اب اور ابد تک شادمان
”تُم میری اس نئی خلقت سے ابدی خوشی اور شادمانی کرو کیونکہ دیکھو مَیں یرؔوشلم کو خوشی اور اُسکے لوگوں کو خرمی بناؤنگا۔“—یسعیاہ ۶۵:۱۸۔
۱. صدیوں کے دوران سچی پرستش نے لوگوں کو کیسے متاثر کِیا ہے؟
صدیوں کے دوران، بیشمار لوگوں نے سچے خدا، یہوؔواہ کی خدمت کرنے سے بہت زیادہ خوشی حاصل کی ہے۔ داؔؤد اُن میں سے ایک تھا جو سچی پرستش میں شادمان تھے۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ جب عہد کا صندوق یرؔوشلیم میں لایا گیا تو ”داؔؤد اور اسرؔائیل کا سارا گھرانا خداوند کے صندوق کو للکارتے اور نرسنگا پھونکتے ہوئے لائے۔“ (۲-سموئیل ۶:۱۵) یہوؔواہ کی خدمت کرنے میں ایسی شادمانی محض گئی گزری چیز نہیں ہے۔ آپ اس میں شریک ہو سکتے ہیں۔ اور اب جلد ہی نئی طرح کی شادمانی کا بخرہ آپ کا ہو سکتا ہے!
۲. یسعیاہ ۳۵ باب کی یہودیوں کی واپسی سے متعلق اصل تکمیل کے علاوہ، کون آجکل ایک دوسری تکمیل میں شامل ہیں؟
۲ پچھلے مضمون میں، ہم نے یسعیاہ ۳۵ باب میں درج ہیجانخیز پیشینگوئی کی ابتدائی تکمیل کا جائزہ لیا تھا۔ ہم اسے موزوں طور پر بحالی کی پیشینگوئی کہہ سکتے ہیں کیونکہ ماضی کے یہودیوں کیلئے یہ ایسے ہی ثابت ہوئی تھی۔ اسے ہمارے زمانے میں بھی ویسے ہی تکمیل پانا ہے۔ وہ کیسے؟ پنتِکُست ۳۳ س.ع. سے یسوؔع کے رسولوں اور دیگر کیساتھ شروع کرکے، یہوؔواہ کا روحانی اسرائیلیوں کیساتھ واسطہ رہا ہے۔ یہ خدا کی پاک روح سے مسحشُدہ اشخاص ہیں جو اُس کا حصہ بنتے ہیں جسے پولسؔ رسول ”خدا کا اسرائیل“ کہتا ہے۔ (گلتیوں ۶:۱۶؛ رومیوں ۸:۱۵-۱۷) یہ بھی یاد رکھیں کہ ۱-پطرس ۲:۹ میں، ان مسیحیوں کو ”برگزیدہ نسل، شاہی کاہنوں کا فرقہ، مُقدس قوم، ایسی اُمت جو . . . خاص ملکیت ہے“ کہا گیا ہے۔ آگے چل کر پطرؔس روحانی اسرائیل کو دی جانے والی تفویض کی شناخت کراتا ہے: ”اُس کی خوبیاں ظاہر کرو جس نے تمہیں تاریکی سے اپنی عجیب روشنی میں بلایا ہے۔“
ہمارے زمانہ میں تکمیل
۳، ۴. اُس وقت حالت کیا تھی جب یسعیاہ ۳۴ باب نے جدید زمانے میں تکمیل پائی؟
۳ اس صدی کے اوائل میں وہ وقت بھی تھا جب زمین پر روحانی اسرائیل کا بقیہ ایسے پیغام کا اعلان کرنے میں ہمہوقت سرگرم نہیں تھا۔ وہ خدا کی عجیب روشنی میں پوری طرح خوشی نہیں کر رہے تھے۔ دراصل، وہ گہری تاریکی میں تھے۔ یہ کب ہوا؟ اور یہوؔواہ خدا نے اسکی بابت کیا کِیا؟
