اِن جیسا ایمان ظاہر کریں | ایلیاہ
وہ آخر تک ثابتقدم رہے
ایلیاہ نبی کو یہ خبر دی گئی کہ بادشاہ اخیاب مر گیا ہے۔ ذرا تصور کریں کہ عمررسیدہ ایلیاہ گہری سوچ میں گم اپنی داڑھی پر ہاتھ پھیر رہے ہیں۔ اُن کی آنکھیں سامنے دیکھ رہی ہیں لیکن اُن کا ذہن کہیں اَور ہے۔ وہ اُن سارے موقعوں کے بارے میں سوچ رہے ہیں جب اُن کا واسطہ اُس بُرے بادشاہ اخیاب سے پڑا تھا۔ ایلیاہ نے بہت سی مشکلات کے باوجود ثابتقدمی دِکھائی تھی۔ بادشاہ اخیاب اور اُس کی بیوی اِیزِبل نے ایلیاہ کو ڈرایا دھمکایا تھا اور اُنہیں مروانے کے لیے اپنے آدمی اُن کے پیچھے لگا دیے تھے۔ اِس وجہ سے ایلیاہ موت کے بہت قریب آ گئے تھے۔ جب اِیزِبل نے یہوواہ کے بہت سے نبیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا تو بادشاہ نے اُسے روکنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی تھی۔ اِس کے علاوہ اخیاب اور اِیزِبل نے محض لالچ کی وجہ سے ایک بےقصور اور نیک آدمی نبوت کے خلاف سازش کر کے اُسے اور اُس کے بیٹوں کو مروا ڈالا تھا۔ اِس پر ایلیاہ نے اخیاب اور اُس کی ساری نسل کے خلاف یہوواہ خدا کی طرف سے سزا کا پیغام سنایا تھا۔ اور اب وہ بات پوری ہونی شروع ہو گئی تھی جو یہوواہ خدا نے فرمائی تھی۔ اخیاب ویسی ہی موت مرا جیسی خدا نے کہا تھا۔—1-سلاطین 18:4؛ 21:1-26؛ 22:37، 38؛ 2-سلاطین 9:26۔
لیکن ایلیاہ کو پتہ تھا کہ اُنہیں اب بھی ثابتقدمی کی ضرورت پڑے گی۔ اِیزِبل ابھی زندہ تھی اور شاہی خاندان اور اِسرائیلی قوم ابھی بھی اُس بُری عورت کے زیرِاثر تھی۔ اِس لیے ایلیاہ کی راہ میں اَور بھی مشکلات آنے والی تھیں۔ اِس کے علاوہ اُنہیں اپنے ساتھی اور جانشین اِلیشع کو بہت کچھ سکھانا تھا۔ لہٰذا آئیں، اُن تین ذمےداریوں کے بارے میں بات کریں جو ایلیاہ کو اپنی زندگی کے آخر میں نبھانی تھیں۔ اِس بات پر غور کرنے سے کہ ایلیاہ اپنے ایمان کی بدولت کیسے ثابتقدم رہ پائے، ہم یہ سیکھ پائیں گے کہ ہم مشکلات سے بھری اِس دُنیا میں اپنے ایمان کو کیسے مضبوط کر سکتے ہیں۔
پہلی ذمےداری—اخزیاہ کے خلاف پیغام سنانا
اب اِسرائیل پر اخیاب اور اِیزِبل کے بیٹے اخزیاہ کی حکومت تھی۔ اپنے ماں باپ کی غلطیوں سے سیکھنے کی بجائے اُس نے بھی اُن کی طرح بُرے کام کیے۔ (1-سلاطین 22:52) وہ بھی بعل کی پوجا کرتا تھا۔ بعل کی پرستش کرنے والے لوگ بہت سے گھناؤنے کام کرتے تھے۔ مثال کے طور پر وہ بعل کے مندر میں جسمفروشی کرتے تھے، یہاں تک کہ بچوں کی قربانیاں بھی چڑھاتے تھے۔ کیا کوئی چیز اخزیاہ کو یہ ترغیب دے سکتی تھی کہ وہ اپنے بُرے طورطریقے چھوڑ دے اور لوگوں کو یہوواہ کے خلاف اِتنے سنگین گُناہ کرنے سے روک لے؟
