باب 104
خدا کی آواز پر یہودیوں کا ردِعمل
بہت سے لوگوں نے خدا کی آواز سنی
اِنسانوں کو کس بِنا پر قصوروار ٹھہرایا جائے گا؟
سوموار 10 نیسان کو یسوع مسیح ہیکل میں تھے اور اپنی موت کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ اُنہیں اِس بات کی فکر تھی کہ اُن کی موت کی وجہ سے خدا کی بےعزتی ہوگی۔ اِس لیے اُنہوں نے دُعا کی: ”باپ، اپنے نام کی بڑائی کر۔“ اِس پر آسمان سے یہ زوردار آواز آئی: ”مَیں نے اِس کی بڑائی کی اور دوبارہ بھی اِس کی بڑائی کروں گا۔“—یوحنا 12:27، 28۔
آسپاس کھڑے لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہوا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ ”بادل گرجے ہیں“ جبکہ دوسروں نے کہا: ”ایک فرشتے نے اُن سے بات کی ہے۔“ (یوحنا 12:29) البتہ یہ یہوواہ خدا کی آواز تھی۔ یسوع مسیح کے دورِخدمت میں یہ پہلی بار نہیں تھا کہ اِنسانوں نے خدا کی آواز سنی تھی۔
ساڑھے تین سال پہلے یسوع کے بپتسمے کے موقعے پر یوحنا بپتسمہ دینے والے نے خدا کو یسوع کے بارے میں یہ کہتے سنا: ”یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔“ پھر 32ء کی عیدِفسح کے بعد جب یعقوب، یوحنا اور پطرس کی موجودگی میں ایک رُویا میں یسوع مسیح کی صورت بدل گئی تو اِن آدمیوں نے بھی خدا کی آواز سنی۔ اُس موقعے پر خدا نے کہا: ”یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے مَیں خوش ہوں۔ اِس کی سنو۔“ (متی 3:17؛ 17:5) اب یہ تیسری بار تھا کہ خدا کی آواز سنی گئی مگر اِس بار بہت سے لوگوں نے اِسے سنا۔
یسوع نے وہاں کھڑے لوگوں سے کہا: ”یہ آواز میری خاطر نہیں بلکہ آپ کی خاطر آئی ہے۔“ (یوحنا 12:30) اِس سے ثابت ہو گیا کہ یسوع واقعی خدا کے بیٹے اور مسیح تھے۔
یسوع مسیح زندگی بھر خدا کے وفادار رہے اور یوں اُنہوں نے اِنسانوں کے لیے ایک اچھی مثال قائم کی۔ اِس طرح اُنہوں نے یہ بھی ثابت کِیا کہ ’دُنیا کا حاکم‘ شیطان واقعی سزا کے لائق ہے۔ یسوع نے کہا: ”اب اِس دُنیا کی عدالت ہو رہی ہے۔ اب اِس دُنیا کے حاکم کو نکال دیا جائے گا۔“ اُنہوں نے آگے کہا: ”جہاں تک میرا تعلق ہے، جب مجھے زمین پر سے اُٹھایا جائے گا تو مَیں ہر طرح کے لوگوں کو اپنی طرف کھینچوں گا۔“ (یوحنا 12:31، 32) یسوع کی موت ہار نہیں بلکہ جیت تھی کیونکہ سُولی پر لٹکائے جانے کی وجہ سے اُنہوں نے لوگوں کو اپنی طرف کھینچا یعنی اُن کے لیے ہمیشہ کی زندگی کی راہ کھول دی۔
جب یسوع مسیح نے کہا کہ اُنہیں ”زمین پر سے اُٹھایا جائے گا“ تو لوگوں نے کہا: ”ہم نے سنا ہے کہ شریعت میں لکھا ہے کہ مسیح ہمیشہ تک رہے گا۔ تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اِنسان کے بیٹے کو اُٹھایا جائے گا؟ آخر یہ اِنسان کا بیٹا ہے کون؟“ (یوحنا 12:34) افسوس کی بات ہے کہ زیادہتر لوگوں نے یسوع کو اِنسان کے بیٹے اور خدا کے بھیجے ہوئے مسیح کے طور پر قبول نہیں کِیا حالانکہ اُنہوں نے اِس کے اِتنے ثبوت دیکھے تھے، یہاں تک کہ خدا کی آواز بھی سنی تھی۔
