کیا واقعی یہ آخری ایّام ہیں؟
آپ کشتی کے اگلے حصے میں بیٹھے ہیں اور یہ ایک خطرناک دھارے میں داخل ہو جاتی ہے۔ پانی کی جھاگ اور پھوار سے بڑے بڑے پتھر بھی دُھندلے دکھائی دے رہے ہیں۔ آپ چپّو کی مدد سے اُن سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کے پیچھے بیٹھے شخص کو کشتی چلانے میں مدد کرنی چاہئے لیکن وہ ناتجربہکار ہے۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ آپ کے پاس کوئی نقشہ نہیں ہے اسلئے آپ کو کوئی اندازہ نہیں کہ ان کراڑوں کا اختتام ایک ندی پر ہوگا یا کسی آبشار پر۔
یہ کوئی خوشگوار منظر نہیں، کیا ہے؟ آئیے اسے بدل کر دیکھیں۔ تصور کریں کہ آپ کے ساتھ ایک تجربہکار گائیڈ ہے جو اس دریا کی ہر چٹان، ہر پیچوخم سے واقف ہے۔ اُسے پہلے ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ کفآلود پانی آ رہا ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ کہاں پر ختم ہوگا اور اُسے یہ بھی پتہ ہے کہ اُس نے اس میں سے اپنا راستہ کیسے بنانا ہے۔ کیا آپ بہت زیادہ محفوظ محسوس نہیں کرینگے؟
واقعی، ہم سب ایسی ہی خطرناک صورتحال میں مبتلا ہیں۔ ہم، اپنی کسی ذاتی غلطی کے بغیر، خود کو انسانی تاریخ کے بدترین دَور میں پاتے ہیں۔ بہتیرے لوگ یہ نہیں جانتے کہ حالتیں کب تک ایسی ہی رہینگی، آیا یہ حالتیں بہتر ہونگی یا ان کے دوران بچنے کا بہترین طریقہ کیا ہے۔ لیکن ہمیں مایوس یا بےیارومددگار محسوس کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے خالق نے ہمیں ایک گائیڈ عطا کِیا ہے—وہ جس نے تاریخ کے اس تاریک دَور کا قبلازوقت ذکر کِیا جو پیشبینی کرتا ہے کہ اسکا اختتام کیسے ہوگا اور ہمیں بچنے کے لئے درکار راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ یہ گائیڈ ایک کتاب، بائبل ہے۔ اسکا مصنف، یہوواہ خدا، خود کو عظیم مُعلم کہتا ہے اور یسعیاہ نبی کے ذریعے بڑے فخر سے فرماتا ہے: ”جب تُو دہنی یا بائیں طرف مڑے تو تیرے کان تیرے پیچھے سے یہ آواز سنیں گے کہ راہ یہی ہے اس پر چل۔“ (یسعیاہ ۳۰:۲۰، ۲۱) کیا آپ ایسی راہنمائی کا خیرمقدم کرینگے؟ توپھر آئیے اس بات پر غور کریں کہ آیا بائبل واقعی قبلازوقت بتاتی ہے کہ ہمارے ایّام کیسے ہونگے۔
یسوع کے پیروکار ایک بامقصد سوال پوچھتے ہیں
یسوع کے پیروکار ضرور حیران ہوئے ہونگے۔ اسلئے کہ یسوع نے اُنہیں تھوڑی دیر پہلے واضح الفاظ میں بتایا تھا کہ یروشلیم میں ہیکل کی پُرشکوہ عمارتیں بالکل تباہ ہو جائینگی! ایسی پیشبینی حیرانکُن تھی۔ اسکے تھوڑی ہی دیر کے بعد، جب وہ زیتون کے پہاڑ پر بیٹھے تھے تو چار شاگردوں نے یسوع سے پوچھا: ”ہم کو بتا کہ یہ باتیں کب ہونگی؟ اور تیرے آنے [”موجودگی،“ اینڈبلیو] اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا؟“ (متی ۲۴:۳؛ مرقس ۱۳:۱-۴) خواہ اُنہوں نے اس بات کو سمجھا یا نہیں، یسوع کے جواب کے کئی اطلاق ہونگے۔
