”ہوشیاری“ دکھائیں جبکہ خاتمہ قریب ہے
”سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔ پس ہوشیار رہو۔“—۱-پطرس ۴:۷۔
۱. ”ہوشیار“ رہنے میں کیا کچھ شامل ہے؟
پطرس رسول کے مندرجہبالا الفاظ کو مسیحیوں کے طرزِزندگی پر گہرا اثر ڈالنا چاہئے۔ تاہم، پطرس نے اپنے قارئین کو اپنی دُنیاوی ذمہداریوں یا زندگی کی دیگر فکروں کو نظرانداز کرنے کیلئے نہیں کہا؛ نہ ہی اُس نے آنے والی تباہی سے خوفزدہ ہونے کی حوصلہافزائی کی۔ اِسکی بجائے، اُس نے تاکید کی: ”ہوشیار“ رہو۔ ”ہوشیار“ رہنے میں اچھی بصیرت کا اظہار کرنا، فہیم، دانشمند اور اپنے اقوالوافعال میں معقول ہونا شامل ہے۔ اِسکا مطلب ہے کہ خدا کے کلام کو اپنی سوچ اور اعمال پر قابو رکھنے دیں۔ (رومیوں ۱۲:۲) چونکہ ہم ”ٹیڑھے اور کجرو لوگوں“ میں رہتے ہیں لہٰذا مسائل اور مشکلات سے بچنے کیلئے ہوشیار رہنا بہت ضروری ہے۔—فلپیوں ۲:۱۵۔
۲. آجکل مسیحیوں کیلئے یہوواہ کا تحمل کس طرح فائدہمند ہے؟
۲ ”ہوشیاری“ اپنے متعلق ایک سنجیدہ اور حقیقتپسندانہ نظریہ رکھنے میں بھی ہماری مدد کریگی۔ (ططس ۲:۱۲؛ رومیوں ۱۲:۳) یہ ۲-پطرس ۳:۹ میں درج الفاظ کی روشنی میں ضروری ہے: ”خداوند اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے اِسلئےکہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“ غور کریں کہ یہوواہ نہ صرف بےایمانوں کیساتھ، بلکہ ”تمہارے بارے میں“—مسیحی کلیسیا کے اراکین کے بارے میں بھی تحمل کرتا رہا ہے۔ کیوں؟ اِسلئےکہ ”وہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا۔“ شاید بعض کو ابھی تک ہمیشہ کی زندگی کی بخشش کے لائق ٹھہرنے کیلئے تبدیلی لانے یا ردوبدل کرنے کی ضرورت ہے۔ لہٰذا آئیے چند ایسے حلقوں کا جائزہ لیں جن میں شاید کچھ ردوبدل کرنے کی ضرورت ہو۔
اپنے ذاتی تعلقات میں ”ہوشیاری“ دکھانا
۳. والدین اپنے بچوں کے سلسلے میں خود سے کونسے سوال پوچھ سکتے ہیں؟
۳ گھر کو امنوسکون کا گہوارہ ہونا چاہئے۔ لیکن بعض ”گھر جھگڑے سے . . . پُر“ ہوتے ہیں۔ (امثال ۱۷:۱، اینڈبلیو) آپ کے خاندان کی بابت کیا ہے؟ کیا آپ کا گھر ”غصہ اور شوروغل اور بدگوئی“ سے پاک ہے؟ (افسیوں ۴:۳۱) آپ کے بچوں کی بابت کیا ہے؟ کیا وہ محبت اور قدر کئے جانے کا احساس رکھتے ہیں؟ (مقابلہ کریں لوقا ۳:۲۲۔) کیا آپ اُن کی تعلیموتربیت کے لئے وقت دے رہے ہیں؟ کیا آپ اُنہیں غصے اور طیش کی بجائے ’راستبازی میں تربیت‘ دے رہے ہیں؟ (۲-تیمتھیس ۳:۱۶) بچے چونکہ ”خداوند کی طرف سے میراث“ ہیں لہٰذا وہ اِس میں گہری دلچسپی رکھتا ہے کہ اُن سے کیسا برتاؤ کِیا جاتا ہے۔—زبور ۱۲۷:۳۔
