باب نمبر 10
اُنہوں نے ڈٹ کر یہوواہ کی عبادت کی حمایت کی
1، 2. (الف) ایلیاہ کے زمانے میں اِسرائیلیوں کی حالت اِتنی بُری کیوں تھی؟ (ب) کوہِکرمل پر ایلیاہ کو کس مخالفت کا سامنا تھا؟
ایلیاہ نبی لوگوں کی بِھیڑ کو بھاری قدموں کے ساتھ کوہِکرمل پر چڑھتا دیکھ رہے تھے۔ صبح کی ہلکی ہلکی روشنی میں بھی لوگوں کے چہروں سے غربت اور بدحالی صاف جھلک رہی تھی۔ ساڑھے تین سال کی خشکسالی نے اُن لوگوں کو نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔
2 اِس بِھیڑ میں بعل کے 450 نبی بھی تھے جو بڑی اکڑ سے پہاڑ پر چڑھ رہے تھے۔ اُن کے دلوں میں یہوواہ کے نبی ایلیاہ کے لیے نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ملکہ اِیزِبل، یہوواہ کے بہت سے بندوں کو قتل کروا چُکی تھی لیکن ایلیاہ، بعل کی پرستش کے خلاف ڈٹ کر کھڑے تھے۔ مگر وہ کب تک ثابتقدم رہ سکتے تھے؟ شاید بعل کے نبیوں نے سوچا ہو کہ ایلیاہ اکیلے زیادہ دیر تک اُن کے سامنے ٹک نہیں پائیں گے۔ (1-سلا 18:4، 19، 20) بادشاہ اخیاب بھی اپنے شاہی رتھ پر سوار ہو کر کوہِکرمل پر پہنچ گیا تھا۔ وہ بھی ایلیاہ کو سخت ناپسند کرتا تھا۔
3، 4. (الف) ایلیاہ غالباً خوفزدہ کیوں تھے؟ (ب) ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
3 یہ دن ایلیاہ کے لیے بڑا یادگار ثابت ہونے والا تھا۔ اُن کے سامنے ایسے حیرتانگیز واقعات ہونے والے تھے جنہیں وہ کبھی بُھلا نہیں پائے ہوں گے۔ تھوڑی ہی دیر میں کوہِکرمل پر اچھائی اور بُرائی کا ایک ایسا فیصلہکُن مقابلہ ہونے کو تھا جو دُنیا میں شاید پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا تھا۔ ذرا سوچیں کہ جوںجوں دن چڑھ رہا ہوگا، ایلیاہ کو کیسا محسوس ہو رہا ہوگا۔ ایلیاہ بھی ”ہماری طرح اِنسان تھے اور ہمارے جیسے احساسات رکھتے تھے“ اِس لیے غالباً وہ بھی خوفزدہ تھے۔ (یعقوب 5:17 کو پڑھیں۔) بہرحال ایمان سے خالی لوگوں، خدا سے برگشتہ بادشاہ اور قاتل نبیوں کے بیچ ایلیاہ خود کو بالکل تنہا محسوس کر رہے تھے۔—1-سلا 18:22۔
4 لیکن اِسرائیلی اِس حالت کو کیسے پہنچے تھے؟ اور کوہِکرمل پر ہونے والے واقعات سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟ آئیں، دیکھیں کہ ایلیاہ نے ایمان کی عمدہ مثال کیسے قائم کی اور اِس پر غور کرنے سے ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے۔
اِسرائیلی جھوٹے مذہب کی گِرفت میں
5، 6. (الف) اِسرائیل میں کئی سال سے کیا صورتحال تھی؟ (ب) بادشاہ اخیاب نے یہوواہ کو سخت غضبناک کیسے کِیا؟
