ابدیت کے بادشاہ کی حمد کریں!
”خداوند ابدالآباد بادشاہ ہے۔“—زبور ۱۰:۱۶۔
۱. ابدیت کے سلسلے میں کونسے سوالات پیدا ہوتے ہیں؟
ابدیت—آپ اسکی بابت کیا کہیں گے؟ کیا آپ سوچتے ہیں کہ درحقیقت وقت کا گھنٹہ ہمیشہ بج سکتا ہے؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ وقت ہمیشہ ماضی کی طرف بڑھتا ہے۔ مگر ہمیشہ مستقبل کی جانب کیوں نہیں؟ دراصل، بائبل کا نیو ورلڈ ٹرانسلیشن خدا کا ”ازل سے ابد تک“ حمد کئے جانے والے کے طور پر حوالہ دیتا ہے۔ (زبور ۴۱:۱۳) اس بیان کا کیا مطلب ہے؟ اگر ہم ایک متعلقہ موضوع—خلا—کا حوالہ دیں تو اسے سمجھنے میں ہماری مدد ہو سکتی ہے۔
۲، ۳. (ا) خلا کے متعلق کونسے سوالات ابدیت کو سمجھنے میں ہمادی مدد کرتے ہیں؟ (ب) ہمیں ابدیت کے بادشاہ کی پرستش کیوں کرنی چاہئے؟
۲ خلا کسقدر وسیع ہے؟ کیا اس کی کوئی حد ہے؟ ۴۰۰ سال پہلے تک، ہماری زمین کو کائنات کا مرکز خیال کِیا جاتا تھا۔ اس کے بعد گلیلّیوؔ نے آسمانوں کا وسیع ترین نظارہ پیش کرنے والی دُوربین ایجاد کی۔ اب گلیلّیوؔ اَور بہت سے ستارے دیکھ سکتا تھا اور یہ نظارہ دکھانے کے قابل تھا کہ زمین اور دیگر سیّارے سورج کے گِرد گردش کرتے ہیں۔ اب ملکیوے دودھیا دکھائی نہیں دیتی تھی۔ یہ ستاروں کی ایک کہکشاں ثابت ہوئی، تعداد میں کوئی ایک سو بلین۔ ہم ان حقیقی ستاروں کا شمار تاحیات نہیں کر سکتے۔ بعدازاں، ماہرِفلکیات نے اربوں کہکشاؤں کو دریافت کر لیا۔ طاقتور دُوربینیں جتنی دُور تک دیکھ سکتی ہیں، یہ غیرمختتم طور پر خلا میں پھیلی ہوئی ہیں۔ ایسے دکھائی دیتا ہے کہ خلا کی کوئی حدود نہیں ہیں۔ یہی بات ابدیت کی بابت بھی سچ ہے—اس کی کوئی حدود نہیں!
۳ ابدیت کا تصور ہمارے محدود انسانی دماغوں کی سمجھ سے باہر دکھائی دیتا ہے۔ تاہم، کوئی ہے جو اسے پوری طرح سمجھتا ہے، جیہاں، وہ کھربوں ستاروں کو اُن کی اربوں کہکشاؤں میں شمار کر سکتا ہے، اور یہانتککہ انہیں نامبنام پکار سکتا ہے! وہ بیان کرتا ہے: ”اپنی آنکھیں اُوپر اُٹھاؤ اور دیکھو کہ ان سب کا خالق کون ہے۔ وہیجو اِن کے لشکر کو شمار کرکے نکالتا ہے اور اُن سب کو نامبنام بلاتا ہے اُس کی قدرت کی عظمت اور اُس کے بازو کی توانائی کے سبب سے ایک بھی غیرحاضر نہیں رہتا۔ کیا تُو نہیں جانتا؟ کیا تُو نے نہیں سنا کہ خداوند خدایِابدیوتمام زمین کا خالق تھکتا نہیں اور ماندہ نہیں ہوتا؟ اُس کی حکمت اِدراک سے باہر ہے۔“ (یسعیاہ ۴۰:۲۶، ۲۸) کیا ہی حیرتانگیز خدا! یقیناً، یہی وہ خدا ہے جسکی ہم پرستش کرنا چاہتے ہیں!
