کیا ’یہوواہ کی شریعت‘ میں آپکی خوشنودی ہے؟
’مبارک ہے وہ آدمی جسکی خوشنودی یہوواہ کی شریعت میں ہے۔‘—زبور ۱:۱، ۲۔
۱. یہوواہ کے خادم خوش کیوں ہیں؟
یہوواہ خدا اپنے خادموں کو سہارا دیتا ہے اور اُنکو برکت سے بھی نوازتا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ہمیں آزمائشوں سے بھی نپٹنا پڑتا ہے لیکن اسکے باوجود بھی ہم خوش رہ سکتے ہیں۔ ہم یہوواہ ”خدایِمبارک“ کی خدمت کرتے ہیں اور اُسکی رُوحاُلقدس یعنی طاقت ہم میں خوشی کا پھل پیدا کرتی ہے۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۱؛ گلتیوں ۵:۲۲) لیکن خوشی کس چیز کا نام ہے؟ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جو کسی اچھی چیز کو پانے کی توقع میں یا پھر اسے پانے کے بعد ہم میں پھوٹتا ہے۔ اور ہمارے آسمانی باپ یہوواہ نے ہمیں بہت سی اچھی بخششوں سے نوازا ہے۔ (یعقوب ۱:۱۷) لہٰذا یہ کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ ہم خوش ہیں!
۲. ہم کن دو زبوروں پر غور کرینگے؟
۲ زبور کی کتاب میں خوشی کی خوبی پر زور دیا جاتا ہے۔ یہ خاص طور پر زبور ۱ اور ۲ سے ظاہر ہوتا ہے۔ یسوع مسیح کے شاگردوں کے مطابق بادشاہ داؤد نے زبور ۲ لکھا۔ (اعمال ۴:۲۵، ۲۶) زبور ۱ کے لکھنے والے کا گیت ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے: ”مبارک ہے وہ آدمی جو شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا۔“ (زبور ۱:۱) آئیے ہم اس مضمون میں اور اگلے میں بھی زبور ۱ اور ۲ پر غور کرکے سچی خوشی کی بنیاد کی کھوج لگاتے ہیں۔
خوشی کا راز
۳. زبور ۱:۱ کے مطابق ایک نیک شخص کی خوشی کا سبب کیا ہے؟
۳ زبور ۱ میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ایک نیک شخص کی خوشی کا سبب کیا ہے۔ زبورنویس گاتا ہے کہ ”مبارک ہے وہ آدمی جو شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا اور خطاکاروں کی راہ میں کھڑا نہیں ہوتا اور ٹھٹھابازوں کی مجلس میں نہیں بیٹھتا۔“—زبور ۱:۱۔
۴. زکریاہ اور الیشبع نے ہمارے لئے کس قسم کا نمونہ قائم کِیا؟
۴ حقیقی خوشی حاصل کرنے کے لئے ہمیں یہوواہ کے احکام پر پورا اُترنا ہوگا۔ زکریاہ اور الیشبع کے بارے میں لکھا ہے کہ ”وہ دونوں خدا کے حضور راستباز اور [یہوواہ] کے سب احکاموقوانین پر بےعیب چلنے والے تھے۔“ (لوقا ۱:۵، ۶) اس لئے زکریاہ اور الیشبع کو یوحنا بپتسمہ دینے والے کے والدین ہونے کی خوشی نصیب ہوئی۔ اگر ہم ’شریروں کی صلاح پر نہیں چلتے‘ اور شریروں کی ہدایت پر کان نہیں کرتے تو ہم بھی حقیقی خوشی حاصل کر سکیں گے۔
۵. ہم ”خطاکاروں کی راہ“ سے کیسے کنارہ کر سکتے ہیں؟
