تخلیق یہوواہ کی بڑائی کرتی ہے
یہوواہ خدا کی عظمت انسان کی سمجھ کے بالکل باہر ہے۔ جب ہم اُسکی بنائی ہوئی چیزوں پر غور کرتے ہیں تو ہم دنگ رہ جاتے ہیں اور ہمارے دل میں اُسکی حمد کرنے کی خواہش بڑھتی ہے۔—زبور ۱۹:۱-۴۔
آپ ضرور اس بات پر اتفاق کریں گے کہ ہمیں کائنات کے خالق کے کلام پر توجہ دینی چاہئے۔ لیکن اگر خدا آپ سے گفتگو کرنے لگے تو کیا آپ بےحد حیران نہیں ہوں گے؟ تقریباً ۳،۵۰۰ سال پہلے خدا ایک فرشتے کے ذریعے اپنے بندے ایوب سے مخاطب ہوا۔ یہوواہ خدا نے اُس سے زمین اور آسمان کے عجائب کے بارے میں باتیں کیں۔ ہم اس گفتگو پر غور کرنے سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
زمین کی بنیاد اور سمندر کے حدود
خدا ایک بگولے میں سے ایوب سے مخاطب ہو کر سب سے پہلے زمین اور سمندر کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ (ایوب ۳۸:۱-۱۱) کیا انسان نے زمین کی ناپ ٹھہرا کر اُسے بنایا تھا؟ ہرگز نہیں۔ خدا ایوب سے پوچھتا ہے: ”کس نے اُسکے کونے کا پتھر بٹھایا؟“ انسان نے تو نہیں بلکہ یہوواہ خدا نے زمین کو خلق کِیا۔ اُسکے فرشتے زمین کی خلقت کو دیکھ کر خوشی سے للکارنے لگے۔
خدا ابد سے ابد تک ہے۔ اگر سمندر کی عمر کا مقابلہ اس عرصے سے کِیا جائے تو ایسا لگتا ہے جیسے سمندر ابھی ابھی پیدا ہوا ہے۔ سمندر ”اَیسا پھوٹ نکلا گویا رحم سے۔“ خدا سمندر کو بادلوں کا لباس پہناتا ہے۔ ساحلوں کے بیچ میں وہ اُسے اسی طرح بند کر دیتا ہے جیسے اسے دروازوں کے پیچھے بند کِیا گیا ہو۔ سورج اور چاند اپنی کشش کے ذریعے سمندر کے اُتار چڑھاؤ پر پابندی لگاتے ہیں۔
ایک انسائیکلوپیڈیا یوں بیان کرتی ہے: ”چھوٹی چھوٹی موجوں سے لے کر ۳۰ میٹر [۱۰۰ فٹ] اُونچی طوفانی لہروں تک، زیادہتر لہریں ہوا کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ . . . جب ہوا بند ہو جاتی ہے، تب بھی لہریں سمندری سطح پر دُور دُور تک بڑھتی رہتی ہیں۔ اس دوران اُنکا چڑھاؤ ذرا کم ہو جاتا ہے۔ پھر ساحل سے ٹکرانے پر وہ جھاگ بن کر ختم ہو جاتی ہیں۔“ جیہاں، سمندر خدا کے اِس حکم کو مانتا ہے: ”یہانتک تُو آنا پر آگے نہیں اور یہاں تیری بپھرتی ہوئی موجیں رُک جائیں گی۔“
صبح کی روشنی
پھر خدا ایوب سے صبح کی روشنی کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ (ایوب ۳۸:۱۲-۱۸) کوئی انسان دن رات کے آنے جانے کو روک نہیں سکتا۔ شریر لوگ اپنے کرتوت اکثر اندھیری ”شام“ کے پردے میں کرتے ہیں۔ (ایوب ۲۴:۱۵، ۱۶) لیکن صبح کی روشنی اُن شریروں کو بےنقاب کرتی ہے اور وہ زمین کی سطح سے غائب ہو جاتے ہیں، کچھ اسی طرح جیسے وہ گرد جو ایک کپڑے سے جھاڑی جائے۔
