’یہوواہ کے روزِعظیم کی نزدیکی‘ کے پیشِنظر پختگی کی طرف قدم بڑھائیں
”پختگی کی طرف قدم بڑھائیں۔“—عبر ۶:۱، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن
۱، ۲. پہلی صدی میں یروشلیم اور یہودیہ کے مسیحیوں کو ’پہاڑوں پر بھاگ جانے‘ کا موقع کیسے ملا؟
جب یسوع مسیح زمین پر تھا تو اُس کے شاگردوں نے اُس کے پاس آ کر اُس سے پوچھا: ”تیرے آنے اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا؟“ یسوع مسیح نے اُنہیں جواب میں جوکچھ بتایا اُس کی ابتدائی تکمیل پہلی صدی میں ہوئی۔ یسوع مسیح نے ایک غیر متوقع واقعہ کے بارے میں بیان کِیا جو اِس بات کا نشان ہوگا کہ خاتمہ بہت قریب ہے۔ اِس واقعے کو دیکھ کر اُن لوگوں کو ”جو یہوؔدیہ میں ہوں . . . پہاڑوں پر بھاگ“ جانا تھا۔ (متی ۲۴:۱-۳، ۱۵-۲۲) کیا یسوع مسیح کے شاگردوں نے اُس کے دئے ہوئے نشان کو پہچانتے ہوئے اُس کی ہدایات پر عمل کِیا؟
۲ یسوع مسیح کے خاتمے کے متعلق نشان دینے کے تقریباً تیس سال بعد ۶۱ عیسوی میں پولس رسول نے یروشلیم اور اِس کے گِردونواح میں رہنے والے عبرانی مسیحیوں کے نام ایک خط لکھا۔ اِس خط کا مقصد بعض باتوں کے بارے میں اُن کی سوچ کو درست کرنا تھا۔ پولس رسول اور اُس کے زمانے کے مسیحی یہ نہیں جانتے تھے کہ یسوع مسیح نے ”بڑی مصیبت“ کے آغاز کے متعلق جس واقعے کا ذکر کِیا وہ صرف پانچ سال بعد رُونما ہونے والا ہے۔ (متی ۲۴:۲۱) سن ۶۶ عیسوی میں، سیسٹیئس گیلس کے زیرِکمان رومی فوجوں نے یروشلیم کا محاصرہ کر لیا اور وہ اِس میں داخل ہونے والی تھیں۔ لیکن اچانک وہ واپس چلی گئیں۔ یوں مسیحیوں کو وہاں سے بھاگ جانے کا موقع مل گیا۔
۳. پولس رسول نے عبرانی مسیحیوں کو کیا کرنے کی نصیحت کی، اور کیوں؟
۳ اِن مسیحیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت تھی کہ یہ سب کچھ یسوع مسیح کے الفاظ کی تکمیل میں واقع ہو رہا ہے اِس لئے اُنہیں یروشلیم اور یہودیہ سے بھاگ جانا چاہئے۔ تاہم، بعض ”اُونچا سننے“ والے بن گئے تھے۔ وہ روحانی طور پر بچوں کی مانند بن گئے جنہیں ”دودھ“ کی حاجت تھی۔ (عبرانیوں ۵:۱۱-۱۳ کو پڑھیں۔) یہاں تک کہ کئی سال سے خدا کے وفادار رہنے والے بعض مسیحی بھی ’زندہ خدا سے پھرنے‘ لگے۔ (عبر ۳:۱۲) خدا کا ’دن نزدیک‘ ہونے کے باوجود بعض مسیحیوں نے اجلاسوں سے غیرحاضر رہنے کو اپنا ”دستور“ بنا لیا تھا۔ (عبر ۱۰:۲۴، ۲۵) لہٰذا، پولس رسول نے اُنہیں بروقت نصیحت کی: ”پس آؤ مسیح کے بارے میں بنیادی تعلیمات سیکھنے کے بعد پختگی کی طرف قدم بڑھائیں۔“—عبر ۶:۱، نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
