اؔیوب نے صبر کیا—ہم بھی کر سکتے ہیں!
”دیکھو صبر کر نے والوں کو ہم مبارک کہتے ہیں۔“—یعقوب ۵:۱۱۔
۱. ایک عمررسیدہ مسیحی نے اپنی آزمائشوں کی بابت کیا کہا؟
’ابلیس میرے تعاقب میں ہے! میں اؔیوب کی طرح محسوس کرتا ہوں!‘ ان الفاظ کیساتھ اے. ایچ. میکؔملن نے یہوؔواہ کے گواہوں کے ہیڈکوارٹر میں ایک قریبی دوست سے اپنے احساسات کا اظہار کِیا۔ بھائی میکؔملن نے ۸۹ سال کی عمر میں ۲۶ اگست، ۱۹۶۶ کو اپنا زمینی دَور ختم کِیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کی طرح کے ممسوح مسیحیوں کی وفادارانہ خدمت کا اجر ”ان کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔“ (مکاشفہ ۱۴:۱۳) بیشک، وہ آسمان میں غیرفانی زندگی کیلئے قیامت کے ذریعے یہوؔواہ کی خدمت کو جاری رکھینگے۔ اسکے دوست خوش ہوئے کہ بھائی میکؔملن نے وہ انعام حاصل کیا۔ تاہم، زمین پر اپنے آخری سالوں میں، وہ مختلف آزمائشوں میں گھر گیا تھا، بشمول صحت کے مسائل جنہوں نے اسے خدا کیلئے اسکی راستی کو توڑنے کیلئے شیطان کی کوششوں سے بڑا باخبر کر دیا۔
۲، ۳. اؔیوب کون تھا؟
۲ جب بھائی میکؔملن نے کہا کہ اس نے اؔیوب کی طرح محسوس کیا تو وہ اس انسان کا حوالہ دے رہا تھا جس نے ایمان کی بڑی آزمائشوں کی برداشت کی تھی۔ اؔیوب ”عوؔض کی سرزمین“ میں، غالباً شمالی عرب میں رہتا تھا۔ نوؔح کے بیٹے سمؔ کی نسل سے، وہ یہوؔواہ کا پرستار تھا۔ اؔیوب کی آزمائشیں بظاہر یوؔسف کی موت اور اس وقت کے درمیان واقع ہوئیں جب موسیٰؔ نے خود کو راست ثابت کیا۔ اس عرصہ کے دوران زمین پر خدائی عقیدت میں کوئی بھی اؔیوب کے برابر نہ تھا۔ یہوؔواہ نے اؔیوب کو، بےعیب، راستباز اور خداترس شخص خیال کِیا۔—ایوب ۱:۱، ۸۔
۳ ”اہلِمشرق میں . . . سب سے بڑے آدمی“ کے طور پر اؔیوب کے پاس بہت سے نوکرچاکر تھے اور اس کے مالمویشیوں کی تعداد ۱۱،۵۰۰ تھی۔ لیکن روحانی دولت اس کے لئے بہت زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ آجکل خداپرست والدوں کی طرح، بہت اغلب ہے کہ اؔیوب نے اپنے سات بیٹوں اور تین بیٹیوں کو یہوؔواہ کی بابت سکھایا۔ حتیٰکہ جب وہ اسکے گھر میں بھی نہیں رہتے تھے، اس نے ان کیلئے قربانیاں گزراننے سے خاندانی کاہن کے طور پر کردار ادا کیا اسلئے کہ شاید انہوں نے خطا کی ہو۔—ایوب ۱:۲-۵۔
۴. (ا) اذیت اُٹھانے والے مسیحیوں کو آدمی اؔیوب پر کیوں غور کرنا چاہئے؟ (ب) اؔیوب کی بابت ہم کن سوالوں پر غور کریں گے؟