صبح کے وقت سورج کی جھنجھناتی کِرنیں ایک مہر کی طرح زمین پر خوبصورت ڈیزائن بناتی ہیں۔ سورج کی روشنی میں یوں لگتا ہے جیسے زمین کو رنگبرنگ کپڑوں سے پوشاک کِیا گیا ہو۔ خالق کے ان تمام شہکاروں میں ایوب کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔ ایوب سمندر کی تہہ تک بھی نہیں اُترا تھا تاکہ وہ اس میں پائی جانے والی عجیبوغریب مخلوقات کو دیکھے۔ یہانتک کہ اس جدید دَور میں بھی ان چیزوں کے بارے میں سائنسدانوں کا علم محدود ہے۔
برف اور اَولوں کے ذخیرے
انسان نُور اور تاریکی کو انکے مکان تک نہیں پہنچا سکتا اور نہ ہی وہ برف اور اَولوں کے ذخیروں میں داخل ہو سکتا ہے۔ لیکن خدا نے برف اور اَولوں کو ”لڑائی اور جنگ کے دن کی خاطر رکھ چھوڑا ہے۔“ (ایوب ۳۸:۱۹-۲۳) جب بنیاسرائیل جبعون میں اپنے دُشمنوں کا سامنا کر رہے تھے تو خدا نے دُشمنوں پر اَولے برسائے۔ اُس موقعے پر ”جو اَولوں سے مرے وہ اُن سے جنکو بنیاسرائیل نے تہِتیغ کِیا کہیں زیادہ تھے۔“ (یشوع ۱۰:۱۱) ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں بھی خدا ان لوگوں کو ختم کرنے کیلئے اَولے استعمال کرے جو اُسکے دُشمن جوج یعنی شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔—حزقیایل ۳۸:۱۸، ۲۲۔
جولائی ۲۰۰۲ میں چین میں ایک طوفان کے دوران آسمان سے انڈوں جیسے بڑے اَولے برسے۔ اس طوفان میں ۲۵ لوگ ہلاک اور ۲۰۰ زخمی ہوئے۔ سن ۱۵۴۵ میں فرانس میں ہونے والے ایک طوفان کے بارے میں ایک اطالوی سیاح نے یوں بیان کِیا تھا: ”بادل ایک انوکھی سی کھڑکھڑاہٹ کیساتھ گرجنے لگے۔ . . . اسکے بعد ایک ہولناک شور سنائی دینے لگا۔ مجھے یقین ہو گیا کہ آخرت کا روز ہم پر آن پہنچا ہے۔ لہٰذا مَیں نے اپنے گھوڑے کو روک لیا۔ پھر اَولے برسنے لگے مگر انکے ساتھ بارش کی ایک بوند بھی نہ پڑی۔ . . . اب جو اَولے برسنے لگے وہ لیموں جیسے بڑے تھے۔ . . . آخرکار طوفان بند ہو گیا۔ . . . ہم ایک دوسرے کو اپنی اپنی چوٹیں دکھا کر آگے بڑھے۔ لیکن ایک میل بعد ہمیں تباہی کا ایک ایسا منظر دکھائی دیا جو اس آفت سے بھی زیادہ ہولناک تھا جس سے ہم گزر چکے تھے۔ درختوں پر ایک بھی پتا نہیں رہا تھا۔ میدان میں مویشیاں مری پڑی تھیں۔ چند چرواہے بھی ہلاک ہو گئے تھے۔ زمین پر جو اَولے پڑے تھے وہ اتنے بڑے تھے کہ اُنہیں دو ہاتھ سے پکڑنا مشکل تھا۔“
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جب یہوواہ خدا برف اور اَولوں کے ذخیروں کو کھول کر اپنے دُشمنوں پر دھاوا کرے گا تو اُن میں سے کوئی بچ نہیں پائے گا۔
