اچھے دوستوں کی پہچان
ایک جوان عورت جسے ہم سارہ کا نام دینگے بہت پریشان تھی۔ اُسکا دل دُکھ سے بھاری تھا۔ جس آدمی کو اُس نے اپنا دوست مانا تھا وہ ایک قاتل نکلا۔ سارہ کہتی ہے: ”اگر وہ شخص جس پر مَیں اتنا بھروسہ رکھتی تھی ایسا نکلا تو پھر مَیں کسی اَور پر بھروسہ کیسے کر پاؤنگی؟“ جس شخص سے وہ یہ بات کہہ رہی تھی اُس نے سارہ سے پوچھا: ”کیا تُم نہیں جانتی تھی کہ اس آدمی کے کوئی معیار نہیں ہیں؟“ سارہ نے پوچھا: ”کیا مطلب؟“ سارہ تو یہ بھی نہیں جانتی تھی کہ لفظ ”معیار“ کا مطلب کیا ہے۔ کیا آپ اِس لفظ کا مطلب جانتے ہیں؟ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپکے دوست کیسے معیار رکھتے ہیں؟
جیسا کہ ہم نے سارہ کے تجربے سے سیکھا ہے اِسکا جواب جاننا ہمارے لئے زندگی اور موت کا سوال بن سکتا ہے۔ خدا کا کلام بیان کرتا ہے: ”وہ جو داناؤں کیساتھ چلتا ہے دانا ہوگا پر احمقوں کا ساتھی ہلاک کِیا جائیگا۔“ (امثال ۱۳:۲۰) تاہم سارہ کی طرح بہتیرے لوگ محض اِسلئے کسی کیساتھ دوستی کر لیتے ہیں کیونکہ اُنکا مزاج آپس میں ملتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ ہم اُن لوگوں سے میلجول رکھنا پسند کرتے ہیں جنکے ساتھ ہماری بنتی ہے۔ لیکن اگر ہم صرف اِسی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے دوست بنائینگے اور اِس بات پر غور نہیں کرینگے کہ اُنکی شخصیت کیسی ہے یا وہ کیسی خوبیاں رکھتے ہیں تو شاید بعد میں ہمیں پچھتانا پڑے۔ توپھر ہم کیسے جان سکتے ہیں کہ آیا ایک شخص اُونچے معیار رکھتا ہے یا نہیں؟
اُونچے معیاروں کی اہمیت
پہلے تو ہمارے اپنے معیار اُونچے ہونے چاہئیں۔ ہمیں صحیح اور غلط، اچھے اور بُرے کی پہچان ہونی چاہئے۔ ہمارا چالچلن اچھا ہونا چاہئے۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”جسطرح لوہا لوہے کو تیز کرتا ہے اُسی طرح آدمی کے دوست کے چہرہ کی آب اُسی سے ہے۔“ (امثال ۲۷:۱۷) جب دو دوستوں کے اخلاقی معیار لوہے کی طرح مضبوط ہوتے ہیں تو اُنکا ایک دوسرے پر اچھا اثر پڑتا ہے۔ اِسطرح اُنکی دوستی بھی مضبوط ہو جاتی ہے۔
فرانس میں رہنے والا پاکوم کہتا ہے: ”میرے خیال میں ایک اچھا دوست وہ ہے جو میری بات پر غور کرتا ہے اور میرے ساتھ اچھی طرح سے پیش آتا ہے۔ اُس میں اتنی ہمت ہونی چاہئے کہ وہ مجھے غلط قدم اُٹھانے سے روکے۔“ اچھے دوست وہی ہوتے ہیں جو ہمیں سیدھے راستے پر چلنے میں مدد دیتے ہیں اور ہماری اصلاح کرتے ہیں۔ خدا کا کلام ہمیں بتاتا ہے کہ ”جو زخم دوست کے ہاتھ سے لگیں پُروفا ہیں۔“ (امثال ۲۷:۶) اگر ہم اخلاقی اور روحانی طور پر مضبوط ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں اُن لوگوں سے میلجول رکھنا چاہئے جو خدا اور اُسکے معیاروں سے پیار کرتے ہیں۔ فرانس میں رہنے والی سلین کہتی ہے: ”مَیں جس سکول میں پڑھتی تھی وہاں اَور کوئی بھی نہیں تھا جو میرے مذہبی معیاروں پر چلتا تھا۔ اِسلئے مَیں نے مسیحی کلیسیا میں دوست بنائے۔ اِن دوستوں کی مدد سے مَیں اپنے اُونچے معیاروں پر قائم رہی۔“