۴ اؔیوب ایسا شخص ہے کہ متحمل برداشت کیلئے خود کو مضبوط بنانے کی خاطر ستائے جانے والے مسیحی اس پر غور کریں۔ ”دیکھو“ شاگرد یعقوؔب نے لکھا۔ ”صبر کرنے والوں کو ہم مبارک کہتے ہیں۔ تم نے اؔیوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے اور خداوند کی طرف سے جو اِسکا انجام ہوا اسے بھی معلوم کر لیا جس سے خداوند کا بہت ترس اور رحم ظاہر ہوتا ہے۔“ (یعقوب ۵:۱۱) اؔیوب کی طرح، یسوؔع کے ممسوح پیروکاروں اور موجودہ زمانے کی ”بڑی بھیڑ“ کو ایمان کی آزمائشوں کا کامیابی کے ساتھ مقابلہ کرنے کیلئے صبر کی ضرورت ہے۔ (مکاشفہ ۷:۱-۹) لہٰذا، اؔیوب نے کن آزمائشوں کی برداشت کی؟ وہ کیوں واقع ہوئیں؟ اور اُسکے تجربات سے ہم کیسے مستفید ہو سکتے ہیں؟
ایک نہایت اہم مسئلہ
۵. آسمان میں کیا واقع ہو رہا تھا جس سے اؔیوب ناواقف تھا؟
۵ آسمان پر ایک بہت بڑا مسئلہ اُٹھایا جانے والا تھا جس سے اؔیوب بےخبر تھا۔ ایک دن ”خدا کے بیٹے آئے کہ خداوند کے حضور حاضر ہوں۔“ (ایوب ۱:۶) خدا کا اکلوتا بیٹا، کلام، بھی موجود تھا۔ (یوحنا ۱:۱-۳) راستباز فرشتے اور ’خدا کے‘ نافرمان ملکوتی ’بیٹے‘ بھی موجود تھے۔ (پیدایش ۶:۱-۳) شیطان بھی وہاں موجود تھا کیونکہ آسمان سے اُسکا نکالا جانا ۱۹۱۴ میں بادشاہت کے قیام کے بعد تک وقوعپزیر نہیں ہوا تھا۔ (مکاشفہ ۱۲:۱-۱۲) اؔیوب کے زمانے میں شیطان نے ایک اہم مسئلہ کھڑا کرے گا۔ وہ اُس کی تمام مخلوقات پر یہوؔواہ کی حاکمیت کی راستی پر اعتراض اُٹھانے والا تھا۔
۶. شیطان کیا کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اُس نے یہوؔواہ پر کیسے تہمت لگائی؟
۶ یہوؔواہ نے پوچھا ”تُو کہاں سے آتا ہے؟“ شیطان نے جواب دیا: ”زمین پر اِدھراُدھر گھومتا پھرتا اور اُس میں سیر کرتا ہوا آیا ہوں۔“ (ایوب ۱:۷) وہ کسی کو پھاڑ کھانے کی تلاش کرتا رہا تھا۔ (۱-پطرس ۵:۸، ۹) یہوؔواہ کی خدمت کرنے والے اشخاص کی راستی کو توڑ کر شیطان یہ ثابت کرنے کی کوشش کریگا کہ کوئی بھی ازروئے محبت مکمل طور پر خدا کی فرمانبرداری نہیں کرے گا۔ مسئلے پر بات کرتے ہوئے یہوؔواہ نے شیطان سے پوچھا: ”کیا تُو نے میرے بندہ اؔیوب کے حال پر بھی کچھ غور کِیا؟ کیونکہ زمین پر اُسکی طرح کامل اور راستباز آدمی جو خدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا ہو کوئی نہیں۔“ (ایوب ۱:۸) اؔیوب الہٰی تقاضوں پر پورا اُترا جس نے اُسکی ناکاملیتوں کیلئے گنجائش چھوڑی۔ (زبور ۱۰۳:۱۰-۱۴) لیکن شیطان نے حاضر جوابی سے کام لیا: ”کیا اؔیوب یوں ہی خدا سے ڈرتا ہے؟ کیا تُو نے اُسکے اور اُسکے گھر کے گرد اور جو کچھ اُسکا ہے اُس سب کے گرد چاروں طرف باڑ نہیں بنائی ہے؟ تُو نے اُسکے ہاتھ کے کام میں برکت بخشی ہے اور اُسکے گلّے ملک میں بڑھ گئے ہیں۔“ (ایوب ۱:۹، ۱۰) یوں شیطان نے اس بات کی دلالت کرتے ہوئے یہوؔواہ پر بہتان لگایا کہ جو کچھ وہ ہے اُسکے باعث کوئی بھی نہ تو اُس سے محبت رکھتا ہے اور نہ ہی اسکی پرستش کرتا ہے بلکہ وہ اپنی خدمت کرانے کیلئے مخلوقات کو رشوت دیتا ہے۔ شیطان نے الزام لگایا کہ اؔیوب محبت کی بنا پر نہیں بلکہ خودغرضانہ مفاد کی خاطر خدا کی خدمت کرتا ہے۔
شیطان حملہآور ہوتا ہے!