بارش، شبنم اور برف
اب خدا ایوب سے بارش، شبنم اور برف کے بارے میں سوال کرتا ہے۔ (ایوب ۳۸:۲۴-۳۰) ان چیزوں کا کوئی انسانی ”باپ“ نہیں بلکہ یہوواہ خدا انکو پیدا کرتا ہے۔ وہ ہی ’غیرآباد زمین اور بیابان کو جس میں انسان نہیں بستا،‘ ان کو بارش سے شاداب کرتا ہے۔
ایک رسالے میں یوں بیان کِیا گیا ہے: ”پانی کی عجیب مگر بہت اہم صلاحیت یہ ہے کہ وہ جم جانے پر بڑھ جاتا ہے . . . اور یہ جمی ہوئی برف پانی کی سطح پر تیرنے لگتی ہے۔ اسکے نتیجے میں موسمِسرما کے دوران جھیلوں میں پودے اور مچھلیاں سخت سردی کے باوجود زندہ رہتی ہیں۔ اگر پانی جم جانے پر بڑھ نہ جاتا تو برف پانی سے بھاری ہوتی اور جھیل کی تھاہ تک ڈوب جاتی۔ پھر سطح پر اَور زیادہ برف پیدا ہوتی اور یہ بھی تھاہ تک ڈوب جاتی، جبتک جھیل جمی ہوئی برف سے بھر نہ جاتی۔ . . . اگر ایسا ہوتا تو دُنیا کے سرد علاقوں میں تمام دریا، جھیلیں یہانتک کہ سمندر بھی ہمیشہ جمے رہتے۔“
کیا ہمیں اپنے خالق کے شکرگزار نہیں ہونا چاہئے کہ اُس نے پانی کو اس خاص صلاحیت کیساتھ خلق کِیا ہے؟ ہم اس بات کی بھی قدر کرتے ہیں کہ ہماری زمین بارش اور شبنم سے سیراب ہوتی ہے۔
آسمان کے قوانین
پھر خدا ایوب سے آسمان کے متعلق سوال کرتا ہے۔ (ایوب ۳۸:۳۱-۳۳) عقدِثریا سے مُراد سات ستاروں پر مشتمل ایک جُھرمٹ ہے اور جبار بھی ستاروں کے ایک جُھرمٹ کا نام ہے۔ کوئی انسان ’عقدِثرؔیا کو باندھ نہیں سکتا‘ یا ’جباؔر کے بندھن کو کھول نہیں سکتا۔‘ ستارے اپنی اپنی جگہ پر قائم ہیں۔ منطقہالبروج اور بناتالنعش دو اَور جُھرمٹوں کے نام ہیں۔ انسان کا ان پر کوئی اختیار نہیں۔ ہم ”آسمان کے قوانین“ یعنی کائنات کو قابو میں رکھنے والے قدرتی قوانین کو بدل نہیں سکتے۔
موسم کی تبدیلیاں، سمندر کا اُتار چڑھاؤ اور ہوا کی حرکت یہانتک کہ زمین پر زندگی بھی ستاروں اور سیاروں کے اثر سے برقرار رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک انسائیکلوپیڈیا یوں بیان کرتی ہے: ”سورج کی کِرنیں زمین کو گرمی اور روشنی مہیا کرتی ہیں۔ پودوں کے اُگنے کیلئے دھوپ کی ضرورت ہے۔ دھوپ سمندر میں سے پانی کو بھاپ میں تبدیل کرتی ہے، ہوا پیدا کرتی ہے، وغیرہ۔ اسلئے زمین پر زندگی کا انحصار سورج پر ہے۔“ اُسی کتاب میں یہ بھی بیان کِیا گیا ہے کہ ”سورج زمین سے ۱۵ کروڑ کلومیٹر [۹ کروڑ میل] دُور ہے۔ لیکن اُسکی کِرنوں کی قوت بہت مؤثر ہے۔ ذرا غور کیجئے کہ ہوا کی قوت، تمام دریاؤں اور ڈیموں کے پانی کی طاقت اور لکڑی، کوئلے یا تیل جیسے ایندھن میں ذخیرہ قوت، یعنی کہ ان تمام قوتوں کو سورج کی روشنی نے پیدا کِیا ہے۔“
