اپنی زندگی سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں
گھر میں باپ کینسر کی وجہ سے بسترِمرگ پر پڑا تھا۔ بیٹا ورکشاپ میں باپ کے بڑھئی کے اوزاروں کو سمیٹ رہا تھا۔ اوزاروں کو قرینے سے رکھتے ہوئے وہ اُن شاندار چیزوں کی بابت سوچنے لگا جو اُس کے باپ نے ان اوزاروں کی مدد سے بنائی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ ورکشاپ گھر سے ملحق ہونے کے باوجود اُس کا باپ اب وہاں دوبارہ نہیں آئیگا اور نہ ہی اُن اوزاروں سے کوئی کام کریگا جنکے استعمال میں وہ انتہائی ماہر تھا۔ وقت گزر چکا تھا۔
بیٹے نے واعظ ۹:۱۰ کے صحیفے کی بابت سوچا: ”جو کام تیرا ہاتھ کرنے کو پائے اُسے مقدوربھر کر کیونکہ پاتال میں جہاں تُو جاتا ہے نہ کام ہے نہ منصوبہ۔ نہ علم نہ حکمت۔“ وہ اس صحیفے سے بخوبی واقف تھا۔ وہ دوسروں کو یہ بائبل سچائی سکھانے کیلئے کہ موت بےعملی کی حالت ہے، اس صحیفے کو بارہا استعمال کر چکا تھا۔ اب سلیمان کے استدلال نے اُسکے دل پر اثر کِیا تھا—ممکنہ طور پر ہمیں ایک بھرپور زندگی گزارنا اور اپنے ایّام سے لطفاندوز ہونا چاہئے کیونکہ ایسا وقت بھی آئیگا جب ہم ایسا نہیں کر سکیں گے۔
زندگی سے لطف اُٹھائیں
واعظ کی کتاب میں شروع سے آخر تک دانشمند بادشاہ سلیمان اپنے قارئین کو زندگی سے لطف اُٹھانے کی تاکید کرتا ہے۔ مثال کے طور پر باب ۳ بیان کرتا ہے: ”مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ انسان کے لئے یہی بہتر ہے کہ خوش وقت ہو اور جب تک جیتا رہے نیکی کرے۔ اور یہ بھی کہ ہر ایک انسان کھائے اور پئے اور اپنی ساری محنت سے فائدہ اٹھائے۔ یہ بھی خدا کی بخشش ہے۔“—واعظ ۳:۱۲، ۱۳۔
خدا نے سلیمان کو اِسی بات کو دہرانے کا الہام بخشا: ”لو! مَیں نے دیکھا کہ یہ خوب ہے بلکہ خوشنما ہے کہ آدمی کھائے اور پئے اور اپنی ساری محنت سے جو وہ دنیا میں کرتا ہے اپنی تمام عمر جو خدا نے اُسے بخشی ہے راحت اٹھائے کیونکہ اُسکا بخرہ یہی ہے۔“—واعظ ۵:۱۸۔
اسی طرح سے نوجوانوں کو تاکید کرتا ہے: ”اے جوان تُو اپنی جوانی میں خوش ہو اور اُسکے ایّام میں اپنا جی بہلا اور اپنے دل کی راہوں میں اور اپنی آنکھوں کی منظوری میں چل۔“ (واعظ ۱۱:۹الف) جوانی کی طاقت اور جوش سے بھرپور لطف اُٹھانا کتنا عمدہ ہے!—امثال ۲۰:۲۹
’اپنے خالق کو یاد کر‘
بِلاشُبہ سلیمان کا یہ مطلب نہیں کہ اپنے دل یا آنکھوں کو بھلی معلوم ہونے والی ہر شے کے طالب ہونا دانشمندی ہے۔ (مقابلہ کریں ۱-یوحنا ۲:۱۶) جو کچھ وہ آگے لکھتا ہے اُس سے یہ بات واضح ہے: ”لیکن یاد رکھ کہ ان سب باتوں [اپنی خواہشات کو پورا کرنے] کیلئے خدا تجھے عدالت میں لائیگا۔“ (واعظ ۱۱:۹ب) اپنی عمر سے قطعنظر ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح ہم اپنی زندگیاں استعمال کرتے ہیں خدا اُسے دیکھتا ہے اور وہ ہم سے اُس کا حساب لے گا۔