۷. کس طریقے سے ابلیس نے خدا کو للکارا اور یہوؔواہ نے کیسا جوابیعمل دکھایا؟
۷ شیطان نے کہا: ”پر تُو ذرا اپنا ہاتھ بڑھا کر جو کچھ اُسکا ہے اُسے چھو ہی دے تو کیا وہ تیرے مُنہ پر تیری تکفیر نہ کریگا؟“ ایسے توہینآمیز چیلنج کیلئے خدا کیسا جوابیعمل دکھائے گا؟ ”دیکھ“ یہوؔواہ نے کہا۔ ”اُسکا سب کچھ تیرے اختیار میں ہے۔ صرف اُسکو ہاتھ نہ لگانا۔“ ابلیس نے یہ کہا تھا کہ اؔیوب کے سارے مالواسباب کو برکت، افزونی اور حفاظت بخشی گئی تھی۔ خدا اؔیوب کو دکھ اُٹھانے دیگا اگرچہ اُسکے جسم کو چھوا نہیں جائے گا۔ بدی کرنے پر تلا ہوا شیطان مجلس کو چھوڑ کر چلا گیا۔—ایوب ۱:۱۱، ۱۲۔
۸. (ا) اؔیوب نے کن مادی نقصانات کا تجربہ کیا؟ (ب) ”خدا کی آگ“ کی بابت سچائی کیا تھی؟
۸ جلد ہی شیطانی حملہ شروع ہو گیا۔ اؔیوب کے خادموں میں سے ایک نے اُسے یہ بُری خبر سنائی: ”بیل ہل میں جتے تھے اور گدھے اُن کے پاس چر رہے تھے۔ کہ سباؔ کے لوگ اُن پر ٹوٹ پڑے اور اُنہیں لے گئے اور نوکروں کو تہتیخ کِیا۔“ (ایوب ۱:۱۳-۱۵) اؔیوب کی املاک کے گرد باڑ کو ہٹا لیا گیا تھا۔ جلد ہی براہِراست شیاطینی طاقت کا استعمال کِیا گیا کیونکہ ایک اور نوکر نے خبر دی: ”خدا کی آگ آسمان سے نازل ہوئی اور بھیڑوں اور نوکروں کو جلا کر بھسم کر دیا۔“ (ایوب ۱:۱۶) اس طرح ظاہر کرنا کتنا سفاکانہ تھا کہ خدا اپنے ہی خادم پر ایسی آفت لانے کا ذمہدار تھا! چونکہ آگ آسمان سے آئی تھی اسلئے یہوؔواہ پر بڑی آسانی سے الزام لگایا جا سکتا تھا مگر آگ حقیقت میں شیاطینی مصدر سے تھی۔
۹. معاشی تباہی نے خدا کے ساتھ اؔیوب کے رشتے کو کسطرح متاثر کِیا؟
۹ جب شیطان حملہ جاری رکھتا ہے تو ایک اَور نوکر نے خبر دی کہ کسدی اؔیوب کے اونٹ لے گئے اور باقی تمام نوکروں کو قتل کر ڈالا۔ (ایوب ۱:۱۷) یوں اگرچہ اؔیوب کو معاشی تباہی کا تجربہ ہوا تو بھی اس نے خدا کے ساتھ اُسکے رشتے کو برباد نہ کِیا۔ کیا آپ یہوؔواہ کیلئے اپنی راستی توڑے بغیر بھاری مادی نقصان برداشت کر سکتے ہیں؟
بڑا المیہ پیش آتا ہے
۱۰، ۱۱. (ا) اؔیوب کے دس بچوں کے ساتھ کیا واقع ہوا؟ (ب) اؔیوب کے دس بچوں کی المناک موت کے بعد اُس نے یہوؔواہ کو کیسا خیال کِیا؟
