”تنبیہ کا لحاظ رکھنے والا ہوشیار ہو جاتا ہے“
”تربیت پر دل لگا اور علم کی باتیں سُن۔“ یہ الفاظ امثال ۲۳:۱۲ میں پائے جاتے ہیں۔ اِس آیت میں لفظ ”تربیت“ اخلاقی معاملوں میں تعلیم کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہم یہ تعلیم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ عام طور پر یہ اُس وقت ہوتا ہے جب ہماری اصلاح کی جاتی ہے۔ لیکن ہم اپنی ہی درستی کرنے سے بھی ایسی تربیت حاصل کر سکتے ہیں۔ اس لئے ہمیں جان لینا چاہئے کہ ہمیں اپنے چالچلن میں کونسی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ یہ سمجھنا بھی اہم ہے کہ دوسروں کی تربیت صحیح طریقے سے کیسے کی جائے۔ لہٰذا، تربیت کے سلسلے میں ہمیں ”علم کی باتیں“ یعنی دانشمندی کی باتیں سیکھنے کی ضرورت ہے۔
بائبل میں امثال کی کتاب میں ہمارے فائدے کیلئے بہت سی دانشمند باتیں لکھی ہیں۔ ان کو ”حکمت اور تربیت حاصل کرنے اور . . . عقلمندی اور صداقت اور عدل اور راستی میں تربیت حاصل کرنے کیلئے“ درج کِیا گیا ہے۔ (امثال ۱:۱-۳) ہمارا فائدہ اس میں ہوگا کہ ہم ان باتوں کو دھیان سے ’سنیں۔‘ امثال ۱۵ باب پر غور کرنے سے ہم دیکھیں گے کہ ہم اپنی زبان اور اپنے غصے پر کیسے قابو پا سکتے ہیں اور ہمیں تعلیم دینے کے سلسلے میں بھی ہدایت دی جاتی ہے۔
قہر کیسے ’دُور کِیا جائے‘؟
بادشاہ سلیمان ظاہر کرتا ہے کہ ہم اپنی باتوں سے یا تو غصہ دِلا سکتے ہیں یا پھر کسی کے غضب کو ٹھنڈا کر سکتے ہیں۔ ”نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے پر کرخت باتیں غضبانگیز ہیں۔“ (امثال ۱۵:۱) غضب اور قہر کے ذریعے ایک شخص سخت ناراضگی کا اظہار کرتا ہے۔ ایسے جذبات پر قابو پانا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ جب ہمارا واسطہ کسی غصیلے شخص سے پڑتا ہے تو ہم اپنے قہر پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟ اِس میں امثال ۱۵:۱ ہماری مدد کر سکتی ہے۔
ایسی صورتحال میں اگر ہم کرخت لہجے میں بات کریں گے تو وہ شخص اَور بھی ناراض ہوگا۔ اس کے برعکس، اگر ہم غصہ کرنے والے شخص کو نرمی سے جواب دیتے ہیں تو اکثر اُس کا قہر ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ یہ بات سچ ہے کہ ایسا کرنا آسان نہیں۔ اس لئے ہمیں اُس کی ناراضگی کی وجہ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس طرح ہمیں اُسے نرمی سے جواب دینا زیادہ آسان لگے گا۔ خدا کا کلام اس سلسلے میں یوں بیان کرتا ہے: ”آدمی کی تمیز اُس کو قہر کرنے میں دھیما بناتی ہے۔ اور خطا سے درگذر کرنے میں اُس کی شان ہے۔“ (امثال ۱۹:۱۱) شاید یہ شخص اس لئے غصے میں ہے کیونکہ اُسے اپنی قابلیت پر اعتماد نہیں یا وہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ہم سے ذاتی طور پر ناراض نہیں ہے۔ مثال کے طور پر، مُنادی کے کام میں حصہ لیتے وقت جب ہم مالکِمکان کے غصے کا نشانہ بنتے ہیں تو اکثر یہ اس لئے ہے کہ وہ ہمارے عقائد کے بارے میں کسی غلطفہمی کا شکار ہوتا ہے۔ اگر ہم یہ سمجھ کر کہ وہ ہم سے ذاتی طور پر ناراض ہے اُسے سخت لہجے میں جواب دیں گے تو کیا ہم واقعی خود پر قابو رکھ رہے ہوں گے؟ چاہے ہم اُس شخص کے غصے کا باعث جانتے ہوں یا نہیں، ہمیں اپنی باتوں سے اُسے کبھی ٹھیس نہیں پہنچانی چاہئے۔ لہٰذا، ہمیں سختی سے جواب دینے سے ہر حال میں گریز کرنا چاہئے۔
