پیشینگوئی کی ایک کتاب
لوگ مستقبل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ موسمیاتی پیشگوئیوں سے لیکر معاشی اُتارچڑھاؤ تک، متعدد موضوعات کی بابت قابلِاعتماد پیشگوئیوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ تاہم، جب وہ قبلازوقت بیانکردہ ایسی باتوں پر عمل کرتے ہیں تو اُنہیں اکثر مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بائبل میں بہت سی پیشینگوئیاں پائی جاتی ہیں۔ یہ پیشینگوئیاں کس حد تک درست ہیں؟ کیا وہ قبلازوقت تحریرکردہ تاریخ ہیں؟ یا پھر ماضی کے واقعات کو پیشینگوئیوں کا رنگ دیا گیا ہے؟
رومی مُدبّر کاٹو (۲۳۴-۱۴۹ ق.س.ع.) نے بیان کرتے ہوئے کہا: ”مَیں حیران ہوں کہ ایک غیببین جب دوسرے غیببین کو دیکھتا ہے تو اُسکا تمسخر نہیں اُڑاتا۔“1 یقیناً، آج بھی بہتیرے لوگ قسمت کا حال بتانے والوں، جوتشیوں اور دیگر غیببینوں کی بابت شکوک رکھتے ہیں۔ اکثر اُنکی پیشگوئیاں مبہم بیانات پر مبنی ہوتی ہیں اور اُنکی مختلف تفسیریں کی جا سکتی ہیں۔
تاہم، بائبل پیشینگوئیوں کی بابت کیا ہے؟ کیا شکوشبہات کی کوئی گنجائش ہے؟ یا کیا بھروسہ کرنے کی کوئی بنیاد ہے؟
محض تعلیمی قیاسآرائیاں نہیں
صاحبِعلم لوگ عام رُجحان کے پیشِنظر مستقبل کی بابت صحیح قیاسآرائیاں کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن وہ ہمیشہ درست نہیں ہوتیں۔ کتاب فیوچر شاک بیان کرتی ہے: ”ہر معاشرہ امکانی مستقبل کے واقعات کے سلسلے کا ہی نہیں بلکہ ممکنہ مستقبل کے واقعات کی صفبندی کا اور پسندیدہ مستقبل کے واقعات کے اختلاف کا بھی سامنا کرتا ہے۔“ یہ مزید کہتی ہے: ”بِلاشُبہ، کوئی بھی مستقبل کی بابت قطعی طور پر نہیں ’جان‘ سکتا۔ ہم صرف اپنی قیاسآرائیوں کو منظم اور عمیق بنانے اور اُن کے ساتھ زیادہ اغلب امکانات کو وابستہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔“2
لیکن بائبل نویسوں نے مستقبل کی بابت ”قیاسآرائیوں“ کیساتھ محض ”اغلب امکانات کو وابستہ“ نہیں کِیا۔ مگر اُنکی پیشگوئیوں کو ہر قسم کی تفسیروں والے مبہم بیانات سمجھ کر نظرانداز نہیں کِیا جا سکتا۔ اِسکے برعکس، بسااوقات توقعات کے بالکل اُلٹ پیشگوئی کرتے ہوئے، اُنکی بیشتر پیشینگوئیاں، حیرتانگیز وضاحت کیساتھ کی گئیں اور غیرمعمولی طور پر حتمی تھیں۔ بائبل نے قبلازوقت قدیم شہر بابل کی بابت جو کچھ کہا اُسے ہی مثال کے طور پر لے لیں۔
’فنا کے جھاڑو سے صاف کر دیا‘ جائیگا
قدیم شہر بابل ”مملکتوں کی حشمت“ بن گیا۔ (یسعیاہ ۱۳:۱۹) اِس وسیعوعریض شہر کو بڑی مہارت کیساتھ بحری اور بّری دونوں لحاظ سے مشرق اور مغرب کے درمیان کاروباری مرکز کے طور پر خلیج فارس اور بحیرۂروم کے تجارتی راستے پر تعمیر کِیا گیا تھا۔
