کیا آپ ایک اچھے ہمخدمت ہیں؟
”ماہر کاریگر کی مانند مَیں اُس کے پاس تھی اور مَیں . . . ہمیشہ اُس کے حضور شادمان رہتی تھی۔“ (امثا 8:30) اِس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ زمین پر آنے سے پہلے یسوع مسیح نے بہت سالوں تک اپنے باپ کے ساتھ مل کر کام کِیا۔ غور کریں کہ اِس آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ یسوع کو اپنے باپ کے ساتھ کام کرنا کیسا لگتا تھا۔ آیت میں لکھا ہے کہ ’وہ اُس کے حضور شادمان رہتے تھے۔‘
آسمان پر رہ کر یسوع مسیح نے بہت سی ایسی خوبیاں سیکھیں جن کی وجہ سے وہ ایک اچھے ہمخدمت بن پائے۔ پھر جب وہ زمین پر آئے تو اُنہوں نے اپنے ساتھیوں کے لیے بھی بڑی اچھی مثال قائم کی۔ ہم یسوع مسیح کی طرح اچھے ہمخدمت کیسے بن سکتے ہیں؟ اُن کی مثال پر غور کرنے سے ہم تین ایسے اصول سیکھتے ہیں جن سے ہم دوسروں کے ساتھ مل کر اچھی طرح سے کام کر سکتے ہیں۔ اِن اصولوں کی مدد سے ہم اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ اَور متحد ہو جائیں گے اور اُن کے ساتھ تعاون کریں گے۔
پہلا اصول: ’ایک دوسرے کی عزت کریں‘
ایک اچھا ہمخدمت خاکسار ہوتا ہے۔ وہ خود کو اپنے ساتھیوں سے زیادہ اہم نہیں سمجھتا اور شیخی نہیں مارتا۔ یسوع مسیح بھی ایسے ہی تھے۔ اُنہوں نے اپنے آسمانی باپ سے فروتن ہونا سیکھا تھا۔ حالانکہ یہوواہ نے سب چیزیں بنائیں اور اِس کا سہرا صرف اُسی کے سر جاتا ہے لیکن اُس نے ہماری توجہ اِس بات پر دِلائی کہ اِس کام میں اُس کے بیٹے نے بھی کتنا اہم کردار ادا کِیا تھا۔ یہ بات یہوواہ کے اِن الفاظ سے صاف پتہ چلتی ہے: ’ہم اِنسان کو اپنی صورت پر بنائیں۔‘ (پید 1:26) غور کریں کہ آیت میں یہوواہ نے لفظ ”مَیں“ نہیں بلکہ ”ہم“ اِستعمال کِیا۔ یہوواہ کے یہ الفاظ سُن کر یسوع مسیح کو یقیناً یہ محسوس ہوا ہوگا کہ اُن کا باپ کتنا فروتن ہے۔—زبور 18:35۔
جب یسوع مسیح زمین پر تھے تو اُنہوں نے اپنے آسمانی باپ کی طرح فروتنی ظاہر کی۔ جب لوگوں نے اُن کے کاموں کے لیے اُن کی تعریف کی تو اُنہوں نے اپنی بڑائی نہیں کی بلکہ یہوواہ کی بڑائی کی کیونکہ وہی اِس کا حقدار تھا۔ یسوع مسیح ہمیشہ اپنے شاگردوں کے ساتھ صلح صفائی سے رہتے تھے۔ وہ اُنہیں اپنا غلام نہیں بلکہ اپنا دوست سمجھتے تھے۔ (مر 10:17، 18؛ یوح 7:15، 16) اُنہوں نے تو اپنے شاگردوں کو خاکساری کی خوبی سکھانے کے لیے اُن کے پاؤں تک دھوئے۔ (یوح 15:15) یسوع کی طرح ہمیں بھی اپنے ہمخدمتوں کی عزت کرنی چاہیے اور اپنے فائدے سے زیادہ اُن کے فائدے کا سوچنا چاہیے۔ (یوح 13:5، 12-14) جب ہم ”ایک دوسرے کی عزت“ کرتے ہیں اور اِس بات کی پروا نہیں کرتے کہ لوگ ہماری واہ واہ کریں تو ہم اپنے ہمخدمتوں کے ساتھ مل کر بہت کچھ کر پاتے ہیں۔—روم 12:10۔
ایک خاکسار شخص یہ بات بھی سمجھتا ہے کہ ”جہاں بہت سے مشیر ہوتے ہیں وہاں کامیابی ہوتی ہے۔“ (امثا 15:22، اُردو جیو ورشن) چاہے ہم کتنے ہی تجربہکار یا قابل کیوں نہ ہوں، ہمیں یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ کسی بھی اِنسان کو سب باتوں کا پتہ نہیں ہوتا۔ یہ بات تو یسوع مسیح نے بھی تسلیم کی کہ وہ ہر بات نہیں جانتے۔ (متی 24:36) اِس کے علاوہ وہ اِس بات میں بھی دلچسپی رکھتے تھے کہ اُن کے عیبدار شاگرد کیا کچھ جانتے ہیں اور کسی معاملے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ (متی 16:13-16) یہی وجہ تھی کہ اُن کے ہمخدمت اُن کی موجودگی میں گھبراہٹ محسوس نہیں کرتے تھے۔ اِسی طرح جب ہم خاکساری سے دوسروں کے مشوروں کو سنتے ہیں اور یہ یاد رکھتے ہیں کہ ہمیں سب کچھ نہیں پتہ تو اُن کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہو جاتے ہیں اور ہم مل کر بہت کچھ کر پاتے ہیں۔
