اصلاح قبول کرنے والا ایک قابلِتقلید انسان
”زمبیا کے مگرمچھ ہر ماہ ۳۰ لوگوں کو کھا جاتے ہیں۔“ کچھ سال قبل افریقہ کے ایک اخبار نے یہ خبر دی تھی۔ تحقیق کی غرض سے اِن رینگنے والے جانوروں کو پکڑنے والے ایک ماہرِحیوانیات کے مطابق، ”ایک مگرمچھ کو قابو میں کرنے کیلئے ۱۲ آدمی درکار ہوتے ہیں۔“ مگرمچھ ایک خوفناک جانور ہے جسکی دُم اور جبڑے بہت ہی طاقتور ہوتے ہیں!
بدیہی طور پر، خالق اپنے بندہ ایوب کو ایک اہم سبق سکھانے کیلئے مگرمچھ کو بطور مثال استعمال کرتا ہے اور اسکا حوالہ ”لویاتان“ کے طور پر دیتا ہے جو ”سب مغروروں کا بادشاہ ہے۔“ (ایوب ۴۱:۱، ۳۴) یہ کوئی ۳۵۰۰ سال قبل کا واقعہ ہے جو شمالی عرب میں کہیں عوض کے مُلک میں رُونما ہوا۔ اس مخلوق کا ذکر کرتے ہوئے، خدا نے ایوب کو بتایا: ”کوئی ایسا تندخو نہیں جو اُسے چھیڑنے کی جرأت کرے۔ پھر وہ کون ہے جو میرے سامنے کھڑا ہو سکے؟“ (ایوب ۴۱:۱۰) یہ واقعی سچ ہے! اگر ہم مگرمچھ سے ڈرتے ہیں تو پھر ہمیں اسے خلق کرنے والی ہستی کے خلاف بولنے سے کتنا زیادہ ڈرنا چاہئے! ایوب نے اپنی غلطی تسلیم کرنے سے اس سبق کیلئے قدردانی کا اظہار کِیا۔—ایوب ۴۲:۱-۶۔
جب بھی ایوب کا تذکرہ ہوتا ہے تو فوراً آزمائش کو بڑے صبر کے ساتھ برداشت کرنے کے سلسلے میں اُس کی وفادارانہ مثال ہمارے ذہن میں آ جاتی ہے۔ (یعقوب ۵:۱۱) دراصل، ایوب کے ایمان کی کڑی آزمائش سے پہلے ہی یہوواہ اُس سے خوش تھا۔ خدا کے خیال میں، اُس وقت ”زمین پر اُسکی طرح کامل اور راستباز آدمی جو خدا سے ڈرتا اور بدی سے دُور رہتا ہو کوئی نہیں“ تھا۔ (ایوب ۱:۸) اس سے ہمیں ایوب کی بابت مزید سیکھنے کی تحریک ملنی چاہئے کیونکہ اسی سے ہمیں یہ بات سمجھنے میں مدد ملیگی کہ ہم بھی خدا کو کیسے خوش کر سکتے ہیں۔
خدا کیساتھ رشتہ مُقدم
ایوب ایک دولتمند آدمی تھا۔ سونے کے علاوہ، اُس کے پاس ۷،۰۰۰ بھیڑیں، ۳،۰۰۰ اُونٹ، ۵۰۰ گدھیاں، مجموعی طور پر ۱،۰۰۰ مویشی اور بہت سے نوکرچاکر بھی تھے۔ (ایوب ۱:۳) لیکن ایوب کا توکل دولت کی بجائے یہوواہ پر تھا۔ اُس نے توجیہ کی: ”اگر مَیں نے سونے پر بھروسا کِیا ہو اور چوکھے سونے سے کہا ہو کہ میرا اعتماد تجھ پر ہے۔ اگر مَیں اِسلئے کہ میری دولت فراوان تھی اور میرے ہاتھ نے بہت کچھ حاصل کر لیا تھا نازان ہؤا۔ . . . تو یہ بھی ایسی بدی ہے جسکی سزا قاضی دیتے ہیں کیونکہ یوں مَیں نے خدا کا جو عالمِبالا پر ہے انکار کِیا ہوتا۔“ (ایوب ۳۱:۲۴-۲۸) ایوب کی طرح، ہمیں بھی یہوواہ کیساتھ قریبی رشتے کو مادی اشیاء سے زیادہ اہم خیال کرنا چاہئے۔
ساتھی انسانوں کیساتھ منصفانہ سلوک
ایوب اپنے خادموں کے ساتھ کیسا سلوک کرتا تھا؟ ایوب کے اپنے الفاظ سے یہ ظاہر ہے کہ اُنکی نظر میں وہ انصافپسند اور قابلِرسائی تھا: ”اگر مَیں نے اپنے خادم یا خادمہ کا حق مارا ہو جب اُنہوں نے مجھ سے جھگڑا کِیا تو جب خدا اُٹھیگا تب مَیں کیا کرونگا؟ اور جب وہ آئیگا تو مَیں اُسے کیا جواب دونگا؟“ (ایوب ۳۱:۱۳، ۱۴) ایوب نے یہوواہ کے رحم کی قدر کرنے کی وجہ سے اپنے خادموں کیساتھ رحمانہ سلوک کِیا۔ مسیحی کلیسیا میں نگہبانی کے مرتبوں پر فائز اشخاص کیلئے کیا ہی عمدہ نمونہ! انہیں بھی انصافپسند، غیرجانبدار اور قابلِرسائی ہونا چاہئے۔
ایوب اپنے اہلِخانہ کے علاوہ دیگر لوگوں میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ دوسروں کی بابت اپنی فکرمندی کو ظاہر کرتے ہوئے اُس نے کہا: ”اگر مَیں نے محتاج سے اُسکی مراد روک رکھی یا ایسا کِیا کہ بیوہ کی آنکھیں رہ گئیں۔ . . . اگر مَیں نے کسی یتیم پر ہاتھ اُٹھایا ہو کیونکہ پھاٹک پر مجھے اپنی کمک دکھائی دی تو میرا کندھا میرے شانہ سے اُتر جائے اور میرے بازو کی ہڈی ٹوٹ جائے۔“ (ایوب ۳۱:۱۶-۲۲) دُعا ہے کہ ہم بھی اپنی کلیسیا میں موجود مصیبتزدہ اشخاص کا ایسے ہی خیال رکھیں۔
اپنے ساتھی انسانوں میں بےلوث دلچسپی لینے کی وجہ سے ایوب اجنبیوں کیلئے بھی مہماننوازی دکھاتا تھا۔ پس وہ کہہ سکتا تھا: ”پردیسی کو گلیکوچوں میں ٹکنا نہ پڑا بلکہ مَیں مسافر کے لئے اپنے دروازے کھول دیتا تھا۔“ (ایوب ۳۱:۳۲) یہ آجکل خدا کے خادموں کیلئے کتنا اچھا نمونہ ہے! جب بائبل سچائی میں دلچسپی رکھنے والے نئے لوگ کنگڈم ہال میں آتے ہیں تو مہماننوازی کے جذبے کیساتھ اُنکا خیرمقدم کرنا اُنکی روحانی ترقی کا باعث بن سکتا ہے۔ بِلاشُبہ، سفری نگہبان اور دیگر مسیحی بھی ہماری مشفقانہ مہماننوازی کے مستحق ہیں۔—۱-پطرس ۴:۹؛ ۳-یوحنا ۵-۸۔
