’سچے ہونٹ ہمیشہ قائم رہینگے‘
پورے جنگل کو بھسم کرنے والی آگ کی طرح یہ ایک شخص کی مکمل زندگی کو برباد کرنے کے قابل ہے۔ یہ زہرِقاتل ہونے کے علاوہ ”حیات کا درخت“ بھی ہے۔ (امثال ۱۵:۴) زندگی اور موت اسکے ہاتھ میں ہے۔ (امثال ۱۸:۲۱) یہ چھوٹا سا مگر طاقتور عضو، ہماری زبان سارے جسم کو داغ لگاتا ہے۔ (یعقوب ۳:۵-۹) ہم اپنی زبان کو قابو میں رکھ کر دانشمندی کا ثبوت دیتے ہیں۔
بائبل میں امثال کی کتاب کے ۱۲ ویں باب کے دوسرے حصے میں قدیم اسرائیل کے بادشاہ سلیمان نے بیشقیمت نصیحت فراہم کی ہے جو باتچیت میں محتاط رہنے میں ہماری مدد کرتی ہے۔ دانشمند بادشاہ جامع اور عملی مثلوں کے ذریعے ظاہر کرتا ہے کہ الفاظ نتیجہخیز ہونے کے علاوہ بولنے والے کی خوبیوں کی بابت بھی بہت کچھ آشکارا کرتے ہیں۔ سلیمان کی الہامی مشورت ایک ایسے شخص کے لئے نہایت اہم ہے جو ’اپنے مُنہ پر پہرا بٹھانا‘ چاہتا ہے۔—زبور ۱۴۱:۳۔
’خطاکاری ایک پھندا ہے‘
سلیمان بیان کرتا ہے، ”لبوں کی خطاکاری میں شریر کیلئے پھندا ہے لیکن صادق مصیبت سے بچ نکلے گا۔“ (امثال ۱۲:۱۳) جھوٹ لبوں کی ایک ایسی خطاکاری ہے جو جھوٹے شخص کیلئے ایک تباہکُن پھندا ثابت ہوتی ہے۔ (مکاشفہ ۲۱:۸) بددیانتی سزا یا ناخوشگوار صورتحال سے بچ نکلنے کی آسان راہ دکھائی دے سکتی ہے۔ تاہم کیا ایک جھوٹ مزید جھوٹ بولنے کا سبب نہیں بنتا؟ جیساکہ تھوڑے سے پیسوں کیساتھ جوأ شروع کرنے والا شخص ہاری ہوئی رقم کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے بڑی سے بڑی شرط لگانے کی طرف مائل ہوتا ہے اسی طرح ایک جھوٹا شخص بہت جلد اپنی ہی باتوں میں پھنستا چلا جاتا ہے۔
لبوں کی خطاکاری پھانسنے کا مزید سبب بنتی ہے اسلئےکہ ایک جھوٹا شخص آخرکار خود سے بھی جھوٹ بول سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک جھوٹا شخص بہت آسانی سے خود کو قائل کر سکتا ہے کہ وہ بہت ذہین اور ہوشیار ہے جبکہ حقیقت میں وہ بہت کم جانتا ہے۔ یوں وہ ایک جھوٹی زندگی بسر کرنے لگتا ہے۔ واقعی، ”وہ اپنے آپکو اپنی نظر میں اس خیال سے تسلی دیتا ہے کہ اُسکی بدی نہ تو فاش ہوگی نہ مکروہ سمجھی جائیگی۔“ (زبور ۳۶:۲) جھوٹ کتنا بڑا پھندا ثابت ہوتا ہے! اسکے برعکس راستباز شخص خود کو ایسی مشکل صورتحال میں نہیں ڈالتا۔ دباؤ کے تحت بھی وہ جھوٹی زبان کا سہارا نہیں لیتا۔
’نیکی کا پھل آسودہ کرتا ہے‘
پولس رسول نے آگاہی دی، ”فریب نہ کھاؤ۔ خدا ٹھٹھوں میں نہیں اُڑایا جاتا کیونکہ آدمی جوکچھ بوتا ہے وہی کاٹیگا۔“ (گلتیوں ۶:۷) واقعی، اس اصول کا اطلاق ہماری باتچیت کے علاوہ ہمارے اعمال پر بھی ہوتا ہے۔ سلیمان بیان کرتا ہے: ”آدمی کے کلام کا پھل اُسکو نیکی سے آسودہ کریگا اور اُسکے ہاتھوں کے کئے کی جزا اُسکو ملیگی۔“—امثال ۱۲:۱۴۔