کلیسیا کے بزرگوں کے لیے یسوع مسیح کی طرح خاکساری ظاہر کرنا بہت ضروری ہے، خاص طور پر اُس وقت جب وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ اُنہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہوواہ اپنی پاک روح کے ذریعے کسی بھی بزرگ کے ذہن میں بائبل کا کوئی ایسا اصول ڈال سکتا ہے جو اچھے فیصلے کرنے میں بزرگوں کی جماعت کے کام آ سکتا ہے۔ لہٰذا بزرگوں کے اِجلاس کے دوران بزرگوں کو ایسا ماحول برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں ہر کوئی کُھل کر اپنی رائے دے سکے۔ یوں وہ مل کر ایسے فیصلے کر پائیں گے جن سے پوری کلیسیا کو فائدہ ہوگا۔
دوسرا اصول: ”آپ کی سمجھداری [یا نرمی، لچکداری] سب لوگوں کو دِکھائی دے“
ایک اچھا ہمخدمت سمجھدار ہوتا ہے۔ وہ نرمی اور لچکداری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یسوع مسیح کو بہت بار اپنے باپ کی یہ خوبی دیکھنے کا موقع ملا۔ مثال کے طور پر حالانکہ اِنسان موت کے حقدار تھے لیکن یہوواہ خدا نے اُنہیں اِس سزا سے چھٹکارا دِلانے کے لیے اپنے بیٹے کو زمین پر بھیجا۔—یوح 3:16۔
جب بھی مناسب ہوتا تھا، یسوع مسیح بھی نرمی اور لچکداری کا مظاہرہ کرتے تھے۔ یاد کریں کہ یسوع مسیح نے ایک فینیکی عورت کی مدد کی تھی حالانکہ اُنہیں اِسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس بھیجا گیا تھا۔ (متی 15:22-28) اِس کے علاوہ جب یسوع مسیح کے شاگرد اُن کی توقعات پر پورا نہیں اُترتے تھے تو بھی وہ اُن کے ساتھ نرمی سے پیش آتے تھے۔ جب یسوع کے قریبی دوست پطرس نے اُنہیں سب کے سامنے جاننے سے اِنکار کر دیا تو یسوع نے اُنہیں معاف کر دیا۔ بعد میں تو یسوع مسیح نے پطرس کو بہت سی اہم ذمےداریاں بھی دیں۔ (لُو 22:32؛ یوح 21:17؛ اعما 2:14؛ 8:14-17؛ 10:44، 45) یسوع مسیح کی مثال سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہماری ”سمجھداری [یا نرمی، لچکداری] سب لوگوں کو دِکھائی“ دینی چاہیے۔—فل 4:5۔
اگر ہم سمجھدار ہوں گے تو ہم ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ صلح صفائی سے پیش آئیں گے۔ جو لوگ یسوع مسیح کا پیغام سننے آتے تھے، وہ اُن کے ساتھ اِتنی اچھی طرح پیش آتے تھے کہ اُن کے دُشمنوں نے اُن پر یہ اِلزام لگایا کہ وہ ’ٹیکس وصول کرنے والوں اور گُناہگاروں کے یار‘ ہیں۔ (متی 11:19) یسوع مسیح کی طرح کیا ہم بھی خوشی سے اُن لوگوں کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں جن کی شخصیت ہم سے فرق ہے؟ ذرا بھائی لوئس کے تجربے پر غور کریں جنہوں نے حلقے کے نگہبان کے طور پر اور بیتایل میں کام کرتے وقت فرق فرق پسمنظر کے بہن بھائیوں کے ساتھ کام کِیا۔ وہ کہتے ہیں: ”میری طرح میرے بہن بھائی بھی عیبدار ہیں۔ اِس لیے اُن کے ساتھ مل کر کام کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہم فرق فرق سائز کے پتھروں سے ایک دیوار بنا رہے ہوں۔ اور کیونکہ ہر پتھر کا سائز اور شکل ایک دوسرے سے فرق ہے اِس لیے سیدھی دیوار بنانے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ مَیں دوسروں کے ساتھ صلح صفائی سے کام کرنے کے لیے خود کو حالات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتا ہوں تاکہ ہم اچھی طرح سے کام کر پائیں۔“
