کیا خدا واقعی آپکو جانتا ہے؟
”اے خداوند! تو ... میری سب روشوں سے واقف ہے۔“—زبور ۱۳۹:۱، ۳۔
۱. یہ احساس کتنا پھیلا ہوا ہے کہ جن پریشانیوں، مسائل، اور دباؤ کا ہم سامنا کرتے ہیں ”دوسرے اسے نہیں سمجھتے؟“
کیا کوئی واقعی ان پریشانیوں، دباؤ، اور مسائل کو سمجھتا ہے جنکا آپ سامنا کرتے ہیں؟ تمام دنیا میں لاکھوں لوگ ہیں یعنی ایسے جوان اور بوڑھے، جنکے کوئی خاندان یا رشتےدار نہیں ہیں جو فکر رکھیں کہ ان کے ساتھ کیا واقع ہوتا ہے۔ یہانتک کہ خاندانوں کے اندر بھی، بہت سی بیویاں—جیہاں، اور خاوند بھی—محسوس کرتے ہیں کہ انکے بیاہتا ساتھی حقیقت میں اس دباؤ کو پوری طرح نہیں سمجھتے جو انہیں بوجھ تلے دبا دیتے ہیں۔ بعض اوقات، مایوسی کے عالم میں، وہ احتجاج کرتے ہیں: ”لیکن آپ سمجھتے نہیں!“ اور بہت سے نوجوانوں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ انہیں بھی کوئی نہیں سمجھتا۔ تاہم، انہی میں سے بعض کی زندگیوں نے بعد میں بھرپور مقصد حاصل کر لیا ہے جنہوں نے دوسروں کی طرف سے زیادہ سمجھ کی آرزو کی تھی۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
۲. کونسی چیز یہوواہ کے پرستاروں کو ایسی زندگیاں حاصل کرنے کے قابل بناتی ہے جو پوری طرح سے اطمینان بخش ہوں؟
۲ یہ اسلئے ہے کہ اس سے قطعنظر کہ خواہ ساتھی انسان انکے احساسات کو پوری طرح سمجھیں یا نہ سمجھیں، وہ پراعتماد ہیں کہ خدا سمجھتا ہے کہ وہ کس چیز کا تجربہ کر رہے ہیں، اور یہ کہ اس کے خادموں کے طور پر، انہیں تنہا اپنے مسائل کا سامنا کرنے کی ضرورت نہیں۔ (زبور ۴۶:۱) علاوہازیں، خدا کے کلام کے ساتھ ساتھ سمجھدار مسیحی بزرگوں کی طرف سے مدد، انہیں اپنے ذاتی مسائل کے پار دیکھنے کے قابل بناتی ہے۔ اس چیز کی قدر کرنے کیلئے صحائف انکی مدد کرتے ہیں کہ انکی وفادارانہ خدمت خدا کی نظروں میں قیمتی ہے اور یہ کہ انکے لئے ایک محفوظ مستقبل ہے جو اس پر اور اس نے جو فراہمیاں یسوع مسیح کے ذریعے کی ہیں ان پر امید رکھتے ہیں۔—امثال ۲۷:۱۱، ۲-کرنتھیوں ۴:۱۷، ۱۸۔
۳، ۴. (ا) اس حقیقت کی قدردانی کہ ”خداوند ہی خدا“ ہے اور یہ کہ ”اسی نے ہم کو بنایا“ اسکی خدمت میں خوشی حاصل کرنے کیلئے کسطرح ہماری مدد کر سکتی ہے؟ (ب) ہمیں یہوواہ کی پرمحبت نگہداشت پر مکمل بھروسہ کیوں ہے؟