”ابدالآباد بادشاہ“
۴. (ا) داؔؤد نے ابدیت کے بادشاہ کیلئے قدردانی کا اظہار کیسے کِیا؟ (ب) کائنات کے ماخذ کے بارے میں تاریخ کے عظیم سائنسدان نے کیا نتیجہ اخذ کِیا؟
۴ زبور ۱۰:۱۶ میں، داؔؤد اس خالق، خدا کے متعلق بیان کرتا ہے: ”خداوند ابدالآباد بادشاہ ہے۔“ اور زبور ۲۹:۱۰ میں، وہ دہراتا ہے: ”خداوند ہمیشہ تک تختنشین ہے۔“ جیہاں، یہوؔواہ ابدیت کا بادشاہ ہے! اس کے علاوہ، داؔؤدزبور ۱۹:۱ میں یہ کہتے ہوئے اس کی تصدیق کرتا ہے کہ یہ بلندوبالا بادشاہ اُن تمام چیزوں کا نمونہساز اور صانع ہے جنہیں ہم خلا میں دیکھتے ہیں: ”آسمان خدا کا جلال ظاہر کرتا ہے اور فضا اُس کی دستکاری دکھاتی ہے۔“ کوئی ۲،۷۰۰ سال بعد، مشہور سائنسدان، سر آئزکؔ نیوٹن نے یہ لکھتے ہوئے داؔؤد کے ساتھ، اتفاقِرائے کا اظہار کِیا: ”سورجوں، سیّاروں اور دُمدار ستاروں کا یہ نہایت خوبصورت نظام کسی روشن دماغ اور زورآور ہستی کے مقصد اور حاکمیت ہی سے وجود میں آ سکتا تھا۔“
۵. حکمت کے ماخذ کی بابت یسعیاؔہ اور پولسؔ نے کیا تحریر کِیا؟
۵ اس بات کے علم کو ہمیں کسقدر فروتن بنانا چاہئے کہ حاکمِاعلیٰ یہوؔواہ، جو وسیع ”آسمان بلکہ آسمانوں کے آسمان میں بھی . . . سما نہیں سکتا“ ابد تک قائم رہتا ہے! (۱-سلاطین ۸:۲۷) جیساکہ یسعیاہ ۴۵:۱۸ میں بیان کِیا گیا ہے یہوؔواہ، ”جس نے آسمان پیدا کئے، . . . زمین بنائی اور تیار کی،“ فانی انسانی دماغوں کی پہنچ سے کہیں بالاتر حکمت کا ماخذ ہے۔ یہوؔواہ نے فرمایا، جیسےکہ ۱-کرنتھیوں ۱:۱۹ میں واضح کِیا گیا: ”مَیں حکیموں کی حکمت کو نیست اور عقلمندوں کی عقل کو رد کرونگا۔“ اس پر پولسؔ رسول نے ۲۰ آیت میں اضافہ کِیا: ”کہاں کا حکیم؟ کہاں کا فقیہ؟ کہاں کا اس جہان کا بحث کرنے والا؟ کیا خدا نے دُنیا کی حکمت کو بیوقوفی نہیں ٹھہرایا؟“ جیہاں، جیساکہ پولسؔ نے ۳ باب کی ۱۹ آیت میں مزید کہا، ”دُنیا کی حکمت خدا کے نزدیک بیوقوفی ہے۔“
۶. واعظ ۳:۱۱ ”ابدیت“ کی بابت کیا ظاہر کرتی ہے؟
۶ اجرامِفلکی اُس تخلیق کا حصہ ہیں جسکا حوالہ سلیماؔن بادشاہ نے دیا: ”[خدا نے] ہر ایک چیز کو اُس کے وقت میں خوب بنایا اور اُس نے ابدیت کو بھی اُن کے دل میں جاگزین کِیا ہے اسلئے کہ انسان اُس کام کو جو خدا شروع سے آخر تک کرتا ہے دریافت نہیں کر سکتا۔“ (واعظ ۳:۱۱) واقعی، یہ بات انسان کے دلنشین کر دی گئی ہے کہ ”ابدیت“ یعنی دوامیت کے مطلب کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ لیکن کیا وہ کبھی ایسا علم حاصل کر سکتا ہے؟
زندگی کا ایک حیرتانگیز امکان
