باب دس
جب خاندان کا کوئی فرد بیمار ہے
۱، ۲. شیطان نے اؔیوب کی راستی کو توڑنے کیلئے مصیبت اور بیماری کو کیسے استعمال کِیا تھا؟
اؔیوب ایک ایسا شخص تھا جسے یقیناً اُن لوگوں میں شمار کِیا جانا چاہئے جنہوں نے خوشحال خاندانی زندگی سے لطف اُٹھایا۔ بائبل اُسے ”اہلِمشرق میں سب سے بڑا آدمی“ کہتی ہے۔ اُس کے سات بیٹے اور تین بیٹیاں، کل دس بچے تھے۔ وہ اپنے خاندان کی اچھی کفالت کرنے کے لئے وسائل بھی رکھتا تھا۔ سب سے بڑھکر، اُس نے روحانی سرگرمیوں میں پیشوائی کی اور یہوؔواہ کے حضور اپنے بچوں کی حالت کی بابت فکر رکھتا تھا۔ یہ سب قریبی اور خوشحال خاندانی بندھنوں پر منتج ہوا۔–ایوب ۱:۱-۵۔
۲ اؔیوب کی حالت یہوؔواہ خدا کے سب سے بڑے دشمن، شیطان کی توجہ سے پوشیدہ نہ رہی۔ شیطان، جو ہمیشہ خدا کے خادموں کی راستی کو توڑنے کے طریقے ڈھونڈنے میں سرگرداں رہتا ہے، اؔیوب پر، اُس کے خوشحال خاندان کو تباہوبرباد کرنے سے حملہآور ہوا۔ اِس کے بعد، اُس نے ”اؔیوب کو تلوے سے چاند تک دردناک پھوڑوں سے دُکھ دیا۔“ یوں شیطان نے اؔیوب کی راستی کو توڑنے کیلئے مصیبت اور بیماری کو استعمال کرنے کا سہارا لیا۔–ایوب ۲:۶، ۷۔
۳. اؔیوب کی بیماری کی علامات کیا تھیں؟
۳ بائبل اؔیوب کی تکلیف کا کوئی طبّی نام تو نہیں بتاتی۔ البتہ، یہ ہمیں علامات ضرور بتاتی ہے۔ اُس کا جسم کیڑوں سے بھرا پڑا تھا، اور اُس کی کھال پر پپڑیاں جم گئیں اور گلسڑ کر اتر گئی۔ اؔیوب کا سانس بڑا بدبُودار تھا، اور اُسکے بدن سے سڑاند اُٹھ رہی تھی۔ وہ بڑی سخت تکلیف میں مبتلا تھا۔ (ایوب ۷:۵؛ ۱۹:۱۷؛ ۳۰:۱۷، ۳۰) اذیت کے عالم میں اؔیوب راکھ پر بیٹھ گیا اور ایک ٹھیکرے سے خود کو کھجانے لگا۔ (ایوب ۲:۸) واقعی ایک قابلِرحم منظر!
