یہوواہ ہمارا مددگار ہے
”میری مدد یہوواہ سے ہے جس نے آسمان اور زمین کو بنایا۔“ —زبور ۱۲۱:۲، این ڈبلیو۔
۱، ۲. (ا) تمام انسانوں کو مدد کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ (ب) یہوواہ کس قسم کا مددگار ہے؟
ہم میں سے کون کہہ سکتا ہے کہ مجھے کبھی مدد کی ضرورت نہیں پڑتی؟ سچ تو یہ ہے کہ تمام انسانوں کو طرح طرح کی مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ جب ہم کسی مشکل میں پڑتے ہیں تو ہم اکثر کسی دوست سے مدد مانگتے ہیں۔ اُسکا سہارا ہماری مشکل کو آسان بنا سکتا ہے۔ لیکن کچھ ایسی مشکلات بھی ہیں جن میں ہمارے قریبی دوست بھی ہماری مدد نہیں کر سکتے۔
۲ اسکے باوجود ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہئے۔ یہوواہ خدا پوری کائنات پر اختیار رکھتا ہے۔ وہ ہمیشہ ہماری مدد کرنے کو تیار ہے۔ زبورنویس نے اس سلسلے میں کہا کہ ”میری مدد یہوواہ سے ہے۔“ (زبور ۱۲۱:۲، اینڈبلیو) اُسکو اس بات پر یقین کیوں تھا؟ اس سوال کا جواب ہمیں زبور ۱۲۱ پر غور کرنے سے ملیگا۔ پھر ہم بھی پورے دل سے کہہ سکیں گے کہ یہوواہ میرا مددگار ہے۔
یہوواہ ہمیشہ تک ہماری مدد کرتا رہیگا
۳. زبورنویس نے کن پہاڑوں کی طرف آنکھیں اُٹھائیں ہونگی اور اُس نے ایسا کیوں کِیا؟
۳ سب سے پہلے زبورنویس ہماری توجہ اس بات پر دلاتا ہے کہ یہوواہ کائنات کا خالق ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ ”مَیں اپنی آنکھیں پہاڑوں کی طرف اُٹھاؤنگا۔ میری مدد کہاں سے آئیگی؟ میری مدد یہوواہ سے ہے جس نے آسمان اور زمین کو بنایا۔“ (زبور ۱۲۱:۱، ۲، این ڈبلیو) ان آیات میں زبورنویس یہوداہ کے پہاڑوں کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ ان پہاڑوں پر شہر یروشلیم واقع تھا۔ یروشلیم میں یہوواہ کی ہیکل تھی۔ لہٰذا یہوواہ نے اس شہر کو اپنی سکونتگاہ کے طور پر چُنا تھا۔ (زبور ۱۳۵:۲۱) ہو سکتا ہے کہ زبورنویس انہی پہاڑوں کی طرف آنکھیں اُٹھا کر دیکھ رہا تھا جن پر یہوواہ کی ہیکل واقع تھی۔ اس سے وہ ظاہر کر رہا تھا کہ اُسے یہوواہ سے مدد کی اُمید تھی۔ زبورنویس جانتا تھا کہ یہوواہ ہی ”آسمان اور زمین“ کو بنانے والا ہے۔ اُسے یقین تھا کہ تمام چیزوں کا خالق اتنا طاقتور ہے کہ وہ ہر حال میں اُسکی مدد کر سکتا ہے۔—یسعیاہ ۴۰:۲۶۔
۴. زبورنویس ہمیں یقین کیسے دلاتا ہے کہ یہوواہ ہمیشہ اپنے بندوں کی ضروریات سے باخبر رہتا ہے؟ یہ جاننا ہمارے لئے تسلیبخش کیوں ہے؟