ایوب اپنے دشمنوں کی بابت بھی معقول نظریہ رکھتا تھا۔ وہ تو اپنے نفرت کرنے والوں کو کسی آفت میں مبتلا دیکھ کر خوش نہیں ہوتا تھا۔ (ایوب ۳۱:۲۹، ۳۰) اسکے برعکس، وہ ایسے لوگوں کیساتھ نیکی کرنے کا خواہاں تھا جسکا ثبوت اُس نے اپنے تین جھوٹے تسلی دینے والوں کے حق میں دُعا کرنے کیلئے آمادگی ظاہر کرنے سے دیا۔—ایوب ۱۶:۲؛ ۴۲:۸، ۹؛ مقابلہ کریں متی ۵:۴۳-۴۸۔
اخلاقی طور پر پاک
ایوب اپنی بیوی کا بھی وفادار تھا، اُس نے تو اپنے دل میں بھی کسی غیر عورت کیلئے کوئی نامناسب اُلفت پیدا نہیں ہونے دی تھی۔ ایوب نے کہا: ”مَیں نے اپنی آنکھوں سے عہد کِیا ہے۔ پھر مَیں کسی کنواری پر کیونکر نظر کروں؟ اگر میرا دل کسی عورت پر فریفتہ ہؤا اور مَیں اپنے پڑوسی کے دروازہ پر گھات میں بیٹھا تو میری بیوی دوسرے کیلئے پیسے اور غیر مرد اُس پر جھکیں۔ کیونکہ یہ نہایت بُرا جرم ہوتا بلکہ ایسی بدی ہوتی جسکی سزا قاضی دیتے ہیں۔“—ایوب ۳۱:۱، ۹-۱۱۔
ایوب نے بُری خواہشات کو اپنے دل کو بگاڑنے کی اجازت نہ دی۔ اِسکی بجائے وہ راست روش پر چلتا رہا۔ کچھ عجب نہیں کہ خدا نے غیراخلاقی ترغیبات کی مزاحمت کرنے والے اس ایماندار شخص کو بہت پسند کِیا!—متی ۵:۲۷-۳۰۔
خاندان کی روحانیت کیلئے فکرمند
بسااوقات، ایوب کے بیٹے ضیافتیں کِیا کرتے تھے جن پر اُسکے سب بیٹے بیٹیاں جمع ہوتے تھے۔ ضیافت کے دن گزر جانے کے بعد ایوب کو بڑی فکر ہوتی تھی کہ کہیں اُسکے بچوں سے یہوواہ کے خلاف کوئی گناہ سرزد نہ ہو گیا ہو۔ لہٰذا، ایوب کچھ کرتا تھا، صحیفائی سرگزشت بیان کرتی ہے: ”اُسکے بیٹے ایک دوسرے کے گھر جایا کرتے تھے اور ہر ایک اپنے دن پر ضیافت کرتا تھا اور اپنے ساتھ کھانے پینے کو اپنی تینوں بہنوں کو بلوا بھیجتے تھے۔ اور جب اُنکی ضیافت کے دن پورے ہو جاتے تو اؔیوب اُنہیں بلوا کر پاک کرتا اور صبح کو سویرے اُٹھکر اُن سبھوں کے شمار کے موافق سوختنی قربانیاں چڑھاتا تھا کیونکہ اؔیوب کہتا تھا کہ شاید میرے بیٹوں نے کچھ خطا کی ہو اور اپنے دل میں خدا کی تکفیر کی ہو۔“ (ایوب ۱:۴، ۵) اس سے ایوب کے گھرانے پر اُسکی یہ فکرمندی واضح ہو جاتی ہوگی کہ اُنہیں یہوواہ کا مؤدبانہ خوف رکھنا ہے اور اُسکی راہوں پر چلنا ہے!