۴ یہ ۱۹۱۴ میں خدا کی بادشاہت کے آسمان میں قائم ہونے کے فوراً بعد، پہلی عالمی جنگ کے دوران واقع ہوا تھا۔ مختلف ممالک میں گرجاگھروں کے پادریوں کی پُشتپناہی کیساتھ، قومیں ایک دوسرے کیخلاف برسرِپیکار تھیں۔ (مکاشفہ ۱۱:۱۷، ۱۸) بِلاشُبہ، خدا بلندمرتبہ پادری طبقے سمیت برگشتہ مسیحی دُنیا کے ویسے ہی خلاف تھا جیسے وہ اؔدوم کی متکبر قوم کے خلاف تھا۔ لہٰذا، اؔدوم کی مماثل، مسیحی دُنیا یسعیاہ ۳۴ باب کی جدید تکمیل کا مزہ چکھنے والی ہے۔ مستقل تباہی کیساتھ یہ تکمیل بالکل ویسے ہی یقینی ہے جیسےکہ قدیم اؔدوم کے خلاف پہلی تکمیل تھی۔—مکاشفہ ۱۸:۴-۸، ۱۹-۲۱۔
۵. یسعیاہ ۳۵ باب نے ہمارے زمانے میں کس قسم کی تکمیل پائی ہے؟
۵ شادمانی پر اس کی تاکید کیساتھ، یسعیاہ کے ۳۵ باب کی پیشینگوئی کی بابت کیا ہے؟ اسکی تکمیل بھی ہمارے زمانے میں ہوئی ہے۔ یہ کیسے واقع ہوئی ہے؟ یہ روحانی اسرائیل کی ایک قسم کی اسیری سے بحالی میں تکمیلپذیر ہوئی ہے۔ آئیے حقائق کا جائزہ لیں کہ ابھی تک ہم میں سے زندہ بہت سے لوگوں کی زندگیوں کے دوران واقع ہونے والی جدید تھیوکریٹک تاریخ درحقیقت کیا ہے۔
۶. یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ روحانی اسرائیل کا بقیہ اسیری کی حالت میں چلا گیا تھا؟
۶ پہلی عالمی جنگ کے دوران نسبتاً تھوڑے عرصہ کیلئے، روحانی اسرائیل کا بقیہ قطعی طور پر نہ تو پاکصاف تھا نہ ہی خدا کی مرضی کی مطابقت میں تھا۔ اُن میں سے بعض عقائدی غلطیوں کے باعث آلودہ تھے اور جب جنگ کرنے والی اقوام کی حمایت کرنے کیلئے دباؤ ڈالا گیا تو اُنہوں نے یہوؔواہ کیلئے واضح مؤقف اختیار نہ کرتے ہوئے کسی نہ کسی طرح مصالحت کر لی تھی۔ جنگ کے اُن سالوں کے دوران، اُنہوں نے ہر طرح کی اذیت برداشت کی، حتیٰکہ بہت سی جگہوں پر اُن کے بائبل لٹریچر پر بھی پابندی عائد کر دی گئی۔ آخر میں، بعض نہایت سرکردہ بھائیوں کو جھوٹے الزامات کی بِنا پر سزا سنائی گئی اور قید میں ڈال دیا گیا۔ ماضی کی روشنی میں، یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ خدا کے لوگ، آزاد ہونے کی بجائے، ایک طرح سے اسیری کی حالت میں تھے۔ (مقابلہ کریں یوحنا ۸:۳۱، ۳۲۔) اُن میں روحانی بصیرت کی بہت زیادہ کمی تھی۔ (افسیوں ۱:۱۶-۱۸) جہاں تک خدا کی حمد کرنے کا تعلق ہے اُنہوں نے نسبتاً گونگےپن کا مظاہرہ کِیا اور یوں نتیجے کے طور پر وہ روحانی طور پر بےپھل تھے۔ (یسعیاہ ۳۲:۳، ۴؛ رومیوں ۱۴:۱۱؛ فلپیوں ۲:۱۱) کیا آپ دیکھتے ہیں کہ یہ بابلؔ میں اسیر قدیم یہودیوں کی حالت کے مشابہ کیسے ہے؟
۷، ۸. دورِحاضر کے بقیے نے کس قسم کی بحالی کا تجربہ کِیا؟