یروشلیم کی ہیکل کی تباہی اور یہودی نظام کے خاتمے کا وقت اور مسیح کی موجودگی اور تمام دُنیاوی نظام کے خاتمے کا وقت ایک ہی نہیں تھا۔ تاہم، اپنے مفصل جواب میں، یسوع نے بڑی مہارت سے اس سوال کے تمام پہلوؤں پر روشی ڈالی۔ اُس نے اُنہیں بتایا کہ یروشلیم کے خاتمے سے قبل حالتیں کیسی ہونگی؛ اُس نے اُنہیں یہ بھی بتایا کہ اُسکی موجودگی کے دوران کیسی دُنیا کی توقع کی جائیگی، وہ بادشاہ کے طور پر کب آسمان پر حکمرانی کر رہا ہوگا اور تمام دُنیاوی نظامالعمل کو اُسکے انجام کے قریب لا رہا ہوگا۔
یروشلیم کا خاتمہ
پہلے اس بات پر غور کریں کہ یسوع نے یروشلیم اور اُس کی ہیکل کی بابت کیا فرمایا۔ تین دہے پیشتر، اُس نے دُنیا کے عظیمترین شہر کے لئے خوفناک مشکلات کے وقت کی پیشینگوئی کی۔ لوقا ۲۱:۲۰، ۲۱ میں درج اُس کے الفاظ پر خصوصی توجہ دیں: ”جب تم یرؔوشلیم کو فوجوں سے گِھرا ہوا دیکھو تو جان لینا کہ اُس کا اُجڑ جانا نزدیک ہے۔ اُس وقت جو یہوؔدیہ میں ہوں پہاڑوں پر بھاگ جائیں اور جو یرؔوشلیم کے اندر ہوں باہر نکل جائیں اور جو دیہات میں ہوں شہر میں نہ جائیں۔“ اگر یروشلیم کا محاصرہ ہو جانا تھا، فوجوں نے اُس کے گِرد ڈیرے ڈال لینے تھے تو یسوع کے حکم کے مطابق ”جو یرؔوشلیم کے اندر“ تھے وہ کیسے ”نکل“ سکتے تھے؟ واضح طور پر یسوع اس بات کا اشارہ دے رہا تھا کہ ایک موقع نکل آئے گا۔ کیا ایسے ہوا؟
۶۶ س.ع. میں، رومی فوجوں نے سیسٹیئس گیلس کی زیرِکمان یہودی باغی فوجوں کو واپس یروشلیم مار بھگایا اور اُنکی تحاریک کو اُس شہر تک محدود کر دیا۔ رومی تو شہر کے اندر تک گھس آئے اور ہیکل کی دیوار تک پہنچ گئے۔ لیکن پھر گیلس نے اپنی فوجوں کو ایسا کام کرنے کا حکم دیا جو واقعی بوکھلا دینے والا تھا۔ اُس نے اُنہیں پسپائی کا حکم دے دیا! فتح پر نازاں یہودی سپاہیوں نے تعاقب کِیا اور فرار ہونے والے اپنے رومی دشمنوں کو نقصان پہنچایا۔ یوں، یسوع کا پہلے سے بیانکردہ موقع پیدا ہو گیا۔ سچے مسیحیوں نے اُسکی آگاہی پر دھیان دیا اور یروشلیم سے نکل گئے۔ یہ دانشمندانہ فیصلہ تھا کیونکہ صرف چار سال بعد ہی رومی فوجیں جنرل ٹائٹس کی زیرِکمان واپس آ گئیں۔ اس مرتبہ کسی قسم کا بچاؤ ممکن نہیں تھا۔
رومی فوجوں نے یروشلیم کو دوبارہ گھیرے میں لے لیا؛ اُنہوں نے اسکے گِرد نوکدار لکڑیوں سے مورچہ باندھا۔ یسوع نے یروشلیم کے حق میں نبوّت کی تھی: ”وہ دن تجھ پر آئینگے کہ تیرے دشمن تیرے گِرد مورچہ باندھ کر تجھے گھیر لینگے اور ہر طرف سے تنگ کرینگے۔“a (لوقا ۱۹:۴۳) تھوڑی ہی دیر میں یروشلیم کو شکست ہو گئی؛ اُسکی پُرشکوہ ہیکل دھواں اُٹھتے ہوئے کھنڈر بن کر رہ گئی۔ یسوع کی باتیں ہر طرح سے پوری ہوئیں!