۴ اسکے بعد زبورنویس ہمیں یقین دلاتا ہے کہ یہوواہ ہمیشہ اپنے بندوں کی ضروریات سے باخبر رہتا ہے۔ وہ یہوواہ کے بارے میں کہتا ہے: ”وہ تیرے پاؤں کو پھسلنے نہ دیگا۔ تیرا محافظ اُونگھنے کا نہیں۔ دیکھ! اؔسرائیل کا محافظ نہ اُونگھے گا نہ سوئیگا۔“ (زبور ۱۲۱:۳، ۴) خدا اُن لوگوں کو کبھی ”پھسلنے“ نہیں دیگا جو اُس پر بھروسا رکھتے ہیں۔ اسکا مطلب ہے کہ یہوواہ ہمیں کبھی ایسی مصیبت میں نہیں پڑنے دیگا جس سے ہم اُٹھ کھڑے نہ ہو سکیں۔ (امثال ۲۴:۱۶) یہوواہ اُس چرواہے کی مانند ہے جو اپنی بھیڑوں کی حفاظت کرنے کیلئے دن رات چوکس رہتا ہے۔ یہ جاننا ہمارے لئے کتنا تسلیبخش ہے۔ جیہاں، یہوواہ خدا ایک لمحے کیلئے بھی نہیں اُونگھے گا۔ وہ لگاتار اپنے خادموں کی حفاظت کرتا رہیگا۔
۵. زبورنویس نے کیوں کہا کہ یہوواہ اپنے خادموں کے ”دہنے ہاتھ“ کھڑا ہے؟
۵ زبورنویس کو اپنے محافظ یہوواہ پر پورا بھروسا تھا۔ اُس نے کہا: ”[یہوواہ] تیرا محافظ ہے۔ [یہوواہ] تیرے دہنے ہاتھ پر تیرا سایبان ہے۔ نہ آفتاب دن کو تجھے ضرر پہنچائیگا نہ ماہتاب رات کو۔“ (زبور ۱۲۱:۵، ۶) اسرائیل کے علاقے میں مسافروں کو دھوپ کی شدت خوب ستاتی تھی۔ اسلئے وہ ہر قسم کے سایے کو پا کر بہت خوش ہوتے تھے۔ یہوواہ اپنے خادموں کیلئے ایک ایسے سایے کی مانند ہے جو اذیت کی شدید تپش میں اُنکی حفاظت کرتا ہے۔ زبورنویس نے یہ بھی کہا کہ یہوواہ اپنے خادموں کے ”دہنے ہاتھ“ کھڑا ہے۔ پُرانے زمانے میں سپاہی بائیں ہاتھ میں اپنی سپر رکھتے تھے۔ اس وجہ سے وہ دائیں ہاتھ پر زخمی ہونے کے خطرے میں ہوتے تھے۔ لہٰذا اُنکا کوئی وفادار ساتھی اُنکے دہنے ہاتھ کھڑا ہو کر دُشمن کا مقابلہ کرتا تھا۔ اِسی طرح یہوواہ بھی اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اُنکی مدد کو تیار ہے۔
۶، ۷. (ا) زبورنویس ہمیں کیسے یقین دلاتا ہے کہ یہوواہ ہمیشہ اپنے بندوں کی مدد کرتا رہیگا؟ (ب) زبورنویس کی طرح ہم بھی یہوواہ پر پورا یقین کیوں رکھ سکتے ہیں؟
۶ وہ وقت کبھی نہیں آئیگا جب یہوواہ اپنے خادموں کی مدد نہیں کریگا۔ زبورنویس ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ”[یہوواہ] ہر بلا سے تجھے محفوظ رکھیگا۔ وہ تیری جان کو محفوظ رکھیگا۔ [یہوواہ] تیری آمدورفت میں اب سے ہمیشہ تک تیری حفاظت کریگا۔“ (زبور ۱۲۱:۷، ۸) آیت ۵ میں زبورنویس نے کہا تھا کہ ”[یہوواہ] تیرا محافظ ہے۔“ لیکن آیت ۸ میں وہ کہتا ہے کہ ”[یہوواہ] . . . ہمیشہ تک تیری حفاظت کریگا۔“ اسطرح زبورنویس ہمیں یقین دلاتا ہے کہ یہوواہ ہمیشہ کیلئے اپنے بندوں کی حفاظت کرتا رہیگا۔ چاہے وہ کہیں بھی ہوں اور اُنہیں کتنی کٹھن صورتحال کا سامنا کیوں نہ ہو اُنکی مدد کرنا یہوواہ کی پہنچ میں ہے۔—امثال ۱۲:۲۱۔