۷ لیکن کیا خدا دورِحاضر کے اپنے خادموں کو اسی حالت میں رہنے دیگا؟ جینہیں، جوکچھ یسعیاؔہ کی معرفت پہلے سے بیان کِیا گیا تھا، اُس کی مطابقت میں وہ اُنہیں بحال کرنے کا عزم کئے ہوئے تھا۔ لہٰذا ۳۵ باب کی یہی پیشینگوئی، روحانی فردوس میں خوشحالی اور صحت کیلئے روحانی اسرائیل کے بقیے کی بحالی کیساتھ، ہمارے زمانے میں نمایاں تکمیل پاتی ہے۔ عبرانیوں ۱۲:۱۲ میں، پولسؔ نے ہماری طرف سے یسعیاؔہ کی پیشینگوئی کے اس حصے کا روحانی اطلاق کرنے کی معقولیت کی حمایت کرتے ہوئے، یسعیاہ ۳۵:۳ کا علامتی طور پر اطلاق کِیا۔
۸ جنگ بندی کے زمانے میں، روحانی اسرائیل کا بقیہ اسیری سے باہر نکل آیا۔ یہوؔواہ خدا نے اُنہیں آزاد کرانے کیلئے، عظیم خوؔرس، یسوؔع مسیح کو استعمال کِیا۔ لہٰذا، یہ بقیہ ازسرِنو تعمیر کا کام کر سکتا تھا جیسےکہ اُن قدیم یہودیوں کے بقیے نے کِیا تھا جو یرؔوشلیم میں حقیقی ہیکل کی دوبارہ تعمیر کیلئے اپنے مُلک کو واپس لوٹے تھے۔ مزیدبرآں، دورِحاضر میں یہ روحانی اسرائیلی علامتی باغِعدؔن، سرسبزوشاداب روحانی فردوس کو ترقی دینے اور وجود میں لانے کا آغاز کر سکتے تھے۔
۹. کیسے یسعیاہ ۳۵:۱، ۲، ۵-۷ میں بیانکردہ حالت ہمارے زمانے میں واقع ہوئی تھی؟
۹ مذکورہبالا بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے، آئیے ایک بار پھر یسعیاہ ۳۵ باب پر غور کریں، اور سب سے پہلے ۱ اور ۲ آیات کو دیکھیں۔ جو علاقہ بنجر دکھائی دیتا تھا وہ واقعی شاداب ہونا اور شاؔرون کی قدیم وادیوں کی طرح پھلدار بننا شروع ہو گیا۔ اسکے بعد، ۵ تا ۷ آیات پر نظر ڈالیں۔ بقیہ، جنکی محدود تعداد ابھی تک زندہ ہے اور یہوؔواہ کی خدمت میں سرگرم ہے، اُنکی بصیرت کی آنکھیں کھول دی گئی تھیں۔ جوکچھ ۱۹۱۴ میں اور اسکے بعد واقع ہوا وہ اُسکے مفہوم کو بہتر طور پر سمجھ سکتے تھے۔ اس چیز نے ہم میں سے بھی بعض پر اثر کِیا ہے جو اس وقت بقیہ کے شانہبشانہ خدمت کرنے والی ”بڑی بِھیڑ“ کو تشکیل دیتے ہیں۔—مکاشفہ ۷:۹۔
کیا آپ تکمیل کا حصہ ہیں؟
۱۰، ۱۱. (ا) آپ کیسے یسعیاہ ۳۵:۵-۷ کی تکمیل میں شامل ہیں؟ (ب) آپ ذاتی طور پر ان تبدیلیوں کی بابت کیسا محسوس کرتے ہیں؟
