برداشت جو کہ فتح پاتی ہے
”تمہیں برداشت کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ، خدا کی مرضی پوری کر کے وعدہ کی ہوئی چیز حاصل کر سکو۔“ عبرانیوں ۱۰:۳۶، NW۔
۱. آجکل یہوواہ خدا کی خدمت کرنے والے ہر شخص کیلئے برداشت کیوں ضروری ہے؟
یہ ساری دنیا ایک بغاوتپسند معبود کے قبضہ میں ہے۔ اس کا نادیدہ حکمران، شیطان یعنی ابلیس، اپنی تمامتر کوششوں کو یہوواہ کی مخالفت کرنے اور مسیحائی بادشاہت کے ذریعے اس کی عالمگیر حاکمیت کی سربلندی کے خلاف لڑنے کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ یہ اس چیز کو ناگزیر بنا دیتا ہے کہ جو کوئی بھی خود کو خدا کیلئے مخصوص کرتا اور حاکمیت کے مسئلے میں خدا کا حامی بنتا ہے مسلسل اس دنیا کی طرف سے مخالفت کا سامنا کرے گا۔ (یوحنا ۱۵:۱۸-۲۰، ۱-یوحنا ۵:۱۹) پس، ہم میں سے ہر ایک کو چاہئے کہ خود کو اس وقت تک برداشت کرنے کیلئے مضبوط کرے جب تک ہرمجدون پر اس دنیا کو شکستفاش نہیں ہو جاتی۔ خدا کے ان فاتح لوگوں میں سے ایک ہونے کیلئے جو اپنے ایمان اور راستی سے دنیا پر غالب آتے ہیں، ہمیں آخر تک مستقل مزاجی سے قائم رہنے کی ضرورت ہے۔ (۱-یوحنا ۵:۴) ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟
۲، ۳. یہوواہ خدا اور یسوع مسیح کسطرح سے برداشت کی عظیمترین مثالیں ہیں؟
۲ ایک چیز تو یہ ہے، کہ ہم حوصلہافزائی کیلئے برداشت کی دو نمایاں مثالوں پر غور کر سکتے ہیں۔ وہ کون ہیں؟ ایک تو ”تمام مخلوقات سے پہلے مولود“ یسوع مسیح ہے، جو ماضی میں کسی نامعلوم وقت پر اپنے وجود میں لائے جانے کے وقت سے لے کر وفاداری سے خدا کی خدمت میں ثابت قدم رہا ہے۔ وفاداری سے خدا کی خدمت میں ثابت قدم رہنے میں، یسوع اس تمام ذیشعور خلائق کیلئے نمونہ بنا جو اس کے بعد آسمان اور زمین پر وجود میں لائی گئیں۔ (کلسیوں ۱:۱۵، ۱۶) تاہم، برداشت کی سب سے بڑی مثال یہوواہ خدا ہے، جس نے بڑے عرصے سے اپنی عالمگیر حاکمیت کے خلاف بغاوت کو برداشت کیا ہے اور اس وقت تک کرتا رہے گا جب تک وہ ہمیشہ کیلئے حاکمیت کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے کارروائی نہیں کرتا۔
۳ یہوواہ نے ایسے معاملات میں ایک مثالی طریقے سے برداشت کیا ہے جہاں پر کہ اسکی عظمت اور شدید ذاتی احساسات کا معاملہ ہے۔ اس نے خود کو سخت غصہ دلائے جانے کی صورت میں باز رکھا ہے اور اپنے اوپر تہمت لگانے والوں بشمول شیطان ابلیس کے خلاف کارروائی کرنے سے خود کو روکے رکھا ہے۔ ہم خدا کی برداشت اور اسکے رحم کے لیے شکرگزار ہیں۔ انکے بغیر، ہم نے نہایت ہی قلیل زندگی سے بھی لطف نہ اٹھایا ہوتا۔ واقعی، یہوواہ خدا نے اپنی برداشت کے ذریعے خود کو لاثانی طور پر ممتاز کیا ہے۔