۴. (ا) اگر ایک شوہر اپنی بیوی کیساتھ سختی سے پیش آتا ہے تو اِسکا کیا نتیجہ برآمد ہو سکتا ہے؟ (ب) بیویاں کس طرح سے خدا کیساتھ امن اور سارے خاندان میں خوشی کو فروغ دے سکتی ہیں؟
۴ ہمارے بیاہتا ساتھی کی بابت کیا ہے؟ ”شوہروں کو لازم ہے کہ اپنی بیویوں سے اپنے بدن کی مانند محبت رکھیں۔ جو اپنی بیوی سے محبت رکھتا ہے وہ اپنے آپ سے محبت رکھتا ہے۔ کیونکہ کبھی کسی نے اپنے جسم سے دشمنی نہیں کی بلکہ اُسے پالتا اور پرورش کرتا ہے جیسےکہ مسیح کلیسیا کو۔“ (افسیوں ۵:۲۸، ۲۹) ایک غیرمعقول، حاکمیت جتانے اور بدسلوکی کرنے والا شخص نہ صرف اپنے گھر کے سکون کو خطرے میں ڈالتا ہے بلکہ خدا کے ساتھ اپنے رشتے کو بھی کمزور بنا لیتا ہے۔ (۱-پطرس ۳:۷) بیویوں کی بابت کیا ہے؟ اُنہیں بھی چاہئے کہ ”اپنے شوہروں کی ایسی تابع [رہیں] جیسی خداوند کی۔“ (افسیوں ۵:۲۲) خدا کی خوشنودی کو مدِنظر رکھنا، ایک بیوی کی اپنے شوہر کی خامیوں کو نظرانداز کرتے ہوئے آزردگی رکھے بغیر اُسکے تابع رہنے میں مدد کر سکتا ہے۔ بعضاوقات، ایک بیوی شاید اپنی رائے کا اظہار کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ امثال ۳۱:۲۶ ایک لائق بیوی کی بابت بیان کرتی ہے: ”اُسکے مُنہ سے حکمت کی باتیں نکلتی ہیں۔ اُسکی زبان پر شفقت کی تعلیم ہے۔“ اپنے شوہر کیلئے مہربانہ اور بااحترام رویہ ظاہر کرنے سے، وہ خدا کے ساتھ امن کو بحال رکھتی اور سارے خاندان کی خوشی میں اضافہ کرتی ہے۔—امثال ۱۴:۱۔
۵. نوجوانوں کو اپنے والدین کیساتھ برتاؤ کے سلسلے میں بائبل مشورت کی پیروی کیوں کرنی چاہئے؟
۵ نوجوانو! آپ اپنے والدین سے کیسا برتاؤ کرتے ہیں؟ کیا آپ طنزآمیز یا بےادبی والی ایسی باتچیت کرتے ہیں جسکی دُنیا میں عموماً برداشت کی جاتی ہے؟ یا آپ بائبل کے حکم کی تعمیل کرتے ہیں: ”اے فرزندو! خداوند میں اپنے ماںباپ کے فرمانبردار رہو کیونکہ یہ واجب ہے۔ اپنے باپ کی اور ماں کی عزت کر (یہ پہلا حکم ہے جسکے ساتھ وعدہ بھی ہے) تاکہ تیرا بھلا ہو اور تیری عمر زمین پر دراز ہو“؟—افسیوں ۶:۱-۳۔
۶. ہم ساتھی پرستاروں کے ساتھ کس طرح امن کے طالب بن سکتے ہیں؟
