یہوواہ کے ساتھ قربت بڑھائیں
”خدا کے نزدیک جاؤ تو وہ تمہارے نزدیک آئیگا،“ شاگرد یعقوب نے تحریر کِیا۔ (یعقوب ۴:۸) نیز، زبورنویس داؤد نے گیت گایا: ”[یہوواہ] کے راز کو وہی جانتے ہیں جو اُس سے ڈرتے ہیں۔“ (زبور ۲۵:۱۴) واقعی، یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ ہم اُس کیساتھ قریبی رشتہ رکھیں۔ تاہم، ضروری نہیں کہ خدا کی پرستش کرنے اور اُس کے قوانین پر عمل کرنے والا ہر شخص اُس کی قربت محسوس کرتا ہو۔
آپ کی بابت کیا ہے؟ کیا آپ ذاتی طور پر خدا کے ساتھ ایک قریبی رشتہ رکھتے ہیں؟ بِلاشُبہ، آپ اُس کے نزدیک جانا چاہتے ہیں۔ ہم کیسے خدا کیساتھ قربت بڑھا سکتے ہیں؟ ہمارے لئے اس کا کیا مطلب ہوگا؟ بائبل میں امثال کی کتاب کا تیسرا باب جواب فراہم کرتا ہے۔
شفقت اور سچائی کا مظاہرہ کریں
قدیم اسرائیلی بادشاہ سلیمان ان الفاظ کیساتھ امثال کے تیسرے باب کا آغاز کرتا ہے: ”اَے میرے بیٹے! میری تعلیم کو فراموش نہ کر۔ بلکہ تیرا دِل میرے حُکموں کو مانے۔ کیونکہ تُو اِن سے عُمر کی درازی اور پِیری اور سلامتی حاصل کرے گا۔“ (امثال ۳:۱، ۲) چونکہ سلیمان نے یہ باتیں خدائی الہام سے تحریر کی تھیں اِس لئے ہمیں یہ پدرانہ نصیحت دینے والا دراصل یہوواہ خدا ہے۔ ہمیں یہاں بائبل میں درج خدا کی یاددہانیوں—اُسکے اُصول یا تعلیم اور اُسکے احکام—کے مطابق عمل کرنے کی مشورت دی گئی ہے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو ہمیں ”عمر کی درازی اور پیری اور سلامتی حاصل“ ہو گی۔ جیہاں، ہم اب بھی پُرامن زندگی سے لطف اُٹھا سکتے ہیں اور بدکاروں پر آنے والی غیرطبعی موت کے خطرے میں ڈالنے والے حاصلات کی جستجو سے گریز کر سکتے ہیں۔ علاوہازیں، ہم ایک پُرامن نئی دُنیا میں ہمیشہ کی زندگی کی اُمید رکھ سکتے ہیں۔—امثال ۱:۲۴-۳۱؛ ۲:۲۱، ۲۲۔
سلیمان مزید بیان کرتا ہے: ”شفقت اور سچّائی تُجھ سے جُدا نہ ہوں۔ تُو اُنکو اپنے گلے کا طَوق بنانا اور اپنے دِل کی تختی پر لِکھ لینا۔ یُوں تُو خُدا اور اِنسان کی نظر میں مقبوُلِیّت اور عقلمندی حاصل کریگا۔“—امثال ۳:۳، ۴۔
”شفقت“ کیلئے اصلی زبان کے لفظ کا متبادل ترجمہ ”وفادارانہ محبت“ ہے اور یہ فرضشناسی، یکجہتی اور وفاداری کا مفہوم پیش کرتا ہے۔ کیا ہم ہر حال میں یہوواہ کے ساتھ وفادار رہنے کا عزمِمُصمم رکھتے ہیں؟ کیا ہم ساتھی ایمانداروں کے ساتھ اپنے تعلقات میں شفقت ظاہر کرتے ہیں؟ کیا ہم اُن کے قریب رہنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا روزانہ کے معاملات اور بالخصوص صبرآزما حالتوں میں اُن کیلئے ’ہماری زبان پر شفقت کی تعلیم ہوتی ہے؟‘—امثال ۳۱:۲۶۔
شفقت میں غنی ہونے کے باعث، یہوواہ خدا ہمیشہ ”معاف کرنے کو تیار ہے۔“ (زبور ۸۶:۵) اگر ہم ماضی میں کئے گئے گناہوں سے توبہ کر کے اب اپنی راہیں درست کر رہے ہیں تو ہم یقین رکھ سکتے ہیں کہ یہوواہ کی طرف سے ”تازگی کے دن“ ضرور آئیں گے۔ (اعمال ۳:۱۹) کیا ہمیں اپنے خدا کی نقل کرتے ہوئے دوسروں کے قصور معاف نہیں کرنے چاہئیں؟—متی ۶:۱۴، ۱۵۔
