باب نمبر 11
وہ چوکس اور مشتاق رہے
1، 2. (الف) ایلیاہ کو ایسا کون سا کام کرنا تھا جو یقیناً اُن کے لیے ناگوار تھا؟ (ب) ایلیاہ اور اخیاب میں کس لحاظ سے زمین آسمان کا فرق تھا؟
ایلیاہ تنہائی میں اپنے آسمانی باپ سے دُعا کرنا چاہتے تھے۔ لیکن بہت سے لوگ اُن کی خوشامد کے لیے اُن کے پاس آ رہے تھے کیونکہ تھوڑی ہی دیر پہلے اُنہوں نے دیکھا تھا کہ ایلیاہ کے کہنے پر یہوواہ نے آسمان سے آگ نازل کی تھی۔ البتہ اِس سے پہلے کہ ایلیاہ کوہِکرمل کی چوٹی پر جا کر یہوواہ سے دُعا کرتے، اُنہیں ایک ایسا کام کرنا تھا جو یقیناً اُن کے لیے ناگوار رہا ہوگا۔ اُنہیں بادشاہ اخیاب سے بات کرنی تھی۔
2 اِن دونوں آدمیوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اخیاب اپنا شاہی لباس پہنے ہوئے تھا جبکہ ایلیاہ نے وہ سادہ سا لباس پہن رکھا تھا جو عام طور پر نبی پہنا کرتے تھے۔ یہ لباس غالباً کسی جانور کی کھال یا اُونٹ یا بکرے کے بالوں سے بنا ہوا تھا۔ البتہ اُن دونوں کے لباس ہی نہیں بلکہ شخصیت بھی بہت مختلف تھی۔ اخیاب ایک لالچی شخص تھا، بڑی جلدی دوسروں کی باتوں میں آ جاتا تھا اور خدا سے برگشتہ ہو چُکا تھا۔ اِس کے برعکس ایلیاہ نیک، دلیر اور مضبوط ایمان کے مالک تھے۔ اُس دن بعد میں جو واقعات پیش آنے والے تھے، اُن سے ایلیاہ اور اخیاب کی شخصیت کا فرق اَور نمایاں ہو جانا تھا۔
3، 4. (الف) کوہِکرمل پر ہونے والے واقعات سے کیا ثابت ہو گیا؟ (ب) اِس باب میں ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
3 بادشاہ اخیاب اور بعل کی پرستش کرنے والے دیگر لوگوں کے لیے وہ دن بڑا بُرا ثابت ہوا تھا۔ اخیاب اور اُس کی بیوی ملکہ اِیزِبل اِسرائیل کی دس قبیلوں پر مشتمل سلطنت میں جھوٹے مذہب کو فروغ دے رہے تھے لیکن اُس دن اُس مذہب کا پردہ فاش ہو گیا تھا۔ سب کے سامنے یہ ثابت ہو گیا تھا کہ بعل ایک جھوٹا دیوتا ہے۔ بعل کے نبیوں نے پاگلوں کی طرح اُس سے دُعائیں کیں اور خود کو اِس حد تک گھائل کر لیا کہ لہولہان ہو گئے۔ لیکن اُن کا دیوتا آگ سے اُس قربانی کو بھسم نہ کر سکا جو اُنہوں نے تیار کی تھی۔ اور پھر جب ایلیاہ نے بعل کے 450 نبیوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تو وہ بےجان معبود اُن کی حفاظت بھی نہ کر سکا۔ لیکن بعل ایک اَور کام کرنے میں بھی ناکام ہو گیا تھا۔ تین سال سے زیادہ عرصہ ہو چلا تھا کہ بعل کے نبی اُس سے منت کر رہے تھے کہ وہ ملک کو خشکسالی سے نجات دِلائے، پر بعل ایسا کچھ بھی نہیں کر سکا تھا۔ مگر بہت جلد یہوواہ خدا خشکسالی کو ختم کر کے یہ ظاہر کرنے والا تھا کہ وہی سچا خدا ہے۔—1-سلا 16:30–17:1؛ 18:1-40۔
4 لیکن یہوواہ نے خشکسالی کو کب ختم کِیا؟ جب تک یہوواہ نے بارش نہیں برسائی، اُس وقت تک ایلیاہ نے کیا کِیا؟ اور ہم ایمان کے حوالے سے اُن سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ آئیں، دیکھیں کہ ایلیاہ کی کہانی میں آگے کیا ہوا۔—1-سلاطین 18:41-46 کو پڑھیں۔
