باب 107
بہت سے لوگوں کو دعوت ملی—مگر آئے کون؟
شادی کی دعوت کی مثال
یسوع مسیح کے دورِخدمت کا آخری مرحلہ چل رہا تھا اور وہ شریعت کے عالموں اور اعلیٰ کاہنوں کی بُرائی کا پردہ فاش کرنے کے لیے مثالیں دے رہے تھے۔ اِس لیے یہ لوگ یسوع کو مار ڈالنا چاہتے تھے۔ (لُوقا 20:19) یہ جان کر بھی یسوع اِن پیشواؤں کا پردہ فاش کرتے رہے۔ اِس سلسلے میں اُنہوں نے ایک اَور مثال دی۔
اُنہوں نے کہا: ”آسمان کی بادشاہت ایک ایسے بادشاہ کی طرح ہے جس نے اپنے بیٹے کی شادی کے سلسلے میں دعوت کا اِنتظام کِیا۔ اُس نے اپنے غلاموں کو اُن لوگوں کو بلانے کے لیے بھیجا جنہیں شادی پر بلایا گیا تھا۔ لیکن اُنہوں نے آنے سے اِنکار کر دیا۔“ (متی 22:2، 3) مثال کے شروع میں یسوع مسیح نے ”آسمان کی بادشاہت“ کا ذکر کِیا۔ اِس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ”بادشاہ“ یہوواہ خدا ہے۔ لہٰذا بادشاہ کا بیٹا یہوواہ کا بیٹا یسوع مسیح ہے۔ لیکن وہ لوگ کون ہیں جنہیں دعوت پر بلایا گیا؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں خدا کے بیٹے کے ساتھ آسمان کی بادشاہت میں حکمرانی کرنے کا موقع دیا گیا۔
سب سے پہلے کن کو دعوت دی گئی؟ ذرا سوچیں، یسوع مسیح اور رسول کن کو بادشاہت کے بارے میں بتا رہے تھے؟ صرف یہودیوں کو۔ (متی 10:6، 7؛ 15:24) اِس قوم نے 1513 قبلازمسیح میں شریعت کو قبول کِیا اور یوں وہ خدا کے ساتھ ایک عہد میں بندھ گئی۔ اِس طرح سب سے پہلے یہودیوں کو ”کاہنوں کی ایک مملکت“ بننے کا موقع ملا۔ (خروج 19:5-8) لیکن اُنہیں شادی پر آنے کے لیے کب بلایا گیا؟ یہ 29ء میں ہوا جب یسوع مسیح آسمان کی بادشاہت کی مُنادی کرنے لگے۔
مگر زیادہتر یہودیوں نے کیا کِیا؟ یسوع مسیح نے کہا: ”اُنہوں نے آنے سے اِنکار کر دیا۔“ زیادہتر مذہبی رہنماؤں اور باقی یہودیوں نے یسوع کو مسیح اور خدا کے مقررہ بادشاہ کے طور پر قبول نہیں کِیا۔
البتہ یسوع نے مثال میں ظاہر کِیا کہ یہودیوں کو شادی پر آنے کا ایک اَور موقع دیا جانا تھا۔ اُنہوں نے کہا: ”پھر [بادشاہ] نے کچھ اَور غلاموں کو بھیجا اور اُن سے کہا: ”جن لوگوں کو دعوت دی گئی ہے، اُن سے کہو: ”دیکھیں! مَیں نے بیل اور موٹے تازے جانور ذبح کرا کر کھانا پکوایا ہے۔ سب کچھ تیار ہے۔ دعوت پر آ جائیں۔““ لیکن اُن لوگوں نے غلاموں کی بات پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ ایک اپنے کھیت میں چلا گیا، دوسرا اپنے کاروبار پر جبکہ باقیوں نے غلاموں کو پکڑ کر اُنہیں مارا پیٹا اور اُنہیں قتل کر دیا۔“ (متی 22:4-6) مسیحی کلیسیا کے قائم ہونے کے بعد بالکل ایسا ہی ہوا۔ اُس وقت یہودیوں کو بادشاہت حاصل کرنے کا ایک اَور موقع دیا جا رہا تھا۔ مگر اُنہوں نے اِس بار بھی آنے سے اِنکار کِیا، یہاں تک کہ ’بادشاہ کے غلاموں‘ کے ساتھ بُرا سلوک بھی کِیا۔—اعمال 4:13-18؛ 7:54، 58۔
