یروشلیم—”بزرگ بادشاہ کا شہر“
”تُم . . . قسم نہ کھانا۔ . . . نہ یرؔوشلیم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے۔“—متی ۵:۳۴، ۳۵۔
۱، ۲. یروشلیم کی بابت کونسی بات بعض کو اُلجھن میں ڈال سکتی ہے؟
یروشلیم—اسکا نام ہی مختلف مذاہب کے لوگوں میں زبردست احساسات پیدا کر دیتا ہے۔ دراصل، ہم میں سے کوئی بھی اس قدیم شہر کو نظرانداز نہیں کر سکتا کیونکہ اکثراوقات خبروں میں اسکا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔ تاہم، افسوس کی بات ہے کہ متعدد رپورٹوں کے مطابق یروشلیم ہمیشہ سلامتی کی جگہ نہیں رہا۔
۲ اس سے بائبل کے بعض قارئین شاید اُلجھن میں پڑ جائیں۔ ماضی میں یروشلیم کا مخفف سالم تھا جسکا مطلب ”سلامتی“ ہے۔ (پیدایش ۱۴:۱۸؛ زبور ۷۶:۲؛ عبرانیوں ۷:۱، ۲) لہٰذا، آپ شاید سوچیں، ’حالیہ دہوں میں اس نام کے حامل شہر کے اندر سلامتی کا اسقدر فقدان کیوں رہا ہے؟‘
۳. ہم یروشلیم کی بابت قابلِاعتماد معلومات کہاں سے حاصل کر سکتے ہیں؟
۳ اس سوال کے جواب کیلئے ہمیں تاریخ کے اوراق سے قدیم زمانے کے یروشلیم کی بابت سیکھنا ہوگا۔ تاہم بعض شاید سوچیں کہ ’ہمارے پاس قدیم تاریخ کا مطالعہ کرنے کا وقت نہیں ہے۔‘ تاہم، یروشلیم کی ابتدائی تاریخ کا صحیح علم ہم سب کیلئے قابلِقدر ہے۔ کیوں، بائبل ان الفاظ میں آشکارا کرتی ہے: ”جتنی باتیں پہلے لکھی گئیں وہ ہماری تعلیم کے لئے لکھی گئیں تاکہ صبر سے اور کتابِمُقدس کی تسلی سے اُمید رکھیں۔“ (رومیوں ۱۵:۴) یروشلیم کی بابت بائبل کا علم ہمیں اطمینان—جیہاں، نہ صرف اس شہر کیلئے بلکہ ساری زمین کیلئے سلامتی کی اُمید—بخش سکتا ہے۔
”یہوواہ کے تخت“ کی جگہ
۴، ۵. خدا کے مقصد کی تکمیل میں یروشلیم کے بنیادی کردار کے لئے داؤد کیسے مددگار ثابت ہوا؟
۴ گیارویں صدی ق.س.ع. میں، یروشلیم نے ایک محفوظ اور پُرامن قوم کے دارالحکومت کے طور پر عالمی شہرت حاصل کر لی۔ یہوواہ خدا نے نوجوان داؤد کو اس قدیم قوم—اسرائیل—کے بادشاہ کے طور پر مسح کِیا تھا۔ اگرچہ یروشلیم حکومت کا مرکز تھا، داؤد اور اُس کے شاہی جانشین ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کی سلطنت کے تخت“ یا ”خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کے تخت“ پر بیٹھے تھے۔—۱-تواریخ ۲۸:۵؛ ۲۹:۲۳۔