۴. وقتاًفوقتاً ہر خاندان کونسا تجربہ کرتا ہے؟
۴ اگر آپ ایسی سنگین بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں تو آپکا ردِعمل کیسا ہوگا؟ آجکل، شیطان خدا کے خادموں پر بیماری سے حملہ نہیں کرتا جیسے اُس نے اؔیوب پر کِیا تھا۔ تاہم، انسانی ناکاملیت، روزمرّہ زندگی کے دباؤ، اور ناقص ماحول کے پیشِنظر جس میں ہم رہتے ہیں، یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ کبھیکبھار خاندانی افراد بیمار پڑیں گے۔ حفاظتی تدابیر جو ہم اختیار کر سکتے ہیں، اِس کے باوجود ہم سب بیماری سے متاثر ہو سکتے ہیں، البتہ چند لوگ ویسی تکلیف اُٹھائیں گے جیسی اؔیوب نے اُٹھائی تھی۔ جب بیماری ہمارے گھرانے پر حملہآور ہوتی ہے تو یہ واقعی ایک چیلنج بن سکتی ہے۔ اس لئے آئیے دیکھیں کہ بائبل نوعِانسان کے دائمی دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہماری مدد کیسے کرتی ہے۔–واعظ ۹:۱۱؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۶۔
آپ اِس کی بابت کیسا محسوس کرتے ہیں؟
۵. عارضی بیماری کے معاملات میں خاندان کے افراد عام طور پر کیسا ردِعمل ظاہر کرتے ہیں؟
۵ زندگی کے معمول میں خلل ہمیشہ دشوار ہوتا ہے، وجہ خواہ کچھ بھی ہو، اگر خلل طویل بیماری کی وجہ سے پیدا ہوا ہے تو یہ بات بالخصوص سچ ثابت ہوتی ہے۔ قلیلالمدت بیماری بھی تبدیلیوں، رعایتوں، اور قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ خاندان کے صحتمند افراد کو بیمار شخص کے آرام کی خاطر شاید خاموش رہنا پڑے۔ شاید اُنہیں بعض سرگرمیاں روک دینی پڑیں۔ تاہم، بیشتر خاندانوں میں چھوٹے بچے بھی بیمار بھائی بہن یا ماں یا باپ کے لئے ہمدردی محسوس کرتے ہیں، اگرچہ اُنہیں کبھیکبھار بامروّت ہونے کی یاددہانی کرانی پڑتی ہے۔ (کلسیوں ۳:۱۲) عارضی بیماری کی صورت میں، خاندان عموماً ضرورت کے تحت سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے۔ علاوہازیں، ہر خاندانی رکن اگر وہ بیمار پڑ جاتا ہے تو اِسی طرح کے پاسولحاظ کی توقع کریگا۔–متی ۷:۱۲۔
۶. اگر خاندان کے کسی فرد کو کوئی سنگین، دائمی مرض لاحق ہو جاتا ہے تو بعضاوقات کونسے ردِعمل دیکھے جاتے ہیں؟
۶ تاہم، اگر بیماری کافی سنگین ہے اور خلل طویل اور شدید ہیں تو کیا ہو؟ مثال کے طور پر، اگر خاندان میں کوئی فالج کی وجہ سے مفلوج ہو گیا ہے، الزیمیر بیماری [اعصابی نظام کی تنزلی] سے مفلوج ہو گیا ہے، یا کسی اور بیماری سے لاغر ہو گیا ہے تو کیا ہو؟ یا اگر خاندان کا کوئی فرد کسی ذہنی بیماری، جیسےکہ شیزوفرینیا سے متاثر ہوا ہے تو کیا ہو؟ ایک عام ابتدائی ردِعمل رحم ہوتا ہے–یہ ملال کہ ایک عزیز اتنی زیادہ تکلیف برداشت کر رہا ہے۔ تاہم، رحم کے بعد دیگر ردِعمل بھی ہو سکتے ہیں۔ جب خاندان کے ارکان خود کو بہت زیادہ متاثر اور ایک شخص کی بیماری کی وجہ سے اپنی آزادیوں کو کم ہوتا ہوا محسوس کرتے ہیں، تو وہ آزردہ محسوس کر سکتے ہیں۔ وہ شاید سوچیں: ”یہ میرے ساتھ ہی کیوں ہونا تھا؟“
