بارھواں باب
اپنی زبان کو خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کریں
”کوئی گندی بات تمہارے مُنہ سے نہ نکلے بلکہ وہی جو ضرورت کے موافق ترقی کے لئے اچھی ہو۔“—افسیوں ۴:۲۹۔
۱-۳. (ا) یہوواہ خدا نے ہمیں کونسی قیمتی بخشش دی ہے؟ (ب) اگر ہم زبان کو غلط طریقے سے استعمال کریں گے تو دوسروں پر کیا اثر ہوگا؟ (ج) خدا کی محبت میں قائم رہنے کے لئے ہمیں بولنے کی صلاحیت کو کیسے استعمال کرنا چاہئے؟
ذرا تصور کریں کہ آپ نے کسی کو ایک بہت ہی قیمتی تحفہ دیا ہے اور وہ جانبوجھ کر اِس کا نامناسب استعمال کرتا ہے۔ مثال کے طور پر آپ نے اُسے تحفے میں ایک گاڑی دی ہے اور بعد میں آپ کو پتہ چلتا ہے کہ اُس نے نہایت بےدھیانی سے گاڑی چلا کر دوسروں کو زخمی کر دیا ہے۔ یہ سُن کر آپ کیسا محسوس کریں گے؟ یقیناً آپ ناراض ہوں گے۔
۲ ”ہر اچھی بخشش اور ہر کامل انعام“ ہمیں یہوواہ خدا کی طرف سے ملتا ہے۔ (یعقوب ۱:۱۷) بولنے کی صلاحیت بھی خدا کی طرف سے ایک قیمتی بخشش ہے۔ یہوواہ خدا نے یہ صلاحیت جانوروں کو نہیں بلکہ صرف انسانوں کو عطا کی ہے۔ اِس صلاحیت کی بدولت ہم اپنے احساسات اور خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں۔ لیکن جس طرح گاڑی کو نامناسب طریقے سے استعمال کِیا جا سکتا ہے اِسی طرح زبان کو بھی نامناسب طریقے سے استعمال کِیا جا سکتا ہے۔ ذرا سوچیں کہ اگر ہم اپنی باتوں سے دوسروں کو ٹھیس پہنچائیں گے تو یہوواہ خدا کتنا ناراض ہوگا۔
۳ خدا کی محبت میں قائم رہنے کے لئے ہمیں بولنے کی صلاحیت کو اُس کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا چاہئے۔ خدا نے ہمیں زبان کے مناسب استعمال کے بارے میں ہدایات دی ہیں۔ اُس کے کلام میں لکھا ہے: ”کوئی گندی بات تمہارے مُنہ سے نہ نکلے بلکہ وہی جو ضرورت کے موافق ترقی کے لئے اچھی ہو تاکہ اُس سے سننے والوں پر فضل ہو۔“ (افسیوں ۴:۲۹) آئیں اِس سلسلے میں اِن تین سوالوں پر غور کریں: ہمیں زبان کے استعمال کے سلسلے میں احتیاط کیوں برتنی چاہئے؟ زبان کو غلط طریقے سے استعمال کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟ کس قسم کی باتیں ”ترقی کے لئے اچھی“ ہوتی ہیں؟
زبان کے استعمال کے سلسلے میں احتیاط برتیں
۴، ۵. امثال کی کتاب میں ہماری باتوں کے اثر کے بارے میں کیا بتایا گیا ہے؟
۴ ہمیں زبان کے استعمال کے سلسلے میں احتیاط کیوں برتنی چاہئے؟ اِس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ہماری باتوں کا یا تو اچھا یا پھر بُرا اثر ہوتا ہے۔ امثال ۱۵:۴ میں لکھا ہے: ”صحتبخش زبان حیات کا درخت ہے پر اُس کی کجگوئی رُوح کی شکستگی کا باعث ہے۔“a صحتبخش زبان سے مُراد ایسی باتیں ہیں جو دوسروں کو تازگی بخشتی ہیں۔ اِس کے برعکس جن لوگوں کی زبان دغاباز ہوتی ہے وہ دوسروں کو اپنی باتوں سے کچل دیتے ہیں۔ واقعی ہم اپنی باتوں سے لوگوں کو یا تو دُکھ پہنچا سکتے ہیں یا پھر اُنہیں دلاسا دے سکتے ہیں۔—امثال ۱۸:۲۱۔
