خدائی خوف پیدا کرنا
”خداوند سے ڈر اور بدی سے کنارہ کر۔“—امثال ۳:۷۔
۱. امثال کن کیلئے لکھی گئی تھی؟
بائبل میں امثال کی کتاب روحانی مشورت کا خزانہ رکھتی ہے۔ یہوواہ نے یہ راہنما کتاب پہلے اپنی مثالی قوم اسرائیل کی ہدایت کیلئے فراہم کی۔ آجکل، یہ اسکی مقدس مسیحی قوم کیلئے دانشمندانہ باتیں فراہم کرتی ہے، ”جن پر اس دستورالعمل کا خاتمہ آ پہنچا ہے۔“ (اینڈبلیو)—۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۱، امثال ۱:۱-۵، ۱-پطرس ۲:۹۔
۲. آجکل امثال ۳:۷ کی آگاہی نہایت بروقت کیوں ہے؟
۲ امثال ۳:۷ کو کھولنے پر ہم یہ پڑھتے ہیں: ”تو اپنی ہی نگاہ میں دانشمند نہ بن۔ خداوند سے ڈر اور بدی سے کنارہ کر۔“ ہمارے پہلے والدین کے وقت ہی سے لیکر، جب سانپ نے حوا کو انکے ”نیکوبد کے جاننے“ والے بن جانے کے وعدے سے ورغلایا، محض انسانی حکمت بنیآدم کی ضروریات پر پورا اترنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ (پیدایش ۳:۴، ۵، ۱-کرنتھیوں ۳:۱۹، ۲۰) یہ تاریخ کے کسی اور دور میں اتنا زیادہ واضح نہیں رہا جتنا کہ اس ۲۰ویں صدی—اس ”اخیر زمانہ“ میں جب ملحدانہ، ارتقائی سوچ کی فصل کاٹنے والی نسلانسانی کو نسلپرستی، تشدد، اور ہر قسم کی بداخلاقی نے دق کر رکھا ہے۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱-۵، ۱۳، ۲-پطرس ۳:۳، ۴) یہ ”نئی عالمی بدنظمی،“ ہے جسے نہ تو یواین اور نہ ہی دنیا کے پارہ پارہ مذہبی فرقے سلجھا سکتے ہیں۔
۳. ہمارے زمانے کیلئے کن تبدیلیوں کی پیشینگوئی کی گئی تھی؟
۳ خدا کا نبوتی کلام ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ شیطانی قوتیں ”قادرمطلق خدا کے روزعظیم کی لڑائی کے واسطے جمع کرنے کیلئے ساری دنیا کے بادشاہوں کے پاس نکل کر“ گئی ہیں تاکہ ”انکو اس جگہ جمع [کریں] جسکا نام عبرانی میں ہرمجدون ہے۔“ (مکاشفہ ۱۶:۱۴، ۱۶) جلد ہی یہوواہ کی طرف سے ان بادشاہوں، یا حاکموں پر دہشت چھا جائیگی۔ یہ اس خوف کی مانند ہوگا جو کنعانیوں پر چھا گیا تھا جب یشوع اور اسرائیلی انہیں سزا دینے کیلئے آئے تھے۔ (یشوع ۲:۹-۱۱) لیکن آجکل یشوع کے نمونے پر یسوع مسیح—”بادشاہوں کا بادشاہ اور خداوندوں کا خداوند“—ہے جو ”قادرمطلق خدا کے سخت غضب“ کے اظہار میں ”قوموں کو مارتا اور لوہے کے عصا سے ان پر حکومت کرتا ہے۔“—مکاشفہ ۱۹:۱۵، ۱۶۔
۴، ۵. کون نجات پائینگے، اور کیوں؟