۴. (ا) ہمیں خدا کے کلام میں درج پیشینگوئیوں پر کیوں دھیان دینا چاہئے؟ (ب) ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟
۴ آج ہم اُس دور میں رہ رہے ہیں جب یسوع مسیح کے الفاظ کی بڑے پیمانے پر تکمیل ہو رہی ہے۔ ”[یہوواہ] کا روزِعظیم“ یعنی وہ دن ”قریب ہے“ جب خدا شیطان کی دُنیا کا خاتمہ کرے گا۔ (صفن ۱:۱۴) اِس لئے اب ہمیں خدا کے کلام میں درج پیشینگوئیوں کی تکمیل پر پہلے سے کہیں زیادہ دھیان دینا اور خدا کے ساتھ مضبوط رشتہ قائم کرنا چاہئے۔ (۱-پطر ۵:۸) کیا ہم ایسا کر رہے ہیں؟ رُوحانی پختگی کی طرف قدم بڑھانے سے ہم اِس بات پر توجہ مرکوز رکھنے کے قابل ہوں گے کہ ہم آخری زمانے میں رہ رہے ہیں۔
رُوحانی پختگی کیا ہے؟
۵، ۶. (ا) رُوحانی پختگی میں کیا کچھ شامل ہے؟ (ب) پختگی کی طرف قدم بڑھانے کے لئے ہمیں کن دو حلقوں میں ترقی کرنے کی ضرورت ہے؟
۵ پولس رسول نے پہلی صدی کے عبرانی مسیحیوں کو نہ صرف پختگی کی طرف قدم بڑھانے کی نصیحت کی بلکہ یہ بھی بتایا کہ وہ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔ (عبرانیوں ۵:۱۴ کو پڑھیں۔) ’پوری عمر والے‘ یعنی پُختہ لوگ محض دودھ نہیں پیتے بلکہ ”سخت غذا“ بھی کھاتے ہیں۔ لہٰذا، وہ سچائی کی ’بنیادی باتوں‘ اور ’تہ کی باتوں‘ دونوں کو سمجھتے ہیں۔ (۱-کر ۲:۱۰) اِس کے علاوہ، وہ سیکھی ہوئی باتوں پر عمل بھی کرتے ہیں جس کی وجہ سے اُن کے حواس نیکوبد میں امتیاز کرنے کے لئے تیز ہو گئے ہیں۔ یوں وہ مختلف فیصلے کرتے وقت یہ دیکھنے کے قابل ہوتے ہیں کہ وہ بائبل کے کن اصولوں کو عمل میں لا سکتے ہیں۔
۶ پولس رسول نے لکھا: ”جو باتیں ہم نے سنیں اُن پر اَور بھی دل لگا کر غور کرنا چاہئے تاکہ بہ کر اُن سے دُور نہ چلے جائیں۔“ (عبر ۲:۱) بعضاوقات، ہم انجانے میں ایمان سے دُور جا سکتے ہیں۔ لیکن بائبل میں درج سچائیوں پر ”اَور بھی دل لگا کر غور“ کرنے سے ہم ایسی صورتحال سے بچ سکتے ہیں۔ ہمیں خود سے پوچھنا چاہئے: ’کیا مَیں اب تک صرف ابتدائی باتوں پر غور کر رہا ہوں؟ کیا مَیں پورے دل سے خدا کی خدمت کرتا ہوں یا محض ایک فرض سمجھ کر؟ مَیں خدا کی خدمت میں ترقی کیسے کر سکتا ہوں؟‘ پختگی کی طرف قدم بڑھانے کے لئے ہمیں خاص طور پر دو حلقوں میں ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلا، ہمیں خدا کے کلام سے اچھی طرح واقف ہونا چاہئے۔ دوسرا، ہمیں فرمانبرداری سیکھنے کی ضرورت ہے۔
خدا کے کلام سے اچھی طرح واقف ہوں
۷. ہم خدا کے کلام سے اچھی طرح واقف ہونے سے کیسے فائدہ حاصل کر سکتے ہیں؟
