تخلیق خدا کا جلال ظاہر کرتی ہے!
”آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اُسکی دستکاری دکھاتی ہے۔“ —زبور ۱۹:۱۔
۱، ۲. (ا) انسان خدا کو کیوں نہیں دیکھ سکتا؟ (ب) یوحنا رسول کی رویا کے ۲۴ بزرگ خدا کی تمجید کن الفاظ میں کرتے ہیں؟
”تُو میرا چہرہ نہیں دیکھ سکتا کیونکہ انسان مجھے دیکھ کر زندہ نہیں رہیگا۔“ (خروج ۳۳:۲۰) یوں یہوواہ نے موسیٰ کو آگاہ کِیا تھا۔ گوشتپوست کا انسان خدا کو براہِراست نہیں دیکھ سکتا۔ لیکن ایک رویا میں یوحنا رسول نے خدا کو اپنے شاندار تخت پر بیٹھے دیکھا تھا۔—مکاشفہ ۴:۱-۳۔
۲ انسان کے برعکس، خدا کی وفادار روحانی مخلوقات اُسے براہِراست دیکھ سکتی ہے۔ ان میں وہ ”چوبیس بزرگ“ بھی شامل ہیں جو ۱،۴۴،۰۰۰ کی نمائندگی کرتے ہیں، جنہیں یوحنا نے اپنی رویا میں دیکھا تھا۔ (مکاشفہ ۴:۴؛ ۱۴:۱-۳) یہ خدا کے جلال کو دیکھ کر کیسا ردِّعمل ظاہر کرتے ہیں؟ مکاشفہ ۴:۱۱ کے مطابق وہ کہتے ہیں: ”اَے ہمارے [یہوواہ] اور خدا تُو ہی تمجید اور عزت اور قدرت کے لائق ہے کیونکہ تُو ہی نے سب چیزیں پیدا کیں اور وہ تیری ہی مرضی سے تھیں اور پیدا ہوئیں۔“
کیوں ”کچھ عذر باقی نہیں“
۳، ۴. (ا) خدا پر ایمان غیرسائنسی عمل کیوں نہیں ہے؟ (ب) لوگ جانبوجھ کر خدا کے وجود سے مُنہ کیوں موڑ لیتے ہیں؟
۳ کیا آپ خدا کی بنائی ہوئی چیزوں کو دیکھ کر خدا کو جلال دیتے ہیں؟ زیادہتر لوگ ایسا نہیں کرتے بلکہ کئی تو خدا کے وجود ہی کو نہیں مانتے۔ مثال کے طور پر، ایک ماہرِفلکیات نے کہا کہ ”کیا خدا نے کرمفرمائی کرکے اِس کائنات کو ہمارے لئے خلق کِیا؟ . . . یہ تصور ایک خوشفہمی ہے جسے مَیں ہرگز ماننے کو تیار نہیں ہوں . . . خدا نے کائنات کو خلق نہیں کِیا۔“
۴ لیکن یہ بات سچ نہیں کیونکہ سائنسدان صرف ایسی چیزوں کے بارے میں تحقیق کر سکتے ہیں جو اُنہیں نظر آتی ہیں اور جنکی بابت وہ تحقیق کر سکتے ہیں۔ باقی چیزوں کے بارے میں سائنسدان صرف اندازہ لگاتے اور اپنا ذاتی نظریہ پیش کرتے ہیں۔ جب ”خدا رُوح ہے“ تو انسان اُسکی بابت سائنسی تجربات نہیں کر سکتے۔ (یوحنا ۴:۲۴) لہٰذا یہ کہنا سراسر تحقیرآمیز ہے کہ خدا پر ایمان کو غیرسائنسی عمل قرار دیا جائے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے ایک سائنسدان کا کہنا ہے کہ سائنسی تحقیقات کے نتائج قبول کرنے میں بھی ”ایمان کی ضرورت ہوتی ہے۔“ وہ کیوں؟ کیونکہ ”جب کوئی انوکھا واقعہ رونما ہوتا ہے تو لوگ شک کئے بغیر یہ سمجھتے ہیں کہ یہ کسی نہ کسی قدرتی اُصول کی بِنا پر ہو رہا ہے۔“ کیا ایسا کرنے میں بھی ایمان درکار نہیں؟ کبھیکبھار لوگ جانبوجھ کر بھی سچائی سے مُنہ موڑ لیتے ہیں۔ انکے بارے میں زبورنویس نے لکھا: ”شریر اپنے تکبّر میں کہتا ہے کہ وہ بازپُرس نہیں کریگا۔ اُسکا خیال سراسر یہی ہے کہ کوئی خدا نہیں۔“—زبور ۱۰:۴۔
۵. خدا کے وجود سے انکار کرنے کا کوئی عذر کیوں نہیں؟