۱۰ شیطان نے اؔیوب پر حملے کرنا ختم نہیں کیا تھا۔ ابھی ایک اَور نوکر نے اطلاع دی: ”تیرے بیٹے بیٹیاں اپنے بڑے بھائی کے گھر میں کھانا کھا رہے اور مےنوشی کر رہے تھے۔ اور دیکھ! بیابان سے ایک بڑی آندھی چلی اور اُس گھر کے چاروں کونوں پر ایسے زور سے ٹکرائی کہ وہ اُن جوانوں پر گِر پڑا اور وہ مر گئے اور فقط میں ہی اکیلا بچ نکلا کہ تجھے خبر دوں۔“ (ایوب ۱:۱۸، ۱۹) کوئی غلط خبر دینے والا شخص شاید کہے کہ آندھی سے ہونے والی تباہی ’خدا کا کام‘ تھا۔ تاہم، شیاطینی طاقت نے خاص طور پر اؔیوب کی دُکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
۱۱ غمزدہ اؔیوب نے ’اپنا پیراہن چاک کِیا، سر منڈایا، زمین پر گِرا اور سجدہ کِیا۔‘ اس سب کے باوجود اُسکے الفاظ پر غور کریں۔ ”خداوند نے دیا اور خداوند نے لے لیا۔ خداوند کا نام مبارک ہو۔“ بیان جاری رہتا ہے: ”اب سب باتوں میں اؔیوب نے نہ تو گناہ کِیا اور نہ خدا پر بیجا کام کا عیب لگایا۔“ (ایوب ۱:۲۰-۲۲) شیطان نے ایک بار پھر شکست کھائی تھی۔ اگر ہمیں خدا کے خادموں جیسے سوگ اور غم کا تجربہ ہو تو کیا ہو؟ یہوؔواہ کیلئے بےلوث عقیدت اور اُس پر توکل ہمیں راستی برقرار رکھنے والوں کے طور پر برداشت کرنے کے لائق بنا سکتا ہے، جیسے کہ اؔیوب نے کی تھی۔ ممسوح اشخاص اور انکے ساتھی جو زمینی اُمید رکھتے ہیں یقینی طور پر اؔیوب کے صبر کے اس بیان سے تسلی اور تقویت حاصل کر سکتے ہیں۔
مسئلہ مزید شدت اختیار کر جاتا ہے
۱۲، ۱۳. آسمان میں ایک اَور مجلس کے دوران، شیطان نے کس چیز کی درخواست کی اور خدا نے کیسا ردِعمل دکھایا؟
۱۲ یہوؔواہ جلد ہی ایک اَور مجلس کو آسمانی دربار میں طلب کرتا ہے۔ اؔیوب ایک بےاولاد، مفلس انسان ہو گیا تھا جو خدا کا ستایا ہوا دکھائی دیتا تھا مگر اُسکی راستی صحیح سالم تھی۔ بےشک، شیطان یہ تسلیم نہیں کرے گا کہ خدا اور اؔیوب کے خلاف اُسکے الزام غلط تھے۔ اب ’خدا کے بیٹے‘ ایسی دلیلوتردید کو سننے والے تھے جس سے یہوؔواہ نے ایسی حکمت عملی استعمال کی جو شیطان کیلئے مسئلے کو ختم کرنے پر منتج ہوئی۔
۱۳ شیطان سے مواخذہ کرتے ہوئے یہوؔواہ نے پوچھا: ”تُو کہاں سے آتا ہے؟“ جواب؟ ”زمین پر اِدھراُدھر گھومتا پھرتا اور اُس میں سیر کرتا ہوا آیا ہوں۔“ یہوؔواہ نے پھر اپنے بےعیب، راستباز، خداترس خادم اؔیوب کی جانب توجہ مبذول کرائی جو ابھی تک اپنی راستی کو برقرار رکھے ہوئے تھا۔ شیطان نے جواب دیا: ”کھال کے بدلے کھال بلکہ انسان اپنا سارا مال اپنی جان کے لئے دے ڈالیگا۔ اب فقط اپنا ہاتھ بڑھا کر اُسکی ہڈی اور اُسکے گوشت کو چھو دے تو وہ تیرے مُنہ پر تیری تکفیر کریگا۔“ لہٰذا خدا نے کہا: ”وہ تیرے اختیار میں ہے۔ فقط اُسکی جان محفوظ رہے۔“ (ایوب ۲:۲-۶) اس بات کا اشارہ دیتے ہوئے کہ یہوؔواہ نے ابھی تک تمام حفاظتی باڑ نہیں ہٹائی تھی، شیطان نے اؔیوب کی ہڈی اور گوشت کو چھونے کی اجازت مانگی۔ ابلیس کو اؔیوب کو ہلاک کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی؛ مگر شیطان جانتا تھا کہ جسمانی بیماری اُسکو درد میں مبتلا کریگی اور یوں ظاہر کریگی جیسے کہ وہ پوشیدہ گناہوں کے باعث خدا سے سزا پا رہا تھا۔
۱۴. شیطان نے کس چیز کے ساتھ اؔیوب پر حملہ کِیا اور کوئی بھی انسان مصیبتزدہ کو چھٹکارا کیوں نہیں دلا سکتا تھا؟
۱۴ مجلس سے برطرف کر دئے جانے کے بعد شیطان نے سفاک مسرت کے ساتھ کارروائی کی۔ اُس نے اؔیوب کو ”تلوے سے چاند تک دردناک پھوڑوں سے“ تکلیف دی۔ جب اؔیوب راکھ پر بیٹھ گیا اور ایک ٹھیکرا لیکر خود کو کھجانے لگا تو اس نے کیا ہی شدید تکلیف کی برداشت کی! (ایوب ۲:۷، ۸) کوئی بھی انسانی طبیب اُسے اس نہایت دردناک، نفرتانگیز اور شرمناک تکلیف سے چھٹکارا نہیں دلا سکتا تھا کیونکہ اس کا موجب شیطانی قوت تھی۔ صرف یہوؔواہ ہی اؔیوب کو شفا دے سکتا تھا۔ اگر آپ خدا کے ایک علیل خادم ہیں تو کبھی بھی یہ نہ بھولیں کہ خدا برداشت کرنے کیلئے آپکی مدد کر سکتا ہے اور بیماری سے پاک ایک نئی دنیا میں آپکو زندگی بخش سکتا ہے۔—زبور ۴۱:۱-۳؛ یسعیاہ ۳۳:۲۴۔
۱۵. اؔیوب کی بیوی نے اُسے کیا کرنے کی ترغیب دی اور اُسکا ردِعمل کیا تھا؟
۱۵ انجامکار اؔیوب کی بیوی نے کہا: ”کیا تُو اب بھی اپنی راستی پر قائم رہیگا؟ خدا کی تکفیر کر اور مر جا۔“ ”راستی“ سے مراد بےعیب عقیدت ہے اور اُس نے شاید اؔیوب سے خدا کی تکفیر کرانے کیلئے طنزاً یہ بات کہی ہو۔ لیکن اُس نے جواب دیا: ”تُو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دکھ نہ پائیں؟“ شیطان کا یہ حربہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا کیونکہ ہمیں بتایا گیا ہے: ”ان سب باتوں میں اؔیوب نے اپنے لبوں سے خطا نہ کی۔“ (ایوب ۲:۹، ۱۰) فرض کریں کہ خاندان کے مخالف افراد یہ کہیں کہ ہم حماقت سے مسیحی کاموں میں خود کو تھکا رہے ہیں اور ہم پر زور دیں کہ یہوؔواہ خدا سے قطع تعلق ہو جائیں۔ اؔیوب کی مانند، ہم ایسی آزمائش کو برداشت کر سکتے ہیں کیونکہ ہم یہوؔواہ سے پیار کرتے ہیں اور اُسکے پاک نام کی ستائش کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔—زبور ۱۴۵:۱، ۲؛ عبرانیوں ۱۳:۱۵۔