۳ ہو سکتا ہے کہ آپ زبور ۱۰۰:۲ سے واقف ہوں، جو کہتی ہے: ”خوشی سے خداوند کی عبادت کرو۔ گاتے ہوئے اسکے حضور حاضر ہو۔“ اس طریقے سے واقعی کتنے یہوواہ کی پرستش کرتے ہیں؟ ایسا کرنے کی ٹھوس وجوہات ۳ آیت میں دی گئی ہیں، جو ہمیں یاد دلاتی ہیں: ”جان رکھو کہ خداوند ہی خدا ہے۔ اسی نے ہم کو بنایا اور ہم اسی کے ہیں۔ ہم اسکے لوگ اور اسکی چراگاہ کی بھیڑیں ہیں۔“ یوں جاہوجلال، عظمت، اور فضیلت میں اسکی بڑائی ظاہر کرتے ہوئے، عبرانی متن میں، یہاں اسکا الوہیم کے طور پر حوالہ دیا گیا ہے۔ وہی واحد سچا خدا ہے۔ (استثنا ۴:۳۹، ۷:۹، یوحنا ۱۷:۳) اسکے خادم اسکی الوہیت کی سمجھ حاصل کرتے ہیں، نہ صرف ایک حقیقت کے طور پر جو انہیں سکھائی گئی ہے بلکہ ایک ایسی چیز کے طور پر جسکا وہ تجربہ کرتے ہیں اور جسکی وہ فرمانبرداری، اعتماد، اور عقیدت کے ذریعے شہادت دیتے ہیں۔—۱-تواریخ ۲۸:۹، رومیوں ۱:۲۰۔
۴ چونکہ یہوواہ زندہ خدا ہے، ہمارے دلوں کو بھی دیکھنے کے قابل ہے، اسکی نظروں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔ جو کچھ ہماری زندگیوں میں واقع ہو رہا ہے وہ اس سے پوری طرح باخبر ہے۔ جن مسائل کا ہم سامنا کرتے ہیں وہ انکے اسباب کو اسکے ساتھ ساتھ ذہنی اور جذباتی اضطراب کو بھی سمجھتا ہے جو ان کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ جتنا ہم خود کو جانتے ہیں، وہ خالق کے طور پر ہمیں اس سے بہتر جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ ہماری حالت سے نپٹنے کیلئے کیسے ہماری مدد کرے اور کسطرح دائمی نجات مہیا کی جائے۔ جب ہم اپنے پورے دل سے اس پر توکل کرتے ہیں تو پرمحبت طریقے سے—ایک چرواہے کی طرح جو ایک برے کو اپنی گود میں اٹھاتا ہے—وہ ہماری مدد کریگا۔ (امثال ۳:۵، ۶، یسعیاہ ۴۰:۱۰، ۱۱) زبور ۱۳۹ کا مطالعہ اس اعتماد کو مضبوط بنانے کیلئے بہت کچھ کر سکتا ہے۔
وہ جو ہماری سب روشوں کو دیکھتا ہے
۵. یہوواہ کا ”ہمیں جانچ لینا“ کیا معنی رکھتا ہے، اور یہ کیوں مرغوب ہے؟
۵ گہری قدردانی کے ساتھ زبورنویس داؤد نے لکھا: ”اے خداوند! تو نے مجھے جانچ لیا اور پہچان لیا۔“ (زبور ۱۳۹:۱) داؤد پراعتماد تھا کہ اسکی بابت یہوواہ کا علم سطحی نہ تھا۔ خدا نے داؤد کو انسانوں کی طرح سے نہ دیکھا، جو شاید صرف اسکی جسمانی قدوقامت، اسکی کلام کرنے کی لیاقت، یا بربط بجانے کی اسکی مہارت پر نظر کرتے۔ (۱-سموئیل ۱۶:۷، ۱۸) یہوواہ نے داؤد کی اندرونی ذات کو ”جانچ لیا“ تھا اور اسکی روحانی فلاح کیلئے پرمحبت فکرمندی سے ایسا کیا تھا۔ اگر آپ یہوواہ کے مخصوصشدہ خادموں میں سے ایک ہیں تو جیسے اس نے داؤد کو جانا ویسے ہی وہ آپ کو جانتا ہے۔ کیا یہ آپکے اندر شکرگزاری اور احترام دونوں طرح کے جذبات کو تحریک نہیں دیتا؟
۶. زبور ۱۳۹:۲، ۳ کیسے ظاہر کرتی ہیں کہ ہر کام جو ہم کرتے ہیں، یہانتک کہ ہمارے تمام خیالات کو بھی یہوواہ جانتا ہے؟