پہلے کی طرح یسوع مسیح نے اِس بار بھی خود کو ”روشنی“ کہا۔ (یوحنا 8:12؛ 9:5) اُنہوں نے لوگوں کو یہ نصیحت کی: ”روشنی کچھ دیر اَور آپ کے درمیان رہے گی۔ جب تک روشنی آپ کے پاس ہے، اِس میں چلیں تاکہ تاریکی آپ پر غالب نہ آ جائے۔ . . . اب جبکہ روشنی آپ کے پاس ہے، اِس پر ایمان ظاہر کریں تاکہ آپ روشنی کے بیٹے بن جائیں۔“ (یوحنا 12:35، 36) اِس کے بعد یسوع وہاں سے چلے گئے اور لوگوں سے چھپ کر رہنے لگے کیونکہ اُنہیں 10 نیسان کو نہیں بلکہ 14 نیسان کو عیدِفسح کے موقعے پر ’اُٹھایا جانا‘ تھا یعنی سُولی پر لٹکایا جانا تھا۔—گلتیوں 3:13۔
یسوع مسیح کا دورِخدمت تقریباً ختم ہو چُکا تھا مگر زیادہتر یہودی اُن پر ایمان نہیں لائے تھے۔ اِس طرح یسعیاہ نبی کی پیشگوئی پوری ہوئی جنہوں نے کہا تھا کہ لوگوں کو اندھا کر دیا جائے گا اور اُن کے دلوں کو سخت کر دیا جائے گا تاکہ وہ خدا کی طرف واپس نہ لوٹیں اور شفا نہ پائیں۔ (یسعیاہ 6:10؛ یوحنا 12:40) بہت سے یہودیوں نے ہٹدھرمی سے اُن تمام ثبوتوں کو نظرانداز کِیا جن سے ثابت ہوا کہ یسوع مسیح اُن کے نجاتدہندہ اور زندگی کا راستہ ہیں۔
البتہ یہودیوں کے کچھ پیشوا جن میں نیکُدیمس اور ارمتیاہ کے یوسف شامل تھے، ”یسوع پر ایمان لائے تھے۔“ لیکن اِن میں سے زیادہتر پیشواؤں نے اپنے ایمان کا اِقرار نہیں کِیا۔ کچھ کو ڈر تھا کہ اُنہیں عبادتگاہ سے خارج کر دیا جائے گا جبکہ دوسروں کو ”اِنسانوں کی خوشنودی حاصل کرنا پسند تھا۔“—یوحنا 12:42، 43۔
یسوع مسیح نے بتایا کہ اُن پر ایمان لانے میں کیا کچھ شامل ہے۔ اُنہوں نے کہا: ”جو مجھ پر ایمان لاتا ہے، وہ نہ صرف مجھ پر ایمان لاتا ہے بلکہ اُس پر بھی جس نے مجھے بھیجا ہے۔ اور جو مجھے دیکھتا ہے، وہ اُس کو بھی دیکھتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے۔“ خدا نے یسوع مسیح کو بھیجا تاکہ وہ لوگوں کو سچائی کی تعلیم دیں۔ اِن تعلیمات پر عمل کرنا اِتنا اہم تھا کہ یسوع مسیح نے کہا: ”جو مجھے رد کرتا ہے اور میری باتوں کو قبول نہیں کرتا، اُسے قصوروار ٹھہرایا جائے گا۔ میری باتیں اُسے آخری دن قصوروار ٹھہرائیں گی۔“—یوحنا 12:44، 45، 48۔
آخر میں یسوع مسیح نے کہا: ”مَیں اپنی طرف سے نہیں بولتا بلکہ میرا باپ جس نے مجھے بھیجا ہے، اُس نے مجھے حکم دیا ہے کہ مجھے کیا بولنا اور کیا کہنا ہے۔ اور مَیں جانتا ہوں کہ اُس کے حکم کا انجام ہمیشہ کی زندگی ہے۔“ (یوحنا 12:49، 50) یسوع جانتے تھے کہ جلد ہی اُن کا خون اُن لوگوں کے لیے بہایا جانے والا تھا جو اُن پر ایمان ظاہر کرتے ہیں۔—رومیوں 5:8، 9۔