سرِورق کا موضوع
آپ کی سوچ آپ کی زندگی بدل سکتی ہے!
نیچے دی گئی باتوں میں سے کون سی بات کا آپ کی خوشی سے گہرا تعلق ہے؟
آپ کے حالات
ماں باپ سے ملنے والی خصوصیات
آپ کی سوچ
بعض لوگوں کی نظر میں خوشی کا تعلق حالات سے ہوتا ہے۔ شاید وہ کہیں کہ ”مجھے خوشی تب ہوگی . . .
جب میرے پاس پیسہ ہوگا۔“
جب میری ازدواجی زندگی خوشگوار ہوگی۔“
جب میری صحت اچھی ہوگی۔“
لیکن سچ تو یہ ہے کہ خوشی کا ہمارے حالات اور ماں باپ سے ملنے والی خصوصیات سے اِتنا تعلق نہیں ہوتا جتنا کہ ہماری سوچ سے ہوتا ہے۔ ہم ایسا کیوں کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ اپنے حالات اور ماں باپ سے ملنے والی خصوصیات پر تو ہمارا زیادہ اِختیار نہیں ہوتا مگر ہماری سوچ پر ہمارا اِختیار ضرور ہوتا ہے۔
مثبت سوچ کا اثر
پاک کلام میں بتایا گیا ہے: ”شادمان دل شفا بخشتا ہے لیکن افسردہ دلی ہڈیوں کو خشک کر دیتی ہے۔“ (امثال 17:22) اِس کا مطلب ہے کہ ہماری سوچ اور مزاج کا ہماری زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ ہماری سوچ اِس بات پر بھی اثر ڈالتی ہے کہ ہم اپنے کسی منصوبے کو پورا کریں گے یا پھر بےدل ہو کر اِسے بیچ میں ہی چھوڑ دیں گے اور ہم زندگی میں آنے والی مشکلوں سے سیکھیں گے یا پھر اِن سے بیزار ہو جائیں گے۔
ہو سکتا ہے کہ بعض لوگ اِن باتوں سے اِتفاق نہ کریں۔ شاید وہ کہیں:
”جب میری زندگی میں اِتنی مشکلات ہیں تو مَیں اپنے چہرے پر جھوٹی مسکراہٹ سجا کر کیوں رکھوں؟“
”میری سوچ چاہے جتنی بھی مثبت ہو، اِس سے میرے حالات تو نہیں بدلیں گے۔“
”سمجھداری اِسی میں ہے کہ خوابوں کی دُنیا سے نکل کر حقیقت کا سامنا کِیا جائے۔“
شاید یہ باتیں آپ کو بھی درست لگیں۔ پھر بھی اپنی سوچ کو مثبت رکھنے کے بہت سے فائدے ہیں۔ اِس سلسلے میں کچھ مثالوں پر غور کریں۔
الیکس اور برائن ایک ہی جگہ ملازمت کرتے ہیں مگر اُن کا کام ایک دوسرے سے فرق ہے۔ وہ دونوں بڑے محنتی ہیں۔ ایک دن اُن کے باس نے اُن کے کام کا جائزہ لیا اور اِس میں کچھ غلطیاں نکالیں۔
الیکس: ”مَیں نے اِس کام میں اِتنی محنت کی، اِتنا وقت لگایا، پھر بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ شاید مَیں یہ کام کرنے کے قابل ہی نہیں۔ مَیں جتنی مرضی کوشش کر لوں، باس مجھ سے کبھی خوش نہیں ہوتا۔ مَیں آئندہ اِس کام کو ہاتھ ہی نہیں لگاؤں گا۔“
برائن: ”باس نے میرے کام کی تعریف کی لیکن اِس میں کچھ غلطیاں بھی نکالیں۔ اِس سے مَیں نے ایسی باتیں سیکھیں جو آگے چل کر میرے بہت کام آئیں گی۔“
آپ کے خیال میں . . .
چھ مہینے بعد کون اچھا ملازم ثابت ہوگا، الیکس یا برائن؟
اگر آپ خود کسی کمپنی کے مالک ہوتے تو آپ اِن دونوں میں سے کس کو نوکری پر رکھتے؟ یا اگر آپ اِن کے باس ہوتے تو آپ کس کو نوکری سے نکالتے؟
اگر آپ کو ایسی کسی صورتحال کا سامنا ہو تو آپ کا ردِعمل اِن دونوں میں سے کس کی طرح ہوگا؟
اینڈریا اور برٹنی اکیلےپن کا شکار ہیں۔ مگر دونوں کا ردِعمل ایک دوسرے سے بالکل فرق ہے۔
اینڈریا اپنے آپ میں مگن رہتی ہیں۔ وہ صرف اُنہی لوگوں کے لیے کچھ کرتی ہیں جو اُن کے کام آتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ”مَیں اُن لوگوں کے لیے اپنا وقت کیوں ضائع کروں جن سے بدلے میں کچھ ملنے کی اُمید نہیں ہے۔“
برٹنی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ لوگوں کے ساتھ پیار سے پیش آئیں اور اُن کی مدد کریں، چاہے وہ اِس کی قدر کریں یا نہیں۔ وہ اُس اصول پر عمل کرتی ہیں جو یسوع مسیح نے دیا تھا۔ یسوع مسیح نے کہا: ”جیسا سلوک آپ چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کے ساتھ کریں، آپ بھی اُن کے ساتھ ویسا ہی سلوک کریں۔“ (لُوقا 6:31) برٹنی کو یقین ہے کہ دوسروں سے نیکی کرنے کا صلہ ضرور ملتا ہے۔
آپ کے خیال میں . . .
