آپ ریاکاری سے کیسے نپٹتے ہیں؟
یہوداہ اسکریوتی گتسمنی باغ میں یسوع کے پاس جا کر پیار سے ”اُسکے بوسے“ لیتا ہے۔ یہ پُرتپاک محبت ظاہر کرنے کا رسمی طریقہ تھا۔ تاہم یہوداہ کی یہ حرکت اُس رات یسوع کو پکڑنے کیلئے آنے والے لوگوں کیلئے شناخت کرنے کا بہانہ تھی۔ (متی ۲۶:۴۸، ۴۹) یہوداہ ایک ریاکار شخص تھا—ایک دھوکےباز شخص جو اپنے بُرے محرکات کو چھپانے کیلئے خلوصدلی کا جھوٹا نقاب اُوڑھتا ہے۔ جس یونانی لفظ کا ترجمہ ”ریاکاری“ کِیا گیا ہے اُسکا مطلب ”جواب دینے والا“ ہے اور یہ سٹیج کے ایک اداکار کیلئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ بعدازاں، یہ لفظ دوسروں کو فریب دینے والے کسی بھی شخص کیلئے استعمال ہونے لگا۔
آپ ریاکاری کیلئے کیسا جوابیعمل ظاہر کرتے ہیں؟ مثال کے طور پر، جب سگریٹ کے صنعتکار سگریٹنوشی کو مُضر قرار دینے والے میڈیکل ثبوت کے باوجود اِسے فروغ دیتے ہیں تو کیا آپکو غصہ آتا ہے؟ کیا آپ کو ایسے لوگوں پر غصہ آتا ہے جو اُنہی پر ظلم ڈھاتے ہیں جو اُنکی نگرانی میں ہوتے ہیں؟ کیا آپ کو ایک ایسے شخص کی بےوفائی پر دُکھ ہوتا ہے جسے آپ نے سچا دوست سمجھا تھا؟ مذہبی ریاکاری آپ کو کیسے متاثر کرتی ہے؟
”اَے ریاکار . . . تم پر افسوس!“
اُس وقت کے مذہبی ماحول پر غور کریں جب یسوع زمین پر تھا۔ فقیہوں اور فریسیوں نے خدا کی شریعت کے وفادار اُستاد ہونے کا جھوٹا دعویٰ کِیا لیکن درحقیقت اُنہوں نے لوگوں کو انسانی تعلیمات دیکر خدا سے دُور کر دیا۔ فقیہوں اور فریسیوں نے شریعت کے لفظی مفہوم پر ضرورت سے زیادہ زور دیا لیکن اُنہوں نے محبت اور رحم ظاہر کرنے والے بنیادی اُصولوں کو نظرانداز کر دیا۔ وہ خود کو لوگوں کے سامنے تو بہت راستباز ظاہر کرتے تھے مگر پوشیدگی میں حد سے زیادہ بُرے کام کرتے تھے۔ اُن کے قولوفعل میں ہمیشہ تضاد پایا جاتا تھا۔ وہ ”اپنے سب کام لوگوں کو دکھانے“ کے لئے کرتے تھے۔ وہ ”سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند“ تھے ”جو اُوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مُردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں۔“ یسوع نے دلیری کیساتھ اُن کی ریاکاری کو بےنقاب کرتے ہوئے بارہا اُن سے کہا: ”اَے ریاکار فقیہو اور فریسیو تم پر افسوس!“—متی ۲۳:۵، ۱۳-۳۱۔
اگر آپ اُس زمانہ میں ہوتے تو دوسرے خلوصدل لوگوں کی طرح آپ کو بھی ایسی مذہبی ریاکاری سے کراہت ہوتی۔ (رومیوں ۲:۲۱-۲۴؛ ۲-پطرس ۲:۱-۳) تاہم کیا آپ فقیہوں اور فریسیوں کی ریاکاری کو اپنے اندر تمام مذاہب کے ساتھ ساتھ اُس مذہب کو بھی رد کرنے کی حد تک تلخی پیدا کرنے کی اجازت دیتے جسکی یسوع مسیح اور اُس کے شاگردوں نے نہ صرف تعلیم دی بلکہ اطاعت بھی کی؟ کیا ایسا کرنا آپ کے لئے نقصاندہ ثابت نہیں ہوتا؟
مذہبی لوگوں کی ریاکاری ہمیں بیدل کرکے مذہب سے دُور لے جا سکتی ہے۔ تاہم ایسے جوابیعمل سے ہم سچے پرستاروں کی خلوصدلی کو پہچانے میں بھی ناکام رہتے ہیں۔ ریاکاری سے بچنے کیلئے ہم جو بھی قدم اُٹھاتے ہیں درحقیقت وہ ہمیں سچے دوستوں سے بھی دُور لے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا ریاکاری کیلئے ہمارا جوابیعمل معقول اور متوازن ہونا چاہئے۔