۷. اؔیوب کی بیوی نے اُسکی بیماری کیلئے کیسا ردِعمل ظاہر کِیا، اور بدیہی طور پر وہ کونسی بات بھول گئی تھی؟
۷ اؔیوب کی بیوی کے ذہن پر بھی کچھ ایسا ہی اثر ہوا تھا۔ یاد رکھیں، اُسے پہلے ہی اپنے بچوں سے محروم ہو جانے کا تجربہ ہو چکا تھا۔ جُوںجُوں وہ المناک واقعات رونما ہوئے تو یقیناً اُسے بہت زیادہ دھچکا لگا ہوگا۔ آخر میں، جب اُس نے اپنے شوہر کو جو کبھی فعال اور ہشاشبشاش تھا تکلیفدہ، نفرت انگیز بیماری سے متاثر دیکھا تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے اُس اہم عنصر کو ذہن سے نکال دیا جو تمام مصائب کو مات دیتا ہے–وہ رشتہ جو اُس کا شوہر اور وہ خدا کے ساتھ رکھتے تھے۔ بائبل بیان کرتی ہے: ”تب اُس کی [اؔیوب کی] بیوی اُس سے کہنے لگی کہ کیا تُو اب بھی اپنی راستی پر قائم رہے گا؟ خدا کی تکفیر کر اور مر جا۔“–ایوب ۲:۹۔
۸. جب خاندان کا کوئی فرد شدید بیمار ہوتا ہے، تو صحیح نقطۂنظر قائم رکھنے کیلئے کونسا صحیفہ خاندان کے دیگر افراد کی مدد کریگا؟
۸ جب کسی دوسرے کی بیماری کی وجہ سے ان کی زندگی میں یکسر تبدیلی آ جاتی ہے، تو بہتیرے لوگ شکستخوردہ محسوس کرتے ہیں، یہانتککہ اشتعال میں بھی آ جاتے ہیں۔ تاہم، صورتحال پر استدلال کرنے والے ایک مسیحی کو بالآخر سمجھنا چاہئے کہ یہ اُسے اپنی پُرخلوص محبت ظاہر کرنے کا ایک موقع فراہم کرتا ہے۔ سچی محبت ”صابر ہے اور مہربان۔ . . . [اور] اپنی بہتری نہیں چاہتی۔ . . . سب کچھ سہہ لیتی ہے، سب کچھ یقین کرتی ہے، سب باتوں کی اُمید رکھتی ہے، سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۴-۷) اِسلئے، منفی احساسات کو غلبہ پانے کی اجازت دینے کی بجائے، یہ لازم ہے کہ ہم اُنہیں اپنے قابو میں رکھنے کی بھرپور کوشش کریں۔–امثال ۳:۲۱۔
۹. جب ایک فرد سخت بیمار ہوتا ہے تو کونسی یقیندہانیاں ایک خاندان کی روحانی اور جذباتی طور پر مدد کر سکتی ہیں؟
۹ جب خاندان کے ارکان میں سے کوئی سخت بیمار ہے تو خاندان کی روحانی اور جسمانی فلاح کے تحفظ کے لئے کیا کِیا جا سکتا ہے؟ بِلاشُبہ، ہر بیماری اپنی مخصوص نوعیت کی دیکھبھال اور علاج کا تقاضا کرتی ہے، اور اِس اشاعت میں کسی بھی ایسے طریقۂعلاج یا گھریلو دیکھبھال کے طریقوں کو وضع کرنا نامناسب ہوگا۔ تاہم، روحانی مفہوم میں، یہوؔواہ ”جھکے ہوئے کو اُٹھا کھڑا کرتا ہے۔“ (زبور ۱۴۵:۱۴) بادشاہ داؤد نے لکھا: ”مبارک ہے وہ جو غریب کا خیال رکھتا ہے۔ خداوند مصیبت کے دن اُسے چھڑائیگا۔ خداوند اُسے محفوظ اور جیتا رکھیگا اور وہ زمین پر مبارک ہوگا۔ . . . خداوند اُسے بیماری کے بستر پر سنبھالیگا۔“ (زبور ۴۱:۱-۳) یہوؔواہ اپنے خادموں کو اُس وقت بھی روحانی طور پر زندہ رکھتا ہے جب وہ جذباتی طور پر اپنی طاقت سے بڑھکر آزمائے جاتے ہیں۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۷) اپنے گھرانے میں سنگین بیماری کا تجربہ کرنے والے بہتیرے خاندانی افراد نے زبورنویس کے الفاظ کو دہرایا ہے: ”مَیں بڑی مصیبت میں ہوں۔ اَے خداوند! اپنے کلام کے مطابق مجھے زندہ کر۔“–زبور ۱۱۹:۱۰۷۔