۷، ۸. (ا) نوعِانسان کے سامنے زندگی کا کونسا حیرتانگیز امکان ہے، اور اسے کیسے حاصل کِیا جا سکتا ہے؟ (ب) ہمیں کیوں خوش ہونا چاہئے کہ الہٰی تعلیم پوری ابدیت تک جاری رہیگی؟
۷ یسوؔع مسیح نے دُعا میں یہوؔواہ سے کہا: ”ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدایِواحد اور برحق کو اور یسوؔع مسیح کو جسے تُو نے بھیجا ہے جانیں۔“ (یوحنا ۱۷:۳) ہم ایسا علم کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ ہمیں خدا کے کلام، مُقدس بائبل کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح ہم خدا کے شاندار مقاصد، بشمول اُس کے بیٹے کے ذریعے زمینی فردوس میں ہمیشہ کی زندگی کے لئے کئے گئے بندوبست کی بابت صحیح علم حاصل کر سکتے ہیں۔ وہ ”حقیقی زندگی“ ہوگی جس کا ۱-تیمتھیس ۶:۱۹ میں حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ اس کی مطابقت میں ہوگا جسے افسیوں ۳:۱۱ ”اُس ازلی ارادہ کے مطابق جو [خدا] نے ہمارے خداوند مسیح یسوؔع میں کِیا تھا،“ کے طور پر بیان کرتی ہے۔
۸ جیہاں، ہم گنہگار انسان الہٰی تعلیم اور یسوؔع کے فدیے کی قربانی پر ایمان لانے سے ہمیشہ کی زندگی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ تعلیمی سلسلہ کب تک جاری رہیگا؟ چونکہ نوعِانسان کو بتدریج ہمارے خالق کی حکمت کی تعلیم دی جاتی ہے اس لئے یہ تمام ابدیت تک جاری رہے گا۔ یہوؔواہ کی حکمت کی کوئی حدود نہیں ہیں۔ اس چیز کو تسلیم کرتے ہوئے، پولسؔ رسول پکار اُٹھا: ”واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اُس کے فیصلے کس قدر ادراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بےنشان ہیں!“ (رومیوں ۱۱:۳۳) واقعی، ۱-تیمتھیس ۱:۱۷ یہوؔواہ کو واجب طور پر ”ازلی بادشاہ“ کہتی ہے۔
یہوؔواہ کی تخلیقی حکمت
۹، ۱۰. (ا) یہوؔواہ نے نوعِانسان کے لئے اپنی بخشش کے طور پر زمین تیار کرنے میں کونسے عظیمالشان کام سرانجام دئیے؟ (ب) یہوؔواہ کی فائق حکمت اُس کی تخلیق سے کیسے ظاہر ہوتی ہے؟ (بکس دیکھیں۔)
۹ اُس شاندار میراث کی بابت غور کریں جسے ابدیت کے بادشاہ نے ہم انسانوں کے لئے فراہم کِیا ہے۔ زبور ۱۱۵:۱۶ ہمیں بتاتی ہے: ”آسمان تو خداوند کا آسمان ہے لیکن زمین اُس نے بنیآدم کو دی ہے۔“ کیا آپ یہ نہیں سوچتے کہ یہ ایک شاندار امانت ہے؟ یقیناً! اور زمین کو ہمارے گھر کے طور پر آراستہ کرنے میں ہم اپنے خالق کی نمایاں دُوراندیشی کی کتنی قدر کرتے ہیں!—زبور ۱۰۷:۸۔
