’یہوواہ کا خوف ہی حکمت ہے‘
”اب سب کچھ سنایا گیا۔ حاصلِکلام یہ ہے۔ خدا سے ڈر اور اُسکے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِکُلی یہی ہے۔“ (واعظ ۱۲:۱۳) یہ الفاظ بادشاہ سلیمان نے خدا کے الہام سے لکھے تھے۔ خدا کے خادم ایوب نے بھی خدا کا خوف رکھنے کی اہمیت سمجھی تھی۔ اُس نے کہا: ”دیکھ [یہوواہ] کا خوف ہی حکمت ہے اور بدی سے دُور رہنا خرد ہے۔“—ایوب ۲۸:۲۸۔
خدا کے کلام میں اکثر یہوواہ کا خوف رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ خود میں ایسا خوف پیدا کرنا حکمت کی بات کیوں ہے؟ خدا کے وفادار خادموں کو اُسکا خوف رکھنے سے کونسے فائدے ہوتے ہیں؟ امثال ۱۴ باب کی ۲۶ تا ۳۵ آیت میں ان سوالوں کے جواب پائے جاتے ہیں۔a
یہوواہ کا خوف کرنے والے ”قوی اُمید“ رکھتے ہیں
سلیمان نے لکھا: ”[یہوواہ] کے خوف میں قوی اُمید ہے اور اُسکے فرزندوں کو پناہ کی جگہ ملتی ہے۔“ (امثال ۱۴:۲۶) خدا کا خوف رکھنے والا شخص اپنا پورا بھروسا اپنے خالق یہوواہ پر رکھتا ہے۔ اسلئے وہ طویل اور خوشگوار زندگی گزارنے کی اُمید رکھ سکتا ہے۔
مگر ایسے لوگوں کا کیا مستقبل ہوگا جو دُنیاوی تنظیموں اور منصوبوں پر یا پھر مالودولت پر بھروسا کرتے ہیں؟ انکا کوئی مستقبل نہیں رہے گا کیونکہ ۱-یوحنا ۲:۱۷ میں لکھا ہے: ”دُنیا اور اُسکی خواہش دونوں مٹتی جاتی ہیں لیکن جو خدا کی مرضی پر چلتا ہے وہ ابد تک قائم رہے گا۔“ لہٰذا، ’دُنیا سے یا دُنیا کی چیزوں سے محبت رکھنا‘ دانشمندی کی بات نہیں ہے۔—۱-یوحنا ۲:۱۵۔
خدا کا خوف رکھنے والے والدین کیا کر سکتے ہیں تاکہ ’اُنکے فرزندوں کو پناہ کی جگہ ملے‘؟ زبورنویس نے لکھا: ”اَے بچو! آؤ میری سنو۔ مَیں تمکو خداترسی سکھاؤں گا۔“ (زبور ۳۴:۱۱) جب والدین اپنے نمونے اور اپنی باتوں سے بچوں کو خدا کا خوف سکھاتے ہیں تو اُنکے بچے بڑے ہو کر بھی یہوواہ پر آس لگائیں گے۔—امثال ۲۲:۶۔
سلیمان آگے بیان کرتا ہے: ”[یہوواہ] کا خوف حیات کا چشمہ ہے جو موت کے پھندوں سے چھٹکارے کا باعث ہے۔“ (امثال ۱۴:۲۷) خدا کا خوف اسلئے ”حیات کا چشمہ“ ہے کیونکہ یہوواہ ہی ’آبِحیات کا چشمہ‘ ہے۔ (یرمیاہ ۲:۱۳) یہوواہ اور یسوع مسیح کے بارے میں علم حاصل کرنے سے ہمیشہ کی زندگی ہماری پہنچ میں ہوگی۔ (یوحنا ۱۷:۳) خدا کا خوف ہمارے لئے موت کے پھندوں سے چھٹکارے کا باعث کیسے بن سکتا ہے؟ امثال ۱۳:۱۴ میں ”دانشمند کی تعلیم“ کے بارے میں بھی کہا گیا ہے کہ یہ ”حیات کا چشمہ ہے جو موت کے پھندوں سے چھٹکارے کا باعث“ ہے۔ لہٰذا، جب ہم خدا کا خوف رکھ کر اُسکے کلام کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں تو ہم ایسے بُرے کاموں اور احساسات سے محفوظ رہیں گے جو بہتیروں کی زندگی کو تباہ کر دیتے ہیں۔