۶ داؤد کی تمام سرگرمیاں یہوواہ کے سامنے کھلی ہوئی تھیں اور داؤد اس بات سے باخبر تھا۔ ”تو میرا اٹھنا بیٹھنا جانتا ہے،“ زبورنویس نے لکھا۔ ”تو میرے خیال کو دور سے سمجھ لیتا ہے۔ تو میرے راستہ کی اور میری خوابگاہ کی چھانبین کرتا ہے اور میری سب روشوں سے واقف ہے۔“ (زبور ۱۳۹:۲، ۳) اس حقیقت نے کہ یہوواہ زمین سے کہیں دور آسمانوں پر ہے، اسے جو کچھ داؤد کر رہا تھا یا جو کچھ وہ سوچ رہا تھا، اس کو جاننے سے باز نہ رکھا۔ اس نے دن کے وقت اور رات کے وقت، ”چھانبین“ کی یا داؤد کی سرگرمیوں کا احتیاط سے جائزہ لیا، تاکہ انکی نوعیت کو سمجھ لے۔
۷. (ا) داؤد کی زندگی سے واقعات کو بنیاد کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، اپنی زندگیوں میں بعض چیزوں پر تبصرہ کریں جن سے خدا باخبر ہے. (ب) اس بات سے آگاہی کا ہم پر کیسا اثر ہونا چاہیے؟
۷ جب خدا کے لئے محبت اور اسکی چھڑانے والی قوت پر اعتماد نے داؤد کو ایک جوان آدمی کے طور پر فلستی دیوقامت جولیت کے ساتھ لڑائی کرنے کیلئے خود کو پیش کرنے کی تحریک دی تو یہوواہ اس بات کو جانتا تھا۔ (۱-سموئیل ۱۷:۳۲-۳۷، ۴۵-۴۷) بعد میں، جب انسانوں کی دشمنی داؤد کیلئے شدید درددل کا سبب بنی، جب دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ اس نے رات کو آنسو بہائے، تو اسے اس علم سے تسلی ملی کہ یہوواہ نے اسکی التجا سن لی ہے۔ (زبور ۶:۶، ۹، ۵۵:۲-۵، ۲۲) اسی طرح سے، جب شکرگزاری سے سرشار دل داؤد کیلئے ایک بیدار رات کے دوران یہوواہ کی بابت غوروخوض کرنے کا سبب بنا تو یہوواہ اس بات سے بخوبی واقف تھا۔ (زبور ۶۳:۶، مقابلہ کریں فلپیوں ۴:۸، ۹۔) ایک شام جب داؤد نے ایک ہمسائے کی بیوی کو غسل کرتے دیکھا، تو یہوواہ اس بات کو بھی جانتا تھا، اور جب داؤد نے، اگرچہ تھوڑی ہی دیر کیلئے، اپنی گنہگارانہ خواہش کو اجازت دی کہ خدا کو اپنے خیالوں سے باہر نکال دے تو جو کچھ واقع ہوا اس نے اسکو دیکھا۔ (۲-سموئیل ۱۱:۲-۴) بعدازاں، جب داؤد کے گناہ کی سنگینی کی وجہ سے ناتن بنی کو اس کا سامنا کرنے کیلئے بھیجا گیا تو یہوواہ نے نہ صرف ان الفاظ کو سنا جو داؤد کے منہ سے نکلے بلکہ اس تائب دل کو بھی پہچان لیا جس میں سے وہ نکلے۔ (۲-سموئیل ۱۲:۱-۱۴، زبور ۵۱:۱، ۱۷) کیا اسے، جہاں ہم جاتے ہیں، جو ہم کرتے ہیں، اور جو ہمارے دل میں ہے، اسکی بابت سنجیدگی سے سوچنے پر آمادہ نہیں کرنا چاہیے؟
۸. (ا) کس طریقے سے ”ہماری زبان پر کی باتیں“ خدا کے سامنے ہماری حیثیت پر اثرانداز ہوتی ہیں؟ (ب) زبان کے استعمال کے سلسلے میں کمزوریوں پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے؟ (متی ۱۵:۱۸، لوقا ۶:۴۵)