۱۰ پیدایش ۱ باب کے چھ تخلیقی ”دنوں“ کے دوران زمین پر شاندار تبدیلیاں رونما ہوئیں، ہر دن ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ یہ خلائق انجامکار زمین کو سرسبز گھاس کے قالین، پُرشکوہ جنگلات اور رنگین پھولوں سے آراستہ کر دینگی۔ انواعِاقسام کی سمندری مخلوقات، خوشنما پرندوں کی ڈاروں، اور پالتو اور جنگلی جانوروں کی وسیع تعداد، ہر ایک نے ”اُن کی جنس کے موافق“ افزائش نسل کرتے ہوئے اسے معمور کرنا تھا۔ مرد اور عورت کی تخلیق کے بیان کے بعد پیدایش ۱:۳۱ بیان کرتی ہے: ”خدا نے سب پر جو اُس نے بنایا تھا نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھا ہے۔“ اُن پہلے انسانوں کے چوگرد کیا ہی مسرتبخش ماحول تھا! کیا ہم ان تمام مخلوقات میں ایک پُرمحبت خالق کی حکمت، دُوراندیشی، اور فکرمندی نہیں دیکھتے؟—یسعیاہ ۴۵:۱۱، ۱۲، ۱۸۔
۱۱. سلیماؔن نے یہوؔواہ کی تخلیقی حکمت کی تعظیم کیسے کی تھی؟
۱۱ ایک شخص جو ابدیت کے بادشاہ کی حکمت سے متحیر ہوا وہ سلیماؔن تھا۔ اُس نے بارہا خالق کی حکمت پر توجہ مبذول کرائی۔ (امثال ۱:۱، ۲؛ ۲:۱، ۶؛ ۳:۱۳-۱۸) سلیماؔن ہمیں یقین دلاتا ہے کہ ”زمین ہمیشہ قائم رہتی ہے۔“ اُس نے تخلیق کے بہتیرے عجائب کی قدر کی، بشمول اُس کردار کے جو برساتی بادل ہماری زمین کو سیراب کرنے کے لئے ادا کرتے ہیں۔ پس، اُس نے لکھا: ”سب ندیاں سمندر میں گرتی ہیں پر سمندر بھر نہیں جاتا۔ ندیاں جہاں سے نکلتی ہیں اُدھر ہی کو پھر جاتی ہیں۔“ (واعظ ۱:۴، ۷) پس یوں ہے کہ بارشوں اور دریاؤں کے زمین کو سیراب کرنے کے بعد، اُن کے پانی سمندروں سے پھر بادلوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ پانی کے پاکصاف ہونے اور پھر سے بادلوں میں تبدیل ہونے کے عمل کے بغیر یہ زمین کیسی ہوتی اور ہم کہاں ہوتے؟
۱۲، ۱۳. ہم خدا کی تخلیق کے لئے قدردانی کیسے دکھا سکتے ہیں؟
۱۲ تخلیق میں توازن برقرار رکھنے کے لئے ہماری قدردانی کی تائید ہمارے عمل سے ہونی چاہئے، جیسےکہ سلیماؔن بادشاہ نے واعظ کے اختتامی الفاظ میں بیان کِیا: ”اب سب کچھ سنایا گیا۔ حاصلِکلام یہ ہے۔ خدا سے ڈر اور اُس کے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِکُلی یہی ہے۔ کیونکہ خدا ہر ایک فعل کو ہر ایک پوشیدہ چیز کے ساتھ خواہ بھلی ہو خواہ بُری عدالت میں لائیگا۔“ (واعظ ۱۲:۱۳، ۱۴) ہمیں کوئی بھی ایسا کام کرنے سے ڈرنا چاہئے جو خدا کو ناپسند ہے۔ بلکہ ہمیں مؤدبانہ احترام کے ساتھ اُس کی فرمانبرداری کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔
۱۳ یقیناً، ہمیں ابدیت کے بادشاہ کی اُس کے حیرتانگیز تخلیقی کاموں کے لئے حمد کرنے کی آرزورکھنی چاہئے! زبور ۱۰۴:۲۴ بیان کرتی ہے: ”اَے خداوند! تیری صنعتیں کیسی بیشمار ہیں! تُو نے یہ سب کچھ حکمت سے بنایا۔ زمین تیری مخلوقات سے معمور ہے۔“ آئیے خود سے اور دوسروں سے خوشی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے اس زبور کی آخری آیت کی تائید کریں: ”اَے میری جان! خداوند کو مبارک کہہ۔ خداوند کی حمد کرو۔“
پُرشکوہ زمینی تخلیق
۱۴. کن طریقوں سے خدا کی انسان کی تخلیق جانوروں سے کہیں افضل ہے؟
۱۴ یہوؔواہ کی تمامتر تخلیق فنی شاہکار ہے۔ لیکن نہایت شاندار زمینی تخلیق ہم—انسان—ہیں۔ آؔدم اور اس کے بعد حوؔا کو یہوؔواہ کے چھٹے تخلیقی دن کے مُنتہائےکمال کے طور پر پیدا کِیا گیا تھا—مچھلیوں، پرندوں، اور جانوروں سے کہیں اعلیٰ تخلیق! اگرچہ ان میں سے زیادہتر جبلّی طور پر دانا ہیں مگر نوعِانسان کو قوتِاستدلال، ضمیر جو صحیح اور غلط میں امتیاز کر سکتا ہے، مستقبل کے لئے منصوبہسازی کرنے کی صلاحیت اور پرستش کرنے کی پیدائشی خواہش سے نوازا گیا ہے۔ یہ سب کچھ کیسے وقوعپذیر ہوا؟ جنگلی حیوانوں سے ارتقا کرنے کی بجائے، انسان کو خدا کی شبِیہ پر خلق کِیا گیا تھا۔ چنانچہ، صرف انسان ہی خالق کی صفات ظاہر کر سکتا ہے، جس نے اپنی شناخت کچھ یوں کرائی: ”خداوند خداوند [”یہوؔواہ، یہوؔواہ،“ اینڈبلیو] خدایِرحیم اور مہربان قہر کرنے میں دھیما اور شفقت اور وفا میں غنی۔“—خروج ۳۴:۶۔
۱۵. ہمیں فروتنی سے یہوؔواہ کی حمد کیوں کرنی چاہئے؟
۱۵ آئیے اپنے ابدان کے شاندار ڈیزائن کیلئے یہوؔواہ کی شکرگزاری اور حمد کریں۔ زندگی کے لئے اشد ضروری، ہمارا دورانِخون ہر ۶۰ سیکنڈ میں جسم کا چکر پورا کرتا ہے۔ جیسےکہ استثنا ۱۲:۲۳ بیان کرتی ہے، ”خون ہی تو جان ہے“—ہماری زندگی—خدا کی نظر میں بیشقیمت۔ مضبوط ہڈیوں، لچکدار پٹھوں، اور حساس اعصابی نظام پر دماغ مسلّط ہے جو کسی بھی حیوانی دماغ سے کہیں اعلیٰ اور ایسی صلاحیتوں کا مالک ہے جس کا مقابلہ بہت بلند عمارت کے سائز کا کمپیوٹر بھی نہیں کر سکتا۔ کیا یہ چیز آپ کو فروتنی کا احساس نہیں دلاتی؟ اسے دلانا چاہئے۔ (امثال ۲۲:۴) اور اس چیز پر بھی غور کریں: ہمارے پھیپھڑے، نرخرہ، زبان، دانت، اور مُنہ ہزاروں زبانوں میں سے کسی میں بھی انسان کو قوتِگویائی فراہم کرنے کے لئے باہمی عمل کرتے ہیں۔ داؔؤد نے یہ کہتے ہوئے یہوؔواہ کیلئے برمحل شیریں نغمہ لکھا: ”مَیں تیرا شکر کروں گا کیونکہ مَیں عجیبوغریب طور سے بنا ہوں۔ تیرے کام حیرتانگیز ہیں۔ میرا دل اسے خوب جانتا ہے۔“ (زبور ۱۳۹:۱۴) آئیے اپنے شاندار نمونہساز اور خدا، یہوؔواہ کی شکرگزاری کے ساتھ حمد کرنے میں داؔؤد کے ساتھ ہمآواز ہوں!