اُس مغرور بادشاہ پر اچانک ایک مصیبت آن پڑی۔ وہ اپنے بالاخانے کی کھڑکی سے نیچے گِر پڑا اور شدید زخمی ہو گیا۔ حالانکہ وہ زندگی اور موت کے بیچ لٹکا ہوا تھا مگر پھر بھی اُس نے یہوواہ سے مدد نہیں مانگی۔ اِس کی بجائے اُس نے دُشمن ملک فلسطین کے شہر عقرون میں اپنے کچھ نمائندے بھیجے تاکہ وہ دیوتا بعلزبوب سے یہ دریافت کریں کہ آیا وہ ٹھیک ہوگا یا نہیں۔ یہوواہ نے اخزیاہ کی حرکتوں کو بہت برداشت کِیا تھا اور اب تو اُس نے حد ہی پار کر دی تھی۔ اِس لیے یہوواہ نے ایلیاہ کے پاس ایک فرشتہ بھیجا اور اُن سے کہا کہ وہ بادشاہ کے نمائندوں کو راستے میں روک لیں۔ ایلیاہ نے اُن نمائندوں کو اخزیاہ کے حوالے سے بہت ہی سخت پیغام دے کر واپس بھیج دیا۔ اخزیاہ کا گُناہ بہت سنگین تھا کیونکہ اُس کی اِس حرکت سے یہ ظاہر ہوا کہ جیسے اِسرائیل میں کوئی خدا ہی نہیں ہے۔ یہوواہ نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اخزیاہ کبھی صحتیاب نہیں ہوگا۔—2-سلاطین 1:2-4۔
یہ پیغام سُن کر بھی اخزیاہ توبہ کی طرف مائل نہیں ہوا۔ اُس نے اپنے نمائندوں سے پوچھا: ”اُس شخص کی کیسی شکل تھی جو تُم سے ملنے کو آیا اور تُم سے یہ باتیں کہیں؟“ (2-سلاطین 1:7) نمائندوں نے جواب دیا: ”وہ آدمی بالوں کا لباس پہنے ہوئے تھا اور اُس کی کمر کے گرد چمڑے کی پیٹی بندھی ہوئی تھی۔“ یہ سنتے ہی بادشاہ نے کہا: ”وہ ایلیاؔہ تشبی تھا۔“ (2-سلاطین 1:8، نیو اُردو بائبل ورشن) یہ قابلِغور بات ہے کہ بادشاہ نے ایلیاہ کے سادہ سے لباس کا سُن کر ہی اُنہیں پہچان لیا تھا۔ ایلیاہ واقعی بہت سادہ زندگی گزار رہے تھے اور اُنہوں نے اپنا پورا دھیان خدا کی خدمت پر لگایا ہوا تھا۔ البتہ اخزیاہ اور اُس کے والدین کے بارے میں ایسی کوئی بات نہیں کہی جا سکتی تھی جن کے دل میں کوٹ کوٹ کر لالچ بھرا ہوا تھا۔ ایلیاہ کی مثال سے ہمارے ذہن میں یسوع مسیح کی یہ ہدایت آتی ہے کہ ہم سادہ زندگی گزاریں اور اپنا دھیان اہم باتوں پر رکھیں۔—متی 6:22-24۔
اخزیاہ کے دل میں اِنتقام کی آگ بھڑکنے لگی۔ اُس نے 50 سپاہیوں پر مشتمل ایک گروہ اور اُن کے سردار کو ایلیاہ کے پاس بھیجا تاکہ وہ اُنہیں گِرفتار کر کے لائیں۔ اُن لوگوں کو ایلیاہ ’ایک ٹیلے کی چوٹی پر بیٹھے‘ ملے۔a سپاہیوں کے سردار نے بادشاہ کا نام لے کر بڑی گستاخی سے ایلیاہ کو کہا: ”تُو اُتر آ۔