نرم لہجے میں جواب دینے کا مشورہ اُس وقت بھی کام آتا ہے جب ہمیں اپنے غصہ کو قابو میں رکھنا ہو۔ ہمیں اپنے جذبات کا اظہار اس طرح سے کرنا چاہئے کہ دوسروں کو ٹھیس نہ پہنچے۔ مثال کے طور پر خاندانوالوں سے بات کرتے ہوئے ہمیں سخت الفاظ استعمال کرنے یا گالیاں دینے کی بجائے نرمی سے پیش آنا چاہئے۔ اگر ہم سخت لہجے میں بات کریں گے تو دوسروں کا ردِعمل بھی سخت ہوگا۔ اس کے برعکس، اگر ہم نرمی سے اپنی رائے کا اظہار کریں گے تو شاید ہم دوسروں کو جیت لیں۔
”داناؤں کی زبان علم کا دُرست بیان کرتی ہے“
نہ صرف ہمارے بولنے کا لہجہ بلکہ ہماری باتیں بھی بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ سلیمان بادشاہ نے بیان کِیا: ”داناؤں کی زبان علم کا درست بیان کرتی ہے۔ پر احمقوں کا مُنہ حماقت اُگلتا ہے۔“ (امثال ۱۵:۲) جب ہم دوسروں کی مدد کرنے کی خواہش سے ان کو خدا کے مقصد اور اُس کے کاموں کے بارے میں بتاتے ہیں تو ہم بیشک ’علم کا درست بیان کرتے ہیں۔‘ لیکن ایک احمق ایسا نہیں کرتا کیونکہ وہ ایسا علم رکھتا ہی نہیں۔
زبان کے صحیح استعمال کے بارے میں مزید ہدایات دینے سے پہلے سلیمان یوں بیان کرتا ہے: ”[یہوواہ] کی آنکھیں ہر جگہ ہیں اور نیکوں اور بدوں کی نگران ہیں۔“ (امثال ۱۵:۳) ہم اس حقیقت سے خوش ہو سکتے ہیں کیونکہ خدا کا کلام ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ”[یہوواہ] کی آنکھیں ساری زمین پر پھرتی ہیں تاکہ وہ اُن کی امداد میں جن کا دل اُس کی طرف کامل ہے اپنے تیئں قوی دکھائے۔“ (۲-تواریخ ۱۶:۹) یہوواہ خدا ہمارے نیک کاموں سے واقف ہے۔ لیکن وہ بُرے لوگوں کے کاموں کو بھی پہچانتا ہے اور انہیں ان کے لئے جوابدہ ٹھہرائے گا۔
پھر سلیمان دوبارہ سے زبان کے صحیح استعمال پر بات کرتا ہے: ”صحتبخش زبان حیات کا درخت ہے پر اُس کی کجگوئی رُوح کی شکستگی کا باعث ہے۔“ (امثال ۱۵:۴) ”حیات کا درخت“ خوراک فراہم کرتا اور شفا بخشتا ہے۔ (مکاشفہ ۲۲:۲) اسی طرح اگر ہم نرم لہجے میں بات کرتے ہیں تو ہمارے سننے والوں کے مزاج پر اچھا اثر پڑتا ہے اور اُن کی اچھی خوبیاں نمایاں ہو جاتی ہیں۔ اس کے برعکس، فریبی یا بدتمیز باتیں سُن کر لوگوں کا حوصلہ ٹوٹ جاتا ہے۔
تنبیہ قبول کریں اور ’علم پھیلائیں‘