۴، ۵. (ا)پولس کی ایک کمہار کی مثال کسطرح سے خدا کی برداشت اور رحم کو ظاہر کرتی ہے؟ (ب) خدا کا رحم کسطرح سے بےجا مستعمل ثابت نہ ہو گا؟
۴ پولس رسول خدا کے رحم اور برداشت دونوں کی نشاندہی کرتا ہے جب وہ کہتا ہے: ”کیا کمہار کو مٹی پر اختیار نہیں کہ ایک ہی لوندے میں سے ایک برتن عزت کیلئے بنائے اور دوسرا بےعزتی کیلئے؟ پس کیا تعجب ہے اگر خدا اپنا غضب ظاہر کرنے اور اپنی قدرت آشکارا کرنے کے ارادہ سے غضب کے برتنوں کے ساتھ جو ہلاکت کیلئے تیار ہوئے تھے نہایت تحمل سے پیش آیا اور یہ اسلئے ہوا کہ اپنے جلال کی دولت رحم کے برتنوں کے ذریعہ سے آشکارا کرے جو اس نے جلال کیلئے پہلے سے تیار کئے تھے یعنی ہمارے ذریعہ سے جنکو اس نے نہ فقط یہودیوں میں سے بلکہ غیر قوموں میں سے بھی بلایا؟“ رومیوں ۹:۲۱-۲۴۔
۵ جیسے کہ یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں، اسکی برداشت کے موجودہ دور میں، یہوواہ اپنے جلالی مقصد کے ساتھ آگے بڑھتا ہے اور بعض انسانی برتنوں پر رحم ظاہر کرتا ہے۔ وہ ان برتنوں کو ابدی جلال کیلئے تیار کرتا ہے اور یوں اپنے بڑے مخالف، شیطان، ابلیس، اور شیطان کے تمام ہممقصد ساتھیوں کے شریر مقاصد کو شکست دیتا ہے۔ تمام نسلانسانی غضب کے برتن ثابت نہیں ہوئی، جو کہ ہلاکت کے مستحق ہوں۔ یہ قادرمطلق خدا کی صبرآزما برداشت کو خوب بیان کرتا ہے۔ اسکا رحم رائیگاں نہیں جائیگا۔ یہ (۱) آسمان میں یہوواہ خدا کے پیارے بیٹے، یسوع مسیح کے تحت ایک جلالی بادشاہتی خاندان، اور (۲) زمینی فردوس پر انسانی مخلوقات کی ایک بحالشدہ اور کاملکردہ نسل پر منتج ہو گا، جو سب کے سب ابدی زندگی کے وارث ہو نگے۔
آخر تک برداشت کرنا
۶. (ا)مسیحی برداشت کے امتحان سے کیوں بچ نہیں سکتے؟ (ب) ”برداشت“ کیلئے یونانی لفظ عام طور پر کیا دلالت کرتا ہے؟
۶ اپنے سامنے ایسی شاندار امید کیساتھ ، یسوع کے صحتبخش الفاظ کو مسلسل ہمارے کانوں میں گونجتے رہنا چاہئے، یعنی: ”جو آخر تک برداشت کریگا وہی نجات پائیگا۔“ (متی ۲۴:۱۳) مسیحی شاگردی کی دوڑ میں اچھا آغاز کرنا نہایت ضروری ہے۔ لیکن انجامکار اسکا انحصار اس پر ہے کہ ہم کسطرح برداشت کرتے ہیں، اور ہم دوڑ کو کتنی اچھی طرح “سے ختم کرتے ہیں۔ پولس رسول نے اس پر زور دیا جب اس نے کہا: ”تمہیں برداشت کی ضرورت ہے تاکہ خدا کی مرضی پوری کر کے وعدہ کی ہوئی چیز حاصل کرسکو۔