’خبردار رہنا‘
سب سے پہلے ہمیں ریاکاروں کی شناخت کرنے کا طریقہ سیکھنا ہوگا۔ یہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ ایک خاندان نے بھاری نقصان اُٹھا کر یہ بات سیکھی۔ بچوں کی والدہ طویل بیہوشی کی حالت میں تھی۔ جس ہسپتال میں یہ واقعہ پیش آیا اُس پر غفلت برتنے کی وجہ سے مقدمہ دائر کرنے کے لئے اُس خاندان نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں جو مقامی چرچ میں مُناد بھی تھا۔ اگرچہ ہسپتال والوں نے تصفیے کے طور پر ۴.۳ ملین ڈالر ادا کئے توبھی خاندان کیلئے یہ المیہ مزید تکلیف کا باعث بنا۔ اُن کی والدہ کی وفات ایک بےیارومددگار شخص کے طور پر ہوئی کیونکہ اُن کے پاس تجہیزوتدفین کے اخراجات برداشت کرنے کے لئے کوئی پیسہ نہ تھا؟ اس کی کیا وجہ تھی؟ اسلئےکہ جو پیسے اُنہیں ملے تھے اُس کا زیادہتر حصہ وکیل نے ہڑپ کر لیا تھا۔ اس وکیل کی بابت ایک قانونی جریدے نے بیان کِیا: ”اگر وہ لوگوں کو اپنے چالچلن کے مطابق تعلیم دیتا تو پھر اسکی دُعا یہ ہوتی کہ ہمیں لوگوں کو شکار کرنا سکھا۔“ ہم ایسے لوگوں سے کیسے بچ سکتے ہیں؟
یسوع نے اپنے زمانہ میں مذہبی ریاکاری کا سامنا کرنے والے لوگوں کو ’خبردار رہنے‘ کی مشورت دی۔ (متی ۱۶:۶؛ لوقا ۱۲:۱) جیہاں، ہمیں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ لوگ نیک مقاصد کا دعویٰ اور خلوصدلی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں لیکن ہمیں معقول حد تک محتاط رہنے اور لوگوں کی باتوں پر فوراً یقین کر لینے سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں یہ پتہ چل جائے کہ بازار میں جعلی کرنسی گردش کر رہی ہے تو کیا ہم اپنے نوٹوں کا محتاط جائزہ نہیں لینگے؟
سچی مسیحی کلیسیا میں بھی ریاکار شامل ہو گئے ہیں۔ شاگرد یہوداہ نے اُن کی بابت خبردار کرتے ہوئے کہا: ”یہ تمہاری محبت کی ضیافتوں میں تمہارے ساتھ کھاتےپیتے وقت گویا دریا کی پوشیدہ چٹانیں ہیں۔ یہ بےدھڑک اپنا پیٹ بھرنے والے چرواہے ہیں۔ یہ بےپانی کے بادل ہیں جنہیں ہوائیں اُڑا لے جاتی ہیں۔ یہ پتجھڑ کے بےپھل درخت ہیں۔“—یہوداہ ۱۲۔
’خبردار رہنے‘ کا مطلب کسی ایسے شخص کے دھوکے میں آنے سے بچنا ہے جو بظاہر پُرمحبت مگر باطن میں خودغرض ہوتا ہے اور خدا کے کلام کے برعکس خیالات کو فروغ دیتا ہے۔ ایسا شخص پُرسکون پانیوں کے نیچے جہاز کو تباہ کرنے والی نوکیلی چٹان کی طرح غافل لوگوں کی روحانی تباہی کا باعث بنتا ہے۔ (۱-تیمتھیس ۱:۱۹) ایک ریاکار شخص بہت زیادہ روحانی تقویت دینے کا وعدہ کر سکتا ہے لیکن ’بےپانی کے بادل‘ کی طرح بارش کی ایک بوند بھی نہیں برساتا۔ ایک بےپھل درخت کی طرح، ایک دھوکےباز شخص حقیقی مسیحی پھل پیدا نہیں کرتا۔ (متی ۷:۱۵-۲۰؛ گلتیوں ۵:۱۹-۲۱) جیہاں، ہمیں ایسے دھوکےباز لوگوں سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ تاہم ایسا کرتے وقت ہمیں تمام لوگوں کے محرکات پر شک نہیں کرنا چاہئے۔
”عیبجوئی نہ کرو“