5 ایلیاہ کئی سال سے یہ دیکھ رہے تھے کہ یہوواہ کی عبادت کو نظرانداز کِیا جا رہا ہے اور اِس کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ اُن کے لیے یہ بڑے دُکھ کی بات تھی کہ ایک لمبے عرصے سے بہت سے اِسرائیلی سچے خدا یہوواہ کی عبادت کرنے کی بجائے اِردگِرد کی قوموں کے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش کر رہے تھے۔ ایلیاہ کے زمانے میں تو بُتپرستی کی اِنتہا ہو گئی تھی۔ لیکن اِس کی کیا وجہ تھی؟
6 بادشاہ اخیاب نے ملک صیدا کے بادشاہ کی بیٹی اِیزِبل سے شادی کر لی تھی۔ اور اِیزِبل نے یہ ٹھان رکھا تھا کہ وہ پورے اِسرائیل میں بعل کی پرستش کو فروغ دے گی اور یہوواہ کی عبادت کا نامونشان مٹا دے گی۔ اخیاب بہت جلدی اپنی بیوی کے ہاتھ کی کٹھپتلی بن گیا۔ اُس نے بعل کے لیے ایک مندر اور مذبح یعنی قربانگاہ بنوائی اور اِس جھوٹے دیوتا کی پرستش میں پیشوائی کرنے لگا۔ اُس کے اِن سب کاموں کی وجہ سے یہوواہ سخت غضبناک ہوا۔—1-سلا 16:30-33۔
7. (الف) بعل کی پرستش نفرتانگیز کیوں تھی؟ (ب) یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ ایلیاہ کے زمانے میں جو خشکسالی رہی، اُس کی مُدت کے حوالے سے بائبل میں کوئی اِختلاف نہیں پایا جاتا؟ (بکس کو دیکھیں۔)
7 بعل کی پرستش اِنتہائی نفرتانگیز تھی۔ اِس کی وجہ سے بہت سے اِسرائیلیوں نے گمراہ ہو کر یہوواہ کی عبادت کرنی چھوڑ دی تھی۔ اِس کے علاوہ اِس مذہب نے بےحیائی اور ظلم کی اِنتہا کر دی تھی۔ بعل کے مندر میں مرد اور عورتیں جسمفروشی کرتے تھے، ایسی رسمیں منائی جاتی تھیں جن میں دو سے زیادہ لوگ جنسی فعل کرتے تھے، یہاں تک کہ بچوں کی قربانی بھی چڑھائی جاتی تھی۔ یہ سب دیکھ کر یہوواہ خدا نے ایلیاہ کو بادشاہ اخیاب کے پاس بھیجا اور اُسے یہ پیغام دیا کہ ملک تب تک خشکسالی کا شکار رہے گا جب تک ایلیاہ اِس کے ختم ہونے کا اِعلان نہیں کریں گے۔ (1-سلا 17:1) کچھ سال بعد ایلیاہ دوبارہ اخیاب کے پاس گئے اور اُسے کہا کہ وہ لوگوں اور بعل کے نبیوں کو کوہِکرمل پر جمع کرے۔a
بعل کی پرستش کے حوالے سے جو کام کیے جاتے تھے، وہ ایک لحاظ سے آج بھی عام ہیں۔
8. یہ کیوں اہم ہے کہ ہم بعل کی پرستش کے بارے میں کہانی پر غور کریں؟
8 چونکہ آجکل بعل کے مندر اور قربانگاہیں نہیں ہیں اِس لیے شاید بعض لوگ یہ سوچیں کہ بعل کی پرستش کے بارے میں اِس کہانی پر غور کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ لیکن یہ محض ایک تاریخی کہانی نہیں ہے۔ (روم 15:4) لفظ ”بعل“ کا مطلب ”مالک“ یا ”آقا“ ہے۔ کیا آپ اِس بات سے اِتفاق نہیں کریں گے کہ آجکل بھی بہت سے لوگ خدا کو اپنا مالک تسلیم کرنے کی بجائے دوسرے مالکوں کی خدمت کرتے ہیں؟ مثال کے طور پر کئی لوگ زندگی میں اپنے پیشے، مالودولت، موج مستی اور جنسی تسکین کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور یوں اِن چیزوں کو اپنا مالک بنا لیتے ہیں۔ (متی 6:24؛ رومیوں 6:16 کو پڑھیں۔) اِس لحاظ سے دیکھا جائے تو بعل کی پرستش کے حوالے سے جو کام کیے جاتے تھے، وہ آج بھی عام ہیں۔ لہٰذا آئیں، کوہِکرمل پر ہونے والے واقعات پر غور کریں۔ ایسا کرنے سے ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں مدد ملے گی کہ ہم کس مالک کی خدمت کریں گے۔