اِس ہٹدھرمی کے لیے یہودی قوم کو کیا سزا ملی؟ یسوع مسیح نے کہا: ”اِس پر بادشاہ کو بہت غصہ آیا اور اُس نے اپنی فوجیں بھیج کر اُن قاتلوں کو ہلاک کر دیا اور اُن کا شہر جلا دیا۔“ (متی 22:7) یہ 70ء میں ہوا جب رومی فوج نے آ کر ’یہودیوں کا شہر‘ یروشلیم تباہ کر دیا۔
یہودیوں نے تو آنے سے اِنکار کر دیا لیکن کیا اِس کا مطلب تھا کہ اِس کے بعد کسی اَور کو دعوت نہیں دی گئی؟ یسوع مسیح نے مثال میں اِس کا یہ جواب دیا: ”پھر [بادشاہ] نے اپنے غلاموں سے کہا: ”شادی کا کھانا تیار ہے۔ لیکن جن لوگوں کو بلایا گیا تھا، وہ آنے کے لائق نہیں تھے۔ اِس لیے شہر سے باہر جانے والی سڑکوں پر جاؤ اور جو کوئی بھی ملے، اُسے شادی پر آنے کی دعوت دو۔“ اِس پر غلام سڑکوں پر گئے اور اچھے اور بُرے، ہر طرح کے لوگوں کو لے آئے۔ اور وہ کمرہ جہاں دعوت کا اِنتظام کِیا گیا تھا، مہمانوں سے بھر گیا۔“—متی 22:8-10۔
یہ بات 36ء میں پوری ہونے لگی جب پطرس رسول نے پہلی بار ایسے غیریہودیوں کو بادشاہت کا پیغام سنایا جنہوں نے یہودی مذہب کو نہیں اپنایا تھا۔ اُس وقت رومی فوج کے ایک افسر کُرنیلیُس اور اُن کے گھر والوں پر پاک روح نازل ہوئی اور وہ بھی یسوع کے پیروکار بن گئے۔ یوں اُنہیں آسمان کی بادشاہت میں شامل ہونے کا موقع ملا۔—اعمال 10:1، 34-48۔
پھر یسوع مسیح نے بتایا کہ بادشاہ شادی پر آنے والے ہر مہمان کو قبول نہیں کرے گا۔ اُنہوں نے کہا: ”جب بادشاہ مہمانوں کو دیکھنے آیا تو اُس نے دیکھا کہ ایک آدمی نے شادی کے کپڑے نہیں پہنے ہیں۔ بادشاہ نے اُس سے کہا: ”بھائی، تُم شادی کے کپڑے پہنے بغیر اِس دعوت میں کیسے آ گئے؟“ وہ آدمی کوئی جواب نہ دے سکا۔ پھر بادشاہ نے اپنے خادموں سے کہا: ”اِس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر اِسے باہر تاریکی میں پھینک دو۔ وہاں یہ روئے گا اور دانت پیسے گا۔“ کیونکہ بہت سے لوگوں کو دعوت دی گئی ہے لیکن کم ہی لوگوں کو چُنا گیا ہے۔“—متی 22:11-14۔
ہو سکتا ہے کہ وہاں موجود مذہبی پیشوا یسوع مسیح کی بات کا مطلب پوری طرح نہ سمجھے ہوں۔ لیکن پھر بھی اُن کو یہ باتیں ناگوار گزریں کیونکہ اِن سے اُن کی بےعزتی ہو رہی تھی۔ لہٰذا یسوع مسیح کو قتل کرنے کا اُن کا عزم اَور بھی مضبوط ہو گیا۔