ساتویں صدی ق.س.ع. تک بابل، بابلی حکومت کا بظاہر ناقابلِتسخیر دارالسلطنت تھا۔ شہر دریائےفرات کے دونوں طرف پھیلا ہوا تھا اور دریا کے پانیوں کو ایک چوڑی اور گہری خندق بنانے اور نہروں کا جال بچھانے کیلئے استعمال کِیا گیا تھا۔ علاوہازیں، شہر کی حفاظت کیلئے مضبوط دفاعی بُرجوں پر مشتمل دوہری فصیلوں کا بڑا مستحکم نظام قائم کِیا گیا تھا۔ کچھ عجب نہیں کہ اِسکے باشندوں کو احساسِتحفظ حاصل تھا۔
تاہم، آٹھویں صدی ق.س.ع. میں، بابل کے اپنے جاہوجلال کے عروج پر پہنچنے سے پہلے، یسعیاہ نبی نے پیشگوئی کی کہ بابل کو ’فنا کے جھاڑو سے صاف کر دیا‘ جائے گا۔ (یسعیاہ ۱۳:۱۹؛ ۱۴:۲۲، ۲۳) یسعیاہ نے یہ بھی بیان کِیا کہ سقوطِبابل کس طریقے سے ہوگا۔ حملہآور اُس کے خندقدار دفاعی ذرائع—اُسکے دریاؤں کو ’خشک‘ کرتے ہوئے—شہر کو غیرمحفوظ بنا دیں گے۔ یسعیاہ نے تو فاتح کا نام بھی بتا دیا—”خورس،“ ایک عظیم فارسی بادشاہ، ”دروازوں کو اُس کیلئے کھول [دیا جائے گا] اور پھاٹک بند نہ کئے جائینگے۔“—یسعیاہ ۴۴:۲۷–۴۵:۲۔
یہ دلیرانہ پیشینگوئیاں تھیں۔ لیکن کیا یہ سچ ثابت ہوئیں؟ تاریخ جواب دیتی ہے۔
’بغیر لڑائی‘
یسعیاہ کے پیشینگوئی ریکارڈ کرنے کے دو صدیاں بعد، اکتوبر ۵، ۵۳۹ ق.س.ع. کی رات کو خورسِاعظم کی زیرِکمان مادی فارسیوں کی فوجیں بابل کے نزدیک خیمہزن تھیں۔ لیکن بابلی پُراعتماد تھے۔ یونانی مؤرخ ہیرودوتس (پانچویں صدی ق.س.ع.) کے مطابق، اُنکے پاس سالہاسال کا سامانِرسد محفوظ تھا۔3 اُنکی حفاظت کیلئے دریائےفرات اور بابل کی مضبوط دیواریں بھی موجود تھیں۔ تاہم، اُسی رات، تاریخِنبوندیس کے مطابق، ”خورس کی فوج لڑائی کئے بغیر بابل میں داخل ہو گئی۔“4 یہ کیسے ممکن تھا؟
ہیرودوتس وضاحت کرتا ہے کہ شہر کے اندر لوگ ”ایک تہوار پر رقصوسرود کی محفل میں مگن تھے۔“5 تاہم، باہر خورس فرات کے پانیوں کا رُخ موڑ چکا تھا۔ جب پانی کی سطح نیچے ہوئی تو اُسکی فوج دریائی گزرگاہ میں، زانوؤں تک پانی میں آگے بڑھنے لگی۔ ہیرودوتس کے مطابق وہ بُرجنما دیواروں کے پاس سے ہوتے ہوئے ”دریا کے کھلے پھاٹکوں کے راستے“ داخل ہو گئے، پھاٹک بےاحتیاطی سے کھلے چھوڑ دئے گئے تھے۔6 (مقابلہ کریں دانیایل ۵:۱-۴؛ یرمیاہ ۵۰:۲۴؛ ۵۱:۳۱، ۳۲۔) دیگر مؤرخین بشمول زینوفون (تقریباً ۴۳۱-تقریباً ۳۵۲ ق.س.ع.)، نیز ماہرینِاثریات کو ملنے والی میخی تختیاں، خورس کے ہاتھوں سقوطِبابل کی تصدیق کرتی ہیں۔7
یوں بابل کی بابت یسعیاہ کی پیشینگوئی کی تکمیل ہوئی تھی۔ کیا یہ واقعی ہوئی تھی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ ایک پیشینگوئی نہ ہو بلکہ اصل واقعہ کے بعد اِسے تحریر کِیا گیا ہو؟ درحقیقت، دیگر بائبل پیشینگوئیوں کی بابت بھی یہی سوال اُٹھایا جا سکتا ہے۔
ماضی کے واقعات کو پیشینگوئی کا رنگ دینا؟