”دو خیالوں میں ڈانوانڈول“
9. (الف) یہ ثابت کرنے کے لیے کہ بعل ایک جھوٹا دیوتا تھا، کوہِکرمل مناسب جگہ کیوں تھی؟ (فٹنوٹ کو بھی دیکھیں۔) (ب) ایلیاہ نے لوگوں سے کیا کہا؟
9 کوہِکرمل سے اِسرائیل کی سرزمین کی چاروں طرف کا نظارہ کِیا جا سکتا تھا۔ اِس پہاڑ سے قیسون کی وادی، وادی کے آگے موجود بڑے سمندر (بحیرۂروم) اور شمال میں پھیلے لبنان کے اُونچے پہاڑی سلسلوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔b البتہ جوںجوں دن کی روشنی پھیلی، اِس جگہ کی خستہحالی صاف دِکھائی دینے لگی۔ یہ ملک یہوواہ نے ابراہام کی اولاد کو دیا تھا جو کبھی بڑا سرسبزوشاداب ہوا کرتا تھا۔ لیکن اب سورج کی بےرحم کِرنیں اِس سرزمین کو جھلسا رہی تھیں اور اِس پر موت کے سائے منڈلا رہے تھے۔ اِس ملک کی بربادی کے ذمےدار خدا کے بندے ہی تھے۔ جب سب لوگ کوہِکرمل پر جمع ہو گئے تو ایلیاہ اُن کے پاس گئے اور اُن سے کہنے لگے: ”تُم کب تک دو خیالوں میں ڈانوانڈول رہو گے؟ اگر [یہوواہ] ہی خدا ہے تو اُس کے پیرو ہو جاؤ اور اگر بعلؔ ہے تو اُس کی پیروی کرو۔“—1-سلا 18:21۔
10. (الف) اِسرائیلی کس لحاظ سے ”دو خیالوں میں ڈانوانڈول“ تھے؟ (ب) اِسرائیلی کون سی اہم بات بھول گئے تھے؟
10 ایلیاہ کی اِس بات کا کیا مطلب تھا کہ ”تُم کب تک دو خیالوں میں ڈانوانڈول رہو گے؟“ دراصل اِسرائیلی اب تک اِس بات کو نہیں سمجھ پائے تھے کہ اُنہیں یہوواہ کی عبادت اور بعل کی پرستش میں سے کسی ایک کو چُننا ہوگا۔ اُن کا خیال تھا کہ وہ دونوں کو ایک ساتھ خوش کر سکتے ہیں یعنی وہ بعل کے لیے گھناؤنے کام کرنے کے ساتھ ساتھ یہوواہ خدا سے مدد بھی مانگ سکتے ہیں۔ شاید وہ یہ سوچ رہے تھے کہ بعل اُن کی فصلوں اور مویشیوں کو بڑھائے گا اور ”ربُالافواج [یہوواہ]“ جنگ میں اُن کی حفاظت کرے گا۔ (1-سمو 17:45) لیکن وہ لوگ ایک اہم بات کو بھول گئے تھے جسے آج بھی بہت سے لوگ نہیں سمجھتے۔ یہوواہ کے نزدیک یہ بات ناقابلِقبول، یہاں تک کہ نفرتانگیز ہے کہ ہم اُس کے ساتھ کسی اَور کی بھی عبادت کریں۔ وہ چاہتا ہے کہ صرف اُسی کی عبادت کی جائے اور بےشک وہ اِس عبادت کا حقدار بھی ہے۔—خروج 20:5 کو پڑھیں۔
11. ایلیاہ نے اِسرائیلیوں کو جو نصیحت کی، اُس پر غور کرنے سے ہمیں کس بات کا جائزہ لینے کی ترغیب ملتی ہے؟