۸ چونکہ خدا ہر چیز کو جانتا ہے جو ہم کرتے ہیں تو اسے ہم کو حیران نہیں کرنا چاہیے کہ وہ باخبر ہے کہ ہم اپنے بدن کے کسی عضو کو کیسے استعمال کرتے ہیں خواہ وہ زبان کی طرح چھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ شاہ داؤد نے اسے پہچانا، اور اس نے لکھا: ”دیکھ! میری زبان پر کوئی ایسی بات نہیں جسے تو اے خداوند! پورے طور پر نہ جانتا ہو۔“ (زبور ۱۳۹:۴) داؤد اچھی طرح سے جانتا تھا کہ جن کا یہوواہ کے خیمے میں بطور مہمانوں کے خیرمقدم کیا جائیگا وہ ایسے لوگ ہونگے جو دوسروں پر تہمت نہیں لگاتے اور جو اپنی زبان کو فضولگوئی کے رسیلے چٹکلے پھیلانے کے لئے استعمال کرنے سے انکار کرتے ہیں جو کہ ایک قریبی واقفکار پر بدنامی لائیں گے۔ جن پر یہوواہ کرمفرمائی کرتا ہے ایسے لوگ ہونگے جو اپنے دلوں میں بھی سچ بولتے ہیں۔ (زبور ۱۵:۱-۳، امثال ۶:۱۶-۱۹) ہم میں سے کوئی بھی اپنی زبان پر مکمل کنٹرول رکھنے کے قابل نہیں، لیکن داؤد نے کمزوری سے یہ نتیجہ نہ نکالا کہ وہ اپنی حالت کو بہتر بنانے کیلئے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے یہوواہ کی حمد کے مزمور مرتب کرنے اور گانے کیلئے بہت وقت صرف کیا۔ اس نے مدد کیلئے اپنی ضرورت کو بھی آسانی سے تسلیم کیا اور اسکے لئے خدا سے دعا کی۔ (زبور ۱۹:۱۲-۱۴) کیا ہماری زبان کے استعمال کو بھی دعائیہ غوروفکر کی ضرورت ہے؟
۹. (ا) زبور ۱۳۹:۵ کا بیان کیا ظاہر کرتا ہے کہ خدا ہماری حالت سے کسقدر واقف ہے؟ (ب) یہ ہمیں کس چیز کے متعلق پراعتماد بناتا ہے؟
۹ یہوواہ ہمیں یا ہماری حالت کو صرف محدود پسمنظر سے نہیں دیکھتا۔ اسکے پاس ہر لحاظ سے، پوری تصویر ہے۔ گھیرے میں لئے ہوئے ایک شہر کو مثال کے طور پر استعمال کرتے ہوئے، داؤد نے لکھا: ”تو نے مجھے آگے پیچھے سے گھیر رکھا ہے۔“ داؤد کے معاملے میں، خدا ایک محاصرہ کرنے والا دشمن نہیں تھا، بلکہ وہ ایک چوکس سرپرست تھا۔ ”تیرا ہاتھ مجھ پر ہے،“ اس طرح جو خدا سے محبت کرتے ہیں انکے دائمی فائدے کیلئے عمل میں لائے گئے اس کے کنٹرول اور تحفظ کو ظاہر کرتے ہوئے داؤد نے اضافہ کیا۔ ”یہ عرفان میرے لئے نہایت عجیب ہے۔ یہ بلند ہے۔ میں اس تک پہنچ نہیں سکتا،“ داؤد نے تسلیم کیا۔ (زبور ۱۳۹:۵، ۶) اپنے خادموں کی بابت خدا کا علم، اتنا کامل، اتنا جامع ہے کہ ہم پورے طور پر اسے سمجھ نہیں سکتے۔ لیکن ہم پراعتماد ہونے کیلئے اتنا جانتے ہیں کہ یہوواہ ہمیں واقعی سمجھتا ہے اور یہ کہ مدد جو وہ فراہم کرتا ہے بہت ہی بہترین ہوگی۔—یسعیاہ ۴۸:۱۷، ۱۸۔
ہم جہاں کہیں بھی ہوں، خدا ہماری مدد کر سکتا ہے