سلیمان آگے یوں بیان کرتا ہے: ”احمق اپنے باپ کی تربیت کو حقیر جانتا ہے پر تنبیہ کا لحاظ رکھنے والا ہوشیار ہو جاتا ہے۔“ (امثال ۱۵:۵) یقیناً احمق کا باپ اُس کی تنبیہ کرتا ہے کیونکہ اگر احمق کی تربیت بالکل نہیں کی جاتی تو وہ اسے ”حقیر“ کیسے جان سکتا؟ بہرحال، ہم اس آیت سے جان جاتے ہیں کہ بچوں کی تنبیہ کرنا ضروری ہے۔ بچوں کی تربیت کرنے کی ذمہداری دونوں والدین اور خاص طور پر باپ پر پڑتی ہے۔ اس تربیت کو قبول کرنا بچوں کا فرض ہے۔ (افسیوں ۶:۱-۳) دراصل یہوواہ خدا کے تمام خادموں کی تنبیہ کی جاتی ہے۔ عبرانیوں ۱۲:۶ میں لکھا ہے: ”جس سے [یہوواہ] محبت رکھتا ہے اُسے تنبیہ بھی کرتا ہے اور جس کو بیٹا بنا لیتا ہے اُس کے کوڑے بھی لگاتا ہے۔“ تنبیہ پر عمل کرنے یا پھر اسے رد کرنے سے ایک شخص ظاہر کرتا ہے کہ آیا وہ دانشمند ہے یا احمق۔
اب سلیمان دانشمند اور احمق میں ایک اَور فرق پر غور کرتا ہے: ”داناؤں کے لب علم پھیلاتے ہیں پر احمقوں کے دل ایسے نہیں۔“ (امثال ۱۵:۷) علم پھیلانا کچھ اسی طرح ہے کہ جب ایک کسان بیج بوتا ہے۔ وہ اپنے سارے بیج ایک ہی جگہ نہیں بوتا بلکہ انہیں پورے کھیت پر بکھیرتا ہے۔ اِسی طرح، جب ہم مُنادی کے کام میں خدا کے کلام کی تعلیم دیتے ہیں تو ہم لوگوں کو پہلی ہی ملاقات پر وہ تمام باتیں نہیں بتاتے جو ہم بائبل کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس کی بجائے ہم اپنی زبان پر قابو رکھتے ہوئے ہر ملاقات پر ایک ہی نکتے پر بات کرتے ہیں اور سننے والے کی بات پر بھی غور کرتے ہیں۔ اس طرح ہم ’علم کو پھیلا کر‘ لوگوں کے علم کو آہستہ آہستہ بڑھاتے ہیں۔ یسوع مسیح نے سامری عورت سے بات کرتے ہوئے یہی طریقہ اختیار کِیا تھا۔—یوحنا ۴:۷-۲۶۔
تعلیم دیتے وقت ہمیں فائدہمند باتوں پر زور دینا چاہئے۔ اس لئے ہمیں سوچسمجھ کر بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے سننے والوں کا علم بڑھے اور اُن کی حوصلہافزائی بھی ہو۔ سلیمان نے اس سچائی کو یوں بیان کِیا: ”صادق کا دل سوچ کر جواب دیتا ہے۔“ (امثال ۱۵:۲۸) ہماری باتیں ہلکے ہلکے مینہ کی طرح ہونی چاہئیں جو زمین کو بھگوتا ہے، نہ کہ زوردار بارش کی طرح جس میں مٹی بہہ جاتی ہے۔
”اپنے سارے چالچلن میں پاک بنو“
یہوواہ خدا اور اُس کے مقصد کے بارے میں تعلیم دینا اور ”حمد کی قربانی“ یعنی ”ہونٹوں کا پھل“ پیش کرنا واقعی دانشمندی کی بات ہے۔ (عبرانیوں ۱۳:۱۵) لیکن خدا ایسی قربانیاں صرف اس صورت میں قبول کرتا ہے جب ہم ”اپنے سارے چالچلن میں پاک“ رہتے ہیں۔ (۱-پطرس ۱:۱۴-۱۶) سلیمان اس سچائی کو واضح کرتا ہے: ”شریروں کے ذبیحہ سے [یہوواہ] کو نفرت ہے پر راستکار کی دُعا اُس کی خوشنودی ہے۔ شریروں کی روِش سے [یہوواہ] کو نفرت ہے پر وہ صداقت کے پیرو سے محبت رکھتا ہے۔“—امثال ۱۵:۸، ۹۔
ہمیشہ کی زندگی کی راہ سے بھٹکنے والے لوگ تنبیہ کو کیسے خیال کرتے ہیں؟ اور اُن کا انجام کیا ہوگا؟ (متی ۷:۱۳، ۱۴) ”راہ سے بھٹکنے والے کے لئے سخت تادیب ہے اور تنبیہ سے نفرت کرنے والا مرے گا۔“ (امثال ۱۵:۱۰) ایسے لوگ جنہوں نے بُری روِش اختیار کی ہے، انہیں کلیسیا کے بزرگوں کی اصلاح کو قبول کرنا چاہئے۔ لیکن اس کی بجائے ان میں سے بعض صداقت کی راہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ کتنا احمقانہ فیصلہ ہے!