“ (عبرانیوں ۱۰:۳۶، NW) یونانی لفظ جس کا ترجمہ یہاں پر ”برداشت“ کیا گیا ہے ہائپومونی ہے۔ یہ عام طور پر جرأتمندانہ، مستحکمانہ ، یا بردبارانہ برداشت کی دلالت کرتا ہے جو رکاوٹوں، اذیتوں، مصیبتوں، آزمائشوں کے سامنے امید کے دامن کو نہیں چھوڑتی۔ اگر ہم بالآخر نجات کو حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں، تو ہمیں اس نجات کیلئے ضروری تیاری کے لازمی حصے کے طور پر برداشت کے امتحان سے گزرنا چاہئے۔
۷. ہمیں کس مغالطہآمیزی سے گریز کرنا چاہئے، اور برداشت کرنے میں کس کی مثال ہماری مدد کرے گی؟
۷ ہمیں خود کو اس دلکش خیال سے دھوکا نہیں دینا چاہئے کہ ہم جلدی کرکے اس امتحان سے نکل سکتے ہیں۔ تاکہ عالمگیر حاکمیت اور انسان کی وفاداری کے متنازع مسائل دانشمندی سے حل کئے جائیں، یہوواہ نے اپنی پوری کوشش کی۔ اس نے ناخوشگوار چیزوں کو برداشت کیا ہے اگرچہ وہ فوراً انہیں ختم کر سکتا تھا۔ یسوع مسیح بھی برداشت کا ایک قابلتقلید نمونہ تھا۔ (۱-پطرس ۲:۲۱، مقابلہ کریں رومیوں ۱۵:۳-۵۔) ان شاندار مثالوں کو اپنے سامنے رکھتے ہو ئے، یقیناً ہم خود بھی آخر تک برداشت کرنے کیلئے رضامند ہیں۔ عبرانیوں ۱۲:۲، ۳۔
ایک مطلوبہ لیاقت
۸. ہم سب کو کس خوبی کی ضرورت ہے جسے پولس رسول نے ظاہر کیا تھا؟
۸ ابتدائی وقتوں سے ہی لے کر، اپنی وفاداری کو ثابت کرنے کیلئے خدا کے کسی بھی خادم کو برداشت کرنے کے ذریعے اپنی سالمیت کو ثابت کرنے کی ضرورت سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا گیا۔ بائبل کی تاریخ میں نہایت ہی نمایاں افراد جو جان دینے تک وفادار رہے اور آسمان میں ہمیشہ کی زندگی کے لائق ٹھہرے انہیں بھی اپنی ثابتقدمی کو ثابت کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر، سابقہ فریسی، ترسس کے ساؤل نے کرنتھیوں سے کہا: ”میں ان افضل رسولوں سے کسی بات میں کم نہیں اگرچہ کچھ نہیں ہوں۔ رسول ہونے کی علامتیں کمال صبر کیساتھ نشانوں اور عجیب کاموں اور معجزوں کے وسیلہ سے تمہارے درمیان ظاہر ہوئیں۔“ (۲-کرنتھیوں ۱۲:۱۱، ۱۲) کام کے بوجھ کے باوجود، پولس نے اپنی خدمتگزاری کو اتنا عظیم خیال کیا کہ اس نے اس کی خاطر بہت کچھ برداشت کیا اور خلوص نیت سے کوشش کی کہ اس پر کسی بھی طرح سے کوئی حرف نہ آ ئے۔ ۲-کرنتھیوں ۶:۳، ۴، ۹۔
۹. (ا)ممسوح بقیے نے کسطرح سے برداشت دکھائی ہے، اور کس نتیجے کیساتھ ؟ (ب) الہیٰ خدمت میں وفاداری سے چلتے رہنے کیلئے کونسی چیز ہمارے لئے ایک محرک کا کام دیتی ہے؟