۱۶. یہوؔواہ کی حمد میں ایک مشہور موسیقار نے کونسا سریلہ نغمہ لکھا، اور ہم متحرک کرنے والی کس دعوت سے اثرپذیر ہو سکتے ہیں؟
۱۶ ۱۸ویں صدی کی جوؔزف ہیڈن کی مذہبی آپرا کی گیتوں کی کتاب یہوؔواہ کی حمد میں بیان کرتی ہے: ”اُس کے سب عجیب کامو، اُس کی شکرگزاری کرو! اُس کی شہرت کے گیت گاؤ، اُس کے جلال کے گیت گاؤ، اُس کے نام کی بڑائی اور حمدوثنا کرو! یہوؔواہ کی حمد ابد تک ہوتی رہے، آمین، آمین!“ مزامیر میں اکثر دہرائے جانے والے الہامی اظہارات اس سے بھی زیادہ خوبصورت ہیں، جیسےکہ زبور ۱۰۷ میں چار مرتبہ دی گئی دعوت: ”کاشکہ لوگ خداوند کی شفقت کی خاطر اور بنیآدم کے لئے اُس کے عجائب کی خاطر اُس کی ستایش کرتے!“ کیا آپ اس ستائش میں شریک ہوتے ہیں؟ آپکو ہونا چاہئے، کیونکہ کوئی بھی چیز جو واقعی دلکش ہے اُس کا ماخذ یہوؔواہ، ابدیت کا بادشاہ ہے۔
مزید زبردست کام
۱۷. ’موسیٰ اور برّہ کا گیت‘ یہوؔواہ کی بڑائی کیسے کرتا ہے؟
۱۷ گزشتہ چھ ہزار سالوں کے دوران، ابدیت کے بادشاہ نے اَور بھی زبردست کام کئے ہیں۔ بائبل کی آخری کتاب، مکاشفہ ۱۵:۳، ۴ میں ہم آسمان پر رہنے والوں کی بابت پڑھتے ہیں جو شیطانی دشمنوں پر غالب آئے ہیں: ”وہ خدا کے بندہ موسیٰؔ کا گیت اور برّہ کا گیت گا گا کر کہتے تھے اَے خداوند خدا! قادرِمطلق! تیرے کام بڑے اور عجیب ہیں۔ اَے ازلی بادشاہ! تیری راہیں راست اور درست ہیں۔ اَے خداوند! کون تجھ سے نہ ڈریگا؟ اور کون تیرے نام کی تمجید نہ کریگا؟ کیونکہ صرف تُو ہی قدوس ہے اور سب قومیں آکر تیرے سامنے سجدہ کرینگی کیونکہ تیرے انصاف کے کام ظاہر ہو گئے ہیں۔“ اسے ’موسیٰ اور برّہ کا گیت‘ کیوں کہا جاتا ہے؟ آئیے دیکھیں۔
۱۸. خروج ۱۵ باب کے گیت میں کس زبردست کام کی یاد کو تازہ کِیا گیا ہے؟
۱۸ کوئی ۳،۵۰۰ سال پہلے، جب فرعوؔن کی زورآور فوج بحرِقلزم میں غرق ہو گئی تو اسرائیلیوں نے شکرگزاری کے گیت میں یہوؔواہ کی حمد کی۔ ہم خروج ۱۵:۱، ۱۸ میں پڑھتے ہیں: ”تب موسیٰؔ اور بنیاسرائیل نے خداوند کے لئے یہ گیت گایا اور یوں کہنے لگے: مَیں خداوند کی ثنا گاؤنگا کیونکہ وہ جلال کے ساتھ فتحمند ہوا۔ اُس نے گھوڑے کو سوار سمیت سمندر میں ڈال دیا۔ خداوند ابدالآباد سلطنت کریگا۔“ ابدیت کے اس بادشاہ کے راست فیصلے اُس کے عدالت کرنے اور دشمنوں کو سزا دینے سے ظاہر ہوئے تھے جنہوں نے اُس کی حاکمیت کی اطاعت نہیں کی تھی۔