ناکامل انسانوں کیلئے اپنی خامیوں کو نظرانداز کرنا اور دوسروں کی خامیوں کو اُچھالنا کتنا آسان ہوتا ہے! تاہم یہ میلان ہمیں ریاکاری کے زیرِاثر لاتا ہے۔ ”اَے ریاکار،“ یسوع نے بیان کِیا، ”پہلے اپنی آنکھ میں سے تو شہتیر نکال پھر اپنے بھائی کی آنکھ میں سے تنکے کو اچھی طرح دیکھکر نکال سکے گا۔“ ہم اُسکی اس مشورت پر دھیان دینے سے اچھا کرتے ہیں: ”عیبجوئی نہ کرو کہ تمہاری بھی عیبجوئی نہ کی جائے۔ . . . تُو کیوں اپنے بھائی کی آنکھ کے تنکے کو دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کے شہتیر پر غور نہیں کرتا؟“—متی ۷:۱-۵۔
جب بعضاوقات دوسروں کے کام ریاکارانہ لگتے ہیں تو ہمیں فوراً انہیں ریاکار قرار دینے سے محتاط رہنا چاہئے۔ مثال کے طور پر، پطرس رسول یروشلیم سے آنے والے یہودی پسمنظر کے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے انطاکیہ میں غیرقوموں سے تعلق رکھنے والے ساتھی ایمانداروں سے ”باز رہا اور کنارہ کِیا۔“ برنباس بھی ’پطرس اَور دیگر لوگوں کیساتھ ریاکاری میں پڑ گیا۔‘ پطرس نے اس حقیقت کے باوجود ایسا کِیا کہ اُسے غیرقوم سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مسیحی کلیسیا میں قبول کرنے کا شرف عطا کِیا گیا تھا۔ (گلتیوں ۲:۱۱-۱۴؛ اعمال ۱۰:۲۴-۲۸، ۳۴، ۳۵) تاہم برنباس اور پطرس کی یہ فروگزاشت یقیناً فقیہوں اور فریسیوں یا یہوداہ اسکریوتی جیسی نہیں تھی۔
’تمہاری محبت بےریا ہو‘
یسوع نے نصیحت کی، ”جب تُو خیرات کرے تو اپنے آگے نرسنگا نہ بجوا جیسا ریاکار عبادتخانوں اور کوچوں میں کرتے ہیں تاکہ لوگ اُنکی بڑائی کریں۔“ (متی ۶:۲) پولس رسول نے لکھا، ’تمہاری محبت بےریا ہو۔‘ (رومیوں ۱۲:۹) اُس نے نوجوان تیمتھیس کی یہ حوصلہافزائی کی کہ ”پاک دل اور . . . بےریا ایمان سے محبت پیدا ہو۔“ (۱-تیمتھیس ۱:۵) اگر ہماری محبت اور ہمارا ایمان خودغرضی اور فریب سے آلودہ نہیں بلکہ سچا ہے تو دوسرے ہم پر بھروسا کرینگے۔ ہم اپنے اردگرد کے لوگوں کیلئے حقیقی تقویت اور حوصلہافزائی کا ذریعہ ثابت ہونگے۔ (فلپیوں ۲:۴؛ ۱-یوحنا ۳:۱۷، ۱۸؛ ۴:۲۰، ۲۱) نیز سب سے بڑھکر ہمیں یہوواہ کی خوشنودی حاصل ہوگی۔
اس کے برعکس، ریاکار لوگوں کا انجام بھیانک ہوگا۔ آخرکار ریاکاری بےنقاب ہو جائے گی۔ یسوع مسیح نے کہا: ”کوئی چیز ڈھکی نہیں جو کھولی نہ جائے گی اور نہ کوئی چیز چھپی ہے جو جانی نہ جائے گی۔“ (متی ۱۰:۲۶؛ لوقا ۱۲:۲) دانشمند بادشاہ سلیمان نے بیان کِیا: ”خدا ہر ایک فعل کو ہر ایک پوشیدہ چیز کے ساتھ خواہ بھلی ہو خواہ بُری عدالت میں لائے گا۔“—واعظ ۱۲:۱۴۔
اس دوران کیا ہمیں دوسروں کی ریاکاری سے اس حد تک متاثر ہونا چاہئے کہ یہ ہمیں سچے دوستوں کی حقیقی محبت سے بھی محروم کر دے؟ ہم حد سے زیادہ شکیمزاج ہوئے بغیر احتیاط سے کام لے سکتے ہیں۔ تاہم ہمیں ہر صورت میں اپنی محبت اور اپنے ایمان کو ریاکاری سے پاک رکھنا چاہئے۔—یعقوب ۳:۱۷؛ ۱-پطرس ۱:۲۲۔
[صفحہ ۲۲، ۲۳ پر تصویریں]
کیا آپ فقیہوں اور فریسیوں کی ریاکاری کو اس بات کی اجازت دیتے کہ وہ آپکو یسوع مسیح اور اُسکے شاگردوں سے دُور رکھتی؟