تاہم، یسوع کے ذہن میں یروشلیم کی تباہی سے زیادہ کچھ تھا۔ اُسکے شاگردوں نے اُسکی موجودگی کے نشان کی بابت بھی پوچھا تھا۔ وہ اُس وقت اسکی بابت نہیں جانتے تھے مگر اس نے ایسے وقت کی طرف اشارہ کِیا جب وہ حکمرانی کرنے کیلئے آسمان پر بادشاہ کے طور پر مسندنشین ہوگا۔ اُس نے کیا پیشینگوئی کی تھی؟
آخری ایّام میں جنگ
اگر آپ متی ۲۴ اور ۲۵ ابواب، مرقس ۱۳ باب اور لوقا ۲۱ باب پڑھیں تو آپ اس بات کا واضح ثبوت دیکھینگے کہ یسوع ہمارے زمانے کی بابت گفتگو کر رہا تھا۔ اُس نے جنگوں کے دَور کی پیشینگوئی کی—صرف ”لڑائیاں اور لڑائیوں کی افواہ“ ہی کی نہیں جس نے انسانی تاریخ کو ہمیشہ داغدار بنائے رکھا ہے بلکہ ایسی جنگوں کی بھی پیشینگوئی کی جس میں ’ایک قوم دوسری قوم کے خلاف اور ایک سلطنت دوسری سلطنت کے خلاف‘ نبردآزما ہوتی ہے—جیہاں، بڑی بڑی بینالاقوامی جنگیں۔—متی ۲۴:۶-۸۔
ذرا سوچیں کہ ہماری صدی میں جنگی طریقہ کسطرح بدل گیا ہے۔ ایک وقت تھا جب جنگ محض دو مخالف اقوام کی نمائندگی کرنے والی فوجوں کے درمیان لڑی جاتی تھی جس میں وہ میدانِجنگ میں ایک دوسرے کو تلوار سے کاٹتے یا ایک دوسرے پر بندوق سے گولیاں برساتے تھے، یہ بڑا خوفناک تھا۔ لیکن ۱۹۱۴ میں جنگِعظیم شروع ہو گئی۔ یکےبعددیگرے قومیں ایک دوسرے کیخلاف جوابی کارروائی کے اصول کے تحت—پہلی عالمی جنگ—کی آگ میں کودتی چلی گئیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اور دور سے مار کرنے والے خودکار ہتھیار بنائے گئے۔ مشین گنیں بڑی تیزی سے گولیاں برساتی تھیں؛ رائی گیس نے ہزاروں کی تعداد میں فوجیوں کو جھلسا دیا، تکلیف پہنچائی، معذور کر دیا اور ہلاک کر ڈالا؛ ٹینک بڑی بڑی شعلہزن گنوں کے ساتھ دشمنوں کی صفوں میں بےرحمی سے گرجتے رہے۔ ہوائی جہاز اور آبدوزیں بھی استعمال ہونے لگیں—یہ آجکل استعمال ہونے والی چیزوں کا محض عکس تھے۔
دوسری عالمی جنگ تو انسانی تصور سے بھی بڑھکر تھی—اس نے لاکھوں لوگوں کو ہلاک کرکے اپنی پیشرو کو واقعی نیچا دکھا دیا۔ بڑے بڑے طیارہبردار بحری جہازوں نے پانی میں تیرنے والے شہروں کی مانند سمندروں میں ڈیرے ڈال رکھے تھے اور دشمن کے نشانوں پر آسمان سے موت برسانے کے لئے جہاز اُڑتے تھے۔ آبدوزیں تارپیڈو گولے چھوڑتی اور دشمن کے بحری جہازوں کو غرقاب کر دیتی تھیں۔ اور ایٹم بم پھینکے جاتے تھے جس سے ہر دھماکے میں ہزاروں زندگیوں کا صفایا ہو جاتا تھا۔ بالکل جیسے یسوع نے پیشینگوئی کی تھی، اس جنگی دَور کی نشاندہی کرنے کے لئے بہت سی ”دہشتناک باتیں“ واقع ہوئیں۔—لوقا ۲۱:۱۱۔
کیا دوسری عالمی جنگ سے لیکر جنگ ٹھنڈی پڑ گئی ہے؟ ہرگز نہیں۔ بعضاوقات تو ایک ہی سال میں عملاً درجنوں جنگیں لڑی جا رہی ہوتی ہیں—حتیٰکہ ۱۹۹۰ کے دہے میں بھی لاکھوں اموات واقع ہوئی ہیں۔ اور جنگ کے اوّلین متاثرین میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ ہلاک ہونے والے اب بنیادی طور پر فوجی ہی نہیں ہوتے۔ آجکل، جنگ کا شکار ہونے والے زیادہتر—دراصل، ۹۰ فیصد سے بھی زیادہ—عام شہری ہوتے ہیں۔