11 اِسرائیلیوں کی حالت ایک ایسے شخص کی طرح تھی جو ایک ہی وقت میں دو کشتیوں میں سوار ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ آج بھی بہت سے لوگ ایسی ہی غلطی کرتے ہیں۔ وہ کچھ چیزوں کو اِتنی اہمیت دینے لگتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں یہوواہ کی خدمت پہلے مقام پر نہیں رہتی۔ ایلیاہ نے اِسرائیلیوں کو نصیحت کی کہ وہ ڈانوانڈول نہ رہیں۔ جب ہم اِس نصیحت پر غور کرتے ہیں تو ہمیں اپنا جائزہ لینے کی ترغیب ملتی ہے کہ ہماری زندگی میں کون سی چیزیں زیادہ اہم ہیں اور یہوواہ کی عبادت کو کون سا مقام حاصل ہے۔
جھوٹے معبود کا پردہ فاش
12، 13. (الف) ایلیاہ نے کون سی تجویز پیش کی؟ (ب) ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہم بھی ایلیاہ کی طرح خدا پر بھروسا رکھتے ہیں؟
12 ایلیاہ نے ایک تجویز پیش کی جس سے یہ ثابت ہو جانا تھا کہ سچا خدا کون ہے۔ بعل کے نبیوں کو ایک قربانگاہ بنانی تھی اور اِس پر قربانی کا جانور رکھنا تھا۔ پھر اُنہیں اپنے دیوتا سے دُعا کرنی تھی کہ وہ آگ نازل کر کے اِسے بھسم کر دے۔ ایلیاہ کو بھی ایسا ہی کرنا تھا۔ اُنہوں نے کہا: ”وہ خدا جو آگ سے جواب دے وہی خدا ٹھہرے۔“ ایلیاہ اچھی طرح جانتے تھے کہ سچا خدا کون ہے۔ اُن کا ایمان اِتنا مضبوط تھا کہ اُنہوں نے اپنے مخالفوں کو پہلے قربانی چڑھانے کا موقع دیا۔ لہٰذا بعل کے نبیوں نے قربانی کے لیے بیل چُنا اور بعل سے دُعا کرنی شروع کر دی۔c—1-سلا 18:24، 25۔
13 سچ ہے کہ آجکل معجزے نہیں ہوتے۔ لیکن یہوواہ کبھی نہیں بدلتا۔ اِس لیے ہم بھی ایلیاہ کی طرح اُس پر بھروسا رکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب لوگ ایسے نظریات پیش کرتے ہیں جو بائبل کی تعلیمات سے ٹکراتے ہیں تو ہم اُنہیں یہ موقع دینے سے نہیں گھبراتے کہ وہ پہلے اپنی رائے کا اِظہار کریں۔ پھر ہم اپنی عقل اور سمجھ پر بھروسا کرنے کی بجائے ایلیاہ کی طرح مدد کے لیے یہوواہ سے رُجوع کرتے ہیں۔ اور اِس سلسلے میں ہم خدا کے کلام کو اِستعمال کرتے ہیں جو ”معاملوں کو سدھارنے“ کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔—2-تیم 3:16۔
ایلیاہ جانتے تھے کہ بعل کی پرستش کرنے والے دھوکے کا شکار ہیں اور وہ چاہتے تھے کہ خدا کے بندے اِس دھوکے سے باہر نکل آئیں۔
14. ایلیاہ نے بعل کے نبیوں پر طنز کیسے کِیا اور کیوں؟
14 بعل کے نبیوں نے قربانی کے لیے ساری چیزیں تیار کر لیں اور پھر وہ اپنے دیوتا سے دُعا مانگنے لگے۔ وہ بار بار چلّاتے رہے: ”اَے بعلؔ ہماری سُن۔“ یہاں تک کہ اُنہیں اپنے دیوتا کو پکارتے گھنٹوں گزر گئے ”پر نہ کچھ آواز ہوئی اور نہ کوئی جواب دینے والا تھا۔“ دوپہر کے وقت ایلیاہ اُن کا مذاق اُڑانے لگے اور اُنہیں طنزیہ طور پر کہنے لگے کہ شاید بعل کے پاس اُن کی دُعا سننے کا وقت نہیں ہے یا شاید وہ کہیں سفر پر گیا ہوا ہے یا شاید وہ سو رہا ہے اور کسی کو اُسے جگانے کی ضرورت ہے۔ ایلیاہ نے اُن ڈھونگیوں سے کہا: ”بلند آواز سے پکارو۔“ ایلیاہ جانتے تھے کہ بعل کی پرستش کرنے والے دھوکے کا شکار ہیں اور وہ چاہتے تھے کہ خدا کے بندے اِس دھوکے سے باہر نکل آئیں۔—1-سلا 18:26، 27۔