۱۰ مثال کے طور پر اپنے آپ کو ہی لے لیں۔ اس سے پہلے کہ آپ کا یہوؔواہ کے گواہوں سے رابطہ ہوا، کیا آپ باقاعدہ بائبل پڑھتے تھے؟ اگر آپ پڑھتے بھی تھے تو آپ کو کتنی سمجھ تھی؟ مثلاً، اب آپ مُردوں کی حالت کی بابت سچائی جانتے ہیں۔ غالباً اس معاملے میں دلچسپی رکھنے والے کسی شخص کو آپ پیدایش ۲ باب، واعظ ۹ باب اور حزقیایل ۱۸ باب میں متعلقہ آیات اور بہت سے دیگر اقتباسات کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ جیہاں، غالباً آپ سمجھتے ہیں کہ بائبل دیگر بہت سے مضامین یا مسائل کی بابت کیا تعلیم دیتی ہے۔ سادہ الفاظ میں، بائبل آپ کیلئے قابلِفہم ہے اور آپ اس میں سے بہتکچھ دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں، جیسےکہ آپ نے یقیناً ایسا کِیا بھی ہے۔
۱۱ تاہم، ہم میں سے ہر ایک خود سے یہ پوچھ کر اچھا کرتا ہے، ’بائبل سچائی کی بابت مَیں جوکچھ بھی جانتا ہوں وہ مَیں نے کیسے سیکھا؟ یہوؔواہ کے لوگوں کیساتھ مطالعہ کرنے سے پہلے، کیا مَیں ابھی بیانکردہ اقتباسات کو تلاش کر سکتا تھا؟ کیا مَیں اُنہیں سمجھ سکتا تھا اور اُنکے مفہوم کے سلسلے میں درست نتائج تک پہنچ چکا تھا؟‘ ان تمام سوالات کا واضح جواب غالباً نہیں ہے۔ کسی شخص کو ایسے بیان سے ناراض نہیں ہونا چاہئے، لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ جہاں تک ان آیات اور انکے مطلب کا تعلق ہے، بنیادی طور پر آپ اندھے تھے۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ وہ بائبل میں موجود تو تھے، مگر آپ اُنہیں دیکھ نہیں سکتے تھے یا اُن کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتے تھے۔ توپھر، روحانی طور پر آپ کی آنکھیں کیسے کھل گئیں؟ یہ ممسوح بقیے پر یہوؔواہ کے یسعیاہ ۳۵:۵ کی تکمیل کی بدولت ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں، آپ کی آنکھیں وا کر دی گئی تھیں۔ اب کے بعد آپ روحانی تاریکی میں نہیں ہیں۔ آپ دیکھ سکتے ہیں۔—مقابلہ کریں مکاشفہ ۳:۱۷، ۱۸۔
۱۲. (ا) ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ معجزانہ جسمانی شفا کا وقت نہیں ہے؟ (ب) جیسے یسعیاہ ۳۵:۵ ہمارے زمانے میں تکمیلپذیر ہوئی بھائی ایف. ڈبلیو. فرنیز کا معاملہ اس کی مثال کسطرح پیش کرتا ہے؟
۱۲ بائبل اور صدیوں کے دوران خدا کے برتاؤ کی بابت گہری دلچسپی رکھنے والے طالبعلم جانتے ہیں کہ یہ تاریخ میں جسمانی شفا کے معجزات کا دَور نہیں ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۸-۱۰) اسلئے ہم یہ توقع نہیں کرتے کہ یسوؔع مسیح یہ ثابت کرنے کیلئے کہ وہ مسیحا، خدا کا نبی ہے اندھوں کی آنکھیں وا کرے۔ (یوحنا ۹:۱-۷، ۳۰-۳۳) نہ ہی وہ تمام بہروں کو دوبارہ سننے کے قابل بنا رہا ہے۔ جب فرؔیڈرک ڈبلیو. فرینز، ممسوحوں میں سے ایک اَور واچ ٹاور سوسائٹی کے سابق صدر، اپنی عمر کے ۱۰۰ویں سال کو پہنچے تو وہ تقریباً نابینا تھے اور اُنہیں آلۂسماعت بھی استعمال کرنا پڑتا تھا۔ کچھ سالوں تک وہ پڑھنے کیلئے بھی نہیں دیکھ سکتے تھے؛ تاہم، کون اُنہیں یسعیاہ ۳۵:۵ کے مفہوم میں نابینا یا بہرہ خیال کریگا؟ اُنکی تیزبین روحانی نگاہ پوری زمین پر خدا کے لوگوں کیلئے ایک برکت تھی۔
۱۳. خدا کے دورِحاضر کے لوگوں نے کس اُلٹ حالت یا بحالی کا تجربہ کِیا؟
۱۳ آپکی زبان کی بابت کیا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ خدا کے ممسوح لوگوں کو اُنکی روحانی اسیری کے دوران گونگا بنا دیا گیا ہو۔ لیکن ایک مرتبہ جب خدا نے اُس حالت کو بدل دیا تو وہ خدا کی قائمشُدہ بادشاہت اور مستقبل کیلئے اُسکے وعدوں کی بابت جوکچھ جانتے تھے اُسکے سلسلے میں اُنکی زبانوں نے خوشی سے پکارنا شروع کر دیا۔ شاید اُنہوں نے آپکی زبان کھولنے کے سلسلے میں آپکی بھی مدد کی ہو۔ ماضی میں آپ نے دوسروں کیساتھ بائبل سچائی کی بابت کسقدر گفتگو کی تھی؟ شاید آپ نے کبھی سوچا ہو، ’مَیں مطالعے سے لطف اُٹھاتا ہوں، مگر مَیں اجنبیوں سے باتچیت کرنے کیلئے کبھی نہیں جاؤنگا۔‘ تاہم، کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ”گونگے کی زبان“ اب ’خوشی سے پکار رہی‘ ہے؟—یسعیاہ ۳۵:۶۔
۱۴، ۱۵. کیسے بہتیرے ہمارے زمانے میں ”مُقدس راہ“ پر گامزن رہے ہیں؟
۱۴ بابلؔ سے آزاد کئے جانے والے قدیم یہودیوں کو اپنے آبائی وطن لوٹنے کیلئے طویل مسافت طے کرنی پڑی تھی۔ اسکی ہمارے زمانے سے کیا مماثلت ہے؟ یسعیاہ ۳۵:۸ کو دیکھیں: ”وہاں ایک شاہراہ اور گزرگاہ ہوگی جو مُقدس راہ کہلائیگی جس سے کوئی ناپاک گزر نہ کریگا۔“
۱۵ روحانی اسیری سے اپنی آزادی کے وقت سے لیکر، ممسوح بقیہ، اب لاکھوں دوسری بھیڑوں کیساتھ، بڑے بابلؔ سے نکل کر ایک علامتی شاہراہ، صافستھری مقدس راہ پر چل پڑے ہیں جو روحانی فردوس کی طرف جاتی ہے۔ ہم اس مقدس راہ کے لائق ٹھہرنے اور اس پر قائم رہنے کیلئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ اپنی بابت سوچیں۔ کیا آپکے اخلاقی معیار اور اُصول جنکی آپ پیروی کرتے ہیں اُسوقت کی نسبت جب آپ دُنیا میں تھے اب زیادہ بلند نہیں ہیں؟ کیا آپ اپنی سوچ اور چالچلن کو خدا کی مطابقت میں لانے کیلئے زیادہ کوشش نہیں کرتے ہیں؟—رومیوں ۸:۱۲، ۱۳؛ افسیوں ۴:۲۲-۲۴۔
۱۶. جب ہم مُقدس راہ پر چلتے ہیں تو ہم کن حالتوں سے لطفاندوز ہو سکتے ہیں؟