دُعا کے حوالے سے ایلیاہ کی عمدہ مثال
5. (الف) ایلیاہ نے اخیاب سے کیا کرنے کو کہا؟ (ب) کیا اخیاب نے اُس دن ہونے والے واقعات سے کوئی عبرت حاصل کی تھی؟
5 ایلیاہ، اخیاب کے پاس گئے اور اُنہوں نے اُس سے کہا: ”کھا اور پی کیونکہ کثرت کی بارش کی آواز ہے۔“ کیا اُس بُرے بادشاہ نے اُس دن ہونے والے واقعات سے کوئی عبرت حاصل کی تھی؟ بائبل میں ہمیں ایسا کوئی بیان نہیں ملتا کہ بادشاہ نے توبہ کی یا یہوواہ کی معافی اور قُربت حاصل کرنے کے لیے ایلیاہ سے مدد مانگی۔ وہ بس ”کھانے پینے کو اُوپر چلا گیا۔“ (1-سلا 18:41، 42) لیکن ایلیاہ نے کیا کِیا؟
6، 7. ایلیاہ نے کس بات کے لیے دُعا کی اور کیوں؟
6 بائبل میں لکھا ہے: ”ایلیاؔہ کرؔمل کی چوٹی پر چڑھ گیا اور زمین پر سرنگوں ہو کر اپنا مُنہ اپنے گھٹنوں کے بیچ کر لیا۔“ جب اخیاب اپنا پیٹ بھرنے چلا گیا تو ایلیاہ کو اپنے آسمانی باپ سے دُعا کرنے کا موقع مل گیا۔ ذرا غور کریں کہ دُعا کرتے وقت ایلیاہ کا جو انداز تھا، اُس سے کتنی خاکساری ظاہر ہوتی ہے۔ وہ زمین پر اِتنا جھک گئے کہ اُن کا سر اُن کے گھٹنوں کو چُھو رہا تھا۔ ایلیاہ نے کس بات کے لیے دُعا کی؟ یعقوب 5:18 میں بتایا گیا ہے کہ ایلیاہ نے یہوواہ سے دُعا کی کہ خشکسالی ختم ہو جائے۔ ایسا لگتا ہے کہ ایلیاہ اُس وقت یہی دُعا کر رہے تھے جب وہ کوہِکرمل کی چوٹی پر موجود تھے۔
7 ایلیاہ کے دُعا کرنے سے پہلے یہوواہ اُن سے یہ کہہ چُکا تھا: ”مَیں زمین پر مینہ برساؤں گا۔“ (1-سلا 18:1) لہٰذا جب ایلیاہ نے یہوواہ سے بارش کے لیے دُعا کی تو دوسرے لفظوں میں وہ یہوواہ سے یہ کہہ رہے تھے کہ اُس کی مرضی ہو۔ تقریباً 1000 سال بعد یسوع مسیح نے بھی اپنے پیروکاروں کو یہ سکھایا کہ وہ اپنی دُعاؤں میں اِس بات کو شامل کریں کہ خدا کی مرضی ہو۔—متی 6:9، 10۔
8. ہم دُعا کرنے کے حوالے سے ایلیاہ سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
8 ہم دُعا کے حوالے سے ایلیاہ سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ اُن کے نزدیک سب سے اہم بات یہ تھی کہ اُن کے آسمانی باپ کی مرضی ہو۔ جب ہم دُعا کرتے ہیں تو ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ”ہم [خدا] کی مرضی کے مطابق جو کچھ مانگیں گے، وہ ہماری سنے گا۔“ (1-یوح 5:14) لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا ہماری دُعاؤں کو قبول فرمائے تو ہمیں اُس کی مرضی کے بارے میں علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اِس کے لیے ہمیں باقاعدگی سے اُس کے کلام کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ایلیاہ اِس لیے بھی خشکسالی کا خاتمہ چاہتے تھے کیونکہ اِس کی وجہ سے اُن کے ملک کے لوگوں کو بڑی تکلیف سہنی پڑی تھی۔ ہماری دُعاؤں سے بھی یہ ظاہر ہونا چاہیے کہ ہم دوسروں کی بھلائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اپنی دُعا میں ایلیاہ نے غالباً اُس معجزے کے لیے یہوواہ کا شکر بھی ادا کِیا ہوگا جو اُس نے تھوڑی دیر پہلے کِیا تھا۔ جب ہم دُعا کرتے ہیں تو ہمیں بھی یہوواہ کی برکتوں کے لیے اُس کا شکر ادا کرنا چاہیے۔—2-کُرنتھیوں 1:11؛ فِلپّیوں 4:6 کو پڑھیں۔
ایلیاہ نے خدا پر یقین رکھا اور چوکس رہے
9. (الف) ایلیاہ نے اپنے خادم سے کیا کرنے کو کہا؟ (ب) ہمیں ایلیاہ کے بارے میں کون سی دو اہم باتیں پتہ چلتی ہیں؟
9 ایلیاہ کو اِس بات کا یقین تھا کہ یہوواہ خشکسالی کو ختم کر دے گا۔ لیکن اُنہیں یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ ایسا کب کرے گا۔ اِنتظار کے اِس وقت میں ایلیاہ نے کیا کِیا؟ بائبل میں لکھا ہے کہ ایلیاہ نے ”اپنے خادم سے کہا ذرا اُوپر جا کر سمندر کی طرف تو نظر کر۔ سو اُس نے اُوپر جا کر نظر کی اور کہا وہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ اُس نے کہا پھر سات بار جا۔“ (1-سلا 18:43) ایلیاہ کی مثال سے دو اہم باتیں پتہ چلتی ہیں۔ ایک بات یہ ہے کہ اُنہیں پورا یقین تھا کہ یہوواہ بارش برسانے کا اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا۔ اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ چوکس رہے۔
ایلیاہ بڑے اِشتیاق سے کسی ایسی نشانی کی تلاش میں رہے جس سے ظاہر ہو کہ یہوواہ بارش برسانے والا ہے۔
10، 11. (الف) ایلیاہ نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ وہ یہوواہ کے وعدے پر پورا یقین رکھتے تھے؟ (ب) ہم ایلیاہ کی طرح یہوواہ پر مضبوط ایمان کیوں رکھ سکتے ہیں؟
10 چونکہ ایلیاہ کو یہوواہ کے وعدے پر پورا یقین تھا اِس لیے وہ بڑے اِشتیاق سے کسی ایسی نشانی کی تلاش میں رہے جس سے ظاہر ہو کہ یہوواہ بارش برسانے والا ہے۔ اُنہوں نے اپنے خادم کو کسی اُونچی جگہ پر یہ جائزہ لینے کے لیے بھیجا کہ کیا بارش کے کوئی آثار نظر آ رہے ہیں۔ اُس خادم نے واپس آ کر یہ مایوسکُن خبر سنائی: ”کچھ بھی نہیں ہے۔“ آسمان بالکل صاف تھا اور بادلوں کا کوئی نامونشان نہیں تھا۔ لیکن یہاں ایک بات قابلِغور ہے۔ یاد کریں کہ تھوڑی ہی دیر پہلے ایلیاہ نے بادشاہ اخیاب سے کہا تھا کہ وہ ”کثرت کی بارش کی آواز“ سُن رہے ہیں۔ لیکن اگر آسمان پر دُور دُور تک بادل نظر نہیں آ رہے تھے تو پھر ایلیاہ نے بادشاہ سے ایسی بات کیوں کہی تھی؟