آجکل، مسیحی خاندان کے سرداروں کے لئے اپنے خاندانوں کی خدا کے کلام، بائبل سے تعلیموتربیت کرنا بہت لازمی ہے۔ (۱-تیمتھیس ۵:۸) لہٰذا، خاندان کے افراد کیلئے دُعا کرنا یقیناً موزوں ہے۔—رومیوں ۱۲:۱۲۔
آزمائش کے تحت وفاداری سے برداشت کی
بیشتر بائبل قارئین ایوب پر آنے والی کڑی آزمائشوں سے واقف ہیں۔ شیطان ابلیس دعویٰ کر چکا تھا کہ صبرآزما حالتوں کے تحت ایوب خدا کی تکفیر کرے گا۔ یہوواہ نے اس چیلنج کو قبول کر لیا اور شیطان نے فوری طور پر ایوب پر یکےبعددیگرے آفات کو نازل کرنا شروع کر دیا۔ اُسکے سب مویشی مارے گئے۔ اس سے بھی بدتر، اُس کے تمام بچے موت کا شکار ہو گئے۔ اسکے تھوڑی ہی دیر بعد، شیطان ایوب پر تلوے سے چاند تک دردناک پھوڑوں کے ذریعے تکلیف لایا۔—ایوب، ۱، ۲ ابواب۔
نتیجہ کیا نکلا؟ جب اُسکی بیوی نے اُسے خدا کی تکفیر کرنے پر اُکسایا تو ایوب نے کہا: ”تُو نادان عورتوں کی سی باتیں کرتی ہے۔ کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دُکھ نہ پائیں؟“ بائبل ریکارڈ بیان کرتا ہے: ”اِن سب باتوں میں اؔیوب نے اپنے لبوں سے خطا نہ کی۔“ (ایوب ۲:۱۰) جیہاں، ایوب نے وفاداری سے برداشت کی اور ابلیس کو جھوٹا ثابت کِیا۔ خدا کرے کہ ہم بھی آزمائشوں کو ایسے ہی برداشت کریں اور یہ ثابت کر دکھائیں کہ ہم یہوواہ کیلئے حقیقی محبت سے تحریک پا کر اُسکی خدمت کرتے ہیں۔—متی ۲۲:۳۶-۳۸۔
فروتنی سے اصلاح قبول کی
ایوب مختلف طریقوں سے قابلِنمونہ ہونے کے باوجود، کامل نہیں تھا۔ اُس نے خود تسلیم کِیا: ”ناپاک چیز میں سے پاک چیز کون نکال سکتا ہے؟ کوئی نہیں۔“ (ایوب ۱۴:۴؛ رومیوں ۵:۱۲) پس، جب خدا نے کہا کہ ایوب کامل ہے تو یہ اس لحاظ سے سچ تھا کہ اُس نے اُن تمام تقاضوں کو پورا کِیا تھا جو خدا اپنے ناکامل اور گنہگار انسانی خادموں سے کرتا ہے۔ کتنی بڑی حوصلہافزائی!
ایوب نے اپنی آزمائش کو برداشت کِیا مگر اس سے اُسکی ایک غلطی بھی نظر آتی ہے۔ اُس پر آنے والی مصیبت کا سارا حال سن کر تین نامنہاد تسلی دینے والے اُس سے ملنے کیلئے آئے۔ (ایوب ۲:۱۱-۱۳) اُنہوں نے ایوب پر الزام لگایا کہ وہ ضرور سنگین گناہوں کی وجہ سے یہوواہ سے سزا پا رہا ہے۔ ان جھوٹے الزامات کی وجہ سے لامحالہ ایوب کو دُکھ پہنچا ہوگا، لہٰذا اُس نے اپنا ڈٹ کر دفاع کِیا۔ تاہم، وہ اپنی توجیہ کرنے کی کوشش میں اپنا توازن کھو بیٹھا۔ ایوب نے تو یہ دلالت بھی کی کہ وہ خدا سے بھی زیادہ راست ہے!—ایوب ۳۵:۲، ۳۔
ایوب سے محبت کی وجہ سے خدا نے اُسکی غلطی آشکارا کرنے کیلئے ایک نوجوان شخص کو استعمال کِیا۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”تب الیہوؔ . . . کا . . . قہر بھڑکا۔ اُسکا قہر اؔیوب پر بھڑکا اِسلئے کہ اُس نے خدا کو نہیں بلکہ اپنے آپ کو راست ٹھہرایا۔“ مثال کے طور پر، الیہو نے بیان کِیا کہ ”اؔیوب نے کہا مَیں صادق ہوں اور خدا نے میری حقتلفی کی ہے۔