۶ ہم اُس وقت بھی ”ہوشیاری“ کا مظاہرہ کرتے ہیں جب ہم ساتھی پرستاروں کیساتھ ”صلح کے طالب [ہوتے] اور اُسکی کوشش میں [رہتے] ہیں۔“ (۱-پطرس ۳:۱۱) غلطفہمیاں اور نااتفاقیاں وقتاًفوقتاً پیدا ہو سکتی ہیں۔ (یعقوب ۳:۲) اگر ہم رنجشوں کو تلخی پیدا کرنے کا موقع دیتے ہیں تو پوری کلیسیا کا امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ (گلتیوں ۵:۱۵) پس جھگڑوں کو جلد ہی حل کر لیں؛ پُرامن حل کے طالب بنیں۔—متی ۵:۲۳-۲۵؛ افسیوں ۴:۲۶؛ کلسیوں ۳:۱۳، ۱۴۔
”ہوشیاری“ اور خاندانی ذمہداریاں
۷. (ا) پولس نے دُنیاوی معاملات میں ”ہوشیاری“ ظاہر کرنے کی حوصلہافزائی کس طرح کی؟ (ب) گھریلو ذمہداریوں کے سلسلے میں ایک مسیحی شوہر اور بیوی کو کیسا رویہ رکھنا چاہئے؟
۷ پولس رسول نے مسیحیوں کو ”ہوشیاری کے ساتھ زندگی بسر کرنے“ کی نصیحت کی۔ (ططس ۲:۱۲، اینڈبلیو) یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ سیاقوسباق کے مطابق پولس خواتین کو نصیحت کرتا ہے کہ ”اپنے شوہروں کو پیار کریں بچوں کو پیار کریں . . . اور گھر کا کاروبار کرنے والی“ ہوں۔ (ططس ۲:۴، ۵) پولس نے یہودی نظاماُلعمل کے خاتمے سے چند سال قبل ۶۱-۶۴ ق۔س۔ میں یہ لکھا۔ تاہم، دُنیاوی معاملات جیسےکہ گھر کا کامکاج پھر بھی اہم تھے۔ چنانچہ میاںبیوی دونوں کو اپنی گھریلو ذمہداریوں کے متعلق صحتمندانہ، مثبت نظریہ رکھنا چاہئے تاکہ ”خدا کا کلام بدنام نہ ہو۔“ ایک خاندان کے سربراہ نے اپنے گھر کی خستہحالی کیلئے ایک ملاقاتی سے معذرت کی۔ اُس نے گھر کی بوسیدہ حالت کی یہ توجیہ پیش کی کہ ”وہ پائنیرنگ کر رہا تھا۔“ ہمارا بادشاہت کی خاطر قربانیاں دینا قابلِتعریف ہے لیکن اِس بات کا خیال رکھا جانا چاہئے کہ ہم اپنے خاندان کی فلاح کو خطرے میں نہ ڈال دیں۔
۸. خاندان کے سربراہ کس متوازن طریقے سے اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا کر سکتے ہیں؟
۸ بائبل والدوں کو یہ کہتے ہوئے اپنے خاندانوں کو ترجیح دینے کی تاکید کرتی ہے کہ جو اپنے خاندان کی خبرگیری کرنے میں ناکام ہو جاتا ہے ”وہ ایمان کا منکر اور بےایمان سے بدتر ہے۔“ (۱-تیمتھیس ۵:۸) تمام دُنیا میں معیارِزندگی مختلف ہیں اور یہ اچھا ہے کہ مادی حاصلات کی خواہش کو سادہ رکھا جائے۔ امثال ۳۰:۸ کے لکھنے والے نے استدعا کی ”مجھ کو نہ کنگال کر نہ دولتمند۔“ تاہم، والدین کو اپنے بچوں کی مادی ضروریات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہئے۔ مثال کے طور پر، کیا یہ دانشمندی ہو گی کہ تھیوکریٹک استحقاقات کے طالب بنتے ہوئے، کوئی شخص اپنے خاندان کو جانبوجھ کر بنیادی ضروریات بھی فراہم نہ کرے؟ کیا یہ اُسکے بچوں کو تلخ نہ بنا دیگا؟ اِسکے برعکس، امثال ۲۴:۲۷ کہتی ہے: ”اپنا کام باہر تیار کر۔ اُسے اپنے لئے کھیت میں درست کر لے اور اُسکے بعد اپنا گھر بنا۔“ جیہاں، مادی چیزوں کیلئے فکرمندی اہم مقام رکھتی ہے، ’روحانی اور جذباتی طور پر‘—اپنا گھر بنانا—بہت اہم ہے۔