۵ ہماری باتوں کے اثر کے سلسلے میں امثال ۱۲:۱۸ میں لکھا ہے: ”بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں۔“ واقعی جو شخص سوچےسمجھے بغیر بات کرتا ہے، وہ دوسروں کے دل کو زخمی کرتا ہے اور رشتوں میں دراڑ ڈالتا ہے۔ کیا کسی نے آپ سے کوئی ایسی بات کہی ہے جو تلوار کی طرح آپ کے دل کو چھید گئی ہے؟ البتہ غور کریں کہ امثال ۱۲:۱۸ میں یہ بھی لکھا ہے: ”دانشمند کی زبان صحتبخش ہے۔“ جو شخص سوچسمجھ کر بات کرتا ہے وہ دُکھی دلوں کو دلاسا دیتا ہے اور بگڑے ہوئے تعلقات کو بحال کرتا ہے۔ کیا آپ کو کوئی ایسا موقع یاد ہے جب آپ کو کسی کی باتوں سے تسلی ملی تھی؟ (امثال ۱۶:۲۴) چونکہ ہماری باتوں کا دوسروں پر بڑا اثر ہوتا ہے اِس لئے ہمیں اپنی زبان کو دوسروں کا حوصلہ بڑھانے کے لئے استعمال کرنا چاہئے، نہ کہ اُنہیں زخمی کرنے کے لئے۔
صحتبخش زبان دوسروں کے لئے تازگی کا باعث ہوتی ہے
۶. اپنی زبان کو قابو میں رکھنا آسان کیوں نہیں ہوتا؟
۶ زبان کے استعمال کے سلسلے میں احتیاط برتنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ ہم پیدائش ہی سے گُناہ کی طرف مائل ہیں۔ اِس لئے چاہے ہم کتنی ہی کوشش کیوں نہ کریں، ہم اپنی زبان کو مکمل طور پر قابو میں نہیں رکھ سکتے ہیں۔ جو کچھ ہم زبان پر لاتے ہیں، وہ ہمارے دل میں جنم لیتا ہے اور ”انسان کے دل کا خیال لڑکپن سے بُرا ہے۔“ (پیدایش ۸:۲۱؛ لوقا ۶:۴۵) چُنانچہ انسانی فطرت کی وجہ سے زبان کو لگام دینا آسان نہیں ہے۔ (یعقوب ۳:۲-۴) لیکن ہم ایسا کرنے میں بہتری ضرور لا سکتے ہیں۔ ذرا ایک ملاح کا تصور کریں جو دریا میں چپّو والی کشتی چلا رہا ہے۔ اگر وہ چپّو چلانا بند کر دے تو دریا کا بہاؤ کشتی کو بہا لے جائے گا۔ اِسی طرح اگر ہم زبان کو قابو میں رکھنے کی کوشش نہیں کریں گے تو ہماری فطرت ہمیں بدزبانی کرنے کی طرف کھینچے گی۔
۷، ۸. یہوواہ خدا اُن لوگوں کو کیسا خیال کرتا ہے جو اپنی زبان کو قابو میں نہیں رکھتے؟
۷ زبان کے استعمال کے سلسلے میں احتیاط برتنے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ ہم یہوواہ خدا کے سامنے جوابدہ ہیں۔ ہم اپنی باتوں سے یہوواہ خدا کو یا تو خوش کر سکتے ہیں یا پھر اُسے ناراض کر سکتے ہیں۔ یعقوب ۱:۲۶ میں لکھا ہے: ”اگر کوئی اپنے آپ کو دیندار سمجھے اور اپنی زبان کو لگام نہ دے بلکہ اپنے دل کو دھوکا دے تو اُس کی دینداری باطل ہے۔“b پچھلے باب میں ہم نے دیکھا کہ اگر ہم اپنی زبان کو لگام نہیں دیتے اور زہریلے الفاظ سے دوسروں کو ڈستے ہیں تو یہوواہ خدا ہماری خدمت کو قبول نہیں کرے گا۔ چاہے ہم کتنے ہی اچھے کام کیوں نہ کریں، یہوواہ خدا کی نظروں میں یہ سب کچھ بےفائدہ ہوگا۔ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زبان کو قابو میں رکھنا بڑا سنگین معاملہ ہے۔—یعقوب ۳:۸-۱۰۔
۸ لہٰذا سچے مسیحیوں کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ زبان کے استعمال کے سلسلے میں احتیاط برتیں۔ اب ہم دیکھیں گے کہ زبان کو غلط طریقے سے استعمال کرنے میں کیا کچھ شامل ہے۔