۵ اگر ہم بُرے لوگوں کی سوچ کو ترک کرینگے تو ہم ’خطاکاروں کی راہ میں کھڑے نہیں ہونگے۔‘ ہم ایسی جگہ کی راہ تک نہیں کرینگے جہاں خطاکار اپنی بُری خواہشات اور عیشوعشرت کی ہوس بجھانے کیلئے جاتے ہیں۔ لیکن اُس وقت کیا کِیا جائے جب ہم ان لوگوں کی مجلس میں شامل ہونے کی خواہش محسوس کرتے ہیں؟ ایسی صورتحال میں ہمیں خدا سے دُعا مانگنی چاہئے کہ وہ ہمیں پولس رسول کے ان الفاظ پر عمل کرنے کی طاقت بخشے: ”بےایمانوں کیساتھ ناہموار جوئے میں نہ جتو کیونکہ راستبازی اور بےدینی میں کیا میلجول؟ یا روشنی اور تاریکی میں کیا شراکت؟“ (۲-کرنتھیوں ۶:۱۴) خدا پر بھروسہ کرنے اور ’دل کو پاک‘ رکھنے سے ہم بُرے لوگوں کی روِش اور اُنکے نظریے سے کنارہ کر سکتے ہیں۔ اسطرح ہمارا ’ایمان بےریا‘ ہوگا اور ہماری نیت اور خواہشات سدا نیک ہونگی۔—متی ۵:۸؛ ۱-تیمتھیس ۱:۵۔
۶. ہمیں ٹھٹھابازوں کی مجلس میں کیوں نہیں بیٹھنا چاہئے؟
۶ ہم یہوواہ خدا کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ اسلئے ہم کبھی ’ٹھٹھابازوں کی مجلس میں نہیں بیٹھیں گے۔‘ ایسے لوگ اکثر خدا کے خادموں کو اسلئے ٹھٹھوں میں اُڑاتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے احکام پر چلتے ہیں۔ لیکن ان ”اخیر دنوں“ میں خدا کے خادموں کو خاص طور پر برگشتہ مسیحیوں کی لعنطعن سہنی پڑتی ہے۔ اس سلسلے میں پطرس رسول نے ہمیں آگاہ کرتے ہوئے یہ لکھا: ”اَے عزیزو! . . . یہ پہلے جان لو کہ اخیر دنوں میں ایسے ہنسی ٹھٹھا کرنے والے آئینگے جو اپنی خواہشوں کے موافق چلینگے۔ اور کہینگے کہ اُسکے آنے کا وعدہ کہاں گیا؟ کیونکہ جب سے باپ دادا سوئے ہیں اُس وقت سے اب تک سب کچھ ویسا ہی ہے جیسا خلقت کے شروع سے تھا۔“ (۲-پطرس ۳:۱-۴) اگر ہم ’ٹھٹھابازوں کی مجلس میں نہیں بیٹھیں گے‘ تو ہم اُس آفت سے بھی بچ نکلینگے جو ان پر آنے والی ہے۔—امثال ۱:۲۲-۲۷۔
۷. ہمیں زبور ۱ میں دی گئی آگاہی کو نظرانداز کیوں نہیں کرنا چاہئے؟
۷ ہم نے بائبل کا مطالعہ کرکے خدا کی قُربت حاصل کی ہے۔ لیکن اگر ہم زبور ۱ کی آگاہی کو نظرانداز کرینگے تو ہم خدا سے دُور ہو جانے کے خطرے میں ہونگے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہم خدا سے دُور ہو جانے میں پہلا قدم اُس وقت اُٹھاتے ہیں جب ہم بُرے لوگوں کی ہدایت پر کان لگاتے ہیں۔ پھر ہو سکتا ہے کہ ہم باقاعدگی سے اُنکے ساتھ ملاقات کریں۔ آخرکار ہو سکتا ہے کہ ہم بھی ان برگشتہ اشخاص کا ساتھ دیتے ہوئے اپنے مسیحی بھائیوں کو ٹھٹھوں میں اُڑانے لگیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بُرے لوگوں کیساتھ میلجول کرنا کتنا خطرناک ہے۔ ان لوگوں کیساتھ دوستی ہماری سوچ کو زہرآلودہ کر دیتی ہے اور یہوواہ خدا کیساتھ ہمارا قریبی رشتہ تباہ ہو جاتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۳۳؛ یعقوب ۴:۴) دُعا ہے کہ ہم کبھی اس راہ کو اختیار نہیں کرینگے!