۷ جس شخص نے زبور ۱۲۱ کو لکھا تھا وہ جانتا تھا کہ یہوواہ اُس چرواہے کی مانند ہے جسے اپنی بھیڑوں سے محبت ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہوواہ ایک چوکس سپاہی کی طرح اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔ ہم اسکی بات پر پورا یقین رکھ سکتے ہیں کیونکہ یہوواہ لاتبدیل ہے۔ (ملاکی ۳:۶) کیا اسکا مطلب ہے کہ یہوواہ ہمیں کبھی بھی اذیت میں نہیں پڑنے دیگا؟ جینہیں۔ لیکن وہ ہر اذیت میں ہماری مدد کریگا تاکہ ہم روحانی طور پر نقصان نہ اُٹھائیں۔ اب سوال یہ اُٹھاتا ہے کہ یہوواہ کسطرح ہماری مدد کرتا ہے؟ وہ چار طریقوں سے ہماری مدد کرتا ہے۔ آئیے اس مضمون میں ہم بائبل میں سے کچھ ایسی مثالوں پر غور کرتے ہیں جن سے یہ چار طریقے ظاہر ہوتے ہیں۔ اگلے مضمون میں ہم دیکھینگے کہ وہ اپنے خادموں کی آج کیسے حفاظت کرتا ہے۔
فرشتوں کے ذریعے
۸. فرشتے خدا کے انسانی خادموں کو خوش کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟
۸ آسمان پر لاکھوں لاکھ فرشتے وفاداری سے یہوواہ خدا کے ہر حکم پر عمل کرنے کو تیار کھڑے ہیں۔ (دانیایل ۷:۹، ۱۰؛ زبور ۱۰۳:۲۰) وہ جانتے ہیں کہ یہوواہ کو اپنے انسانی خادموں سے بہت لگاؤ ہے اور وہ اُنکی مدد کرنے کو ہر وقت تیار ہے۔ اسلئے فرشتے بھی خدا کے خادموں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ (لوقا ۱۵:۱۰) فرشتے اس بات پر بھی خوش ہیں کہ یہوواہ اُنکے ذریعے اپنے انسانی خادموں کی مدد کرتا ہے۔ لیکن یہوواہ ایسا کیسے کرتا ہے؟ آئیے ہم اس سلسلے میں قدیم زمانے کی چند مثالوں پر غور کرتے ہیں۔
۹. خدا نے فرشتوں کے ذریعے اپنے وفادار خادموں کی مدد کیسے کی؟
۹ یہوواہ نے اپنے فرشتوں کے ذریعے اپنے انسانی خادموں کی حفاظت کی اور اُنہیں نجات بھی دلائی۔ مثال کے طور پر جب سدوم اور عمورہ کو تباہ کِیا جانا تھا تو دو فرشتوں نے لوط اور اُسکی بیٹیوں کو اس علاقے سے نکلنے میں مدد دی۔ (پیدایش ۱۹:۱، ۱۵-۱۷) جب اسور کا بادشاہ یروشلیم پر حملہآور ہونے والا تھا تو ایک ہی فرشتہ نے اسور کی لشکرگاہ میں ۱۸۵،۰۰۰ آدمی مار ڈالے۔ (۲-سلاطین ۱۹:۳۵) دانیایل کو شیروں کی ماند سے بچانے کیلئے یہوواہ نے ”اپنے فرشتہ کو بھیجا اور شیروں کے مُنہ بند کر دئے۔“ (دانیایل ۶:۲۱، ۲۲) اور ایک فرشتے نے پطرس رسول کو قید سے آزاد کر دیا۔ (اعمال ۱۲:۶-۱۱) انکے علاوہ بھی بائبل میں بہت سے ایسے واقعات کا ذکر ہے جب فرشتوں نے انسانوں کی حفاظت کی۔ یقیناً ”[یہوواہ] سے ڈرنے والوں کی چاروں طرف اُسکا فرشتہ خیمہزن ہوتا ہے اور اُنکو بچاتا ہے۔“—زبور ۳۴:۷۔
