’حکمت سے ہمیں عمر کی درازی حاصل ہوگی‘
اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ زندگی کے مسائل سے نپٹنے کے لئے حکمت لازمی ہے؟ حقیقی حکمت علموفہم کا درست استعمال کرنے کی صلاحیت ہے۔ یہ نادانی، بیوقوفی اور حماقت کے بالکل برعکس ہے۔ لہٰذا صحائف ہمیں حکمت حاصل کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ (امثال ۴:۷) درحقیقت، بائبل کی کتاب، امثال بنیادی طور پر حکمت اور تربیت دینے کے لئے ہی لکھی گئی تھی۔ اس کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے: ”اؔسرائیل کے بادشاہ سلیماؔن بِن داؔؤد کی امثال۔ حکمت اور تربیت حاصل کرنے . . . کے لئے۔“—امثال ۱:۱، ۲۔
مثال کے طور پر امثال کی کتاب کے پہلے چند ابواب کی قابلِبھروسا اور ٹھوس تعلیمات پر غور کریں۔ اپنے بیٹے کو پندونصیحت کرنے والے شفیق باپ کی طرح سلیمان اپنے قارئین سے تربیت قبول کرنے اور حکمت پر توجہ دینے کی استدعا کرتا ہے۔ (باب ۱ اور ۲) وہ یہوواہ کی قربت حاصل کرنے اور اپنے دل کی حفاظت کرنے کا طریقہ بیان کرتا ہے۔ (باب ۳ اور ۴) ہمیں اخلاقی پاکیزگی برقرار رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ (باب ۵ اور ۶) جیہاں، ایک بداخلاق شخص کی عیاریوں سے باخبر ہونا ہمارے لئے بہت ضروری ہے۔ (باب ۷) مجسم حکمت کی استدعا بھی سب کے لئے قابلِغور ہے! (باب ۸) اِس کے بعد کے ابواب کی جامع مثلیں کہنے سے پہلے، بادشاہ سلیمان بیانکردہ تمام باتوں کا اثرآفرین خلاصہ پیش کرتا ہے۔—باب ۹۔
’آؤ! میری روٹی کھاؤ اور میری مے پیو‘
امثال کے پہلے حصے کا اختتام متذکرہ نصیحت کا محض بیزارکُن خلاصہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ ایک دلکش اور ہیجانخیز تمثیل کی صورت میں پیش کِیا گیا ہے جس سے قاری کو حکمت کے طالب رہنے کی تحریک ملتی ہے۔
امثال کی کتاب کا ۹ واں باب ان الفاظ کے ساتھ شروع ہوتا ہے: ”حکمت نے اپنا گھر بنا لیا۔ اُس نے اپنے ساتوں ستون تراش لئے ہیں۔“ (امثال ۹:۱) ایک عالم تجویز پیش کرتا ہے کہ اصطلاح ”سات ستون صحن کے گرد تعمیر کی گئی ایک وسیع عمارت کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے سہارا دینے کے لئے دونوں طرف تینتین ستون اور تیسری طرف بالکل وسط میں ایک ستون مدخل کے سامنے ہوتا تھا۔“ بہرحال، حقیقی حکمت نے بہتیرے مہمانوں کو مدعو کرنے کے لئے ایک مضبوط گھر تعمیر کِیا ہے۔
ضیافت کیلئے تمام چیزیں تیار ہیں۔ گوشت کے علاوہ مے بھی موجود ہے۔ حکمت نے کھانے کی تیاری اور دسترخوان کی سجاوٹ پر خود توجہ دی ہے۔ ”اُس نے اپنے جانوروں کو ذبح کر لیا اور اپنی مے ملا کر تیار کر لی۔ اُس نے اپنا دسترخوان بھی چُن لیا۔“ (امثال ۹:۲) اس علامتی دسترخوان پر روشنخیالی عطا کرنے والی قابلِغور روحانی خوراک یقیناً موجود ہے۔—یسعیاہ ۵۵:۱، ۲۔
تاہم، سوال یہ ہے کہ حقیقی حکمت کی تیارکردہ اس ضیافت پر کن لوگوں کو مدعو کِیا گیا ہے؟ ”اُس نے اپنی سہیلیوں کو روانہ کِیا ہے۔ وہ خود شہر کی اُونچی جگہوں پر پکارتی ہے۔ جو سادہ دل ہے اِدھر آ جائے۔ اور بےعقل سے وہ یہ کہتی ہے آؤ! میری روٹی سے کھاؤ اور میری ملائی ہوئی مے میں سے پیو۔ اَے سادہ دلو! باز آؤ اور زندہ رہو اور فہم کی راہ پر چلو۔“—امثال ۹:۳-۶۔
