کیا آپ خدا کے حضور اپنا فرضِکُلی ادا کر رہے ہیں؟
”خدا ہر ایک فعل کو ہر ایک پوشیدہ چیز کے ساتھ خواہ بھلی ہو خواہ بُری عدالت میں لائیگا۔“—واعظ ۱۲:۱۴۔
۱. یہوواہ نے اپنے لوگوں کو کونسی فراہمیاں عطا کی ہیں؟
یہوواہ اُن لوگوں کی حمایت کرتا ہے جو عظیم خالق کے طور پر اُسے یاد رکھتے ہیں۔ اُس کا الہامی کلام اُنہیں اُسے پوری طرح سے خوش کرنے کیلئے درکار علم فراہم کرتا ہے۔ الہٰی مرضی بجا لانے اور ”ہر طرح کے نیک کام کا پھل“ پیدا کرنے کیلئے خدا کی پاک رُوح اُنکی راہنمائی کرتی ہے۔ (کلسیوں ۱:۹، ۱۰) مزیدبرآں، یہوواہ ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے ذریعے روحانی خوراک اور تھیوکریٹک ہدایت فراہم کرتا ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) لہٰذا، یہوواہ کی خدمت اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کا نہایت اہم کام کرنے کی وجہ سے خدا کے لوگوں کو اُس کی طرف سے کئی طریقوں سے برکات حاصل ہوتی ہیں۔—مرقس ۱۳:۱۰۔
۲. یہوواہ کی خدمت کے حوالے سے کونسے سوالات پیدا ہو سکتے ہیں؟
۲ سچے مسیحی یہوواہ کی پاک خدمت میں مشغول رہنے سے خوش ہیں۔ تاہم، بعض بےحوصلہ ہو کر یہ سوچ سکتے ہیں کہ اُن کی کاوشیں بےمقصد ہیں۔ مثال کے طور پر، بعضاوقات، مخصوصشُدہ مسیحی بھی یہ سوچ سکتے ہیں کہ آیا اُن کی فرضشناس کوششیں واقعی سودمند ہیں۔ خاندانی مطالعے اور دیگر کارگزاریوں پر غور کرتے ہوئے، خاندان کے سردار کے ذہن میں ایسے سوالات پیدا ہو سکتے ہیں: ’کیا یہوواہ واقعی ہمارے کام سے خوش ہے؟ کیا ہم یہوواہ کے حضور اپنا فرضِکُلی ادا کر رہے ہیں؟‘ واعظ کی دانشمندانہ باتیں ایسے سوالات کا جواب دینے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔
کیا سب کچھ باطل ہے؟
۳. واعظ ۱۲:۸ کے مطابق سب سے بڑی بطالت کیا ہے؟
۳ بعض شاید محسوس کریں کہ دانشمند آدمی کی باتیں پیروجوان، کسی کے لئے بھی زیادہ حوصلہافزا نہیں ہیں۔ ”باطل ہی باطل،“ واعظ نے کہا، ”سب کچھ باطل ہے۔“ (واعظ ۱۲:۸) درحقیقت، جوانی میں عظیم خالق کو نظرانداز کرنا، اُس کی خدمت کئے بغیر ہی سنرسیدہ ہونا اور محض بڑھاپے تک پہنچ جانے کو ایک معرکہ خیال کرنا ہی سب سے بڑی بطالت ہے۔ ایسا شخص اگر شریر یعنی شیطان ابلیس کے قبضہ میں پڑی ہوئی اس دُنیا میں بڑی دولت اور شہرت حاصل کرنے کے بعد بھی مرتا ہے توبھی اُس کے لئے سب کچھ باطل یا لاحاصل ہے۔—۱-یوحنا ۵:۱۹۔
۴. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ سب کچھ باطل نہیں ہے؟