“ غالباً اِس سے سردار کی مُراد یہ تھی کہ ایلیاہ نیچے آ جائیں تاکہ اُنہیں قتل کے لیے لے جایا جائے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ایلیاہ ”مردِخدا“ ہیں، اُس سردار اور اُس کے سپاہیوں کو اُنہیں ڈراتے دھمکاتے وقت ذرا بھی شرم نہیں آ رہی تھی۔ بےشک وہ لوگ ایک بڑی غلطی کر رہے تھے۔ ایلیاہ نے سپاہیوں کے سردار سے کہا: ”اگر مَیں مردِخدا ہوں تو آگ آسمان سے نازل ہو اور تجھے تیرے پچاسوں سمیت بھسم کر دے۔“ خدا نے فوراً کارروائی کی۔ ”آگ آسمان سے نازل ہوئی اور اُسے اُس کے پچاسوں سمیت بھسم کر دیا۔“ (2-سلاطین 1:9، 10) اُن سپاہیوں کے بھیانک انجام سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ جب لوگ یہوواہ کے بندوں سے بدتمیزی یا حقارتآمیز سلوک کرتے ہیں تو وہ اِس بات کو معمولی خیال نہیں کرتا۔—1-تواریخ 16:21، 22۔
اخزیاہ نے 50 اَور سپاہیوں اور اُن کے سردار کو ایلیاہ کے پاس بھیجا۔ سپاہیوں کے دوسرے گروہ کا سردار پہلے سردار سے بھی زیادہ بےوقوف تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ اُس نے اُن 51 آدمیوں کی موت سے کوئی عبرت حاصل نہیں کی جن کی راکھ غالباً ابھی بھی پہاڑ کے دامن میں پڑی تھی۔ دوسری بات یہ کہ اُس نے نہ صرف پچھلے سردار کے توہینآمیز حکم کو دُہرایا بلکہ ساتھ میں ”جلد“ کا لفظ بھی شامل کِیا۔ اُس کی یہ حرکت بڑی احمقانہ تھی۔ اِس لیے وہ اور اُس کے سپاہی بھی بالکل ویسے ہی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جیسے پہلے 51 آدمیوں کے ساتھ ہوا تھا۔ لیکن اُن دونوں سرداروں سے بڑا احمق اور ہٹدھرم تو اخزیاہ تھا۔ وہ ٹس سے مس نہیں ہوا اور اُس نے سپاہیوں کے تیسرے گروہ کو ایلیاہ کے پاس بھیجا۔ اچھی بات یہ تھی کہ وہ تیسرا سردار ذرا سمجھدار نکلا۔ وہ ایلیاہ کے پاس گیا اور خاکساری سے اُن سے مِنت کرنے لگا کہ اُس کی اور اُس کے آدمیوں کی جان بخش دی جائے۔ بےشک ایلیاہ نے اُس سردار کی درخواست پر اپنے خدا کی طرح رحمدلی ظاہر کی ہوگی۔ یہوواہ کے فرشتے نے ایلیاہ سے کہا کہ وہ اُن سپاہیوں کے ساتھ چلے جائیں۔ ایلیاہ نے فرشتے کی ہدایت پر عمل کِیا اور پھر اُس پیغام کو دُہرایا جو یہوواہ نے اخزیاہ کے خلاف سنایا تھا۔ اور خدا کے کہنے کے عین مطابق اخزیاہ موت کے مُنہ میں چلا گیا۔ اُس وقت اُسے حکومت کرتے ہوئے بس دو ہی سال ہوئے تھے۔—2-سلاطین 1:11-17۔