ایک شفابخش روح
۱۰، ۱۱. (ا) اگر ایک خاندان کو کامیابی کیساتھ بیماری کا مقابلہ کرنا ہے تو کیا لازم ہے؟ (ب) ایک خاتون نے اپنے شوہر کی بیماری کا مقابلہ کیسے کِیا؟
۱۰ ”اِنسان کی رُوح اُس کی ناتوانی میں اُسے سنبھالیگی،“ ایک بائبل امثال بیان کرتی ہے، ”لیکن افسردہدلی کی کون برداشت کر سکتا ہے؟“ (امثال ۱۸:۱۴) گہرا صدمہ خاندان کی روح نیز ”اِنسان کی رُوح“ کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ تاہم، ”مطمئن دل جسم کی جان ہے۔“ (امثال ۱۴:۳۰) خواہ کوئی خاندان سنگین بیماری کا مقابلہ کامیابی سے کرتا ہے یا نہیں اِس کا انحصار کافی حد تک اِس کے افراد کے رویے، یا روح پر ہے۔–مقابلہ کریں امثال ۱۷:۲۲۔
۱۱ ایک مسیحی خاتون کو اپنی شادی کے صرف چھ سال بعد اپنے شوہر کو فالج سے مفلوج دیکھنے کے کرب سے گزرنا پڑا تھا۔ ”میرے شوہر کی قوتِگویائی بُری طرح متاثر ہوئی تھی، اور اُس کے ساتھ گفتگو کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا تھا،“ وہ یاد کرتی ہے۔ ”وہ جوکچھ کہنے کی کوشش کرتا اُسے سمجھنے کی کوشش کرنے کا ذہنی تناؤ بہت زیادہ تھا۔“ اُس ذہنی اذیت اور مایوسی کا بھی تصور کریں جس کا تجربہ شوہر کو ہوا ہوگا۔ جوڑے نے کیا کِیا؟ اگرچہ وہ مسیحی کلیسیا سے کافی دُور رہتے تھے تو بھی بہن نے تازہترین تنظیمی معلومات سے نیز مینارِنگہبانی اور جاگو! میں روحانی خوراک کی لگاتار دستیابی سے پوری طرح آگاہ رہتے ہوئے روحانی طور پر مضبوط رہنے کی پوری کوشش کی۔ اس چیز نے اُسے اپنے محبوب شوہر کی چار سال بعد اُس کی موت تک نگہداشت کرنے کے لئے روحانی قوت عطا کی۔
۱۲. جیسےکہ اؔیوب کے معاملے سے دیکھا گیا، بعضاوقات بیمار شخص کیا اعانت کرتا ہے؟
۱۲ اؔیوب کے معاملے میں، یہ مصیبت اُٹھانے والا ہی تھا جو قائم رہا۔ ”کیا ہم خدا کے ہاتھ سے سکھ پائیں اور دُکھ نہ پائیں؟“ اُس نے اپنی بیوی سے پوچھا۔ (ایوب ۲:۱۰) کوئی عجب نہیں کہ بعدازاں یعقوؔب شاگرد نے اؔیوب کے صبر اور برداشت کی ایک نمایاں مثال کے طور پر ذکر کِیا! یعقوب ۵:۱۱ میں ہم پڑھتے ہیں: ”تم نے اؔیوب کے صبر کا حال تو سنا ہی ہے اور خداوند کی طرف سے جو اِسکا انجام ہوا اُسے بھی معلوم کر لیا جس سے خداوند کا بہت ترس اور رحم ظاہر ہوتا ہے۔“ اسی طرح سے آجکل، بہتیرے معاملات میں خاندان کے بیمار فرد کے جرأتمندانہ رویے نے گھرانے کے دوسرے افراد کی مثبت نظریہ قائم رکھنے کیلئے مدد کی ہے۔