نشان کے دیگر پہلو
جنگ تو یسوع کے بتائے گئے نشان کا محض ایک پہلو ہے۔ اُس نے یہ آگاہی بھی دی تھی کہ ”کال“ پڑینگے۔ (متی ۲۴:۷) اگرچہ ظاہری طور پر یہ بات متناقض دکھائی دے کہ زمین تمام نوعِانسان کی غذائی ضروریات سے زیادہ اناج پیدا کر رہی ہے اگرچہ علمِزراعت انسانی تاریخ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی کر گیا ہے اگرچہ دُنیا کے کونے کونے میں خوراک پہنچانے کیلئے نقلوحمل کے زیادہ تیز اور مؤثر ذرائع موجود ہیں توبھی واقعی ایسا ہوا ہے۔ اس سب کے باوجود، دُنیا کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ ہر روز بھوکا رہتا ہے۔
یسوع نے یہ بھی پہلے سے بتا دیا تھا کہ ”جابجا . . . مری“ پڑیگی۔ (لوقا ۲۱:۱۱) ایک بار پھر ہمارے دَور نے عجیب تناقض کو دیکھا ہے—پہلے سے کہیں بہتر طبّی نگہداشت دستیاب ہے، حرفیاتی ترقیاں ہوئی ہیں، بہت سی عام بیماریوں کی روکتھام کے لئے ویکسین موجود ہیں؛ لیکن اس کے باوجود وبائی امراض میں وسیع پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے فوراً بعد سپینش انفلوئنزا حملہآور ہوا اور جنگ سے زیادہ زندگیوں کو نگل لیا۔ یہ بیماری اتنی متعدی تھی کہ نیو یارک جیسے شہروں میں لوگوں کو محض چھینکنے پر جُرمانہ یا جیل ہو جاتی تھی۔ آجکل، کینسر اور دل کی بیماری ہر سال لاکھوں زندگیاں ہڑپ کر لیتی ہے—حقیقی وبائیں۔ اور ایڈز مسلسل موت کا باعث بن رہی ہے اور بنیادی طور پر طبّی سائنس کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں۔
یسوع مسیح نے زیادہتر تاریخی اور سیاسی حالات کے وسیع مفہوم میں آخری ایّام پر گفتگو کی، جبکہ پولس رسول نے معاشرتی مسائل اور عام رجحانات پر روشنی ڈالی۔ اُس نے جزوی طور پر لکھا: ”لیکن یہ جان رکھ کہ اخیر زمانہ میں بُرے دن آئینگے۔ کیونکہ آدمی خودغرض۔ . . . ناپاک۔ طبعی محبت سے خالی۔ سنگدل۔ . . . بےضبط۔ تُندمزاج۔ نیکی کے دشمن۔ دغاباز۔ ڈھیٹھ۔ گھمنڈ کرنے والے۔ خدا کی نسبت عیشوعشرت کو زیادہ دوست رکھنے والے ہونگے۔“—۲-تیمتھیس ۳:۱-۵۔
کیا یہ الفاظ آپ کو مانوس معلوم ہوتے ہیں؟ آج کی دُنیا میں معاشرتی تنزلی کے محض ایک پہلو پر غور کریں—خاندانی انتشار۔ شکستہ گھرانوں کی طوفانی لہر، زدوکوب کی جانے والی بیویاں، مظلوم بچے اور بدسلوکی کا شکار عمررسیدہ والدین—ان حالتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ ”طبعی محبت سے خالی“ ہیں، وہ ”تُندمزاج،“ اور ”دغاباز،“ ”نیکی کے دشمن“ بھی ہیں! جیہاں، آجکل ہم ان خصائل کو وبا کی طرح پھیلتے ہوئے دیکھتے ہیں۔