زبان کا غلط استعمال
۹، ۱۰. (ا) آجکل کس طرح کی زبان بولنا عام ہو گیا ہے؟ (ب) ہمیں گندی زبان استعمال کرنے سے کیوں گریز کرنا چاہئے؟ (فٹنوٹ کو بھی دیکھیں۔)
۹ گندی زبان اور گالیگلوچ۔ آجکل گندی زبان بولنا بہت عام ہو گیا ہے۔ لوگ باتبات پر گالیاں دیتے ہیں۔ فلموں، ڈراموں اور ٹیوی میں لوگوں کو ہنسانے کے لئے اکثر بازاری اور گندے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ لیکن اِس قسم کی بدکلامی ہنسیمذاق کی بات نہیں ہوتی۔ تقریباً ۲،۰۰۰ سال پہلے پولس رسول نے خدا کے الہام سے مسیحیوں کو تاکید کی کہ ”گالی بکنا چھوڑ دو۔“ (کلسیوں ۳:۸) اِس کے علاوہ اُس نے کہا کہ مسیحیوں میں ’بےشرمی اور بیہودہگوئی کا ذکر تک نہ ہو۔‘—افسیوں ۵:۳، ۴۔
۱۰ جب کوئی شخص گندی زبان استعمال کرتا ہے تو یہ یہوواہ خدا اور اُس کے خادموں کو سخت ناگوار گزرتا ہے۔ چونکہ ہم یہوواہ خدا سے محبت رکھتے ہیں اِس لئے ہم گندی زبان استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ پولس رسول نے بتایا کہ ’جسم کے کاموں‘ میں ”ناپاکی“ بھی شامل ہے۔ جب ہم گندے الفاظ بولتے ہیں تو یہ بھی ایک قسم کی ناپاکی ہے۔ (گلتیوں ۵:۱۹-۲۱) یہ کتنا سنجیدہ معاملہ ہے؟ فرض کریں کہ ایک مسیحی نہایت ہی گھٹیا اور غلیظ الفاظ بولنے کا عادی ہے۔ اِس سلسلے میں اُس کی باربار اصلاح بھی کی گئی ہے لیکن وہ توبہ نہیں کرتا اور اِس عادت کو نہیں چھوڑتا۔ یہ اِس قدر سنجیدہ معاملہ ہے کہ اُسے کلیسیا سے خارج کِیا جا سکتا ہے۔c
۱۱، ۱۲. (ا) دوسرے لوگوں کے بارے میں باتچیت کرنا کب نقصاندہ ہو سکتا ہے؟ (ب) یہ اہم کیوں ہے کہ یہوواہ کے گواہ دوسروں پر جھوٹے الزام لگانے سے باز رہیں؟
۱۱ پیٹھ پیچھے بات کرنا اور جھوٹے الزام لگانا۔ لوگ دوسروں کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں اور یہ ہمیشہ غلط بھی نہیں ہوتا۔ مثلاً جب ہم دوسروں کو بتاتے ہیں کہ فلاں بھائی کو حوصلہافزائی کی ضرورت ہے یا پھر کہ فلاں بہن نے بپتسمہ لے لیا ہے تو اِس قسم کی باتچیت میں کوئی ہرج نہیں کیونکہ یہ فائدہمند ہوتی ہے۔ پہلی صدی کے مسیحی بھی ایک دوسرے کی خیریت جاننے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کے بارے میں ایسی باتیں کرتے تھے جن کو بیان کرنا مناسب تھا۔ (افسیوں ۶:۲۱، ۲۲؛ کلسیوں ۴:۸، ۹) لیکن اگر ہم کسی کی پیٹھ پیچھے اُس کے بارے میں کوئی بات بڑھاچڑھا کر بیان کریں یا پھر دوسروں کے ساتھ اُس کے ذاتی معاملوں پر بات کریں تو یہ نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہم دوسروں کے بارے میں جھوٹ پھیلانے کے خطرے میں ہوتے ہیں۔ کئی لوگ دوسروں کی بدنامی کرنے کے لئے جانبوجھ کر اُن پر جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ مثال کے طور پر فریسیوں نے یسوع مسیح کو بدنام کرنے کے لئے اُس پر بہت سے جھوٹے الزام لگائے۔ (متی ۹:۳۲-۳۴؛ ۱۲:۲۲-۲۴) غیبت کرنے یعنی لوگوں کی پیٹھ پیچھے اُن کے بارے میں جھوٹی باتیں پھیلانے سے اکثر جھگڑے بھی پیدا ہوتے ہیں۔—امثال ۲۶:۲۰۔