۵ یہوداہ کے قبیلے کے ایک خداپرست اسرائیلی، داوُد نے بُتپرست یبوسیوں سے یروشلیم کو فتح کِیا تھا۔ اُس وقت یہ شہر صیون نامی ایک پہاڑی پر واقع تھا لیکن یہ نام خود یروشلیم کا مترادف بن گیا۔ وقت آنے پر داؤد اسرائیل کے ساتھ خدا کے عہد کے صندوق کو یروشلیم میں لایا جہاں اُسے خیمے میں رکھا گیا۔ کئی سال قبل خدا اسی پاک صندوق کے اُوپر کھڑے اَبر میں سے اپنے نبی موسیٰ سے ہمکلام ہوا تھا۔ (خروج ۲۵:۱، ۲۱، ۲۲؛ احبار ۱۶:۲؛ ۱-تواریخ ۱۵:۱-۳) صندوق خدا کی موجودگی کی علامت تھا کیونکہ یہوواہ ہی اسرائیل کا اصل بادشاہ تھا۔ لہٰذا، دہرے مفہوم میں یہ کہا جا سکتا تھا کہ یہوواہ یروشلیم شہر سے حکمرانی کرتا تھا۔
۶. یہوواہ نے داؤد اور یروشلیم کے سلسلے میں کیا وعدہ فرمایا؟
۶ یہوواہ نے داؤد سے وعدہ کِیا کہ اُسکے شاہی گھرانے کی سلطنت کبھی ختم نہیں ہوگی جسکی نمائندگی صیون یا یروشلیم سے ہوتی تھی۔ اسکا مطلب یہ تھا کہ داؤد کی اولاد میں سے کوئی خدا کے ممسوح—مسیحا یا مسیح—کے طور پر ہمیشہ تک حکمرانی کرنے کے حق کا وارث ہوگا۔a (زبور ۱۳۲:۱۱-۱۴؛ لوقا ۱:۳۱-۳۳) بائبل یہ بھی آشکارا کرتی ہے کہ ”یہوواہ کے تخت“ کا یہ مستقل وارث نہ صرف یروشلیم پر بلکہ تمام قوموں پر حکمرانی کریگا۔—زبور ۲:۶-۸؛ دانیایل ۷:۱۳، ۱۴۔
۷. بادشاہ داؤد نے سچی پرستش کو کیسے فروغ دیا؟
۷ خدا کے ممسوح، داؤد بادشاہ کو تخت سے اُتارنے کی کوششیں ناکام ہو گئیں۔ اسکی بجائے دشمن قومیں زیر ہو گئیں اور موعودہ ملک خدا کی مقررکردہ حدود تک پھیل گیا۔ داؤد نے اس صورتحال کو سچی پرستش کے فروغ کیلئے استعمال کِیا۔ اسی لئے داؤد کے بیشتر مزامیر یہوواہ کی صیون کے حقیقی بادشاہ کے طور پر بڑائی کرتے ہیں۔—۲-سموئیل ۸:۱-۱۵؛ زبور ۹:۱، ۱۱؛ ۲۴:۱، ۳، ۷-۱۰؛ ۶۵:۱، ۲؛ ۶۸:۱، ۲۴، ۲۹؛ ۱۱۰:۱، ۲؛ ۱۲۲:۱-۴۔
۸، ۹. بادشاہ سلیمان کی حکمرانی کے تحت یروشلیم میں سچی پرستش کی توسیع کیسے ہوئی؟
۸ داؤد کے بیٹے سلیمان کے عہدِحکومت میں یہوواہ کی پرستش عروج تک پہنچ گئی۔ سلیمان نے موریاہ کی پہاڑی کو (جو موجودہ حرمشریف کا علاقہ ہے) شہر میں شامل کرنے کیلئے یروشلیم کی شمال کی طرف توسیع کی۔ اس بلند مقام پر اُسے یہوواہ کی حمدوستائش کیلئے ایک عظیمالشان ہیکل تعمیر کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ عہد کے صندوق کو اُس ہیکل کے پاکترین مقام میں رکھا گیا۔—۱-سلاطین ۶:۱-۳۸۔
۹ اسرائیلی قوم نے یروشلیم میں قائم یہوواہ کی سچی پرستش کی پورے دل سے حمایت کرنے سے سلامتی کا تجربہ کِیا۔ صحائف بڑی خوبصورتی سے اس حالت کو بیان کرتے ہیں: ”یہوؔداہ اور اؔسرائیل کے لوگ کثرت میں سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند تھے اور کھاتے پیتے اور خوش رہتے تھے۔ . . . اور اُس کے چوگرد سب اطراف میں سب سے اُس [سلیمان] کی صلح تھی۔ اور . . . یہوؔداہ اور اؔسرائیل کا ایک ایک آدمی اپنی تاک اور اپنے انجیر کے درخت کے نیچے . . . امن سے رہتا تھا۔“—۱-سلاطین ۴:۲۰، ۲۴، ۲۵۔