۷ پولس رسول نے بیان کِیا: ”دودھ پیتے ہوئے کو راستبازی کے کلام کا تجربہ نہیں ہوتا اِس لئے کہ وہ بچہ ہے۔“ (عبر ۵:۱۳) لہٰذا، پختگی حاصل کرنے کے لئے ہمیں خدا کے کلام سے اچھی طرح واقف ہونا چاہئے۔ اِس کے لئے ہمیں باقاعدگی سے پاک صحائف اور ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کی طرف سے فراہم کی جانے والی کتابوں اور رسالوں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ (متی ۲۴:۴۵-۴۷) اِس طرح ہم خدا کی سوچ کو اپنا سکتے اور اپنے حواس کو تیز کر سکتے ہیں۔ اِس سلسلے سارہ نامی ایک بہن کی مثال پر غور کریں۔a وہ بیان کرتی ہے: ”اِس یاددہانی نے میری زندگی پر بڑا گہرا اثر ڈالا کہ ہمیں باقاعدگی سے بائبل کی پڑھائی کرنی چاہئے۔ مجھے پوری بائبل کو پڑھنے میں دو سال لگے مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ مَیں اپنے خالق کو پہلی دفعہ جان رہی ہوں۔ مَیں نے اُس کی راہوں، اُس کی پسند اور ناپسند، اُس کی قوت اور اُس کی حکمت کے بارے میں سیکھا۔ روزانہ بائبل کی پڑھائی کرنے کی وجہ سے مَیں اپنی زندگی میں آنے والی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئی۔“
۸. خدا کا کلام ہم پر کیسا اثر ڈال سکتا ہے؟
۸ جب ہم باقاعدگی سے خدا کے کلام کو پڑھتے ہیں تو ہم اِس میں درج پیغام کو اپنے اُوپر ’اثر‘ کرنے دیتے ہیں۔ (عبرانیوں ۴:۱۲ کو پڑھیں۔) بائبل کی پڑھائی کرنے سے ہم اپنے اندر تبدیلیاں لا سکتے اور خدا کی خوشنودی حاصل کر سکتے ہیں۔ کیا آپ بھی بائبل کو پڑھنے اور اِس پر غوروخوض کرنے کے لئے زیادہ وقت نکال سکتے ہیں؟
۹، ۱۰. مثال کے ذریعے واضح کریں کہ خدا کے کلام سے اچھی طرح واقف ہونے میں کیا کچھ شامل ہے۔
۹ بائبل سے واقف ہونے کا مطلب محض علم حاصل کرنا نہیں ہے۔ پولس رسول کے زمانے میں وہ مسیحی جو روحانی سمجھ کے لحاظ سے بچے تھے خدا کے کلام سے بالکل ناواقف نہیں تھے۔ تاہم، وہ سیکھی ہوئی باتوں کے مطابق عمل نہیں کرتے تھے۔ نیز، وہ فیصلے کرتے وقت خدا کے کلام سے راہنمائی حاصل نہیں کرتے تھے۔
۱۰ خدا کے کلام سے واقف ہونے کا مطلب دراصل اِس کے بارے میں جاننا اور سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا ہے۔ اِس سلسلے میں کائل نامی ایک بہن کے تجربے پر غور کریں۔ کائل کا اپنے ساتھ کام کرنے والی ایک خاتون کے ساتھ کچھ اختلاف ہو گیا۔ اُس نے اِس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کیا کِیا؟ وہ بیان کرتی ہے: ”اُس وقت میرے ذہن میں رومیوں ۱۲:۱۸ آیت آئی جس میں لکھا ہے: ’جہاں تک ہو سکے تُم اپنی طرف سے سب آدمیوں کے ساتھ میلملاپ رکھو۔‘ مَیں نے اُس سے پوچھا کہ کیا ہم کام ختم کرنے کے بعد اِس مسئلے پر بات کر سکتے ہیں۔“ اُن کی باتچیت بڑی اچھی رہی۔ وہ خاتون اِس مسئلے کو حل کرنے کے لئے کائل کی کوشش سے بڑی متاثر ہوئی۔ کائل کہتی ہے: ”مَیں جان گئی ہوں کہ خدا کے کلام میں درج اصولوں کا اطلاق کرنا ہمیشہ فائدہمند ثابت ہوتا ہے۔“