۸. اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا دھیان روحانی باتوں پر رہے تو ہمیں کیا کچھ کرنا ہوگا؟
۸ جب ہم دُعا کرنے میں مشغول رہینگے تو ہمارا دھیان روحانی باتوں پر ہوگا۔ اسطرح ہم بُرے لوگوں کی صحبت میں پڑنے سے بھی بچے رہینگے۔ پولس رسول نے دُعا کے بارے میں لکھا کہ ”کسی بات کی فکر نہ کرو بلکہ ہر ایک بات میں تمہاری درخواستیں دُعا اور منت کے وسیلہ سے شکرگزاری کیساتھ خدا کے سامنے پیش کی جائیں۔ تو خدا کا اطمینان جو سمجھ سے بالکل باہر ہے تمہارے دلوں اور خیالوں کو مسیح یسوؔع محفوظ رکھیگا۔“ پولس رسول نے ایسی باتوں پر غور کرنے کی نصیحت بھی دی جو سچی ہیں، شرافت کی ہیں، واجب ہیں، پاک ہیں، پسندیدہ اور دلکش ہیں یعنی نیکی اور تعریف کی باتیں ہیں۔ (فلپیوں ۴:۶-۸) آئیں ہم اس نصیحت پر عمل کرتے ہوئے بُرے لوگوں کی راہ پر چلنے سے صاف انکار کریں۔
۹. ہم ہر طرح کے لوگوں کی مدد کیسے کرتے ہیں؟
۹ ہم لوگوں کی بُری حرکتوں میں شامل نہیں ہوتے۔ لیکن ہم بڑی نرمی سے اُنکو خدا کا پیغام سناتے ہیں بالکل اسطرح جیسے پولس رسول بھی رومی حاکم فیلکس کو ”راستبازی اور پرہیزگاری اور آیندہ عدالت“ کے بارے میں سناتا رہا۔ (اعمال ۲۴:۲۴، ۲۵؛ کلسیوں ۴:۶) ہم بادشاہی کی خوشخبری ہر طرح کے لوگوں کو سناتے ہیں اور ان سے اچھی طرح سے پیش بھی آتے ہیں۔ ہمیں اس بات پر پورا یقین ہے کہ ”جتنے ہمیشہ کی زندگی کیلئے مقرر کئے گئے“ ہیں ایمان لے آئینگے اور خدا کے احکام پر چلنے سے خوشی حاصل کرینگے۔—اعمال ۱۳:۴۸۔
یہوواہ کی شریعت میں اُسکی خوشنودی ہے
۱۰. خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۰ زبورنویس ایک خوش شخص کے بارے میں یہ بھی کہتا ہے: ”[یہوواہ] کی شریعت میں اُسکی خوشنودی ہے اور اُسی کی شریعت پر دن رات اُسکا دھیان رہتا ہے۔“ (زبور ۱:۲) خدا کے خادم ہونے کی حیثیت سے ’ہماری خوشنودی یہوواہ کی شریعت میں ہے۔‘ اگر ہمارے لئے ایسا کرنا ممکن ہو تو خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے وقت ہمیں صحیفے اُونچی آواز میں پڑھنے چاہئیں۔ اسطرح ’ہمارا دھیان اُسکی شریعت پر رہیگا۔‘ صحائف کو اُونچی آواز میں پڑھنے کا ایک اَور فائدہ یہ بھی ہے کہ اسطرح ہم انکو اپنے دل اور دماغ پر کندہ کر لینگے۔
۱۱. ہمیں ”دن رات“ بائبل کیوں پڑھنی چاہئے؟