۱۰، ۱۱. اَثریات سلیمان کے عہدِحکومت میں یروشلیم کی بابت بائبل کے بیان کی تصدیق کیسے کرتے ہیں؟
۱۰ اَثریاتی تحقیقات سلیمان کے خوشحال دورِحکومت کی بابت اس بیان کی حمایت کرتی ہیں۔ اپنی کتاب دی آرکیالوجی آف دی لینڈ آف ازرائیل میں پروفیسر یوحنان ہارونی بیان کرتا ہے: ”تمام اطراف سے شاہی دربار میں آنے والی دولت اور بڑھتی ہوئی تجارت نے مادی خوشحالی کے ہر حلقے میں تیز اور نمایاں انقلاب برپا کر دیا۔ . . . مادی خوشحالی میں تبدیلی نہ صرف سامانِعشرت بلکہ خاص طور پر فنِکوزہگری میں بھی قابلِغور تھی۔ ظروفسازی اور اُنہیں آگ میں پکانے کے معیار میں حیرانکُن ترقی واقع ہوئی۔“
۱۱ اسی طرح جیری ایم. لینڈے نے لکھا: ”سلیمان کے عہدِحکومت میں صرف تین دہائیوں کے اندر اسرائیل کی مادی خوشحالی میں اسقدر اضافہ ہو گیا کہ گزشتہ دو صدیوں میں ایسا نہیں ہوا تھا۔ سلیمانی طبقات میں ہمیں یادگار عمارتوں، بڑے بڑے فصیلدار شہروں، خوشحال لوگوں کی بڑی نفاست سے تعمیرکردہ رہائشگاہوں، ظروفسازی کے فن میں بےپناہ ترقی کے آثار ملتے ہیں۔ ہمیں دُوراُفتادہ ممالک میں تیارکردہ مصنوعات کے آثار بھی ملتے ہیں جو مستحکم بینالاقوامی تجارت کی علامت ہیں۔“—دی ہاؤس آف ڈیوڈ۔
سلامتی سے بربادی تک
۱۲، ۱۳. یروشلیم میں سچی پرستش کو مزید فروغ کیوں نہ حاصل ہوا؟
۱۲ یہوواہ کی مُقدس ہیکل کے شہر، یروشلیم کی سلامتی اور خوشحالی، دُعا کیلئے موزوں موضوعات تھے۔ داؤد نے لکھا: ”یرؔوشلیم کی سلامتی کی دُعا کرو۔ وہ جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں اقبالمند ہونگے۔ تیری فصیل کے اندر سلامتی اور تیرے محلوں میں اقبالمندی ہو۔ مَیں اپنے بھائیوں اور دوستوں کی خاطر اب کہونگا تجھ میں سلامتی رہے۔“ (زبور ۱۲۲:۶-۸) سلیمان کو اس پُرامن شہر میں عظیمالشان ہیکل کی تعمیر کا شرف حاصل ہوا توبھی اُس نے آخر میں بہت سی بُتپرست عورتوں سے شادی کر لی۔ اُسکے بڑھاپے میں اُنہوں نے اُسے اُس زمانے کے جھوٹے معبودوں کی پرستش کو فروغ دینے کیلئے پھسلا لیا۔ اس برگشتگی کا پوری قوم پر گہرا اثر ہوا جس سے اسکی اور اسکے باشندوں کی حقیقی سلامتی جاتی رہی۔—۱-سلاطین ۱۱:۱-۸؛ ۱۴:۲۱-۲۴۔
۱۳ سلیمان کے بیٹے رحبعام کی حکومت کے شروع ہی میں دس قبیلوں نے بغاوت کر کے اسرائیل کی شمالی سلطنت کو تشکیل دیا۔ اُن کی بُتپرستی کی وجہ سے خدا نے ارام کو اُس سلطنت کا تختہ اُلٹ دینے کی اجازت دی۔ (۱-سلاطین ۱۲:۱۶-۳۰) یہوداہ کی دو قبائیلی جنوبی سلطنت یروشلیم ہی میں قائم رہی۔ تاہم ایک وقت آیا کہ وہ بھی سچی پرستش سے منحرف ہو گئے لہٰذا خدا نے اس سرکش شہر کو بھی ۶۰۷ ق.س.ع. میں بابلیوں کے ہاتھوں تباہ کرا دیا۔ یہودی جلاوطن بابل میں ۷۰ سال تک غلامی کی زنجیروں میں جکڑے رہے۔ بعدازاں، خدا کی رحمت سے اُنہیں یروشلیم واپس آنے اور سچی پرستش کو بحال کرنے کا موقع حاصل ہوا۔—۲-تواریخ ۳۶:۱۵-۲۱۔
