یہوواہ کا کلام زندہ ہے
ایوب کی کتاب سے اہم نکات
خدا کا راستباز بندہ ایوب عوض کے مُلک میں رہتا تھا جو اب عرب کا علاقہ ہے۔ اُس وقت اسرائیلیوں کی بڑی تعداد مصر کے مُلک میں رہتی تھی۔ اگرچہ ایوب اسرائیلی نہیں تھا توبھی وہ یہوواہ خدا کا پرستار تھا۔ بائبل اُسکی بابت یوں بیان کرتی ہے: ”زمین پر اُسکی طرح کامل اور راستباز آدمی جو خدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا ہو کوئی نہیں۔“ (ایوب ۱:۸) یہ یقیناً یہوواہ کے دو خاص خادموں یعقوب کے بیٹے یوسف اور موسیٰ نبی کے زمانے کی بات ہے۔
ایوب کی کتاب موسیٰ نے لکھی ہے۔ اُس نے غالباً ایوب کی بابت اُس وقت سنا ہوگا جب وہ ۴۰ برس تک مدیان کے مُلک میں رہا جو عوض کی سرزمین کے بالکل قریب ہے۔ موسیٰ نے ایوب کی زندگی کے آخری برسوں کی بابت شاید اُس وقت سنا تھا جب بیابان میں اسرائیلیوں کا ۴۰ سالہ سفر ختم ہونے کو تھا اور وہ عوض کی سرزمین کے قریب تھے۔a ایوب کے حالاتِزندگی کو اسقدر خوبصورتی سے لکھا گیا ہے کہ ایوب کی سرگزشت کو ایک ادبی شاہکار سمجھا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ، یہ لوگوں کے ایسے سوالات کے جواب بھی فراہم کرتی ہے جیسےکہ: نیک لوگ کیوں دُکھ اُٹھاتے ہیں؟ یہوواہ خدا بُرائی کی اجازت کیوں دیتا ہے؟ کیا ناکامل انسان خدا کے وفادار رہ سکتے ہیں؟ خدا کے الہامی کلام کا حصہ ہونے کی وجہ سے ایوب کی کتاب آج بھی زندہ اور مؤثر ہے۔—عبرانیوں ۴:۱۲۔
”نابود ہو وہ دن جس میں مَیں پیدا ہوا“
(ایوب ۱:۱–۳:۲۶)
ایک دن شیطان نے خدا کے سامنے ایوب کی وفاداری پر الزام لگایا۔ اس پر یہوواہ نے شیطان کو ایوب پر مختلف تکالیف لانے کی اجازت دے دی۔ اس سب کے باوجود، ایوب نے خدا کے خلاف کچھ کہنے سے انکار کر دیا۔—ایوب ۲:۹۔
یہ سُن کر ایوب کے تین دوست ”اُسے تسلی“ دینے کیلئے آئے۔ (ایوب ۲:۱۱) وہ تینوں اُس وقت تک ایوب کے پاس خاموشی سے بیٹھے رہے جب تک اُس نے خود بات شروع کرتے ہوئے یہ نہ کہا: ”نابود ہو وہ دن جس میں مَیں پیدا ہوا۔“ (ایوب ۳:۳) وہ اُن بچوں کی مانند ہونے کی خواہش کرتا ہے ”جنہوں نے روشنی ہی نہ دیکھی“ یعنی جو مُردہ پیدا ہوئے۔—ایوب ۳:۱۱، ۱۶۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱:۴—کیا ایوب کے بچے سالگرہ منایا کرتے تھے؟ جینہیں، وہ سالگرہ نہیں مناتے تھے۔ جس زبان میں بائبل لکھی گئی اُس میں ”دن“ اور ”سالگرہ کا دن“ کیلئے مختلف الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور اُنکا مطلب بھی فرق ہے۔ (پیدایش ۴۰:۲۰) ایوب ۱:۴ میں ”دن“ کیلئے استعمال ہونے والا لفظ سورج کے طلوع ہونے سے غروب ہونے تک کے دورانیے کو ظاہر کرنے کیلئے استعمال کِیا گیا ہے۔ ایوب کے بیان سے ایسا لگتا ہے کہ اُسکے ساتوں بیٹے ہر سال ہر بیٹا ”اپنے دن پر“ یعنی اپنی باری پر سب بہنبھائیوں کو اپنے گھر دعوت پر بلایا کرتے تھے۔