کیا ہماری ہی نسل کی بابت پیشینگوئی کی گئی تھی؟
تاہم، آپ شاید سوچیں، ’کیا ان حالتوں نے ہمیشہ ہی سے نوعِانسان کو دق نہیں کِیا؟ ہم کیسے جانتے ہیں کہ ان قدیم پیشینگوئیوں میں ہماری جدید نسل کی بابت ہی پیشینگوئی کی گئی تھی؟‘ آئیے شہادت کے تین پہلوؤں پر غور کریں جو ثابت کرتے ہیں کہ یسوع ہمارے زمانے کا ذکر کر رہا تھا۔
اوّل، اگرچہ یروشلیم اور اسکی ہیکل کی تباہی جزوی، ابتدائی تکمیل تھی توبھی یسوع کے الفاظ نے اُس زمانے سے آگے مستقبل کی طرف اشارہ کِیا تھا۔ یروشلیم کو برباد کر دینے والے انقلاب کے تقریباً ۳۰ سال بعد، یسوع نے عمررسیدہ رسول یوحنا کو رویا دی جس میں دکھایا کہ پیشینگوئیکردہ حالتیں—جنگ، کال، وبا اور انجامکار موت—مستقبل میں عالمی پیمانے پر وقوعپذیر ہونی تھیں۔ جیہاں، یہ مصائب کسی ایک علاقے کو نہیں بلکہ پوری ”زمین“ کو اپنی لپیٹ میں لے لینگے۔—مکاشفہ ۶:۲-۸۔
دوم، اس صدی میں یسوع کے نشان کے پہلو وسیع پیمانے پر تکمیلپذیر ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر، کیا اب کوئی کسر باقی ہے کہ جنگیں ۱۹۱۴ کی نسبت زیادہ بدتر ہوں؟ اگر کوئی تیسری عالمی جنگ ہوتی جس میں آجکل کی تمام نیوکلیئر طاقتیں اپنے ہتھیاروں کو بروئےکار لاتیں تو نتیجتاً یہ زمین شاید راکھ کا ڈھیر ہوتی اور نوعِانسان ناپید ہو گئے ہوتے۔ اسی طرح، مکاشفہ ۱۱:۱۸ نے پیشازوقت بیان کِیا کہ ان دنوں میں جبکہ قومیں ”غصے“ میں ہیں، نوعِانسان ”زمین کو تباہ“ کر رہے ہونگے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ، آلودگی اور ماحولیاتی تباہی نے اب اس سیّارے کی قابلِرہائش حالت کو خطرے میں ڈال دیا ہے! لہٰذا اس پہلو کی تکمیل بھی اپنی آخری حد کو چھونے والی ہے۔ کیا جنگیں اور آلودگی اُس وقت تک بد سے بدتر ہوتی جائینگی جب تک انسان خود کو اور اس سیّارے کو تباہ نہیں کر دیتا؟ ہرگز نہیں؛ اِسلئےکہ بائبل خود بیان کرتی ہے کہ زمین ہمیشہ تک قائم رہیگی اور صادق اس پر آباد ہونگے۔—زبور ۳۷:۲۹؛ متی ۵:۵۔
سوم، آخری ایّام کے نشان پر جب مجموعی طور پر غور کِیا جائے تو یہ خاص طور پر قائل کرنے والا بن جاتا ہے۔ مجموعی طور پر جب ہم تینوں اناجیل میں یسوع کے فرمودہ پہلوؤں، پولس کی تحریروں اور مکاشفہ میں پائے جانے والے پہلوؤں پر غور کرتے ہیں تو اس نشان کے متعدد پہلو سامنے آتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص ہر پہلو پر نکتہچینی کرے اور استدلال کرے کہ دیگر زمانوں میں بھی ایسے ہی مسائل دیکھنے میں آئے ہیں لیکن جب ہم ان سب کو اکٹھا کرکے غور کرتے ہیں تو یہ واضح طور پر ایک ہی زمانے—ہمارے زمانے—کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
تاہم، یہ سب کچھ کیا مطلب رکھتا ہے؟ یہ کہ بائبل ہمارے زمانے کو محض مایوسی، نااُمیدی کا دَور ہی کہتی ہے؟ ہرگز نہیں!