۱۰. زبور ۱۳۹:۷-۱۲ میں واضح بیان کے ذریعے کس حوصلہافزا سچائی کو پیش کیا گیا ہے؟
۱۰ ایک اور نقطہءنگاہ سے یہوواہ کی پرمحبت نگہداشت پر غور کرتے ہوئے، زبورنویس بیان کو جاری رکھتا ہے: ”میں تیری روح سے بچکر کہاں جاؤں یا تیری حضوری سے کدھر بھاگوں؟“ وہ یہوواہ سے دور بھاگ جانے کی کوشش کرنے کی کوئی خواہش نہیں رکھتا تھا، بلکہ وہ جانتا تھا کہ وہ جہاں بھی ہوگا، یہوواہ کو پتہ ہوگا، اور یہ کہ وہ روحالقدس کے ذریعے اسکی مدد کر سکتا ہے۔ ”اگر میں آسمان پر چڑھ جاؤں،“ وہ بیان کو جاری رکھتا ہے، ”تو تو وہاں ہے۔ اگر میں پاتال میں بستر بچھاؤں تو دیکھ! تو وہاں بھی ہے۔ اگر میں صبح کے پر لگا کر سمندر کی انتہا میں جا بسوں تو وہاں بھی تیرا ہاتھ میری راہنمائی کریگا اور تیرا دہنا ہاتھ مجھے سنبھالیگا۔ اگر میں کہوں کہ یقیناً تاریکی مجھے چھپا لیگی اور میری چاروں طرف کا اجالا رات بن جائیگا تو اندھیرا بھی تجھ سے چھپا نہیں سکتا۔ بلکہ رات بھی دن کی مانند روشن ہے۔ اندھیرا اور اجالا دونوں یکساں ہیں۔“ (زبور ۱۳۹:۷-۱۲) کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں شاید ہم جائیں، کوئی ایسے حالات نہیں جنکا ہم شاید سامنا کریں، جو ہمیں یہوواہ کی نظر سے دور یا ہماری مدد کرنے کیلئے اسکی روح کی دسترس سے دور رکھینگے۔
۱۱، ۱۲. (ا) اگرچہ یوناہ نے تھوڑی دیر کیلئے اس بات کو فراموش کر دیا تو بھی یوناہ کے معاملے میں یہوواہ کی دیکھنے اور مدد کرنے کی لیاقت کو کیسے ظاہر کیا گیا تھا؟ (ب) یوناہ کے تجربے کو ہمیں کیسے فائدہ پہنچانا چاہیے؟
۱۱ ایک موقع پر یوناہ نبی نے اس بات کو فراموش کر دیا۔ یہوواہ نے اسے نینوہ کے لوگوں کو منادی کرنے کی تفویض دی تھی۔ کسی وجہ سے اس نے محسوس کیا کہ وہ اس تفویض کو پورا نہیں کر سکتا۔ شاید اسوریوں کے غضبناک ہونے کی شہرت کی وجہ سے، نینوہ میں خدمت کرنے کے خیال نے یوناہ کو خوفزدہ کر دیا۔ پس اس نے روپوش ہونے کی کوشش کی۔ یافا کی بندرگاہ پر، وہ سمندری سفر کیلئے ترسیس کو جانے والے ایک جہاز پر سوار ہوگیا (جس کو عام طور پر اسپین کے ساتھ منسلک کیا جاتا تھا، جو ۳،۵۰۰ کلومیٹر سے زیادہ نینوہ کے مغرب میں تھا)۔ تاہم، یہوواہ نے اسے جہاز پر سوار ہوتے اور جہاز کے گودام میں سونے کیلئے جاتے دیکھا۔ خدا یہ جانتا تھا کہ یوناہ کہاں تھا جب بعدازاں اسے جہاز سے باہر پھینک دیا گیا تھا، اور یہوواہ نے یوناہ کی سنی جب اس نے بڑی مچھلی کے پیٹ میں سے وعدہ کیا کہ وہ اپنی منتیں ادا کریگا۔ واپس خشک زمین پر اگل دئے جانے پر یوناہ کو اپنی تفویض کو پورا کرنے کیلئے پھر ایک موقع دیا گیا تھا۔—یوناہ ۱:۳، ۱۷، ۲:۱-۳:۴۔