کچھ لوگ شاید تنبیہ قبول کرنے کا دعویٰ کریں حالانکہ دل ہی دل میں انہیں اس سے کوفت ہے۔ یہ بھی حماقت ہے، کیونکہ سلیمان نے لکھا: ”جب پاتال اور جہنم [یہوواہ] کے حضور کُھلے ہیں تو بنیآدم کے دل کا کیا ذکر؟“ (امثال ۱۵:۱۱) پاتال یعنی وہ علامتی جگہ جہاں مُردے موت کی نیند سو رہے ہیں یہوواہ خدا کی نظروں سے چھپی نہیں رہتی۔ خدا مُردوں میں سے ہر ایک کے بارے میں جانتا ہے کہ اُس کی شکل اور شخصیت کیسی تھی، اور وہ اُن سب کو دوبارہ زندہ کر سکتا ہے۔ (زبور ۱۳۹:۸؛ یوحنا ۵:۲۸، ۲۹) لہٰذا، یہوواہ یہ بھی جانتا ہے کہ زندہ انسانوں کے دل میں کیا پوشیدہ ہے۔ پولس رسول نے لکھا: ”اُس سے مخلوقات کی کوئی چیز چھپی نہیں بلکہ جس سے ہم کو کام ہے اُس کی نظروں میں سب چیزیں کُھلی اور بےپردہ ہیں۔“ (عبرانیوں ۴:۱۳) ہم انسان کو تو دھوکا دے سکتے ہیں لیکن خدا کو نہیں۔
تنبیہ کو رد کرنے والے کو اُس شخص سے بھی نفرت ہے جو اس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ سلیمان نے لکھا: ”ٹھٹھاباز تنبیہ کو دوست نہیں رکھتا اور داناؤں کی مجلس میں ہرگز نہیں جاتا۔“ (امثال ۱۵:۱۲) بھلا ایک ایسا شخص سیدھی راہ پر کیسے آ سکتا ہے؟
خوشدل رہیں
اگلی تین آیات میں انسان کے دل پر زور دیا گیا ہے۔ سلیمان بیان کرتا ہے کہ ہمارا مزاج ہمارے چہرے سے کیسے ظاہر ہوتا ہے: ”شادمان دل چہرے کو خوش بناتا ہے پر دل کی غمگینی سے روح کی شکستگی ہوتی ہے۔“—امثال ۱۵:۱۳، کیتھولک ورشن۔
دل کی غمگینی کا عام سا سبب خدا کے کلام میں یوں بتایا گیا ہے: ”آدمی کا دل فکرمندی سے دب جاتا ہے۔“ (امثال ۱۲:۲۵) ہم زندگی کی مشکلات تلے دب جانے سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ ہمیں ایسے حالات کے بارے میں زیادہ فکر نہیں کرنی چاہئے جنہیں ہم بدل نہیں سکتے۔ اس کی بجائے یہ بہتر ہے کہ ہم ان تمام برکتوں اور خوشیوں پر غور کریں جن سے یہوواہ نے ہمیں اب تک نوازا ہے اور مستقبل میں بھی نوازے گا۔ اس طرح ہم خدا کے زیادہ نزدیک جا سکتے ہیں اور ”خدایِمبارک“ کی قُربت غمگین دلوں کے لئے خوشی کا باعث بھی بنتی ہے۔—۱-تیمتھیس ۱:۱۱۔