۱۰. یہوواہ نے ایک فرشتے کے ذریعے دانیایل نبی کا حوصلہ کیسے بڑھایا؟
۱۰ کبھیکبھار یہوواہ اپنے انسانی خادموں کا حوصلہ بڑھانے اور اُنکو قوت بخشنے کیلئے بھی اپنے فرشتوں کو بھیجتا ہے۔ اسکی ایک مثال دانیایل کی کتاب کے دسویں باب میں پائی جاتی ہے۔ یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب دانیایل تقریباً ۱۰۰ سال کا تھا۔ وہ بہت ہی دُکھی تھا شاید اسلئے کہ اُسکا پیارا شہر یروشلیم اُس وقت بھی کافی حد تک ویران پڑا تھا اور ہیکل کو دوبارہ تعمیر کرنے میں دیر کی جا رہی تھی۔ اسکے علاوہ اُس نے ایک رویا دیکھی جسکی وجہ سے وہ اَور بھی خوفزدہ ہو گیا تھا۔ (دانیایل ۱۰:۲، ۳، ۸) خدا نے ایک فرشتہ کو دانیایل کی حوصلہافزائی کرنے کیلئے اُسکے پاس بھیجا۔ اس فرشتہ نے دانیایل کو بار بار یقین دلایا کہ وہ یہوواہ کی نظروں میں ”عزیز مرد“ ہے۔ نتیجتاً دانیایل نے فرشتے سے کہا کہ ”تُو ہی نے مجھے قوت بخشی ہے۔“—دانیایل ۱۰:۱۱، ۱۹۔
۱۱. ایک مثال دے کر بتائیں کہ فرشتے مُنادی کے کام کو انجام دینے کیلئے ہماری مدد کیسے کرتے ہیں؟
۱۱ یہوواہ اپنے فرشتوں کے ذریعے اپنے انسانی خادموں کی راہنمائی کرتا ہے تاکہ وہ مُنادی کے کام کو انجام دے سکیں۔ ایک فرشتے کے کہنے پر فلپس ایک حبشی خوجہ کو یسوع مسیح کے بارے میں سکھانے لگا جسکے بعد خوجہ نے بپتسمہ لے لیا۔ (اعمال ۸:۲۶، ۲۷، ۳۶، ۳۸) خدا چاہتا تھا کہ غیریہودیوں کو بھی خوشخبری سنائی جائے۔ لہٰذا خداترس کرنیلیس نے ایک رویا دیکھی جس میں ایک فرشتہ نے اُسے پطرس رسول کو اپنے گھر بلوانے کو کہا۔ جب کرنیلیس کے خادم پطرس رسول کے پاس پہنچے تو اُنہوں نے اُس سے کہا: ”کرنیلیسؔ . . . نے پاک فرشتہ سے ہدایت پائی کہ تجھے اپنے گھر بلا کر تجھ سے کلام سنے۔“ پطرس کے وہاں جانے پر کرنیلیس نے اپنے گھرانے سمیت بپتسمہ لے لیا۔ یہ غیریہودیوں میں سے پہلے لوگ تھے جنہیں مسیحی بننے کا شرف حاصل ہوا۔ (اعمال ۱۰:۲۲، ۴۴-۴۸) ذرا سوچیں کہ آپ بھی کتنے خوش ہوتے اگر ایک فرشتہ کی مدد سے آپ کی ملاقات کسی ایسے شخص سے ہوتی جو خدا کو جاننے کے لئے ترس رہا ہوتا۔