یہوواہ ”سچائی [کا] خدا ہے“ اور وہ ان سے ”سچائی“ کا تقاضا کرتا ہے جو اُسکی قربت چاہتے ہیں۔ (زبور ۳۱:۵) اگر ہم اپنی اصلیت چھپانے والے ”بیہودہ لوگوں“ کی طرح دوہری زندگی—مسیحی ساتھیوں کے سامنے کچھ اَور اُن کی غیرموجودگی میں کچھ—بسر کرتے ہیں تو کیا ہم واقعی یہ توقع کر سکتے ہیں کہ یہوواہ ہمارا دوست بنے گا؟ (زبور ۲۶:۴) یہ کتنی احمقانہ بات ہو گی کیونکہ یہوواہ کی نظر میں ”سب چیزیں کُھلی اور بےپردہ ہیں“!—عبرانیوں ۴:۱۳۔
شفقت اور سچائی کی قدر اُس انمول طوق کی طرح کی جانی چاہئے جو ہمارے ’گلے کی زینت بنتا ہے‘ ایسا کرنے سے ہمیں ’خدا اور انسان کی نظر میں مقبولیت حاصل کرنے‘ میں مدد ملے گی ۔ ہمیں اِن صفات کا محض سطحی مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ انہیں اپنی شخصیت کا بنیادی حصہ بناتے ہوئے اپنے ’دل کی تختی‘ پر بھی نقش کرنا چاہئے۔
یہوواہ پر مکمل بھروسہ رکھیں
دانشمند بادشاہ آگے لکھتا ہے: ”سارے دِل سے [یہوواہ] پر توکل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُسکو پہچان اور وہ تیری راہنُمائی کریگا۔“—امثال ۳:۵، ۶۔
یقیناً یہوواہ ہمارے مکمل بھروسے کا مستحق ہے۔ خالق کے طور پر اُس میں ”قدرت کی عظمت“ ہے اور وہ ”توانائی“ کا سرچشمہ ہے۔ (یسعیاہ ۴۰:۲۶، ۲۹) وہ اپنے تمام مقاصد کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ بیشک، اُسکے تو نام کا لفظی مفہوم ہی یہ ہے کہ وہ ”مسبّبالاسباب“ ہے اور یہ اُسکے وعدوں کو پورا کرنے کی صلاحیت پر ہمارے اعتماد کو مضبوط کرتا ہے! یہ حقیقت کہ ”خدا کا جھوٹ بولنا ممکن نہیں،“ ظاہر کرتی ہے کہ وہ سچائی کا عین تجسم ہے۔ (عبرانیوں ۶:۱۸) اُسکی نمایاں خوبی محبت ہے۔ (۱-یوحنا ۴:۸) وہ ”اپنی سب راہوں میں صادق اور اپنے سب کاموں میں رحیم ہے۔“ (زبور ۱۴۵:۱۷) اگر ہم خدا پر بھروسہ نہیں کر سکتے تو پھر کس پر کر سکتے ہیں؟ تاہم، اُس پر بھروسہ رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ ہم بائبل سے سیکھی ہوئی باتوں کا اپنی ذاتی زندگی میں اطلاق کرنے اور اس کے عمدہ نتائج پر غوروخوض کرنے سے ”آزما کر“ دیکھیں کہ ”[یہوواہ] کیسا مہربان ہے۔“—زبور ۳۴:۸۔
ہم ’اپنی سب راہوں میں یہوواہ کو کیسے پہچان‘ سکتے ہیں؟ مُلہَم زبورنویس بیان کرتا ہے: ”مَیں تیری ساری صنعت پر دھیان کرونگا اور تیرے کاموں کو سوچُونگا۔“ (زبور ۷۷:۱۲) چونکہ خدا نادیدہ ہے اسلئے اُسکی قربت حاصل کرنے کے لئے اُس کے عظیم کاموں اور اپنے لوگوں کیساتھ اُسکے برتاؤ پر غوروخوض کرنا ضروری ہے۔