۵ خدا کے وجود کے بہت سے ثبوت پائے جاتے ہیں اور یہی ثبوت اُس پر ایمان لانے کی ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ (عبرانیوں ۱۱:۱) ایک ماہرِفلکیات نے یوں بیان کِیا: ”کہا جاتا ہے کہ شروع میں کائنات میں بےترتیبی تھی جو خودبخود ترتیب میں بدل گئی لیکن مَیں اس بات سے متفق نہیں ہوں۔ کسی نہ کسی نے کائنات کو ترتیب دیا ہوگا۔ خدا میرے لئے ایک بھید ہے لیکن مَیں یہ ضرور جانتا ہوں کہ وہی ہر چیز کو وجود میں لانے والا ہے۔“ اس سلسلے میں پولس رسول نے روم کے مسیحیوں کو لکھا کہ خدا کی ”اَندیکھی صفتیں یعنی اُسکی ازلی قدرت اور اُلوہیت دُنیا کی پیدایش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعہ سے معلوم ہوکر صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ اُنکو کچھ عذر باقی نہیں۔“ (رومیوں ۱:۲۰) ”دُنیا کی پیدایش“ سے بالخصوص ذیشعور انسانی مخلوق کی تخلیق ہی سے یہ بالکل واضح تھا کہ ایک طاقتور خالق موجود ہے جوکہ ہماری پرستش کا مستحق ہے۔ خدا کے جلال کو تسلیم نہ کرنے والے لوگوں کے پاس کوئی عذر نہیں ہے۔ لیکن تخلیق کیسے خدا کے وجود کا ثبوت پیش کرتی ہے؟
کائنات خدا کا جلال ظاہر کرتی ہے
۶، ۷. (ا) آسمان خدا کا جلال کیسے ظاہر کرتے ہیں؟ (ب) آسمان کا ”سُر“ کس مقصد کیلئے زمین کے گوشے گوشے تک پہنچا ہے؟
۶ ”آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اُسکی دستکاری دکھاتی ہے۔“ (زبور ۱۹:۱) بادشاہ داؤد جانتا تھا کہ ”فضا“ میں جگمگاتے ستارے جلالی خدا کے وجود کا ٹھوس ثبوت پیش کرتے ہیں۔ وہ آگے بیان کرتا ہے: ”دِن سے دِن بات کرتا ہے اور رات کو رات حکمت سکھاتی ہے۔“ (زبور ۱۹:۲) ہم دنرات آسمان پر خدا کی حکمت اور اُسکی قوت کے ثبوت پاتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے دِن سے دِن خدا کی عظمت کے بارے میں ’بات کر رہا‘ ہو۔
۷ لیکن انکی باتوں کو سمجھنے میں دانائی درکار ہے۔ کیونکہ ”نہ بولنا ہے نہ کلام۔ نہ اُنکی آواز سنائی دیتی ہے۔“ جیہاں، بےزبان ہونے کے باوجود آسمان خدا کے وجود کی زبردست گواہی دیتے ہیں۔ ”اُنکا سُر ساری زمین پر اور اُنکا کلام دُنیا کی انتہا تک پہنچا ہے۔“ (زبور ۱۹:۳، ۴) خدا کی تعریف میں گنگنائے گئے آسمان کے اِس ”سُر“ سے زمین کا گوشہ گوشہ گونج اُٹھا ہے۔
۸، ۹. سورج کے بارے میں کچھ نمایاں حقائق کیا ہیں؟
۸ اسکے بعد داؤد تخلیق کی ایک اَور شاندار مثال دیتے ہوئے کہتا ہے: ”اُس نے آفتاب کیلئے اُن میں خیمہ لگایا ہے جو دُلہے کی مانند اپنے خلوتخانہ سے نکلتا ہے اور پہلوان کی طرح اپنی دوڑ میں دوڑنے کو خوش ہے۔ وہ آسمان کی انتہا سے نکلتا ہے اور اُسکی گشت اُسکے کناروں تک ہوتی ہے اور اُسکی حرارت سے کوئی چیز بےبہرہ نہیں۔“—زبور ۱۹:۴-۶۔