حکمت نے اپنی سہیلیوں کو دعوت دینے کے لئے بھیجا ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مدعو کرنے کے واسطے عوامی جگہوں پر گئی ہیں۔ تمام ”بےعقل“ اور ناتجربہکار لوگوں کو مدعو کِیا گیا ہے۔ (امثال ۹:۴) اس کے علاوہ ان سے زندگی کا وعدہ بھی کِیا گیا ہے۔ امثال کی کتاب سمیت خدا کے کلام میں موجود حکمت یقیناً تمام انسانوں کے لئے دستیاب ہے۔ جدید زمانے میں، سچی حکمت کے پیامبروں کی طرح، یہوواہ کے گواہ بھی ہر جگہ لوگوں کو بائبل کا مطالعہ کرنے کی دعوت دینے میں مصروف ہیں۔ یہ علم حاصل کرنا واقعی ہمیشہ کی زندگی کا باعث بن سکتا ہے۔—یوحنا ۱۷:۳۔
مسیحیوں کو فروتنی سے حکمت کی تربیت قبول کرنی چاہئے۔ یہ بات نوجوانوں اور حال ہی میں یہوواہ کی بابت سیکھنے والے لوگوں کے سلسلے میں خاص طور پر سچ ہے۔ خدا کی راہوں میں تجربے کی کمی کے باعث وہ ”بےعقل“ ہو سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے تمام محرکات بُرے ہیں تاہم، اپنے دل کو یہوواہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے والی حالت میں لانے کے لئے وقت اور کوشش درکار ہے۔ اس کے لئے اپنے خیالات، خواہشات، احساسات اور نشانوں کو خدا کی پسندیدگی کی مطابقت میں لانے کی ضرورت ہے۔ ان کے لئے ”خالص روحانی دودھ کے مشتاق“ رہنا لازمی ہے۔—۱-پطرس ۲:۲۔
درحقیقت، کیا ہم سب کو ”ابتدائی باتوں“ کو چھوڑ کر کمال کی جانب قدم نہیں بڑھانا چاہئے؟ یقیناً ہمیں ’خدا کی تہ کی باتوں‘ کو جاننے میں دلچسپی پیدا کرنی چاہئے اور پوری عمر والوں کی سخت غذا سے توانائی حاصل کرنی چاہئے۔ (عبرانیوں ۵:۱۲–۶:۱؛ ۱-کرنتھیوں ۲:۱۰) یسوع مسیح کی زیرِنگرانی ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ تمام لوگوں کے لئے مستعدی سے بروقت روحانی خوراک فراہم کرتا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) دُعا ہے کہ ہم خدا کے کلام اور نوکر جماعت کی فراہمکردہ بائبل پر مبنی مطبوعات کے مستعد مطالعے کے ذریعے حکمت کے دسترخوان سے خوردونوش کرتے رہیں۔
”ٹھٹھاباز کو ملامت نہ کر“
حکمت کی تعلیمات میں اصلاح اور تنبیہ بھی شامل ہیں۔ حکمت کے اس پہلو کو سب پسند نہیں کرتے۔ لہٰذا، امثال کی کتاب کے پہلے حصے کے اختتام پر ایک آگاہی موجود ہے: ”ٹھٹھاباز کو تنبیہ کرنے والا لعنطعن اُٹھائیگا اور شریر کو ملامت کرنے والے پر دھبا لگیگا۔ ٹھٹھاباز کو ملامت نہ کر۔ نہ ہو کہ وہ تجھ سے عداوت رکھنے لگے۔“—امثال ۹:۷، ۸ الف۔
ایک ٹھٹھاباز اُس شخص سے عداوت اور کینہ رکھتا ہے جو اسے اپنی راہ کو درست کرنے میں مدد دینے کی کوشش کرتا ہے۔ ایک شریر شخص تنبیہ کی اہمیت کی قدر نہیں کرتا۔ سچائی سے نفرت کرنے یا محض اُس کا تمسخر اُڑانے والے شخص کو خدا کے کلام کی دلکش سچائی سکھانا کتنی غیردانشمندانہ بات ہوگی! انطاکیہ میں منادی کے دوران، پولس رسول کا سامنا یہودیوں کے ایک ایسے گروہ سے ہوا جو سچائی کے لئے کوئی محبت نہیں رکھتا تھا۔ اُنہوں نے کفر بکنے اور اس کی مخالفت کرنے سے اُسے بحث میں اُلجھانے کی کوشش کی لیکن پولس نے اُن سے محض اتنا کہا: ”چونکہ تم اس کو [خدا کے کلام کو] رد کرتے ہو اور اپنے آپ کو ہمیشہ کی زندگی کے ناقابل ٹھہراتے ہو تو دیکھو ہم غیرقوموں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔“—اعمال ۱۳:۴۵، ۴۶۔