۹. خاندان کے سربراہ کیلئے اپنی موت یا بیماری کے امکان پر غور کرنا کیوں دانشمندی ہو گی؟
۹ اگر آپ بےوقت موت کا شکار ہو جاتے ہیں تو کیا آپ نے اپنے خاندان کی کفالت کیلئے کچھ پسانداز کر رکھا ہے؟ امثال ۱۳:۲۲ بیان کرتی ہے: ”نیک آدمی اپنے پوتوں کیلئے میراث چھوڑتا ہے۔“ یہوواہ کی بابت علم اور اُسکے ساتھ رشتے کی میراث کے علاوہ، والدین اپنے بچوں کیلئے مادی اثاثے فراہم کرنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہونگے۔ بہت سے ممالک میں خاندان کے ذمہدار سربراہ ایک بیمہپالیسی، قانونی وصیت اور کچھ رقم پسانداز کرنے کی کوشش کریں گے۔ اِسلئےکہ خدا کے لوگ ”وقت اور حادثے“ سے بہرحال مستثنیٰ نہیں ہیں۔ (واعظ ۹:۱۱) دولت ”محافظ ہے“ اور محتاط منصوبہبندی اکثر مشکلات سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔ (واعظ ۷:۱۲) اُن ممالک میں جہاں علاجمعالجے کے اخراجات حکومت پورے نہیں کرتی، بعض شاید صحت کی ضروریات کیلئے کچھ رقم الگ کر دینے کا انتخاب کریں یا کسی طرح کی ہیلتھکوریج کا بندوبست کریں۔a
۱۰. مسیحی والدین کس طرح اپنے بچوں کیلئے ”جمع“ کر سکتے ہیں؟
۱۰ صحائف یہ بھی بیان کرتے ہیں: ”لڑکوں کو ماںباپ کیلئے جمع کرنا نہیں چاہئے بلکہ ماںباپ کو لڑکوں کے لئے۔“ (۲-کرنتھیوں ۱۲:۱۴) دُنیا میں یہ عام ہے کہ ماںباپ اپنے بچوں کی تعلیم اور شادی کیلئے پیسہ جمع کرتے ہیں تاکہ اُنہیں زندگی کیلئے ایک اچھا آغاز دے سکیں۔ کیا آپ نے اپنے بچے کے روحانی مستقبل کے لئے جمع کرنے کا سوچا ہے؟ مثال کے طور پر، فرض کریں، ایک بالغ بچہ کُلوقتی خدمت کر رہا ہے۔ اگرچہ کُلوقتی خادموں کو کسی امداد کا تقاضا نہیں کرنا چاہئے اور نہ ہی یہ توقع رکھنی چاہئے، تاہم، شفیق ماںباپ شاید ’اُسکی ضرورت کے مطابق اُسکی مدد‘ کرنے کا انتخاب کریں تاکہ وہ کُلوقتی خدمت کو جاری رکھ سکے۔—رومیوں ۱۲:۱۳؛ ۱-سموئیل ۲:۱۸، ۱۹؛ فلپیوں ۴:۱۴-۱۸۔
۱۱. کیا پیسے کے متعلق حقیقتپسندانہ نظریہ رکھنا ایمان کی کمی کو ظاہر کرتا ہے؟ وضاحت کریں۔