جس مُنہ سے ”دانائی نکلتی ہے“ وہ تسکینبخش پھل پیدا کرتا ہے۔ (زبور ۳۷:۳۰) حکمت علم کا تقاضا کرتی ہے اور کوئی بھی انسان تمام علم کا مالک نہیں ہے۔ سب کو عمدہ مشورت سننے اور اُس پر دھیان دینے کی ضرورت ہے۔ ”احمق کی روش اُسکی نظر میں درست ہے“ اسرائیل کا بادشاہ بیان کرتا ہے، ”لیکن دانا نصیحت کو سنتا ہے۔“—امثال ۱۲:۱۵۔
یہوواہ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی فراہمکردہ مطبوعات کے استعمال اور اپنے کلام اور اپنی تنظیم کے ذریعے عمدہ مشورت فراہم کرتا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵؛ ۲-تیمتھیس ۳:۱۶) اچھی مشورت کو رد کرنا اور اپنی منمانی کرنا کتنی بڑی حماقت ہے! جب یہوواہ ”جو . . . انسان کو دانش سکھاتا ہے“ اپنے رابطے کے ذریعے سے مشورت دیتا ہے تو ہمیں ”سننے میں تیز“ ہونا چاہئے۔—یعقوب ۱:۱۹؛ زبور ۹۴:۱۰۔
دانشمند اور احمق توہین یا متعصّبانہ تنقید کیلئے کیسا جوابیعمل دکھاتے ہیں؟ سلیمان جواب دیتا ہے: ”احمق کا غضب فوراً ظاہر ہو جاتا ہے لیکن ہوشیار ندامت کو چھپاتا ہے۔“—امثال ۱۲:۱۶۔
جب ایک احمق شخص کی توہین ہوتی ہے تو وہ بہت جلد—”فوراً“ غصے کا اظہار کرتا ہے۔ تاہم ہوشیار شخص ضبطِنفس کا مظاہرہ کرنے کیلئے خدا کی روح کیلئے دُعا کرتا ہے۔ وہ خدا کے کلام کی مشورت اور شکرگزاری کیساتھ یسوع کے ان الفاظ پر غور کرنے کیلئے وقت نکالتا ہے: ”جو کوئی تیرے دہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُسکی طرف پھیر دے۔“ (متی ۵:۳۹) ”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ“ کرنے کی خواہش میں دانشمند شخص اپنے ہونٹوں کو بِلاتامل باتوں سے باز رکھتا ہے۔ (رومیوں ۱۲:۱۷) اسی طرح جب ہم ندامت کا سامنا کرتے وقت تحمل سے کام لیتے ہیں تو ہم مزید جھگڑے کو طول نہیں دیتے۔
’صحتبخش زبان‘
لبوں کی خطاکاری کسی عدالتی کارروائی میں بہت نقصان پہنچا سکتی ہے۔ اسرائیل کا بادشاہ بیان کرتا ہے: ”راستگو صداقت ظاہر کرتا ہے لیکن جھوٹا گواہ دغابازی۔“ (امثال ۱۲:۱۷) سچا گواہ صداقت ظاہر کرتا ہے اسلئےکہ اُسکی شہادت معتبر اور قابلِبھروسا ہے۔ اُسکے الفاظ انصاف کرنے میں مدد دیتے ہیں۔ اسکے برعکس، جھوٹا گواہ بڑے پُرفریب طریقے سے انصاف کو بگاڑتا ہے۔
”بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں لیکن دانشمند کی زبان صحتبخش ہے۔“ (امثال ۱۲:۱۸) کسی کی باتیں دوستیاں توڑ کر فساد برپا کرتے ہوئے تلوار کی طرح چھید سکتی ہیں۔ یا یہ خوشگوار اور دلکش الفاظ دوستیاں قائم رکھ سکتے ہیں۔ نیز کیا نام بگاڑنا، چلّانا، مسلسل تنقید کرنا اور توہینآمیز حقارت کرنا گہرے جذباتی گھاؤ نہیں لگاتا؟ اس سلسلے میں اپنی غلطی کو مخلصانہ معافی کے صحتبخش الفاظ کیساتھ درست کرنا کتنی عمدہ بات ہے!