۱۳. سنگین بیماری سے دوچار خاندان کو کیا موازنہ نہیں کرنا چاہئے؟
۱۳ بہتیرے جنہیں خاندان کے اندر بیماری کا سامنا کرنا پڑا تھا اتفاق کرتے ہیں کہ شروع میں خاندانی افراد کیلئے حقائق کا سامنا کرنے میں پسوپیش کرنا غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ وہ یہ بھی نشاندہی کرتے ہیں کہ جس طریقے سے ایک شخص صورتحال کو سمجھنے لگتا ہے وہ نہایت ضروری ہے۔ شروع میں گھر کے معمول میں تبدیلیاں اور ردوبدل مشکل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اگر ایک شخص واقعی کوشش کرتا ہے تو وہ نئی صورتحال سے مطابقت پذیر ہو سکتا ہے۔ ایسا کرنے کیلئے، یہ ضروری ہے کہ ہم دوسروں کے ساتھ اپنے حالات کا موازنہ نہ کریں جنکے خاندان میں بیماری نہیں ہے، یہ سوچتے ہوئے کہ اُن کی زندگی سہل ہے اور ’یہ انصاف نہیں ہے!‘ دراصل، کوئی بھی حقیقت میں نہیں جانتا کہ دوسروں کو کونسے بوجھ اٹھانے پڑتے ہیں۔ تمام مسیحی یسوؔع کے الفاظ سے تسلی پاتے ہیں: ”اَے محنت اُٹھانے والو اور بوجھ سے دبے ہوئے لوگو سب میرے پاس آؤ۔ مَیں تمکو آرام دُونگا۔“–متی ۱۱:۲۸۔
ترجیحات قائم کرنا
۱۴. موزوں ترجیحات کو کیسے قائم رکھا جا سکتا ہے؟
۱۴ سنگین بیماری کی صورت میں، ایک خاندان کیلئے الہامی الفاظ کو یاد رکھنا اچھا ہوگا: ”صلاح کے بغیر ارادے پورے نہیں ہوتے پر صلاحکاروں کی کثرت سے قیام پاتے ہیں۔“ (امثال ۱۵:۲۲) کیا خاندانی افراداکٹھے جمع ہو سکتے اور بیماری سے پیدا ہونے والی صورتحال پر باتچیت کر سکتے ہیں؟ دعائیہ طور پر ایسا کرنا اور راہنمائی کیلئے خدا کے کلام سے رجوع کرنا یقیناً مناسب ہوگا۔ (زبور ۲۵:۴) ایسی باتچیت میں کس چیز پر غوروفکر کیا جانا چاہئے؟ جیہاں، طبّی، مالی، اور خاندانی فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر کون نگہداشت فراہم کریگا؟ اس نگہداشت کی کفالت کیلئے خاندان کیسے تعاون کر سکتا ہے؟ جو انتظامات کئے گئے ہیں خاندان کے ہر فرد پر کیسے اثرانداز ہونگے؟ بنیادی طور پر نگہداشت فراہم کرنے والے کی روحانی اور دیگر ضروریات کا کیسے خیال رکھا جائیگا؟
۱۵. سنگین بیماری کا تجربہ کرنے والے خاندانوں کیلئے یہوؔواہ کیا مدد فراہم کرتا ہے؟
۱۵ یہوؔواہ کی راہنمائی کے لئے خلوصدلی سے دُعا کرنا، اُس کے کلام پر غوروفکر کرنا، اور بائبل کے وضعکردہ راستے پر دلیری سے چلنا اکثر ہماری توقعات سے بڑھکر برکات پر منتج ہوتا ہے۔ خاندان کے کسی بیمار فرد کے مرض میں شاید ہمیشہ کمی واقع نہ ہو۔ لیکن یہوؔواہ پر تکیہ کرنا کسی بھی طرح کی صورتحال میں ہمیشہ بہترین انجام کا سبب بنتا ہے۔ (زبور ۵۵:۲۲) زبورنویس نے لکھا: ”اَے خداوند! تیری شفقت نے مجھے سنبھال لیا۔ جب میرے دل میں فکروں کی کثرت ہوتی ہے تو تیری تسلی میری جان کو شاد کرتی ہے۔“–زبور ۹۴:۱۸، ۱۹؛ زبور ۶۳:۶-۸ کو بھی دیکھیں۔