۴ اُن کے لئے سب کچھ باطل نہیں ہے جو یہوواہ کے وفادار خادموں کے طور پر آسمان پر خزانہ جمع کرتے ہیں۔ (متی ۶:۱۹، ۲۰) اُن کے پاس خداوند کے بااجر کام میں افزائش کرنے کے لئے بہت کچھ ہے نیز، ایسی کاوشیں کبھی بھی رائیگاں نہیں جاتیں۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸) لیکن اگر ہم مخصوصشُدہ مسیحی ہیں تو کیا ہم اِن آخری ایّام میں خدا کی طرف سے تفویضکردہ کام میں مصروف ہیں؟ (۲-تیمتھیس ۳:۱) یا کیا ہم نے ایسا طرزِزندگی اختیار کر رکھا ہے جو ہمارے اِردگِرد کے لوگوں سے زیادہ فرق نہیں ہے؟ ممکن ہے کہ اُن کا تعلق مختلف مذاہب سے ہو اور شاید کافی زیادہ مذہبی عقیدت بھی رکھتے ہوں، باقاعدگی کے ساتھ اپنی عبادتگاہوں میں جانے اور اپنے مذہب کے ہر تقاضے کو پورا کرنے کی کوشش بھی کرتے ہوں۔ اس تمام کے باوجود، وہ بادشاہتی پیغام کی منادی کرنے والے نہیں ہیں۔ وہ اس سلسلے میں صحیح علم بھی نہیں رکھتے کہ یہ ”آخری زمانہ“ ہے اور نہ ہی وہ اِس زمانے کی نزاکت کو سمجھتے ہیں جس میں ہم رہ رہے ہیں۔—دانیایل ۱۲:۴۔
۵. اگر زندگی کے عام حاصلات ہی ہماری اوّلین توجہ کا مرکز بن گئے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۵ یسوع نے ہمارے تشویشناک زمانے کی بابت کہا: ”جیسا نوؔح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابنِآدؔم کے آنے کے وقت ہوگا۔ کیونکہ جس طرح طوفان سے پہلے کے دنوں میں لوگ کھاتے پیتے اور بیاہ شادی کرتے تھے اُس دن تک کہ نوؔح کشتی میں داخل ہؤا۔ اور جب تک طوفان آ کر اُن سب کو بہا نہ لے گیا اُنکو خبر نہ ہوئی اُسی طرح ابنِآدؔم کا آنا ہوگا۔“ (متی ۲۴:۳۷-۳۹) اعتدالپسندی کے ساتھ کھانے پینے میں کوئی بُرائی نہیں ہے اور شادی کے بندوبست کا آغاز تو خدا نے ہی کِیا تھا۔ (پیدایش ۲:۲۰-۲۴) تاہم، اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کے عام حاصلات ہی ہماری بنیادی توجہ کا مرکز بن گئے ہیں تو پھر کیوں نہ اِس کی بابت دُعا کریں؟ یہوواہ بادشاہتی مفادات کو پہلا درجہ دینے، راستی کو عمل میں لانے اور اُس کے حضور اپنا فرضِکُلی ادا کرنے کے لئے ہماری مدد کر سکتا ہے۔—متی ۶:۳۳؛ رومیوں ۱۲:۱۲؛ ۲-کرنتھیوں ۱۳:۷۔
مخصوصیت اور خدا کے حضور ہمارا فرض
۶. کس خاص طریقے سے بعض بپتسمہیافتہ اشخاص خدا کے حضور اپنا فرض ادا کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں؟
۶ بعض بپتسمہیافتہ مسیحیوں کو خلوصدلی سے دُعا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ اُن خدمتی فرائض کو پورا نہیں کر رہے جو اُنہوں نے خدا کے حضور مخصوصیت کرتے وقت قبول کئے تھے۔ اب کئی سالوں سے ہر سال ۳،۰۰،۰۰۰ سے زائد لوگ بپتسمہ لے رہے ہیں لیکن سرگرم یہوواہ کے گواہوں کی مجموعی تعداد میں اس تناسب سے اضافہ نہیں ہوا ہے۔ بادشاہتی پبلشر بننے والے بعض لوگوں نے خوشخبری سنانا بند کر دیا ہے۔ تاہم، بپتسمہ پانے سے پہلے ان اشخاص کے لئے مسیحی خدمتگزاری میں بامقصد شرکت کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یوں وہ یسوع کے اِس حکم سے بخوبی واقف ہیں جو اُس نے اپنے تمام پیروکاروں کو دیا تھا: ”پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُنکو باپ اور بیٹے اور رُوحالقدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور اُنکو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جنکا مَیں نے تمکو حکم دیا۔“ (متی ۲۸:۱۹، ۲۰) اگر بپتسمہیافتہ اشخاص نے صحت یا دیگر حالات کے باعث آنے والی غیرمعمولی مشکلات کی وجہ سے خدا اور مسیح کے سرگرم گواہوں کے طور پر خدمت کرنا بند کر دی ہے تو الگ بات ہے ورنہ وہ اپنے عظیم خالق کے حضور اپنا فرضِکُلی ادا نہیں کر رہے ہیں۔—یسعیاہ ۴۳:۱۰-۱۲۔
۷. ہمیں پرستش کے لئے باقاعدگی سے اکٹھے جمع کیوں ہونا چاہئے؟
۷ قدیم اسرائیل خدا کی مخصوص قوم تھا اور شریعتی عہد کے تحت اس کے لوگوں کے یہوواہ کے حضور کچھ فرائض تھے۔ مثال کے طور پر، تمام مردوں کے لئے تین سالانہ عیدوں پر حاضر ہونا لازم تھا اور جو شخص دانستہ طور پر فسح نہیں مناتا تھا اُسے ”کاٹ ڈالا“ یعنی ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ (گنتی ۹:۱۳؛ احبار ۲۳:۱-۴۳؛ استثنا ۱۶:۱۶) خدا کے مخصوصشُدہ لوگوں کی حیثیت سے اُس کے حضور اپنا فرض پورا کرنے کے لئے اسرائیلی پرستش کی غرض سے جمع ہوتے تھے۔ (استثنا ۳۱:۱۰-۱۳) شریعت میں کہیں پر بھی یہ نہیں کہا گیا تھا کہ ’اگر حالات اجازت دیں تو ایسا کر لینا۔‘ لہٰذا، یہ بات آجکل یہوواہ کے مخصوصشُدہ لوگوں کے واسطے پولس کے ان الفاظ کو اَور بھی زیادہ اہم بنا دیتی ہے: ”محبت اور نیک کاموں کی ترغیب دینے کے لئے ایک دوسرے کا لحاظ رکھیں۔ اور ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہونے سے باز نہ آئیں جیسا بعض لوگوں کا دستور ہے بلکہ ایک دوسرے کو نصیحت کریں اور جس قدر اُس دن کو نزدیک ہوتے ہوئے دیکھتے ہو اُسی قدر زیادہ کِیا کرو۔“ (عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) جیہاں، ساتھی ایمانداروں کے ساتھ باقاعدگی سے جمع ہونا خدا کے حضور مخصوصشُدہ مسیحی کے فرض کا حصہ ہے۔
اپنے فیصلوں پر احتیاط سے غور کریں!
۸. ایک نوجوان شخص کو اپنی پاک خدمت کے سلسلے میں دُعائیہ غوروفکر کیوں کرنا چاہئے؟
۸ شاید آپ یہوواہ کے لئے مخصوصشُدہ نوجوان شخص ہیں۔ اگر آپ بادشاہتی مفادات کو اپنی زندگی میں مقدم رکھتے ہیں تو آپ کو بیشمار برکات حاصل ہونگی۔ (امثال ۱۰:۲۲) دُعا اور محتاط منصوبہسازی کے ساتھ، آپ کمازکم اپنی جوانی کو کسی نہ کسی قسم کی کُلوقتی خدمت میں صرف کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں جو اِس بات کا عمدہ ثبوت ہے کہ آپ اپنے عظیم خالق کو یاد رکھتے ہیں۔ بصورتِدیگر، مادی حاصلات آپ کے بیشتر وقت اور سوچ پر حاوی ہو سکتے ہیں۔ عام لوگوں کی طرح آپ بھی جلدی شادی کرکے مادی چیزیں حاصل کرنے کے لئے قرض کے بوجھ تلے دب سکتے ہیں۔ ایک نفعبخش کاروبار آپ کا سارا وقت اور توانائی ہڑپ کر سکتا ہے۔ اگر آپ کے بچے ہیں توپھر آپ کو کئی عشروں تک خاندانی ذمہداری اُٹھانی ہونگی۔ (۱-تیمتھیس ۵:۸) ممکن ہے آپ نے اپنے عظیم خالق کو فراموش نہ کِیا ہو تاہم یہ سمجھنا دانشمندی کی بات ہوگی کہ آپ کی پیشگی منصوبہسازی یا اس کی کمی آپ کی آئندہ زندگی پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ بعد کے سالوں میں شاید آپ پیچھے نظر ڈال کر یہ محسوس کریں کہ کمازکم آپ اپنی جوانی کو اپنے عظیم خالق کی پاک خدمت میں زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کر سکتے تھے۔ کیوں نہ آپ ابھی سے اپنے منصوبوں پر دُعائیہ غوروفکر کریں تاکہ آپ اپنی جوانی میں یہوواہ کی پاک خدمت سے اطمینان حاصل کر سکیں؟
۹. ایسے شخص کے لئے کیا ممکن ہے جو اب تو بوڑھا ہو گیا ہے مگر پہلے کبھی کلیسیا میں بھاری ذمہداری رکھتا تھا؟
۹ اب ذرا ایک اَور طرح کے حالات کا جائزہ لیں—ایسے شخص کے حالات کا جو کبھی ”خدا کے . . . گلّہ“ کے نگہبان کے طور پر خدمت کرتا تھا۔ (۱-پطرس ۵:۲، ۳) بعض وجوہات کی بِنا پر، وہ اپنی مرضی سے ایسے استحقاقات سے دستبردار ہو جاتا ہے۔ سچ ہے کہ وہ اب بوڑھا ہو چکا ہے اور اُس کے لئے خدا کی خدمت جاری رکھنا مشکل ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ وہ پھر سے تھیوکریٹک استحقاقات حاصل کرنے کی کوشش کرے؟ اگر یہ شخص کلیسیا میں زیادہ ذمہداری اُٹھانے کے لائق ہے تو دوسروں کے لئے کیسی برکات کا باعث بن سکتا ہے! اِس کے علاوہ ہم میں سے کوئی بھی اپنے واسطے نہیں جیتا اسلئے اگر وہ خدا کے جلال کے لئے اپنی خدمت میں اضافہ کرنے کے قابل ہے تو اس سے دوستاحباب اور عزیزواقارب خوش ہونگے۔ (رومیوں ۱۴:۷، ۸) سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ یہوواہ کسی بھی شخص کی خدمت کو فراموش نہیں کرتا۔ (عبرانیوں ۶:۱۰-۱۲) پس، اپنے عظیم خالق کو یاد رکھنے میں کونسی چیز ہماری مدد کر سکتی ہے؟
اپنے عظیم خالق کو یاد رکھنے کیلئے امدادی چیزیں
۱۰. اپنے عظیم خالق کو یاد رکھنے کے سلسلے میں ہدایات فراہم کرنے کے لئے واعظ بہترین حالت میں کیوں تھا؟
۱۰ واعظ اپنے عظیم خالق کو یاد رکھنے کے سلسلے میں ہدایات فراہم کرنے کے لئے بہترین حالت میں تھا۔ یہوواہ نے اُس کی مخلصانہ دُعاؤں کے جواب میں اُسے غیرمعمولی حکمت سے نوازا تھا۔ (۱-سلاطین ۳:۶-۱۲) سلیمان نے تمام انسانی اُمور کی مکمل جانچ کی تھی۔ مزیدبرآں، دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی غرض سے اُسے اپنی دریافتوں کو تحریر کرنے کا الہام بھی بخشا گیا تھا۔ اُس نے لکھا: ”غرض ازبسکہ واؔعظ دانشمند تھا اُس نے لوگوں کو تعلیم دی۔ ہاں اُس نے بخوبی غور کِیا اور خوب تجویز کی اور بہت سی مثلیں قرینہ سے بیان کیں۔ واؔعظ دلآویز باتوں کی تلاش میں رہا۔ اُن سچی باتوں کی جو راستی سے لکھی گئیں۔“—واعظ ۱۲:۹، ۱۰۔