پانی کا چکر
اب یہوواہ ایوب کو بادلوں پر غور کرنے کو کہتا ہے۔ (ایوب ۳۸:۳۴-۳۸) انسان بادل نہیں بنا سکتا اور نہ ہی بارش پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے خالق نے پانی کے چکر کا انتظام کِیا ہے۔
پانی کے چکر سے کیا مُراد ہے؟ ایک کتاب اسکی یوں وضاحت کرتی ہے: ”زمین پر پانی مختلف جگہوں میں ذخیرہ ہوتا ہے، مثلاً زمین کی تہہ میں، سمندر، جھیلوں اور دریاؤں میں یا پھر برف کے تودوں میں۔ زمین کی سطح پر پانی بھاپ میں تبدیل ہو کر بادلوں کی شکل میں جمع ہو جاتا ہے اور پھر بارش یا برف کے طور پر زمین پر پڑتا ہے۔ آخرکار پانی دوبارہ سمندر میں پہنچ جاتا ہے یا پھر زمین کی سطح پر سے بھاپ بن کر فضا میں مل جاتا ہے۔ زمین پر موجود پانی کا تقریباً ہر ایک قطرہ باربار اِس چکر سے گزر چکا ہے۔“
گھنے بادل ایک مشک یا مٹکے کی طرح ہیں۔ جب یہوواہ انکو اُنڈیلتا ہے تو اکثر اتنی بارش پڑتی ہے کہ گرد کیچڑ بن جاتی ہے۔ لیکن خدا بارش نہ صرف پیدا کرتا ہے بلکہ وہ اُسے روک بھی سکتا ہے۔—یعقوب ۵:۱۷، ۱۸۔
بادلوں میں اکثر بجلی بھی چمکتی ہے۔ انسان کا بجلی پر بھی کوئی اختیار نہیں ہے۔ بجلی خدا ہی کے اختیار میں ہے اور وہ اُس سے کہتی ہے کہ ”مَیں حاضر ہوں۔“ ایک انسائیکلوپیڈیا یوں بیان کرتی ہے: ”بجلی بہت اہم کیمیائی مُرکبات پیدا کرتی ہے۔ جب بجلی کی کوند فضا سے گزرتی ہے تو ہوا بہت ہی گرم ہو جاتی ہے۔ اِس شدید گرمی کی وجہ سے ہوا میں نائٹروجن اور آکسیجن کا مُرکب پیدا ہوتا ہے۔ یہ مُرکب بارش کیساتھ زمین پر پڑتا ہے جہاں وہ کھاد کے طور پر پودوں کے کام آتا ہے۔ فضا میں لگاتار ایسے کیمیائی مُرکبات پیدا ہوتے ہیں۔“ انسان بجلی کو پوری طرح سمجھ تو نہیں پاتا لیکن یہوواہ خدا اسکا پورا علم رکھتا ہے۔
تخلیق خدا کی حمد کرتی ہے
واقعی، تخلیق پر غور کرنے سے ہمارے دل میں یہوواہ خدا کی بڑائی کرنے کی خواہش بڑھتی ہے۔ (مکاشفہ ۴:۱۱) ایوب بھی تخلیق کے بارے میں یہوواہ کی باتوں سے بہت متاثر ہوا تھا۔
خدا نے ایوب سے بہت سی اَور عجیبوغریب چیزوں کے بارے میں بات کی تھی۔ اس مضمون میں ہم ان میں سے صرف چند ہی باتوں پر غور کر چکے ہیں۔ لیکن جو کچھ ہم نے سیکھا ہے اس سے ہمارے دل میں یہ کہنے کی خواہش پیدا ہوئی ہے: ”دیکھ! خدا بزرگ ہے اور ہم اُسے نہیں جانتے۔“—ایوب ۳۶:۲۶۔
[صفحہ ۱۴ پر تصویر کا حوالہ]
Snowlfake: snowcrystals.net
[صفحہ ۱۵ پر تصویر کا حوالہ]
& Pleiades: NASA, ESA and AURA/Caltech; ifsh: U.S. Fish
Wildlife Service, Washington, D.C./William W. Hartley