روحاُلقدس کے ذریعے
۱۲، ۱۳. (ا) یسوع کے رسولوں کو اس بات کا یقین کیوں تھا کہ روحاُلقدس اُنکی مدد کر سکتی ہے؟ (ب) ابتدائی مسیحی روحاُلقدس کی مدد سے کس کام کو انجام دینے میں کامیاب رہے؟
۱۲ یسوع نے اپنی موت سے پہلے اپنے رسولوں کا حوصلہ بڑھانے کیلئے اُنہیں بتایا کہ یہوواہ اُن پر ایک ”مددگار یعنی روحاُلقدس“ کو نازل کرنے والا ہے۔ (یوحنا ۱۴:۲۶) رسول پاک صحائف میں بہت سے ایسے واقعات کے بارے میں پڑھ چکے تھے جن میں یہوواہ نے اپنی پاک روح کے ذریعے اپنے خادموں کی مدد کی تھی۔ اسلئے وہ جانتے تھے کہ خدا کی قوت یعنی روحاُلقدس اُنکی بھی مدد کر سکتی ہے۔
۱۳ یہوواہ نے اکثر اپنی پاک روح کے ذریعے اپنے خادموں کو قوت بخشی تاکہ وہ اُسکی مرضی پوری کرنے کے قابل ہوں۔ مثال کے طور پر پاک روح ہی کے ذریعے قاضی بنیاسرائیل کو دُشمنوں کے چنگل سے چھڑانے میں کامیاب رہے۔ (قضاۃ ۳:۹، ۱۰؛ ۶:۳۴) اسی روح کے ذریعے ابتدائی مسیحی دلیری سے مُنادی کے کام کو جاری رکھ سکتے تھے حالانکہ اُنہیں طرح طرح کی مخالفت کا سامنا تھا۔ (اعمال ۱:۸؛ ۴:۳۱) اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ ”اَنپڑھ اور ناواقف آدمی“ ہونے کے باوجود وہ پوری جانیپہچانی دُنیا میں خوشخبری سنانے میں کامیاب رہے۔—اعمال ۴:۱۳؛ کلسیوں ۱:۲۳۔
۱۴. یہوواہ نے اپنے خادموں کو اپنا کلام سمجھنے میں کیسے مدد دی ہے؟
۱۴ یہوواہ نے اپنی پاک روح کے ذریعے اپنے خادموں کو مدد فراہم کی تاکہ وہ اُسکے کلام کو سمجھ سکیں۔ اسکی ایک مثال وہ واقعہ تھا جو یوسف کیساتھ پیش آیا۔ یوسف خدا کی روح کی مدد سے فرعون کے خوابوں کے مطلب کو سمجھنے اور اُنکی تعبیر دینے میں کامیاب رہا۔ (پیدایش ۴۱:۱۶، ۳۸، ۳۹) یہوواہ اپنی پاک روح کے ذریعے عاجز لوگوں کو اپنے مقاصد کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔ لیکن یہی باتیں مغروروں سے چھپی رہتی ہیں۔ (متی ۱۱:۲۵) جو چیزیں خدا نے ”اپنے محبت رکھنے والوں“ کیلئے تیار کی ہیں اُنکے بارے میں پولس رسول کہتا ہے کہ ’خدا نے انکو ہم پر اپنی روح کے وسیلہ سے ظاہر کِیا ہے۔‘ (۱-کرنتھیوں ۲:۷-۱۰) اسکا مطلب ہے کہ ہم صرف اور صرف روحاُلقدس کی مدد سے خدا کی مرضی کو پوری طرح سمجھنے کے قابل بنتے ہیں۔
اپنے کلام کے ذریعے
۱۵، ۱۶. یشوع کو کامیاب ہونے کیلئے کیا کرنا تھا؟