ہونے والے دوستوں کو پرکھیں
اگر آپ کسی سے دوستی کرنا چاہتے ہیں تو اپنے آپ سے پوچھیں کہ ”اِسکے دوست کون ہیں؟“ ایک شخص کے دوستوں کو دیکھ کر آپ اُسکے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ یہ بھی جان لیں کہ باعزت لوگ اِس شخص کے بارے میں کیسی رائے رکھتے ہیں۔ اِسکے علاوہ اِس بات پر بھی غور کریں کہ یہ شخص دوسروں کیساتھ کیسے پیش آتا ہے، خاص کر اُنکے ساتھ جن سے وہ کچھ حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر ایک شخص عام طور پر دوسروں کیساتھ دیانتداری، نیکی، صبر اور مہربانی سے پیش نہیں آتا تو کیا وہ آپکے ساتھ ایسے پیش آئیگا؟
کسی کی شخصیت کو جاننے میں وقت لگتا ہے۔ خدا کے کلام میں لکھا ہے: ”آدمی کے دل کی بات گہرے پانی کی مانند ہے لیکن صاحبِفہم آدمی اُسے کھینچ نکالیگا۔“ (امثال ۲۰:۵) آپ جن سے دوستی کرنے کی خواہش رکھتے ہیں اُن سے ایسے موضوعات پر بھی باتچیت کریں جنکے ذریعے آپ اُنکی شخصیت کو اچھی طرح سے پرکھنے کے قابل ہوں۔ کیا وہ واقعی مہربان اور خوشمزاج ہیں؟ کیا وہ دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا آپ اُن پر اعتماد کر سکتے ہیں؟ اگر ایک شخص آپکے سامنے دوسروں کو بُرابھلا کہتا ہے تو کیا وہ آپکی پیٹھ پیچھے دوسروں سے آپکو بُرابھلا نہیں کہیگا؟ یسوع نے کہا تھا: ”جو دل میں بھرا ہے وہی مُنہ پر آتا ہے۔“ (متی ۱۲:۳۴) ہمیں ایک شخص کی باتوں کو غور سے سننا چاہئے کیونکہ ایسا کرنے سے ہم اُسکے بارے میں بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
فرق نظریے دوستی کو مضبوط بنا سکتے ہیں
کئی لوگ یہ کہتے ہیں کہ اُن کی اور اُنکے دوستوں کی پسند اور ناپسند ایک جیسی ہونی چاہئے۔ ایک چھوٹے بچے نے کہا: ”مَیں ایسے لڑکے کیساتھ کبھی نہیں دوستی کرونگا جو رَسملائی پسند نہیں کرتا۔“ یہ سچ ہے کہ دوستوں کی پسند ایک حد تک ملنی چاہئے۔ دوستوں کے اخلاقی اور روحانی معیار بھی ایک جیسے ہونے چاہئیں۔ لیکن اِسکا یہ مطلب نہیں ہے کہ دوستوں کو ہر بات میں ایک ہی نظریہ، ایک ہی سوچ رکھنی چاہئے۔ دراصل فرق نظریے دوستی کو مضبوط بنا سکتے ہیں کیونکہ اسطرح دوست ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
خدا کے کلام میں ہمیں یونتن اور داؤد کی دوستی اور روت اور نعومی کی دوستی کی بہترین مثالیں دی جاتی ہیں۔ انکی دوستی مثالی کیوں تھی؟ کیونکہ اُنہیں خدا سے لگن تھی اور وہ اُسکے معیاروں کے مطابق چلتے تھے۔a دلچسپی کی بات ہے کہ یہ دوست عمر اور تجربے کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے بہت فرق تھے۔ ہم ان مثالوں سے یہ بھی سیکھتے ہیں کہ جب بزرگ اور نوجوان ایک دوسرے سے دوستی کرتے ہیں تو اُنکو بہت فائدہ ہوتا ہے۔
عمر میں فرق
ایسے لوگوں سے دوستی کرنے میں فائدہ ہے جو آپ سے عمر میں چھوٹے یا بڑے ہیں۔ اس سلسلے میں چند نوجوانوں کے تجربوں پر غور کیجئے۔