۴ اس وقت کون نجات پائیں گے؟ جو بچائے جائیں گے وہ خوف سے کچلے ہوئے نہیں ہونگے بلکہ وہ ہونگے جنہوں نے یہوواہ کیلئے مودبانہ ڈر کو پیدا کیا ہوگا۔ اپنی نظروں میں دانشمند ہونے کی بجائے، یہ ”بدی سے کنارہ [کرتے]“ ہیں۔ فروتنی کے ساتھ، وہ اپنے ذہنوں کو نیکی سے تقویت دیتے ہیں، تاکہ بدی انکی سوچ سے خارج رہے۔ وہ حاکماعلی خداوند یہوواہ، ”تمام دنیا کے منصف“ کیلئے خوشگوار احترام کو عزیز رکھتے ہیں، جو ان سب کو جو بدی سے چمٹے رہتے ہیں اسی طرح ہلاک کرنے والا ہے جیسے اس نے بدکار سدومیوں کو برباد کیا۔ (پیدایش ۱۸:۲۵) واقعی، خدا کے اپنے لوگوں کیلئے ”خداوند کا خوف حیات کا چشمہ ہے جو موت کے پھندوں سے چھٹکارے کا باعث ہے۔“—امثال ۱۴:۲۷۔
۵ وہ سب جو اسے کبھی ناراض نہ کرنے کے خوف میں خود کو مکمل طور پر یہوواہ کیلئے مخصوص کرتے ہیں، الہی عدالت کے اس دن، امثال ۳:۸ میں علامتی طور پر بیانکردہ سچائی کو سمجھ لینگے: ”یہ [یہوواہ کا خوف] تیری ناف کی صحت اور تیری ہڈیوں کی تازگی ہوگی۔“
یہوواہ کی تعظیم کرنا
۶. کس چیز کو ہمیں امثال ۳:۹ پر توجہ دینے کیلئے تحریک دینی چاہیے؟
۶ بشمول اس کیلئے گہری محبت کے یہوواہ کیلئے ہمارے قدردانی والے خوف کو ہمیں امثال ۳:۹ پر دھیان دینے کی تحریک دینی چاہیے: ”اپنے مال سے اور اپنی ساری پیداوار کے پہلے پھلوں سے خداوند کی تعظیم کر۔“ ہم پر اپنے ہدیوں سے یہوواہ کی تعظیم کرنے کا دباؤ نہیں ڈالا گیا۔ انہیں رضاکارانہ ہونا چاہیے، جیسے قدیم اسرائیل میں قربانیوں کے سلسلے میں خروج ۳۵:۲۹ سے استثنا ۲۳:۲۳ تک کوئی ۱۲ مرتبہ ظاہر کیا گیا ہے۔ یہوواہ کیلئے ان پہلے پھلوں کو بہترین نذرانے ہونا چاہیے جو ہم یہوواہ کی اس نیکی اور شفقت کی قدرافزائی میں پیش کر سکتے ہیں جس سے ہم نے اسکی طرف سے استفادہ کیا ہے۔ (زبور ۲۳:۶) انہیں ”پہلے اسکی بادشاہی اور اسکی راستبازی کی تلاش“ کرنے کیلئے ہمارے عزم کو منعکس کرنا چاہیے۔ (متی ۶:۳۳) اور اپنی قیمتی چیزوں سے یہوواہ کی تعظیم کرنا کس چیز پر منتج ہوتا ہے؟ ”یوں تیرے کھتے خوب بھرے رہینگے اور تیرے حوض نئی مے سے لبریز ہونگے۔“—امثال ۳:۱۰۔
۷. ہمیں یہوواہ کیلئے کونسے پہلے پھل پیش کرنے چاہئیں، اور اسکا کیا نتیجہ ہوگا؟
۷ یہوواہ کا ہمیں برکت دینے کا اولین طریقہ روحانی ہے۔ (ملاکی ۳:۱۰) لہذا، پہلے پھل جو ہم اسے پیش کرتے ہیں اولین طور پر روحانی ہونے چاہئیں۔ ہمیں اسکی مرضی پوری کرنے میں اپنے وقت، توانائی، اور قوت حیات کو استعمال کرنا چاہیے۔ اسکے بدلے میں یہ ہمیں تقویت دیگا، جیسے کہ اس طرح کی کارگزاری یسوع کیلئے تقویتبخش ”کھانا“ بن گئی۔ (یوحنا ۴:۳۴) رسد کے ہمارے روحانی کھتے خوب بھرینگے، اور ہماری خوشی جس کی علامت نئی مے ہے، لبریز ہوگی۔ علاوہازیں، جب ہم بھروسے کے ساتھ ہر روز کیلئے جسمانی خوراک کی کافی مقدار کیلئے دعا کرتے ہیں تو ہم باقاعدہ طور پر بادشاہت کے عالمگیر کام کی امداد میں فیاضی کے ساتھ اپنے ذرائع سے ہدیے دے سکتے ہیں۔ (متی ۶:۱۱) بشمول مادی اثاثوں کے، ہر وہ چیز جو ہماری ملکیت ہے، ہمارے پرمحبت آسمانی باپ کی طرف سے ہمیں ملی ہے۔ جس قدر ہم ان قیمتی چیزوں کو اسکی ستائش کیلئے استعمال کرتے ہیں اسی قدر وہ ہم پر مزید برکتیں نازل کریگا۔—امثال ۱۱:۴، ۱-کرنتھیوں ۴:۷۔
محبت کی ملامتیں
۸، ۹. ہمیں ملامت اور تنبیہ کو کیسا خیال کرنا چاہیے؟
۸ ۱۱ اور ۱۲ آیات میں امثال ۳ باب پھر باپاوربیٹے کے مسرورکن رشتے کا ذکر کرتا ہے جو خداپرست خاندانوں میں، نیز یہوواہ اور زمین پر اسکے عزیز روحانی بچوں کے مابین پایا جاتا ہے۔ ہم پڑھتے ہیں: ”اے میرے بیٹے! خداوند کی تنبیہ کو حقیر نہ جان اور اسکی ملامت سے بیزار نہ ہو۔ کیونکہ خداوند اسی کو ملامت کرتا ہے جس سے اسے محبت ہے۔ جیسے باپ اس بیٹے کو جس وہ خوش ہے۔“ دنیا کے لوگ ملامت سے نفرت کرتے ہیں۔ یہوواہ کے لوگوں کو اس کا خیرمقدم کرنا چاہیے۔ پولس رسول نے یہ کہتے ہوئے امثال سے ان الفاظ کا حوالہ دیا! ”اے میرے بیٹے! خداوند کی تنبیہ کو ناچیز نہ جان اور جب وہ تجھے ملامت کرے تو بیدل نہ ہو۔ کیونکہ جس سے خداوند محبت رکھتا ہے اسے تنبیہ بھی کرتا ہے ... بالفعل ہر قسم کی تنبیہ خوشی کا نہیں بلکہ غم کا باعث معلوم ہوتی ہے مگر جو اسکو سہتے سہتے پختہ ہو گئے ہیں انکو بعد میں چین کے ساتھ راستبازی کا پھل بخشتی ہے۔“—عبرانیوں ۱۲:۵، ۶، ۱۱۔
۹ جیہاں، ملامت اور تنبیہ ہم میں سے ہر ایک کی تربیت کا لازمی جزو ہے، خواہ ہم اسے والدین کی طرف سے، مسیحی کلیسیا کے ذریعے، یا پھر اپنے ذاتی مطالعہ کے دوران صحائف پر غوروخوض کرنے سے حاصل کریں۔ ہمارے لئے تربیت پر کان لگانا زندگی اور موت کا معاملہ ہے، جیسے کہ امثال ۴:۱، ۱۳ بھی بیان کرتی ہیں: ”اے میرے بیٹو! باپ کی تربیت پر کان لگاؤ اور فہم حاصل کرنے کیلئے توجہ کرو۔ تربیت کو مضبوطی سے پکڑے رہ۔ اسے جانے نہ دے۔ اسکی حفاظت کر کیونکہ وہ تیری حیات ہے۔“
عظیمترین خوشی
۱۰، ۱۱. امثال ۳:۱۳-۱۸ کی دلآویز باتوں کے بعض پہلو کیا ہیں؟
۱۰ اسکے بعد کیا ہی خوبصورت اظہارات ہیں، واقعی ”راستی کی دلآویز اور سچی باتیں“! (واعظ ۱۲:۱۰، اینڈبلیو) سلیمان کے یہ الہامی الفاظ حقیقی خوشی کو بیان کرتے ہیں۔ یہ وہ الفاظ ہیں جنہیں ہمیں اپنے دلوں پر نقش کرنا چاہیے۔ ہم پڑھتے ہیں:
۱۱ ”مبارک ہے وہ آدمی جو حکمت کو پاتا ہے اور وہ جو فہم حاصل کرتا ہے کیونکہ اسکا حصول چاندی کے حصول سے اور اسکا نفع کندن سے بہتر ہے۔ وہ مرجان سے زیادہ بیشبہا ہے اور تیری مرغوب چیزوں میں بےنظیر۔ اسکے دہنے ہاتھ میں عمر کی درازی ہے اور اسکے بائیں ہاتھ میں دولتوعزت۔ اسکی راہیں خوشگوار راہیں ہیں اور اسکے سب راستے سلامتی کے ہیں۔ جو اسے پکڑے رہتے ہیں وہ انکے لئے حیات کا درخت ہے اور ہر ایک جو اسے لئے رہتا ہے مبارک ہے۔“—امثال ۳:۱۳-۱۸۔
۱۲. حکمت اور فہم کو ہمیں کیسے فائدہ پہنچانا چاہیے؟
۱۲ حکمت—امثال کی کتاب میں اسکا کتنی مرتبہ ذکر ہوا ہے، کل ۴۶ مرتبہ! ”خداوند کا خوف حکمت کا شروع ہے۔“ یہ خدا کے کلام کے علم پر مبنی خدائی، عملی حکمت ہے جو اسکے لوگوں کو ان خطرناک طوفانوں میں محفوظ سمت میں چلنے کے قابل بناتی ہے جو شیطان کی دنیا میں بڑے زوروں پر ہیں۔ (امثال ۹:۱۰) امثال میں فہم کا ۱۹ مرتبہ حوالہ دیا گیا ہے، جو کہ حکمت کی کنیز ہے، جو شیطان کے ہتھکنڈوں کا مقابلہ کرنے کیلئے ہماری مدد کرنے والی ہے۔ اپنے مکارانہ کاموں کو عملیجامہ پہنانے کیلئے، بڑا دشمن اپنے پیچھے ہزاروں سالوں کا تجربہ رکھتا ہے۔ لیکن ہمارے پاس استاد کے طور پر تجربے سے کہیں زیادہ بیشقیمت چیز ہے—خدائی فہم، درست اور غلط میں امتیاز کرنے اور آگے بڑھنے کیلئے صحیح راستے کا انتخاب کرنے کی لیاقت۔ یہوواہ اپنے کلام کے ذریعے ہمیں اسی کی تعلیم دیتا ہے۔—امثال ۲:۱۰-۱۳، افسیوں ۶:۱۱۔
۱۳. مشکل معاشی اوقات کے دوران کیا چیز ہمیں محفوظ رکھ سکتی ہے، اور کیسے؟
۱۳ آجکل کی دنیا میں معاشی ابتری حزقیایل ۷:۱۹ کی پیشینگوئی کی تکمیل کا پیشخیمہ ہے: ”وہ اپنی چاندی سڑکوں پر پھینک دینگے اور انکا سونا ناپاک چیز کی مانند ہوگا۔ خداوند کے غضب کے دن میں انکا سونا چاندی انکو نہ بچا سکیگا۔“ زمین پر کی تمام مادی دولت کا حکمت اور فہم کی بچانے والی قوت کیساتھ کوئی مقابلہ نہیں کیا جا سکتا۔ دانشمند بادشاہ سلیمان نے ایک اور موقع پر بیان کیا: ”حکمت ویسی ہی پناہگاہ ہے جیسے روپیہ لیکن علم کی خاص خوبی یہ ہے کہ حکمت صاحبحکمت کی جان کی محافظ ہے۔“ (واعظ ۷:۱۲) واقعی وہ سب مبارک ہیں جو آجکل یہوواہ کی خوشگوار راہوں پر چلتے ہیں اور جو حکمت سے ”عمر کی درازی،“ ابدی زندگی کا انتخاب کرتے ہیں جو یسوع کے فدیے کی قربانی پر ایمان رکھنے والے ہر شخص کیلئے خدا کی بخشش ہے!—امثال ۳:۱۶، یوحنا ۳:۱۶، ۱۷:۳۔
حقیقی حکمت پیدا کرنا
۱۴. یہوواہ نے کن طریقوں سے قابلنمونہ حکمت ظاہر کی ہے؟