۱۱ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ جماعت ہمیں روزانہ بائبل کو پڑھنے کی نصیحت دیتی ہے۔ (متی ۲۴:۴۵) بائبل انسانوں کیلئے یہوواہ خدا کا پیغام ہے اور ہم اسے اچھی طرح سے سمجھنے کے خواہاں ہیں۔ اسلئے ہم ”دن رات“ یعنی باقاعدگی سے خدا کے کلام کو پڑھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہم کسی نہ کسی وجہ سے رات کو سو نہ سکیں تو ہم بائبل پڑھ سکتے ہیں۔ پطرس رسول ہماری تاکید کرتا ہے کہ ”نوزاد بچوں کی مانند خالص روحانی دودھ کے مشتاق رہو تاکہ اُسکے ذریعہ سے نجات حاصل کرنے کیلئے بڑھتے جاؤ۔“ (۱-پطرس ۲:۱، ۲) زبورنویس کی طرح کیا آپ بھی روزانہ بائبل کی پڑھائی سے لطف اُٹھاتے ہیں اور رات کو خدا کے کلام پر دھیان دیتے ہیں؟—زبور ۶۳:۶۔
۱۲. ہم یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہماری خوشنودی یہوواہ کی شریعت میں ہے؟
۱۲ ہم ہمیشہ کے لئے خوش رہنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ لیکن یہ آرزو صرف اس وقت پوری ہوگی جب ہماری خوشنودی یہوواہ کی شریعت میں ہو۔ اُسکی شریعت کامل اور راست ہے اور اُسکو ماننے سے بڑا اجر ملتا ہے۔ (زبور ۱۹:۷-۱۱) یعقوب نے لکھا کہ ”جو شخص آزادی کی کامل شریعت پر غور سے نظر کرتا رہتا ہے وہ اپنے کام میں اسلئے برکت پائیگا کہ سُن کر بھولتا نہیں بلکہ عمل کرتا ہے۔“ (یعقوب ۱:۲۵) اگر خدا کی شریعت واقعی ہماری خوشی کا باعث ہے تو ہم روزانہ روحانی باتوں پر دھیان دینگے۔ جیہاں، ہم ’خدا کی تہ کی باتوں کو بھی دریافت کرنے‘ کی کوشش کرینگے اور اُسکی بادشاہی کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینگے۔—۱-کرنتھیوں ۲:۱۰-۱۳؛ متی ۶:۳۳۔
وہ درخت کی مانند ہوگا
۱۳-۱۵. ہم کس لحاظ سے اُس درخت کی مانند ہو سکتے ہیں جو پانی کے ایک چشمے کے پاس لگایا گیا ہو؟
۱۳ زبورنویس نیک شخص کے بارے میں آگے بیان کرتا ہے کہ ”وہ اُس درخت کی مانند ہوگا جو پانی کی ندیوں کے پاس لگایا گیا ہے۔ جو اپنے وقت پر پھلتا ہے اور جسکا پتا بھی نہیں مُرجھاتا۔ سو جو کچھ وہ کرے باروَر ہوگا۔“ (زبور ۱:۳) یہوواہ کے خادموں کی زندگی میں طرح طرح کے مسئلے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ (ایوب ۱۴:۱) اکثر ہمیں اپنے ایمان کی وجہ سے اذیتیں سہنی پڑتی ہیں۔ (متی ۵:۱۰-۱۲) لیکن یہوواہ کی مدد سے ہم ان آزمائشوں کا سامنا کر سکتے ہیں بالکل اسطرح جیسے ایک تندرست درخت کامیابی سے آندھی کا سامنا کرتا ہے۔
