”راست آدمی کا خیمہ آباد رہیگا“
جب ہرمجدون پر تباہی شروع ہوتی ہے اور شیطان کا شریر نظام اپنے خاتمے کو پہنچتا ہے تو ”شریر کا گھر برباد ہو جائیگا۔“ لیکن ’راست آدمی کے خیمہ‘ کی بابت کیا ہے؟ جیہاں، خدا کی نئی دُنیا میں ”راست آدمی کا خیمہ آباد رہیگا۔“—امثال ۱۴:۱۱۔
تاہم، جبتک ’شریر زمین پر سے کاٹ ڈالے اور دغاباز اُس سے اُکھاڑ پھینکے نہیں جاتے‘ کامل لوگوں کو اُنکے ساتھ ہی رہنا ہے۔ (امثال ۲:۲۱، ۲۲) کیا ان حالات کے تحت راست آدمی آباد رہ سکتے ہیں؟ بائبل میں امثال کی کتاب کے ۱۴ باب کی ۱-۱۱ آیات بیان کرتی ہیں کہ اگر ہم حکمت کو اپنے قولوفعل پر اثرانداز ہونے دیتے ہیں تو ہم آج بھی کسی حد تک خوشحالی اور استحکام سے استفادہ کر سکتے ہیں۔
جب حکمت سے گھر تعمیر کِیا جاتا ہے
خاندان کی بھلائی کے سلسلے میں بیوی کے کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے قدیم اسرائیل کا بادشاہ سلیمان بیان کرتا ہے: ”دانا عورت اپنا گھر بناتی ہے پر احمق اُسے اپنے ہی ہاتھوں سے برباد کرتی ہے۔“ (امثال ۱۴:۱) حکمت رکھنے والی عورت کیسے اپنا گھر تعمیر کرتی ہے؟ ایک دانا عورت سرداری کے خدائی بندوبست کا احترام کرتی ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۱:۳) وہ شیطان کی دُنیا میں پائی جانے والی خودمختاری کی روح سے مغلوب نہیں ہوتی ہے۔ (افسیوں ۲:۲) وہ اپنے شوہر کی تابعداری کرتی ہے اور دوسروں کی نظر میں اپنے شوہر کی عزت بڑھانے کیلئے وہ ہمیشہ اُسکا ذکر اچھے الفاظ میں کرتی ہے۔ ایک دانا عورت اپنے بچوں کی روحانی اور عملی تعلیم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔ خاندان کی بہتری کیلئے وہ سخت محنت کرتی اور گھر کو خاندان کیلئے خوشگوار اور آرامدہ جگہ بناتی ہے۔ جسطرح وہ گھر کو چلاتی ہے اُس میں دانشمندی اور کفایتشعاری نظر آتی ہے۔ حقیقی طور پر دانشمند خاتون اپنے گھرانے کی خوشحالی اور استحکام کیلئے کام کرتی ہے۔
احمق عورت سرداری کے خدائی بندوبست کا احترام نہیں کرتی۔ وہ اپنے شوہر کی بدگوئی کرنے سے نہیں ہچکچاتی۔ کفایتشعار نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے خاندان کی محنت کی کمائی کو فضولخرچی میں اُڑا دیتی ہے۔ وہ وقت بھی ضائع کرتی ہے۔ نتیجتاً اُسکا گھر صافستھرا نہیں ہوتا اور اُسکے بچے بھی جسمانی اور روحانی طور پر مشکل اُٹھاتے ہیں۔ جیہاں، احمق عورت اپنا گھر برباد کر دیتی ہے۔