ہمارے لیے اِس بات پر غور کرنا اچھا ہوگا کہ ایلیاہ اپنے اِردگِرد کے ہٹدھرم اور باغی لوگوں کے بُرے رویے کے باوجود ثابتقدم کیسے رہ پائے۔ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ آپ نے کسی شخص کی مدد کرنے کی کوشش کی ہو تاکہ وہ اپنی نقصاندہ روِش سے باز آ جائے لیکن اُس نے آپ کی بات سننے سے اِنکار کر دیا ہو؟ کیا اِس بات نے آپ کو مایوس کر دیا تھا؟ جب ہمیں ایسی مایوسیوں سے گزرنا پڑتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟ ذرا غور کریں کہ جب سپاہی ایلیاہ کے پاس آئے تو وہ کہاں تھے۔ ہم وثوق سے تو نہیں کہہ سکتے کہ ایلیاہ ”ایک ٹیلے کی چوٹی پر“ کیوں بیٹھے تھے لیکن ایک دُعاگو اِنسان کے طور پر وہ یقیناً اِس لیے وہاں ہوں گے تاکہ اُنہیں تنہائی میں اپنے شفیق خدا سے بات کرنے اور اُس کے قریب جانے کا موقع ملے۔ (یعقوب 5:16-18) ایلیاہ کی طرح ہم بھی باقاعدگی سے تنہائی میں خدا سے بات کر سکتے ہیں اور ایسا کرتے وقت اُس کا نام لے کر اُسے پکار سکتے ہیں اور اُسے اپنی تکلیفوں اور پریشانیوں کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ یوں ہم اُس وقت ثابتقدم رہنے کے قابل ہوں گے جب ہمارے اِردگِرد لوگ ہٹدھرمی سے ایسی راہ پر چلیں گے جس کا انجام تباہی ہے۔
دوسری ذمےداری—اپنا اِختیار اِلیشع کو منتقل کرنا
اب وقت آ گیا تھا کہ ایلیاہ اِسرائیل میں نبی کے طور پر اپنے عہدے سے فارغ ہو جائیں۔ ذرا غور کریں کہ اُنہوں نے کیا کِیا۔ جب وہ اور اِلیشع شہر جلجال سے نکل رہے تھے تو اُنہوں نے اِلیشع کو وہیں رُکنے کے لیے کہا اور خود اکیلے بیتایل جانا چاہا جو کہ تقریباً 11 کلومیٹر (7 میل) دُور تھا۔ اِلیشع نے بڑے پُرعزم ہو کر ایلیاہ کو جواب دیا: ”[یہوواہ] کی حیات کی قسم اور تیری جان کی سوگند مَیں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔“ پھر جب وہ دونوں بیتایل پہنچے تو ایلیاہ نے کہا کہ وہ اکیلے شہر یریحو جائیں گے جو کہ 22 کلومیٹر (14 میل) کے فاصلے پر تھا۔ اِلیشع نے پہلے کی طرح ایلیاہ کو چھوڑنے سے اِنکار کر دیا۔ یریحو میں تیسری بار پھر سے یہی سب ہوا۔ ایلیاہ نے اکیلے 8 کلومیٹر (5 میل) دُور واقع دریائےیردن (دریائےاُردن) جانا چاہا۔ مگر اِلیشع اب کی بار بھی اپنی بات پر ڈٹے رہے اور ایلیاہ سے جُدا نہ ہوئے۔—2-سلاطین 2:1-6۔
ایسا کرنے سے اِلیشع، ایلیاہ کے لیے ویسی ہی محبت دِکھا رہے تھے جیسی رُوت نے نعومی کے لیے دِکھائی تھی۔ جب کوئی شخص کسی سے ایسی محبت کرتا ہے تو وہ ہر حال میں اُس کا وفادار رہتا ہے اور اُس سے جُدا نہیں ہوتا۔ (رُوت 1:15، 16) ہمارے زمانے میں یہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ خدا کے بندے ایک دوسرے کے لیے ایسی محبت دِکھائیں۔ کیا آپ اپنے ہمایمانوں سے اِتنی گہری محبت کرتے ہیں؟