۹ مزید جدید وقتوں میں، پہلی عالمی جنگ سے پہلے خدا کی خدمت کرنے والے ممسوح مسیحی جانتے تھے کہ ۱۹۱۴ کا سال غیرقوموں کی میعاد کے اختتام کی نشاندہی کر دے گا، اور ان میں سے بہتیرے اسی یادگار سال میں اپناآسمانی انعام حاصل کرنے کی توقع رکھتے تھے۔ لیکن ایسا نہ ہوا۔ جیسا کہ حقائق اب ظاہر کرتے ہیں، انہیں کئی سالوں تک انتظار کرنا پڑا۔ اپنی زمینی زندگی کی اس غیرمتوقع توسیع کے دوران، وہ یہوواہ کی طرف سے مزید پاک صاف کر دئے گئے۔ (زکریاہ ۱۳:۹، ملاکی ۳:۲، ۳) لگاتار برداشت نے ان کی بہتری کیلئے کام کیا۔ یہوواہ کے خادموں کے طور پر، وہ اسکے نام سے کہلانے والے لوگوں کے طور پر نامزد ہونے سے خوش ہو ئے۔ (یسعیاہ ۴۳:۱۰-۱۲، اعمال ۱۵:۱۴) آج کل، دو عالمی جنگوں اور متعدد چھوٹی لڑائیوں میں سے زندہ بچ نکلنے کے بعد، وہ اس بات سے خوش ہیں کہ خوشخبری کو پھیلانے کیلئے انہیں دوسری بھیڑوں کی بڑھتی ہوئی بڑی بھیڑ کی مدد حاصل ہے، جو کہ اب چار ملین سے بھی زیادہ ہیں۔ روحانی فردوس جس سے وہ لطفاندوز ہوتے ہیں وہ پوری زمین پر پھیل گیا ہے، یہاں تک کہ دوردراز کے سمندری جزائر میں بھی۔ یہ مہربانہ سلوک ، جس کی ہم جتنی زیادہ دیر تک زندہ رہتے ہیں اتنی زیادہ قدردانی کرتے ہیں، الہی خدمتگذاری کو وفاداری سے سرانجام دینے کیلئے ہمارے لئے ایک محرک ثابت ہوا ہے تاکہ ہم اس وقت تک خدمت کرتے رہیں جبتک یہوواہ کی مرضی اور مقصد مکمل طور پر تکمیل نہیں پا لیتے۔
۱۰. مبادا ہم کمزور پڑ جائیں، اسکے لئے ہمیں باقاعدگی سے کس چیز کی ضرورت ہے؟
۱۰ چونکہ ہمارے اجر کا انحصار ہماری ثابت قدمی پر ہے، اسلئے ہمیں اس اہم معاملے پر مسلسل نصیحت درکار ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۵۸، کلسیوں ۱:۲۳) تاکہ یہوواہ کے لوگوں میں کسی طرح کی کوئی کمزوری واقع نہ ہو، ہمیں سچائی پر قائم رہنے اور سچائی کو دوسروں تک لے جانے کے اس قیمتی استحقاق پر ثابت قدم رہنے کیلئے باقاعدہ حوصلہافزائی کی ضرورت ہے، بالکل اسی طرح جیسے پہلی صدی کی نئی بننے والی کلیسیاؤں کو پولس اور برنباس کی دوبارہ ملاقاتوں سے حاصل ہوئی تھی۔ (اعمال ۱۴:۲۱، ۲۲) ہمارا عزممصمم اور فیصلہ وہی ہونا چاہئے جیسے کہ رسول یوحنانے اسے بیان کیا، سچائی ہم میں قائم رہے گی، ”اور ابد تک ہمارے ساتھ رہے گی۔“ ۲-یوحنا ۲۔
غیرمتزلزل برداشت کے ساتھ منتظر رہنا
۱۱. اپنے خادموں کے لیے خدا کا کیا دستور نظر آتا ہے، اور اسے یوسف کے معاملے میں کیسے ظاہر کیا گیا تھا؟