۱۲ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں، بولنے کی صلاحیت یہوواہ خدا کی ایک بخشش ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص اِس صلاحیت کو دوسروں کو بدنام کرنے کے لئے یا پھر جھگڑے پیدا کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے تو یہوواہ خدا ناراض ہوتا ہے۔ اُسے ایسے شخص سے نفرت ہے جو ”بھائیوں کے درمیان جھگڑا ڈالتا ہے۔“ (امثال ۶:۱۶-۱۹، کیتھولک ترجمہ) خدا کے کلام میں شیطان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ دوسروں پر جھوٹے الزام لگاتا ہے۔ (مکاشفہ ۱۲:۹، ۱۰) کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بارے میں بھی یہی کہا جائے؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ ہماری وجہ سے کلیسیا میں ”تفرقے“ اور ”جُدائیاں“ ہوں؟ (گلتیوں ۵:۱۹-۲۱) بِلاشُبہ ہم ایسا نہیں چاہتے۔ لہٰذا اگر آپ نے کسی کے بارے میں کوئی بات سنی ہے تو کسی اَور کے سامنے اِس کا ذکر کرنے سے پہلے خود سے پوچھیں: ”کیا یہ بات سچی ہے؟ اگر مَیں دوسروں کو یہ بات بتاؤں گا تو وہ شخص کیسا محسوس کرے گا جس کے بارے میں یہ بات ہے؟ کیا اِس بات کو دُہرانا ضروری یا واجب ہے؟“—۱-پطرس ۴:۱۵۔
۱۳، ۱۴. (ا) جب ایک شخص کو مسلسل ذلیل کِیا جاتا ہے تو اُس پر کیسا اثر پڑتا ہے؟ (ب) اگر کوئی شخص دوسروں کو ذلیل کرنے کی عادت بنا لیتا ہے تو وہ خطرناک روش کیوں اختیار کرتا ہے؟
۱۳ دوسروں کو ذلیل کرنا۔ جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں، ہماری باتوں کا دوسروں پر یا تو اچھا یا پھر بُرا اثر ہو سکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ کبھیکبھار ہمارے مُنہ سے کوئی ایسی بات نکل جاتی ہے جس سے ہم دوسروں کو دُکھ پہنچاتے ہیں۔ لیکن مسیحیوں کو نہ تو گھر پر، نہ ہی کلیسیا میں اور نہ ہی کہیں اَور اِس قسم کی زبان استعمال کرنی چاہئے جس سے دوسروں کو ٹھیس پہنچے۔ بائبل میں تاکید کی گئی ہے کہ ”ہر طرح کی تلخمزاجی اور قہر اور غصہ اور شوروغل اور بدگوئی ہر قسم کی بدخواہی سمیت تُم سے دُور کی جائیں۔“ (افسیوں ۴:۳۱) اِس آیت میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”بدگوئی“ کِیا گیا ہے، یہ کسی شخص کو گالیاں دینے، اُس میں ہر وقت نقص نکالنے اور اُسے ذلیل کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسی باتوں سے اُس کی خوداعتمادی خاک میں مل جاتی ہے اور وہ اپنی ہی نظروں میں گِر جاتا ہے۔ خاص طور پر جب بچے ایسی باتوں کا نشانہ بنتے ہیں تو اُن کے ننھے دلوں کو بہت چوٹ پہنچتی ہے۔—کلسیوں ۳:۲۱۔