بےشک اِلیشع کی اِس محبت نے ایلیاہ کے دل کو چُھو لیا ہوگا۔ اور اِسی محبت کی وجہ سے اِلیشع، ایلیاہ کے آخری معجزے کو دیکھ پائے۔ جب وہ دونوں دریائےیردن کے کنارے تھے تو ایلیاہ نے دریا پر اپنی چادر ماری۔ اِس پر پانی دو ٹکڑے ہو گیا حالانکہ اُس دریا کا بہاؤ تیز تھا اور وہ جگہ جگہ سے گہرا تھا۔ اِس معجزے کو صرف اِلیشع ہی نہیں بلکہ ”انبیازادوں میں سے پچاس آدمی“ بھی دیکھ رہے تھے۔ (2-سلاطین 2:7، 8) ایسا لگتا ہے کہ یہ آدمی اُس گروہ کا حصہ تھے جسے ملک میں یہوواہ کی عبادت میں پیشوائی کرنے کی تربیت دی جا رہی تھی۔ اور اُن کی تربیت کے اِس کام کی نگرانی غالباً ایلیاہ کر رہے تھے۔ کچھ سال پہلے ایک وقت آیا تھا جب ایلیاہ کو لگ رہا تھا کہ ملک بھر میں صرف وہی اکیلے بچے ہیں جو سچے خدا کی عبادت کر رہے ہیں۔ لیکن اُس وقت سے اب تک یہوواہ کی عبادت کرنے والوں کی تعداد میں کافی اِضافہ ہو چُکا تھا۔ یہوواہ نے واقعی ایلیاہ کو اُن کی ثابتقدمی کا بڑا اجر دیا تھا۔—1-سلاطین 19:10۔
دریائےیردن کو پار کرنے کے بعد ایلیاہ نے اِلیشع سے کہا: ”اِس سے پیشتر کہ مَیں تجھ سے لے لیا جاؤں بتا کہ مَیں تیرے لئے کیا کروں۔“ ایلیاہ جانتے تھے کہ اُن کے جانے کا وقت آ گیا ہے۔ اُن کے دل میں یہ بات بالکل بھی نہیں آئی کہ ”اِلیشع مجھ سے کمعمر ہے تو پھر اُسے کیوں اِتنے اعزاز ملیں اور وہ کیوں خدا کی خدمت میں اِتنا نمایاں کردار ادا کرے؟“ اِس کی بجائے ایلیاہ کے لیے جو بھی ممکن تھا، وہ اِلیشع کی خاطر کرنا چاہتے تھے۔ اِلیشع نے اُن سے بس یہ درخواست کی: ”مَیں تیری مِنت کرتا ہوں کہ تیری روح کا دُونا حصہ مجھ پر ہو۔“ (2-سلاطین 2:9) اِلیشع کی بات کا یہ مطلب نہیں تھا کہ جتنی پاک روح ایلیاہ کو ملی تھی، اُنہیں اُس سے دُگنی ملے۔ دراصل وہ ایلیاہ سے ویسی میراث چاہ رہے تھے جیسی پہلوٹھے کو ملتی تھی۔ پہلوٹھے بیٹے کو سربراہ کے طور پر بہت سی نئی ذمےداریاں نبھانی ہوتی تھیں۔ اِس لیے شریعت کے مطابق اُسے وراثت کا سب سے بڑا یا دُگنا حصہ دیا جاتا تھا۔ (اِستثنا 21:17) اِلیشع روحانی لحاظ سے ایلیاہ کے وارث تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اپنی ذمےداری کو پورا کرنے کے لیے اُنہیں اُس دلیری کی ضرورت ہوگی جو پاک روح نے ایلیاہ کو بخشی ہوئی تھی۔
ایلیاہ نے بڑی خاکساری سے یہ معاملہ یہوواہ پر چھوڑ دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اگر یہوواہ، اِلیشع کو وہ منظر دیکھنے کی اِجازت دے گا جس میں اُنہیں اُٹھایا جائے گا تو اِس کا مطلب ہوگا کہ اُن کی درخواست منظور ہو گئی ہے۔ اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد جب وہ دونوں ساتھ ساتھ ”چلتے اور باتیں کرتے جاتے تھے،“ ایک حیرتانگیز بات واقع ہوئی۔—2-سلاطین 2:10، 11۔