منوئیلا: ”مَیں نے ایک شادیشُدہ جوڑے سے دوستی کی ہے۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ مَیں اُن سے کُھل کر بات کر سکتی ہوں اور وہ بھی مجھ سے کُھل کر بات کرتے ہیں۔ حالانکہ مَیں اُن سے عمر میں چھوٹی ہوں پھربھی وہ میری قدر کرتے ہیں۔ اِسلئے مَیں اُنکے بہت قریب آگئی ہوں۔ کسی مشکل کا سامنا کرتے وقت اُنکی دوستی میرے لئے بہت قیمتی ہوتی ہے۔ جب میری ہمعمر سہیلیاں مجھے کسی مسئلے کے بارے میں مشورہ دیتی ہیں تو کبھیکبھار اسکا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ لیکن مجھ سے عمر میں بڑے دوست زندگی کا تجربہ رکھتے ہیں۔ اُن میں ایسی سمجھ اور دانائی ہے جو ہم نوجوانوں میں نہیں ہوتی۔ اُنکی مدد سے مَیں بہتر فیصلے کرنے کے قابل ہو گئی ہوں۔“
زولیکا: ”ہم صرف نوجوانوں کو نہیں بلکہ اپنے سے بڑوں کو بھی اپنے گھر دعوت دیتے ہیں۔ مَیں نے یہ دیکھا ہے کہ جب مختلف عمر کے دوست اکٹھے ہوتے ہیں تو سب کی حوصلہافزائی ہوتی ہے۔ مجھے ایسی محفلیں اچھی لگتی ہیں کیونکہ ہم ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔“
اگر آپ جوانی کی عمر طے کر چکے ہیں تو آپ بھی نوجوانوں میں دلچسپی لے سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں نوجوان لوگ آپکے تجربوں سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ آپکے ساتھ میلجول رکھنا اُنکو بہت پسند ہے۔ ایک ۸۰ سالہ بیوہ کہتی ہیں: ”مَیں نوجوانوں کیساتھ وقت گزارتی ہوں۔ اُنکی جوانی کو دیکھ کر میری جان کو تازگی پہنچتی ہے!“ اِسطرح سے بزرگ اور جوان، سب کی حوصلہافزائی ہوتی ہے۔ بہتیرے بالغ کہتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں اسلئے کامیاب ہوئے ہیں کیونکہ اُنکے کئی دوست اُن سے عمر میں بڑے تھے۔ ان دوستوں نے اُنہیں اچھی نصیحت دینے کیساتھ ساتھ اُنکے لئے اچھا نمونہ بھی قائم کِیا۔
گہری دوستی قائم کریں
گہرے دوست بنانے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نئے دوستوں کی تلاش میں نکلیں۔ اگر آپکے پہلے ہی دوست ہیں تو کیوں نہ اُن ہی کیساتھ اپنے تعلقات مضبوط بنائیں؟ دوستی جتنی پُرانی ہوتی ہے اُتنی ہی قیمتی ہوتی ہے۔ ہمیں ایسی دوستی کو معمولی خیال نہیں کرنا چاہئے۔
دوستی دینے کا نام ہے۔ ہمیں اپنے دوستوں کیلئے قربانیاں دینی پڑتی ہیں لیکن اِسکے بدلے میں ہمیں خوشیاں ملتی ہیں۔ دوستوں کا انتخاب کرتے وقت اگر آپ صرف اپنے فائدے کا سوچینگے تو آپ کبھی گہری دوستی قائم نہیں کر سکیں گے۔ اُن لوگوں سے دوستی کرنے کی کوشش کریں جنہیں دوست بنانا مشکل لگتا ہے۔ فرانس میں رہنے والی گائل کہتی ہے: ”جب ہم سب دوست اکٹھے ہوتے ہیں تو ہم اُن نوجوانوں کو بھی شامل کرتے ہیں جو تنہا رہتے ہیں۔ ہم اُن سے کہتے ہیں کہ ’اکیلے گھر بیٹھے کیا کرو گے؟ ہمارے ساتھ چلو، بہت مزہ آئیگا۔ اسطرح تمہیں دوسرے لوگوں کو جاننے کا موقع ملیگا۔‘“—لوقا ۱۴:۱۲-۱۴۔