۱:۶؛ ۲:۱—کن کو خداوند کے حضور آنے کی اجازت تھی؟ جو لوگ یہوواہ کے حضور کھڑے تھے اُن میں خدا کا اکلوتا بیٹا، جسے بائبل میں کلام کہا گیا ہے؛ وفادار فرشتے اور نافرمان فرشتے جنہیں ایوب کی کتاب میں ’خدا کے بیٹے‘ کہا گیا ہے اور شیطان اِبلیس شامل تھا۔ (یوحنا ۱:۱، ۱۸) شیطان اور اُسکے شیاطین کو اُس وقت تک آسمان سے نہیں نکالا گیا تھا جبتک سن ۱۹۱۴ میں آسمان پر خدا کی بادشاہی قائم نہیں ہو گئی۔ (مکاشفہ ۱۲:۱-۱۲) شیطان اور اُسکے ساتھیوں کو اپنے حضور آنے کی اجازت دینے سے یہوواہ خدا نے تمام روحانی مخلوق کے سامنے شیطان کے لگائے ہوئے الزام اور اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو ظاہر کر دیا۔
۱:۷؛ ۲:۲—کیا یہوواہ خدا نے شیطان سے براہِراست بات کی تھی؟ بائبل اس کی بابت کوئی تفصیل فراہم نہیں کرتی کہ خدا کیسے روحانی مخلوقات سے باتچیت کرتا ہے۔ تاہم، میکایاہ نبی نے رویا میں ایک فرشتے کو یہوواہ سے براہِراست گفتگو کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ (۱-سلاطین ۲۲:۱۴، ۱۹-۲۳) پس اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہوواہ خدا نے شیطان سے بھی براہِراست گفتگو کی ہوگی۔
۱:۲۱—کس طرح ایوب اپنی ’ماں کے پیٹ‘ میں واپس جا سکتا تھا؟ یہوواہ خدا نے انسان کو ”زمین کی مٹی“ سے بنایا تھا۔ لہٰذا یہاں پر ”ماں“ کی اصطلاح تشبیہ کے طور پر زمین کیلئے استعمال کی گئی ہے۔—پیدایش ۲:۷۔
۲:۹—جب ایوب کی بیوی نے اُسے خدا کی تکفیر کرنے اور مر جانے کیلئے کہا تو وہ کیا سوچ رہی ہوگی؟ ایوب کی بیوی کو بھی اُتنا ہی صدمہ برداشت کرنا پڑا جتنا اُسکے شوہر کو کرنا پڑا تھا۔ اُسے اپنے تندرست شوہر کو ایسی نفرتانگیز بیماری میں مبتلا دیکھ کر بہت دُکھ ہوا ہوگا۔ اُسکے سب بچے بھی مر گئے تھے۔ ان تمام باتوں کی وجہ سے وہ اسقدر پریشان ہوئی ہوگی کہ اُس نے سب سے اہم چیز یعنی خدا کیساتھ اپنے رشتے کو پسِپُشت ڈال دیا۔
ہمارے لئے سبق:
۱:۸-۱۱؛ ۲:۳-۵۔ جیسےکہ ایوب کی مثال سے ظاہر کِیا گیا ہے، اچھے کاموں اور باتچیت کے علاوہ خدا کے لئے وفاداری اُس کی خدمت کرنے کے لئے صحیح محرک کا بھی تقاضا کرتی ہے۔
۱:۲۱، ۲۲۔ اچھے اور بُرے حالات کے تحت یہوواہ کے وفادار رہنے سے ہم شیطان کو جھوٹا ثابت کر سکتے ہیں۔—امثال ۲۷:۱۱۔
۲:۹، ۱۰۔ ہم اپنی روحانیت کو قائم رکھنے کیلئے جوکچھ کرتے ہیں، اگر ہمارے خاندان کے لوگ اُسکی اہمیت کو نہیں سمجھتے یا مصالحت کرنے کیلئے ہم پر دباؤ ڈالتے ہیں تو ہمیں ایوب کی مانند ایمان میں مضبوط رہنا چاہئے۔
۲:۱۳۔ ایوب کے ساتھیوں کے پاس اُسے خدا اور اُس کے وعدوں پر بھروسا کرنے کی تسلی دینے کے لئے کچھ نہیں تھا کیونکہ وہ خود روحانی طور پر کمزور تھے۔
”مَیں مرتے دم تک اپنی راستی کو ترک نہ کروں گا“
(ایوب ۴:۱–۳۱:۴۰)
ایوب کے تینوں دوستوں کی باتچیت کا بنیادی مقصد ایوب پر یہ ثابت کرنا تھا کہ اُس نے ضرور کوئی نہ کوئی ایسا بُرا کام کِیا ہے جسکی وجہ سے خدا اُسے اتنی سخت سزا دے رہا ہے۔ الیفز اپنی باتچیت کا آغاز سخت الفاظ سے کرتا ہے۔ اسکے بعد بلدد الیفز کی نسبت زیادہ تلخکلامی کرتا ہے۔ ضوفر ان دونوں سے زیادہ طنزیہ باتیں کہتا ہے۔