ایلیاہ نبی اور اِلیشع نبی کی دوستی نے اُنہیں مشکلات کے دوران ثابتقدم رہنے میں مدد دی۔
آسمان پر ایک عجیب سی روشنی نظر آئی اور آہستہ آہستہ یہ زمین کے نزدیک آنے لگی۔ پھر اچانک ہوا کا ایک بگولا پیدا ہوا جس کی وجہ سے ایک تیز اور گرجدار آواز سنائی دینے لگی۔ اِس کے ساتھ ہی روشنی سے دمکتی ایک چیز تیزی سے ایلیاہ اور اِلیشع کی طرف آئی اور اُس نے اُنہیں جُدا کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ یوں ہوا ہو کہ وہ دونوں حیرت کے مارے لڑکھڑا کر پیچھے ہٹ گئے ہوں۔ دراصل ایلیاہ اور اِلیشع ایک رتھ دیکھ رہے تھے جو ایسے چمک رہا تھا گویا آگ سے بنا ہو۔ ایلیاہ کو معلوم تھا کہ اُن کی روانگی کا وقت آ گیا ہے۔ بائبل میں اِس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا کہ ایلیاہ اُس رتھ پر سوار ہوئے یا نہیں۔ بہرحال اُنہوں نے خود کو زمین سے اُٹھتا اور پھر بگولے میں مسلسل اُوپر جاتا محسوس کِیا۔
جب اِلیشع کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو بےشک اُن کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہوں گے۔ اِس حیرانکُن منظر کو دیکھنا اُن کے لیے اِس بات کا ثبوت تھا کہ اُنہیں وہ دلیری ملے گی جو پاک روح نے ایلیاہ کو بخشی ہوئی تھی۔ لیکن اِلیشع اِتنے اُداس تھے کہ اُن کا دھیان اِس بات کی طرف نہیں گیا۔ اُنہیں نہیں پتہ تھا کہ اُن کے عمررسیدہ اور عزیز دوست کو کہاں لے جایا جا رہا ہے۔ اور اُنہیں غالباً ایلیاہ سے دوبارہ ملنے کی توقع بھی نہیں تھی۔ اِس لیے وہ چلّائے: ”میرے باپ! اِؔسرائیل کے رتھ اور اُس کے سوار!“ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اِلیشع کا شفیق اُستاد اُن کی نظروں سے اوجھل ہو گیا جس پر اُنہوں نے غم کے مارے اپنے کپڑے پھاڑ دیے۔—2-سلاطین 2:12۔
ہوا میں اُوپر جاتے وقت شاید ایلیاہ نے اپنے دوست کی مایوسی بھری پکار سنی ہو اور شاید اِس پر اُن کی آنکھیں نم ہو گئی ہوں۔ بہرحال ایلیاہ کو یہ تو یقیناً پتہ تھا کہ اپنے اُس دوست کے سہارے کی بدولت وہ کئی مشکلات کا سامنا کر پائے ہیں۔ ہمیں ایلیاہ کی مثال سے سبق سیکھنا چاہیے اور ایسے لوگوں سے دوستی کرنی چاہیے جو خدا سے پیار کرتے ہیں اور اُس کی مرضی پر چلتے ہیں۔
آخری ذمےداری