تین متکبر فریبی
۱۶. اؔیوب کو مبیّنہ طور پر تسلی دینے کیلئے کون آئے تھے لیکن شیطان نے اُنہیں کیسے استعمال کِیا؟
۱۶ ایک اَور بات جو شیطان کا منصوبہ ثابت ہوئی وہ مبیّنہ طور پر اؔیوب کو تسلی دینے کیلئے تین ”دوستوں“ کا آنا تھی۔ غالباً الیفزؔ عیسوؔ سے اؔبرہام کی اولاد میں سے تھا۔ چونکہ الیفزؔ نے بات کرنے میں اوّلیت رکھتا تھا اسلئے غالباً وہ عمر میں بڑا تھا۔ بلدؔد بھی حاضر تھا جو قطوؔرہ سے اؔبرہام کے بیٹوں میں سے سوؔخ کی نسل تھا۔ تیسرا آدمی ضوؔفر تھا جو نعماتی کہلاتا تھا جس سے اُسکے خاندان اور جائےرہائش کی شناخت ہوتی تھی جو کہ غالباً شمالمغربی عرب میں تھی۔ (ایوب ۲:۱۱؛ پیدایش ۲۵:۱، ۲؛ ۳۶:۴، ۱۱) اُن لوگوں کی مانند جو آجکل کوشش کرتے ہیں کہ یہوؔواہ کے گواہ خدا سے قطع تعلق ہو جائیں، شیطان نے تین کی ٹولی کو اؔیوب سے جھوٹے الزامات کو تسلیم کروانے اور اُسکی راستی کو توڑنے کیلئے ایک کوشش کے طور پر بڑی چالاکی سے استعمال کِیا۔
۱۷. ملاقات کرنے والوں کی تین کی ٹولی نے کیا کِیا اور سات دن اور سات راتوں تک اُنہوں نے کیا نہ کِیا؟
۱۷ تین کی اس ٹولی نے آنسو بہانے، اپنے پیراہن چاک کرنے اور اپنے سروں پر خاک اُڑانے سے بہت بڑا تماشا رچایا۔ لیکن اسکے بعد وہ تسلی کا ایک بھی لفظ کہے بغیر سات دن اور سات راتوں تک اؔیوب کے پاس بیٹھے رہے! (ایوب ۲:۱۲، ۱۳؛ لوقا ۱۸:۱۰-۱۴) یہ تین متکبر فریبی روحانیت سے اس قدر عاری تھے کہ اُنکے پاس یہوؔواہ اور اُسکے وعدوں کی بابت کہنے کیلئے ایک بھی تسلیبخش بات نہیں تھی۔ تاہم وہ غلط نتائج اخذ کر رہے تھے اور غم کی عام رسم پوری کرتے ہی انہیں اؔیوب کے خلاف استعمال کرنے کو تیار تھے۔ دلچسپی کی بات ہے کہ سات دن کی خاموشی ٹوٹنے سے پہلے ہی ایک جوان آدمی الیہوؔ ایسی جگہ آ کر بیٹھ گیا جہاں سے وہ گفتگو کو سن سکتا تھا۔
۱۸. اؔیوب موت میں آرام کا طالب کیوں ہوا؟
