پاک صحیفوں کی روشنی میں
ہم دوسروں کے ساتھ صلح کیسے کر سکتے ہیں؟
پاک صحیفوں میں لکھا ہے: ”سب نے گُناہ کِیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں۔“ (رومیوں ۳:۲۳) زمین پر کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو کبھی غلطی نہ کرے۔ چونکہ ہم سب کی شخصیت ایک دوسرے سے فرق ہے اِس لئے لوگوں میں اکثر اختلاف ہو جاتے ہیں۔ لیکن اگر ہماری کسی سے اَنبنَ ہو جائے تو ہم اُس سے صلح کیسے کر سکتے ہیں؟
اِس سلسلے میں ہم پاک صحیفوں سے رہنمائی حاصل کر سکتے ہیں۔ اِن میں بتایا گیا ہے کہ خدا جس کا نام یہوواہ ہے، وہ ”امن کا بانی“ ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۴:۳۳؛ زبور ۸۳:۱۸) یہوواہ خدا چاہتا ہے کہ تمام انسان ایک دوسرے کے ساتھ امن اور صلح سے رہیں۔ اِس سلسلے میں اُس نے خود ایک عمدہ مثال قائم کی۔ جب آدم اور حوا نے خدا کے خلاف گُناہ کِیا تو انسان خدا سے دُور ہو گئے۔ لیکن خدا نے فوراً ہی ایسے اقدام اُٹھائے جن کے ذریعے وہ انسانوں کے ساتھ دوبارہ میلملاپ یعنی صلح کر سکے۔ (۲-کرنتھیوں ۵:۱۹) آئیں، تین طریقوں پر غور کریں جن پر عمل کرنے سے ہم دوسروں کے ساتھ صلح کر سکتے ہیں۔
دوسرے کی غلطی کو نظرانداز کریں
پاک صحیفوں میں لکھا ہے: ”اگر کسی کو دوسرے کی شکایت ہو تو ایک دوسرے کی برداشت کرے اور ایک دوسرے کے قصور معاف کرے۔ جیسے [یہوواہ] نے تمہارے قصور معاف کئے ویسے ہی تُم بھی کرو۔“—کلسیوں ۳:۱۳۔
یہ مشکل کیوں ہے؟ ہو سکتا ہے کہ آپ کی ”شکایت“ جائز ہو اور اِس لئے آپ سوچیں کہ ”مَیں آئندہ اِس شخص سے کبھی بات نہیں کروں گا۔“ شاید آپ یہ بھی سوچیں کہ ”غلطی اُس کی ہے، اُسے معافی مانگنی چاہئے۔“ لیکن شاید اُس شخص کو پتہ بھی نہ ہو کہ اُس نے آپ کا دل دُکھایا ہے یا شاید وہ سوچ رہا ہو کہ غلطی آپ کی ہے۔ ایسی صورت میں تو مسئلہ جوں کا توں ہی رہے گا۔
آپ کیا کر سکتے ہیں؟ پاک صحیفوں میں دی گئی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے دوسروں کی غلطیوں کو نظرانداز کر دیں، خاص طور پر اُس وقت جب مسئلہ زیادہ بڑا نہ ہو۔ یاد رکھیں کہ اگر خدا ہماری غلطیوں کا حساب رکھنے لگے تو ہم اُس کے حضور کھڑے بھی نہ رہ سکیں۔ (زبور ۱۳۰:۳) پاک صحیفوں میں لکھا ہے کہ ”[یہوواہ] رحیم اور کریم ہے۔ قہر کرنے میں دھیما اور شفقت میں غنی۔ کیونکہ وہ ہماری سرِشت سے واقف ہے۔ اُسے یاد ہے کہ ہم خاک ہیں۔“—زبور ۱۰۳:۸، ۱۴۔
خدا کے کلام میں درج اِس بات پر بھی غور کریں: ”تمیز [ایک شخص] کو قہر کرنے میں دھیما بناتی ہے۔ اور خطا سے درگذر کرنے میں اُس کی شان ہے۔“ (امثال ۱۹:۱۱) لہٰذا اگر ہم تمیز کرنا سیکھیں گے یعنی یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ایک شخص نے ایک بات کیوں کہی یا ایک کام کیوں کِیا تو ہم اپنے غصے پر قابو رکھ سکیں گے۔ اِس لئے خود سے پوچھیں: ”کیا وہ شخص تھکا ہوا تھا، بیمار تھا یا پریشان تھا؟“ جب آپ دوسروں کے احساسات اور اُن کے حالات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو آپ کے لئے اپنے غصے پر قابو پانا اور اُن کی غلطی کو نظرانداز کرنا آسان ہو جائے گا۔
مسئلے پر بات کریں
پاک صحیفوں میں لکھا ہے: ”اگر تیرا بھائی تیرا گُناہ کرے تو جا اور خلوت میں باتچیت کرکے اُسے سمجھا۔ اگر وہ تیری سنے تو تُو نے اپنے بھائی کو پا لیا۔“—متی ۱۸:۱۵۔