15. بعل کے نبیوں کی مثال میں کون سی عبرت پائی جاتی ہے؟
15 ایلیاہ کی باتیں سُن کر بعل کے نبی اَور جنونی ہو گئے۔ وہ ”بلند آواز سے پکارنے لگے اور اپنے دستور کے مطابق اپنے آپ کو چھریوں اور نشتروں سے گھایل کر لیا یہاں تک کہ لہولہان ہو گئے۔“ لیکن اِس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہوا کیونکہ ”نہ کچھ آواز ہوئی نہ کوئی جواب دینے والا نہ توجہ کرنے والا تھا۔“ (1-سلا 18:28، 29) اصل میں بعل کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔ وہ محض ایک خیالی معبود تھا جسے شیطان نے لوگوں کو یہوواہ سے دُور کرنے کے لیے ایجاد کِیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہوواہ کے علاوہ کسی اَور کو اپنا مالک بنانے والوں کے ہاتھ مایوسی اور شرمندگی کے سوا کچھ نہیں آتا!—زبور 25:3؛ 115:4-8 کو پڑھیں۔
ایلیاہ کی دُعا کا شاندار جواب
16. (الف) جب ایلیاہ نے قربانگاہ کو دوبارہ بنایا تو یہ دیکھ کر اِسرائیلیوں کو کیا یاد آیا ہوگا؟ (ب) یہ کیسے ظاہر ہوا کہ خدا پر ایلیاہ کا بھروسا بہت مضبوط تھا؟
16 جب دن ڈھلا تو قربانی چڑھانے کی باری ایلیاہ کی آئی۔ اُنہوں نے یہوواہ کی ایک قربانگاہ کو دوبارہ بنایا جسے بِلاشُبہ اُن لوگوں نے ڈھا دیا تھا جو یہوواہ کی عبادت کا نامونشان مٹانا چاہتے تھے۔ اِس کے لیے ایلیاہ نے 12 پتھر اِستعمال کیے۔ یوں دس قبیلوں پر مشتمل اِسرائیل کی سلطنت کو غالباً یہ یاد آیا ہوگا کہ وہ آج بھی اُس شریعت کے پابند ہیں جو یہوواہ نے اِسرائیل کے بارہ قبیلوں کو دی تھی۔ پھر ایلیاہ نے قربانی کے جانور کو قربانگاہ پر رکھا اور سب چیزوں پر پانی اُنڈیل دیا جو شاید قریب واقع بحیرۂروم سے لیا گیا تھا۔ اِس کے علاوہ اُنہوں نے قربانگاہ کے گرد ایک گڑھا کھودا اور اِسے بھی پانی سے بھر دیا۔ ایسا کرنے سے اُنہوں نے قربانی کے بھسم ہونے کو مزید مشکل بنا دیا۔ اِس سے ظاہر ہوا کہ خدا پر ایلیاہ کا بھروسا کتنا مضبوط تھا!—1-سلا 18:30-35۔
ایلیاہ نے دُعا کی کہ یہوواہ لوگوں کے ”دلوں کو پھیر“ دے۔ اِس سے ظاہر ہوا کہ وہ اب بھی لوگوں کی فکر رکھتے تھے۔
17. (الف) ایلیاہ کی دُعا سے یہ کیسے ظاہر ہوا کہ اُن کی زندگی میں کون سی چیزیں اہم ہیں؟ (ب) دُعا کے سلسلے میں ہم ایلیاہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