۱۸ آخرکار اؔیوب نے عالمِسکوت کو توڑ دیا۔ ملاقات کرنے والی تین کی ٹولی سے کوئی تسلی نہ پاتے ہوئے اُس نے اپنے پیدا ہونے کے دن پر لعنت کی اور سوچا کہ کس وجہ سے اُس کی غمزدہ زندگی طویل ہو رہی ہے۔ اس بات کا خیال تک بھی نہ رکھتے ہوئے کہ اُس کے مرنے سے پیشتر حقیقی شادمانی ایک بار پھر اُسے حاصل ہوگی، اُس نے موت میں آرام حاصل کرنے کی خواہش کی جبکہ ابھی وہ قلاش، سوگوار اور شدید بیمار تھا۔ لیکن خدا موت کی حد تک اؔیوب کو نقصان نہیں پہنچنے دیگا۔—ایوب ۳:۱-۲۶۔
اؔیوب پر الزام لگانے والے حملہ کرتے ہیں
۱۹. الیفزؔ نے دروغگوئی سے کن حلقوں میں اؔیوب پر الزام لگایا؟
۱۹ اؔیوب کی راستی کا مزید امتحان لینے والی بحث کے تین مراحل میں سب سے پہلے الیفزؔ بولا۔ اپنی پہلی باتچیت میں الیفزؔ نے پوچھا: ”کہیں راستباز بھی کاٹ ڈالے گئے؟“ اُس نے نتیجہ نکالا کہ خدا سے سزا پانے کیلئے اؔیوب نے ضرور کوئی بدی کی ہے۔ (ایوب، ۴، ۵ ابواب) اپنی دوسری باتچیت میں الیفزؔ نے اؔیوب کی دانش کا مذاق اُڑایا اور پوچھا: ”تُو ایسا کیا جانتا ہے جو ہم نہیں جانتے؟“ الیفزؔ نے اس بات کی دلالت کی کہ اؔیوب خود کو قادرِمطلق سے افضل ٹھہرانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اپنے دوسرے حملے کے اختتام پر اُس نے اؔیوب کو برگشتگی، رشوتستانی اور دھوکے بازی کا مجرم قرار دیا۔ (ایوب، باب ۱۵) اپنی آخری باتچیت میں الیفزؔ نے دروغگوئی سے اؔیوب پر بہت سارے جرائم—استحصال، حاجتمند کو روٹی اور پانی نہ دینے اور بیواؤں اور یتیموں پر ظلم کرنے کا الزام لگایا۔—ایوب، باب ۲۲۔
۲۰. اؔیوب پر بلدؔد کے حملوں کی نوعیت کیا تھی؟
۲۰ بحث کے تینوں مراحل میں دوسری باری پر بولنے والے بلدؔد نے ٹھیک اُسی عام موضوع کی پیروی کی جس کو الیفزؔ نے قائم کِیا۔ بلدؔد کی باتیں مختصر مگر بڑا دل دُکھانے والی تھیں۔ اُس نے تو اؔیوب کے بچوں پر غلطکاری اور یوں موت کے مستحق ہونے کا الزام لگایا۔ غلط استدلال کرنے سے اُس نے یہ تمثیل استعمال کی: جیسے ناگرموتھا اور سرکنڈے پانی کے بغیر خشک ہوکر مرجھا جاتے ہیں ویسا ہی حال اُن کا ہوتا ہے جو ”خدا کو بھول جاتے ہیں۔“ یہ بیان حقیقت ہے لیکن اس کا اطلاق اؔیوب پر نہیں ہوتا تھا۔ (ایوب، باب ۸) بلدؔد نے اؔیوب پر آنے والے مصائب کو ایسا خیال کیا جو ایک بدکار پر آتے ہیں۔ (ایوب، باب ۱۸) اپنی تیسری مختصر سی گفتگو میں بلدؔد نے اس بات پر زور دیا کہ انسان ”کیڑا“ اور ”کرم“ ہے اور اس لئے خدا کے حضور ناپاک ہے۔—ایوب، باب ۲۵۔