تاہم، کیا چیز اس بات کا تعیّن کرتی ہے کہ آیا ایک شخص دانا ہے یا احمق؟ امثال ۱۴:۲ بیان کرتی ہے: ”راسترو [یہوواہ] سے ڈرتا ہے پر کجرو اُسکی حقارت کرتا ہے۔“ راست شخص سچے خدا سے ڈرتا ہے اور [یہوواہ] کا خوف دانائی کا شروع ہے۔ (زبور ۱۱۱:۱۰) حقیقت میں دانشمند شخص جانتا ہے کہ ’خدا سے ڈرنا اور اُسکے حکموں کو ماننا‘ اُسکا فرض ہے۔ (واعظ ۱۲:۱۳) اسکے برعکس، احمق شخص ایسی روش اختیار کرتا ہے جو خدا کے راست معیاروں کے مطابق نہیں ہے۔ اُسکی روش کجرو ہے۔ ایسا شخص خدا کو حقیر جانتا ہے اور اپنے دل میں کہتا ہے کہ ”کوئی [یہوواہ] خدا نہیں۔“—زبور ۱۴:۱۔
جب لب حکمت سے تربیت پاتے ہیں
جو شخص یہوواہ سے ڈرتا ہے اور جو شخص اسکی حقارت کرتا ہے انکی گفتگو کی بابت کیا کہا جا سکتا ہے؟ سلیمان بادشاہ بیان کرتا ہے: ”احمق میں سے غرور پھوٹ نکلتا ہے پر دانشمندوں کے لب اُنکی نگہبانی کرتے ہیں۔“ (امثال ۱۴:۳) آسمانی حکمت کی کمی کی وجہ سے احمق شخص نہ تو صلحپسند ہے اور نہ ہی معقولپسند۔ جس حکمت سے وہ راہنمائی حاصل کرتا ہے وہ دُنیوی اور نفسانی اور شیطانی ہے۔ وہ جھگڑا پیدا کرنے والی اور تحقیرآمیز باتیں کرتا ہے۔ احمق کا غرور اُس کیلئے اور دوسروں کیلئے بہت زیادہ مسائل کھڑے کرتا ہے۔—یعقوب ۳:۱۳-۱۸۔
دانا کے لب اُسکی نگہبانی اور حفاظت کرتے ہیں اور اُسے خوشی اور اطمینان بخشتے ہیں۔ کیسے؟ صحائف بیان کرتے ہیں: ”بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کی طرح چھیدتی ہیں لیکن دانشمند کی زبان صحتبخش ہے۔“ (امثال ۱۲:۱۸) دانا شخص کی باتیں سخت اور چھلنی کرنے والی نہیں ہوتی ہیں۔ کوئی بھی بات کہنے سے پہلے وہ اپنے دل میں سوچتا ہے۔ (امثال ۱۵:۲۸) اُسکی عمدہ گفتگو شفابخش ہوتی ہے اور افسردہخاطر اور شکستہدل جانوں کو تازگی بخشتی ہے۔ دوسروں کو غصہ دلانے کی بجائے، اُسکی باتیں امنوامان کو فروغ دیتی ہیں۔
جب انسانی کوششیں حکمت سے تربیت پاتی ہیں
اسکے بعد سلیمان ایک دلچسپ امثال بیان کرتا ہے جو کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے اُسکے فوائد اور نقصانات پر غور کرنے کی ضرورت پر زور دیتی ہے۔ وہ کہتا ہے: ”جہاں بیل نہیں وہاں چرنی صاف ہے لیکن غلّہ کی افزایش بیل کے زور سے ہے۔“ —امثال ۱۴:۴۔
اس امثال کے مطلب پر تبصرہ کرتے ہوئے، ایک کتاب بیان کرتی ہے: ”ایک خالی چرنی ظاہر کرتی ہے کہ چرنے کیلئے مویشی نہیں ہیں اسلئے ایک شخص جانوروں کی دیکھبھال کرنے کی ذمہداری سے آزاد ہے اور اُسکا خرچ بھی کم ہے۔ لیکن آیت کا اگلا حصہ اس فائدے کی نفی کرتا ہے کیونکہ اگر بیل نہیں ہے تو پھر غلّہ کسطرح بڑھیگا۔“ اب کسان کو انتخاب کرنے میں دانشمندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
جب ہم ملازمت تبدیل کرنے، کسی گھر کا انتخاب کرنے، کار خریدنے یا کوئی پالتو جانور رکھنے یا اسی طرح کا کوئی دیگر کام کرنے کی بابت سوچتے ہیں تو کیا اس صورت میں اس امثال کا اطلاق نہیں ہوتا؟ ایک دانا شخص فوائد اور نقصانات پر غور کریگا اور اس بات کا اندازہ لگائیگا کہ آیا یہ کوشش کرنا اور رقم لگانا واقعی مفید ثابت ہوگا یا نہیں۔