۱۱ پیسے کے متعلق حقیقتپسندانہ نظریہ رکھنا اِس بات پر ایمان کی کمی کا ثبوت نہیں کہ شیطانی دستورالعمل اپنے خاتمے کے قریب ہے۔ یہ صرف ”عملی حکمت“ اور اچھی بصیرت کے اظہار کا معاملہ ہے۔ (امثال ۲:۷؛ ۳:۲۱) یسوع نے ایک مرتبہ فرمایا کہ: ”اِس جہان کے فرزند“ پیسوں کے استعمال کے سلسلے میں ”نور کے فرزندوں سے زیادہ ہوشیار ہیں۔“ (لوقا ۱۶:۸) لہٰذا اِس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں کہ بعض نے اُس طریقے میں، جس سے اپنے اثاثوں کو استعمال کرتے ہیں، تبدیلی لانے کی ضرورت کو محسوس کِیا ہے تاکہ وہ اپنے خاندان کی بہتر دیکھبھال کر سکیں۔
تعلیم کی بابت اپنے نظریے میں ”ہوشیاری“ دکھانا
۱۲. یسوع نے اپنے شاگردوں کو نئے حالات کے ساتھ مطابقتپذیری کی تعلیم کس طرح دی؟
۱۲ ”دُنیا کی شکل بدلتی جاتی ہے،“ اور بڑی تیزی سے معاشی تبدیلیاں اور ٹیکنالوجی میں ترقی رونما ہو رہی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۷:۳۱) تاہم، یسوع نے اپنے شاگردوں کو مطابقتپذیر بننے کی تعلیم دی۔ اُنہیں منادی کی پہلی مہم پر بھیجتے ہوئے، یسوع نے کہا: ”نہ سونا اپنے کمربند میں رکھنا نہ چاندی نہ پیسے۔ راستہ کے لئے نہ جھولی لینا نہ دو دو کُرتے نہ جُوتیاں نہ لاٹھی کیونکہ مزدور اپنی خوراک کا حقدار ہے۔“ (متی ۱۰:۹، ۱۰) تاہم، بعد کے ایک موقع پر، یسوع نے کہا: ”جسکے پاس بٹوا ہو وہ اُسے لے اور اِسی طرح جھولی بھی۔“ (لوقا ۲۲:۳۶) کیا تبدیلی واقع ہوئی تھی؟ حالات۔ مذہبی ماحول زیادہ جارحانہ ہو گیا تھا اور اب اُنہیں اپنے لئے اشیائےخوردونوش کا اہتمام کرنا تھا۔
۱۳. تعلیم کا بنیادی مقصد کیا ہے اور اِس سلسلے میں والدین اپنے بچوں کی حمایت کس طرح کر سکتے ہیں؟
۱۳ اِسی طرح آجکل بھی، والدین کو موجودہ زمانے کے معاشی حقائق کو مدِنظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، کیا آپ اِس چیز کا خیال رکھ رہے ہیں کہ آپ کے بچے مناسب تعلیم حاصل کریں؟ تعلیم کا بنیادی مقصد ایک نوجوان کو یہوواہ کا ایک موثر خادم بننے کیلئے لیس کرنا ہونا چاہئے۔ اور سب سے اہم تعلیم روحانی تعلیم ہے۔ (یسعیاہ ۵۴:۱۳) والدین اپنے بچوں کی معاشی لحاظ سے خودکفیل بننے کی صلاحیت کی بابت بھی فکرمند ہوتے ہیں۔ لہٰذا اپنے بچوں کی راہنمائی کریں، سکول میں مناسب مضامین کے انتخاب میں اُنکی مدد کریں اور اُنکے ساتھ باتچیت کریں کہ اضافی تعلیم کے طالب ہونا دانشمندانہ ہے یا نہیں۔ ایسے فیصلے خاندانی ذمہداری ہیں اور دوسروں کو اختیارکردہ روش پر نکتہچینی نہیں کرنی چاہئے۔ (امثال ۲۲:۶) اُنکی بابت کیا ہے جنہوں نے اپنے بچوں کو گھر پر ہی تعلیم دینے کا فیصلہ کِیا ہے؟b اگرچہ بعض نے قابلِتعریف کام کِیا ہے، بعض نے اِسے اپنی سوچ سے بڑھکر مشکل پایا اور اُنکے بچوں نے اِس وجہ سے مشکلات کا سامنا کِیا ہے۔ لہٰذا اگر آپ گھر پر تعلیم دینے کی بابت سوچ رہے ہیں تو اِسکی لاگت کا حساب لگا لیں، حقیقتپسندی سے یہ جائزہ لیتے ہوئے کہ آپ کے پاس درکار مہارتیں اور ذاتی تربیت موجود ہے۔—لوقا ۱۴:۲۸۔