۱۱. ہمیں سلیمان کی دانشمندانہ مشورت کو کیوں قبول کرنا چاہئے؟
۱۱ ان الفاظ کا یونانی سپتواُجنتا ترجمہ بیان کرتا ہے: ”مزیدبرآں، واعظ نے دانشمند ہونے کی وجہ سے نوعِانسان کو حکمت سکھائی؛ تاکہ سامعین دلپسند امثال سے تسکین حاصل کریں، واعظ نے فرحتبخش باتوں کی مستعدی سے تلاش کی اور راستی کی باتیں تحریر کیں۔“ (چارلس تھامسن کی ترجمہکردہ سپتواُجنتا بائبل) سلیمان نے دلآویز باتوں اور واقعی دلچسپ اور قابلِقدر موضوعات کے ذریعے قارئین کے دل تک پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ اُس کی باتیں صحائف میں درج ہونے سے روحالقدس کے الہام سے لکھی گئی ہیں اسلئے ہم اُس کی دریافتوں اور دانشمندانہ مشورت کو بِلاتذبذب قبول کر سکتے ہیں۔—۲-تیمتھیس ۳:۱۶، ۱۷۔
۱۲. سلیمان نے واعظ ۱۲:۱۱، ۱۲ میں جو کچھ کہا ہے آپ اُسے اپنے الفاظ میں کیسے بیان کرینگے؟
۱۲ چھپائی کے جدید طریقوں کی عدمموجودگی کے باوجود سلیمان کے زمانے میں کتابیں بکثرت دستیاب تھیں۔ ایسے اَدب کو کیسا خیال کِیا جانا چاہئے تھا؟ اُس نے کہا: ”دانشمند کی باتیں پینوں کی مانند ہیں اور اُن کھونٹیوں کی مانند جو صاحبانِمجلس نے لگائی ہوں اور جو ایک ہی چرواہے کی طرف سے ملی ہوں۔ سو اَب اَے میرے بیٹے اِن سے نصیحتپذیر ہو۔ بہت کتابیں بنانے کی انتہا نہیں ہے اور بہت پڑھنا جسم کو تھکاتا ہے۔“—واعظ ۱۲:۱۱، ۱۲۔
۱۳. خدائی حکمت کے حامل اشخاص کی باتیں پینوں کی مانند کیسے ثابت ہو سکتی ہیں اور ”کھونٹیوں“ کی مانند کون ہیں؟
۱۳ خدائی حکمت رکھنے والوں کی باتیں واقعی پینوں کی مانند ثابت ہوتی ہیں۔ کیسے؟ یہ قارئین یا سامعین کو پڑھی یا سنی ہوئی دانشمندانہ باتوں کے مطابق ترقی کرنے کی تحریک دیتی ہیں۔ مزیدبرآں، وہ لوگ جو اپنے پاس ”بہت کتابیں“ یا واقعی پُرحکمت اور قابلِقدر باتیں جمع کر لیتے ہیں مضبوطی سے نصب کی گئیں ”کھونٹیوں“ کی مانند ہوتے ہیں۔ ایسا اِسلئے بھی ہو سکتا ہے کہ ایسے لوگوں کی باتیں یہوواہ کی حکمت کو منعکس کرتی ہیں اور قارئین یا سامعین کو استحکام بخشنے یا اُن کی مدد کرنے کا کام انجام دے سکتی ہیں۔ اگر آپ خداترس والدین ہیں توپھر کیا آپکو اپنے بچوں کے دلودماغ میں ایسی حکمت جاگزین کرنے کی ہر ممکن کوشش نہیں کرنی چاہئے؟—استثنا ۶:۴-۹۔
۱۴. (ا) کس قسم کی کتابوں کو ”بہت پڑھنا“ فائدہمند نہیں ہوتا؟ (ب) ہمیں کس قسم کے اَدب پر خاص دھیان دینا چاہئے اور کیوں؟