۱۴، ۱۵. بابلی جلاوطنی کے بعد یروشلیم نے ایک بار پھر بنیادی حیثیت کیسے اختیار کر لی مگر کس تبدیلی کیساتھ؟
۱۴ ستر سال کی زبوںحالی کے بعد ویران عمارتوں میں اونٹکٹارے اُگ چکے ہونگے۔ یروشلیم کی فصیل گِر چکی تھی اور جہاں کبھی پھاٹک اور ستون ہوا کرتے تھے اب وہاں بڑے بڑے شگاف تھے۔ تاہم، واپس آنے والے یہودیوں نے ہمت کی۔ وہ پُرانی ہیکل کی جگہ پر ایک مذبح بنا کر ہر روز یہوواہ کے حضور قربانیاں گذراننے لگے۔
۱۵ یہ اُمیدافزا آغاز تھا مگر یہ بحالشُدہ یروشلیم دوبارہ کبھی بھی ایسی حکومت کا دارالحکومت نہ بن سکا جس کا بادشاہ داؤدکی نسل سے ہوتا تھا۔ اس کی بجائے، یہودیوں پر بابل کو فتح کرنے والوں کی طرف سے مقررکردہ گورنر حکومت کرتا تھا اور فارسی سرداروں کو خراج بھی دینا پڑتا تھا۔ (نحمیاہ ۹:۳۴-۳۷) ایسی ”پامال“ حالت کے باوجود ساری زمین پر یروشلیم ہی ایسا شہر تھا جسے یہوواہ خدا کی کرمفرمائی حاصل تھی۔ (لوقا ۲۱:۲۴) سچی پرستش کے مرکز کی حیثیت سے اس نے شاہ داؤد کی نسل کے وسیلے ساری زمین پر اپنی حاکمیت کو عمل میں لانے کے لئے خدا کے حق کی نمائندگی بھی کی تھی۔
جھوٹے مذہبی ہمسایوں کی طرف سے مخالفت
۱۶. بابل سے واپس آنے والے یہودیوں نے یروشلیم کی بحالی کا کام کیوں منقطع کر دیا تھا؟
۱۶ جلاوطنی سے یروشلیم واپس لوٹنے والے یہودیوں نے فوری طور پر نئی ہیکل کی بنیاد رکھی۔ تاہم گردونواح میں بسنے والے جھوٹے مذہب کے پیروکاروں نے فارس کے بادشاہ ارتخششتا کو بہتانآمیز خط میں کہا کہ یہودی بغاوت کر دینگے۔ اسکے جواب میں ارتخششتا نے یروشلیم کی تعمیر پر پابندی لگا دی۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ اگر آپ اُس وقت شہر میں ہوتے تو آپ یہ ضرور سوچتے کہ آئندہ کیا ہوگا۔ نتیجتاً، یہودیوں نے ہیکل کی تعمیر کا کام روک دیا اور اپنے مادی مفادات کے حصول میں لگ گئے۔—عزرا ۴:۱۱-۲۴؛ حجی ۱:۲-۶۔
۱۷، ۱۸. کن ذرائع سے یہوواہ نے یروشلیم کی ازسرِنو تعمیر کا بندوبست کِیا؟