۱۱ ہمیں درپیش امتحان کو مکمل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ (یعقوب ۱:۲-۴) ایسا لگتا ہے کہ ایمان پر قائم رہنے کیلئے انکے عزم کے امتحان کی بابت، اپنے خادموں کے ساتھ خدا کا دستور انتظار! انتظار! انتظار! رہا ہے۔ لیکن آخر کار، یہ انتظار، ان وفادار خادموں کیلئے ہمیشہ بااجر ثابت ہوتا تھا۔ مثال کے طور پر، یوسف، کو ایک قیدی اور غلام کے طور پر ۱۳ سال انتظار کرنا پڑا لیکن اس تجربے نے اسکی شخصیت کو نکھار دیا تھا۔ زبور ۱۰۵:۱۷-۱۹۔
۱۲، ۱۳. (ا)ابرہام کس طرح سے وفادارانہ برداشت کا ایک نمونہ تھا؟ (ب) کس طریقے سے ابرہام کا ایمان اور برداشت ہمارے لئے بطور نمونہ نمایاں کئے گئے ہیں؟
۱۲ ابرہام پہلے ہی ۷۵ برس کا تھا جب خدا نے اسے کسدیوں کے اور سے موعودہ ملک میں جانے کیلئے بلایا۔ وہ تقریباً ۱۲۵ برس کا تھا جب اسے خدا کی طرف سے وعدہ کی قسمیہ تصدیق ملی جو کہ ابرہام کے اپنے ایمان کی قوت کا مظاہرہ کرنے کیلئے اپنے پیارے بیٹے، اضحاق، کو قربان کر دینے کی حد تک جانے، اور صرف یہوواہ کے فرشتے کے ذریعے اسکے ہاتھ کو پیچھے ہٹانے اور قربانی سے روکنے کے فوراً بعد واقع ہوا۔ (پیدایش ۲۲:۱-۱۸) پچاس سال تک اجنبی ملک میں عارضی طور پر قیام کرنا ابرہام کیلئے ایک طویل وقت تھا، لیکن وہ مزید ۵۰ سال تک اس پر اٹل رہا جبتک کہ ۱۷۵ سال کی عمر میں وفات نہ پا گیا۔ اس تمام عرصہ کے دوران، ابرہام یہوواہ خدا کا ایک وفادار گواہ اور نبی تھا۔ زبور ۱۰۵:۹-۱۵۔
۱۳ ابرہام کا ایمان اور برداشت خدا کے ان تمام خادموں کیلئے بطور ایک نمونے کے نمایاں کئے گئے ہیں جو خدا سے ابرہام کی نسل، یسوع مسیح کے ذریعے وعدہ کی ہوئی برکات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ (عبرانیوں ۱۱:۸-۱۰، ۱۷-۱۹) اس کی بابت ہم عبرانیوں ۶:۱۱-۱۵ میں پڑھتے ہیں: ”اور ہم اس بات کے آرزومند ہیں کہ تم میں سے ہر شخص پوری امید کے واسطے آخر تک اسی طرح کوشش ظاہر کرتا رہے تاکہ تم سست نہ ہو جاؤ بلکہ انکی مانند بنو جو ایمان اور تحمل کے باعث وعدوں کے وارث ہوتے ہیں۔ چنانچہ جب خدا نے ابرہام سے وعدہ کرتے وقت قسم کھانے کے واسطے کسی کو اپنے سے بڑا نہ پایا تو اپنی ہی قسم کھا کر فرمایاکہ یقیناً میں تجھے برکتوں پر برکتیں بخشوں گا اور تیری اولاد کو بہت بڑھاؤ نگا۔ اور اس طرح [برداشت] کر کے [ابرہام] نے وعدہ کی ہوئی چیز کو حاصل کیا۔“
۱۴. کیوں ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ برداشت کا امتحان غیرمختتم اور اجر مغالطہآمیز ہے؟