جب گواہ دانشمند ہے
سلیمان بیان کرتا ہے: ”دیانتدار گواہ جھوٹ نہیں بولتا لیکن جھوٹا گواہ جھوٹی باتیں کرتا ہے۔“ (امثال ۱۴:۵) ایک جھوٹے گواہ کے جھوٹ یقیناً بہت زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یزرعیلی نبوت کو سنگسار کر دیا گیا کیونکہ دو شریر آدمیوں نے اُسکے خلاف جھوٹی گواہی دی تھی۔ (۱-سلاطین ۲۱:۷-۱۳) علاوہازیں، کیا یسوع کے خلاف جھوٹی گواہی نہیں دی گئی تھی جوکہ اُسکی موت کا سبب بنی تھی؟ (متی ۲۶:۵۹-۶۱) جھوٹے گواہوں نے ستفنس کے خلاف بھی گواہی دی تھی جو ایمان کی خاطر قتل ہونے والے یسوع کا سب سے پہلا شاگرد تھا۔—اعمال ۶:۱۰، ۱۱۔
ایک جھوٹا شخص شاید وقتی طور پر بچ جائے لیکن ذرا اُسکے انجام پر غور کریں۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ یہوواہ کو ’جھوٹے گواہ سے جو دروغگوئی کرتا ہے‘ سخت نفرت ہے۔ (امثال ۶:۱۶-۱۹) ایسا شخص خونیوں اور حرامکاروں اور جادوگروں اور بُتپرستوں اور سب جھوٹوں کیساتھ آگ اور گندھک سے جلنے والی جھیل میں ڈالا جائیگا جوکہ دوسری موت ہے۔—مکاشفہ ۲۱:۸۔
دیانتدار گواہ گواہی دیتے وقت جھوٹ نہیں بولتا۔ اُسکی گواہی جھوٹ پر مبنی نہیں ہوتی ہے۔ تاہم، اسکا یہ مطلب نہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو تمام معلومات فراہم کرنے کا مجاز ہے جو یہوواہ کے لوگوں کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ ہمارے بزرگ ابرہام اور اضحاق نے ایسے لوگوں کے سامنے تمام حقائق بیان کرنے سے گریز کِیا تھا جو یہوواہ کی پرستش نہیں کرتے تھے۔ (پیدایش ۱۲:۱۰-۱۹؛ ۲۰:۱-۱۸؛ ۲۶:۱-۱۰) یریحو کی راحب نے بادشاہ کے آدمیوں کو صحیح بات نہیں بتائی تھی۔ (یشوع ۲:۱-۷) خود یسوع مسیح نے بھی تمام معلومات دینے سے گریز کِیا کیونکہ اس سے خوامخواہ نقصان پہنچ سکتا تھا۔ (یوحنا ۷:۱-۱۰) اُس نے فرمایا: ”پاک چیز کتوں کو نہ دو اور اپنے موتی سؤروں کے آگے نہ ڈالو۔“ مگر کیوں؟ تاکہ ”ایسا نہ ہو کہ وہ . . .پلٹ کر تمکو پھاڑیں۔“—متی ۷:۶۔
جب ”علم آسانی سے حاصل ہوتا ہے“
کیا سب کے پاس حکمت ہے؟ امثال ۱۴:۶ بیان کرتی ہے: ”ٹھٹھاباز حکمت کی تلاش کرتا ہے اور نہیں پاتا لیکن صاحبِفہم کو علم آسانی سے حاصل ہوتا ہے۔“ ٹھٹھاباز شخص حکمت کی تلاش کر سکتا ہے مگر وہ حقیقی حکمت حاصل کرنے سے عاری رہتا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ایک ٹھٹھاباز شخص حقارت کیساتھ خدا کی باتوں کا تمسخر اُڑاتا ہے اسلئے وہ حکمت کیلئے درکار سچے خدا کا صحیح علم حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اُسکا غرور اور تکبر اُسے خدا کی بابت سیکھنے اور حکمت حاصل کرنے سے باز رکھتا ہے۔ (امثال ۱۱:۲) لیکن وہ کیوں حکمت کی جستجو کرتا ہے؟ امثال اسکی بابت کچھ نہیں کہتی لیکن شاید وہ اسلئے ایسا کرتا ہے کہ دوسرے اُسے دانا خیال کریں۔