’بادشاہ کی شان‘
سلیمان نے اپنی حکمرانی کے زیادہتر عرصے کے دوران خدا کا خوف ظاہر کِیا اور اُسکے حکموں کو مانا۔ اسلئے اُسکی حکومت بہت کامیاب رہی۔ ہم ایک بادشاہ کی کامیابی کا اندازہ کیسے لگا سکتے ہیں؟ امثال ۱۴:۲۸ میں اسکا جواب یوں دیا گیا ہے: ”رعایا کی کثرت میں بادشاہ کی شان ہے پر لوگوں کی کمی میں حاکم کی تباہی ہے۔“ جیہاں، ایک بادشاہ کی کامیابی کا اندازہ اُسکی رعایا کی خوشحالی سے لگایا جا سکتا ہے۔ اُسکی کامیابی اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ بہت سارے لوگ اُسکی حکومت کے ماتحت رہنا پسند کرتے ہیں۔ سلیمان ”کی سلطنت [بحرِقلزم] سے [بحیرۂروم] تک اور دریایِفرؔات سے زمین کی انتہا تک“ پھیلی ہوئی تھی۔ (زبور ۷۲:۶-۸) اُسکی خاص کامیابی یہ تھی کہ اُسکی حکمرانی کے دوران اسرائیل میں امنوسلامتی رہی۔ (۱-سلاطین ۴:۲۴، ۲۵) اسکے برعکس جب لوگ اپنے حاکم سے خوش نہیں ہوتے ہیں تو یہ اس حاکم کا زوال ہو سکتا ہے۔
سلیمان کی بادشاہت علامتی طور پر یسوع مسیح کی حکمرانی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یسوع بادشاہ کے طور پر کتنا کامیاب رہا ہے؟ اب تک پوری دُنیا میں چھ کروڑ اشخاص نے اسکی حکومت کا خیرمقدم کِیا ہے۔ وہ سب کے سب یسوع پر ایمان لائے ہیں اور یہوواہ خدا کی عبادت میں متحد ہیں۔ (یوحنا ۱۴:۱) یسوع کی ہزار سالہ حکمرانی کے اختتام تک خدا ان تمام مُردوں کو زندہ کر چکا ہوگا جنہیں اُس نے قیامت کیلئے مقرر کِیا ہے۔ تب زمین ایک فردوس میں تبدیل ہو چکی ہوگی۔ اس میں رہنے والے تمام لوگ اپنے بادشاہ یسوع مسیح کی حکمرانی سے بہت خوش ہوں گے۔ کیا ان باتوں سے اُسکی حکمرانی کی کامیابی کا ثبوت نہیں ملے گا؟ اسلئے آئیے، ہم اپنی نظریں یسوع کی بادشاہت کی شاندار برکات پر جمائے رکھیں۔
روحانی اور جسمانی فائدے