دُعا بھی یہوواہ کو پہچاننے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ بادشاہ داؤد ”دنبھر“ یہوواہ کو پکارتا تھا۔ (زبور ۸۶:۳) داؤد اکثر راتبھر دُعا کِیا کرتا تھا، مثال کے طور پر جب وہ فرار ہو کر بیابان میں چلا گیا تو وہاں وہ اکثر ایسا کرتا تھا۔ (زبور ۶۳:۶، ۷) پولس نے نصیحت کی، ”ہر طرح سے رُوح میں دعا . . . کرتے رہو۔“ (افسیوں ۶:۱۸) ہم کتنی بار دُعا کرتے ہیں؟ کیا ہم ذاتی طور پر خدا کیساتھ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی گفتگو سے لطفاندوز ہوتے ہیں؟ مشکل حالات میں کیا ہم اُس سے مدد کی درخواست کرتے ہیں؟ کیا اہم فیصلے کرتے وقت ہم دُعا میں اُس کی راہنمائی کے خواہاں ہوتے ہیں؟ یہوواہ کے حضور ہماری پُرخلوص دُعائیں ہمیں اُس کی نظر میں عزیز بناتی ہیں۔ لہٰذا، ہمیں یقین ہے کہ وہ ہماری دُعا سنے گا اور ’ہماری راہوں کو سیدھا کریگا۔‘
جب ہم یہوواہ پر مکمل بھروسہ رکھتے ہیں توپھر دُنیا کی معروف شخصیات یا ’اپنے فہم پر تکیہ‘ کرنا کتنی احمقانہ بات ہوگی! سلیمان کہتا ہے: ”تُو اپنی ہی نگاہ میں دانشمند نہ بن۔“ اسکے برعکس وہ نصیحت کرتا ہے: ”[یہوواہ] سے ڈر اور بدی سے کنارہ کر۔ یہ تیری ناف کی صحت اور تیری ہڈیوں کی تازگی ہوگی۔“ (امثال ۳:۷، ۸) یہوواہ کو ناراض نہ کرنے کے خوشگوار خوف کو ہمارے افعال، سوچ اور جذبات پر اثرانداز ہونا چاہئے۔ ایسا مؤدبانہ خوف ہمیں بُرے کاموں سے روکتا ہے اور روحانی تندرستی اور تازگی بخشتا ہے۔
یہوواہ کیلئے اپنی بہترین چیزیں پیش کریں
یہوواہ کے نزدیک جانے کا دوسرا طریقہ کیا ہو سکتا ہے؟ بادشاہ ہدایت کرتا ہے: ”اپنے مال سے اور اپنی پیداوار کے پہلے پھلوں سے [یہوواہ] کی تعظیم کر۔“ (امثال ۳:۹) یہوواہ کی تعظیم کرنے کا مطلب اُس کیلئے گہرا احترام ظاہر کرنا اور لوگوں میں اُسکے نام کا اعلان کرنے میں حصہ لیکر اُسے سربلند کرنا ہے۔ ہمارا وقت، ہماری صلاحیت، ہماری طاقت اور ہمارے مادی اثاثے وہ مال ہیں جس سے ہم یہوواہ کی تعظیم کرتے ہیں۔ یہ پہلے پھل—ہماری بہترین چیزیں—ہونی چاہئیں۔ کیا ہمارے ذاتی وسائل کو ’پہلے خدا کی بادشاہی اور اُسکی راستبازی کی تلاش کرنے‘ کے ہمارے عزم کی عکاسی نہیں کرنی چاہئے؟—متی ۶:۳۳۔
اپنے مال سے یہوواہ کی تعظیم کرنا بےاجر ثابت نہیں ہوتا۔ سلیمان یقیندہانی کراتا ہے، ”یُوں تیرے کھّتے خُوب بھرے رہینگے اور تیرے حَوض نئی مَے سے لبریز ہونگے۔“ (امثال ۳:۱۰) تاہم روحانی خوشحالی مادی خوشحالی کی راہ ہموار نہیں کرتی مگر یہوواہ کی تعظیم کیلئے اپنے وسائل کا فراخدلانہ استعمال شاندار برکات لاتا ہے۔ خدا کی مرضی پوری کرنا مسیح کیلئے زندگیبخش ”کھانا“ تھا۔ (یوحنا ۴:۳۴) اِسی طرح یہوواہ کی ستائش کیلئے مُنادی اور شاگرد بنانے کا کام ہمیں توانائی بخشتا ہے۔ اگر ہم اِس کام میں ثابتقدم رہتے ہیں تو ہمارے روحانی کھتے خوب بھرے رہینگے۔ ہماری خوشی—علامتی طور پر نئی مے سے—لبریز ہوگی۔