11 ایلیاہ، یہوواہ کے وعدے سے واقف تھے۔ یہوواہ کے نبی اور نمائندے کے طور پر اُنہیں پورا یقین تھا کہ یہوواہ کی بات ضرور پوری ہوگی۔ اُن کا یہ یقین اِس قدر مضبوط تھا کہ بادلوں کا نامونشان نہ ہونے کے باوجود وہ موسلادھار بارش کی آواز سُن سکتے تھے۔ ایلیاہ کے اِتنے مضبوط ایمان کے بارے میں پڑھ کر شاید ہمیں موسیٰ کے حوالے سے بائبل میں لکھی یہ بات یاد آئے: ”وہ اَندیکھے خدا کو گویا دیکھ کر ثابتقدم رہے۔“ کیا آپ بھی خدا پر اِتنا ہی مضبوط ایمان رکھتے ہیں؟ دراصل ہمارے پاس یہوواہ خدا اور اُس کے وعدوں پر مضبوط ایمان رکھنے کی بےشمار وجوہات ہیں۔—عبر 11:1، 27۔
12. (الف) ایلیاہ نے یہ کیسے ظاہر کِیا کہ وہ چوکس تھے؟ (ب) جب ایلیاہ نے یہ سنا کہ آسمان پر چھوٹا سا بادل دِکھائی دیا ہے تو اُنہوں نے کیسا ردِعمل دِکھایا؟
12 اب ذرا اِس بات پر غور کریں کہ ایلیاہ کتنے چوکس رہے۔ اُنہوں نے ایک یا دو بار نہیں بلکہ کُل سات بار اپنے خادم کو بارش کے آثار دیکھنے کے لیے بھیجا۔ ہو سکتا ہے کہ ایلیاہ کا خادم اِس طرح بار بار آنے جانے سے اُکتا گیا ہو لیکن ایلیاہ بےتابی سے کسی نشانی کے منتظر رہے اور ہمت نہیں ہارے۔ آخرکار جب ایلیاہ کا خادم ساتویں دفعہ اُن کے پاس آیا تو اُس نے اُن سے کہا: ”دیکھ ایک چھوٹا سا بادل آدمی کے ہاتھ کے برابر سمندر میں اُٹھا ہے۔“ شاید ایلیاہ کے خادم نے اپنا بازو بڑھا کر ہاتھ کے ذریعے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی ہو کہ آسمان پر دِکھائی دینے والا وہ بادل کتنا بڑا ہے۔ اُس خادم کے لیے تو اُس چھوٹے سے بادل کا نظر آنا کوئی بڑی بات نہیں تھی لیکن ایلیاہ کے لیے یہ بات بہت اہمیت رکھتی تھی۔ اُنہوں نے فوراً اپنے خادم کو یہ ہدایت دی: ”جا اور اخیاؔب سے کہہ کہ اپنا رتھ تیار کرا کے نیچے اُتر جا تاکہ بارش تجھے روک نہ لے۔“—1-سلا 18:44۔
13، 14. (الف) ہم ایلیاہ کی طرح چوکس کیسے رہ سکتے ہیں؟ (ب) ہمارے پاس اپنی زندگی میں یہوواہ کی خدمت کو پہلا درجہ دینے کی کون سی وجوہات ہیں؟
13 چوکس رہنے سے ایلیاہ نے ہمارے لیے ایک عمدہ مثال قائم کی۔ ایلیاہ کی طرح ہم بھی ایک ایسے دَور میں رہ رہے ہیں جب یہوواہ جلد ہی اپنے وعدے کو پورا کرنے والا ہے۔ ایلیاہ نے خشکسالی کے ختم ہونے کا اِنتظار کِیا اور آج خدا کے بندے اِس بُری دُنیا کے خاتمے کا اِنتظار کر رہے ہیں۔ (1-یوح 2:17) لیکن جب تک یہوواہ کارروائی نہیں کرتا، ہمیں ایلیاہ کی طرح چوکس رہنے کی ضرورت ہے۔ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو یہ نصیحت کی: ”چوکس رہیں کیونکہ آپ نہیں جانتے کہ آپ کا مالک کس دن آئے گا۔“ (متی 24:42) کیا یسوع کا مطلب یہ تھا کہ اُن کے پیروکار اِس بات سے بالکل بےخبر ہوں گے کہ خاتمہ کب آئے گا؟ ایسا نہیں ہے۔ یسوع نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ جب خاتمہ نزدیک ہوگا تو زمین کے حالات کیسے ہوں گے۔ اور ہم سب ”دُنیا کے آخری زمانے کی نشانی“ کو واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں۔—متی 24:3-7 کو پڑھیں۔