جب لوگ آپکے ساتھ دوستی کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو فوراً انکار مت کریں۔ اٹلی کی الیسا کہتی ہے: ”اگر آپکو کئی بار نظرانداز کِیا گیا ہے تو شاید آپ سوچیں کہ ’مجھے دوستوں کی کوئی ضرورت نہیں۔‘ اِسکے بعد شاید آپ تنہا رہنا شروع کر دیتے ہیں اور صرف اپنے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ لیکن ایسا کرنے سے آپ اپنی ہی راہ میں رُکاوٹ ڈالتے ہیں۔“ ایسا رویہ اختیار کرنے کی بجائے دوسروں کے قریب جانے کی کوشش کریں۔ اگر دوسرے لوگ ہماری اتنی پرواہ کرتے ہیں کہ وہ ہمارے دوست بننا چاہتے ہیں تو ہمیں اُنکا شکرگزار ہونا چاہئے۔
آپ سچے دوست بنا سکتے ہیں
سچے دوست محض ایسے مضامین پڑھنے سے نہیں ملتے۔ کسی سے دوستی کرنا سائیکل چلانے کی طرح ہوتا ہے۔ آپ محض کتاب سے پڑھ کر سائیکل چلانا نہیں سیکھ سکتے۔ اسی طرح ہم نے دوست بنانے کے بارے میں جو کچھ پڑھا ہے اس پر ہمیں عمل بھی کرنا پڑیگا چاہے ہم پہلے ناکام ہی کیوں نہ ہوں۔ خدا کے کلام میں بتایا گیا ہے کہ سب سے گہری دوستی اُن میں ہوتی ہے جو خدا کے دوست بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ہم دوست بنانے میں پوری کوشش نہیں لگاتے ہیں تو خدا ہمیں اچھے دوستوں سے کیسے نوازیگا؟ کیا آپکا اچھے دوست بنانے کا فیصلہ اٹل ہے؟ توپھر ہمت نہ ہاریں۔ خدا سے دُعا کریں، پہلا قدم اُٹھائیں اور خود بھی ایک اچھا دوست بنیں۔
[فٹنوٹ]
a آپ انکی دوستی کے بارے میں بائبل میں روت کی کتاب اور سموئیل کی پہلی اور دوسری کتاب میں پڑھ سکتے ہیں۔
[صفحہ ۱۱ پر بکس/تصویر]
والدین ملاحظہ فرمائیں!
دوستی کس چیز کا نام ہے، یہ بات بچے پہلے تو اپنے خاندان ہی سے سیکھتے ہیں۔ عام طور پر بچے سب سے پہلے اپنے خاندانوالوں کیساتھ دوستی کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ دوسرے لوگ بھی بچوں کی سوچ، اُنکے جذبات اور اعمال پر اثر ڈالتے ہیں۔ یہ اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مہاجروں کے بچے دوسرے بچوں کیساتھ میلجول رکھ کر بہت جلد اپنے نئے وطن کی زبان سیکھ لیتے ہیں۔
بچوں اور نوجوانوں کو دوست چننے کے معاملے میں راہنمائی کی ضرورت ہے۔ اسلئے والدین کو چاہئے کہ وہ اُن کی راہنمائی کریں۔ لیکن والدین کیلئے ایسا کرنا آسان نہیں کیونکہ بہت سے نوجوان اپنے والدین کی بجائے اپنے دوستوں سے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
بعض ماہرین کے مطابق اسکی ایک وجہ یہ ہے کہ بہتیرے والدین خود کو اپنے بچوں کی راہنمائی کرنے کے قابل نہیں سمجھتے۔ لیکن خدا نے والدین کو اپنے بچوں کی تربیت کرنے کی ذمہداری سونپی ہے۔ اسلئے اُنہیں اپنے بچوں کو سمجھنے اور ان سے دوستانہ تعلقات بڑھانے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے۔ (افسیوں ۶:۱-۴) خاندانی معاملات کے ایک ماہر ڈاکٹر ٹافل بہت سے ایسے والدین سے گفتگو کرتے ہیں جو اپنے نوجوان بچوں کی تربیت کرنے کے سلسلے میں بالکل بےبس ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر ٹافل لکھتے ہیں کہ ”والدین کتابوں، رسالوں اور ٹیلیویژن سے بچوں کی تربیت کرنے کے نتنئے طریقے اپناتے ہیں اور پھر کچھ عرصہ بعد انہیں ترک کر دیتے ہیں۔“ یوں وہ اپنے بچوں کی اصلی ضروریات کو پورا نہیں کر پاتے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ”والدین کے نزدیک اُنکے بچے اجنبیوں کی طرح ہوتے ہیں۔“