فرمانبرداری سیکھیں
۱۱. یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ مشکلات کے دوران فرمانبرداری کرنا آسان نہیں ہوتا ہے؟
۱۱ یہ سچ ہے کہ مشکلات کا سامنا کرتے وقت خدا کے کلام سے سیکھی ہوئی باتوں پر عمل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اِس سلسلے میں اسرائیلیوں کی مثال پر غور کریں۔ یہوواہ خدا نے اسرائیلیوں کو مصر کی غلامی سے آزاد کرایا۔ لیکن اِس کے کچھ عرصے بعد وہ پینے کا پانی نہ ملنے کی وجہ سے ’موسیٰ سے جھگڑا کرکے یہوواہ کو آزمانے لگے۔‘ (خر ۱۷:۱-۴) اِس کے بعد اسرائیلیوں نے خدا کے ساتھ عہد میں داخل ہو کر یہ وعدہ کِیا کہ ”جتنی باتیں [یہوواہ] نے فرمائی ہیں ہم اُن سب کو مانیں گے۔“ مگر اِس کے محض دو ماہ بعد وہ بُتپرستی میں پڑ گئے اور یہوواہ کے حکم کو توڑ دیا۔ (خر ۲۴:۳، ۱۲-۱۸؛ ۳۲:۱، ۲، ۷-۹) جب موسیٰ کوہِحورب پر خدا سے ہدایات حاصل کرنے کے لئے گیا تو کیا وہ موسیٰ کے دیر تک واپس نہ لوٹنے کی وجہ سے خوفزدہ تھے؟ کیا وہ یہ سوچ رہے تھے کہ پہلے موسیٰ کے ہاتھ اُٹھائے رکھنے کی وجہ سے اُنہیں عمالیقیوں پر فتح حاصل ہوئی تھی اور اب موسیٰ کی غیرموجودگی میں اگر عمالیقی دوبارہ اُن پر حملہ کریں گے تو وہ کچھ نہیں کر پائیں گے؟ (خر ۱۷:۸-۱۶) وجہ خواہ کچھ بھی ہو اسرائیلیو ں نے خدا کا ”فرمانبردار ہونا نہ چاہا۔“ (اعما ۷:۳۹-۴۱) وہ وعدہ کئے ہوئے مُلک میں داخل ہونے سے خوفزدہ ہوگئے اور خدا کی نافرمانی کی۔ لہٰذا، پولس رسول نے مسیحیوں کو تاکید کی کہ وہ ’کوشش کریں تاکہ اُن کی طرح نافرمانی کرکے گِر نہ پڑیں۔‘—عبر ۴:۳، ۱۱۔
۱۲. (ا) یسوع مسیح نے فرمانبرداری کرنا کیسے سیکھا؟ (ب) اِس کے نتیجے میں اُسے کونسی برکت ملی؟
۱۲ پختگی کی طرف قدم بڑھانے کے لئے یہوواہ خدا کی فرمانبرداری کرنے کی بھرپور کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ یسوع مسیح کی مثال سے واضح ہوتا ہے کہ فرمانبرداری اکثر دُکھ اُٹھا کر سیکھی جاتی ہے۔ (عبرانیوں ۵:۸، ۹ کو پڑھیں۔) سچ ہے کہ زمین پر آنے سے پہلے یسوع مسیح اپنے باپ کا فرمانبردار تھا۔ تاہم، زمین پر اپنے باپ کی مرضی کو پورا کرنے کے لئے اُسے جسمانی اور ذہنی اذیت برداشت کرنی پڑی۔ شدید مخالفت کے باوجود خدا کا فرمانبردار رہنے سے یسوع مسیح بادشاہ اور سردار کاہن کا مرتبہ حاصل کرنے کے لئے ”کامل“ بن گیا یعنی پوری طرح تیار ہو گیا۔