۱۴ یہ موزوں ہے کہ ہم انسان، جو خدا کی شبیہ پر خلق کئے گئے ہیں، حکمت اور فہم پیدا کرنے کی کوشش کریں، یعنی وہ خوبیاں جنہیں یہوواہ نے خود تخلیق کے حیرتانگیز کاموں کو انجام دینے کیلئے ظاہر کیا۔ ”خداوند نے حکمت سے زمین کی بنیاد ڈالی اور فہم سے آسمان کو قائم کیا۔“ (امثال ۳:۱۹، ۲۰) اس نے ارتقا کے کسی پراسرار، ناقابلتوجیہ عمل کے ذریعے نہیں، بلکہ تخلیق کے براہراست کاموں کے ذریعے جاندار مخلوقات کو ”انکی جنس کے موافق“ اور ایک پرحکمت مقصد کی خاطر بنانا شروع کر دیا۔ (پیدایش ۱:۲۵) جب آخر میں آدمی کو جانوروں سے کہیں اعلی لیاقتوں اور ذہانت کے ساتھ پیدا کیا گیا تو خدا کے ملکوتی بیٹوں کی خوشی سے للکارنے کی صدائےبازگشت آسمانوں میں باربار گونجی ہوگی۔ (مقابلہ کریں ایوب ۳۸:۱، ۴، ۷۔) یہوواہ کی بصیرت والی دوراندیشی، اسکی حکمت، اور اسکی محبت زمین پر اسکی پیداوار کے کاموں سے صاف نظر آتی ہے۔—زبور ۱۰۴:۲۴۔
۱۵. (ا) محض حکمت پیدا کرنا کافی کیوں نہیں ہے؟ (ب) امثال ۳:۲۵، ۲۶ کو ہمارے اندر کس اعتماد کو بیدار کرنا چاہیے؟
۱۵ ہمیں نہ صرف یہوواہ کی حکمت اور فہم کی صفات کو پیدا کرنے کی بلکہ انہیں تھامے رہنے کی بھی ضرورت ہے تاکہ اسکے کلام کے اپنے مطالعے میں کبھی سستی نہ کریں۔ وہ ہمیں تاکید کرتا ہے: ”اے میرے بیٹے! دانائی اور تمیز کی حفاظت کر۔ انکو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ یوں وہ تیری جان کی حیات اور تیرے گلے کی زینت ہونگی۔“ (امثال ۳:۲۱، ۲۲) اسطرح ہم چور کی طرح آنے والے ”ناگہانی ہلاکت“ کے اس دن کے دوران بھی ذہنی سلامتی اور امن سے چل سکیں گے جو شیطان کی دنیا پر آ پڑیگی۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۲، ۳) بڑی مصیبت کے دوران بھی، ”تجھے ناگہانی دہشت سے خوف کھانے کی ضرورت نہ ہوگی، نہ شریروں کی ہلاکت سے جب وہ آئے، کیونکہ یہوواہ تیرا عملاً سہارا ہوگا اور تیرے پاؤں کو پھنس جانے سے محفوظ رکھیگا۔“—امثال ۳:۲۳-۲۶، اینڈبلیو۔
نیکی کرنے کیلئے محبت
۱۶. خدمتگزاری میں گرمجوشی کے علاوہ مسیحیوں سے کس کارروائی کا تقاضا کیا گیا ہے؟
۱۶ یہ سب قوموں کو گواہی دینے کیلئے بادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی میں سرگرمی دکھانے کے دن ہیں۔ لیکن گواہی کے اس کام کی دوسری مسیحی کارگزاریوں کے ذریعے پشتپناہی کی جانی چاہیے، جیسے کہ امثال ۳:۲۷، ۲۸ میں بیان کیا گیا ہے: ”بھلائی کے حقدار سے اسے دریغ نہ کرنا جب تیرے مقدور میں ہو۔ جب تیرے پاس دینے کو کچھ ہو تو اپنے ہمسایہ سے یہ نہ کہنا اب جا۔ پھر آنا۔ میں تجھے کل دونگا۔“ (مقابلہ کریں یعقوب ۲:۱۴-۱۷۔) دنیا کے بیشتر حصوں کے غربت اور قحطسالی کی گرفت میں ہونے کی وجہ سے، ہمارے لئے اپنے ساتھی انسانوں اور خاص طور پر اپنے روحانی بھائیوں کی مدد کیلئے فوری درخواستیں کی گئی ہیں۔ یہوواہ کے گواہوں نے کیسا ردعمل دکھایا ہے؟