بچوں کی مدد کرنا
۱۶، ۱۷. بچوں کے ساتھ اُنکے کسی بہن بھائی کی بیماری پر باتچیت کرتے وقت کونسے نکات پیش کئے جا سکتے ہیں؟
۱۶ سنگین بیماری خاندان میں بچوں کے لئے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ والدین بچوں کو اُن ضروریات کی بابت سمجھنے میں مدد دیں جو پیدا ہو گئی ہیں اور یہ کہ مدد کرنے کیلئے وہ کیا کر سکتے ہیں۔ بیمار ہونے والا اگر کوئی بچہ ہے تو دوسرے بہن بھائیوں کو یہ سمجھنے میں مدد دی جانی چاہئے کہ بیمار بچے کی اضافی توجہ اور نگہداشت حاصل کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے بچوں سے کسی طرح کم محبت کی جاتی ہے۔ آزردگی یا رقابت کو پیدا ہونے کی اجازت دینے کی بجائے، والدین دوسرے بچوں کی مدد کر سکتے ہیں کہ جب وہ بیماری کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال سے نپٹنے کیلئے تعاون کرتے ہیں تو ایک دوسرے کیلئے زیادہ مضبوط رشتہ پیدا کریں اور حقیقی ہمدردی ظاہر کریں۔
۱۷ اگر والدین طبّی معاملات کے متعلق طویل اور پیچیدہ تفصیلات کی بجائے اُنکے اندر ہمدردانہ جذبات پیدا کرتے ہیں تو چھوٹے بچے عموماً زیادہ رضامندی سے جوابیعمل دکھائینگے۔ اِسلئے خاندان کا بیمار فرد جس مشکل سے گزر رہا ہے اُنہیں اِسکی بابت کچھ بتایا جا سکتا ہے۔ اگر تندرست بچے دیکھتے ہیں کہ بیماری کسطرح سے بیمار بچے کو بہت سے کام کرنے سے روکتی ہے جنہیں وہ خود معمولی خیال کرتے ہیں تو اُن کے ”برادرانہ محبت“ رکھنے اور ”ہمدرد“ ہونے کا زیادہ امکان ہے۔–۱-پطرس ۳:۸۔
۱۸. بیماری سے پیداشُدہ مسائل کو سمجھنے میں بڑے بچوں کی مدد کیسے کی جا سکتی ہے، اور یہ اُن کے لئے کیسے فائدہمند ہو سکتا ہے؟
۱۸ بڑے بچوں کو یہ سمجھنے میں مدد دی جانی چاہئے کہ ایک مشکل صورتحال پائی جاتی ہے اور یہ خاندان میں ہر ایک سے قربانیوں کا تقاضا کرتی ہے۔ ڈاکٹر کی فیس اور میڈیکل بِل ادا کرنے کی وجہ سے، شاید والدین کے لئے دوسرے بچوں کے لئے اُن کی خواہش کے مطابق فراہم کرنا ممکن نہ ہو۔ کیا بچے اس سے آزردہخاطر ہونگے اور یہ محسوس کرینگے کہ اُنہیں محروم رکھا جا رہا ہے؟ یا کیا وہ صورتحال کو سمجھ جائینگے اور ضروری قربانیاں دینے کے لئے رضامند ہونگے؟ اِس کا انحصار کافی حد تک معاملے پر باتچیت کرنے کے انداز اور خاندان میں پیداشُدہ روح پر ہے۔ درحقیقت، متعدد خاندانوں میں خاندان کے کسی فرد کی بیماری نے بچوں کی پولسؔ کی نصیحت پر عمل کرنے کے لئے تربیت کرنے میں مدد کی ہے: ”تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔ ہر ایک اپنے ہی احوال پر نہیں بلکہ ہر ایک دوسروں کے احوال پر بھی نظر رکھے۔“–فلپیوں ۲:۳، ۴۔
طبّی علاجمعالجے کو کیسا خیال کِیا جائے
۱۹، ۲۰. (ا) جب خاندان کا کوئی فرد بیمار ہوتا ہے تو خاندان کے سربراہ کونسی ذمہداریاں اُٹھاتے ہیں؟ (ب) اگرچہ طبّی درسی کتاب تو نہیں تو بھی بائبل کس طریقے سے بیماری سے نپٹنے کے لئے راہنمائی فراہم کرتی ہے؟