ایوب اپنے دوستوں کی جھوٹی دلیلوں سے قائل نہیں ہوتا۔ اس بات کو نہ سمجھتے ہوئے کہ خدا نے اُس پر تکلیف آنے کی اجازت کیوں دی ہے ایوب خود کو راست ثابت کرنے کیلئے حد سے زیادہ پریشان ہو جاتا ہے۔ تاہم، ایوب یہوواہ خدا سے سچی محبت رکھتا تھا۔ لہٰذا وہ کہتا ہے: ”مَیں مرتے دم تک اپنی راستی کو ترک نہ کروں گا۔“—ایوب ۲۷:۵۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۷:۹، ۱۰؛ ۱۰:۲۱؛ ۱۶:۲۲—کیا ان بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایوب مُردوں کے جی اُٹھنے پر ایمان نہیں رکھتا تھا؟ ان بیانات کا تعلق ایوب کی اُس وقت کی حالت سے تھا۔ توپھر یہ کہنے سے اُسکا کیا مطلب تھا؟ ایک تو یہ کہ اگر وہ مر جاتا ہے تو اُسکے ساتھیوں میں کوئی اُسے دوبارہ نہ دیکھ پائے گا۔ اُنکا خیال تھا کہ نہ تو ایوب اپنے گھر واپس جائے گا اور نہ ہی خدا کے مقررہوقت سے پہلے اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کے قابل ہوگا۔ اسکے علاوہ، ایوب کا یہ بھی مطلب ہو سکتا تھا کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے شیول یعنی قبر سے باہر نہیں آ سکتا ہے۔ اس بات کا ثبوت ایوب ۱۴:۱۳-۱۵ سے ملتا ہے کہ وہمستقبل میں مُردوں میں سے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتا تھا۔
۱۰:۱۰—یہوواہ نے کیسے ایوب کو ’دُودھ کی طرح اُنڈیلا اور پنیر کی طرح جمایا‘ تھا؟ یہاں شاعرانہ انداز میں یہ بیان کِیا گیا ہے کہ ایوب نے اپنی ماں کے رحم میں کیسے پرورش پائی تھی۔
۱۹:۲۰—جب ایوب نے کہا کہ ”مَیں نے فقط اپنے دانتوں کا پوست بچایا“ ((کیتھولک ڈوئے ورشن)) تو اس سے اُسکا کیا مطلب تھا؟ ایوب کا یہ کہنے سے کہ وہ کسی ایسی چیز کی کھال یا جِلد کیساتھ بچ نکلا ہے جسکی جِلد ہی نہیں ہوتی غالباً یہ مطلب تھا کہ اُسکے پاس کچھ باقی نہیں بچا تھا۔
ہمارے لئے سبق:
۴:۷، ۸؛ ۸:۵، ۶؛ ۱۱:۱۳-۱۵۔ ہمیں جلدی سے اس نتیجے پر نہیں پہنچ جانا چاہئے کہ مصیبت میں گرفتار کوئی شخص اپنے گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے اور خدا اُسے ناپسند کرتا ہے۔
۴:۱۸، ۱۹؛ ۲۲:۲، ۳۔ جب ہم کسی کو نصیحت کرتے ہیں تو یہ ہماری ذاتی رائے کی بجائے خدا کے کلام پر مبنی ہونی چاہئے۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۶۔
۱۰:۱۔ تلخمزاجی نے ایوب کی سوچ کو اتنا متاثر کِیا کہ اُس نے اپنی تکلیف کی دیگر وجوہات کی بابت بالکل نہ سوچا۔ جب ہم پر کوئی تکلیف آتی ہے تو ہمیں تلخ نہیں ہونا چاہئے۔ خاص طور پر، اُس وقت جب ہم اس کا باعث بننے والی وجوہات کو واضح طور پر نہیں سمجھ پاتے۔
۱۴:۷، ۱۳-۱۵؛ ۱۹:۲۵؛ ۳۳:۲۴۔ جب بھی شیطان ہم پر کوئی آزمائش لاتا ہے تو مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی اُمید ہمیں ثابتقدم رہنے کی طاقت بخش سکتی ہے۔