۱۴ ممسوح بقیہ نے پہلے ہی، ۱۹۱۴ میں غیرقوموں کی میعاد کے خاتمہ سے لے کر ۷۷ سالوں کو بیت جاتے دیکھا ہے، جب ان میں سے بعض اس وقت سچی مسیحی کلیسیا کے آسمان میں جلال پانے کے متوقع تھے۔ بقیہ کو مزید کتنی دیر تک انتظار کرنا ہو گا یہ ہم نہیں جانتے۔ تو کیا پھر ہمیں متزلزل ہو جانا چاہئے اور یہ خیال کرنا چاہئے کہ انتظار غیرمختتم ہے اور اجر کبھی نہ ہاتھ آنے والی ایک مغالطہ آمیز چیز؟ نہیں! اس سے خدا کی حاکمیت کی سربلندی یا اس کے نام کی عزت کبھی نہ ہوگی۔ ہمیں فاتح قرار دیتے ہوئے اور اسکے نتیجے میں ہمیشہ کی زندگی کا انعام عطا کرتے ہوئے وہ کبھی بھی دنیا کے سامنے جواز پیش کرنے کے قابل نہ ہوگا۔ وقت کی میعاد سے قطعنظر، بقیہ، اپنے دیگر بھیڑخصلت وفادار ساتھیوں کے ساتھ ، اس بات کا مصمم ارادہ کئے ہوئے ہے کہ وہ یہوواہ کے اپنے وقت کے مطابق کارروائی کرنے کا انتظار کریں گے۔ ایسی قابلتقلید ثابتقدمی ظاہر کرنے میں، وہ ابرہام کی روش کی پیروی کرتے ہیں۔ رومیوں ۸:۲۳-۲۵۔
۱۵. (ا)ہمارا شناختی لفظ کیا ہے، اور خدا نے کن تجربات میں سے ہمیں کامیابی کیساتھ نکلنے دیا ہے؟ (ب) پولس کی طرف سے کونسی فہمائش ہمارے دنوں کیلئے موزوں رہتی ہے؟
۱۵ تو پھر، شناختی لفظ ہے، ابھی تک خدا کی مرضی پوری کرنے میں غیرمتزلزل برداشت۔ (رومیوں ۲:۶، ۷) ماضی میں اس نے ہمیں کٹھن مشکلات سے نکال باہر کیا ہے، بشمول قیدوبند اور اجتماعی کیمپوں کے، اور اس نے اپنے نام کے جلال اور مقصد کیلئے ہمیں فاتحانہ رہائی دلائی ہے۔a ہمارے امتحان کے مکمل ہونے میں جو وقت ابھی باقی ہے اسکے دوران بھی، یہوواہ ہمارے لیے ویسے ہی کرتا رہے گا۔ پولس کی یہ نصیحت ہمارے زمانے کیلئے بالکل موزوں ہے: ”کیونکہ تمہیں ثابتقدمی سے برداشت اور صبر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ تم خدا کی مرضی کی تعمیل آپ کیسے جواب دیں گے؟ کر سکو اور پوری طرح انجام دے سکو، اور یوں وعدہ کی ہوئی چیز حاصل کرو اور اسے ساتھ لے جاؤ اس سے پوری طرح استفادہ کرو۔“ عبرانیوں ۱۰:۳۶، دی ایمپلیفائڈ بائبل، رومیوں ۸:۳۷۔
۱۶. ہمیں یہوواہ کیلئے اپنی مخصوصیت کو محض ایک محدود طور سے یا مشروط خیال کیوں نہیں کرنا چاہئے؟