ایک فہیم شخص ’آسانی سے علم حاصل کرتا ہے۔‘ فہم کا مطلب ہے ”دماغی ادراک: سمجھ، مختلف چیزوں کے عمومی تعلق کو سمجھنے کی صلاحیت۔“ یہ کسی چیز کے مختلف پہلوؤں کو جوڑنے اور مجموعی طور پر اسے سمجھنے کی لیاقت ہے۔ اس امثال کا مطلب ہے کہ جس شخص میں یہ خوبی ہوتی ہے اُس کیلئے علم حاصل کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
اس سلسلے میں، صحیفائی علم حاصل کرنے کے اپنے ذاتی تجربے پر غور کریں۔ جب آپ نے بائبل مطالعہ شروع کِیا تو سب سے پہلے آپ نے خدا، اُسکے وعدوں اور اُسکے بیٹے کی بابت سچائیاں سیکھی ہونگی۔ کچھ عرصہ تک یہ باتیں عجیب لگتی ہونگی لیکن جوں جوں آپ مطالعہ کرتے گئے یہ سب باتیں آپکی سمجھ میں آنے لگیں اور آپ یہ سمجھنے لگے کہ یہ تمام معلومات کسطرح انسانوں اور زمین کیلئے یہوواہ کے مجموعی مقصد کیساتھ تعلق رکھتی ہیں۔ بائبل سے سیکھی جانے والی سچائیاں منطقی اور ایک دوسرے سے تعلق رکھتی ہیں۔ نئی باتوں کو سیکھنا اور یاد رکھنا اب قدرے آسان ہو گیا ہے کیونکہ آپ دوسری باتوں سے اُنکے تعلق کو واضح طور پر سمجھنے لگ گئے ہیں۔
دانشمند بادشاہ یہ بھی بیان کرتا ہے کہ کس میں علم نہیں ہے۔ وہ بیان کرتا ہے، ”احمق سے کنارہ کر کیونکہ تُو اُس میں علم کی باتیں نہیں پائیگا۔“ (امثال ۱۴:۷) احمق شخص میں حقیقی علم کی کمی ہوتی ہے۔ وہ علم سے معمور لب نہیں رکھتا۔ ایسا شخص کوئی مشورہ نہیں دے سکتا لہٰذا اُس سے دُور رہنا ہی بہتر ہے۔ وہ جو ”داناؤں کیساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائیگا۔“—امثال ۱۳:۲۰۔
آگے چل کر سلیمان بیان کرتا ہے: ”ہوشیار کی حکمت یہ ہے کہ اپنی راہ پہچانے لیکن احمقوں کی حماقت دھوکا ہے۔“ (امثال ۱۴:۸) ایک دانا شخص اپنے کاموں پر غور کرتا ہے۔ وہ مختلف حالات پر توجہ دیتا اور ہر ایک کے نتائج پر الگ الگ غور کرتا ہے۔ وہ دانشمندی کیساتھ اپنی روش کا انتخاب کرتا ہے۔ لیکن احمق کی بابت کیا ہے؟ وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ سب کچھ جانتا ہے حماقت کی راہ کا انتخاب کرتا ہے۔ اُسکی حماقت اُس کیلئے دھوکا ثابت ہوتی ہے۔
جب حکمت تعلقات پر اثرانداز ہوتی ہے