۱۳. یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم نے فرمانبرداری سیکھ لی ہے؟
۱۳ کیا ہم نے یسوع مسیح کی طرح مشکلات میں بھی یہوواہ خدا کی فرمانبرداری کرنے کا عزم کر رکھا ہے؟ (۱-پطرس ۱:۶، ۷ کو پڑھیں۔) خدا ہمیں اخلاقیات، ایمانداری، زبان کے درست استعمال، بائبل کی پڑھائی اور غوروخوض، اجلاسوں پر حاضری اور مُنادی میں شرکت کے بارے میں واضح ہدایات فراہم کرتا ہے۔ (یشو ۱:۸؛ متی ۲۸:۱۹، ۲۰؛ افس ۴:۲۵، ۲۸، ۲۹؛ ۵:۳-۵؛ عبر ۱۰:۲۴، ۲۵) کیا ہم مشکلات میں بھی اِن معاملات میں یہوواہ خدا کی فرمانبرداری کرتے ہیں؟ ہماری فرمانبرداری یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہم پختگی کی طرف قدم بڑھا رہے ہیں۔
روحانی پختگی کی طرف قدم بڑھانا کیوں فائدہمند ہے؟
۱۴. مثال دیں کہ پختگی کی طرف قدم بڑھانا کیسے تحفظ کا باعث ہے۔
۱۴ ہم ایک ایسی دُنیا میں رہتے ہیں جو اخلاقی لحاظ سے ”سُن [”بےحس،“ کیتھولک ترجمہ]“ ہے۔ (افس ۴:۱۹) تاہم، مسیحی نیکوبد میں امتیاز کرنے کے لئے اپنے حواس کو تیز کرنے سے اِس کے اثر سے بچ سکتے ہیں۔ جیمز نامی ایک بھائی کی مثال پر غور کریں۔ وہ باقاعدگی سے بائبل پر مبنی کتابوں اور رسالوں کو پڑھتا اور اِن میں پائی جانے والی مشورت کی بڑی قدر کرتا ہے۔ اُسے ایک ایسی جگہ ملازمت ملی جہاں اُس کے علاوہ باقی سب خواتین تھیں۔ جیمز بیان کرتا ہے کہ ”زیادہتر خواتین اخلاقی لحاظ سے صحیح نہیں تھیں مگر ایک خاتون بظاہر اِن سے فرق تھی اور بائبل کی سچائیوں میں دلچسپی لیتی تھی۔ لیکن ایک دن جب وہ اور مَیں ایک کمرے میں کام کر رہے تھے تو وہ میرے ساتھ غیر اخلاقی حرکتیں کرنے لگی۔ پہلے تو مَیں نے سوچا کہ وہ مذاق کر رہی ہے لیکن اُسے روکنا بہت مشکل تھا۔ اُس وقت مجھے مینارِنگہبانی میں شائع ہونے والا ایک تجربہ یاد آیا جس میں ایک بھائی کو میرے جیسی آزمائش کا سامنا تھا۔ اُس مضمون میں یوسف اور فوطیفار کی بیوی کی مثال استعمال کی گئی تھی۔b مَیں نے فوراً اُس لڑکی کو پرے دھکیلا جس پر وہ کمرے سے بھاگ گئی۔“ (پید ۳۹:۷-۱۲) جیمز اِس بات کے لئے بہت شکرگزار تھا کہ اُس سے کوئی غلط کام نہیں ہوا اور وہ خدا کے حضور پاک ضمیر رکھنے کے قابل ہوا۔—۱-تیم ۱:۵۔
۱۵. پختگی کی طرف قدم بڑھانا ہمارے دل کو کیسے مضبوط کرتا ہے؟