جس مشکل وقت میں ہم رہتے ہیں اُس میں بہتیرے ”شکستہ دلوں“ اور ”خستہجانوں“ کی موجودگی کوئی حیرانکُن بات نہیں۔ (زبور ۳۴:۱۸) جب ہم ”کمہمتوں کو دلاسا“ دیتے اور ’کمزوروں کو سنبھالتے‘ ہیں تو کیا ہم باتوں کی صحتبخش طاقت کو عمل میں نہیں لاتے؟ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۱۴) جیہاں، تسلیبخش الفاظ نقصاندہ ہمسروں کے دباؤ کی مزاحمت کرنے والے نوجوانوں کی حوصلہافزائی کر سکتے ہیں۔ محتاط زبان عمررسیدہ لوگوں کو یقین دلا سکتی ہے کہ ہمیں اُنکی ضرورت ہے اور ہم اُن سے محبت رکھتے ہیں۔ مہربانہ باتچیت یقیناً بیماروں کیلئے دن کو خوشگوار بنا سکتی ہے۔ اسکے علاوہ، ”حلم مزاجی سے“ کی جانے والی ملامت کو قبول کرنا بھی آسان ہوتا ہے۔ (گلتیوں ۶:۱) نیز اُس شخص کے الفاظ کتنے صحتبخش ہوتے ہیں جو خدا کی بادشاہتی خوشخبری کو اُن لوگوں تک پہنچاتا ہے جو اسے سننا چاہتے ہیں!
’ہمیشہ تک قائم رہنے والے ہونٹ‘
لفظ ”ہونٹ“ اور ”زبان“ کو ایک ساتھ استعمال کرتے ہوئے سلیمان بیان کرتا ہے: ”سچے ہونٹ ہمیشہ تک قائم رہینگے لیکن جھوٹی زبان صرف دمبھر کی ہے۔“ (امثال ۱۲:۱۹) عبرانی میں ”سچے ہونٹ“ کی اصطلاح واحد میں ہے اور اسکا مفہوم سچ بولنے سے زیادہ گہرا ہے۔ ایک کتاب بیان کرتی ہے، ”یہ دوامیت، مضبوطی اور اعتبار جیسی خوبیوں کا اشارہ دیتی ہے۔ اس خوبی کو ظاہر کرنے والی باتچیت قابلِاعتماد ہونے کی وجہ سے قائم رہتی ہے، اسکے برعکس، جھوٹی زبان . . . کچھ وقت کیلئے دھوکا دے سکتی ہے لیکن آزمائش کے وقت قائم نہیں رہتی۔“
”بدی کے منصوبے باندھنے والوں کے دل میں دغا ہے لیکن صلح کی مشورت دینے والوں کیلئے خوشی ہے صادق پر کوئی آفت نہیں آئیگی لیکن شریر بلا میں مبتلا ہونگے۔“—امثال ۱۲:۲۰، ۲۱۔
بدی کے منصوبے باندھنے والے صرف تکلیف اور دُکھ پہنچاتے ہیں۔ اسکے برعکس، صلح کی مشورت دینے والے درست کام کرنے سے اطمینان حاصل کرتے ہیں۔ وہ اچھے نتائج دیکھنے سے بھی خوشی حاصل کرتے ہیں۔ سب سے بڑھکر، وہ خدا کی مقبولیت سے مستفید ہوتے ہیں اسلئےکہ ”جھوٹے لبوں سے [یہوواہ] کو نفرت ہے لیکن راستکار اُسکی خوشنودی ہیں۔“—امثال ۱۲:۲۲۔
’ علم کو چھپانے والی باتچیت‘
اسرائیل کا بادشاہ الفاظ کا محتاط استعمال کرنے اور نہ کرنے والے شخص کے درمیان ایک اَور فرق کو بھی بیان کرتا ہے: ”ہوشیار آدمی علم کو چھپاتا ہے لیکن احمق کا دل حماقت کی منادی کرتا ہے۔“—امثال ۱۲:۲۳۔