کیا ہم ہر دن حسبِضرورت جسمانی خوراک کیلئے یہوواہ پر توکل اور اُس سے دُعا نہیں کرتے؟ (متی ۶:۱۱) ہمارا سب کچھ درحقیقت ہمارے شفیق آسمانی باپ کی طرف سے ہے۔ اپنے مال کو جتنا زیادہ ہم اُس کی تمجید کیلئے استعمال کریں گے یہوواہ اتنی ہی زیادہ برکات ہمیں عطا کرے گا۔—۱-کرنتھیوں ۴:۷۔
یہوواہ کی تنبیہ خوشی سے قبول کریں
یہوواہ کی قربت حاصل کرنے میں تنبیہ کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے اسرائیل کا بادشاہ ہمیں نصیحت کرتا ہے: ”اَے میرے بیٹے! [یہوواہ] کی تنبِیہ کو حقِیر نہ جان اور اُسکی ملامت سے بیزار نہ ہو۔ کیونکہ [یہوواہ] اُسی کو ملامت کرتا ہے جِس سے اُسے محبّت ہے۔ جَیسے باپ اُس بیٹے کو جِس سے وہ خُوش ہے۔“—امثال ۳:۱۱، ۱۲۔
تاہم، تنبیہ کو قبول کرنا شاید ہمارے لئے آسان نہ ہو۔ پولس رسول نے لکھا، ”اور بالفعل ہر قسم کی تنبیہ خوشی کا نہیں بلکہ غم کا باعث معلوم ہوتی ہے مگر جو اُسکو سہتے سہتے پُختہ ہو گئے ہیں اُنکو بعد میں چین کے ساتھ راستبازی کا پھل بخشتی ہے۔“ (عبرانیوں ۱۲:۱۱) ملامت اور تنبیہ خدا کے نزدیک جانے کیلئے ہماری تربیت کا اہم حصہ ہیں۔ یہوواہ کی طرف سے اصلاح—خواہ یہ ہمیں والدین کی طرف سے، مسیحی کلیسیا کی طرف سے یا پھر ذاتی مطالعہ کے دوران صحائف پر غوروخوض کرنے سے حاصل ہو—ہمارے لئے اُسکی محبت کا اظہار ہوتی ہے۔ اُسے خوشی سے قبول کرکے ہم دانشمندی کا ثبوت دیتے ہیں۔
حکمت اور فہم کو مضبوطی سے تھامے رہیں
اسکے بعد سلیمان خدا سے قریبی رشتہ پیدا کرنے میں حکمت اور فہم کی اہمیت کو نمایاں کرتا ہے۔ وہ بیان کرتا ہے: ”مُبارک ہے وہ آدمی جو حکمت کو پاتا ہے اور وہ جو فہم حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ اِسکا حصول چاندی کے حصول سے اور اِسکا نفع کندن سے بہتر ہے. . . . جو اُسے پکڑے رہتے ہیں وہ اُنکے لئے حیات کا درخت ہے اور ہر ایک جو اُسے لئے رہتا ہے مبارک ہے۔“—امثال ۳:۱۳-۱۸۔
ہمیں یہوواہ کے حیرتانگیز تخلیقی کاموں سے ظاہر ہونے والی حکمت اور فہم کی بابت یاد دلاتے ہوئے بادشاہ بیان کرتا ہے: ”[یہوواہ] نے حکمت سے زمین کی بنیاد ڈالی اور فہم سے آسمان کو قائم کِیا۔ . . . اَے میرے بیٹے! دانائی اور تمیز کی حفاظت کر۔ اُنکو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ یُوں وہ تیری جان کی حیات اور تیرے گلے کی زینت ہونگی۔“—امثال ۳:۱۹-۲۲۔
حکمت اور فہم خدائی خوبیاں ہیں۔ ہمیں نہ صرف اِنہیں اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے بلکہ صحائف کے مستعد مطالعے اور سیکھی ہوئی باتوں کا اطلاق کرنے سے کبھی سُست نہ پڑتے ہوئے انہیں مضبوطی سے تھامے رہنے کی ضرورت ہے۔ سلیمان اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہتا ہے، ”تب تُو بے کھٹکے اپنے راستہ پر چلیگا اور تیرے پاؤں کو ٹھیس نہ لگیگی۔“ وہ مزید کہتا ہے: ”جب تُو لیٹے گا تو خوف نہ کھائے گا۔ بلکہ تُو لیٹ جائے گا اور تیری نیند میٹھی ہو گی۔“—امثال ۳:۲۳، ۲۴۔