دُعا ہے کہ ہم خلوصدل لوگوں تک بادشاہتی خوشخبری پہنچانے کی کوشش کرتے وقت تمسخر اُڑانے والوں کے ساتھ بحثوتکرار میں اُلجھنے سے محتاط رہیں۔ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کو ہدایت دی: ”گھر میں داخل ہوتے وقت اُسے دُعایِخیر دینا۔ اور اگر وہ گھر لائق ہو تو تمہارا سلام اُسے پہنچے اور اگر لائق نہ ہو تو تمہارا سلام تم پر پھر آئے۔ اور اگر کوئی تمکو قبول نہ کرے اور تمہاری باتیں نہ سنے تو اُس گھر یا اُس شہر سے باہر نکلتے وقت اپنے پاؤں کی گرد جھاڑ دینا۔“—متی ۱۰:۱۲-۱۴۔
تنبیہ کے لئے ایک دانشمند شخص کا جوابیعمل ٹھٹھاباز سے مختلف ہوتا ہے۔ سلیمان بیان کرتا ہے: ”دانا کو ملامت کر اور وہ تجھ سے محبت رکھے گا۔ دانا کو تربیت کر اور وہ اَور بھی دانا بن جائے گا۔“ (امثال ۹:۸ب، ۹الف) ایک دانشمند شخص جانتا ہے کہ ”ہر قسم کی تنبیہ خوشی کا نہیں بلکہ غم کا باعث معلوم ہوتی ہے مگر جو اُس کو سہتےسہتے پُختہ ہو گئے ہیں ان کو بعد میں چین کے ساتھ راستبازی کا پھل بخشتی ہے۔“ (عبرانیوں ۱۲:۱۱) بظاہر مشورت تکلیفدہ ہو سکتی ہے لیکن اگر اسے قبول کرنے سے ہم دانشمند بن سکتے ہیں تو ہم اس کی مخالفت یا اسے رد کیوں کریں؟
دانشمند بادشاہ مزید بیان کرتا ہے، ”صادق کو سکھا اور وہ علم میں ترقی کرے گا۔“ (امثال ۹:۹ب) کوئی بھی اتنا دانشمند یا عمررسیدہ نہیں کہ مزید سیکھ نہ سکے۔ عمررسیدہ لوگوں کو سچائی قبول کرکے خود کو یہوواہ کے لئے مخصوص کرتے ہوئے دیکھنا کتنی خوشی کی بات ہے! دُعا ہے کہ ہم بھی سیکھنے کے مُصمم ارادے کے علاوہ ذہنی طور پر مستعد رہیں۔
”تیری زندگی کے سال زیادہ ہونگے“
سلیمان زیرِغور مضمون کے اہم نکتے پر زور دیتے ہوئے حکمت حاصل کرنے کے لوازمات کو بیان کرتا ہے۔ وہ تحریر کرتا ہے: ”[یہوواہ] کا خوف حکمت کا شروع ہے اور اُس قدوس کی پہچان فہم ہے۔“ (امثال ۹:۱۰) سچے خدا کیلئے مؤدبانہ خوف کے بغیر خدائی حکمت ناممکن ہے۔ ایک شخص کے پاس خواہ کتنا ہی زیادہ علم کیوں نہ ہو یہوواہ کے خوف کے بغیر وہ اُس علم کو خالق کی تمجید کیلئے استعمال کرنے میں ناکام ہی رہیگا۔ وہ واضح حقائق سے غلط نتائج اخذ کرکے احمق دکھائی دے سکتا ہے۔ علاوہازیں، قدوس یہوواہ کا علم سمجھ حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے جو حکمت کی ایک خاص خوبی ہے۔
حکمت کونسے پھل پیدا کرتی ہے؟ (امثال ۸:۱۲-۲۱، ۳۵) اسرائیل کا بادشاہ بیان کرتا ہے: ”میری بدولت تیرے ایّام بڑھ جائینگے اور تیری زندگی کے سال زیادہ ہونگے۔“ (امثال ۹:۱۱) حکمت کیساتھ رفاقت عمر کی درازی کا سبب بنتی ہے۔ جیہاں، ”حکمت صاحبِحکمت کی جان کی محافظ ہے۔“—واعظ ۷:۱۲۔
