبل میں ہم پڑھتے ہیں: ”اُس نے اُٹھ کر کھایا پیا اور اُس کھانے کی قوت سے چالیس دن اور چالیس رات چل کر خدا کے پہاڑ حوؔرب تک گیا۔“ (1-سلا 19:8) ایلیاہ نے 40 دن اور 40 رات تک روزہ رکھا جیسے تقریباً چھ صدیاں پہلے موسیٰ نے اور پھر تقریباً دس صدیوں بعد یسوع نے رکھا تھا۔ (خر 34:28؛ لُو 4:1، 2) اُس ایک وقت کے کھانے سے ایلیاہ کی ساری مشکلات تو دُور نہیں ہوئیں لیکن اُس سے اُنہیں معجزانہ طور پر طاقت ملتی رہی۔ ایلیاہ بوڑھے ہونے کے باوجود اُس ویرانے میں جہاں نہ کوئی سڑک تھی اور نہ راستہ، دنوں، ہفتوں، یہاں تک کہ ڈیڑھ مہینے تک چلتے رہے۔
16 یہوواہ آج بھی اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے۔ وہ اُنہیں معجزانہ طور پر کھانے پینے کی چیزیں تو نہیں دیتا لیکن اُنہیں روحانی کھانا دیتا ہے جو اُن کے لیے زیادہ فائدہمند ہے۔ (متی 4:4) جب ہم بائبل اور اِس پر مبنی مطبوعات کے ذریعے یہوواہ کے بارے میں سیکھتے ہیں تو ہم روحانی طور پر مضبوط رہتے ہیں۔ اِس روحانی کھانے سے شاید ہمارے سارے مسائل تو ختم نہ ہوں لیکن اِس کی بدولت ہم ایسی مشکلات میں ثابتقدم رہنے کے قابل ہوتے ہیں جنہیں برداشت کرنا ناممکن لگ سکتا ہے۔ اِس کھانے کے ذریعے ہم ”ہمیشہ کی زندگی“ پانے کے لائق بھی ٹھہر سکتے ہیں۔—یوح 17:3۔
17. ایلیاہ کہاں گئے اور وہ جگہ اِتنی خاص کیوں تھی؟
17 تقریباً 320 کلومیٹر (200 میل) پیدل چلنے کے بعد ایلیاہ آخرکار کوہِحورب (کوہِسینا) پر پہنچ گئے۔ یہ جگہ خدا کے بندوں کے لیے بڑی خاص تھی کیونکہ کئی صدیاں پہلے اِسی جگہ پر یہوواہ اپنے فرشتے کے ذریعے جلتی ہوئی جھاڑی میں موسیٰ پر ظاہر ہوا تھا۔ اور یہی وہ جگہ تھی جہاں بعد میں یہوواہ نے بنیاِسرائیل کے ساتھ عہد باندھا تھا۔ ایلیاہ نے وہاں ایک غار میں پناہ لی۔
یہوواہ نے اپنے بندے کو تسلی اور ہمت بخشی
18، 19. (الف) یہوواہ کے فرشتے نے ایلیاہ سے کیا سوال پوچھا اور ایلیاہ نے کیا جواب دیا؟ (ب) ایلیاہ کی باتوں سے اُن کی افسردگی کی کون سی تین وجوہات سامنے آتی ہیں؟
18 جب ایلیاہ کوہِحورب پر تھے تو یہوواہ کا ”کلام“ ایک فرشتے کے ذریعے اُن تک پہنچا۔ اُس فرشتے نے اُن سے پوچھا: ”تُو یہاں کیا کرتا ہے؟“ ایسا لگتا ہے کہ فرشتے نے اُن سے یہ سوال بڑی نرمی سے پوچھا تھا۔ ہم یہ اِس لیے کہہ سکتے ہیں کیونکہ جواب میں ایلیاہ نے وہ سب کچھ کہہ ڈالا جو اُن کے دل میں تھا۔ اُنہوں نے اپنے احساسات کو اِس طرح بیان کِیا: ”[یہوواہ] لشکروں کے خدا کے لئے مجھے بڑی غیرت آئی کیونکہ بنیاِسرائیل نے تیرے عہد کو ترک کِیا اور تیرے مذبحوں کو ڈھا دیا اور تیرے نبیوں کو تلوار سے قتل کِیا اور ایک مَیں ہی اکیلا بچا ہوں۔ سو وہ میری جان لینے کے درپے ہیں۔“ (1-سلا 19:9، 10) ایلیاہ کی باتوں سے اُن کی افسردگی کی کم سے کم تین وجوہات سامنے آتی ہیں۔