۱۵ خدا کا کلام ”تعلیم . . . کیلئے فائدہمند“ ہے۔ اسکی مدد سے خدا کے خادم ’کامل بن سکتے اور ہر ایک نیک کام کیلئے بالکل تیار ہو سکتے ہیں۔‘ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷) قدیم زمانے میں خدا کے لوگوں نے اُسکے کلام سے بہت فائدہ حاصل کِیا تھا۔ اس بات کی بہت سی مثالیں ہمیں بائبل ہی میں ملتی ہیں۔
۱۶ خدا کے خادموں نے اُسکے کلام کے ذریعے راہنمائی پائی۔ جب یشوع کو اسرائیل کے پیشوا کے طور پر مقرر کِیا گیا تو خدا نے اُس سے کہا کہ ”شریعت کی یہ کتاب [جو موسیٰ کے ہاتھوں درج ہوئی تھی] تیرے مُنہ سے نہ ہٹے بلکہ تجھے دن اور رات اسی کا دھیان ہو تاکہ جو کچھ اس میں لکھا ہے اُس سب پر تُو احتیاط کرکے عمل کر سکے کیونکہ تب ہی تجھے اقبالمندی کی راہ نصیب ہوگی اور تُو خوب کامیاب ہوگا۔“ خدا نے یشوع کو بتایا کہ کامیاب ہونے کیلئے کیا لازمی ہے۔ یشوع ’شریعت کی اس کتاب‘ کو پڑھنے اور اُس پر غور کرنے سے ضرور کامیاب ہو سکتا تھا۔—یشوع ۱:۸؛ زبور ۱:۱-۳۔
۱۷. دانیایل نبی اور یوسیاہ بادشاہ خدا کے کلام پر غور کرنے سے کونسی باتیں سمجھنے کے قابل بنے؟
۱۷ پاک صحائف پر غور کرنے سے خدا کے خادم اُسکی مرضی اور اُسکے مقاصد کو بہتر طور پر سمجھنے کے قابل بھی ہوئے۔ مثال کے طور پر جب دانیایل نبی نے یرمیاہ کی کتاب پر غور کِیا تو وہ اس بات کا اندازہ لگانے کے قابل ہو گیا کہ یروشلیم کب تک ویران پڑا رہیگا۔ (یرمیاہ ۲۵:۱۱؛ دانیایل ۹:۲) ایک اَور مثال پر غور کریں۔ یوسیاہ بادشاہ کے دورِحکومت تک یہوداہ کے لوگ خدا کی سچی عبادت سے بہت دُور ہو چکے تھے۔ یہوداہ کے بادشاہوں نے شریعت کی ایک نقل اپنے لئے ایک کتاب میں اُتار لینے کا رواج بھی چھوڑ دیا تھا۔ (استثنا ۱۷:۱۸-۲۰) یوسیاہ نے تخت سنبھالنے کے بعد ہیکل کی مرمت کرنے کا حکم جاری کِیا۔ اس مرمت کے دوران ”توریت کی کتاب“ دستیاب ہوئی۔ ہو سکتا ہے کہ یہ وہی کتاب تھی جسے موسیٰ نے تقریباً ۸۰۰ سال پہلے درج کی تھی۔ جب بادشاہ یوسیاہ کو یہ کتاب پڑھ کر سنائی گئی تو اُسے احساس ہوا کہ یہودی خدا کی شریعت سے کتنا دُور ہو چکے تھے۔ یوسیاہ نے فوراً سچی عبادت کو بحال کرنے کیلئے اقدام اُٹھانا شروع کر دئے۔ (۲-سلاطین ۲۲:۸؛ ۲۳:۱-۷) کیا ان دو مثالوں سے یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ خدا کے خادموں نے اُسکے کلام سے کتنی مدد حاصل کی؟
اپنے خادموں کے ذریعے
۱۸. ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ جب خدا کے خادم ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں تو یہوواہ ہی اس مدد کا سرچشمہ ہوتا ہے؟