ایک ہوشیار یا دانا شخص جانتا ہے کہ اُسے کب بولنا اور کب خاموش رہنا چاہئے۔ وہ اپنے علم کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے اسے چھپاتا ہے۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ اپنے علم کو ہمیشہ چھپاتا ہے۔ اس کی بجائے وہ احتیاط کے ساتھ اسے ظاہر کرتا ہے۔ اس کے برعکس، احمق بولنے میں جلدبازی کرتا ہے اور اپنی حماقت سب پر ظاہر کرتا ہے۔ پس ہمیں احتیاط کے ساتھ باتچیت کرتے ہوئے ڈینگیں مارنے سے گریز کرنا چاہئے۔
سلیمان موازنہ کرنا جاری رکھتے ہوئے محنت اور کاہلی کی بابت ایک اثرآفرین نکتہ واضح کرتا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”محنتی آدمی کا ہاتھ حکمران ہوگا۔ لیکن سُست آدمی باجگذار بنیگا۔“ (امثال ۱۲:۲۴) محنت ترقی اور مالی طور پر خودمختار بننے کا باعث ہے جبکہ کاہلی باجگذاری اور غلامی کا سبب بنتی ہے۔ ایک عالم بیان کرتا ہے، ایک کاہل شخص ”وقت آنے پر ایک محنتی شخص کا غلام بن جائیگا۔“
’خوش کرنے والی بات‘
بادشاہ سلیمان انسانی فطرت کی بابت گہرے مشاہدے کے ساتھ باتچیت کے معاملے کو دوبارہ زیرِغور لاتا ہے۔ ”آدمی کا دل فکرمندی سے دب جاتا ہے لیکن اچھی بات سے خوش ہوتا ہے۔“—امثال ۱۲:۲۵۔
ایک شخص کے دل کو افسردہ کرنے والی بہت سی پریشانیاں اور فکریں موجود ہیں۔ ایک ہمدرد شخص کی طرف سے حوصلہافزائی کی اچھی بات اس افسردگی کو کم اور دل کو خوش کرتی ہے۔ تاہم، اگر ہم اپنے احساسات کا اظہار نہ کریں اور انکی بابت بات نہ کریں تو دوسرے ہمارے دل کی فکرمندی کو کیسے جانیں گے؟ جیہاں، پریشانی یا افسردگی کا تجربہ کرتے وقت ہمیں ایک ہمدرد شخص کو اپنے دل کا حال بتانا چاہئے جو ہماری مدد کر سکتا ہے۔ علاوہازیں، احساسات کا اظہار کرنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔ لہٰذا بیاہتا ساتھی، والدین یا کسی ہمدرد اور روحانی دوست کو دل کا حال بتانا بہتر ہوتا ہے۔
کیا بائبل میں پائے جانے والے حوصلہافزا الفاظ سے بہتر کوئی اَور الفاظ بھی ہیں؟ پس ہمیں اُسکے الہامی کلام پر قدرافزائی کے ساتھ غور کرتے ہوئے خدا کے قریب جانا چاہئے۔ ایسا غوروخوض واقعی ایک پریشان دل کو خوشی اور افسردہ آنکھوں کو نور بخش سکتا ہے۔ زبورنویس اس بات کی تصدیق میں بیان کرتا ہے: ”[یہوواہ] کی شریعت کامل ہے۔ وہ جان کو بحال کرتی ہے۔ [یہوواہ] کی شہادت برحق ہے۔ نادان کو دانش بخشتی ہے۔ [یہوواہ] کے قوانین راست ہیں۔ وہ دل کو فرحت پہنچاتے ہیں۔ [یہوواہ] کا حکم بےعیب ہے۔ وہ آنکھوں کو روشن کرتا ہے۔“—زبور ۱۹:۷، ۸۔
ایک بااَجر راہ