یہ مشکل کیوں ہے؟ شاید آپ غصے میں ہیں، خوفزدہ ہیں یا ندامت محسوس کر رہے ہیں اور اِس لئے آپ اُس شخص کے ساتھ مسئلے پر بات نہیں کر پا رہے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ اپنا مسئلہ کسی اَور کو بتانا چاہتے ہیں تاکہ وہ آپ کی حمایت کرے۔ لیکن یاد رکھیں کہ کسی تیسرے شخص کو بیچ میں ڈالنے سے بات پھیل سکتی ہے اور مسئلہ زیادہ بگڑ سکتا ہے۔
آپ کیا کر سکتے ہیں؟ اگر مسئلہ سنجیدہ ہے اور آپ کو لگتا ہے کہ آپ کسی بھی صورت میں اِسے نظرانداز نہیں کر سکتے تو اُس شخص کے پاس جا کر بات کریں۔ مسئلے کو سلجھانے کے لئے اِن باتوں پر عمل کریں:
(۱) دیر نہ کریں: مسئلے کو لٹکائے نہ رکھیں۔ ایسا کرنے سے یہ مزید بگڑ سکتا ہے۔ یسوع مسیح کی اِس نصیحت پر عمل کرنے کی کوشش کریں: ”اگر تُو قربانگاہ پر اپنی نذر گذرانتا ہو اور وہاں تجھے یاد آئے کہ میرے بھائی کو مجھ سے کچھ شکایت ہے تو وہیں قربانگاہ کے آگے اپنی نذر چھوڑ دے اور جا کر پہلے اپنے بھائی سے ملاپ کر۔ تب آکر اپنی نذر گذران۔“—متی ۵:۲۳، ۲۴۔
(۲) اکیلے میں بات کریں: دوسروں کو یہ نہ بتائیں کہ فلاں شخص کے ساتھ آپ کی اَنبن ہو گئی ہے۔ یاد رکھیں کہ پاک صحیفوں میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی ہمارا دل دُکھائے تو ہمیں ’خلوت [یعنی اکیلے] میں باتچیت کرکے اُسے سمجھانا چاہئے۔‘—متی ۱۸:۱۵۔
(۳) سوچسمجھ کر بات کریں: یہ مت دیکھیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط۔ جب آپ اُس شخص سے با ت کرتے ہیں تو آپ کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ آپ اُس سے صلح کریں نہ کہ خود کو صحیح ثابت کریں۔ اُس پر الزام نہ لگائیں۔ مثال کے طور پر یہ نہ کہیں کہ ”آپ نے یہ کیوں کہا کہ . . . ؟“ اِس کی بجائے یہ کہیں کہ ”مجھے بہت دُکھ ہوا جب آپ نے کہا کہ . . .۔“ غور کریں کہ خدا کے کلام میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ”ہم اُن باتوں کے طالب رہیں جن سے میلملاپ اور باہمی ترقی ہو۔“—رومیوں ۱۴:۱۹۔
صبر سے کام لیں
پاک صحیفوں میں لکھا ہے: ”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو۔ . . . بلکہ اگر تیرا دُشمن بھوکا ہو تو اُس کو کھانا کھلا۔ اگر پیاسا ہو تو اُسے پانی پلا۔“—رومیوں ۱۲:۱۷، ۲۰۔
یہ مشکل کیوں ہے؟ ہو سکتا ہے کہ آپ نے اُس شخص سے صلح کرنے کی کوشش کی ہو لیکن وہ راضی نہیں ہوا۔ ایسی صورت میں شاید آپ اُس سے صلح کرنے کی کوشش چھوڑ دیں۔
آپ کیا کر سکتے ہیں؟ صبر سے کام لیں۔ ہر شخص کا مزاج دوسرے سے فرق ہوتا ہے اور شخصیت میں پختگی بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کچھ لوگوں کو اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے میں زیادہ وقت لگتا ہے اور بعض کو ایسی خوبیاں پیدا کرنے میں دیر لگتی ہے جو خدا کو پسند ہیں۔ ایسے لوگوں کے ساتھ محبت اور مہربانی سے پیش آئیں۔ پاک صحیفوں میں لکھا ہے: ”بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔“—رومیوں ۱۲:۲۱۔
صلح کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم عاجزی ظاہر کریں؛ مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں؛ صبر سے کام لیں اور محبت سے پیش آئیں۔ یقیناً دوسروں کے ساتھ امن اور صلح سے رہنے کا بڑا فائدہ ہے۔
کیا آپ نے غور کِیا ہے کہ . . .
● ہمیں دوسروں کو کیوں معاف کرنا چاہئے؟—کلسیوں ۳:۱۳۔
● اگر آپ کی کسی سے اَنبن ہو گئی ہے تو آپ مسئلے کو سلجھانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں؟—متی ۵:۲۳، ۲۴۔
● اگر ایک شخص آپ سے صلح کرنے کو راضی نہ ہو تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟—رومیوں ۱۲:۱۷-۲۱۔
[صفحہ ۱۱ پر عبارت]
’خطا سے درگذر کرنے میں انسان کی شان ہے۔‘ —امثال ۱۹:۱۱۔