خوشخبری
آخری ایّام کے نشان کا ایک نہایت قابلِذکر پہلو متی ۲۴:۱۴ میں درج ہے: ”بادشاہی کی اس خوشخبری کی منادی تمام دُنیا میں ہوگی تاکہ سب قوموں کیلئے گواہی ہو۔ تب خاتمہ ہوگا۔“ اس صدی میں، یہوواہ کے گواہوں نے ایک ایسا کام انجام دیا ہے جسکی مثال پوری انسانی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اُنہوں نے یہوواہ خدا کی بادشاہت کی بابت بائبل کے پیغام کو قبول کِیا—یہ کیا ہے، یہ کیسے حکمرانی کرتی ہے اور یہ کیا کام سرانجام دیگی—اور اس پیغام کو ساری زمین پر پھیلایا ہے۔ اُنہوں نے اس موضوع پر ۳۰۰ سے زائد زبانوں میں لٹریچر شائع کِیا ہے اور اسے عملاً زمین کے ہر خطے میں لوگوں کے پاس اُنکے گھروں میں یا گلیکوچوں میں یا اُنکی جائےملازمت پر پہنچایا ہے۔
ایسا کرنے سے، وہ اس پیشینگوئی کو پورا کر رہے ہیں۔ لیکن وہ اُمید بھی دے رہے ہیں۔ غور کریں کہ یسوع نے اسے ”خوشخبری“ کہا تھا بُری خبر نہیں۔ اس تاریک زمانے میں یہ کیونکر ہو سکتا ہے؟ کیونکہ بائبل کا مرکزی پیغام یہ نہیں کہ اس فرسودہ دُنیا کے خاتمے پر حالتیں اَور کتنی بُری ہونگی۔ اسکا مرکزی پیغام تو خدا کی بادشاہت ہے، اور یہ کہ بادشاہتی وعدے ہر امنپسند انسان کے نزدیک گرانقدر ہیں—مخلصی۔
یہ مخلصی کیا ہے اور یہ آپکو کیسے حاصل ہو سکتی ہے؟ اس موضوع پر براہِمہربانی ۲۰-۲۹ صفحات کے مضامین پر غور کریں۔
[فٹنوٹ]
a ٹائٹس نے فیصلہکُن کارروائی کی۔ تاہم، دو اہم طریقوں سے وہ حسبِمنشا کام نہ کر سکا۔ اُس نے پُرامن طریقے سے ہتھیار ڈال دینے کی پیشکشیں کیں مگر شہر کے رہنماؤں نے ہٹدھرمی سے، بِلاتوجیہ انکار کر دیا۔ اور جب شہر کی فصیلوں میں بالآخر رخنہ پڑ گیا تو اُس نے ہیکل کو تباہ نہ کرنے کا حکم دیا۔ لیکن اسے مکمل طور پر جلا دیا گیا! یسوع کی پیشینگوئی نے واضح کر دیا تھا کہ یروشلیم ویران ہو جائیگا اور یہ کہ ہیکل مکمل طور پر مسمار کر دی جائیگی۔—مرقس ۱۳:۱، ۲۔
[صفحہ 5 پر عبارت]
لوگ ایسے پریشانکُن سوالات کا جواب تلاش کر رہے ہیں، حالات اسقدر خراب کیوں ہیں؟ نوعِانسان کس طرف جا رہے ہیں؟
[صفحہ 6 پر عبارت]
آجکل، جنگ کا شکار ہونے والے ۹۰ فیصد سے زیادہ عام شہری ہوتے ہیں
[صفحہ 7 پر تصویر]
یروشلیم کی تباہی کی بابت یسوع کی پیشینگوئی ہر لحاظ سے پوری ہوئی