۱۲ یوناہ کیلئے شروع ہی سے کتنا اچھا ہوتا کہ اپنی تفویض کو پورا کرنے کی خاطر مدد کیلئے یہوواہ کی روح پر توکل کرتا! اگرچہ، بعد میں، یوناہ نے فروتنی سے اپنے تجربے کو تحریر کیا، اور اس وقت سے لیکر اس ریکارڈ نے یہوواہ پر اعتماد ظاہر کرنے کیلئے بہتیروں کی مدد کی ہے جو یوناہ کو حاصل کرنے کیلئے بہت مشکل دکھائی دیا۔—رومیوں ۱۵:۴۔
۱۳. (ا) ایلیاہ نے ملکہ ایزبل کے حضور سے بھاگنے سے پہلے کن تفویضات کو وفاداری سے پورا کیا تھا؟ (ب) یہوواہ نے ایلیاہ کی اس وقت بھی کیسے مدد کی جب اس نے اسرائیل کے علاقے سے باہر چھپنے کی کوشش کی؟
۱۳ ایلیاہ کا تجربہ کسی لحاظ سے مختلف تھا۔ اس نے وفاداری کے ساتھ یہوواہ کے فرمان کو سنا دیا تھا کہ اسرائیل اپنے گناہوں کی تادیب میں قحطسالی کی مصیبت اٹھائیگا۔ (۱-سلاطین ۱۶:۳۰-۳۳، ۱۷:۱) اس نے کوہکرمل پر بعل اور یہوواہ کے درمیان مقابلے میں دلیری سے سچی پرستش کو سربلند رکھا تھا۔ اور اس نے وادیقیسون کے نالے پر بعل کے ۴۵۰ نبیوں کو قتل کرنے کی فوری کارروائی پر زور دیا۔ لیکن جب ملکہ ایزبل نے قہروغضب میں قسم کھائی کہ ایلیاہ کو موت کے گھاٹ اتارے گی، تو ایلیاہ ملک چھوڑ کر بھاگ گیا۔ (۱-سلاطین ۱۸:۱۸-۴۰، ۱۹:۱-۴) کیا یہوواہ اس مشکل وقت میں اسکی مدد کرنے کو موجود تھا؟ جیہاں، بیشک۔ اگر ایلیاہ کسی اونچے پہاڑ پر چڑھ گیا ہوتا، جیسے کہ آسمان پر، اگر وہ زمین کے اندر گہری غار میں چھپ گیا ہوتا، جیسے کہ پاتال میں، اگر وہ زمین پر پھیلنے والے صبح کے اجالے کی طرح کی رفتار سے کسی دورافتادہ جزیرے میں بھاگ گیا ہوتا—تو بھی یہوواہ کا ہاتھ اسکو قوت دینے اور اسکی رہبری کرنے کیلئے وہاں موجود ہوتا۔ (مقابلہ کریں رومیوں ۸:۳۸، ۳۹۔) اور یہوواہ نے نہ صرف ایلیاہ کو اسکے سفر کیلئے خوراک کے ساتھ بلکہ اپنی سرگرم قوت کے حیرتانگیز کاموں سے بھی تقویت دی۔ پس مستحکم، ایلیاہ نے اپنی اگلی نبوتی تفویض کو قبول کیا۔—۱-سلاطین ۱۹:۵-۱۸۔
۱۴. (ا) یہ نتیجہ اخذ کرنا کیوں غلط ہوگا کہ خدا ہر جگہ بنفسنفیس موجود ہے؟ (ب) کن حالات کے تحت یہوواہ نے جدید زمانے میں اپنے خادموں کو پرمحبت طریقے سے سنبھالے رکھا ہے؟ (پ) یہ کیسے ہے کہ اگر ہم پاتال میں بھی ہوں تو خدا وہاں ہوگا؟