۱۶ تو پھر، جبتک یہوواہ کے پاس اس بدکار دنیا میں ہمارے کرنے کو کام ہے، یسوع کے نمونہ پر چلتے ہو ئے، ہم اس وقت تک اس کام کو کرتے رہنا چاہیں گے جب تک یہ مکمل نہیں ہو جاتا۔ (یوحنا ۱۷:۴) یہوواہ کیلئے ہماری مخصوصیت اس خیال کیساتھ نہیں تھی کہ ہم تھوڑے عرصہ کیلئے اسکی خدمت کریں گے اور پھر ہرمجدون آ جائے گی۔ ہماری مخصوصیت ہمیشہ کیلئے تھی۔ ہمارے لئے خدا کا کام ہرمجدون کی جنگ کیساتھ ختم نہیں ہو جاتا۔ تاہم، ہرمجدون کے آنے سے پہلے کئے جانے والے کام کو پورا کرنے کے بعد ہی ہم، اس بڑی لڑائی کے بعد آنے والی شاندار چیزوں کو دیکھ سکیں گے۔ تو پھر، اسکے کام کو جاری رکھنے کے مسرورکن شرف کے علاوہ، ہم ان برکات کا انعام حاصل کریں گے جنکی ہم نے بڑے عرصے سے امید کی ہوئی تھی۔ رومیوں ۸:۳۲۔
خدا کیلئے محبت ہمیں برداشت کرنے میں مدد دیتی ہے
۱۷، ۱۸. (ا) مشکلات کے زمانے میں خدا کی خوشنودی کیساتھ برداشت کرنے میں کیا چیز ہماری مدد کرے گی؟ (ب) فتح پانے کیلئے کیا چیز ہماری مدد کرے گی، اور باقیماندہ وقت کی بابت ہم کیا نہیں کہتے؟
۱۷ شاید، جب مشکل اوقات ہوں، تو ہم یہ پوچھیں: ”ہم کسطرح مزید برداشت کر سکتے ہیں؟“ اسکا جواب؟ اپنے سارے دل، جان اور عقل، اور طاقت کیساتھ یہوواہ سے محبت کرنے سے۔ : ”محبت [متحمل] اور مہربان ہے۔ محبت حسد نہیں کرتی۔ شیخی نہیں مارتی اور پھولتی نہیں۔ سب کچھ سہہ لیتی ہے۔ سب کچھ یقین کرتی ہے۔ سب باتوں کی امید رکھتی ہے۔ سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔ محبت کو زوال نہیں۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۳:۴، ۷، ۸) جب تک ہم خدا کیلئے محبت کی خاطر برداشت نہیں کر تے، ہماری برداشت کسی کام کی نہیں۔ لیکن اگر ہم یہوواہ کیلئے اپنی عقیدت کی خاطر مشکلات کو برداشت کرتے ہیں، تو پھر ہماری برداشت اسکے لیے ہماری محبت کو گہرا کرنے کی تاثیر رکھتی ہے۔ اپنے باپ، خدا کیلئے محبت نے، یسوع کو برداشت کرنے کے قابل بنایا۔ (یوحنا ۱۴:۳۰، ۳۱، عبرانیوں ۱۲:۲) اگر ہمارا حقیقی محرک اپنے خدا، اپنے باپ کیلئے محبت ہے، تو پھر کونسی ایسی چیز ہے جسکی ہم برداشت نہیں کر سکتے؟
۱۸ یہ یہوواہ خدا کیلئے ہماری غیرمتزلزل محبت ہی تو ہے جس نے امتحان کے اس کٹھنترین وقت کے دوران ہمیں دنیا پر فتح پانے کے قابل بنایا ہے۔ اور یہوواہ، یسوع مسیح کے ذریعے، ہمیں ضرورت کے مطابق مدد دیتا رہے گا اس سے قطعنظر کہ اس پرانے دستورالعمل کو کب تک رہنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ (۱-پطرس ۵:۱۰) بیشک ، ہم اسکی بابت کوئی پیشبینی نہیں کرتے کہ ابھی کتنا وقت باقی ہے، اور نہ ہی ہم کوئی مخصوص تاریخ مقرر کر رہے ہیں۔ ہم اسے وقت کے عظیم تعین کرنے وا لے، یہوواہ خدا پر چھوڑ دیتے ہیں۔ زبور ۳۱:۱۵۔