۱۹، ۲۰. (ا) یہوؔواہ نے بنیاسرائیل کو کیوں تشکیل دیا؟ (ب) برّہ اور دیگر اشخاص نے کیسے شیطان کے چیلنج کا جواب دیا ہے؟
۱۹ یہ کیوں ضروری ہو گیا تھا؟ یہ باغِعدؔن کی بات ہے کہ فریبی سانپ ہمارے پہلے والدین کے گناہ میں پڑنے کا سبب بنا۔ یہ تمام نوعِانسان میں گنہگارانہ ناکاملیت کے منتقل ہو جانے پر منتج ہوا۔ تاہم، ابدیت کے بادشاہ نے اپنے ابتدائی مقصد کے مطابق فوری اقدام کئے جو زمین کی عملداری سے اُس کے دشمنوں کو نکال باہر کرنے اور فردوسی حالتوں کو بحال کرنے پر منتج ہونگے۔ جسطرح وہ اسے انجام دیگا اُس کی عکاسی کرنے کے لئے ابدیت کے بادشاہ نے بنیاسرائیل کو تشکیل دیا اور اپنی شریعت فراہم کی۔—گلتیوں ۳:۲۴۔
۲۰ تاہم، بالآخر، اسرائیل خود بھی بےایمانی کی حالت میں غرق ہو گیا، اور یہ افسوسناک حالت اُس وقت عروج کو پہنچ گئی جب اس کے پیشواؤں نے خدا کے اکلوتے بیٹے کو کینہپروری سے اذیت دینے اور ہلاک ہونے کے لئے رومیوں کے حوالے کر دیا۔ (اعمال ۱۰:۳۹؛ فلپیوں ۲:۸) تاہم، قربانی دینے والے ”خدا کے برّہ“ کے طور پر یسوؔع کی موت تک وفاداری نے خدا کے پُرانے دشمن، شیطان کی طرف سے کئے گئے چیلنج کو صریحاً غلط ثابت کر دیا—کہ زمین پر کوئی بھی انسان سخت آزمائش کے تحت خدا کا وفادار نہیں رہیگا۔ (یوحنا ۱:۲۹، ۳۶؛ ایوب ۱:۹-۱۲؛ ۲۷:۵) ناکاملیت کا ورثہ پانے کے باوجود، لاکھوں دیگر خداترس انسانوں نے شیطان کے حملوں کے تحت راستی برقرار رکھتے ہوئے یسوؔع کے نقشِقدم کی پیروی کی ہے۔—۱-پطرس ۱:۱۸، ۱۹؛ ۲:۱۹، ۲۱۔
۲۱. اعمال ۱۷:۲۹-۳۱ کی مطابقت میں، آگے کس چیز پر باتچیت کی جائے گی؟
۲۱ اب وفادار اشخاص کو اجر دینے اور سچائی اور راستبازی کے تمام دشمنوں کی عدالت کرنے کے لئے یہوؔواہ کا دن آ پہنچا ہے۔ (اعمال ۱۷:۲۹-۳۱) یہ کیسے وقوعپذیر ہوگا؟ ہمارا اگلا مضمون بتائیگا؟ (۱۰ ۰۴/۰۱ w۹۶)
اعادے کا بکس
▫ یہوؔواہ بجا طور پر ”ابدیت کا بادشاہ“ کیوں کہلاتا ہے؟
▫ یہوؔواہ کی حکمت اُس کے تخلیقی کاموں سے کیسے عیاں ہوتی ہے؟
▫ کن طریقوں سے نوعِانسان تخلیق کا شاہکار ہے؟
▫ کونسے کام ’موسیٰ اور برّہ کے گیت‘ کا سبب بنے؟
[بکس]
یہوؔواہ کی فائق حکمت