اس کے علاوہ خدا کا کلام بھی ہماری تسلی اور خوشی کا باعث بن سکتا ہے۔ زبور میں لکھا ہے کہ ایک شخص اُس وقت مبارک ہے جب ”[یہوواہ] کی شریعت میں اُس کی خوشنودی ہے اور اُسی کی شریعت پر دن رات اُس کا دھیان رہتا ہے۔“ (زبور ۱:۱، ۲) جب ہمارا دل بھاری ہوتا ہے تو بائبل کو پڑھنے اور اس پر غور کرنے سے ہماری حوصلہافزائی ہوتی ہے۔ مُنادی کے کام میں حصہ لینے سے بھی ہمیں خوشی ملتی ہے، جیسےکہ لکھا ہے کہ ”جو آنسوؤں کے ساتھ بوتے ہیں وہ خوشی سے کاٹیں گے۔“—زبور ۱۲۶:۵۔
سلیمان آگے بیان کرتا ہے: ”صاحبِفہم کا دل علم کا طالب ہے پر احمقوں کی خوراک حماقت ہے۔“ (امثال ۱۵:۱۴) اس آیت سے دانشمند اور احمق کے درمیان ایک اَور فرق ظاہر ہوتا ہے۔ ایک عقلمند شخص کسی کو مشورہ دینے سے پہلے علم طلب کرتا ہے۔ وہ دوسروں کی بات غور سے سنتا ہے اور تمام حقائق کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ خدا کے کلام میں سے مناسب اصول اور قواعد کی تلاش کرنے کے بعد ہی مشورہ دیتا ہے۔ اس کے برعکس احمق صورتحال کو سمجھنے کی کوشش کئے بغیر اپنی ہی سوچ کے مطابق مشورہ دیتا ہے۔ ہمیں ایک ایسے شخص سے مشورہ نہیں لینا چاہئے بلکہ ہمیں ایک پُختہ اور تجربہکار شخص ہی سے مدد مانگنی چاہئے۔ مسیحی کلیسیا کے بزرگ علم کے طالب ہیں۔ واقعی ایسے اشخاص کلیسیا کے لئے ”انعام“ ہوتے ہیں۔—افسیوں ۴:۸۔
اگلی آیت میں خوش رہنے کا فائدہ بتایا گیا ہے: ”مصیبتزدہ کے تمام ایّام بُرے ہیں پر خوشدل ہمیشہ جشن کرتا ہے۔“ (امثال ۱۵:۱۵) زندگی میں خوشگوار موقعوں کے ساتھ ساتھ دُکھ بھرے لمحے بھی آتے ہیں۔ اگر ہم سارا وقت مشکلات ہی کے بارے میں سوچتے رہیں گے تو ہماری زندگی افسردگی میں ڈوب جائے گی۔ لیکن اگر ہم زندگی کی خوشیوں اور خدا کے کلام کی اُمید پر غور کرتے رہیں گے تو ہم اپنی مشکلات پر حد سے زیادہ توجہ نہیں دیں گے۔ اس سے ہماری زندگی زیادہ خوشحال ہو جائے گی اور ہم ’ہمیشہ جشن بھی کریں گے۔‘
واقعی، تربیت کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ دُعا ہے کہ اس کا ہمارے جذبات، ہماری باتوں اور ہمارے چالچلن پر اثر ہو اور اس طرح ہم خوشحال زندگی گزارنے کے قابل بنیں۔
[صفحہ ۱۸ پر تصویر]
”نرم جواب قہر کو دُور کر دیتا ہے“
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
بچوں کی تربیت کرنا والدین کی ذمہداری ہوتی ہے
[صفحہ ۲۰ پر تصویر]
”داناؤں کے لب علم پھیلاتے ہیں“