19 پہلی وجہ یہ تھی کہ ایلیاہ کو لگ رہا تھا کہ اُنہوں نے جو محنت کی ہے، وہ سب رائیگاں گئی ہے۔ اُنہوں نے ہمیشہ خدا کے نام اور اُس کی عبادت کے لیے ”بڑی غیرت“ دِکھائی تھی اور اِتنے سال تک پورے جوش سے اُس کی خدمت کی تھی۔ اِس کے باوجود ملک کی صورتحال بہتر ہونے کی بجائے اَور بگڑ گئی تھی۔ لوگ ابھی تک ایمان سے خالی اور باغی تھے اور بعل کی پرستش کی جڑیں اَور مضبوط ہوتی جا رہی تھیں۔ ایلیاہ کی افسردگی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ خود کو بالکل تنہا محسوس کر رہے تھے۔ اُنہوں نے کہا: ”ایک مَیں ہی اکیلا بچا ہوں۔“ اُنہیں لگ رہا تھا کہ پوری قوم میں وہ آخری شخص بچے ہیں جو یہوواہ کی عبادت کر رہے ہیں۔ ایلیاہ کی باتوں سے اُن کی مایوسی کی تیسری وجہ یہ پتہ چلتی ہے کہ وہ خوفزدہ تھے۔ اُن کے ساتھ خدمت کرنے والے یہوواہ کے کئی نبیوں کو قتل کر دیا گیا تھا اور اُنہیں یقین تھا کہ اگلی باری اُن کی ہے۔ بِلاشُبہ ایلیاہ کے لیے یہ تسلیم کرنا آسان نہیں رہا ہوگا کہ وہ خوفزدہ ہیں اور خود کو اکیلا محسوس کر رہے ہیں۔ لیکن اُنہوں نے خدا کو اپنے احساسات کے بارے میں بتاتے وقت غرور یا شرمندگی کو آڑے نہیں آنے دیا۔ اُنہوں نے خاکساری سے اپنے آسمانی باپ کے حضور اپنے دل کا حال کھول دیا اور یوں خدا کے تمام بندوں کے لیے ایک عمدہ مثال قائم کی۔—زبور 62:8۔
20، 21. (الف) ایلیاہ نے کوہِحورب پر کیا کچھ دیکھا؟ (ب) جس طرح سے یہوواہ نے اپنی طاقت کا مظاہرہ کِیا، اُس سے ایلیاہ نے کیا سیکھا؟
20 جب ایلیاہ نے یہوواہ کے سامنے اپنے خوف اور خدشات کا اِظہار کِیا تو یہوواہ نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟ اُس کے فرشتے نے ایلیاہ سے کہا کہ وہ غار کے مُنہ پر کھڑے ہو جائیں۔ اُنہوں نے ایسا ہی کِیا۔ وہ اِس بات سے بالکل انجان تھے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ پھر اچانک تیز آندھی آئی۔ اِس آندھی کی وجہ سے یقیناً اِنتہائی گرجدار آواز پیدا ہوئی ہوگی کیونکہ آندھی کی شدت اِتنی زیادہ تھی کہ پہاڑوں اور چٹانوں میں شگاف پڑ گئے۔ ذرا تصور کریں کہ ایلیاہ اپنے ہاتھ سے اپنی آنکھیں ڈھک رہے ہیں اور اپنے بھاری بھرکم چوغے کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اِس کے بعد ایک زوردار زلزلہ آیا جس کی وجہ سے زمین ہچکولے کھانے لگی اور ایلیاہ کے لیے اپنا توازن برقرار رکھنا مشکل ہو گیا۔ ابھی وہ زلزلے کے جھٹکوں سے سنبھلے ہی تھے کہ اچانک اُن کے سامنے سے بھڑکتی ہوئی آگ گزری۔ اِس کی تپش سے بچنے کے لیے ایلیاہ کو غار کے اندر جانا پڑا۔—1-سلا 19:11، 12۔
21 یوں یہوواہ خدا نے ایلیاہ کے سامنے بڑے شاندار طریقوں سے اپنی طاقت کا مظاہرہ کِیا۔ لیکن غور کریں کہ بائبل میں بتایا گیا ہے کہ وہ نہ تو آندھی میں تھا، نہ زلزلے میں اور نہ ہی آگ میں۔ ایلیاہ جانتے تھے کہ یہوواہ کسی قدرتی طاقت کا دیوتا نہیں ہے جیسے کہ بعل کی پرستش کرنے والے اُسے بارش کا دیوتا مانتے تھے۔ ایلیاہ کو معلوم تھا کہ بعل جیسے دیوتا تو محض خیالی معبود ہیں مگر یہوواہ ایک حقیقی ہستی ہے۔ یہوواہ تمام قدرتی طاقتوں کا مالک ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اُن ساری چیزوں سے نہایت افضل بھی ہے جو اُس نے بنائی ہیں۔ وہ اِتنا عظیم ہے کہ آسمان میں بھی سما نہیں سکتا۔ (1-سلا 8:27) یہوواہ کی طاقت کے شاندار مظاہروں کو دیکھنے کے بعد ایلیاہ پر کیا اثر ہوا؟ یاد کریں کہ ایلیاہ بہت خوفزدہ تھے۔ لیکن اِس سب کے بعد وہ یہ سمجھ گئے کہ اگر لامحدود قدرت اور طاقت کا مالک یہوواہ اُن کے ساتھ ہے تو پھر اُنہیں اخیاب اور اِیزِبل سے ڈرنے کی ذرا بھی ضرورت نہیں ہے۔—زبور 118:6 کو پڑھیں۔
22. (الف) فرشتے نے ”پُرسکون اور دھیمی آواز“ میں ایلیاہ کو اِس بات کا یقین کیسے دِلایا کہ اُن کی محنت رائیگاں نہیں گئی ہے؟ (ب) وہ ”پُرسکون اور دھیمی آواز“ غالباً کس فرشتے کی تھی؟ (فٹنوٹ کو دیکھیں۔)
22 جب آگ گزر گئی تو ہر طرف خاموشی چھا گئی اور ایلیاہ کو ”ایک دبی ہوئی ہلکی آواز“ [”پُرسکون اور دھیمی آواز،“ ترجمہ نئی دُنیا] سنائی دی۔ غالباً یہ فرشتے کی آواز تھی جس نے اُنہیں دوبارہ سے اپنے احساسات کا اِظہار کرنے کو کہا۔b اِس پر ایلیاہ نے پھر سے اپنی فکروں کو بیان کِیا۔ یوں شاید اُنہیں کسی حد تک سکون ملا ہوگا۔ البتہ اِس کے بعد فرشتے نے ”پُرسکون اور دھیمی آواز“ میں اُنہیں جو باتیں بتائیں، اُنہیں سُن کر ایلیاہ کو یقیناً تسلی ملی ہوگی۔ خدا نے ایلیاہ کو بتایا کہ وہ اِسرائیل میں سے بعل کی پرستش کی جڑیں اُکھاڑنے والا ہے۔ اِس طرح اُس نے اُنہیں یقین دِلایا کہ اُن کی محنت رائیگاں نہیں گئی ہے۔ اِس کے علاوہ خدا نے ایلیاہ کو ایک نئی ذمےداری دی جس سے ظاہر ہوا کہ اُس کے مقصد میں ایلیاہ کا کردار ختم نہیں ہوا ہے اور وہ اب بھی اُن کی بڑی قدر کرتا ہے۔—1-سلا 19:12-17۔
23. ایلیاہ کے احساسِتنہائی کو ختم کرنے کے لیے یہوواہ نے کون سے دو کام کیے؟
23 ہم نے دیکھا تھا کہ ایلیاہ تنہا بھی محسوس کر رہے تھے۔ اُن کے اِس احساسِتنہائی کو دُور کرنے کے لیے یہوواہ نے دو کام کیے۔ سب سے پہلے اُس نے ایلیاہ کو کہا کہ وہ اِلیشع کو نبی کے طور پر مسح کریں تاکہ وہ اُن کے جانشین بنیں۔ اِلیشع نے مسح ہونے کے بعد کئی سال تک ایلیاہ کے ساتھی اور مددگار کے طور پر کام کِیا۔ اِلیشع کا ساتھ ایلیاہ کے لیے واقعی بڑی تسلی کا باعث رہا ہوگا۔ ایلیاہ کے احساسِتنہائی کو دُور کرنے کے لیے یہوواہ نے اُنہیں یہ خوشی کی خبر بھی سنائی: ”مَیں اِؔسرائیل میں سات ہزار اپنے لئے رکھ چھوڑوں گا یعنی وہ سب گھٹنے جو بعلؔ کے آگے نہیں جھکے اور ہر ایک مُنہ جس نے اُسے نہیں چُوما۔“ (1-سلا 19:18) ایلیاہ ہرگز اکیلے نہیں تھے۔ یہ جان کر کہ یہوواہ کے ہزاروں وفادار بندوں نے بعل کی پرستش نہیں کی تھی، ایلیاہ کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی ہوگی۔ یہ بہت ضروری تھا کہ ایلیاہ خدا کی خدمت کرتے رہیں تاکہ وہ اُس تاریک دَور میں خدا کے اُن بندوں کے لیے وفاداری کی روشن مثال قائم کر سکیں۔ ذرا تصور کریں کہ جب یہوواہ کے فرشتے نے ”پُرسکون اور دھیمی آواز“ میں ایلیاہ کو یہ ساری باتیں بتائی ہوں گی تو اُن کی کتنی ہمت بندھی ہوگی!