۱۹ متوازن ذہنیت کے مالک مسیحی طبّی علاجمعالجے پر اعتراض نہیں کرتے جبتککہ یہ خدا کی شریعت کی مخالفت نہیں کرتا۔ جب اُنکے خاندان کا ایک فرد بیمار ہو جاتا ہے، تو وہ مصیبتزدہ کو تکلیف سے چھڑانے کیلئے مدد حاصل کرنے کے آرزومند ہوتے ہیں۔ تاہم، متضاد پیشہوارانہ آراء ہو سکتی ہیں جنکا موازنہ کِیا جانا چاہئے۔ علاوہازیں، حالیہ برسوں میں نئے امراض اور بیماریاں غیرمتوقع طور پر رونما ہوتی رہی ہیں، اور ان میں سے زیادہتر کیلئے، عام طور پر کوئی مستعمل طریقۂعلاج نہیں ہے۔ بعضاوقات تو درست تشخیص حاصل کرنا بھی مشکل ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں، ایک مسیحی کو کیا کرنا چاہئے؟
۲۰ اگرچہ ایک بائبل نویس طبیب تھا اور پولسؔ رسول نے اپنے دوست تیمتھیسؔ کو مفید طبّی نصیحت پیش کی تھی، تو بھی صحائف اخلاقی اور روحانی رہبر ہیں، ایک طبّی درسی کتاب نہیں۔ (کلسیوں ۴:۱۴؛ ۱-تیمتھیس ۵:۲۳) لہٰذا، طبّی علاجمعالجے کے معاملات میں، مسیحی خاندانی سرداروں کو اپنے ذاتی متوازن فیصلے کرنے ہوتے ہیں۔ شاید وہ محسوس کریں کہ اُنہیں ایک سے زیادہ پیشہوارانہ مشورہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ (موازنہ کریں امثال ۱۸:۱۷۔) یقینی طور پر وہ اپنے خاندان کے بیمار فرد کے لئے سب سے بہترین ممکن الحصول مدد حاصل کرنا چاہیں گے، اور بیشتر اِسے مستند میڈیکل ڈاکٹروں کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض متبادل علاجمعالجوں سے زیادہ تسکین محسوس کرتے ہیں۔ یہ بھی ذاتی نوعیت کا فیصلہ ہے۔ پھربھی، صحت کے مسائل پر قابو پاتے وقت، مسیحی ’خدا کے کلام کو اپنے قدموں کے لئے چراغ اور اپنی راہ کے لئے روشنی بننے‘ سے نہیں روکتے۔ (زبور ۱۱۹:۱۰۵) وہ بائبل میں پیش کی گئی راہنمائیوں کی پیروی کرنا جاری رکھتے ہیں۔ (یسعیاہ ۵۵:۸، ۹) اس طرح سے وہ اُن تشخیصی طریقوں سے گریز کرتے ہیں جن سے ارواحپرستی کی بُو آتی ہے، اور وہ ایسے علاجمعالجوں سے اجتناب کرتے ہیں جو بائبل کے اصولوں کی خلافورزی کرتے ہیں۔–زبور ۳۶:۹؛ اعمال ۱۵:۲۸، ۲۹؛ مکاشفہ ۲۱:۸۔
۲۱، ۲۲. ایک ایشیائی خاتون نے بائبل اصول کی کیسے توجیح کی، اور جو فیصلہ اُس نے کِیا وہ اُسکے معاملے میں کیسے درست ثابت ہوا؟
۲۱ ایک جوان ایشیائی خاتون کے معاملے پر غور کریں۔ یہوؔواہ کے گواہوں میں سے ایک کے ساتھ مطالعہ کرنے کے نتیجے میں، اُس نے بائبل کے بارے میں سیکھنا شروع کر دیا، جس کے تھوڑا عرصہ بعد، اُس نے ایک بچی کو قبلازوقت جنم دیا جس کا وزن صرف سوا تین پونڈ تھا۔ وہ خاتون دلشکستہ ہو گئی تھی جب ایک ڈاکٹر نے اُسے بتایا کہ بچی ذہنی طور پر شدید مفلوج ہوگی اور کبھی بھی چلنےپھرنے کے قابل نہیں ہوگی۔ اُس نے اُسے مشورہ دیا کہ بچی کو کسی ادارے کے سپرد کر دے۔ اُس کا شوہر اِس معاملے میں متذبذب تھا۔ وہ کس سے رجوع کر سکتی تھی؟