ابدیت کے بادشاہ کی حکمت زمین پر اُسکی تخلیقات میں متعدد طریقوں سے نظر آتی ہے! اؔجور کے الفاظ پر غور کریں: ”خدا کا ہر ایک سخن پاک ہے۔ وہ اُن کی سپر ہے جنکا توکل اُس پر ہے۔“ (امثال ۳۰:۵) اس کے بعد اؔجور خدا کی بہت سی زندہ خلائق، ادنیٰ اور اعلیٰ کا حوالہ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، ۲۴ سے ۲۸ آیات میں وہ بیان کرتا ہے ”چار ہیں جو زمین پر ناچیز ہیں لیکن [جبلّی طور پر] بہت دانا ہیں۔“ وہ چیونٹی، سافان، ٹڈی اور چھپکلی ہیں۔
”جبلّی طور پر دانا“—جیہاں، جانوروں کو اسی طرح بنایا گیا ہے۔ وہ چیزوں کی بابت انسانوں کی طرح نہیں سوچتے بلکہ جاگزینکردہ عقل پر انحصار کرتے ہیں۔ کیا آپ کبھی اس بات سے حیران ہوئے ہیں؟ وہ کیا ہی منظم تخلیق ہیں! مثال کے طور پر، چیونٹیاں آبادیوں میں منظم ہوتی ہیں، جن میں ملکہ، کارکُن، اور نر چیونٹیاں شامل ہوتی ہیں۔ بعض انواع میں، کارکُن چیونٹیاں تیارکردہ اپنے گھروندوں کے احاطوں میں رَس چوسنے والے حشرات کو اکٹھا کر لیتی ہیں۔ یہیں پر وہ ان رَس چوسنے والے حشرات میں سے رَس نکالتی ہیں جبکہ سپاہی چیونٹیاں کسی بھی طرح کے حملہآور دشمنوں کو مار بھگاتی ہیں۔ امثال ۶:۶ میں نصیحت کی گئی ہے: ”اَے کاہل! چیونٹی کے پاس جا۔ اُس کی روشوں پر غور کر اور دانشمند بن۔“ کیا ایسی مثالوں کو ہم انسانوں کو ”خداوند کے کام میں افزائش کرنے“ کے لئے آمادہ نہیں کرنا چاہئے؟—۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸۔
انسانوں نے بڑے بڑے ہوائی جہاز بنا لئے ہیں۔ لیکن پرندے، بشمول ہمنگبرڈ، کتنے زیادہ ہمہگیر ہیں، جسکا وزن ایک اونس سے بھی کم ہے؟ سمندر کو عبور کرنے کیلئے ایک ۷۴۷ بوئنگ کو ۴۷،۰۰۰ گیلن ایندھن، چلانے کیلئے ایک تربیتیافتہ عملہ، اور ہوابازی کے پیچیدہ نظام چاہئیں۔ تاہم، ایک چھوٹا سا ہمنگبرڈ شمالی اؔمریکہ سے لیکر، خلیج میکسیکو کے پار، اور جنوبی امریکہ تک پہنچنے کیلئے اونس کے تیسویں حصے کے برابر چربیدار ایندھن پر اکتفا کرتا ہے۔ ایندھن کا کوئی بھاری بوجھ نہیں، ہوابازی کی کوئی تربیت نہیں، کوئی پیچیدہ نقشہ یا کمپیوٹر نہیں! کیا یہ صلاحیت ارتقا کے حادثاتی عمل کا نتیجہ ہے؟ ہرگز نہیں! یہ چھوٹا سا پرندہ جبلّی طور پر دانا ہے، یوں اپنے خالق، یہوؔواہ خدا سے پروگرامشُدہ ہے۔
[تصویر]
”ابدیت کے بادشاہ“ کے متفرق تخلیقی کام اُسکی شانوشوکت کا بولبالا کرتے ہیں