حکمت سے راہنمائی حاصل کرنے والا شخص دوسروں سے اچھے تعلقات رکھتا ہے۔ قدیم اسرائیل کا بادشاہ بیان کرتا ہے: ”احمق گُناہ کرکے ہنستے ہیں پر راستکاروں میں رضامندی ہے۔“ (امثال ۱۴:۹) غلطی کا احساس احمق کیلئے مضحکہخیز بات ہے۔ اُس نے گھر کے اندر اور باہر اپنے تعلقات خراب کر لئے ہیں کیونکہ اُسکا ”غرور اُسے بہتری لانے“ اور صلح کا طالب نہیں ہونے دیتا۔ راستباز شخص دوسروں کی کوتاہیوں کیلئے گنجائش رکھتا ہے۔ وہ غلطی کرنے کے بعد معافی مانگنے اور بہتری لانے کیلئے تیار ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ صلح کا طالب ہوتا ہے اسلئے وہ خوش رہتا ہے اور دوسروں کیساتھ اچھے تعلقات سے استفادہ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔—عبرانیوں ۱۲:۱۴۔
اسکے بعد سلیمان انسانی تعلقات میں حدبندی کرنے والے عنصر کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”اپنی تلخی کو دل ہی خوب جانتا ہے اور بیگانہ اُسکی خوشی میں دخل نہیں رکھتا ہے۔“ (امثال ۱۴:۱۰) کیا ہم دوسروں کے سامنے اپنے غم کے اور خوشی کے اندرونی احساسات کا اظہار کرنے اور اُنہیں ان میں شریک کرنے کے قابل ہیں؟ نیز کیا کوئی شخص ہمیشہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ دوسروں کے احساسات کو بخوبی سمجھتا ہے؟ ان دونوں سوالوں کا جواب ہے بیشک نہیں۔
مثال کے طور پر، خودکشی کے احساسات کو ہی لے لیں۔ جس شخص کے ایسے احساسات ہوتے ہیں وہ واضح طور پر خاندان کے کسی فرد یا کسی دوست کو اسکی بابت بتانے سے قاصر رہتا ہے۔ علاوہازیں نہ ہی دوسرے اپنے ساتھی کے ایسے احساسات کی علامات کو سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اگر ہم ایسی علامات کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں تو ہمیں خود کو مجرم خیال نہیں کرنا چاہئے۔ یہ امثال ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ اگرچہ جذباتی مدد کیلئے کسی ہمدرد کی طرف رجوع کرنا تسلیبخش ہوتا ہے مگر ہم انسان محدود تسلی فراہم کر سکتے ہیں۔ جب مشکلات برداشت کرنے کی بات آتی ہے تو ہم صرف اور صرف یہوواہ پر ہی بھروسا کر سکتے ہیں۔
”مالودولت اُسکے گھر میں ہیں“
اسرائیل کا بادشاہ بیان کرتا ہے: ”شریر کا گھر برباد ہو جائیگا پر راست آدمی کا خیمہ آباد رہیگا۔“ (امثال ۱۴:۱۱) اس دُنیا میں شریر آدمی بیشک پھولے پھلے اور شاید عالیشان گھر میں رہے مگر جب وہ خود ہی باقی نہ رہیگا تو پھر یہ سب اُس کیلئے کس کام کا ہوگا؟ (زبور ۳۷:۱۰) اسکے برعکس، راستباز کا گھر شاید بہت ہی ادنیٰ کیوں نہ ہو لیکن زبور ۳۷:۱۰ کے مطابق، ”مالودولت اُسکے گھر میں ہے۔“ یہ کیا ہے؟
جب ہمارے قولوفعل حکمت سے تربیت پاتے ہیں تو ہمارے پاس وہ ”دولتوعزت“ ہوتی ہے جو حکمت کیساتھ پائی جاتی ہے۔ (امثال ۸:۱۸) اس میں یہوواہ اور ساتھی انسانوں کیساتھ اچھا رشتہ، خوشی اور خوشحالی اور کسی حد تک استحکام شامل ہے۔ جیہاں اس وقت بھی، ”راست آدمی کا خیمہ“ قائم رہ سکتا ہے۔
[صفحہ ۲۷ پر تصویر]
دانا عورت اپنا گھر بناتی ہے
[صفحہ ۲۸ پر تصویر]
”دانشمند کی زبان صحتبخش ہے“