اِن دونوں میں سے کون اچھی دوست ثابت ہوگی؟
اِن دونوں میں سے دوسروں کے ساتھ کس کے تعلقات خوشگوار ہوں گے؟
اگر آپ بھی اکیلےپن کا شکار ہیں تو آپ کا ردِعمل اینڈریا جیسا ہوگا یا برٹنی جیسا؟
شاید آپ برائن اور برٹنی جیسے لوگوں کو جانتے ہوں۔ شاید آپ سمجھتے ہوں کہ آپ بھی اُن جیسے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو آپ یقیناً یہ جان گئے ہیں کہ ہماری سوچ اور مزاج کا ہماری زندگی پر کتنا گہرا اثر ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ الیکس اور اینڈریا کی طرح ہیں تو آپ پاک کلام کی مدد سے اپنی سوچ کو بدل سکتے ہیں۔ آئیں، تین ایسے طریقوں پر غور کریں جن پر عمل کرنے سے آپ مشکل وقت میں بھی زندگی کو مثبت نظر سے دیکھنے کے قابل ہوں گے۔
1 مایوسی سے بچیں
پاک کلام کا اصول: ”اگر تُو مصیبت کے دن ہمت ہار کر ڈھیلا ہو جائے تو تیری طاقت جاتی رہے گی۔“—امثال 24:10، اُردو جیو ورشن۔
اصول کا مطلب: مایوسی کی وجہ سے آپ کی صلاحیتوں اور طاقت کو زنگ لگ جاتا ہے اور آپ اپنے حالات کو بہتر بنانے یا مشکلوں کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔
مثال: جولائزا کا بچپن پریشانیوں اور فکروں میں گزرا۔ اُن کا باپ شرابی تھا اور گھر میں غربت کا ڈیرا تھا۔ اُن کے گھرانے کا کوئی مستقل ٹھکانا نہیں تھا۔ جولائزا اِتنی مایوس ہو گئیں کہ یہ سوچنے لگیں کہ اب جینا بےکار ہے۔ مگر پھر اُن کی سوچ بدل گئی۔ ایسا کیسے ہوا؟ اُنہوں نے بتایا: ”ہمارے حالات تو نہیں بدلے تھے لیکن خدا کے کلام کی مدد سے میری سوچ ضرور بدل گئی تھی۔ پاک کلام میں درج اصول آج بھی منفی سوچ پر غالب آنے میں میری مدد کر رہے ہیں۔ اب جب مَیں کسی میں کوئی ایسی بات دیکھتی ہوں جو مجھے پسند نہیں ہے تو مَیں اُس کے متعلق کوئی غلط رائے قائم نہیں کرتی بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں کہ اِس کے پیچھے وجہ کیا ہے؟“
جولائزا نے دیکھ لیا ہے کہ بائبل میں بہت ہی مفید اصول پائے جاتے ہیں۔ یہ کٹھن حالات کا سامنا کرنے میں آپ کی مدد کر سکتے ہیں۔ ایک عمدہ اصول اِفسیوں 4:23 میں پایا جاتا ہے جہاں لکھا ہے: ”اپنی سوچ کو نیا بناتے جائیں۔“
اِس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی سوچ پتھر پر لکیر کی طرح نہیں ہے۔ آپ اِسے نیا بنا سکتے ہیں۔ مگر آپ کو یہ کام مسلسل کرنا ہوگا۔ اِسی لیے آیت میں لکھا ہے کہ ”اپنی سوچ کو نیا بناتے جائیں۔“
2 حوصلہافزا باتوں پر دھیان دیں
پاک کلام کا اصول: ”مصیبتزدہ کے تمام ایّام بُرے ہیں پر خوشدل ہمیشہ جشن کرتا ہے۔“—امثال 15:15۔
اصول کا مطلب: اگر آپ صرف بُری اور منفی باتوں پر ہی دھیان دیں گے تو آپ خود کو مصیبتزدہ سمجھتے رہیں گے اور آپ کا ہر دن بُرا کٹے گا۔ لیکن اگر آپ اچھی باتوں پر دھیان دیں گے تو آپ خوش رہیں گے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔
مثال: یانکو کے دماغ میں رسولی تھی جسے نکالنے کے لیے اُن کے کئی آپریشن کیے گئے۔ اِن آپریشنوں کی وجہ سے یانکو کی بولنے اور چلنے پھرنے کی صلاحیت بُری طرح متاثر ہوئی۔ یانکو نے اپنی زندگی کے لیے بہت کچھ سوچ رکھا تھا مگر اُنہیں لگنے لگا کہ اِس معذوری کی وجہ سے اُن کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ اِس لیے وہ کئی سال تک مایوسی کے عالم میں رہے۔ مگر پھر اُن کی سوچ بدل گئی۔ ایسا کیسے ہوا؟ اُنہوں نے بتایا: ”مَیں اپنی معذوری کے بارے میں سوچتے رہنے کی بجائے ایسی باتوں پر دھیان دیتا ہوں جن سے مجھے حوصلہ ملتا ہے۔“
بائبل پڑھنے سے یانکو کا دھیان حوصلہافزا باتوں پر رہتا ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”اِس سے مایوسی مجھ پر حاوی نہیں ہوتی۔ مَیں نے اپنے منصوبوں کو بدلا نہیں لیکن فیالحال میری توجہ ایسے چھوٹے چھوٹے کاموں پر ہے جو مَیں آسانی سے کر سکتا ہوں۔ جب میرے ذہن میں ایسے خیال آتے ہیں جو مجھے بےحوصلہ کر سکتے ہیں تو مَیں اِس بات پر غور کرتا ہوں کہ میرے پاس خوش رہنے کی کون کون سی وجوہات ہیں۔“
یانکو کی طرح آپ بھی اپنی مایوسی کو خوشی میں بدل سکتے ہیں۔ اگر آپ بھی کسی کٹھن صورتحال جیسے کہ بیماری وغیرہ سے گزر رہے ہیں تو خود سے پوچھیں: ”کیا سارے راستے بند ہو گئے ہیں یا اُمید کی کوئی کِرن ابھی بھی باقی ہے؟“ حوصلہ اور ہمت بڑھانے والی باتوں پر دھیان رکھنے سے آپ مایوسی سے بچ سکتے ہیں۔
3 دوسروں کے کام آئیں
پاک کلام کا اصول: ”لینے کی نسبت دینے میں زیادہ خوشی ہے۔“—اعمال 20:35۔
اصول کا مطلب: اگر ہم فراخدلی سے دوسروں کی مدد کرتے ہیں تو ہمیں اِطمینان حاصل ہوتا ہے۔ دراصل خدا نے ہمیں بنایا ہی اِس طرح ہے کہ ہم دوسروں کی بھلائی کا سوچیں۔ (فِلپّیوں 2:3، 4؛ 1-یوحنا 4:11) دوسروں کے کام آنے سے جو خوشی ملتی ہے، اُس سے ہم اپنی مشکلوں سے نمٹنے کے قابل ہوتے ہیں۔
مثال: ہوسوے کو ریڑھ کی ہڈی کی بیماری ہے جس کی وجہ سے وہ اکثر شدید درد میں مبتلا رہتے ہیں۔ لیکن اُنہیں دوسروں کی مدد کرنے سے بڑی خوشی ملتی ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”مَیں یہ نہیں سوچتا کہ اب مَیں کسی کے کام نہیں آ سکتا بلکہ مَیں دوسروں کی مدد کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ اِس طرح مَیں خوش رہتا ہوں۔“
کچھ اہم اِقدام
بغیر کسی غرض کے دوسروں کی مدد کریں۔ مثال کے طور پر اگر آپ کا پڑوسی بیمار ہے تو شاید آپ اُس کے لیے کھانا پکا سکتے ہیں۔ یا شاید آپ گھر کا کامکاج کرنے میں کسی عمررسیدہ شخص کا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔
اپنی سوچ کا ویسے ہی خیال رکھیں جیسے ایک مالی باغ کا خیال رکھتا ہے۔ اپنے ذہن سے مایوسی کے زہریلے کانٹے اُکھاڑ دیں اور اِس میں مثبت سوچ کا بیج بوئیں۔ پھر اِس بیج کو کھاد ڈالیں یعنی اچھے کام کریں۔ اِس طرح آپ کو خوشی اور اِطمینان کا پھل ملے گا اور یہ حقیقت ثابت ہو جائے گی کہ ہماری سوچ اور مزاج کا ہماری زندگی پر واقعی بڑا اثر ہوتا ہے۔
جس طرح بعض لوگ صحتمند رہنے کے لیے کچھ کھانوں سے پرہیز کرتے ہیں، اُسی طرح آپ خوش رہنے کے لیے منفی سوچ سے پرہیز کر سکتے ہیں۔