اگر بائبل کے نبیوں نے—یسعیاہ سمیت—تاریخ کو ازسرِنو اس انداز سے تحریر کر دیا کہ یہ پیشینگوئی معلوم ہو توپھر یہ اشخاص چالاک فریبیوں کے علاوہ کچھ نہ تھے۔ لیکن ایسے فریب کیلئے اُنکا محرک کیا ہوگا؟ سچے نبیوں نے بِلاجھجھک یہ آشکارا کر دیا تھا کہ اُنہیں رشوت نہیں دی جا سکتی تھی۔ (۱-سموئیل ۱۲:۳؛ دانیایل ۵:۱۷) نیز ہم پہلے ہی پُرزور شہادت پر غور کر چکے ہیں کہ بائبل نویس (جن میں سے بیشتر نبی تھے) قابلِبھروسہ اشخاص تھے جو اپنی شرمناک خطاکاریوں کو بھی فاش کرنے کیلئے تیار تھے۔ یہ بات بعیدازقیاس دکھائی دیتی ہے کہ اِس قسم کے انسان ایسے صریحی فراڈ کرنے یعنی تاریخ کو پیشینگوئی کی شکل دیکر پیش کرنے کا میلان رکھتے ہونگے۔
ایک اَور بات بھی قابلِغور ہے۔ بہت سی بائبل پیشینگوئیوں میں نبیوں کی اپنی قوم کے لوگوں کیخلاف سخت ملامت پائی جاتی تھی جن میں کاہن اور حکمران بھی شامل تھے۔ مثال کے طور پر، یسعیاہ نے اپنے زمانے کے اسرائیلیوں—پیشواؤں اور اُمت دونوں—کی شرمناک اخلاقی حالت کی مذمت کی۔ (یسعیاہ ۱:۲-۱۰) دیگر نبیوں نے کاہنوں کے گناہوں کو پُرزور طریقے سے فاش کِیا۔ (صفنیاہ ۳:۴؛ ملاکی ۲:۱-۹) یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ وہ ایسی جھوٹموٹ کی پیشینگوئیاں کیوں کریں گے جن میں اُن کے اپنے لوگوں کے خلاف ہی ناقابلِتصور سخت ملامتیں شامل تھیں اور یہ کہ کاہن ایسے فریب میں کیوں ساتھ دیں گے۔
علاوہازیں، نبی—اگر وہ محض فریبی تھے—تو ایسی جعلسازی میں کیسے کامیاب ہوئے تھے؟ اسرائیل میں خواندگی کی حوصلہافزائی کی جاتی تھی۔ اوائل عمری ہی سے بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھایا جاتا تھا۔ (استثنا ۶:۶-۹) صحائف کی ذاتی پڑھائی کی تلقین کی جاتی تھی۔ (زبور ۱:۲) ہفتہوار سبت پر عبادتخانوں میں صحائف کی عوامی پڑھائی کی جاتی تھی۔ (اعمال ۱۵:۲۱) یہ بعیدازقیاس دکھائی دیتا ہے کہ ایک پڑھیلکھی، صحائف کی ماہر، قوم کو ایسے فریب سے بیوقوف بنایا جا سکتا تھا۔
علاوہازیں، یسعیاہ کی پیشینگوئی میں سقوطِبابل کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ اِس میں ایسی تفصیل شامل ہے جو اِسکی تکمیل کے بعد تحریر نہیں کی جا سکتی تھی۔
”وہ ابد تک آباد نہ ہوگا“
سقوطِبابل کے بعد کیا ہوگا؟ یسعیاہ نے پیشگوئی کی: ”وہ ابد تک آباد نہ ہوگا اور پُشتدرپُشت اُس میں کوئی نہ بسے گا۔ وہاں ہرگز عرب خیمہ نہ لگائینگے اور وہاں گڈرئے گلّوں کو نہ بٹھائینگے۔“ (یسعیاہ ۱۳:۲۰) یہ پیشینگوئی کرنا بِلامبالغہ عجیب محسوس ہوا ہوگا کہ نہایت ہی موزوں جگہ پر قائم ایسا شہر ہمیشہ کیلئے غیرآباد ہو جائیگا۔ کیا یسعیاہ بابل کے ویران ہونے کو دیکھنے کے بعد یہ لکھ سکتا تھا؟