۱۷-۱۹. (ا) ۱۹۹۳ کے دوران کس فوری ضرورت کو پورا کیا گیا تھا اور کس جوابیعمل کیساتھ؟ (ب) کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ ہمارے محصور بھائیوں کو ”فتح سے بھی بڑھ کر غلبہ حاصل ہوتا ہے“؟
۱۷ ایک مثال پر غور کریں: گزشتہ سال کے دوران، سابقہ یوگوسلاویہ سے فوری مدد کیلئے ایک درخواست آئی۔ پڑوسی ممالک کی برادری نے حیرتانگیز طور پر جوابی عمل دکھایا۔ گزشتہ موسم سرما کے سخت سرد مہینوں کے دوران، امدادی سامان کے ساتھ کئی دستوں کا لڑائی کے خطے میں، ضرورتمند گواہوں کیلئے تازہترین مطبوعات، گرم کپڑے، خوراک، اور ادویات لیکر داخل ہونا ممکن تھا۔ ایک موقع پر، بھائیوں نے ۱۵ ٹن سامان رسد پہنچانے کی درخواست کی، لیکن جب انہیں اجازت ملی تو یہ ۳۰ ٹنوں کیلئے تھی! آسٹریا میں یہوواہ کے گواہوں نے فوری طور پر مزید تین ٹرک بھیج دئے۔ سب ملا کر، ۲۵ ٹن سامان اپنی مطلوبہ منزل تک پہنچ گیا۔ ہمارے بھائی ان باافراط روحانی اور مادی فراہمیوں کو پا کر کتنے خوش تھے!
۱۸ ان وصولکنندگان نے کیسا جوابیعمل دکھایا؟ اس سال کے شروع ہی میں، ایک بزرگ نے لکھا: ”سراژیوو میں بھائی اور بہنیں زندہ اور روبہصحت ہیں، اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اس بےتکی لڑائی کی برداشت کرنے کیلئے ابھی تک روحانی طور پر مضبوط ہیں۔ خوراک کی بابت حالت بہت ہی مشکل تھی۔ جو کاوشیں آپ نے ہمارے لئے کی ہیں اسکے لئے دعا ہے کہ یہوواہ آپکو برکت اور اجر دے۔ حکام یہوواہ کے گواہوں کیلئے انکی قابلنمونہ طرززندگی کی وجہ سے اور اختیار والوں کیلئے انکے احترام کی وجہ سے خاص احترام رکھتے ہیں۔ آپ نے ہمارے لئے جو روحانی خوراک پہنچائی ہے ہم اسکے لئے بھی شکرگزار ہیں۔“—مقابلہ کریں زبور ۱۴۵:۱۸۔
۱۹ خطرے میں گھرے ہوئے ان بھائیوں نے، اپنی گرمجوش خدمتگزاری کے ذریعے بھی اپنی قدردانی ظاہر کی ہے۔ بہت سے ہمسائے انکے پاس آ کر گھریلو بائبل مطالعوں کی درخواست کرتے ہیں۔ ٹزلا کے شہر میں جہاں پانچ ٹن امدادی خوراک پہنچائی گئی تھی، ۴۰ پبلشروں میں سے ہر ایک نے، کلیسیا کے اندر نو پائنیروں کی شاندار حمایت میں اس مہینے کیلئے خدمت میں اوسطاً ۲۵ گھنٹے صرف کئے۔ یسوع کی موت کی یادگار پر انکی شاندار حاضری ۲۴۳ تھی۔ ان عزیز بھائیوں کو واقعی ”اسکے وسیلہ سے جس نے ہم سے محبت کی ... فتح سے بھی بڑھ کر غلبہ حاصل ہوتا ہے۔“—رومیوں ۸:۳۷۔
۲۰. سابقہ سوویت یونین میں کونسی ”برابری“ وقوعپذیر ہوئی ہے؟