۱۶ جب آپ اس مُقدس راہ پر گامزن رہتے ہیں تو بنیادی طور پر آپ حیوانخصلت انسانوں کی بابت پریشان ہونے سے بچے رہتے ہیں۔ مانا کہ دُنیا کے اندر آپکو ہر وقت خبردار رہنا پڑتا ہے کہ کہیں علامتی طور پر حریص یا قابلِنفرت لوگ آپکو زندہ ہی نگل نہ جائیں۔ ہمیشہ بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو دوسروں کیساتھ اپنے برتاؤ میں حریص ہوتے ہیں۔ خدا کے لوگوں کے درمیان کسقدر فرق ہے! یہاں آپ محفوظ ماحول میں ہیں۔ بیشک، آپ کے مسیحی ساتھی کامل نہیں ہیں؛ بعضاوقات اُن میں سے کوئی غلطی کرتا یا ناراضگی کا سبب بنتا ہے۔ لیکن آپ جانتے ہیں کہ آپکے بھائی آپکو نقصان پہنچانے یا پھاڑ کھانے کا ارادہ نہیں رکھتے ہیں۔ (زبور ۵۷:۴؛ حزقیایل ۲۲:۲۵؛ لوقا ۲۰:۴۵-۴۷؛ اعمال ۲۰:۲۹؛ ۲-کرنتھیوں ۱۱:۱۹، ۲۰؛ گلتیوں ۵:۱۵) اسکی بجائے، وہ آپ میں دلچسپی ظاہر کرتے ہیں؛ اُنہوں نے آپکی مدد کی ہے؛ وہ آپ کیساتھ ملکر خدمت کرنا چاہتے ہیں۔
۱۷، ۱۸. کس مفہوم میں اب فردوس موجود ہے، اور اس کا ہم پر کیا اثر ہوا ہے؟
۱۷ پس ہم ۱-۸ آیات کی موجودہ تکمیل کو ذہن میں رکھتے ہوئے، یسعیاہ ۳۵ باب پر غور کر سکتے ہیں۔ کیا یہ بات واضح نہیں کہ جسے درست طور پر روحانی فردوس کہا جاتا ہے ہم نے اُسے حاصل کر لیا ہے؟ نہیں، ابھی تک نہیں—یہ مکمل نہیں ہے۔ لیکن یہ واقعی فردوس ہے، کیونکہ، جیسےکہ ۲ آیت میں بیان کِیا گیا ہے، یہاں ہم پہلے ہی ”خداوند کا جلال اور ہمارے خدا کی حشمت دیکھ“ سکتے ہیں۔ اور اسکا کیا اثر ہوا ہے؟ ۱۰ آیت کہتی ہے: ”جنکو خداوند نے مخلصی بخشی لوٹیں گے اور صیوؔن میں گاتے ہوئے آئینگے اور ابدی سرور اُنکے سروں پر ہوگا۔ وہ خوشی اور شادمانی حاصل کرینگے اور غمواندوہ کافور ہو جائینگے۔“ واقعی، ہمارا مُلحدانہ مذہبی تنظیموں سے نکل آنا اور ہمارا خدا کی حمایت کے تحت سچی پرستش کو اختیار کرنا مسرتبخش ہے۔
۱۸ سچی پرستش سے تعلق رکھنے والی یہ شادمانی بڑھتی ہی جاتی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ آپ نئے دلچسپی لینے والے اشخاص کو تبدیلیاں لاتے اور بائبل سچائی کی بنیادی تعلیم حاصل کرتے دیکھتے ہیں۔ آپ نوجوانوں کو نشوونما پاتے اور کلیسیا میں روحانی ترقی کرتے دیکھتے ہیں۔ بپتسمے ہوتے ہیں تو جنہیں آپ جانتے ہیں اُنہیں بپتسمہ پاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ کیا یہ آجکل خوشی، خوشی کی بکثرت وجوہات نہیں ہیں؟ جیہاں، دوسروں کا ہماری روحانی آزادی اور ہماری فردوسی حالتوں میں شامل ہونا کتنی شادمانی کی بات ہے!
ایک تکمیل ابھی باقی ہے!