۹ سورج صرف ایک درمیانے درجے کا ستارہ ہے اسکے باوجود، سورج اتنا بڑا ستارہ ہے کہ اسکے اِردگِرد گردش کرنے والے سیارے بہت چھوٹے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق سورج کا کُل وزن کھربوں ٹن (یعنی ۲ کے بعد ۲۷ صفر) بتایا جاتا ہے! اسکا مطلب ہے کہ اگر نظامِشمسی کے تمام سیاروں کو سورج کیساتھ تولا جائے تو اِس کُل وزن میں سے ۹.۹۹ فیصد سورج کا حصہ ہوگا۔ سورج کی کششِثقل کا زمین پر اتنا اثر ہے کہ وہ نہ تو سورج سے دُور ہو سکتی ہے اور نہ ہی اُس کے اَور قریب آ سکتی ہے بلکہ عین ۹ کروڑ ۳۰ لاکھ میل کے فاصلے پر سورج کے گِرد گردش کرتی ہے۔ سورج کی توانائی کا بہت ہی تھوڑا حصہ زمین تک پہنچتا ہے لیکن یہ زمین پر زندگی کو برقرار رکھنے کیلئے کافی ہے۔
۱۰. (ا) سورج اپنے ”خیمہ“ میں کیسے داخل ہوتا اور نکلتا ہے؟ (ب) وہ ایک ”پہلوان کی طرح“ اپنی دوڑ کو کیسے جاری رکھتا ہے؟
۱۰ زبورنویس نے سورج کو ایک ”پہلوان“ سے تشبیہ دی ہے جو دِن کے وقت آسمان کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک دوڑتا یعنی گشت کرتا ہے اور رات کو اپنے ”خیمہ“ میں داخل ہو جاتا ہے۔ جب یہ شاندار ستارہ شام کے وقت افق پر ہماری نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے تو ایسے لگتا ہے جیسے وہ اپنی نیند پوری کرنے کیلئے ”خیمہ“ میں داخل ہو گیا ہو۔ پھر جب صبح ہوتی ہے تو سورج اچانک اس ”خیمہ“ سے نکل آتا ہے بالکل ایسے جیسے ایک ’دُلہا اپنے خلوتخانہ سے نکلتا ہے۔‘ داؤد ایک چرواہا تھا اسلئے وہ رات کی شدید سردی سے اچھی طرح واقف تھا۔ (پیدایش ۳۱:۴۰) لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ سورج صبح کو نکلتے ہی کتنی تیزی سے ہر چیز کو گرما دیتا ہے۔ اس سے داؤد نے نتیجہ اخذ کِیا کہ سورج مشرق سے مغرب تک سفر کرتے ہوئے تھکتا نہیں بلکہ ایک ”پہلوان کی طرح“ اپنی دوڑ کو جاری رکھتا ہے۔
حیرتانگیز ستارے اور کہکشائیں
۱۱، ۱۲. (ا) یہوواہ خدا نے کیوں کہا کہ آسمان کے ستاروں کی تعداد سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند ہے؟ (ب) کائنات کتنی وسیع ہے؟
۱۱ داؤد کے پاس دُوربین نہیں تھی اسلئے وہ صرف چند ہزار ستارے دیکھ سکتا تھا۔ لیکن ایک جائزے کے مطابق ہم آجکل جدید دُوربین کی مدد سے کھربوں (یعنی ۷ کے بعد ۲۲ صفر) ستارے دیکھ سکتے ہیں! بائبل میں یہوواہ خدا نے کہا کہ آسمان کے ستاروں کی تعداد ”سمندر کے کنارے کی ریت کی مانند“ ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کائنات میں ستاروں کی تعداد اَنگنت ہے۔—پیدایش ۲۲:۱۷۔
۱۲ کئی سالوں تک ماہرِفلکیات کو کائنات کی سیاہ چادر پر ”دُھندلی روشنی کے چھوٹے چھوٹے دھبے نظر آیا کرتے تھے۔“ اُنہوں نے اندازہ لگایا کہ روشنی کے یہ ”مرغولہنما ستارے“ (حلزونی کہکشاں) ہمارے ملکیوے کہکشاں کا ہی حصہ ہیں۔ جو مرغولہنما ستارہ زمین کے سب سے نزدیک تھا اسے انڈرومیڈا کا نام دیا گیا۔ سن ۱۹۲۴ میں، سائنسدانوں کو پتہ چلا کہ انڈرومیڈا ہمارے کہکشاں کا حصہ نہیں بلکہ خود ایک کہکشاں ہے جو ہم سے تقریباً ۲۰ لاکھ نوری سال کے فاصلے پر ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ اگر ہم روشنی کی رفتار سے سفر کر سکتے تب بھی ہمیں انڈرومیڈا تک پہنچنے کیلئے ۲۰ لاکھ سال تک سفر کرنا پڑتا! آجکل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ کائنات میں کہکشاؤں کی تعداد اربوں میں ہے اور ہر کہکشاں میں ہزاروں اور کئی میں تو اربوں ستارے ہوتے ہیں۔ ستاروں کی اتنی بڑی تعداد کے باوجود یہوواہ اُنکو ”شمار کرتا ہے اور اُن سب کے نام رکھتا ہے۔“—زبور ۱۴۷:۴۔
۱۳. (ا) ستاروں کے جُھرمٹ کے بارے میں کچھ حیرانکُن باتیں کیا ہیں؟ (ب) ہمیں کیسے معلوم ہے کہ سائنسدان ”آسمان کے قوانین“ کا پورا علم نہیں رکھتے؟
۱۳ یہوواہ خدا نے ایوب سے پوچھا کہ ”کیا تُو عقدِثرؔیا کو باندھ سکتا یا جباؔر کے بندھن کو کھول سکتا ہے؟“ (ایوب ۳۸:۳۱) اِس آیت میں بندھن سے مُراد ستاروں کا ایک جُھرمٹ ہے۔ انہیں دُور سے دیکھا جائے تو ایسے لگتا ہے جیسے آسمان پر کسی چیز کی تصویر یا نقشہ بنا ہوا ہو۔ اگرچہ ستارے ایک دوسرے سے بہت فاصلے پر ہوتے ہیں توبھی جب ہم انہیں دیکھتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے یہ ایک ساتھ لٹکے ہوئے ہوں۔ اسلئے ”ہواباز، ملاح اور خلانورد انکی مدد سے اپنا راستہ تلاش کرتے ہیں اور مختلف ستاروں کی شناخت کرنا بھی زیادہ آسان ہوتا ہے۔“ (دی انسائیکلوپیڈیا امریکانا) ان تمام معلومات کے باوجود کوئی بھی ٹھیک طرح سے نہیں جانتا کہ جُھرمٹ میں ستارے کسطرح سے ایک دوسرے سے ’بندھے‘ ہوتے ہیں۔ سائنسدان آج تک ایوب ۳۸:۳۳ میں پوچھے گئے سوال کا جواب نہیں دے پائے جہاں لکھا ہے: ”کیا تُو آسمان کے قوانین کو جانتا ہے اور زمین پر اُنکا اختیار قائم کر سکتا ہے؟“
۱۴. روشنی کی تقسیم سائنسدانوں کیلئے ایک بھید کیوں ہے؟
۱۴ پھر خدا نے ایوب سے پوچھا کہ ”روشنی کس طریق سے تقسیم ہوتی ہے؟“ (ایوب ۳۸:۲۴) سائنسدان اس سوال کا جواب بھی نہیں دے سکتے۔ ایک مصنف کے مطابق ”یہ ایک ایسا سوال ہے جو سائنسدان آج تک خود سے پوچھتے ہیں۔“ پُرانے زمانے میں یونانی فلاسفروں کا خیال تھا کہ روشنی انسان کی آنکھ ہی میں پیدا ہوتی ہے۔ آج سے کچھ سال پہلے سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ روشنی ننھے ذرّوں پر مشتمل ہے اور بعض کا خیال تھا کہ روشنی لہروں کی شکل میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک پہنچتی ہے۔ لیکن آجکل سائنسدان کہتے ہیں کہ روشنی ذرّوں اور لہروں دونوں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ تاہم روشنی کیا ہے اور کسطرح ”تقسیم ہوتی ہے،“ اِسکی بابت آج تک کسی کو صحیح طرح سے معلوم نہیں۔
۱۵. جب ہم آسمان پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں داؤد کی مانند کیسا محسوس کرنا چاہئے؟