راستباز اور شریر کی روش کا موازنہ کرتے ہوئے اسرائیل کا بادشاہ بیان کرتا ہے: ”صادق اپنے ہمسایہ کی راہنمائی کرتا ہے لیکن شریروں کی روش اُنکو گمراہ کر دیتی ہے۔“ (امثال ۱۲:۲۶) راستباز اپنی چراگاہ—ساتھیوں اور دوستوں—کی بابت محتاط رہتا ہے جنہیں وہ خود منتخب کرتا ہے۔ وہ دانشمندی سے انکا انتخاب کرتا ہے اور خطرناک رفاقتوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ شریر کے معاملے میں ایسا نہیں ہے جو مشورت کو نظرانداز کرتا ہے اور اپنی مرضی پوری کرتا ہے۔ نتیجتاً ایسے لوگ گمراہ ہو جاتے ہیں۔
اس کے بعد بادشاہ سلیمان کاہل اور محنتی شخص کے درمیان فرق کو ایک اَور زاویے سے بیان کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے، ”سُست آدمی شکار پکڑ کر کباب نہیں کرتا لیکن انسان کی گرانبہا دولت محنتی پاتا ہے۔“ (امثال ۱۲:۲۷) کاہل شخص—”سُست آدمی“ اپنا شکار ”شروع“ یا ”کھانے کیلئے تیار“ نہیں کرتا۔ (نیو ورلڈ ٹرانسلیشن) واقعی، وہ کام کو شروع کرتا ہے لیکن اسے ختم نہیں کر سکتا۔ اسکے برعکس محنت دولت کے مترادف ہے۔
سُستی اسقدر نقصاندہ ہے کہ پولس رسول نے تھسلنیکے کے ساتھی مسیحیوں کو اسکی بابت خط لکھنا اور وہاں کے بعض اشخاص کی اصلاح کرنا ضروری خیال کِیا جو ”بےقاعدہ چلتے“ تھے—وہ کچھ کام نہیں کرتے بلکہ اَوروں کے کام میں دخل دیتے تھے۔ ایسے اشخاص دوسروں پر مالی بوجھ ڈال رہے تھے۔ لہٰذا پولس نے انہیں ’چپچاپ کام کرکے اپنی ہی روٹی کھانے‘ کی نصیحت کی۔ نیز اُنکی طرف سے اس ٹھوس نصیحت پر عمل نہ کرنے کی صورت میں پولس نے کلیسیا کے دیگر ارکان کو ان سے ”کنارہ“ کرنے—بدیہی طور پر سماجی معاملات میں ان سے دُور رہنے—کی نصیحت کی۔—۲-تھسلنیکیوں ۳:۶-۱۲۔
ہمیں محنتی ہونے کے علاوہ زبان کے مناسب استعمال کی بابت بھی سلیمان کی نصیحت پر دھیان دینا چاہئے۔ آئیے لبوں کی خطاکاری سے اجتناب اور راست روش پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے اس چھوٹے سے عضو کو شفا اور خوشی بخشنے کیلئے استعمال کریں۔ سلیمان ہمیں یقیندہانی کراتا ہے، ”صداقت کی راہ میں زندگی ہے اور اُسکے راستہ میں ہرگز موت نہیں۔“—امثال ۱۲:۲۸۔
[صفحہ ۲۷ پر تصویریں]
”دانا نصیحت کو سنتا ہے“
[صفحہ ۲۸ پر تصویریں]
”دانشمند کی زبان صحتبخش ہے۔“
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
قابلِاعتماد دوست کو دل کا حال بتانا تسلی کا باعث ہوتا ہے
[صفحہ ۳۰ پر تصویر]
قدرافزائی کیساتھ خدا کے کلام پر غور کرنا دل کو شاد کرتا ہے