۱۹. یسعیاہ ۳۵ باب ہمیں کس پُراُمید توقع سے سرشار کرتا ہے؟
۱۹ ابھی تک ہم نے یسعیاہ ۳۵ باب کی پہلی تکمیل پر غور کِیا ہے جس کا تعلق یہودیوں کی واپسی کیساتھ ہے اور آجکل ہونے والی روحانی تکمیل کیساتھ ہے۔ لیکن یہ اختتام نہیں ہے۔ ابھی بہت کچھ باقی ہے۔ اسکا زمین پر حقیقی فردوسی حالتوں کی جلد بحالی کی بائبل کی یقیندہانی کیساتھ تعلق ہے۔—زبور ۳۷:۱۰، ۱۱؛ مکاشفہ ۲۱:۴، ۵۔
۲۰، ۲۱. یہ ایمان رکھنا کیوں منطقی اور صحیفائی بات ہے کہ یسعیاہ ۳۵ باب کی ابھی ایک اَور تکمیل ہوگی؟
۲۰ یہوؔواہ کیلئے فردوس کی بابت واضح بیانات فراہم کرنا اور پھر تکمیلوں کو روحانی چیزوں تک محدود رکھنا اُصولپسندی کی بات نہیں ہوگی۔ بِلاشُبہ، اس سے، ہماری یہ مُراد نہیں کہ روحانی تکمیلیں کم اہم ہیں۔ اگر ایک حقیقی فردوس بحال ہو بھی جاتی تو یہ ہمیں اطمینان نہیں بخشے گا اگر ہم خوبصورت منظر اور پُرامن جانوروں کے درمیان، روحانی طور پر بگڑے ہوئے، وحشی درندوں کی مانند عمل کرنے والے انسانوں سے گھرے ہوئے ہوتے۔ (مقابلہ کریں ططس ۱:۱۲) جیہاں، روحانی کو پہلے ہونا چاہئے، کیونکہ یہ انتہائی ضروری ہے۔
۲۱ تاہم، آنے والا فردوس صرف اُن روحانی پہلوؤں تک ہی محدود نہیں ہے جن سے ہم اب مستفید ہوتے ہیں اور مستقبل میں اَور بھی زیادہ مستفید ہونگے۔ ہمارے پاس یسعیاہ ۳۵ باب جیسی پیشینگوئیوں کی حقیقی تکمیل کی توقع رکھنے کی اچھی وجہ ہے۔ کیوں؟ ۶۵ باب میں یسعیاؔہ نے ”نئے آسمان اور نئی زمین“ کی پیشینگوئی کی تھی۔ یہوؔواہ کے دن کے بعد جوکچھ واقع ہوتا ہے اُسے بیان کرتے ہوئے پطرؔس رسول نے اس کا اطلاق کِیا۔ (یسعیاہ ۶۵:۱۷، ۱۸؛ ۲-پطرس ۳:۱۰-۱۳) پطرؔس نشاندہی کر رہا تھا کہ جب ”نئی زمین“ ایک حقیقت بنتی ہے تو جن حالتوں کی بابت یسعیاؔہ نے بیان کِیا وہ واقعی موجود ہونگی۔ اس میں وہ بیانات بھی شامل ہیں جن سے شاید آپ واقف ہیں—گھر بنانا اور اُن میں رہنا؛ تاکستان لگانا اور اُنکے میوے کھانا، ایک شخص کا اپنے ہاتھوں کے کام سے مدتوں تک فائدہ اُٹھانا؛ بھیڑیے اور برّے کا اکٹھے رہنا؛ اور پوری زمین پر کوئی نقصان واقع نہ ہونا۔ باالفاظِدیگر، لمبی عمر، محفوظ گھر، صحتبخش خوراک کی فراوانی، اطمینانبخش کام، اور جانوروں کے درمیان اور انسانوں اور جانوروں کے مابین اَمن۔
۲۲، ۲۳. یسعیاہ ۳۵ باب کی آئندہ تکمیل میں شادمانی کی کیا وجہ ہوگی؟
۲۲ کیا یہ امکان آپکو خوشی سے سرشار نہیں کر دیتا؟ اسے کرنا چاہئے، اسلئے کہ خدا نے ہمیں اسی طرح زندگی بسر کرنے کیلئے خلق کِیا تھا۔ (پیدایش ۲:۷-۹) پس، جہاں تک یسعیاہ ۳۵ باب کی پیشینگوئی کا تعلق ہے جس پر ہم غور کر رہے ہیں، اسکا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے پاس شادمانی سے پکارنے کی اضافی وجہ موجود ہے۔ ہماری خوشی کا سبب بنتے ہوئے، حقیقی صحرا اور بنجر علاقے شاداب ہو جائینگے۔ اُسوقت نیلی آنکھوں یا بھوری آنکھوں والے یا کسی دوسری خوش رنگ آنکھوں والے لوگ جو اب نابینا ہیں دیکھنے کے قابل ہونگے۔ ہمارے ساتھی مسیحی جو بہرے ہیں یا ہم میں سے وہ جنہیں سننے میں مشکل درپیش ہے، وہ بھی صاف طور پر سننے کے قابل ہونگے۔ اس صلاحیت کو خدا کے کلام کے پڑھے جانے اور بیان کئے جانے کو سننے کیلئے، نیز درختوں پر چلنے والی ٹھنڈی ہوا، بچے کی ہنسی، کسی پرندے کے گیت کو سننے کیلئے استعمال کرنا کتنی بڑی شادمانی ہے!