۱۵ اِن باتوں پر غور کرنے کے بعد کیا ہم بھی زبورنویس داؤد کی طرح محسوس نہیں کرتے جس نے کہا: ”جب مَیں تیرے آسمان پر جو تیری دستکاری ہے اور چاند اور ستاروں پر جنکو تُو نے مقرر کِیا غور کرتا ہوں توپھر انسان کیا ہے کہ تُو اُسے یاد رکھے اور آدمزاد کیا ہے کہ تُو اُسکی خبر لے؟“—زبور ۸:۳، ۴۔
زمین اور زمینی مخلوق خدا کو جلال دیتی ہے
۱۶، ۱۷. ’گہرے سمندر‘ میں رہنے والے جانور کیسے یہوواہ کی تمجید کرتے ہیں؟
۱۶ خدا کی تخلیق میں سے اُسکی شان کو نمایاں کرنے والی اَور بھی مثالیں زبور ۱۴۸ میں درج ہیں۔ آیت ۷ میں کہا گیا ہے کہ ”زمین پر سے [یہوواہ] کی حمد کرو۔ اَے اژدھاؤ اور سب گہرے سمندرو!“ جیہاں، ’گہرے سمندروں‘ میں بہت سی ایسی عجیبوغریب چیزیں ہوتی ہیں جو خدا کی ستایش کرتی ہیں۔ نیلی ویل کی مثال لیجئے۔ یہ ایک ایسا ممالیہ ہے جو سمندر میں رہتا ہے۔ اسکا وزن عموماً ۳،۰۰۰ من ہوتا ہے جوکہ ۳۰ ہاتھیوں کے وزن کے برابر ہے۔ نیلی ویل کے دِل کا وزن ۴۵۰ کلوگرام ہوتا ہے۔ اُسکے بدن میں ۶،۴۰۰ کلوگرام خون گردش کرتا ہے۔ کیا سمندر کے یہ قوی جانور سُسترفتار ہیں؟ بالکل نہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق وہ ”بڑی پھرتی اور تیزرفتاری سے سمندر“ کی سیر کرتے ہیں۔ سیٹلائیٹ کے ذریعے معلوم ہوا ہے کہ ”ایک نیلی ویل نے ۱۰ مہینوں میں ۱۰،۰۰۰ میل کا فاصلہ طے کِیا ہے۔“
۱۷ بوتلسر ڈولفن (صفحہ ۱۲ کی تصویر دیکھئے) عموماً ۱۵۰ فٹ کی گہرائی تک غوطہ لگا سکتی ہے لیکن ایک ڈولفن کا ۱،۷۹۵ فٹ کی گہرائی تک غوطہ لگانے کا بھی ریکارڈ ہے۔ یہ ممالیہ اتنی گہرائی میں کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ جب ڈولفن غوطہ مارتی ہے تو اُسکے دِل کی دھڑکن آہستہ ہو جاتی ہے اور اُسکا خون صرف اُسکے دِل، پھیپھڑوں اور دماغ میں گردش کرتا ہے۔ اسکے علاوہ ڈولفن کے پٹھے آکسیجن ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ دریائی بچھڑا اور ویل تو ڈولفن سے بھی زیادہ گہرائی تک غوطہ لگا سکتے ہیں۔ ایک رسالے میں اُنکی اس صلاحیت کے بارے میں لکھا ہے کہ ”غوطہ مارتے وقت پانی کے بڑھتے ہوئے دباؤ سے نپٹنے کیلئے یہ جانور اپنے پھیپھڑوں کو کمبل کی طرح تہہ کر لیتے ہیں۔“ اسکے علاوہ اُنہیں غوطہ لگاتے وقت جتنی آکسیجن درکار ہوتی ہے وہ اسے اپنے پٹھوں میں ذخیرہ کر لیتے ہیں۔ کیا ایسے جانور خدا کی حکمت اور اُسکی قوت کا جیتاجاگتا ثبوت نہیں ہیں؟
۱۸. یہوواہ خدا کی حکمت سمندر کے پانی سے کیسے نمایاں ہوتی ہے؟
۱۸ یہوواہ خدا کی حکمت سمندر کے پانی سے بھی نمایاں ہوتی ہے۔ ایک سائنسی رسالے کے مطابق: ”سمندری سطح کے پہلے ۱۰۰ میٹر میں پانی کے ہر قطرے میں ہزاروں ننھے منے پودے (فائٹوپلینکٹن) ہوتے ہیں۔“ یہ پودے ہوا میں سے کھربوں من کے حساب سے کاربنڈائیآکسائیڈ جذب کرکے اسے آکسیجن میں تبدیل کرتے ہیں۔ اسطرح ہوا کی آلودگی دُور ہو جاتی ہے۔ یہ ننھے منے پودے فضا میں موجود آکسیجن کی آدھی سے زیادہ مقدار بناتے ہیں۔