۱۸ خدا اکثر اپنے کسی دوسرے خادم کے ذریعے ہماری مدد کرتا ہے۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ جب خدا کا ایک خادم کسی دوسرے کا سہارا بنتا ہے تو یہوواہ ہی اس مدد کا سرچشمہ ہوتا ہے۔ اسکی دو وجوہات ہیں۔ پہلی تو یہ کہ خدا کے خادم اُسکی روحاُلقدس کی بِنا پر خود میں مہربانی اور نیکی جیسی خوبیاں پیدا کرتے ہیں۔ (گلتیوں ۵:۲۲، ۲۳) اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ خدا کے خادم روحاُلقدس کے اثر کی وجہ سے ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ انسان خدا کی صورت یعنی اُسکی شبِیہ میں بنایا گیا ہے۔ (پیدایش ۱:۲۶) اسکا مطلب ہے کہ خدا کی طرح ہم بھی خود میں مہربانی اور ہمدردی جیسی خوبیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ لہٰذا جب بھی خدا کے خادم ایک دوسرے کی مدد کو آتے ہیں تو وہ اپنے پروردگار کی خوبیوں کی عکاسی کر رہے ہوتے ہیں۔
۱۹. ماضی میں یہوواہ نے اپنے بندوں کے ذریعے اپنے پرستاروں کی مدد کیسے کی تھی؟
۱۹ آئیے ہم بائبل میں سے چند ایسے واقعات پر غور کرتے ہیں جن میں یہوواہ نے اپنے پرستاروں کی مدد اپنے بندوں کے ذریعے کی تھی۔ مثال کے طور پر یرمیاہ نے باروک کو نصیحت دے کر اُسکی جان بچائی۔ (یرمیاہ ۴۵:۱-۵) خدا کے سچے پرستار کبھیکبھار مالی طور پر بھی ایک دوسرے کی مدد کِیا کرتے تھے۔ اس واقعے کو ہی لیجئے جب مکدنیہ اور اخیہ کے مسیحیوں نے یروشلیم کے مسیحیوں کی مدد کی تھی۔ پولس نے کہا کہ ان مسیحیوں کی سخاوت کی وجہ سے اُنکے لاچار بھائیوں کے دلوں میں ”خدا کی شکرگزاری“ ہوئی۔—۲-کرنتھیوں ۹:۱۱۔
۲۰، ۲۱. پولس کس کٹھن صورتحال میں تھا جب روم کے بھائی اُسکی دلجوئی کرنے کیلئے آئے؟
۲۰ بائبل میں ہم ایسی بھی مثالیں پاتے ہیں جن میں خدا کے خادموں نے ایک دوسرے کی حوصلہافزائی کی اور ایک دوسرے کے ایمان کو مضبوط کِیا۔ آئیے ہم ایک ایسے دل کو چھو لینے والے واقعے پر غور کرتے ہیں جو پولس رسول کیساتھ پیش آیا تھا۔ پولس کو گرفتار کرکے روم لے جایا جا رہا تھا۔ روم تک پہنچنے کیلئے وہ رومیوں کی مشہور اپین شاہراہ پر سفر کر رہے تھے۔ سفر کا آخری مرحلہ ایک وادی سے گزرتا تھا۔ یہ علاقہ دلدلی تھا اسلئے یہاں سفر کرنا بہت کٹھن تھا۔a رومی کلیسیا کے مسیحی جانتے تھے کہ پولس روم پہنچنے والا ہے۔ کیا اُنہوں نے اپنے گھروں میں آرام سے بیٹھ کر اُسکا انتظار کِیا؟