خدا کا خوف رکھنے سے ہم حکمت حاصل کرتے ہیں۔ اس خوبی کو عمل میں لانے سے ہم دلی سکون محسوس کرتے ہیں۔ امثال ۱۴:۲۹ میں لکھا ہے: ”جو قہر کرنے میں دھیما ہے بڑا عقلمند ہے پر وہ جو جھکی ہے حماقت کو بڑھاتا ہے۔“ ایک عقلمند شخص جانتا ہے کہ جھکی یعنی ضدی ہونے سے ہماری روحانیت پر بُرا اثر پڑتا ہے۔ خدا کے کلام میں ’عداوتوں، جھگڑوں، تفرقوں، حسد اور غصے‘ کے متعلق کہا گیا ہے کہ ”ایسے کام کرنے والے خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہوںگے۔“ (گلتیوں ۵:۱۹-۲۱) بائبل میں کہا گیا ہے کہ جب ہمارے پاس غصہ ہونے کی واجب وجہ بھی ہوتی ہے تو تب بھی ہمیں اپنے دل سے خفگی کو دُور کرنا چاہئے۔ (افسیوں ۴:۲۶، ۲۷) اس کے علاوہ ایک جھکی شخص اکثر ایسے کام یا ایسی باتیں کرتا ہے جن پر وہ بعد میں پچتاتا ہے۔
جسم پر غصے کے بُرے نتائج کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سلیمان نے کہا: ”مطمئن دل جسم کی جان ہے لیکن حسد ہڈیوں کی بوسیدگی ہے۔“ (امثال ۱۴:۳۰) غصہ کرنے سے طرح طرح کی بیماریاں لگ سکتی ہیں۔ مثلاً جگر، لبلبے، جِلد، پیٹ اور پھیپھڑوں پر اسکا بُرا اثر پڑتا ہے۔ غصہ کرنے سے دمہ اور بلڈ پریشر بھی ہو سکتا ہے۔ اسکے برعکس ”دل کا اطمینان جسم کی زندگی ہے۔“ (امثال ۱۴:۳۰، کیتھولک ورشن) لہٰذا، دانشمندی کی بات یہ ہے کہ ”ہم ان باتوں کے طالب رہیں جن سے میلملاپ اور باہمی ترقی ہو۔“—رومیوں ۱۴:۱۹۔
طرفداری کرنے سے بچیں
سلیمان نے آگے یوں لکھا: ”مسکین پر ظلم کرنے والا اُسکے خالق کی اِہانت کرتا ہے لیکن اُسکی تعظیم کرنے والا محتاجوں پر رحم کرتا ہے۔“ (امثال ۱۴:۳۱) خدا کا خوف رکھنے والا شخص یاد رکھتا ہے کہ امیر اور غریب سب کا ایک ہی خالق ہوتا ہے۔ اور خالق غریبوں کیساتھ ہمارے سلوک سے خوب واقف ہے۔ جب ہم سب کیساتھ انصاف سے پیش آتے ہیں تو خدا کی بڑائی ہوتی ہے۔ کلیسیا کے بزرگوں کو کلیسیا کے تمام مسیحیوں کی نگہبانی کرنی چاہئے، چاہے وہ امیر ہوں یا غریب۔ اسکے علاوہ ہمیں غریبوں اور امیروں دونوں کو خوشخبری کا پیغام سنانا چاہئے۔
خدا کے خوف کے ایک اَور فائدے کا بیان کرتے ہوئے سلیمان نے کہا: ”شریر اپنی شرارت میں پست کِیا جاتا ہے لیکن صادق مرنے پر بھی اُمیدوار ہے۔“ (امثال ۱۴:۳۲) شریر کسطرح پست کِیا جائے گا؟ اسکی ایک وضاحت یہ ہو سکتی ہے کہ جب وہ کسی مصیبت میں پڑ جاتا ہے تو اُسکا کوئی مددگار نہیں رہتا۔ اسکے برعکس خدا کا وفادار شخص جب مشکلات کا سامنا کرتا ہے تو وہ مرتے دم تک یہوواہ پر بھروسا رکھ سکتا ہے۔ خدا اسکی مدد ضرور کرے گا۔ خدا کا خوف رکھنے والا شخص ایوب کی طرح خیال کرتا ہے جس نے کہا: ”مَیں مرتے دم تک اپنی راستی کو ترک نہ کروں گا۔“—ایوب ۲۷:۵۔