۲۱. ضوؔفر نے کس چیز کیلئے اؔیوب پر الزام لگایا؟
۲۱ بحث میں بولنے والا تیسرا ضوؔفر تھا۔ عام طور پر اُسکا نقطۂنظر بھی الیفزؔ اور بلدؔد کی پیروی میں تھا۔ ضوؔفر نے اؔیوب پر بدکرداری کا الزام لگایا اور تاکید کی کہ اپنی گنہگارانہ عادات کو ترک کر دے۔ (ایوب، ابواب ۱۱، ۲۰) دو مرحلوں کے بعد ضوؔفر نے باتچیت کرنا بند کر دی۔ تیسرے مرحلے میں اضافہ کرنے کیلئے اسکے پاس کچھ نہیں تھا۔ تاہم، تمام مباحثے کے دوران اؔیوب جراتمندی سے اپنے موردِالزام کو جواب دیتا رہا۔ مثلاً، ایک موقع پر اُس نے کہا: ”تم سب کے سب نکمّے تسلی دینے والے ہو۔ کیا لغو باتیں کبھی ختم ہونگی؟“—ایوب ۱۶:۲، ۳۔
ہم برداشت کر سکتے ہیں
۲۲، ۲۳. (ا) جیسا کہ اؔیوب کے معاملے میں ہوا، ابلیس کیسے یہوؔواہ خدا کیلئے ہماری راستی کو توڑنے کی کوشش کر سکتا ہے؟ (ب) اگرچہ اؔیوب مختلف آزمائشوں کو برداشت کر رہا تھا، ہم اُسکے رویے کی بابت کیا پوچھ سکتے ہیں؟
۲۲ اؔیوب کی طرح ہمیں بھی ایک ہی وقت میں ایک سے زیادہ آزمائشوں کا سامنا ہو سکتا ہے اور شیطان ہماری راستی کو توڑنے کیلئے اپنی کوششوں میں حوصلہشکنی اور دیگر عناصر کو استعمال کر سکتا ہے۔ اگر ہم معاشی مسائل سے دوچار ہیں تو شاید وہ ہمیں یہوؔواہ کے خلاف کر دینے کی کوشش کرے۔ اگر کوئی عزیز مر جاتا ہے یا ہمیں خراب صحت کا تجربہ ہوتا ہے تو شیطان ہمیں خدا پر الزام لگانے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ اؔیوب کے دوستوں کی طرح، دروغگوئی سے ہمیں بھی کوئی ملزم قرار دے سکتا ہے۔ جیسے کہ بھائی میکؔملن نے بیان کِیا، شیطان ’ہمارے تعاقب‘ میں ہو سکتا ہے، مگر ہم برداشت کر سکتے ہیں۔
۲۳ جس حد تک ہم نے جائزہ لیا ہے اؔیوب اپنی مختلف آزمائشوں کو برداشت کر رہا تھا۔ تاہم، کیا وہ بڑی مشکل سے برداشت کر رہا تھا؟ کیا واقعی اُسکا حوصلہ پست ہو چکا تھا؟ آئیں دیکھیں کہ آیا اؔیوب واقعی ساری اُمید کھو چکا تھا۔ (۱۰ ۱۱/۱۵ w۹۴)
آپ کیسے جواب دینگے؟
▫ اؔیوب کے دنوں میں شیطان نے کونسا عظیم مسئلہ کھڑا کر دیا؟
▫ کن طریقوں سے اؔیوب کو حدانتہا تک آزمایا گیا تھا؟
▫ کس چیز کیلئے اؔیوب کے تین ”دوستوں“ نے اُس پر الزام لگایا؟
▫ جیسا کہ اؔیوب کے معاملے میں ہوا، شیطان یہوؔواہ کیلئے ہماری راستی کو توڑنے کیلئے کس طرح کوشش کر سکتا ہے؟
[تصویر]
اے۔ایچ۔میکؔملن