۱۹. آگ اور برف خدا کے کلام کی تعمیل کیسے کرتی ہیں؟
۱۹ زبور ۱۴۸:۸ میں لکھا ہے: ”اَے آگ اور اولو! اَے برف اور کُہر! اَے طوفانی ہوا! جو اُسکے کلام کی تعمیل کرتی ہے۔“ آگ اور برف جیسی قدرتی قوتیں بھی یہوواہ کی شان کو نمایاں کرتی ہیں۔ آگ کی مثال لیجئے۔ بہت عرصے تک خیال کِیا جاتا تھا کہ آگ لگنے سے جنگل تباہوبرباد ہو جاتے ہیں۔ لیکن آجکل سائنسدان جانتے ہیں کہ آگ کے بہت سے فوائد ہیں۔ کیونکہ جب جنگل کو آگ لگتی ہے تو مختلف قسم کے بیج پھٹ کر اُگنے لگتے ہیں اور زمین کی طاقت بحال ہوتی ہے۔ اگر آگ کو قابو میں رکھا جائے تو یہ جنگل میں جمع ہونے والے گھاسپھوس اور کمزور درختوں کو جلا دیتی ہے اور اسطرح بےقابو اور تباہکُن آگ لگنے کے امکان کم ہو جاتے ہیں۔ برف کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے؟ برف زمین کیلئے کھاد اور پانی مہیا کرتی ہے، اسکے پگھلنے سے دریاؤں میں پانی آتا ہے اور یہ ایک کمبل کی طرح پودوں اور جانوروں کو شدید ٹھنڈ سے بچائے رکھتی ہے۔
۲۰. انسان کو پہاڑوں اور درختوں سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟
۲۰ زبور ۱۴۸:۹ میں لکھا ہے، ”اَے پہاڑو اور سب ٹیلو! اَے میوہدار درختو اور سب دیودارو!“ اُونچے اُونچے پہاڑ بھی یہوواہ خدا کی قوت کو ظاہر کرتے ہیں۔ (زبور ۶۵:۶) پہاڑوں کے کیا فائدے ہیں؟ سوئٹزرلینڈ کے محکمۂجغرافیہ کی ایک رپورٹ کے مطابق: ”زمین کے تمام بڑے دریا پہاڑوں سے نکلتے ہیں۔ دُنیا کی ۵۰ فیصد سے زیادہ آبادی پہاڑوں سے حاصل ہونے والے پانی کو استعمال کرتی ہے۔ . . . پہاڑ ایسی ٹینکیوں کی طرح ہیں جن میں پانی ذخیرہ کِیا جاتا ہے۔ یہ قدرتی ٹینکیاں زندگی برقرار رکھنے کیلئے بہت اہم ہیں۔“ عام درخت بھی خدا کی حمد کرتے ہیں۔ اقوامِمتحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کی ایک رپورٹ میں درختوں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ”یہ تمام ملکوں کے باشندوں کیلئے نہایت اہم ہیں . . . درختوں کی بہت سی اقسام سے لکڑی، پھل، میوے اور گوند وغیرہ حاصل ہوتی ہے جس سے ملک کی آمدنی میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ دُنیابھر میں ۲ ارب لوگ لکڑی پر کھانا پکاتے اور اسکے ذریعے خود کو سردی سے محفوظ رکھتے ہیں۔“
۲۱. پتوں کی مثال سے ہم خدا کے بارے میں کیا سیکھ سکتے ہیں؟
۲۱ درخت کی بناوٹ سے بھی خدا کی حکمت کا ثبوت ملتا ہے! درخت کے پتوں کی مثال لیجئے۔ انکی مومی سطح اُنہیں سُوکھ کر مُرجھانے سے بچاتی ہے۔ پتے دراصل سورج کی روشنی، پانی اور کاربنڈائیآکسائیڈ سے اپنے لئے خوراک پیدا کرتے ہیں۔ پتوں کے بالائی حصے کی مومی سطح کے نیچے ایسے خلیے ہوتے ہیں جو سورج کی روشنی کو جذب کرتے ہیں۔ درخت کی جڑیں پانی کو جذب کرکے اِسے پتوں تک پہنچاتی ہیں۔ اگر آپ پتے کو پلٹ کر دیکھیں تو اسکے نچلے حصے میں چھوٹے چھوٹے سُوراخ ہوتے ہیں جنکے ذریعے ہوا میں موجود کاربنڈائیآکسائیڈ پتے میں داخل ہوتی ہے۔ پھر پتوں میں موجود کاربنڈائیآکسائیڈ اور پانی پر سورج کی توانائی اسطرح اثر کرتی ہے کہ نتیجے میں شکر جیسے نشاستے پیدا ہوتے ہیں۔ یہی نشاستے پودوں اور درختوں کی خوارک ہوتے ہیں۔ جیہاں، پتے ننھے کارخانوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ لیکن انسان کے بنائے ہوئے کارخانوں کے برعکس پتے دیکھنے میں خوبصورت ہوتے ہیں اور وہ شور مچائے اور فضا کو آلودہ کئے بغیر اپنا کام انجام دیتے ہیں۔
۲۲، ۲۳. (ا) بہت سے پرندے اور خشکی کے جانور کن مہارتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ (ب) ہمیں مزید کن سوالوں پر غور کرنے کی ضرورت ہے؟
۲۲ زبور ۱۴۸:۱۰ میں ہم پڑھتے ہیں: ”اَے جانورو! اور سب چوپایو! اَے رینگنے والو اور پرندو!“ بہت سے پرندے اور خشکی کے جانور بڑی مہارت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ البتروس ایک ایسا پرندہ ہے جو طویل فاصلے طے کرتا ہے۔ ایک البتروس نے صرف ۹۰ دِن میں ۲۵،۰۰۰ میل کا فاصلہ طے کِیا تھا۔ ایک اور چڑیا جسے بلیکپال واربلر کہا جاتا ہے شمالی امریکہ سے جنوبی امریکہ تک پہنچنے کے لئے بغیر رُکے ۸۰ گھنٹے مسلسل اُڑتی ہے۔ اُونٹ اپنی کوہان میں نہیں بلکہ اپنی انتڑیوں میں پانی ذخیرہ کر لیتا ہے۔ اس طرح وہ کئی دنوں تک پانی پیئے بغیر زندہ رہ سکتا ہے۔ اس لئے حیرانگی کی بات نہیں کہ انجینیئر جانوروں سے سیکھ کر یا اُن کی نقل کرکے نئی مشینیں وغیرہ ایجاد کرتے ہیں۔ ایک مصنف نے کہا کہ ”اگر آپ کوئی ایسی چیز بنانا چاہتے ہیں جو اچھی طرح سے کام کرے . . . اور جو ماحول کی آلودگی کا باعث نہ بنے تو اس کا بہترین نمونہ آپ کو قدرت ہی میں ملے گا۔“
۲۳ جیہاں، تخلیق واقعی خدا کا جلال ظاہر کرتی ہے۔ ستاروں بھرے آسمان سے لے کر پودوں اور جانوروں تک تمام چیزیں اپنے اپنے انداز میں خالق کی حمد کرتی ہیں۔ لیکن ہم انسانوں کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟ ہم قدرت میں پائی جانے والی چیزوں کیساتھ ملکر خدا کی حمد کیسے کر سکتے ہیں؟
کیا آپکو یاد ہے؟
• خدا کے وجود کا انکار کرنے والے لوگ کیوں قصوروار ٹھہرائے جا سکتے ہیں؟
• ستارے اور سیارے کیسے خدا کا جلال ظاہر کرتے ہیں؟
• پانی اور خشکی کے جانور ایک شفیق خالق کے وجود کا ثبوت کیسے دیتے ہیں؟
• قدرتی قوتیں خدا کے کلام کی تعمیل کیسے کرتی ہیں؟
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ ہمیں دُوربین کے ذریعے آسمان پر ۷۰،۰۰،۰۰،۰۰،۰۰،۰۰،۰۰،۰۰،۰۰،۰۰،۰۰۰ ستارے نظر آتے ہیں!
[تصویر کا حوالہ]
Frank Zullo
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
بوتلسر ڈولفن
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
برف کا گالا
[تصویر کا حوالہ]
snowcrystals.net
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
البتروس کا چُوزہ