۱۴ وہ درخت جو پانی کے ایک چشمے کے پاس لگایا گیا ہو گرمی یا خشکسالی میں بھی نہیں مُرجھاتا۔ اسی طرح اگر ہم خدا کا خوف رکھتے ہیں تو یہوواہ خدا ہماری طاقت کا سرچشمہ ہوگا۔ پولس رسول کو خدا پر پورا بھروسہ تھا۔ وہ کہتا ہے کہ ”جو مجھے طاقت بخشتا ہے اُس میں مَیں سب کچھ کر سکتا ہوں۔“ (فلپیوں ۴:۱۳) جب یہوواہ کی رُوحاُلقدس ہماری راہنمائی کرتی ہے تو ہم روحانی طور پر سُست پڑ کر مُرجھا نہیں جاتے۔ اسکے برعکس ہم خدا کی خدمت میں پھل لاتے ہیں اور خود میں روح کا پھل بھی پیدا کرتے ہیں۔—یرمیاہ ۱۷:۷، ۸؛ گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳۔
۱۵ آیت ۳ میں زبورنویس کہتا ہے کہ نیک شخص درخت کی ”مانند“ ہوتا ہے۔ لیکن انسان اور درخت میں تو بڑا فرق ہے۔ تو پھر ہم کس لحاظ سے درخت کی مانند ہوتے ہیں؟ زبورنویس ایسے اشخاص جنکی ’خوشنودی یہوواہ کی شریعت میں ہے‘ اُنکی تشبیہ ایک شاندار درخت سے دیتا ہے جو پانی کے ایک چشمے کے پاس لگایا گیا ہو۔ اس درخت کی مانند یہ اشخاص بھی روحانی طور پر تندرستوتوانا ہیں۔ اگر ہم خدا کی شریعت پر دل لگائے رکھینگے تو ہماری عمر ایک درخت کی مانند دراز ہو جائیگی بلکہ ہم ہمیشہ تک زندہ رہ سکیں گے۔—یوحنا ۱۷:۳۔
۱۶. ہم ’جو کچھ کرتے ہیں اس میں باروَر‘ کیسے ہو سکتے ہیں؟
۱۶ جب ہم خدا کے احکام پر عمل کرتے ہیں تو وہ مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے۔ لہٰذا ہم خوشی سے خدا کی خدمت میں پھل لاتے ہیں۔ (متی ۱۳:۲۳؛ لوقا ۸:۱۵) یہوواہ اپنے مقصد کو ہمیشہ پورا کرتا ہے۔ اسلئے جب ہم خوشی سے خدا کی مرضی پوری کرتے ہیں تو ہم ’جو کچھ کرتے ہیں اس میں باروَر‘ یعنی کامیاب ہونگے۔ (پیدایش ۳۹:۲۳؛ یشوع ۱:۷، ۸؛ یسعیاہ ۵۵:۱۱) یہ اس وقت بھی سچ ثابت ہوگا جب ہمیں مصیبتوں اور آزمائشوں کا سامنا ہوگا۔—زبور ۱۱۲:۱-۳؛ ۳-یوحنا ۲۔
شریر بھوسے کی مانند ہیں
۱۷، ۱۸. (ا) زبورنویس شریروں کی تشبیہ کس چیز سے کرتا ہے؟ (ب) شریروں کی دولت اُنہیں کیوں نہیں بچا سکتی؟
۱۷ بُرے لوگ دیکھنے میں تو مالودولت کما رہے اور ترقی کر رہے ہیں۔ لیکن دراصل وہ روحانی طور پر بالکل کنگال ہیں۔ یہ بات زبورنویس کے اگلے الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ”شریر ایسے نہیں بلکہ وہ بھوسے کی مانند ہیں جسے ہوا اُڑا لے جاتی ہے۔ اسلئے شریر عدالت میں قائم نہ رہینگے نہ خطاکار صادقوں کی جماعت میں۔“ (زبور ۱:۴، ۵) شریر نیک لوگوں کی طرح نہیں ہیں جنکا ذکر زبورنویس پہلے کر چکا ہے اور جو ایک تندرست اور توانا درخت کی مانند پائیدار اور پھلدار ہیں۔