۲۳ اسکا یہ بھی مطلب ہوگا کہ اپاہج اشخاص، اب آرتھرائٹس سے متاثرہ اشخاص سمیت، بغیر درد کے چلیں پھرینگے۔ کیا ہی تسکین! پھر صحراؤں میں حقیقی ندیاں پھوٹ نکلیں گی۔ ہم پانی کی اُٹھتی ہوئی موجوں کو دیکھینگے اور غراٹے کی آواز سنیں گے۔ ہم وہاں چلنے پھرنے اور ہریہری گھاس اور پائپرس کے پودوں کو چھونے کے قابل ہونگے۔ یہ واقعی بحالشُدہ فردوس ہوگا۔ بِلاخوف شیر یا ایسے کسی دوسرے ایسے جانور کے آس پاس ہونے کی خوشی کا تو کیا ہی کہنا؟ ہمیں اسے بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ ہم سب پہلے ہی سے اس منظر سے لطفاندوز ہو چکے ہیں۔
۲۴. آپ یسعیاہ ۳۵:۱۰ کے الفاظ کیساتھ کیوں متفق ہو سکتے ہیں؟
۲۴ یسعیاؔہ ہمیں یقین دِلاتا ہے: ”جنکو خداوند نے مخلصی بخشی لوٹیں گے اور صیوؔن میں گاتے ہوئے آئینگے اور ابدی سرور اُنکے سروں پر ہوگا۔“ پس ہم اس بات سے متفق ہو سکتے ہیں کہ ہمارے پاس شادمانی سے پکارنے کی وجہ ہے۔ ہمارے روحانی فردوس میں یہوؔواہ اپنے لوگوں کیلئے جوکچھ پہلے ہی سے کر رہا ہے اُس کیلئے شادمان ہوں، اور عنقریب حقیقی فردوس میں ہم جس چیز کی توقع کر سکتے ہیں اُسکی بابت شادمان ہوں۔ شادمان لوگوں کی بابت—ہماری بابت—یسعیاؔہ لکھتا ہے: ”وہ خوشی اور شادمانی حاصل کرینگے اور غمواندوہ کافور ہو جائینگے۔“—یسعیاہ ۳۵:۱۰۔ (۱۳ ۰۲/۱۵ w۹۶)
کیا آپ نے غور کِیا؟
▫ یسعیاہ ۳۵ کی کونسی دوسری تکمیل ہوئی تھی؟
▫ روحانی طور پر کیا چیز اُن معجزانہ تبدیلیوں کی مماثل ہے جنکی یسعیاؔہ نے پیشینگوئی کی تھی؟
▫ آپ اس پیشینگوئی کی تکمیل میں کیسے شریک ہوئے ہیں؟
▫ ہم کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یسعیاہ ۳۵ باب ہمیں مستقبل کی بابت اُمید سے سرشار کرتا ہے؟
[تصویر]
برؔوکلن نیو یارک میں ریمنڈ سٹریٹ جیل جہاں سات سرکردہ بھائیوں کو جون ۱۹۱۸ میں قید کِیا گیا تھا
[تصویر]
اپنے آخری سالوں میں تقریباً نابینا ہو نے کے باوجود، بھائی فرنیز کی روحانی نگاہ بالکل ٹھیک رہی