اپنی وفاداری پر قائم رہنے کیلئے خدا کا خوف رکھنا اور حکمت سے چلنا لازمی ہے۔ ”حکمت عقلمند کے دل میں قائم رہتی ہے پر احمقوں کا دلی راز فاش ہو جاتا ہے۔“ (امثال ۱۴:۳۳) جیہاں، عقلمند شخص کے دل میں حکمت پائی جاتی ہے۔ لیکن احمقوں کے دل کا راز کسطرح فاش ہو جاتا ہے؟ ایک قاموس میں اسکے بارے میں کہا گیا ہے کہ ”احمق شخص دانشمند نظر آنے کی کوشش میں بغیر سوچےسمجھے باتیں کرتا ہے۔ لیکن پھربھی وہ آخرکار احمق ہی ثابت ہوتا ہے۔“
”صداقت قوم کو سرفرازی بخشتی ہے“
جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں ایک شخص کو خدا کا خوف رکھنے سے بہت فائدے ہوتے ہیں۔ اگلی آیت میں سلیمان نے ظاہر کِیا کہ خدا کا خوف رکھنے سے پوری قوم کو بھی فائدے ہوتے ہیں۔ اُس نے لکھا: ”صداقت قوم کو سرفرازی بخشتی ہے پر گُناہ سے اُمتوں کی رسوائی ہے۔“ (امثال ۱۴:۳۴) یہ بات قدیم اسرائیلی قوم کے بارے میں سچ ثابت ہوئی تھی۔ جب بنیاسرائیل خدا کے معیاروں پر چلتے تھے تو دوسری قوموں کی نسبت وہ زیادہ کامیاب رہتے تھے۔ لیکن جب بھی وہ یہوواہ خدا کی نافرمانی کرتے تھے تو انکی قوم کی رسوائی ہوتی۔ آخرکار خدا نے اُنہیں ترک کر دیا۔ آجکل ہم امثال ۱۴:۳۴ کو یہوواہ کے گواہوں کی کلیسیا پر لاگو کر سکتے ہیں۔ اس میں خدا کے معیاروں کو بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس لئے یہ مسیحی کلیسیا دُنیا سے بالکل فرق ہے۔ لیکن ہر ایک مسیحی کو اِن اُونچے معیاروں پر چلنا چاہئے ورنہ پوری کلیسیا کی بدنامی ہوگی۔ اس کے علاوہ ہم گُناہ کرنے سے اپنے اور خدا کے نام کو بھی بدنام کرتے ہیں۔
آخرکار سلیمان ظاہر کرتا ہے کہ ایک بادشاہ کس بات سے خوش ہوتا ہے: ”عقلمند خادم پر بادشاہ کی نظرِعنایت ہے پر اُسکا قہر اُس پر ہے جو رسوائی کا باعث ہے۔“ (امثال ۱۴:۳۵) اس کے علاوہ امثال ۱۶:۱۳ میں لکھا ہے: ”صادق لب بادشاہوں کی خوشنودی ہیں اور وہ سچ بولنے والوں کو دوست رکھتے ہیں۔“ جب ہم عقلمندی اور صداقت سے چلتے ہیں تو ہمارا بادشاہ یسوع مسیح بہت خوش ہوتا ہے۔ اور جب ہم بادشاہت کی مُنادی کرنے اور شاگرد بنانے کیلئے اپنے لبوں کو کام میں لاتے ہیں تو اُسکا دل شاد ہوتا ہے۔ اسلئے آئیے ہم مُنادی کے کام میں پورے جوش سے حصہ لیتے رہیں۔ پھر ہم اُن برکات کا پورا لطف اُٹھائیں گے جو خدا کا خوف رکھنے والوں کو عنایت ہوں گی۔
[فٹنوٹ]
a امثال ۱۴:۱-۲۵ کی وضاحت کیلئے مینارِنگہبانی نومبر ۱۵، ۲۰۰۵، صفحہ ۲۶-۲۹ اور جولائی ۱۵، ۲۰۰۵، صفحہ ۱۷-۲۰ کو دیکھیں۔
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
ہم خدا کا خوف سیکھ سکتے ہیں