۱۷ اُنکی واپسی سے کوئی ۱۷ سال بعد، خدا نے اپنے لوگوں کی سوچ کو درست کرنے کیلئے حجی اور زکریاہ نبی کو برپا کِیا۔ تائب یہودیوں نے ہیکل کی تعمیر کا کام دوبارہ شروع کر دیا۔ اسی اثنا میں، دارا، فارس کا بادشاہ بن چکا تھا۔ اُس نے یروشلیم کی ہیکل کی ازسرِنو تعمیر کی بابت شاہ خورس کے فرمان کی تصدیق کی۔ دارا نے یہودیوں کے ہمسایوں کو خط ارسال کِیا اور اُنہیں متنبہ کِیا کہ ’یروشلیم سے دُور رہیں‘ اور بادشاہ کے خراج سے مالی امداد کریں تاکہ تعمیر کا کام مکمل ہو سکے۔—عزرا ۶:۱-۱۳۔
۱۸ یہودیوں نے اپنی واپسی کے ۲۲ویں سال میں ہیکل کو مکمل کر لیا۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ بڑی خوشی اور شادمانی کا موقع تھا۔ تاہم، یروشلیم اور اسکی فصیلیں ابھی تک کھنڈر ہی تھیں۔ لہٰذا ”نحمیاؔہ حاکم اور عزؔرا کاہن اور فقیہ کے دنوں“ میں شہر پر پھر توجہ دی گئی۔ (نحمیاہ ۱۲:۲۶، ۲۷) بدیہی طور پر، پانچویں صدی ق.س.ع. کے اختتام تک یروشلیم کو اُس قدیم دُنیا کے ممتاز شہر کے طور پر دوبارہ مکمل تعمیر کر لیا گیا تھا۔
مسیحا کا ظہور ہوتا ہے!
۱۹. مسیحا نے یروشلیم کی منفرد حیثیت کو کیسے تسلیم کِیا؟
۱۹ اب آئیے چند صدیاں آگے ایک عالمگیر اہمیت کے حامل موقع، یسوع مسیح کی پیدائش پر چلیں۔ یہوواہ خدا کے فرشتے نے یسوع کی کنواری ماں سے کہا: ”خدا اُس کے باپ داؤد کا تخت اُسے دے گا . . . اور اُس کی بادشاہی کا آخر نہ ہوگا۔“ (لوقا ۱:۳۲، ۳۳) کئی سال بعد یسوع نے مشہور پہاڑی وعظ پیش کِیا۔ اس میں اُس نے کئی موضوعات کی بابت حوصلہافزائی اور مشورت فراہم کی۔ مثال کے طور پر، اُس نے اپنے سامعین کو تاکید کی کہ خدا کے حضور اپنی قسموں کو پورا کریں مگر یہ احتیاط بھی کریں کہ بیجا قسم اُٹھانے کی غلطی نہ کریں۔ یسوع نے کہا: ”تُم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ جھوٹی قسم نہ کھانا بلکہ اپنی قسمیں خداوند کے لئے پوری کرنا۔ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہوں کہ بالکل قسم نہ کھانا۔ نہ تو آسمان کی کیونکہ وہ خدا کا تخت ہے۔ نہ زمین کی کیونکہ وہ اُس کے پاؤں کی چوکی ہے۔ نہ یرؔوشلیم کی کیونکہ وہ بزرگ بادشاہ کا شہر ہے۔“ (متی ۵:۳۳-۳۵) یہ بات قابلِغور ہے کہ یسوع نے یروشلیم کی منفرد حیثیت کو تسلیم کِیا جس سے اُس نے صدیوں تک فائدہ اُٹھایا تھا۔ جیہاں، یہ ”بزرگ بادشاہ،“ یہوواہ خدا کا ”شہر تھا۔“
۲۰، ۲۱. یروشلیم میں آباد بیشتر لوگوں کے رجحان میں کونسی ڈرامائی تبدیلی رُونما ہوئی؟
۲۰ اپنی زمینی زندگی کے آخر میں یسوع نے یروشلیم کے باشندوں کے سامنے خود کو اُنکے مقررہ ممسوح بادشاہ کے طور پر پیش کِیا۔ اس ہیجانخیز موقع سے متاثر ہوکر بہتیروں نے خوشی سے یہ نعرہ مارا: ”مبارک ہے وہ جو خداوند [”یہوواہ،“ اینڈبلیو] کے نام سے آتا ہے۔ مبارک ہے ہمارے باپ داؔؤد کی بادشاہی جو آ رہی ہے۔“—مرقس ۱۱:۱-۱۰؛ یوحنا ۱۲:۱۲-۱۵۔