“ (ایوب ۳۲:۲؛ ۳۴:۵) تاہم، الیہو نے یہ نتیجہ اخذ کرنے میں اُن تین ”تسلی دینے“ والوں کا ساتھ نہ دیا کہ خدا ایوب کو اُسکے گناہوں کی سزا دے رہا ہے۔ اسکی بجائے، الیہو نے ایوب کی ایمانداری پر اعتماد کا اظہار کِیا اور اُسے نصیحت کی: ”مقدمہ [یہوواہ] کے سامنے ہے اور تُو اُسکے لئے ٹھہرا ہؤا ہے۔“ واقعی، ایوب کو اپنے دفاع میں بےدھڑک بولنے کی بجائے یہوواہ کا انتظار کرنا چاہئے تھا۔ الیہو نے ایوب کو یقین دلایا: ”[خدا] . . . انصاف کی فراوانی میں ظلم نہ کریگا۔“—ایوب ۳۵:۱۴؛ ۳۷:۲۳۔
ایوب کی سوچ کو درست کرنے کی ضرورت تھی۔ لہٰذا، یہوواہ نے اُسے سبق سکھایا کہ خدا کی عظمت کے مقابلے میں انسان کتنا حقیر ہے۔ یہوواہ نے زمین، سمندر، ستاروں بھرے آسمان، حیوانات کے علاوہ دیگر کئی تخلیقی عجائب کا ذکر کِیا۔ آخر میں خدا نے لویاتان—مگرمچھ—کا ذکر کِیا۔ ایوب نے فروتنی سے اصلاح کو قبول کِیا اور اس معاملے میں وہ مزید نمونہ قائم کرتا ہے۔
یہوواہ کی خدمت بخوبی انجام دینے کے باوجود ہم سے غلطیاں سرزد ہونگی۔ اگر غلطی سنگین نوعیت کی ہے تو یہوواہ کسی نہ کسی طرح ہماری اصلاح کر سکتا ہے۔ (امثال ۳:۱۱، ۱۲) ممکن ہے کہ ہمارے ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالنے والا کوئی صحیفہ ہمیں یاد آ جائے۔ شاید مینارِنگہبانی یا واچ ٹاور سوسائٹی کی کوئی اَور اشاعت کوئی ایسی بات کہہ دے جو ہمیں کسی غلطی سے آگاہ کر دے۔ علاوہازیں، کوئی ساتھی مسیحی ممکنہ طور پر بائبل اصولوں کا اطلاق کرنے کے سلسلے میں ہماری ناکامی کو مشفقانہ انداز میں ہم پر واضح کر سکتا ہے۔ ہم ایسی اصلاح کیلئے کیسا جوابیعمل دکھائیں گے؟ ایوب نے ان الفاظ میں ندامت کا اظہار کِیا: ”مجھے اپنے آپ سے نفرت ہے اور مَیں خاک اور راکھ میں توبہ کرتا ہوں۔“—ایوب ۴۲:۶۔
یہوواہ سے اَجر
یہوواہ نے اپنے بندہ ایوب کو ۱۴۰ سال مزید زندہ رہنے کا اَجر دیا۔ اس عرصہ کے دوران، اُس نے جو کچھ کھویا تھا اُس سے کئی گُنا زیادہ پایا۔ اگرچہ ایوب بالآخر موت کی نیند سو گیا توبھی وہ خدا کی نئی دُنیا میں ضرور قیامت پائے گا۔—ایوب ۴۲:۱۲-۱۷؛ حزقیایل ۱۴:۱۴؛ یوحنا ۵:۲۸، ۲۹؛ ۲-پطرس ۳:۱۳۔
اگر ہم وفاداری سے خدا کی خدمت کرتے اور بائبل پر مبنی اصلاح کو قبول کرتے ہیں توپھر ہم بھی اُسکی خوشنودی اور برکت کا یقین رکھ سکتے ہیں۔ نتیجتاً، ہمیں خدا کے نظام میں زندگی کی یقینی اُمید حاصل ہوگی۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ہم خدا کی تعظیم کرینگے۔ ہمیں اپنی وفادارانہ روش کا اجر ملے گا جس سے یہ بھی ثابت ہوگا کہ اُسکے لوگ خودغرضی کی بجائے مخلصانہ محبت کی وجہ سے اُسکی خدمت کرتے ہیں۔ ہمیں فروتنی سے اصلاح قبول کرنے والے ایوب کی طرح یہوواہ کا دل شاد کرنے کا کیا ہی عمدہ شرف حاصل ہے!—امثال ۲۷:۱۱۔
[صفحہ ۲۶ پر تصویریں]
ایوب نے یتیموں، بیواؤں اور دیگر لوگوں کیلئے پُرمحبت فکرمندی دکھائی
[صفحہ ۲۸ پر تصویریں]
ایوب کو فروتنی سے اصلاح قبول کرنے کا بڑا اَجر ملا