۲۱ لوقا جو پولس کیساتھ سفر کر رہا تھا لکھتا ہے کہ ”[روم] سے بھائی ہماری خبر سنکر اؔپیس کے چوک اور تینؔسرای تک ہمارے استقبال کو آئے۔“ ذرا سوچئے کہ روم کے مسیحی پولس کا استقبال کرنے کیلئے کس قدر کٹھن سفر کرنے کو تیار تھے۔ اُن میں سے چند اپیس کے چوک پر اُسکا انتظار کر رہے تھے۔ یہ ایک گھوڑوں کا اڈّا تھا جو روم سے ۴۶ میل [۷۴ کلومیٹر] کے فاصلے پر تھا۔ اور کچھ بھائی روم سے تقریباً ۳۶ میل [۵۸ کلومیٹر] دُور تینسرای نامی جگہ پر پولس کے استقبال کو کھڑے تھے۔ ”پولسؔ نے اُنہیں دیکھ کر خدا کا شکر کِیا اور اُسکی خاطر جمع ہوئی۔“ (اعمال ۲۸:۱۵) جیہاں، اُن بھائیوں کو دُور ہی سے دیکھ کر پولس کا حوصلہ بلند ہو گیا۔ یہ بھائی پولس کی دلجوئی کرنے کیلئے جس لمبے سفر پر نکلے تھے وہ پوری طرح کامیاب رہا۔ غور کیجئے کہ پولس نے خدا کا شکر ادا کِیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ دلجوئی اُسے خدا کی طرف سے فراہم ہوئی تھی۔
۲۲. سن ۲۰۰۵ کی خصوصی آیت کیا ہے اور ہم اگلے مضمون میں کس بات پر غور کرینگے؟
۲۲ ان چند مثالوں ہی سے ظاہر ہوتا ہے کہ جسطرح یہوواہ خدا ہماری مدد کرتا ہے ایسا کوئی اَور ہماری مدد نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے یہوواہ کے گواہوں کی سن ۲۰۰۵ کی خصوصی آیت زبور ۱۲۱:۲ ہے، جہاں ہم پڑھتے ہیں: ”میری مدد یہوواہ سے ہے۔“ (اینڈبلیو) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہوواہ اِس دَور میں کن طریقوں سے ہماری مدد کرتا ہے؟ اس بات پر ہم اگلے مضمون میں غور کرینگے۔
[فٹنوٹ]
a روم کا مشہور شاعر ہوریس (۶۵—۸ ق.س.ع.) اپنے ایک سفر کے دوران اسی علاقے سے گزرا تھا۔ اُس نے اپیس کے چوک کے بارے میں کہا کہ ”یہ ملاحوں اور شراب خانوں کے کنجوس مالکوں سے کھچاکھچ بھرا تھا۔“ اسکے علاوہ اُس نے اس وادی کے ”کمبخت مینڈکوں اور جوؤں“ اور ”بدبُودار“ پانی کے بارے میں بھی شکایت کی۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• یہوواہ نے اپنے فرشتوں کے ذریعے اپنے خادموں کی مدد کیسے کی؟
• یہوواہ نے اپنے خادموں کی مدد کیلئے اپنی روحاُلقدس کو کیسے کام میں لایا؟
• یہوواہ کے کلام کے ذریعے اُسکے خادموں کو کیسے مدد ملی؟
• یہوواہ نے اپنے پرستاروں کے ذریعے اپنے خادموں کی کیسے مدد کی؟
[صفحہ ۱۵ پر عبارت]
سن ۲۰۰۵ کی سالانہ آیت: ”میری مدد یہوواہ سے ہے۔“—زبور ۱۲۱:۲، اینڈبلیو
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
جب روم کے بھائی پولس کی مدد کو آئے تو اُس نے خدا کا شکر ادا کِیا جو اس مدد کا سرچشمہ تھا