17 جب سب کچھ تیار ہو گیا تو ایلیاہ نے یہوواہ سے دُعا کی۔ اُنہوں نے اِس دُعا میں اہم باتیں بڑے سادہ اور واضح الفاظ میں بیان کیں اور اِس دُعا سے ظاہر ہوا کہ ایلیاہ کی زندگی میں کون سی چیزیں سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ سب سے پہلے اُنہوں نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ بعل نہیں بلکہ یہوواہ ہی ”اِؔسرائیل میں . . . خدا ہے۔“ اِس کے بعد اُنہوں نے ظاہر کِیا کہ وہ محض یہوواہ کے ادنیٰ خادم ہیں اور ساری عزت اور تمجید کا حقدار صرف یہوواہ ہے۔ اپنی دُعا کے آخر میں ایلیاہ نے یہوواہ سے عرض کی کہ وہ لوگوں کے ”دلوں کو پھیر“ دے۔ اِس سے ظاہر ہوا کہ وہ اب بھی لوگوں کی فکر رکھتے تھے۔ (1-سلا 18:36، 37) حالانکہ اِسرائیلیوں کی نافرمانی کے نتائج بہت بھیانک نکلے تھے پھر بھی ایلیاہ کے دل میں اُن کے لیے محبت تھی۔ ہم بھی اپنی دُعا میں ایلیاہ کی طرح خاکساری ظاہر کر سکتے ہیں اور اِس خواہش کا اِظہار کر سکتے ہیں کہ یہوواہ کے نام کی بڑائی ہو۔ اِس کے علاوہ ہم دُعا میں اُن لوگوں کا بھی ذکر کر سکتے ہیں جو کسی مشکل سے دوچار ہیں۔
18، 19. (الف) یہوواہ نے ایلیاہ کی دُعا کا جواب کیسے دیا؟ (ب) ایلیاہ نے لوگوں کو کیا کرنے کا حکم دیا؟ (ج) بعل کے نبی رحم کے مستحق کیوں نہیں تھے؟
18 ایلیاہ کی دُعا سے پہلے شاید لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ بعل کی طرح یہوواہ بھی کچھ نہیں کر سکے گا۔ لیکن دُعا کے فوراً بعد کچھ ایسا ہوا جس سے شک کی کوئی گنجائش باقی نہ رہی۔ بائبل میں لکھا ہے: ”تب [یہوواہ] کی آگ نازل ہوئی اور اُس نے اُس سوختنی قربانی کو لکڑیوں اور پتھروں اور مٹی سمیت بھسم کر دیا اور اُس پانی کو جو کھائی میں تھا چاٹ لیا۔“ (1-سلا 18:38) یہ ایلیاہ کی دُعا کا نہایت شاندار جواب تھا! البتہ اِس پر لوگوں نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟
19 سب لوگ بلند آواز سے کہنے لگے: ”[یہوواہ] ہی خدا ہے! [یہوواہ] ہی خدا ہے!“ (1-سلا 18:39) آخرکار حقیقت سب کے سامنے آ چُکی تھی۔ لیکن لوگوں نے ابھی تک اپنے ایمان کا کوئی واضح ثبوت پیش نہیں کِیا تھا۔ دراصل اِس میں کوئی بڑی بات نہیں تھی کہ آسمان سے آگ نازل ہوتے دیکھ کر اُنہوں نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ یہوواہ ہی سچا خدا ہے۔ اِس لیے ایلیاہ نے اُنہیں کچھ ایسا کرنے کے لیے کہا جس سے وہ اپنے ایمان کا مظاہرہ کر سکتے تھے۔ یہ ایک ایسا کام تھا جو اُنہیں کئی سال پہلے کرنا چاہیے تھا۔ اُنہیں یہوواہ کی شریعت کی پابندی کرتے ہوئے جھوٹے نبیوں اور بُتپرستوں کو ہلاک کر دینا چاہیے تھا۔ (اِست 13:5-9) بعل کے نبی یہوواہ کے دُشمن تھے اور اُنہوں نے جان بُوجھ کر یہوواہ کی مرضی کے خلاف کام کیے تھے۔ کیا وہ کسی بھی طرح رحم کے مستحق تھے؟ ذرا سوچیں کہ کیا اُنہوں نے اُن معصوم بچوں پر رحم کِیا تھا جنہیں بعل کے حضور زندہ جلا دیا گیا تھا؟ (امثال 21:13 کو پڑھیں؛ یرم 19:5) وہ لوگ ہرگز اِس قابل نہیں تھے کہ اُن پر رحم کِیا جاتا۔ لہٰذا ایلیاہ نے اُنہیں قتل کرنے کا حکم دیا اور لوگوں نے ذرا بھی دیر کیے بغیر اُنہیں موت کے گھاٹ اُتار دیا۔—1-سلا 18:40۔