۱۴ دوسروں کو ذلیل کرنا بعض لوگوں کی عادت بن گئی ہے۔ خدا کے کلام میں اِس عادت سے سختی سے منع کِیا گیا ہے۔ اِس عادت میں پڑنے سے ایک شخص بڑی خطرناک روش اختیار کرتا ہے۔ اگر وہ اصلاح کو قبول نہیں کرتا اور اپنی روش سے باز آنے کی کوشش نہیں کرتا تو اُسے کلیسیا سے خارج کِیا جا سکتا ہے۔ اِس روش پر چلتے رہنے سے وہ خود کو خدا کی بادشاہت کی برکتوں سے محروم کرے گا۔ (۱-کرنتھیوں ۵:۱۱-۱۳؛ ۶:۹، ۱۰) اگر ہم اپنی باتوں سے دوسروں کو دُکھ پہنچائیں گے یا پھر اُن کی بدنامی کریں گے تو ہم خدا کی محبت میں قائم نہیں رہیں گے۔
فائدہمند باتیں
۱۵. کس قسم کی باتیں دوسروں کے لئے فائدہمند ہوتی ہیں؟
۱۵ اپنی زبان کو خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کرنے میں کیا کچھ شامل ہے؟ یاد کریں کہ خدا کے کلام میں ہمیں ایسی باتیں کرنے کی تاکید کی گئی ہے جو ”ترقی کے لئے اچھی“ ہوں یعنی جو دوسروں کے لئے فائدہمند ہوں۔ (افسیوں ۴:۲۹) جب ہم دوسروں کی ہمت بڑھاتے اور اُن کی دلجوئی کرتے ہیں تو یہوواہ خدا خوش ہوتا ہے۔ خدا کے کلام میں ہر ایک صورتحال کے لئے یہ نہیں بتایا گیا کہ ہمیں دوسروں کی حوصلہافزائی کرنے کے لئے کیا کچھ کہنا چاہئے۔ لہٰذا ہمیں اچھی طرح سے سوچ لینا چاہئے کہ کس قسم کی باتیں دوسروں کے لئے فائدہمند ثابت ہوں گی۔ یہ ایسی باتیں ہیں جن کا دوسروں پر اچھا اثر ہوتا ہے، جو سچ پر مبنی ہوتی ہیں اور جن سے شفقت ظاہر ہوتی ہے۔ آئیں ہم ایسی فائدہمند باتوں کی چند مثالوں پر غور کریں۔—صفحہ ۱۴۰ پر بکس ”کیا میری باتیں دوسروں کے لئے فائدہمند ہیں؟“ کو دیکھیں۔
۱۶، ۱۷. (ا) ہمیں دوسروں کو کیوں داد دینی چاہئے؟ (ب) کلیسیا میں اور خاندان میں دوسروں کو داد دینے کے کچھ موقعے بیان کریں۔
۱۶ داد اور تعریف۔ یہوواہ خدا اور یسوع مسیح نے اکثر دوسروں کی تعریف کی اور اُن کو بتایا کہ وہ اُن سے خوش ہیں۔ (متی ۳:۱۷؛ ۲۵:۱۹-۲۳؛ یوحنا ۱:۴۷) مسیحیوں کو بھی دل سے دوسروں کو داد دینی چاہئے۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”باموقع بات کیا خوب ہے!“ (امثال ۱۵:۲۳) لہٰذا دوسروں کی تعریف کرنے کا موقع ہاتھ سے نکلنے نہ دیں۔ خود سے پوچھیں کہ ”جب میری تعریف کی جاتی ہے تو مَیں کیسا محسوس کرتا ہوں؟“ یقیناً آپ کا دل خوش ہوتا ہے اور آپ کی ہمت بڑھتی ہے۔ جب کوئی دل سے آپ کو داد دیتا ہے تو آپ جان جاتے ہیں کہ وہ آپ میں دلچسپی لیتا ہے، اُسے آپ کی فکر ہے اور وہ آپ کی کوششوں کی قدر کرتا ہے۔ اِس طرح آپ کا اعتماد بڑھتا ہے اور آپ آئندہ اَور بھی دل لگا کر محنت کرنے کا عزم کر لیتے ہیں۔ اگر آپ اِس بات پر خوش ہوتے ہیں کہ آپ کو داد ملی ہے تو ظاہر ہے کہ آپ کو بھی دوسروں کو داد دینی چاہئے۔—متی ۷:۱۲۔
۱۷ اِس بات پر توجہ دیں کہ دوسرے لوگوں میں کونسی خوبیاں ہیں اور پھر اُن کی تعریف کریں۔ کلیسیا میں دوسروں کو داد دینے کے بہت سے موقعے ہوتے ہیں، مثلاً جب کوئی بھائی اچھی تقریر پیش کرتا ہے، جب ایک نوجوان خدا کی خدمت میں آگے بڑھتا ہے یاپھر جب ایک مسیحی ضعیف ہونے کے باوجود بھی باقاعدگی سے اجلاسوں پر آتا ہے۔ اپنے مسیحی بہنبھائیوں کو داد دینے سے آپ اُن کے دل کو خوش کرتے ہیں اور وہ اَور بھی دل لگا کر یہوواہ خدا کی خدمت کریں گے۔ اِسی طرح خاندان میں بھی دوسروں کو داد دینے کے بہت سے موقعے ہوتے ہیں۔ جب شوہر اور بیوی ایک دوسرے کی دل سے قدر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی تعریف کرتے ہیں تو اُن میں محبت بڑھتی ہے۔ (امثال ۳۱:۱۰، ۲۸) بچوں کے لئے بہت اہم ہے کہ اُنہیں پیار اور توجہ دی جائے۔ یہ اُن کے لئے اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ ایک پودے کے لئے روشنی اور پانی ضروری ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کو داد دینے کے موقعوں کی تلاش میں رہیں اور اُن کی کوششوں کی قدر کریں۔ جب بچوں کو داد دی جاتی ہے تو اُن کا حوصلہ بڑھتا ہے اور وہ اچھے کام کرنے کی اَور بھی کوشش کرتے ہیں۔
۱۸، ۱۹. (ا) ہمیں غمگین اور دُکھی مسیحیوں کو تسلی کیوں دینی چاہئے؟ (ب) ہم ایک مسیحی بہن یا بھائی کو تسلی دینے کے لئے کیا کہہ سکتے ہیں؟
۱۸ تسلی اور دلاسا۔ یہوواہ خدا کو ایسے لوگوں کی فکر ہے جو ”شکستہدل اور فروتن“ ہیں۔ (یسعیاہ ۵۷:۱۵) اُس کے کلام میں ہمیں یوں تاکید کی گئی ہے کہ ”تُم ایک دوسرے کو تسلی دو“ اور ”کمہمتوں کو دلاسا دو۔“ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۱، ۱۴) جب ہم ایسے مسیحیوں کو تسلی دیتے ہیں جو غم اور دُکھ کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں تو یہوواہ خدا بہت خوش ہوتا ہے۔
۱۹ ہم ایک شکستہدل مسیحی کو تسلی دینے کے لئے کیا کہہ سکتے ہیں؟ یہ نہ سوچیں کہ آپ کو اُس کے مسئلے کا حل ڈھونڈنا پڑے گا۔ اکثر یہی کافی ہوتا ہے کہ آپ اُس کے ساتھ خلوصدلی سے بات کریں۔ اُس بہن یا بھائی کو بتائیں کہ آپ کو اُس کی کتنی فکر ہے۔ اُس سے پوچھیں کہ ”کیا مَیں آپ کے ساتھ ملکر دُعا کر سکتا ہوں؟“ اُس کے ساتھ دُعا کرتے وقت آپ اِس بات کا ذکر کر سکتے ہیں کہ یہوواہ خدا اور اُس کے مسیحی بہنبھائی اُس سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ (یعقوب ۵:۱۴، ۱۵) اُسے اِس بات کا یقین دلائیں کہ کلیسیا کے بہنبھائیوں کو اُس کی ضرورت ہے اور وہ اُس کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۲:۱۲-۲۶) اُسے بائبل سے کوئی ایسی آیت پڑھ کر سنائیں جس سے وہ سمجھ جائے کہ یہوواہ خدا کو اُس کی بڑی فکر ہے۔ (زبور ۳۴:۱۸؛ متی ۱۰:۲۹-۳۱) اُس کے ساتھ اطمینان سے بیٹھ کر بات کریں اور اُسے بڑے خلوص سے تسلی دیں۔ آپ کی ”اچھی بات“ سے اُسے احساس ہوگا کہ اُس کی قدر کی جاتی ہے۔—امثال ۱۲:۲۵۔
۲۰، ۲۱.کسی کی اصلاح کرتے وقت آپ اُس کے دل کو کیسے چُھو سکتے ہیں؟
۲۰ اصلاح اور نصیحت۔ ہم سب سے غلطیاں ہو جاتی ہیں اِس لئے ہم سب کو اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”مشورت کو سُن اور تربیتپذیر ہو تاکہ تُو آخرکار دانا ہو جائے۔“ (امثال ۱۹:۲۰) صرف کلیسیا کے بزرگ دوسروں کی اصلاح نہیں کرتے بلکہ والدین اپنے بچوں کی اصلاح کرتے ہیں اور کبھیکبھار عمررسیدہ بہنیں، جوان بہنوں کو نصیحت کرتی ہیں۔ (افسیوں ۶:۴؛ ططس ۲:۳-۵) چونکہ ہم دوسروں سے محبت رکھتے ہیں اِس لئے ہم اُن کی اصلاح ایسے انداز میں نہیں کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دلبرداشتہ ہو جائیں۔ کسی کی اصلاح کرتے وقت آپ کیا کر سکتے ہیں تاکہ آپ کی بات اُس کے دل کو چُھو لے؟ خود سے پوچھیں کہ ”مَیں کس نیت سے اُس کی اصلاح کرنا چاہتا ہوں؟ میں اُس سے جو کچھ کہوں گا کیا یہ بائبل پر مبنی ہے؟ مَیں کس انداز میں اُس کی اصلاح کروں گا؟“