ایک اچھا ہمخدمت دوسروں پر دبدبہ قائم رکھنے کے لیے اُن سے وہ باتیں چھپانے کی کوشش نہیں کرتا جن سے اُنہیں فائدہ ہو سکتا ہے۔
ہم کن موقعوں پر اپنی کلیسیا کے بہن بھائیوں کے ساتھ کام کرتے وقت سمجھداری کا مظاہرہ کر سکتے ہیں؟ ہمیں ایسا کرنے کا ایک موقع اُن کے ساتھ مُنادی کرتے وقت ملتا ہے۔ شاید ہمیں فرق فرق عمر کے مبشروں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملے یا ایسے مبشروں کے ساتھ جو اپنے گھرانے میں ایسی ذمےداریاں نبھا رہے ہیں جو ہم پر نہیں ہیں۔ کیا ہم اُن کے ساتھ مُنادی کرتے وقت ایسے طریقے اپنا سکتے ہیں جو اُنہیں آسان لگیں اور جن سے اُنہیں خوشی ملے؟
تیسرا اصول: ”اپنی چیزیں دوسروں کے ساتھ بانٹنے کے لیے تیار رہیں“
ایک اچھا ہمخدمت ”اپنی چیزیں دوسروں کے ساتھ بانٹنے کے لیے تیار“ رہتا ہے۔ (1-تیم 6:18) یسوع مسیح نے دیکھا کہ اُن کے آسمانی باپ نے اِس حوالے سے کتنی اچھی مثال قائم کی۔ جب وہ اُس کے ساتھ کام کر رہے تھے تو یہوواہ نے اپنا علم اور تجربہ اُن سے چھپا کر نہیں رکھا۔ جب یہوواہ خدا نے ”آسمان کو قائم کِیا“ تو یسوع مسیح وہیں تھے اور اُنہوں نے یہوواہ سے بہت کچھ سیکھا۔ (امثا 8:27) بعد میں یسوع مسیح نے بھی اپنے شاگردوں کو خوشی سے ’وہ باتیں بتائیں جو اُنہوں نے اپنے باپ سے سنی تھیں۔‘ (یوح 15:15) یہوواہ کی مثال پر عمل کرتے ہوئے ہمیں بھی اپنے ہمخدمتوں کے ساتھ اپنا علم اور تجربہ بانٹنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ایک اچھا ہمخدمت دوسروں پر دبدبہ قائم رکھنے کے لیے اُن سے وہ باتیں چھپانے کی کوشش نہیں کرتا جن سے اُنہیں فائدہ ہو سکتا ہے۔ وہ تو خوشی سے دوسروں کو وہ باتیں بتاتا ہے جو اُس نے سیکھی ہیں۔
ہم اپنے ہمخدمتوں سے ایسی باتیں بھی کہہ سکتے ہیں جن سے اُنہیں حوصلہ ملے۔ ذرا سوچیں کہ کیا ہمیں اُس وقت خوشی نہیں ملتی جب کوئی ہماری محنت کی قدر کرتا ہے؟ یسوع مسیح اپنے ہمخدمتوں کی محنت کے لیے اُن کی تعریف کرنے سے کبھی نہیں ہچکچاتے تھے۔ (متی 25:19-23؛ لُوقا 10:17-20 پر غور کریں۔) یسوع نے تو اُن سے یہ تک کہا کہ وہ ’اُن سے بھی بڑے کام کریں گے۔‘ (یوح 14:12) یسوع مسیح نے اپنی موت سے کچھ دیر پہلے اپنے وفادار رسولوں سے یہ کہہ کر اُن کی تعریف کی: ”آپ نے میری آزمائشوں میں میرا ساتھ دیا ہے۔“ (لُو 22:28) ذرا سوچیں کہ یسوع مسیح کی یہ بات سُن شاگردوں کا حوصلہ کتنا بڑھا ہوگا اور اُنہیں اچھے کام کرتے رہنے کی ہمت ملی ہوگی۔ اگر ہم بھی اپنے ہمخدمتوں کی محنت کے لیے اُن کی تعریف کریں گے تو اِس سے اُنہیں بہت خوشی ملے گی اور وہ اَور اچھی طرح سے یہوواہ کی خدمت کر پائیں گے۔
آپ ایک اچھے ہمخدمت بن سکتے ہیں!
کےیوڈی نامی بھائی کہتے ہیں: ”ایک اچھا ہمخدمت ہونے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ایک شخص کو ہر کام اچھی طرح سے آتا ہو۔ اچھا ہمخدمت وہ ہوتا ہے جو اپنے ساتھ کام کرنے والے لوگوں میں خوشیاں بانٹتا ہے اور اُن کے کام کے بوجھ کو کم کرتا ہے۔“ کیا آپ بھی ایک ایسے ہی ہمخدمت ہیں؟ یہ جاننے کے لیے کیوں نہ اپنے ہمخدمتوں سے پوچھیں کہ اُنہیں آپ کے ساتھ کام کرنا کیسا لگتا ہے؟ اگر اُنہیں آپ کے ساتھ کام کر کے خوشی ملتی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے یسوع کے شاگردوں کو اُن کے ساتھ کام کر کے خوشی ملتی تھی تو آپ بھی وہی بات کہہ سکتے ہیں جو پولُس رسول نے کہی: ”ہم تو بس آپ کے ہمخدمت ہیں تاکہ آپ خوشی سے بھر جائیں۔“—2-کُر 1:24۔