۱۸ شریروں کی دولت اُنہیں نہیں بچا سکتی۔ (زبور ۳۷:۱۶؛ زبور ۷۳:۳، ۱۲) ایک مرتبہ یسوع نے کہا: ”خبردار! اپنے آپ کو ہر طرح کے لالچ سے بچائے رکھو کیونکہ کسی کی زندگی اُسکے مال کی کثرت پر موقوف نہیں۔“ پھر یسوع نے اپنی بات پر زور دینے کیلئے ایک تمثیل کہی۔ اس نے ایک دولتمند آدمی کا ذکر کِیا جسکی بڑی فصل ہوئی۔ دولتمند آدمی نے اپنے اناج کو ذخیرہ کرنے کیلئے اپنے موجودہ گودام ڈھا کر ان سے بڑے گودام بنوانے کا فیصلہ کر لیا۔ اُس نے یہ بھی سوچا کہ اب تو مَیں کھاؤنگا، پیونگا اور عیش کرؤنگا۔ مگر خدا نے اس سے کہا ”اَے نادان! اسی رات تیری جان تجھ سے طلب کر لی جائیگی۔ پس جو کچھ تُو نے تیار کِیا ہے وہ کس کا ہوگا؟“ اس تمثیل کو کہنے کے بعد یسوع نے کہا: ”ایسا ہی وہ شخص ہے جو اپنے لئے خزانہ جمع کرتا ہے اور خدا کے نزدیک دولتمند نہیں۔“ (لوقا ۱۲:۱۳-۲۱) جیہاں، شریروں کا حال اس نادان دولتمند آدمی جیسا ہی ہوگا!
۱۹، ۲۰. (ا) قدیم زمانے میں اناج کو کیسے گاہا اور پھٹکا جاتا تھا؟ (ب) شریر بھوسے کی مانند کیوں ہیں؟
۱۹ شریر ”خدا کے نزدیک دولتمند نہیں“ ہیں۔ اسلئے وہ محفوظ نہیں ہیں بلکہ اُس بھوسے کی مانند ہیں جسے ہوا اُڑا لے جاتی ہے۔ قدیم زمانے میں فصل کی کٹائی کے بعد اناج کو کھلیہان میں جمع کِیا جاتا تھا جو عموماً کافی اُونچائی پر ہوتا تھا۔ پھر اناج پر بیلوں کو پھرایا جاتا تاکہ بھوس اور اناج الگ الگ ہو جائے۔ اسکے بعد اناج کو بیلچوں کے ذریعے ہوا میں پھٹکایا یا اُچھالا جاتا تھا۔ (یسعیاہ ۳۰:۲۴) اسطرح بھوسا ہوا میں اُڑ کر غائب ہو جاتا تھا لیکن دانے کھلیہان پر گِر جاتے تھے۔ (روت ۳:۲) آخرکار دانوں کو چھلنی میں سے ڈالا جاتا تھا تاکہ اُس میں سے پتھر وغیرہ چھانے جا سکیں۔ اسطرح سے اناج کو صاف کرنے کے بعد اُسے یا تو گوداموں میں ذخیرہ کر لیا جاتا یا چکی میں پیسا جاتا تھا۔ (لوقا ۲۲:۳۱) غور کریں کہ بھوسا ہوا میں اُڑ کر غائب ہو جاتا تھا۔
۲۰ جسطرح اناج کو پھٹکنے سے دانے زمین پر گِر جاتے ہیں لیکن بھوسا ہوا میں اُڑ جاتا ہے اسی طرح نیک لوگ زندہ بچ جائینگے لیکن شریروں کا نامونشان مٹا دیا جائیگا۔ کیا ہم اس بات سے خوش نہیں ہیں؟ یہ ان لوگوں کیلئے کتنی بڑی برکت ہوگی جنکی خوشنودی یہوواہ کی شریعت میں ہے۔ وہ لوگ جو خدا کا کہنا مانتے ہیں اُس سے ہمیشہ کی زندگی پائینگے۔—متی ۲۵:۳۴-۴۶؛ رومیوں ۶:۲۳۔