۱۶:۵؛ ۱۹:۲۔ ہماری باتوں سے دوسروں کو غصہ آنے کی بجائے حوصلہ اور تقویت ملنی چاہئے۔—امثال ۱۸:۲۱۔
۲۲:۵-۷۔ ٹھوس وجوہات کے بغیر دی جانے والی مشورت بےمعنی اور نقصاندہ ہے۔
۲۷:۲؛ ۳۰:۲۰، ۲۱۔ راستی پر قائم رہنے کیلئے کامل ہونا ضروری نہیں۔ ایوب کا یہوواہ خدا پر تنقید کرنا واجب نہیں تھا۔
۲۷:۵۔ یہوواہ کیلئے راستی یا وفاداری کا انحصار خدا کیلئے ایوب کی محبت پر تھا۔ اسلئے خدا کا وفادار رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ بھی اُسے خود ہی کرنا تھا۔ اگر ہم بھی یہوواہ کے وفادار رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے اندر اُسکے لئے گہری محبت پیدا کرنی چاہئے۔
۲۸:۱-۲۸۔ انسان زمین میں چھپے خزانوں سے واقف ہے۔ انہیں تلاش کرتے ہوئے وہ اتنی گہرائی تک چلا جاتا ہے کہ تیز نظر شکاری پرندے بھی وہاں تک نہیں دیکھ سکتے۔ تاہم، خدائی حکمت یہوواہ کا خوف ماننے سے حاصل ہوتی ہے۔
۲۹:۱۲-۱۵۔ ہمیں ضرورتمندوں کیلئے پُرمحبت فکرمندی دکھانی چاہئے۔
۳۱:۱، ۹-۲۸۔ ایوب نے دللگی، حرامکاری، بےانصافی، دوسروں کیساتھ بےرحمی سے پیش آنے، مادہپرستی اور بُتپرستی سے گریز کرنے کے سلسلے میں عمدہ مثال قائم کی۔
”مَیں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں“
(ایوب ۳۲:۱–۴۲:۱۷)
الیہو نامی نوجوان بڑی خاموشی کیساتھ ساری گفتگو سنتا رہا۔ لیکن آخرکار وہ چپ نہ رہ سکا۔ اُس نے ایوب اور اُسکے تینوں ساتھیوں کی درستی کی جو ایوب کو مسلسل دُکھ پہنچا رہے تھے۔
جوں ہی الیہو اپنی بات ختم کرتا ہے، یہوواہ بگولے میں سے ایوب کو جواب دیتا ہے۔ وہ ایوب کی تکلیف کی کوئی وجہ بیان نہیں کرتا۔ تاہم، قادرِمطلق خدا مختلف سوالات کے ذریعے ایوب کو اپنی طاقت اور حکمت سے آگاہ کرتا ہے۔ ایوب یہ کہتے ہوئے کہ ”مجھے اپنےآپ سے نفرت ہے اور مَیں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں“ اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ اُس نے بغیر سوچےسمجھے بہت کچھ کہہ دیا تھا۔ (ایوب ۴۲:۶) جب ایوب کی مشکل ختم ہو جاتی ہے تو یہوواہ اُسے اُسکی راستی یا وفاداری کا اَجر دیتا ہے۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۳۲:۱-۳—الیہو ایوب کے پاس کب پہنچتا ہے؟ جب سات دن بعد ایوب نے اپنے تینوں دوستوں کی خاموشی کو توڑا اور پھر وہ اُس سے باتیں کرنے لگے تو الیہو نے اُنکی باتیں سنی تھیں۔ لہٰذا وہ کہیں قریب ہی بیٹھا ہوگا۔—ایوب ۳:۱، ۲۔
۳۴:۷—ایوب کیسے ”تمسخر کو پانی کی طرح پی“ جانے والے شخص کی مانند تھا؟ اگرچہ ایوب کے تینوں دوست درحقیقت خدا کے خلاف باتیں کر رہے تھے توبھی وہ اپنی تمامتر تکلیف کے باوجود اپنے تینوں دوستوں کے تمسخر یا مذاق کو برداشت کرنے کے قابل ہوا تھا۔ (ایوب ۴۲:۷) لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک ایسے شخص کی مانند تھا جو تمسخر کو پانی کی مانند پی جاتا ہے۔
ہمارے لئے سبق:
۳۲:۸، ۹۔ حکمت محض عمر سے ہی حاصل نہیں ہوتی۔ اسکے لئے خدا کے پاک کلام کی سمجھ اور اُسکی پاک رُوح کی راہنمائی درکار ہے۔
۳۴:۳۶۔ ہماری وفاداری دراصل کسی نہ کسی طرح کی آزمائش میں پورا اُترنے سے ہی ثابت ہوتی ہے۔
۳۵:۲۔ الیہو نے کچھ کہنے سے پہلے بڑے دھیان کیساتھ اُنکی باتچیت کو سنا اور پھر اصل مسئلے کی نشاندہی کی۔ (ایوب ۱۰:۷؛ ۱۶:۷؛ ۳۴:۵) پس مشورت دینے سے پہلے مسیحی بزرگوں کو توجہ سے بات کو سننا، حقائق تک پہنچنا اور اصل مسئلے کو سمجھنا چاہئے۔—امثال ۱۸:۱۳۔
۳۷:۱۴؛ ۳۸:۱–۳۹:۳۰۔ یہوواہ کی طاقت اور حکمت کو ظاہر کرنے والے حیرتانگیز کاموں پر غور کرنا ہمیں فروتن بناتا ہے۔ اسکے علاوہ، اس سے ہمیں یہ جاننے میں مدد ملتی ہے کہ یہوواہ کی حاکمیت کی سربلندی ہمارے ذاتی مفادات سے کہیں زیادہ اہم ہے۔—متی ۶:۹، ۱۰۔
۴۰:۱-۴۔ جب کبھی ہمیں یہ محسوس ہو کہ قادرِمطلق ہمارے ساتھ ناانصافی کر رہا ہے تو کچھ کہنے سے پہلے ’ہمیں اپنے مُنہ پر ہاتھ‘ رکھ لینا چاہئے۔
۴۰:۱۵–۴۱:۳۴۔ ہپوپوٹیمس اور مگرمچھ میں کسقدر طاقت ہے! خدا کی خدمت کرتے رہنے کے لئے اپنے اندر برداشت کی خوبی پیدا کرنے کے لئے ہمیں ایسے طاقتور جانوروں کے خالق سے دُعا کرنی چاہئے کہ وہ ہمیں ایسی قوت عطا کرے۔—فلپیوں ۴:۱۳۔
۴۲:۱-۶۔ خدا کی باتیں سننے اور اُسکی قوت کی بابت یاددہانیوں نے ایوب کو ’خدا کو دیکھنے‘ یعنی اُسکی بابت سچائی جاننے میں مدد دی۔ (ایوب ۱۹:۲۶) اس سے اُسکی سوچ میں تبدیلی آ گئی۔ جب صحیفائی طور پر ہماری درستی یا اصلاح کی جاتی ہے تو ہمیں اپنی غلطی کو تسلیم کرنے اور اپنے اندر تبدیلی لانے میں دیر نہیں کرنی چاہئے۔
ایوب جیسا صبر پیدا کریں
ایوب کی کتاب واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ انسانی دُکھتکلیف کا ذمہدار خدا نہیں بلکہ شیطان ہے۔ خدا کا ابھی تک زمین پر بُرائی کو رہنے دینا ہمیں اس سوال کا جواب دینے کے قابل بناتا ہے کہ ہم خدا کی حاکمیت اور اُسکے لئے اپنی وفاداری کے سلسلے کس کی طرف ہیں۔
ایوب کی مانند، یہوواہ سے محبت رکھنے ولے تمام لوگ آزمائے جائیں گے۔ ایوب کی مثال ہمیں یہ اعتماد بخشتی ہے کہ ہم برداشت کر سکتے ہیں۔ یہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمارے مسائل ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ یعقوب ۵:۱۱ بیان کرتی ہے: ”تُم نے اؔیوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے اور [یہوواہ] کی طرف سے جو اسکا انجام ہوا اُسے بھی معلوم کرلیا۔“ جیہاں، یہوواہ نے ایوب کو اُسکی وفاداری کا اَجر بخشا تھا۔ (ایوب ۴۲:۱۰-۱۷) ہمارے پاس بھی فردوسنما زمین پر ابد تک زندہ رہنے کی شاندار اُمید ہے! پس، ایوب کی مانند ہمیں بھی اپنی راستی یا وفاداری پر قائم رہنے کا عہد کرنا چاہئے۔—عبرانیوں ۱۱:۶۔
[فٹنوٹ]
a ایوب کی کتاب ۱۴۰ سال کے دوران ہونے والے اُن واقعات کے بارے میں بیان کرتی ہے جو ۱۶۵۷ سے ۱۴۷۳ قبلازمسیح کے دوران پیش آئے۔
[صفحہ ۳۲ پر تصویریں]
ایوب کے صبر سے ہم کیا سیکھ سکتے ہیں؟