’اُمورِعظیم کی تلاش نہ کریں‘
۱۴، ۱۵. (ا) بارُوک کس طرح اپنا روحانی توازن کھو بیٹھا؟ (ب) اُس کیلئے ’اُمورِعظیم کی تلاش‘ کرنا بیوقوفی کیوں تھا؟
۱۴ ابھی تک اِس نظام کا خاتمہ چونکہ نہیں آیا، لہٰذا بعض شاید دُنیا جو کچھ پیش کرتی ہے اُس کے طالب بننے کا رُجحان رکھیں—قدرومنزلت والے پیشے، نفعبخش کام اور دولت۔ یرمیاہ کے مُنشی بارُوک پر غور کریں۔ اُس نے افسوس کِیا: ”مجھ پر افسوس کہ خداوند نے میرے دکھدرد پر غم بھی بڑھا دیا! مَیں کراہتے کراہتے تھک گیا اور مجھے آرام نہ ملا۔“ (یرمیاہ ۴۵:۳) بارُوک تھک گیا تھا۔ یرمیاہ کے مُنشی کے طور پر کام کرنا ایک مشکل، پریشانکُن کام تھا۔ (یرمیاہ ۳۶: ۱۴-۲۶) اور پریشانی ختم ہوتی نظر نہیں آتی تھی۔ یہ یروشلیم کے تباہ کئے جانے سے ۱۸ سال پہلے کی بات ہو گی۔
۱۵ یہوواہ نے بارُوک کو بتایا: ”دیکھ اِس تمام مُلک میں جو کچھ مَیں نے بنایا گرا دونگا اور جو کچھ مَیں نے لگایا اُکھاڑ پھینکونگا۔ اور کیا تُو اپنے لئے اُمورِعظیم کی تلاش میں ہے؟ اُنکی تلاش چھوڑ دے،“ بارُوک عدمِتوازن کا شکار ہو گیا تھا۔ اُس نے اپنے لئے ’اُمورِعظیم کی تلاش‘ شروع کر دی تھی، شاید دولت، شہرت یا مادی تحفظ۔ چونکہ یہوواہ ”اُس تمام مُلک میں جو کچھ . . . [تھا] گرا“ رہا تھا، لہٰذا اِن چیزوں کے طالب ہونے میں کیا فائدہ تھا؟ اِسلئے یہوواہ نے بارُوک کو یہ سنجیدہ آگاہی دی: ”مَیں تمام بشر پر بلا نازل کرونگا لیکن جہاں کہیں تُو جائے تیری جان تیرے لئے غنیمت ٹھہراؤنگا۔“ مادی اثاثے یروشلیم کی تباہی سے نہیں بچیں گے! یہوواہ نے صرف اُسکی ”جان . . . [کے] غنیمت“ ٹھہرنے کی ضمانت دی تھی۔—یرمیاہ ۴۵:۴، ۵۔
۱۶. آجکل یہوواہ کے لوگ بارُوک کے تجربے سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں؟
۱۶ بارُوک نے یہوواہ کی تادیب پر دھیان دیا اور یہوواہ کے وعدے کی سچائی کے مطابق بارُوک اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گیا۔ (یرمیاہ ۴۳:۶، ۷) آجکل یہوواہ کے لوگوں کیلئے کیا ہی عمدہ سبق! یہ ’اپنے لئے اُمورِعظیم کی تلاش کرنے‘ کا وقت نہیں ہے۔ کیوں؟ اِسلئےکہ ”دُنیا اور اُسکی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں۔“—۱-یوحنا ۲:۱۷۔