۲۰ محفوظ دستوں کے ذریعے سابقہ سوویت یونین میں خطیر امدادی خوراک اور گرم کپڑے کے ٹرک پہنچانے سے فیاضی ظاہر ہوئی ہے جو وہاں کے بھائیوں کی گرمجوشی کے برابر رہی ہے۔ مثال کے طور پر، ماسکو میں میموریل کی حاضری گزشتہ سال کی ۳،۵۰۰ کے مقابلے میں اس سال ۷،۵۴۹ تھی۔ اسی عرصہ کے دوران، اس شہر کے اندر کلیسیائیں ۱۲ سے ۱۶ تک بڑھ گئیں۔ پورے سابقہ سوویت یونین (بالٹک ریاستوں کو نکال کر) میں کلیسیاؤں میں اضافہ ۱۴ فیصد، بادشاہتی پبلشروں میں ۲۵ فیصد، اور پائنیروں میں ۷۴ فیصد تھا۔ خودایثاری اور گرمجوشی کا کیا ہی جذبہ! یہ پہلی صدی میں سے ایک کی یاد دلاتا ہے جب وہاں پر ”برابری“ تھی۔ وہ مسیحی جو روحانی اور مادی اثاثے رکھتے تھے انہوں نے کم موافق حالات والے علاقوں میں رہنے والوں کیلئے فیاضی سے تحفے دئے، جبکہ ان مصیبتزدہ کی گرمجوشی سے دینے والوں کیلئے خوشی اور حوصلہافزائی کا باعث رہی ہے۔—۲-کرنتھیوں ۸:۱۴۔
بدی سے نفرت کرو!
۲۱. امثال ۳ باب کے اختتامی الفاظ میں دانشمندوں اور احمقوں کا موازنہ کیسے کیا گیا ہے؟
۲۱ امثال کا تیسرا باب اس فہمائش کے ساتھ اختتام کرتے ہوئے، آگے موازنوں کے ایک سلسلے کو پیش کرتا ہے: ”تندخو آدمی پر حسد نہ کرنا اور اسکی کسی روش کو اختیار نہ کرنا۔ کیونکہ کجرو سے خداوند کو نفرت ہے لیکن راستباز اسکے محرمراز ہیں۔ شریروں کے گھر پر خداوند کی لعنت ہے لیکن صادقوں کے مسکن پر اسکی برکت ہے۔ یقیناً وہ ٹھٹھابازوں پر ٹھٹھے مارتا ہے لیکن فروتنوں پر فضل کرتا ہے۔ دانا جلال کے وارث ہونگے لیکن احمقوں کی ترقی شرمندگی ہوگی۔“—امثال ۳:۲۹-۳۵۔
۲۲. (ا) ہم احمقوں میں شمار کئے جانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ (ب) کس اجر کے ساتھ دانشمند کس سے نفرت کرتے ہیں، اور کیا چیز پیدا کرتے ہیں؟
۲۲ ہم احمقوں میں شمار کئے جانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ ہمیں بدی سے نفرت کرنا سیکھنا چاہیے، جیہاں، جن سے یہوواہ کراہیت کرتا ہے اس سے کراہیت کریں—اس متشدد، خونی دنیا کی تمام کجرو روشوں سے۔ (امثال ۶:۱۶-۱۹ کو بھی دیکھیں۔) اس کے برعکس، ہمیں جو نیکی—راستی، راستبازی، اور حلیمی ہے اسکو پیدا کرنا چاہیے تاکہ فروتنی اور یہوواہ کے خوف میں ہم ”دولت اور عزتوحیات“ حاصل کر سکیں۔ (امثال ۲۲:۴) یہ ہم سب کا اجر ہوگا جو وفاداری سے اس فہمائش کا اطلاق کرتے ہیں: ”اپنے سارے دل سے یہوواہ پر توکل کر۔“ (۱۶ ۱۲/۱۵ w۹۳)
آپکا تبصرہ کیا ہے؟
▫ اس مطالعے کے موضوع کی آیت آجکل کیسے عائد ہوتی ہے؟
▫ ہم یہوواہ کی تعظیم کیسے کر سکتے ہیں؟
▫ ہمیں تنبیہ کو ناچیز کیوں نہیں جاننا چاہیے؟
▫ عظیمترین خوشی کہاں پر مل سکتی ہے؟
▫ ہم نیکی سے محبت اور بدی سے نفرت کیسے کر سکتے ہیں؟
[تصویر]
وہ جو یہوواہ کیلئے قربانی میں اپنی بہترین چیز پیش کرتے ہیں کثرت سے برکت پائینگے