۱۴ پس، سلیمان نے کتابوں کی بابت ایسی رائےزنی کیوں کی تھی؟ درحقیقت، یہوواہ کے کلام کے مقابلے میں اس دُنیا کی لاتعداد کتابوں میں محض انسانی سوچ پائی جاتی ہے۔ بڑی حد تک ایسی سوچ شیطان ابلیس کی عقل کو منعکس کرتی ہے۔ (۲-کرنتھیوں ۴:۴) لہٰذا، ایسی دُنیاوی کُتب کی ”بہت“ پڑھائی سے کوئی خاطرخواہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ دراصل، اِن میں سے بیشتر تو روحانی طور پر نقصاندہ ثابت ہو سکتی ہیں۔ سلیمان کی طرح، آیئے ہم بھی اس بات پر دھیان دیں کہ خدا کا کلام زندگی کی بابت کیا بیان کرتا ہے۔ اس سے ہمارا ایمان مضبوط ہوگا اور ہم یہوواہ کی قربت میں آ جائینگے۔ دیگر کتابوں یا ذرائع پر حد سے زیادہ توجہ دینا ہمیں تھکا سکتا ہے۔ خاص طور پر جب ایسی تحریریں خدائی حکمت سے ٹکرانے والی دُنیاوی سوچ کی پیداوار ہوتی ہیں تو یہ خدا اور اُس کے مقاصد پر ایمان کے لئے ناموافق اور تباہکُن ثابت ہوتی ہیں۔ پس، آئیے یہ یاد رکھیں کہ سلیمان اور ہمارے اپنے زمانے کی سب سے مفید تحریریں وہ ہیں جو ”ایک ہی چرواہے،“ یہوواہ خدا کی حکمت کو منعکس کرتی ہیں۔ اُس نے ہمیں پاک صحائف کی ۶۶ کتابیں مہیا کی ہیں جن پر ہمیں گہری توجہ دینی چاہئے۔ بائبل اور ’دیانتدار نوکر‘ کی امدادی مطبوعات ہمیں ”خدا کی معرفت“ حاصل کرنے کے قابل بناتی ہیں۔—امثال ۲:۱-۶۔
خدا کے حضور ہمارا فرضِکُلی
۱۵. (ا) آپ ”انسان کے فرضِکُلی“ کی بابت سلیمان کے الفاظ کو کیسے بیان کرینگے؟ (ب) اگر ہمیں خدا کے حضور اپنا فرض ادا کرنا ہے تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۵ واعظ یعنی سلیمان اپنی تمام تحقیقوتفتیش کی تلخیص اِن الفاظ میں کرتا ہے: ”اب سب کچھ سنایا گیا۔ حاصلِکلام یہ ہے۔ خدا سے ڈر اور اُس کے حکموں کو مان کہ انسان کا فرصِکُلی یہی ہے۔ کیونکہ خدا ہر ایک فعل کو ہر ایک پوشیدہ چیز کے ساتھ خواہ بھلی ہو خواہ بُری عدالت میں لائیگا۔“ (واعظ ۱۲:۱۳، ۱۴) اُمید ہے کہ اپنے عظیم خالق کے لئے خوشگوار ڈر یا اُس کے لئے مؤدبانہ احترام ہمیں اور ہمارے خاندانوں کو زندگی میں ایسی احمقانہ روش پر چلنے سے باز رکھے گا جو نہ صرف ہمارے اپنے لئے بلکہ ہمارے عزیزواقارب کے لئے بھی بےپناہ مصیبت اور دُکھ کا باعث بن سکتی ہے۔ خدا کا خوشگوار ڈر پاک ہے اور حکمت اور معرفت کا شروع ہے۔ (زبور ۱۹:۹؛ امثال ۱:۷) اگر ہم خدا کے الہامی کلام پر مبنی بصیرت رکھتے اور تمام معاملات میں اس کی مشورت کا اطلاق کرتے ہیں تو پھر ہم خدا کے حضور اپنا ”فرضِکُلی“ ادا کر رہے ہونگے۔ تاہم، اس کا مطلب اپنے لئے فرائض کی فہرست تیار کرنا نہیں ہے۔ اِس کی بجائے، جس بات کا تقاضا کِیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم زندگی کے مسائل حل کرنے کے لئے صحائف سے راہنمائی حاصل کریں اور ہمیشہ خدائی طریقے سے کام کریں۔
۱۶. عدالت کے سلسلے میں یہوواہ کیا کریگا؟