خورس کے قابض ہو جانے کے بعد، آبادشُدہ بابل—اگرچہ کم شانوشوکت کے ساتھ—صدیوں تک قائم رہا۔ یاد کریں کہ بحرِمُردار کے طوماروں میں یسعیاہ کی مکمل کتاب کی نقل بھی شامل ہے جو دوسری صدی ق.س.ع. کے زمانے کی ہے۔ جس زمانے میں طومار کی نقل تیار کی جا رہی تھی تو پارتھی بابل پر قابض ہو گئے۔ پہلی صدی س.ع. میں، بابل میں یہودی آباد تھے اور بائبل نویس پطرس وہاں گیا تھا۔ (۱-پطرس ۵:۱۳) اُس وقت تک، یسعیاہ کا بحرِمُردار کا طومار تقریباً دو صدیوں سے موجود تھا۔ تاہم، پہلی صدی س.ع. تک، بابل مکمل طور پر ویران نہیں تھا جبکہ یسعیاہ کی کتاب اُس سے کہیں پہلے مکمل ہو چکی تھی۔a
جیسےکہ پہلے سے بتا دیا گیا تھا، بابل آخرکار بالکل ”کھنڈر“ بن گیا۔ (یرمیاہ ۵۱:۳۷) عبرانی عالم جیروم (چوتھی صدی س.ع.) کے مطابق، اُس کے زمانے میں بابل ”ہر قسم کے جنگلی درندوں“ کی آماجگاہ تھا۔9 بابل آج دن تک ویران ہے۔
یسعیاہ بابل کے غیرآباد ہونے تک زندہ نہ رہا۔ لیکن موجودہ عراق میں، بغداد سے تقریباً ۵۰ میل جنوب کی طرف، اپنے زمانے کے مستحکم شہر کے کھنڈرات، اُس کے اِن الفاظ کی خاموش شہادت پیش کرتے ہیں: ”وہ ابد تک آباد نہ ہوگا۔“ سیاحوں کی توجہ کے لئے بابل کی تھوڑی بہت بحالی یہاں سیاحت کے لئے آنے والوں کو حیران کر سکتی ہے مگر بابل کا ”بیٹوں اور پوتوں سمیت“ نامونشان مٹا دیا گیا ہے۔—یسعیاہ ۱۳:۲۰؛ ۱۴:۲۲، ۲۳۔
پس یسعیاہ نبی نے مبہم پیشینگوئیاں نہیں کی تھیں جنہیں مستقبل کے کسی بھی وقوعہ پر عائد کِیا جا سکتا تھا۔ نہ ہی اُس نے تاریخ کو اِس طرح دوبارہ تحریر کِیا کہ پیشینگوئی دکھائی دے۔ ذرا سوچئے: ایک فریبی کسی ایسی چیز کی بابت ”پیشینگوئی کرنے“ کا خطرہ کیوں مول لے گا جس پر اُس کا بالکل کوئی اختیار نہ ہو—یہ کہ طاقتور بابل دوبارہ کبھی آباد نہ ہوگا؟
سقوطِبابل کی بابت یہ پیشینگوئی بائبل سے صرف ایک مثال ہے۔b بائبل پیشینگوئیوں کی تکمیل کے باعث بہتیرے لوگ اِسے انسان سے کہیں اعلیٰ ماخذ سے وابستہ خیال کرتے ہیں۔ آپ شاید اتفاق کریں کہ کمازکم پیشینگوئی کی یہ کتاب تحقیق کی مستحق ضرور ہے۔ ایک بات تو یقینی ہے: زمانۂجدید کے غیببینوں کی مبہم یا سنسنیخیز پیشینگوئیوں اور بائبل کی واضح، سنجیدہ اور قطعی پیشینگوئیوں میں بہت فرق ہے۔
[فٹنوٹ]
a اِس بات کی ٹھوس شہادت موجود ہے کہ عبرانی صحائف کی کُتب—بشمول یسعیاہ—پہلی صدی س.ع. سے بہت پہلے لکھی گئی تھیں۔8 مؤرخ جوزیفس (پہلی صدی س.ع.) نے ظاہر کِیا کہ عبرانی صحائف کی فہرست اُس کے زمانے سے کہیں پہلے مرتب کی جا چکی تھی۔ علاوہازیں، یونانی سپتواُجنتا عبرانی صحائف کا ایک یونانی ترجمہ، جسکا آغاز تیسری صدی ق.س.ع. میں ہوا تھا، وہ بھی دوسری صدی ق.س.ع. میں مکمل ہو گیا تھا۔
b بائبل پیشینگوئیوں پر مزید بحث اور تاریخی حقائق کے لئے جو اُن کی تکمیل کا ثبوت فراہم کرتے ہیں، براہِمہربانی واچٹاور بائبل اینڈ ٹریکٹ سوسائٹی آف نیو یارک انکارپوریٹڈ کی شائعکردہ کتاب دی بائبل—گاڈز ورڈ اور مینز؟ کے ۱۱۷-۱۳۳ صفحات کو دیکھیں۔
[صفحہ ۲۸ پر عبارت]
کیا بائبل نویس راست نبی تھے یا چالاک فریبی؟
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
قدیم بابل کے کھنڈرات