ایک چھوٹا سا بادل دیکھ کر ایلیاہ کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ یہوواہ بارش برسانے والا ہے۔ آخری زمانے کے حوالے سے اِتنے سارے ثبوتوں کو دیکھ کر ہمیں یہ ترغیب ملتی ہے کہ ہم اپنی زندگی میں یہوواہ کی خدمت کو پہلا درجہ دیں۔
14 ہمارے پاس اِس بات کے کئی ثبوت ہیں کہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں۔ کیا اِن ثبوتوں کو دیکھ کر آپ کو یہ ترغیب نہیں ملتی کہ آپ اپنی زندگی میں یہوواہ کی خدمت کو پہلا درجہ دیں؟ یاد کریں کہ آسمان پر ایک چھوٹا سا بادل دیکھ کر ایلیاہ کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ یہوواہ بارش برسانے والا ہے۔ لیکن کیا ایلیاہ کی توقع پوری ہوئی؟
یہوواہ کی طرف سے برکتوں کی برسات
15، 16. (الف) جب آسمان پر چھوٹا سا بادل دِکھائی دیا تو اِس کے بعد کیا کچھ ہوا؟ (ب) ایلیاہ کو اخیاب کے حوالے سے شاید کیا اُمید تھی؟
15 بائبل میں بتایا گیا ہے: ”تھوڑی ہی دیر میں آسمان گھٹا اور آندھی سے سیاہ ہو گیا اور بڑی بارش ہوئی اور اخیاؔب سوار ہو کر یزرعیلؔ کو چلا۔“ (1-سلا 18:45) سب کچھ بڑی جلدی جلدی ہوا۔ پہلے تو آسمان پر ایک چھوٹا سا بادل تھا مگر جب ایلیاہ کا خادم اخیاب کو اُن کا پیغام دے رہا تھا تو آسمان پر کالے بادلوں کی چادر پھیل گئی۔ تیز ہوا چلنے لگی۔ آخرکار ساڑھے تین سال بعد اِسرائیل کی سرزمین پر بارش برسنے لگی۔ سُوکھی پڑی زمین پر ہر طرف جلتھل ہو گیا۔ جیسے جیسے بارش تیز ہوتی گئی، دریائےقیسون کے کناروں سے پانی باہر بہنے لگا۔ اِس پانی نے زمین سے بعل کے اُن نبیوں کا خون دھو ڈالا جنہیں تھوڑی دیر پہلے قتل کِیا گیا تھا۔ نافرمان اِسرائیلیوں کو بھی یہ موقع ملا کہ وہ اُس داغ کو دھو لیں جو بعل کی پرستش کی وجہ سے اِسرائیل کی سرزمین پر لگ گیا تھا۔
16 بِلاشُبہ ایلیاہ کو اُمید تھی کہ اِسرائیلی ایسا ہی کریں گے۔ شاید ایلیاہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ اِن سب واقعات کو دیکھ کر اخیاب کیسا ردِعمل دِکھائے گا۔ کیا وہ توبہ کرے گا اور اپنی روِش بدل لے گا؟ کیا وہ بعل کی پرستش کرنا چھوڑ دے گا؟ دراصل اخیاب کے پاس ایسا کرنے کی ہر وجہ موجود تھی۔ ہم نہیں جانتے کہ اُس وقت اُس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا۔ ہمیں بائبل سے بس یہی پتہ چلتا ہے کہ ”اخیاؔب سوار ہو کر یزرعیلؔ کو چلا۔“ بعد میں ہونے والے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اخیاب نے کوئی عبرت حاصل نہیں کی تھی۔ بہرحال اُس دن ابھی ایک اَور حیرتانگیز واقعہ ہونا باقی تھا۔
17، 18. (الف) کرمل سے یزرعیل جاتے وقت ایلیاہ کے ساتھ کیا ہوا؟ (ب) ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یہوواہ کا ہاتھ حیرتانگیز طریقے سے ایلیاہ کی مدد کر رہا تھا؟ (فٹنوٹ کو بھی دیکھیں۔)