”صادقوں کی راہ“ برکت کی راہ ہے
۲۱. خدا ’صادقوں کی راہ کیسے جانتا ہے‘؟
۲۱ زبور ۱ کی آخری آیت میں یوں لکھا ہے: ”[یہوواہ] صادقوں کی راہ جانتا ہے پر شریروں کی راہ نابود ہو جائیگی۔“ (زبور ۱:۶) خدا ’صادقوں کی راہ کیسے جانتا ہے؟‘ جب ہم خدا کے احکام پر عمل کرتے ہیں تو خدا ہماری کوششوں کو دیکھتا ہے اور ہمیں اپنے خادموں کے طور پر قبول کرتا ہے۔ ہمیں اپنی ساری فکر اُس پر ڈالنی چاہئے کیونکہ خدا واقعی ہماری پرواہ کرتا ہے۔—حزقیایل ۳۴:۱۱؛ ۱-پطرس ۵:۶، ۷۔
۲۲، ۲۳. شریروں اور نیک لوگوں کا کیا انجام ہوگا؟
۲۲ ”صادقوں کی راہ“ ہمیشہ تک قائم رہیگی۔ لیکن ایسے لوگ جو اپنی بُری روِش میں تبدیلی لانے کو ہرگز تیار نہیں ہیں وہ یہوواہ کے ہاتھ ختم کر دئے جائینگے۔ اور اُنکی ”راہ“ یعنی زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی انکے ساتھ ہی ختم کر دیا جائیگا۔ ہم داؤد کے ان الفاظ کی تکمیل پر پورا یقین کر سکتے ہیں: ”تھوڑی ہی دیر میں شریر نابود ہو جائیگا۔ تُو اُسکی جگہ کو غور سے دیکھیگا پر وہ نہ ہوگا۔ لیکن حلیم ملک کے وارث ہونگے اور سلامتی کی فراوانی سے شادمان رہینگے۔ صادق زمین کے وارث ہونگے اور اُس میں ہمیشہ بسے رہینگے۔“—زبور ۳۷:۱۰، ۱۱، ۲۹۔
۲۳ اُس وقت ہم کتنے خوش ہونگے جب ہمیں ایک زمینی فردوس پر رہنے کا شرف حاصل ہوگا جہاں بُرے لوگوں کا نامونشان نہ ہوگا! تب صادق اور حلیم لوگ چین اور سکون سے زندگی بسر کر سکیں گے کیونکہ وہ ہمیشہ تک ’یہوواہ کی شریعت سے خوشنودی‘ حاصل کرتے رہینگے۔ لیکن اس سے پہلے ’یہوواہ کے فرمان‘ کو تکمیل تک پہنچنا ہوگا۔ (زبور ۲:۷) یہ کس قسم کا فرمان ہے اور اسکا ہم پر بلکہ تمام انسانوں پر کیا اثر ہوگا؟ آئیے ہم اگلے مضمون میں دیکھتے ہیں۔
آپکا کیا جواب ہوگا؟
• نیک شخص کیوں خوش ہوتا ہے؟
• ہم کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ ہماری خوشنودی یہوواہ کی شریعت میں ہے؟
• ایک شخص ایک ایسے درخت کی مانند کیسے ہو سکتا ہے جو پانی کے چشمے کے پاس لگایا گیا ہو؟
• نیک شخص کی راہ شریروں کی راہ سے کیسے فرق ہوتی ہے؟
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
دُعا کے ذریعے ہم بُرے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی طاقت حاصل کرتے ہیں
[صفحہ ۱۲ پر تصویر]
نیک شخص درخت کی مانند کیوں ہوتا ہے؟