24، 25. (الف) آجکل ہم کس طرح یہوواہ کی ”پُرسکون اور دھیمی آواز“ سُن سکتے ہیں؟ (ب) ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ ایلیاہ کو یہوواہ کی طرف سے ملنے والی تسلی کا فائدہ ہوا؟
24 ایلیاہ کی طرح شاید ہم بھی خدا کی بنائی ہوئی قدرتی طاقتوں کے مظاہرے دیکھ کر دنگ رہ جائیں۔ خدا کی تخلیق واقعی اِس بات کا واضح ثبوت پیش کرتی ہے کہ وہ لامحدود طاقت کا مالک ہے۔ (روم 1:20) یہوواہ آج بھی اپنے وفادار بندوں کی مدد کرنے کے لیے خوشی سے اپنی بےپناہ طاقت کو اِستعمال کرتا ہے۔ (2-توا 16:9) ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے کلام کے ذریعے ہم سے بات بھی کرتا ہے۔ (یسعیاہ 30:21 کو پڑھیں۔) اگر ہم بائبل سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے اُس ”پُرسکون اور دھیمی آواز“ کی طرح ہوگی جو ایلیاہ نے سنی تھی۔ بائبل کے ذریعے یہوواہ ہماری اِصلاح کرتا ہے، ہمارا حوصلہ بڑھاتا ہے اور ہمیں اپنی محبت کا یقین دِلاتا ہے۔
25 یہوواہ نے کوہِحورب پر ایلیاہ کو جو تسلی دی، اُس کا اُنہیں بڑا فائدہ ہوا۔ جلد ہی وہ ایک بار پھر پورے جوش اور دلیری کے ساتھ خدا کی خدمت کرنے لگے اور بعل کی پرستش کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ آجکل یہوواہ ہمیں اپنے کلام کے ذریعے تسلی دیتا ہے۔ اگر ہم اِس میں درج باتوں پر دھیان دیں گے تو ہم ایلیاہ جیسے ایمان کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوں گے۔—روم 15:4۔
a اِس آیت میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”پاتال“ کِیا گیا ہے، اُس کا مطلب ”قبر“ ہے۔
b یہ ”پُرسکون اور دھیمی آواز“ غالباً اُسی روحانی مخلوق کی تھی جس نے 1-سلاطین 19:9 میں درج ’یہوواہ کا کلام‘ ایلیاہ تک پہنچایا تھا۔ اِسی باب کی 15 آیت میں اِس روحانی مخلوق کو ”خداوند“ یعنی ”یہوواہ“ کہا گیا ہے۔ اِس سے شاید ہمارے ذہن میں وہ فرشتہ آئے جسے یہوواہ نے ویرانے میں بنیاِسرائیل کی رہنمائی کرنے کے لیے بھیجا تھا اور جس کے بارے میں اُس نے کہا تھا: ”میرا نام اُس میں رہتا ہے۔“ (خر 23:21) ہم وثوق سے تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ فرشتہ کون تھا مگر یہ بات قابلِغور ہے کہ زمین پر آنے سے پہلے یسوع، خدا کے ”کلام“ یعنی ترجمان کے طور پر اُس کا پیغام اُس کے بندوں تک پہنچاتے تھے۔—یوح 1:1۔