۲۱ ذرا سوچیں کہ آپ کو اصلاح قبول کرنا کب زیادہ آسان لگتا ہے؟ آپ اِس بات سے متفق ہوں گے کہ ایک ایسے شخص سے اصلاح قبول کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے جسے آپ کی فکر ہے، جو آپ سے ناراض نہیں ہے اور جو آپ کی بہتری چاہتا ہے۔ دوسروں کی اصلاح کرنے میں آپ کی نیت بھی ایسی ہی ہونی چاہئے۔ جب آپ کسی کی اصلاح کرتے ہیں تو آپ کی باتیں تب ہی مؤثر ہوں گی اگر یہ خدا کے کلام پر مبنی ہوں۔ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶) چاہے آپ بائبل کا حوالہ دے رہے ہوں یا نہیں، آپ کی نصیحت کو بائبل کے اصولوں کے مطابق ہونا چاہئے۔ اِس لئے کلیسیا کے بزرگوں کو اپنی ذاتی رائے کی بِنا پر دوسروں کی اصلاح نہیں کرنی چاہئے۔ اُنہیں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے بائبل کی آیتوں کا غلط اطلاق بھی نہیں کرنا چاہئے۔ اِس کے علاوہ کسی کی اصلاح کرتے وقت آپ جو کچھ کہیں گے، یہ تب زیادہ مؤثر ہوگا جب یہ صحیح انداز میں کہا جائے۔ جس طرح کھانا نمک ڈالنے سے مزےدار ہو جاتا ہے اِسی طرح ایسی اصلاح کو قبول کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے جو شفقت بھرے انداز میں دی جائے۔—کلسیوں ۴:۶۔
۲۲. آپ نے بولنے کی صلاحیت کس طرح استعمال کرنے کا عزم کِیا ہے؟
۲۲ بِلاشُبہ بولنے کی صلاحیت خالق کی طرف سے ایک بیشقیمت بخشش ہے۔ چونکہ ہم یہوواہ خدا سے محبت رکھتے ہیں اِس لئے ہم اِس بخشش کو غلط طریقے سے نہیں استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ ہماری باتوں کا دوسروں پر یا تو اچھا یا پھر بُرا اثر ہو سکتا ہے۔ لہٰذا آئیں ہم بولنے کی صلاحیت کو خدا کی مرضی کے مطابق استعمال کریں۔ یوں ہماری باتیں دوسروں کے لئے فائدہمند ہوں گی اور ہم خدا کی محبت میں قائم رہیں گے۔
a امثال ۱۵:۴ میں جس عبرانی لفظ کا ترجمہ ”کجگوئی“ کِیا گیا ہے اِس کا مطلب ”دغاباز“ بھی ہے۔
b جس یونانی لفظ کا ترجمہ اِس آیت میں ”باطل“ کِیا گیا ہے، دوسرے صحیفوں میں اِس کا ترجمہ ”بیفائدہ“ اور ”نکما“ بھی کِیا گیا ہے۔—۱-کرنتھیوں ۱۵:۱۷؛ ۱-پطرس ۱:۱۸۔
c لفظ ”ناپاکی“ بہت وسیع معنی رکھتا ہے اور اِس میں بہت سے مختلف گُناہ شامل ہیں۔ ”ناپاکی“ میں کچھ ایسے گُناہ شامل ہیں جن کے لئے کلیسیا کے بزرگوں کی عدالتی کمیٹی کو کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اگر ایک مسیحی ہٹدھرمی سے سنگین قسم کے ناپاک کام کرتا ہے اور توبہ نہیں کرتا تو اُسے کلیسیا سے خارج کِیا جا سکتا ہے۔—۲-کرنتھیوں ۱۲:۲۱؛ افسیوں ۴:۱۹۔