ایلیاہ کہاں گئے؟ کچھ مذاہب میں سکھایا جاتا ہے کہ ایلیاہ کو آسمان میں خدا کے پاس لے جایا گیا۔ لیکن یہ ممکن نہیں ہے۔ صدیوں بعد یسوع مسیح نے کہا کہ اُن سے پہلے کوئی آسمان پر نہیں گیا۔ (یوحنا 3:13) اِس لیے جب ہم بائبل میں یہ پڑھتے ہیں کہ ”ایلیاؔہ بگولے میں آسمان پر چلا گیا“ تو ہمیں اِس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہاں آسمان سے کیا مُراد ہے۔ (2-سلاطین 2:11) بائبل میں لفظ ”آسمان“ نہ صرف اُس جگہ کی طرف اِشارہ کرنے کے لیے اِستعمال کِیا گیا ہے جہاں یہوواہ خدا رہتا ہے بلکہ فضا کی طرف بھی جہاں بادل ہوتے ہیں اور پرندے اُڑتے ہیں۔ (زبور 147:8) ایلیاہ کو اِسی آسمان تک لے جایا گیا۔ لیکن پھر کیا ہوا؟
یہوواہ خدا نے اپنے عزیز نبی کو ایک ایسی جگہ منتقل کر دیا جہاں اُنہیں ایک نئی ذمےداری دی گئی۔ دراصل ایلیاہ کو یہوداہ کی سلطنت لے جایا گیا جو کہ قریب ہی واقع تھی۔ بائبل سے پتہ چلتا ہے کہ ایلیاہ وہاں تقریباً سات سال بعد بھی اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔ اُس وقت یہوداہ پر بُرے بادشاہ یہورام کی حکومت تھی۔ یہورام نے اخیاب اور اِیزِبل کی بیٹی سے شادی کی تھی اور اِس لیے اُن لوگوں کا بُرا اثر اب بھی موجود تھا۔ یہوواہ خدا نے ایلیاہ کو حکم دیا کہ وہ یہورام کے خلاف سزا کا پیغام درج کریں۔ اور پیشگوئی کے مطابق یہورام بہت بھیانک موت مرا۔ (2-تواریخ 21:12-19) اُس کا انجام اِس وجہ سے بھی اِنتہائی بُرا تھا کہ ”اُس کی وفات پر کسی نے ماتم نہ کِیا۔“—2-تواریخ 21:20، نیو اُردو بائبل ورشن۔
اُس بُرے آدمی اور ایلیاہ کے بیچ زمین آسمان کا فرق تھا۔ بائبل میں یہ تو نہیں بتایا گیا کہ ایلیاہ کب اور کیسے فوت ہوئے لیکن ایلیاہ کی وفات یہورام کی طرح تو بالکل بھی نہیں ہوئی ہوگی کہ اُن کے مرنے پر کوئی افسوس نہ کرتا۔ بےشک اِلیشع اپنے دوست کو بہت یاد کرتے ہوں گے۔ اور بِلاشُبہ خدا کے دیگر وفادار نبی بھی ایلیاہ کو نہیں بُھلا پائے ہوں گے۔ یہوواہ کی نظر میں بھی ایلیاہ کی قدر کم نہیں ہوئی۔ اِس کا ثبوت یہ ہے کہ تقریباً 1000 سال بعد جب ایک پہاڑ پر یسوع کی صورت بدلی تو اُن کے شاگردوں کو رُویا میں ایلیاہ جیسا ایک شخص نظر آیا۔ (متی 17:1-9) کیا آپ ایلیاہ کی مثال سے سیکھنا اور ایسا ایمان پیدا کرنا چاہتے ہیں جو آپ کو مشکلات میں ثابتقدم رہنے کے قابل بنائے؟ تو پھر ایسے لوگوں سے دوستی کریں جو خدا سے پیار کرتے ہوں؛ اپنا پورا دھیان خدا کی خدمت پر رکھیں اور باقاعدگی سے خدا کے سامنے اپنے دل کا حال بیان کریں۔ دُعا ہے کہ آپ بھی ایلیاہ کی طرح خدا کے منظورِنظر ٹھہریں۔
a کچھ عالموں کا کہنا ہے کہ یہ ٹیلا یا پہاڑ کوہِکرمل تھا جہاں کچھ سال پہلے یہوواہ نے ایلیاہ کے ذریعے بعل کے نبیوں کو شکست دی تھی۔ لیکن بائبل میں نہیں بتایا گیا کہ یہ کون سا پہاڑ تھا۔