17 ایلیاہ بھی اُسی راستے پر چل دیے جس پر اخیاب جا رہا تھا۔ بارش کی وجہ سے راستہ گیلا تھا، اندھیرا چھایا ہوا تھا اور ایلیاہ کی منزل دُور تھی۔ اِس لیے یہ سفر اِتنا آسان نہیں تھا۔ لیکن پھر ایک غیرمعمولی بات ہوئی۔
18 بائبل میں لکھا ہے: ”[یہوواہ] کا ہاتھ ایلیاؔہ پر تھا اور اُس نے اپنی کمر کس لی اور اخیاؔب کے آگے آگے یزرعیلؔ کے مدخل تک دوڑا چلا گیا۔“ (1-سلا 18:46) بِلاشُبہ ”[یہوواہ] کا ہاتھ“ بڑے حیرتانگیز طریقے سے ایلیاہ کی مدد کر رہا تھا۔ ایلیاہ کوئی جوان آدمی نہیں تھے اور اِس عمر میں اُنہیں کرمل سے یزرعیل تک 30 کلومیٹر (19 میل) کا فاصلہ طے کرنا تھا۔a ذرا تصور کریں کہ ایلیاہ نے اپنا چوغہ اپنی کمر تک باندھ لیا ہے تاکہ اُنہیں بھاگنے میں مشکل نہ ہو اور وہ گیلے راستے پر اِتنی تیزی سے دوڑ رہے ہیں کہ اُنہوں نے شاہی رتھ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
19. (الف) یہوواہ خدا نے ایلیاہ کو جو قوت اور توانائی دی، اُس کے بارے میں پڑھ کر ہمارے ذہن میں بائبل کی کون سی پیشگوئیاں آ سکتی ہیں؟ (ب) جب ایلیاہ یزرعیل کی طرف دوڑ رہے تھے تو بِلاشُبہ اُنہیں کس بات کا یقین تھا؟
19 یہ ایلیاہ کے لیے نہایت شاندار تجربہ تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اُنہوں نے اِتنی قوت اور توانائی اُس وقت بھی محسوس نہ کی ہو جب وہ جوان تھے۔ اِس واقعے سے شاید ہمارے ذہن میں بائبل کی وہ پیشگوئیاں آئیں جن میں یہ وعدہ کِیا گیا ہے کہ خدا کے وفادار بندے زمین پر فردوس میں مکمل طور پر صحتمند ہو جائیں گے۔ (یسعیاہ 35:6 کو پڑھیں؛ لُو 23:43) جب ایلیاہ گیلے راستے پر دوڑ رہے تھے تو بِلاشُبہ اُنہیں پورا یقین تھا کہ اُن کا آسمانی باپ جو کہ واحد سچا خدا ہے، اُن سے خوش ہے۔
20. ہمیں یہوواہ سے برکتیں حاصل کرنے کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
20 یہوواہ خدا ہمیں برکتیں دینے کا مشتاق ہے۔ یہ برکتیں نہایت بیشقیمت ہیں اِس لیے آئیں، اِنہیں حاصل کرنے کی پوری کوشش کریں۔ اور یہ عزم کریں کہ ہم ایلیاہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے چوکس رہیں گے اور اُن تمام ثبوتوں پر دھیان دیں گے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ اِس آخری زمانے میں جلد کارروائی کرنے والا ہے۔ ایلیاہ کی طرح ہمارے پاس بھی ”سچائی کے خدا“ یہوواہ کے وعدوں پر یقین رکھنے کی ڈھیروں وجوہات ہیں۔—زبور 31:5۔
a ایسا لگتا ہے کہ اُس وقت ایلیاہ کی عمر ڈھل چُکی تھی۔ ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں؟ اِس واقعے کے تھوڑی دیر بعد یہوواہ نے ایلیاہ کو اِلیشع کی تربیت کرنے کو کہا۔ اِلیشع، ایلیاہ کے خادم تھے اور اُن کے لیے دیگر کام کرنے کے ساتھ ساتھ اُن کے ’ہاتھ پر پانی ڈالتے تھے۔‘ (2-سلا 3:11) اِس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایلیاہ بوڑھے تھے اور اِس وجہ سے اُنہیں کسی کی مدد کی ضرورت ہوتی تھی۔