۱۶ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ کوئی بھی بات ہمارے عظیم خالق سے پوشیدہ نہیں ہے۔ (امثال ۱۵:۳) وہ ”ہر ایک فعل کو . . . عدالت میں لائیگا۔“ جیہاں، حقتعالیٰ تمام چیزوں، حتیٰکہ انسانی نظروں سے اوجھل چیزوں کی بھی عدالت کریگا۔ ایسے حقائق سے واقفیت ہمیں خدا کے احکام کی پابندی کرنے کی تحریک دے سکتی ہے۔ تاہم سب سے بڑا محرک اپنے آسمانی باپ سے محبت ہونا چاہئے کیونکہ یوحنا رسول نے لکھا: ”خدا کی محبت یہ ہے کہ ہم اُس کے حکموں پر عمل کریں اور اُس کے حکم سخت نہیں۔“ (۱-یوحنا ۵:۳) چنانچہ خدائی احکام ہماری دائمی فلاحوبہبود کے لئے وضع کئے گئے ہیں اسلئے اُن کی پابندی کرنا نہ صرف موزوں بلکہ دانشمندانہ بھی ہے۔ عظیم خالق سے محبت رکھنے والوں کے لئے یہ کوئی بوجھ نہیں ہے۔ وہ اُس کے حضور اپنا فرض ادا کرنا چاہتے ہیں۔
اپنا فرضِکُلی ادا کریں
۱۷. اگر ہم واقعی خدا کے حضور اپنا فرضِکُلی ادا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
۱۷ اگر ہم دانشمند ہیں اور خدا کے حضور اپنا فرضِکُلی ادا کرنے کی حقیقی خواہش رکھتے ہیں تو اُس کے حکموں کی پابندی کرنے کے ساتھ ساتھ ہم اُسے ناراض کرنے کے سلسلے میں خوشگوار خوف بھی رکھینگے۔ واقعی، ”[یہوواہ] کا خوف دانائی کا شروع ہے“ اور اُس کے حکموں پر عمل کرنے والے ”دانشمند“ ہیں۔ (زبور ۱۱۱:۱۰؛ امثال ۱:۷) پس، آئیے ہم دانشمندی سے عمل کریں اور تمام باتوں میں یہوواہ کی فرمانبرداری کریں۔ آجکل یہ خاص طور پر ضروری ہے کیونکہ بادشاہ یسوع مسیح موجود ہے اور خدا کے مقررہ منصف کے طور پر اُس کی طرف سے عدالت کا دِن قریب ہے۔—متی ۲۴:۳؛ ۲۵:۳۱، ۳۲۔
۱۸. اگر ہم یہوواہ خدا کے حضور اپنا فرضِکُلی ادا کرتے ہیں تو اس کا ہمارے لئے کیا انجام ہوگا؟
۱۸ اِس وقت ہم میں سے ہر ایک کی الہٰی جانچپڑتال ہو رہی ہے۔ کیا ہم روحانی چیزوں کی طرف مائل ہیں یا کیا ہم نے دُنیاوی اثرات کو یہ اجازت دی ہے کہ خدا کے ساتھ ہمارے رشتے کو کمزور کر دیں؟ (۱-کرنتھیوں ۲:۱۰-۱۶؛ ۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷) اِس سے قطعنظر کہ ہم بوڑھے ہیں یا جوان، ہمیں اپنے عظیم خالق کو خوش کرنے کے لئے پوری کوشش کرنی چاہئے۔ اگر ہم یہوواہ کی فرمانبرداری کرتے اور اُس کے احکام کی پابندی کرتے ہیں تو ہم مٹنے والی اِس پُرانی دُنیا کی لاحاصل چیزوں کو مسترد کر دینگے۔ پس، ہم خدا کے موعودہ نئے نظاماُلعمل میں ابدی زندگی کی اُمید رکھنے کے قابل ہو سکتے ہیں۔ (۲-پطرس ۳:۱۳) خدا کے حضور اپنا فرضِکُلی ادا کرنے والوں کے لئے یہ کتنے شاندار امکانات ہیں!
آپ کیسے جواب دینگے؟
◻آپ یہ کیوں کہیں گے کہ سب کچھ باطل نہیں ہے؟
◻ایک مسیحی نوجوان کو اپنی پاک خدمت کے سلسلے میں دُعائیہ غوروفکر کیوں کرنا چاہئے؟
◻کس قسم کی کتابوں کو ”بہت پڑھنا“ مفید نہ ہوگا؟
◻”انسان کا فرضِکُلی“ کیا ہے؟
[صفحہ 20 پر تصویر]
یہوواہ کی خدمت کرنے والوں کیلئے سب کچھ باطل نہیں ہے
[صفحہ 23 پر تصویر]
اس دُنیا کی بیشتر کتابوں کے برعکس، خدا کا کلام تازگیبخش اور مفید ہے