اس کے باوجود والدین اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات بڑھانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں کی جذباتی ضروریات سے واقف ہونا چاہئے۔ ڈاکٹر ٹافل کہتے ہیں کہ ”تمام بچے خود کو خاندانی بندھن میں محفوظ سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ والدین اُن سے کیا توقعات رکھتے ہیں اور وہ انکی راہنمائی، محبت اور چاہت کیلئے ترستے ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ آجکل نوجوانوں کی یہ ضروریات خاندانی حلقے میں پوری نہیں ہوتیں۔ لہٰذا وہ خود کو خاندان کا حصہ نہیں سمجھتے۔“ اور یہی وجہ ہے کہ نوجوان اپنے والدین کی بجائے اپنے دوستوں کے زیادہ قریب ہو جاتے ہیں۔
آپ اپنے بچوں کو ایک اچھا دوست بننا اور اچھے دوستوں کا انتخاب کرنا کیسے سکھا سکتے ہیں؟ سب سے پہلے آپکو اپنا جائزہ لینا چاہئے۔ آپ اور آپکے دوست کس بات کو اہمیت دیتے ہیں؟ روحانی باتوں کو یا مالودولت جمع کرنے کو؟ مسیحی کلیسیا کے ایک بزرگ جو والد بھی ہیں، یوں کہتے ہیں: ”بچے آپکی باتوں سے زیادہ آپکے کاموں پر دھیان دیتے ہیں۔ وہ وہی کرینگے جو وہ آپکو، آپکے دوستوں اور اُنکے بچوں کو کرتے دیکھینگے۔“
جانور اپنے بچوں کو ایسے جانوروں سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جو اُن کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ جانوروں پر تحقیق کرنے والا ایک شخص کہتا ہے: ”ریچھنی کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ اپنے بچوں کو خطرے سے بچانے کے لئے اپنی جان تک داؤ پر لگا دیتی ہے۔“ اگر ایک ناسمجھ جانور اپنے بچوں کی حفاظت کرتا ہے تو کیا انسان سے یہی توقع نہیں کی جا سکتی؟ ملک اٹلی میں رہنے والا روبن کہتا ہے: ”میرے والدین نے مجھے پاک صحائف میں سے دکھایا کہ میرے لئے کس قسم کے دوست خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ پہلے تو مَیں نے سوچا کہ اس مشورے پر عمل کرنے سے مجھے کوئی دوست نہیں ملیگا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مَیں جان گیا کہ جو کچھ اُنہوں نے کہا تھا وہ بالکل سچ تھا۔ اُن کی راہنمائی کی وجہ سے مَیں بُری صحبت میں پڑنے سے محفوظ رہا۔“
آپ ایسے لوگوں کو اپنے گھر آنے کی دعوت دے سکتے ہیں جو آپکے بچوں کے لئے اچھا نمونہ بن سکتے ہیں۔ ان کی نقل کرتے ہوئے بچے خود میں اچھی عادتیں پیدا کرینگے۔ فرانسس نامی ایک جوان آدمی کہتا ہے: ”مَیں اور میرے بھائی دوسروں کے ساتھ میلملاپ رکھنے کی بجائے آپس میں مگن رہتے تھے۔ اسلئے میری والدہ نے ایسے جوان لوگوں کو دعوت دینا شروع کی جو خدا کی خدمت میں سرگرم تھے۔ ہماری اُن کے ساتھ دوستی ہو گئی۔“ ایسی کوششوں کے ذریعے والدین اپنے بچوں کو اچھے دوست بنانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
[صفحہ ۹ پر تصویر]
دوست بنانے سے پہلے انکے چالچلن کو پرکھیں
[صفحہ ۱۰ پر تصویر]
طرح طرح کے لوگوں سے دوستی کریں