باقیماندہ وقت کا بہترین استعمال
۱۷، ۱۸. (ا) نینوہ کے لوگوں کے تائب ہونے پر یوناہ کا ردِعمل کیا تھا؟ (ب) یہوواہ نے یوناہ کو کیا سبق سکھایا؟
۱۷ پس ہم باقیماندہ وقت کو بہترین طریقے سے کیسے استعمال کر سکتے ہیں؟ یوناہ نبی کے تجربے سے سیکھیں۔ وہ ”نینوؔہ کو گیا . . . اُس نے منادی کی اور کہا چالیس روز کے بعد نینوؔہ برباد کِیا جائیگا۔“ یوناہ کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب نینوہ کے لوگوں نے اُس کے پیغام کیلئے جوابیعمل دکھایا اور توبہ کی! یہوواہ شہر کو تباہوبرباد کرنے سے باز رہا۔ یوناہ کا ردعمل؟ ”اے خداوند مَیں تیری منت کرتا ہوں کہ میری جان لے لے کیونکہ میرے اِس جینے سے مر جانا بہتر ہے۔“—یوناہ ۳:۳، ۴؛ ۴:۳۔
۱۸ تب یہوواہ نے یوناہ کو ایک اہم سبق سکھایا۔ ”خداوند خدا نے کدو کی بیل اُگائی اور اُسے یوؔناہ کے اُوپر پھیلایا کہ اُسکے سر پر سایہ ہو . . . اور یوؔناہ اُس بیل کے سبب سے نہایت خوش ہوا۔“ تاہم، یوناہ کی خوشی عارضی ثابت ہوئی کیونکہ بیل جلد ہی سوکھ گئی۔ یوناہ اِس تکلیف کے باعث ”ناراض“ ہو گیا۔ یہوواہ نے اُسے اپنا نقطۂنظر سمجھایا: ”تجھے اِس بیل کا اتنا خیال ہے . . . کیا مجھے لازم نہ تھا کہ مَیں اتنے بڑے شہر نینوؔہ کا خیال کروں جس میں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ ایسے ہیں جو اپنے دہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز نہیں کر سکتے اور بےشمار مویشی ہیں؟“—یوناہ ۴:۶، ۷، ۹-۱۱۔
۱۹. ہم کونسی خودپسندانہ سوچ سے گریز کرنا چاہیں گے؟
۱۹ یوناہ کی دلیل کتنی خودپسندانہ تھی! اُس نے ایک بیل کیلئے تو افسوس کِیا مگر نینوہ کے لوگوں کیلئے ذرا سا رحم بھی محسوس نہ کِیا—جو لوگ روحانی مفہوم میں ’اپنے دہنے اور بائیں ہاتھ میں امتیاز‘ کرنے سے قاصر تھے۔ اِسی طرح، ہم بھی موزوں طور پر دُنیا کے خاتمے کی آرزو کر سکتے ہیں! (۲-تھسلنیکیوں ۱:۸) تاہم، جب ہم انتظار کر رہے ہیں تو خلوصدل لوگوں کی مدد کرنا ہماری ذمہداری ہے جو روحانی مفہوم میں ’اپنے دائیں اور بائیں ہاتھ میں امتیاز‘ نہیں کر سکتے ہیں۔ (متی ۹:۳۶؛ رومیوں ۱۰:۱۳-۱۵) کیا آپ باقیماندہ مختصر وقت کو یہوواہ کے متعلق گراںبہا علم حاصل کرنے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو مدد دینے کیلئے استعمال کرینگے؟ اِس سے زیادہ پُرمسرت کام کیا ہو سکتا ہے کہ کسی کو زندگی حاصل کرنے میں مدد دی جائے؟
”ہوشیاری“ کے ساتھ زندگی گزارنا