حکمت حاصل کرنے کی کوشش کرنا ہماری ذاتی ذمہداری ہے۔ اس حقیقت پر زور دیتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے: ”اگر تُو دانا ہے تو اپنے لئے اور اگر تو ٹھٹھاباز ہے تو خود بُھگتیگا۔“ (امثال ۹:۱۲) دانشمند اپنی دانشمندی سے استفادہ کریگا اور ٹھٹھاباز اپنے دُکھ کا خود ذمہدار ہوگا۔ واقعی، ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔ پس دُعا ہے کہ ہم ”حکمت کی طرف کان“ لگائیں۔—امثال ۲:۲۔
”احمق عورت غوغائی ہے“
اس کے بعد، سلیمان موازنہ کرتے ہوئے بیان کرتا ہے: ”احمق عورت غوغائی ہے۔ وہ نادان ہے اور کچھ نہیں جانتی۔ وہ اپنے گھر کے دروازہ پر شہر کی اُونچی جگہوں میں بیٹھ جاتی ہے تاکہ آنے جانے والوں کو بلائے جو اپنےاپنے راستہ پر سیدھے جا رہے ہیں۔ سادہ دل اِدھر آ جائیں۔“—امثال ۹:۱۳-۱۶ الف۔
حماقت کی عکاسی ایک ناشائستہ، بدتہذیب اور جاہل عورت کے طور پر کی گئی ہے۔ اُس نے بھی اپنا گھر بنایا ہے۔ چنانچہ وہ بھی سادہ دل لوگوں کو اپنے پاس بلاتی ہے۔ لہٰذا راہگیر انتخاب کر سکتے ہیں۔ وہ حکمت یا حماقت میں سے کس کی دعوت قبول کرینگے؟
”چوری کا پانی میٹھا ہے“
حکمت اور حماقت دونوں اپنے سامعین کو ’اِدھر آنے‘ کی دعوت دیتی ہیں۔ تاہم دونوں کی پیشکش مختلف ہے۔ حکمت لوگوں کو مے، گوشت اور روٹی کی ضیافت پر مدعو کرتی ہے۔ حماقت کی ترغیب ہمیں ایک بدکار عورت کی راہوں کی یاد دلاتی ہے۔ سلیمان بیان کرتا ہے: ”بےعقل سے وہ یہ کہتی ہے چوری کا پانی میٹھا ہے اور پوشیدگی کی روٹی لذیذ۔“—امثال ۹:۱۶ب، ۱۷۔
”احمق عورت“ ملائی ہوئی مے کی بجائے چوری کا پانی پیش کرتی ہے۔ (امثال ۹:۱۳) صحائف میں اپنی عزیز بیوی کیساتھ جنسی تعلقات کو تازہ پانی پینے سے تشبِیہ دی گئی ہے۔ (امثال ۵:۱۵-۱۷) لہٰذا چوری کا پانی پوشیدہ اور ناجائز جنسی تعلقات کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسا پانی لذیذ—مے سے بہتر—دکھائی دیتا ہے کیونکہ یہ چوری کا ہوتا ہے جو چپکے سے بچ نکلنے کا خیال پیش کرتا ہے۔ چوری کی روٹی حکمت کی پیشکردہ روٹی اور گوشت سے زیادہ مزیدار اسلئے نظر آتی ہے کہ یہ بددیانتی سے حاصل کی جاتی ہے۔ کسی ممنوعہ اور پوشیدہ چیز کو پُرکشش خیال کرنا حماقت کی نشانی ہے۔
حکمت کی دعوت میں زندگی کا وعدہ شامل ہے لیکن ایک احمق عورت اپنی راہوں پر چلنے کے نتائج کا کوئی اشارہ نہیں دیتی۔ تاہم سلیمان آگاہ کرتا ہے: ”وہ نہیں جانتا کہ وہاں مُردے پڑے ہیں اور اُس عورت کے مہمان پاتال کی تہ میں ہیں۔“ (امثال ۹:۱۸) ایک عالم بیان کرتا ہے، ”احمق عورت کا مکان ایک گھر نہیں بلکہ ایک مقبرہ ہے۔ کوئی بھی اس میں داخل ہوکر زندہ باہر نہیں آ سکتا۔“ خراب طرزِزندگی دانشمندانہ طریقہ نہیں بلکہ جانلیوا روش ہے۔
یسوع مسیح نے کہا: ”تنگ دروازہ سے داخل ہو کیونکہ وہ دروازہ چوڑا ہے اور وہ راستہ کشادہ ہے جو ہلاکت کو پہنچاتا ہے اور اُس سے داخل ہونے والے بہت ہیں۔ کیونکہ وہ دروازہ تنگ ہے اور وہ راستہ سکڑا ہے جو زندگی کو پہنچاتا ہے اور اُسکے پانے والے تھوڑے ہیں۔“ (متی ۷:۱۳، ۱۴) دُعا ہے کہ ہم ہمیشہ حکمت کے دسترخوان سے سیر ہوتے ہوئے زندگی تک پہنچانے والی راہ پر چلنے والے لوگوں میں شامل ہوں۔
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
دانشمند شخص اصلاح قبول کرتا ہے
[صفحہ ۳۱ پر تصویر]
حکمت حاصل کرنا ذاتی ذمہداری ہے