۱۹، ۲۰. (ا)ہر گزرنے والے دن کو ہمیں کیسا خیال کرنا چاہیے جسکی ہم برداشت کرتے ہیں؟ (ب) کس حماقت سے ہم بچنا چاہتے ہیں، اور کیوں؟
۱۹ تاہم، وہ نسل جس کی بابت پیشنگوئی کی گئی تھی کہ وہ ”اس دستورالعمل کے خاتمہ“ کی گواہ ہوگی اور اسکا تجربہ کرے گی وہ اب کافی عمررسیدہ ہو گئی ہے۔ (متی ۲۴:۳، ۳۲-۳۵) پس آئیے ہم یہ کبھی نہ بھولیں کہ ہر گذرتا دن جس میں ہم برداشت کرتے ہیں وہ شیطان اور اسکے شیاطین کے اپنے وجود کیساتھ اس دنیا کو آلودہ کرنے میں ایک دن کم کرتا ہے اور اس وقت کے ایک دن قریبتر لے جاتا ہے جب یہوواہ ”ہلاکت کیلئے تیار کئے گئے غضب کے برتنوں“ کی موجودگی کو مزید برداشت نہیں کرے گا۔ (رومیوں ۹:۲۲) جلد ہی، جب یہوواہ کا تحمل اپنے انجام کو پہنچ جائیگا تو وہ بے دین آدمیوں اور عورتوں پر اپنا قہرشدید نازل کریگا۔ یوں وہ، انکے طرزعمل کیلئے اپنی الہی ناپسندیدگی کو آشکارا کریگا، اگرچہ اس نے اس تمام عرصہ تک انہیں رہنے کی اجازت دی۔
۲۰ ہمارے لئے یہ نہایت ہی احمقانہ بات ہوگی کہ یسوع مسیح کے ذریعے اپنے آگے رکھے گئے جلالی انعام کو حاصل کرنے کیلئے اپنی پرمحبت کوششوں کو ترک کر دیں۔ بلکہ، ہم اس نہایت ہی اہم زمانے میں یہوواہ کیلئے گواہوں کے طور پر وفاداری سے کام کو جاری رکھنے کا عزممصمم کئے ہوئے ہیں جب یہوواہ عالمگیر حاکم کے طور پر خود کو سربلند کرنے والا ہے۔ (۸ ۱۱/۱ w۹۱)
[فٹنوٹ]
a مثال کے طور پر کریسٹین الزبتھ کنگ نے لکھا: ”[نازی] حکومت صرف گواہوں کے خلاف ہی ناکام تھی، اگرچہ انہوں نے ہزاروں کو مار دیا تھا، تو بھی کام جاری رہا اور مئی ۱۹۴۵ میں یہوواہ کے گواہوں کی تحریک ابھی تک کارفرما تھی، جبکہ نیشنل سوشلزم باقی نہ تھا۔ گواہوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تھا اور کوئی مصالحت نہیں کی گئی تھی۔ تحریک نے مصیبت اٹھائی تھی اور کامیابی کیساتھ یہوواہ خدا کی جنگ میں ایک اور لڑائی لڑی تھی۔“ دی نازی سٹیٹ اینڈ دی نیو ریلیجنز: فائیو کیس سٹڈیز ان نان۔ کنفرمیٹی، صفحہ ۱۹۳۔
آپ کیسے جواب دیں گے؟
▫ ہم کیوں اپنی برداشت کے امتحان سے بچ نہیں سکتے؟
▫ ہم کس مغالطہ آمیزی سے بچنا چاہتے ہیں؟
▫ اپنی طرف سے کسی بھی طرح کی کمزوری سے بچنے کیلئے، کس چیز کی ضرورت ہے؟
▫ ہمارا شناختی لفظ کیا ہے؟
▫ مشکل اوقات میں، کیا چیز ہمیں برداشت کرنے میں مدد دے گی؟
[تصویر]
پورٹ آف سپین، ٹرینیڈاڈ، میں ان گواہوں کی طرح، خدا کے لوگ یہوواہ کا انتظار کرنے کیلئے ہمیشہ رضامند رہے ہیں