۱۴ زبور ۱۳۹:۷-۱۲ کے نبوتی الفاظ کا یہ مطلب نہیں کہ خدا ہر جگہ بنفسنفیس موجود ہے، یعنی وہ ہمہوقت تمام جگہوں پر ذاتی طور پر موجود ہے۔ صحیفے واضح طور پر اسکے برعکس ظاہر کرتے ہیں۔ (استثنا ۲۶:۱۵، عبرانیوں ۹:۲۴) تاہم، اس کے خادم کبھی بھی اسکی دسترس سے باہر نہیں ہیں۔ یہ انکے لئے بھی سچ ہے جنکی تھیوکریٹک تفویضات انہیں دوردراز جگہوں پر لے گئی ہیں۔ یہ دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی مراکزاسیران میں وفادار گواہوں کی بابت سچ تھا، اور یہ ۱۹۵۰ کے دہے کے آخر اور ۱۹۶۰ کے دہے کے اوائل کے دوران چین کے اندر قیدتنہائی میں رکھے گئے مشنریوں کی بابت بھی سچ تھا۔ یہ وسطی افریقی ملک میں ہمارے عزیز بھائیوں اور بہنوں کی بابت سچ تھا جنہیں بار بار اپنے دیہاتوں، حتی کہ ملک سے بھاگنا پڑا تھا۔ اگر ضرورت ہو تو یہوواہ پاتال، عام قبر تک پہنچ سکتا، اور قیامت کے ذریعے وفادار اشخاص کو واپس لا سکتا ہے۔—ایوب ۱۴:۱۳-۱۵، لوقا ۲۰:۳۷، ۳۸۔
وہ جو ہمیں واقعی سمجھتا ہے
۱۵. (ا) یہوواہ ہماری نشوونما کو کتنی دیر پہلے سے دیکھنے کے قابل تھا؟ (ب) زبورنویس کے گردوں کے حوالے سے ہماری بابت خدا کے علم کی وسعت کو کیسے ظاہر کیا گیا ہے؟
۱۵ زیرالہام زبورنویس یہ کہتے ہوئے، اس حقیقت پر توجہ دلاتا ہے کہ ہماری بابت خدا کا علم ہماری پیدایش کے وقت سے بھی آگے جاتا ہے: ”کیونکہ میرے دل [”گردوں،“ این ڈبلیو] کو تو ہی نے بنایا۔ میری ماں کے پیٹ میں تو ہی نے مجھے صورت بخشی۔ میں تیرا شکر کرونگا کیونکہ میں عجیبوغریب طور پر سے بنا ہوں تیرے کام حیرتانگیز ہیں۔ میرا دل اسے خوب جانتا ہے۔“ (زبور ۱۳۹:۱۳، ۱۴) حمل کے وقت ہمارے باپ اور ہماری ماں کی طرف سے توارثی نطفوں کا ملنا ایک نقش پیدا کرتا ہے جو ہماری جسمانی اور دماغی صلاحیت کو بہت زیادہ متاثر کرتا ہے۔ خدا اس صلاحیت کو سمجھتا ہے۔ اس زبور میں گردوں کا خاص ذکر کیا گیا ہے، جنہیں اکثر صحائف میں شخصیت کے عمیقترین پہلوؤں کی نمائندگی کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔a (زبور ۷:۹، یرمیاہ ۱۷:۱۰، این ڈبلیو) یہوواہ ہماری بابت ان تفصیلات کو ہماری پیدایش سے بھی پہلے سے جانتا ہے۔ وہی ہے جس نے پرمحبت فکر کے ساتھ انسانی بدن کو ترتیب دیا اس طرح کہ ایک بارور خلیہ ماں کے رحم کے اندر جنین کو ”صورت [بخشتا]“ ہے اور جیسے جیسے یہ نشوونما پاتا ہے اسے بچانے کیلئے ایک محفوظ پناہ کو وجود میں لاتا ہے۔
۱۶. (ا) زبور ۱۳۹:۱۵، ۱۶ میں فہموفراست والی خدا کی دیکھنے کی قوت کو کیسے نمایاں کیا گیا ہے؟ (ب) اسے ہمارے لئے حوصلہافزا کیوں ہونا چاہیے؟