یہ سوچنا کتنی حماقت ہے کہ خدائیعقیدت کو زندگی کے بعد کے سالوں تک ملتوی کر کے ہم فیالحال ایک خود پرستانہ زندگی بسر کر سکتے ہیں! ہماری زندگی کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا نہیں بھی ہوتا تو بھی بڑھاپے میں خدا کی خدمت کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے سلیمان نے لکھا: ”اپنی جوانی کے دنوں میں اپنے خالق کو یاد کر جبکہ بُرے دن ہنوز نہیں آئے اور وہ برس نزدیک نہیں ہوئے جن میں تُو کہیگا کہ اِن سے مجھے کچھ خوشی نہیں۔“—واعظ ۱۲:۱۔
بڑھاپا اپنے ساتھ بہت سے مسائل بھی لاتا ہے۔ اگلی آیات میں سلیمان بڑھاپے کے اثرات کو علامتی زبان میں بیان کرتا ہے۔ ہاتھ اور بازو کانپتے ہیں، ٹانگیں کمزور ہو جاتی ہیں اور دانت گر جاتے ہیں۔ بال سفید ہو جاتے اور گر جاتے ہیں۔ نیند اتنی کچی ہو جاتی ہے کہ ایک شخص پرندے کی آواز پر بھی چونک اُٹھتا ہے۔ حواسِخمسہ—دیکھنے، سننے، سونگھنے، چکھنے، اور چُھونے کی قوتیں ماند پڑ جاتی ہیں۔ ناتواں جسم راہ میں گر جانے اور دیگر اقسام کی ”دہشت“ کو جنم دیتا ہے۔ بالآخر انسان مر جاتا ہے۔—واعظ ۱۲:۲-۷۔
اُن لوگوں کیلئے بڑھاپا خاص طور پر مصیبتانگیز ہوتا ہے جو ’جوانی میں اپنے خالق کو یاد‘ کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اپنی زندگی کے ایّام کو ضائع کر دینے کے باعث اُس شخص کے پاس بعد کے سالوں میں ’خوش ہونے‘ کی کوئی وجہ نہیں ہوتی۔ بےدین طرزِزندگی بھی بڑھاپے کی مشکلات اور پریشانیوں میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے۔ (امثال ۵:۳-۱۱) افسوس کی بات ہے کہ ایسے لوگوں کو مستقبل میں قبر کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا۔
بڑھاپے میں شادمان ہونا
اسکا یہ مطلب نہیں کہ عمررسیدہ اشخاص زندگی سے لطفاندوز نہیں ہو سکتے۔ بائبل میں ”عمر کی درازی اور پیری“ کو خدا کی برکات سے منسلک کِیا گیا ہے۔ (امثال ۳:۱، ۲) یہوواہ نے اپنے دوست ابرہام کو بتایا: ”تُو . . . نہایت پیری میں دفن ہوگا۔“ (پیدایش ۱۵:۱۵) بڑھاپے کے مسائل کے باوجود، ابرہام نے یہوواہ کیلئے مخصوص زندگی پر اپنے آخری سالوں میں طمانیت کیساتھ نظر کرتے ہوئے اَمن اور سکون کا تجربہ کِیا۔ وہ ایمان کیساتھ خدا کی بادشاہت کے ”پایدار شہر کا“ اُمیدوار تھا۔ (عبرانیوں ۱۱:۱۰) پس اُس نے ”نہایت ضعیف اور پوری عمر کا ہو کر“ وفات پائی۔—پیدایش ۲۵:۸۔
پس سلیمان نے تاکید کی: ”اگر آدمی برسوں زندہ رہے تو اُن میں خوشی کرے۔“ (واعظ ۱۱:۸) خواہ ہم بوڑھے ہیں یا جوان، حقیقی خوشی کا انحصار خدا کیساتھ ہمارے رشتے پر ہے۔
جب وہ نوجوان شخص اپنے باپ کے آخری اوزار ورکشاپ میں رکھتا ہے تو اُس نے ان باتوں کی بابت سوچا۔ اُس نے اُن تمام لوگوں کی بابت سوچا جنہوں نے اپنی زندگیوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی، تاہم خوشی حاصل کرنے میں ناکام رہے کیونکہ اپنے خالق کیساتھ اُنکا کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ کتنا موزوں ہے کہ اپنی زندگی سے شادمانی حاصل کرنے کی حوصلہافزائی دینے کے بعد، سلیمان ان الفاظ کیساتھ اپنے بیان کو ختم کرتا ہے: ”اب سب کچھ سنایا گیا۔ حاصلِکلام یہ ہے۔ خدا سے ڈر اور اُسکے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِکلی یہی ہے“!—واعظ ۱۲:۱۳۔