۲۱ تاہم، ایک ہفتے کے اندر ہی اندر یہی بِھیڑ یروشلیم کے مذہبی پیشواؤں کے بہکاوے میں آ کر یسوع کے خلاف ہو گئی۔ اُس نے آگاہ کِیا کہ یروشلیم کا شہر اور پوری قوم خدا کی نظر میں اپنی مقبول حیثیت کھو بیٹھے گی۔ (متی ۲۱:۲۳، ۳۳-۴۵: ۲۲:۱-۷) مثال کے طور پر، یسوع نے بیان کِیا: ”اَے یرؔوشلیم! اَے یرؔوشلیم! تُو جو نبیوں کو قتل کرتا اور جو تیرے پاس بھیجے گئے انکو سنگسار کرتا ہے! کتنی بار مَیں نے چاہا کہ جسطرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اسی طرح مَیں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کر لوں مگر تُم نے نہ چاہا! دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے۔“ (متی ۲۳:۳۷، ۳۸) یسوع کے مخالفین نے ۳۳ س.ع. کی فسح کے موقع پر اُسے یروشلیم کے باہر غیرمنصفانہ طور پر ہلاک کروا ڈالا۔ تاہم، یہوواہ نے اپنے ممسوح کو زندہ کرکے اُسے آسمانی صیون میں غیرفانی روحانی زندگی کیساتھ جلال بخشا، ایک ایسا کارِنمایاں جس سے ہم مستفید ہو سکتے ہیں۔—اعمال ۲:۳۲-۳۶۔
۲۲. یسوع کی موت کے بعد، یروشلیم کی بابت بیشتر حوالہجات کا اطلاق کن پر ہونا تھا؟
۲۲ اُس وقت سے لیکر، صیون یا یروشلیم کی بابت بیشتر غیرتکمیلشُدہ پیشینگوئیوں کا اطلاق آسمانی انتظامات یا یسوع کے ممسوح پیروکاروں پر ہوتا ہے۔ (زبور ۲:۶-۸؛ ۱۱۰:۱-۴؛ یسعیاہ ۲:۲-۴؛ ۶۵:۱۷، ۱۸؛ زکریاہ ۱۲:۳؛ ۱۴:۱۲، ۱۶، ۱۷) ”یرؔوشلیم“ یا ”صیوؔن“ کی بابت یسوع کی موت کے بعد تحریر ہونے والے بیشتر حوالہجات واضح طور پر علامتی مفہوم رکھتے ہیں اور حقیقی شہر یا مقام پر عائد نہیں ہوتے۔ (گلتیوں ۴:۲۶؛ عبرانیوں ۱۲:۲۲؛ ۱-پطرس ۲:۶؛ مکاشفہ ۳:۱۲؛ ۱۴:۱؛ ۲۱:۲، ۱۰) دانیایل اور یسوع مسیح کی پیشینگوئی کے مطابق جب ۷۰ س.ع. میں رومی فوجوں نے یروشلیم کو تباہ کر دیا تو اس بات کا حتمی ثبوت سامنے آ گیا کہ یہ اب ”بزرگ بادشاہ کا شہر“ نہیں رہا تھا۔ (دانیایل ۹:۲۶؛ لوقا ۱۹:۴۱-۴۴) بائبل مصنّفین یا خود یسوع نے کوئی ایسی پیشینگوئی نہیں کی تھی کہ زمینی یروشلیم کو پھر کبھی یہوواہ خدا کی پہلی جیسی کرمفرمائی حاصل ہوگی۔—گلتیوں ۴:۲۵؛ عبرانیوں ۱۳:۱۴۔
دائمی سلامتی کی پیشگی جھلک
۲۳. اسکے باوجود ہمیں یروشلیم میں دلچسپی کیوں رکھنی چاہئے؟
۲۳ زمینی یروشلیم کی ابتدائی تاریخ کا جائزہ لینے کے بعد کوئی بھی شخص اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ بادشاہ سلیمان کے پُرامن دورِحکومت میں یہ شہر اپنے نام کے معنی کے عین مطابق ”دوچند سلامتی کا گہوارہ [یا بنیاد]“ ثابت ہوا۔ تاہم، وہ تو اُس سلامتی اور خوشحالی کی محض پیشگی جھلک تھی جس سے خدا سے محبت رکھنے والے فردوس میں تبدیل ہو جانے والی زمین پر جلد لطف اُٹھائینگے۔—لوقا ۲۳:۴۳۔