۲۲ وہ بیان کرتی ہے: ”مجھے بائبل سے یہ سیکھنا یاد تھا کہ ’اولاد خدا کی طرف سے میراث ہے اور پیٹ کا پھل اُسی کی طرف سے اجر ہے۔‘“ (زبور ۱۲۷:۳) اُس نے اِس ”میراث“ کو گھر لا نے اور اُس کی نگہداشت کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ شروع شروع میں تو کافی مشکل تھا، لیکن یہوؔواہ کے گواہوں کی مقامی کلیسیا میں مسیحی دوستوں کے تعاون سے، وہ خاتون نگہداشت کرنے اور بچی کے لئے درکار خصوصی مدد فراہم کرنے کے قابل ہوئی تھی۔ بارہ سال بعد، بچی اجلاسوں کے لئے کنگڈم ہال جاتی اور وہاں پر نوعمر بچوں کی رفاقت سے لطفاندوز ہوتی تھی۔ ماں تبصرہ کرتی ہے: ”مَیں بڑی شکرگذار ہوں کہ بائبل اصولوں نے مجھے درست کام کرنے کی تحریک دی۔ بائبل نے یہوؔواہ خدا کے حضور پچھتاوے نہیں جو میری پوری زندگی میرے ساتھ رہتے بلکہ ایک نیک ضمیر رکھنے کے لئے میری مدد کی تھی۔“
۲۳. بائبل بیمار کیلئے اور اُن کیلئے جو اُنکی دیکھبھال کرتے ہیں کیا تسلی فراہم کرتی ہے؟
۲۳ بیماری ہمیشہ ہمارے ساتھ نہیں رہیگی۔ یسعیاؔہ نبی نے آئندہ وقت کی نشاندہی کی جب ”وہاں کے باشندوں میں بھی کوئی نہ کہیگا کہ مَیں بیمار ہوں۔“ (یسعیاہ ۳۳:۲۴) یہ وعدہ تیزی سے قریب آنے والی نئی دُنیا میں تکمیل پائے گا۔ تاہم، اُس وقت تک، ہمیں بیماری اور موت کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ تاہم، خوشی کی بات ہے کہ خدا کا کلام ہمیں مدد اور راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ چالچلن سے متعلق بنیادی اصول جو بائبل فراہم کرتی ہے دائمی ہیں، اور وہ ناکامل انسانوں کی ہمہوقت تغیر پذیر آراء سے برتر ہیں۔ اِسلئے، ایک دانشمند شخص زبورنویس سے اتفاق کرتا ہے جس نے لکھا: ”خداوند کی شریعت کامل ہے۔ وہ جان کو بحال کرتی ہے۔ خداوند کی شہادت برحق ہے۔ نادان کو دانش بخشتی ہے۔ . . . خداوند کے احکام برحق اور بالکل راست ہیں۔ . . . اُنکو ماننے کا اجر بڑا ہے۔“–زبور ۱۹:۷، ۹، ۱۱۔
یہ بائبل اصول . . . ایک خاندان کی سنگین بیماری اور اس سے پیدا ہونے والے خلل سے نپٹنے کیلئے کیسے مدد کر سکتے ہیں؟
محبت صابر ہے اور سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔ –۱-کرنتھیوں ۱۳:۴-۷۔
ایک اچھی روح پیدا کرنا اشد ضروری ہے۔ –امثال ۱۸:۱۴۔
اہم فیصلے کرنے سے پہلے مشورت حاصل کرنا اچھا ہے۔ –امثال ۱۵:۲۲۔
جب زندگی کٹھن ہو جاتی ہے تو یہوؔواہ ہمیں مدد پیش کرتا ہے۔ –زبور ۵۵:۲۲۔
یہوؔواہ کا کلام تمام حالات میں ایک رہبر ہے۔ –زبور ۱۱۹:۱۰۵۔
[صفحہ ۱۱۸ پر تصویر]
مسیحی اپنی والہانہ محبت ظاہر کرتے ہیں جب اُنکے بیاہتا ساتھی بیمار پڑ جاتے ہیں
[صفحہ ۱۲۵ پر تصویر]
جب خاندان ملکر کام کرتا ہے تو مسائل حل کئے جا سکتے ہیں