جیہاں، ہم شیطان کی بُری دُنیا پر چور کی مانند ”ناگہاں ہلاکت“ کے دن کو آتے ہوئے دیکھنے کے انتظار میں بھی سلامتی سے چل سکتے اور چین کی نیند سو سکتے ہیں۔ (۱-تھسلنیکیوں ۵:۲، ۳؛ ۱-یوحنا ۵:۱۹) جلد آنے والی بڑی مصیبت کے دوران بھی ہم اس یقیندہانی سے حوصلہ پا سکتے ہیں: ”ناگہانی دہشت سے خوف نہ کھانا اور نہ شریروں کی ہلاکت سے جب وہ آئے۔ کیونکہ [یہوواہ] تیرا سہارا ہوگا اور تیرے پاؤں کو پھنس جانے سے محفُوظ رکھیگا۔“—امثال ۳:۲۵، ۲۶؛ متی ۲۴:۲۱۔
بھلائی کرو
سلیمان نصیحت کرتا ہے، ”بھلائی کے حقدار سے اُسے دریغ نہ کرنا جب تیرے مقدُور میں ہو۔“ (امثال ۳:۲۷) دوسروں سے بھلائی کرنے میں اُن کی خاطر اپنے وسائل کو فراخدلی سے استعمال کرنا شامل ہے اور اِس کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ لیکن کیا یہوواہ سے قریبی رشتہ قائم کرنے میں دوسروں کی مدد کرنا سب سے بہترین کام نہیں جو ہم اس ”آخری زمانہ“ کے دوران کر سکتے ہیں؟ (دانیایل ۱۲:۴) تاہم، یہی وہ وقت ہے جب بادشاہتی مُنادی اور شاگرد بنانے کے کام میں سرگرمی دکھائی جا سکتی ہے۔—متی ۲۸:۱۹، ۲۰۔
دانشمند بادشاہ چند ایسی چیزوں کا بھی ذکر کرتا ہے جن سے گریز کرنا چاہئے: ”جب تیرے پاس دینے کو کچُھ ہو تُو اپنے ہمسایہ سے یہ نہ کہنا اب جا۔ پِھر آنا۔ مَیں تجھے کل دونگا۔ اپنے ہمسایہ کے خلاف برائی کا منصوبہ نہ باندھنا۔ جس حال کہ وہ تیرے پڑوس میں بے کھٹکے رہتا ہے۔ اگر کسی نے تجھے نقصان نہ پہنچایا ہو تُو اُس سے بے سبب جھگڑا نہ کرنا۔ تُندخُو آدمی پر حسد نہ کرنا اور اُسکی کسی روش کو اختیار نہ کرنا۔“—امثال ۳:۲۸-۳۱۔
اپنی نصیحت کی وجہ کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے سلیمان کہتا ہے: ”کیونکہ کجرو سے [یہوواہ] کو نفرت ہے لیکن راستباز اُسکے محرمِراز ہیں۔ شرِیروں کے گھر پر [یہوواہ] کی لعنت ہے لیکن صادقوں کے مسکن پر اُسکی برکت ہے۔ یقیناً وہ ٹھٹھابازوں پر ٹھٹھے مارتا ہے لیکن فروتنوں پر فضل کرتا ہے۔ دانا جلال کے وارِث ہونگے لیکن احمقوں کی ترقی شرمندگی ہوگی۔“—امثال ۳:۳۲-۳۵۔
اگر ہم یہوواہ کی قربت سے لطفاندوز ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں بُرے اور پُرفریب منصوبے نہیں بنانے چاہئیں۔ (امثال ۶:۱۶-۱۹) جب ہم یہوواہ کی نظر میں راست کام کرینگے تو ہمیں اُسکی پسندیدگی اور برکت حاصل ہوگی۔ جب دوسرے ہمیں الہٰی حکمت کے مطابق عمل کرتے ہوئے دیکھیں گے تو ہمیں خودبخود عزت حاصل ہوگی۔ لہٰذا، آئیے ہم اِس بُری اور تشددآمیز دُنیا کی پُرفریب راہوں کو ترک کریں۔ بلکہ، آئیے ہم راست روش اختیار کریں اور یہوواہ کی قربت کے طالب ہوں!
[صفحہ ۲۵ پر تصویر]
”اپنے مال سے . . . [یہوواہ] کی تعظیم کر“