20. بعل کے نبیوں کے قتل کے حوالے سے لوگوں کا اِعتراض بےبنیاد کیوں ہے؟
20 آجکل بعض لوگ یہ اِعتراض کرتے ہیں کہ کوہِکرمل پر بعل کے نبیوں کے ساتھ جو کچھ کِیا گیا، وہ صحیح نہیں تھا۔ کچھ لوگ اِس وجہ سے پریشان ہو جاتے ہیں کہ اِنتہاپسند اِس واقعے کو بنیاد بنا کر مذہب کے نام پر دوسروں کو ظلموستم کا نشانہ بنا سکتے ہیں۔ یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ آجکل بہت سے لوگ مذہبی اِنتہاپسند ہیں۔ لیکن ایلیاہ اِنتہاپسند نہیں تھے۔ اُنہوں نے یہوواہ کے حکم پر بعل کے نبیوں کو ہلاک کِیا تھا۔ اِس کے علاوہ آجکل سچے مسیحی جانتے ہیں کہ وہ بُرے لوگوں کو ختم کرنے کے لیے ایلیاہ کی طرح اپنے ہاتھ میں تلوار نہیں اُٹھا سکتے۔ اِس کی بجائے وہ اِس ہدایت کو ذہن میں رکھتے ہیں جو یسوع مسیح نے پطرس کو دی تھی: ”اپنی تلوار واپس رکھ لیں کیونکہ جو تلوار چلاتے ہیں، اُنہیں تلوار سے ہلاک کِیا جائے گا۔“ (متی 26:52) ہم جانتے ہیں کہ یہوواہ خدا مستقبل میں اپنے بیٹے کے ذریعے تمام بُرے لوگوں کو ہلاک کر دے گا۔
21. مسیحی، ایلیاہ کی مثال پر کیسے عمل کر سکتے ہیں؟
21 سچے مسیحیوں کے طور پر ہمیں اپنے طرزِزندگی سے یہ ظاہر کرنا چاہیے کہ ہم مضبوط ایمان کے مالک ہیں۔ (یوح 3:16) اِس سلسلے میں ہم ایلیاہ اور اُن جیسے دیگر خدا کے بندوں کی مثالوں پر عمل کر سکتے ہیں۔ ایلیاہ نے صرف اور صرف یہوواہ کی عبادت کی اور دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی نصیحت کی۔ اُنہوں نے دلیری سے ایک ایسے مذہب کو بےنقاب کِیا جسے شیطان لوگوں کو یہوواہ سے دُور کرنے کے لیے اِستعمال کر رہا تھا۔ اُنہوں نے سچ سامنے لانے کے لیے اپنی عقل اور سمجھ پر بھروسا کرنے کی بجائے یہوواہ پر بھروسا رکھا۔ اُنہوں نے ڈٹ کر یہوواہ کی عبادت کی حمایت کی! دُعا ہے کہ ہم سب بھی ایلیاہ جیسا ایمان ظاہر کریں۔
a بکس ”ایلیاہ کے زمانے میں خشکسالی کا عرصہ کتنا لمبا تھا؟“ کو دیکھیں۔
b کوہِکرمل عام طور پر بڑا سرسبزوشاداب ہوتا تھا۔ سمندر سے آنے والی مرطوب ہوائیں اکثر یہاں بارش اور اوس کا باعث بنتی تھیں۔ چونکہ بعل کو بارش کا دیوتا سمجھا جاتا تھا اِس لیے یہ پہاڑ اُس کی پرستش کا خاص مقام تھا۔ مگر اِس وقت کوہِکرمل بنجر اور خشک پڑا تھا۔ لہٰذا یہ بعل کی پرستش کو جھوٹا ثابت کرنے کے لیے بالکل مناسب جگہ تھی۔
c یہ بات قابلِغور ہے کہ ایلیاہ نے بعل کے نبیوں سے کہا کہ وہ قربانی کا جانور تیار کریں لیکن ’آگ نیچے نہ دیں۔‘ بعض عالموں کا کہنا ہے کہ کبھی کبھار بُتپرست لوگ ایسی قربانگاہوں پر قربانیاں چڑھاتے تھے جن کے نیچے ایک خفیہ حصہ ہوتا تھا جس میں آگ چھپا کر رکھ دی جاتی تھی۔ ایسا اِس لیے کِیا جاتا تھا تاکہ دیکھنے والوں کو یہ لگے کہ آگ کسی دیوتا کی طرف سے نازل ہوئی ہے۔