۲۴. ہم سلیمان کے دورِحکومت کی حالتوں سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۲۴ زبور ۷۲ اُن حالتوں کی تصویرکشی کرتا ہے جو سلیمان کے عہد میں عام تھیں۔ تاہم یہ خوبصورت گیت مسیحا، یسوع مسیح کی آسمانی حکومت کے تحت نوعِانسان کو حاصل ہونے والی برکات کا نبوّتی منظر بھی ہے۔ اُسکی بابت زبورنویس نے گیت میں یوں کہا: ”اُسکے ایّام میں صادق برومند ہونگے اور جب تک چاند قائم ہے خوب امن رہیگا۔ . . . کیونکہ وہ محتاج کو جب وہ فریاد کرے اور غریب کو جسکا کوئی مددگار نہیں چھڑائیگا۔ وہ غریب اور محتاج پر ترس کھائیگا اور محتاجوں کی جان کو بچائیگا۔ وہ فدیہ دیکر اُنکی جان کو ظلم اور جبر سے چھڑائے گا اور اُن کا خون اُس کی نظر میں بیشقیمت ہوگا۔ زمین میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر اناج کی افراط ہوگی۔“—زبور ۷۲:۷، ۸، ۱۲-۱۴، ۱۶۔
۲۵. ہمیں یروشلیم کی بابت مزید سیکھنے کی خواہش کیوں رکھنی چاہئے؟
۲۵ یروشلیم یا زمین کے کسی بھی خطے میں آباد خدا سے محبت رکھنے والے لوگوں کیلئے یہ الفاظ کتنا اطمینان اور اُمید فراہم کرتے ہیں! آپ بھی اُن لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جو خدا کی مسیحائی بادشاہت کے تحت عالمگیر سلامتی سے لطف اُٹھائینگے۔ یروشلیم کے ماضی کا علم نوعِانسان کیلئے خدا کے مقصد کو سمجھنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے۔ اگلے مضمون بابلی جلاوطنی سے یہودیوں کی واپسی کے بعد ساتویں اور آٹھویں دہائیوں میں رُونما ہونے والے واقعات پر توجہ دلائینگے۔ یہ ایسے تمام لوگوں کو اطمینان فراہم کرتا ہے جو بزرگ بادشاہ، یہوواہ خدا کی قابلِقبول طریقے سے پرستش کرنا چاہتے ہیں۔
[فٹنوٹ]
a ”مسیحا“ (عبرانی لفظ سے) اور ”مسیح“ (یونانی سے) مشتق ہے اور ان دونوں القاب کا مطلب ”ممسوح“ ہے۔
کیا آپکو یاد ہے؟
◻یروشلیم ”یہوواہ کے تخت“ کی جگہ کیسے بن گیا؟
◻سچی پرستش کے فروغ میں سلیمان نے کیا اہم کردار ادا کِیا؟
◻ہم کیسے جانتے ہیں کہ یروشلیم یہوواہ کی پرستش کا مرکز نہ رہا؟
◻ہم یروشلیم کی بابت مزید سیکھنے میں دلچسپی کیوں رکھتے ہیں؟
[صفحہ 10 پر تصویر]
داؤد کا شہر جنوبی پہاڑی سلسلے تک محدود تھا مگر سلیمان نے اسی شہر کو شمال تک وسیع کر دیا اور ہیکل تعمیر کی
[تصویر کا حوالہ]
.Pictorial Archive )Near Eastern History( Est
[صفحہ 8 پر تصویر کا حوالہ]
.Pictorial Archive )Near Eastern History( Est