۱۶ پھر فہموفراست والی خدا کی دیکھنے کی قوت پر زور دیتے ہوئے، زبورنویس اضافہ کرتا ہے: ”جب میں پوشیدگی میں بن رہا تھا اور زمین کے اسفل [ظاہری طور پر اپنی ماں کے رحم کیلئے ایک شاعرانہ حوالہ لیکن خاک سے آدم کی تخلیق کے اشارے کے ساتھ] میں عجیب طور سے مرتب ہو رہا تھا تو میرا قالب تجھ سے چھپا نہ تھا۔ تیری آنکھوں نے میرے بےترتیب مادے کو دیکھا اور جو ایام میرے لئے مقرر تھے وہ سب [بدن کے حصے] تیری کتاب میں لکھے تھے۔ جبکہ ایک بھی [بدن کا صریح حصہ] وجود میں نہ آیا تھا۔“ (زبور ۱۳۹:۱۵، ۱۶) اسکی بابت کوئی شک نہیں ہے—ساتھی انسان خواہ ہمیں سمجھیں یا نہ سمجھیں، یہوواہ ضرور سمجھتا ہے۔ اس بات کو ہم پر کیسے اثرانداز ہونا چاہیے؟
۱۷. جب ہم خدا کے عجیب و غریب کاموں پر غور کرتے ہیں، تو یہ ہمیں کیا کرنے کی تحریک دیتے ہیں؟
۱۷ زبور ۱۳۹ کا راقم تسلیم کرتا ہے کہ خدا کے کام جنکی بابت وہ لکھ رہا تھا عجیب و غریب تھے۔ کیا آپ بھی اسی طرح محسوس کرتے ہیں؟ جو چیز عجیب و غریب ہوتی ہے ایک شخص کو گہرائی سے سوچنے یا منہمک توجہ دکھانے کی اکساہٹ دیتی ہے۔ غالباً آپ یہوواہ کی طبعیاتی تخلیق کے کاموں سے اسی طرح اثرپذیر ہوتے ہیں۔ (مقابلہ کریں زبور ۸:۳، ۴، ۹۔) جو کچھ اس نے مسیحائی بادشاہت کو قائم کرنے کیلئے کیا ہے، جو وہ تمام زمین پر خوشخبری کی منادی کرائے جانے کیلئے کر رہا ہے، اور اس طریقے پر جس سے اسکا کلام انسانی شخصیتوں کو تبدیل کرتا ہے، کیا آپ اس پر بھی اسی قسم کی توجہ دیتے ہیں؟—مقابلہ کریں ۱-پطرس ۱:۱۰-۱۲۔
۱۸. اگر ہم خدا کے کام کو خوف پیدا کرنے والا پاتے ہیں، تو یہ ہم پر کیسے اثر کریگا؟
۱۸ کیا اس طرح کا آپ کا تجربہ ہے کہ خدا کے کام پر غوروفکر خوف پیدا کرنے والا ہے، یعنی یہ آپ کے اندر ایسا خوشگوار ڈر پیدا کرتا ہے، جو پرزور طریقے سے متحرک کرنے والا، وہ جو آپکی شخصیت پر اور جس طریقے سے آپ اپنی زندگی کو استعمال کرتے ہیں، اس پر گہرا اثر رکھتا ہے؟ (مقابلہ کریں زبور ۶۶:۵۔) اگر ایسا ہے، تو آپ کا دل آپکو یہوواہ کی حمدوثنا کرنے، اسکی ستائش کرنے، اسکے مقصد اور ان شاندار چیزوں کی بابت لوگوں کو بتانے کیلئے مواقع پیدا کرنے کی تحریک دیگا جو وہ انکے لئے محفوظ رکھتا ہے جو اس سے محبت کرتے ہیں۔—زبور ۱۴۵:۱-۳۔ (۱۰ ۱۰/۱ w۹۳)
[فٹنوٹ]
a دیکھیں انسائٹ آن دی سکرپچرز، واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک، انکارپوریٹڈ، کی شائعکردہ، جلد ۲، صفحہ ۱۵۰۔
آپکا تبصرہ کیا ہے؟
▫ ہمارا یہ جاننا کہ ”خداوند ہی خدا ہے“ کس طرح سے خوشی کے ساتھ اسکی خدمت کرنے کیلئے ہماری مدد کرتا ہے؟
▫ ہر کام جو ہم کرتے ہیں خدا کا اسکو جاننا ہماری زندگیوں پر کیسے اثرانداز ہونا چاہیے؟
▫ یہ حقیقت کہ ہم کبھی خدا کی نظر سے اوجھل نہیں کیوں حوصلہافزا ہے؟
▫ کیوں خدا ہمیں ان طریقوں سے سمجھنے کے قابل ہے جو انسان نہیں سمجھ سکتا؟
▫ کیوں اس طرح کا ایک مطالعہ ہمارے اندر یہوواہ کی ستائش کرنے کی خواہش پیدا کرتا ہے؟