۲۰، ۲۱. (ا) بعض طریقے کونسے ہیں جنکے ذریعے ہم آنے والے دنوں میں ”ہوشیاری“ ظاہر کر سکتے ہیں؟ (ب) ”ہوشیاری“ کے ساتھ زندگی گزارنے سے کونسی برکات حاصل ہونگی؟
۲۰ جب یہ شریر نظام اپنی تباہی کی طرف رواںدواں ہے تو ہمارے لئے نئے چیلنجوں کا سامنا یقینی ہے۔ دوسرا تیمتھیس ۳:۱۳ پیشگوئی کرتی ہے: ”بُرے اور دھوکاباز آدمی فریب دیتے اور فریب کھاتے ہوئے بگڑتے چلے جائینگے۔“ لیکن ”بےدل ہو کر ہمت“ نہ ہاریں۔ (عبرانیوں ۱۲:۳) قوت کیلئے یہوواہ پر تکیہ کریں۔ (فلپیوں ۴:۱۳) ماضی میں مگن رہنے کی بجائے، اِن بُرے ایام سے نبردآزما ہونے کیلئے لچکدار بننا سیکھیں۔ (واعظ ۷:۱۰) ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی فراہمکردہ ہدایات پر عمل کرتے ہوئے، عملی حکمت کو کام میں لائیں۔—متی ۲۴:۴۵-۴۷۔
۲۱ کتنا وقت باقی ہے، ہم نہیں جانتے۔ پھر بھی، ہم پورے اعتماد کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ”سب چیزوں کا خاتمہ جلد ہونے والا ہے۔“ جب تک خاتمہ نہیں آ جاتا، آئیے دوسروں کے ساتھ اپنے تعلقات میں، اپنے خاندانوں کی دیکھبھال کرنے اور دُنیاوی ذمہداریوں کے سلسلے میں ”ہوشیاری“ کے ساتھ زندگی گزاریں۔ ایسا کرتے ہوئے، ہم سب یہ اعتماد رکھ سکتے ہیں کہ انجامکار ہم ”اطمینان کی حالت میں بیداغ اور بےعیب“ پائے جائیں گے!—۲-پطرس ۳:۱۴۔
]فٹ نوٹس[
a مثال کے طور پر، ریاستہائےمتحدہ میں بہت سے لوگوں کے پاس صحت کی بیمہپالیسیاں ہیں، اگرچہ یہ مہنگی ہیں۔ کچھ گواہ خاندانوں نے محسوس کِیا ہے کہ جن خاندانوں کے پاس بیمہپالیسیاں تھیں، اُن کے لئے بعض ڈاکٹر خون کے متبادلات کی بابت غوروفکر کرنے کی طرف زیادہ مائل تھے۔ بہتیرے فزیشنز وہی رقم قبول کر لیں گے جو کہ بیمہپالیسی میں یا حکومت کی طرف سے ہیلتھکوریج میں مقرر کی گئی ہے۔
b گھر میں رسمی تعلیم کا خواہاں ہونا ایک ذاتی معاملہ ہے۔ اپریل ۸، ۱۹۹۳ کے اویک! میں شائع ہونے والا مضمون ”ہوم سکولنگ—اِز اِٹ فار یو؟“ دیکھیں۔
اعادے کے نکات
◻اپنے ذاتی تعلقات میں ہم کیسے ”ہوشیاری“ ظاہر کر سکتے ہیں؟
◻اپنی خاندانی ذمہداریوں کو پورا کرنے کے سلسلے میں ہم کس طرح توازن ظاہر کر سکتے ہیں؟
◻والدین کو اپنے بچوں کی دُنیاوی تعلیم میں دلچسپی کیوں لینی چاہئے؟
◻بارُوک اور یوناہ سے ہم کیا سبق سیکھتے ہیں؟
[صفحہ 15 پر تصویر]
جب شوہر اور بیوی ایک دوسرے سے بدسلوکی کرتے ہیں تو وہ یہوواہ کے ساتھ اپنے رشتے کو کمزور کر لیتے ہیں
[صفحہ 17 پر تصویر]
والدین کو اپنے بچوں کی تعلیم میں دلچسپی لینی چاہئے