۱۵ پختگی کی طرف قدم بڑھانا ہمارے دل کو مضبوط کرتا ہے۔ یہ ہمیں ”مختلف اور بیگانہ تعلیم“ سے بچاتا اور ہماری توجہ ”عمدہعمدہ باتوں“ پر مرکوز رکھتا ہے۔ (عبرانیوں ۱۳:۹ کو پڑھیں؛ فل ۱:۹، ۱۰) یوں یہوواہ خدا اور اُس کی فراہمیوں کے لئے ہماری قدردانی میں اضافہ ہوتا ہے۔ (روم ۳:۲۴) ایک مسیحی جو ”سمجھ میں جوان“ ہے یہوواہ خدا کی فراہمیوں کے لئے شکرگزار ہوتا اور اُس کے ساتھ قریبی رشتے سے خوشی حاصل کرتا ہے۔—۱-کر ۱۴:۲۰۔
۱۶. ایک بہن اپنے ’دل کو مضبوط‘ رکھنے کے قابل کیسے ہوئی؟
۱۶ لوئس نامی ایک بہن نے بیان کِیا کہ اپنے بپتسمے کے بعد کچھ عرصے تک وہ بنیادی طور پر کلیسیا کے بہنبھائیوں میں مقبول ہونے کے لئے مسیحی کارگزاریوں میں مشغول رہتی تھی۔ اُس نے کہا: ”اگرچہ مَیں کوئی غلط کام نہیں کر رہی تھی مگر میرے دل میں یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کا جذبہ زیادہ شدید نہیں تھا۔ وقت گزرنے کیساتھساتھ مجھے احساس ہوا کہ پورے طور پر یہوواہ خدا کی خدمت کرنے کے لئے مجھے کچھ تبدیلیاں کرنی پڑیں گی۔ سب سے بڑی تبدیلی یہ تھی کہ مَیں دلوجان سے یہوواہ خدا کی خدمت کروں۔“ اِس کے نتیجے میں لوئس اپنے ’دل کو مضبوط‘ رکھنے کے قابل ہوئی جس سے بعدازاں شدید بیماری کے دوران برداشت کرنے میں اُس کی مدد ہوئی۔ (یعقو ۵:۸) لوئس نے بیان کِیا: ”اگرچہ مجھے سخت تکلیف اُٹھانی پڑی توبھی مَیں یہوواہ خدا کے ساتھ قریبی رشتہ قائم کرنے کے قابل ہوئی۔“
’دل سے فرمانبرداری کرنا سیکھیں‘
۱۷. پہلی صدی میں فرمانبرداری کیوں ضروری تھی؟
۱۷ ”پختگی کی طرف قدم“ بڑھانے کی پولس رسول کی نصیحت پر عمل کرنے سے پہلی صدی میں یروشلیم اور یہودیہ میں رہنے والے مسیحیوں کی زندگی بچ سکتی تھی۔ اِس نصیحت پر دھیان دینے والے لوگوں کو اُس نشان کو بھی سمجھنے کی ضرورت تھی جو یسوع مسیح نے ”پہاڑوں پر بھاگ“ جانے کے سلسلے میں دیا تھا۔ جب اُنہوں نے ”اُجاڑنے والی مکروہ چیز کو . . . مُقدس مقام میں کھڑا ہوا“ دیکھا تو وہ جان گئے کہ اب اُنہیں بھاگ جانا چاہئے۔ (متی ۲۴:۱۵، ۱۶) پس یسوع مسیح کی آگاہی پر دھیان دیتے ہوئے مسیحی یروشلیم کی تباہی سے پہلے وہاں سے بھاگ گئے۔ تاریخدان یوسیبیس کے مطابق، وہ جلعاد کے پہاڑی علاقے میں واقع شہر پیلا میں جا بسے۔ یوں وہ یروشلیم پر آنے والی بدترین تباہی سے بچنے کے قابل ہوئے۔
۱۸، ۱۹. (ا) آجکل فرمانبرداری کرنا کیوں اہم ہے؟ (ب) اگلے مضمون میں کس بات پر غور کِیا جائے گا؟
۱۸ جلد ہی یسوع مسیح کے اِن الفاظ کی وسیع پیمانے پر تکمیل ہونے والی ہے کہ ”اُس وقت . . . بڑی مصیبت ہوگی۔“ لہٰذا، ہمیں فرمانبرداری ظاہر کرنے کی ضرورت ہے جو پختگی کی طرف قدم بڑھانے سے پیدا ہوتی ہے۔ ایسا کرنا ہمارے لئے بھی زندگی کا باعث ہوگا۔ (متی ۲۴:۲۱) کیا ہم آنے والے وقت کے دوران ’دیانتدار داروغہ‘ کی طرف سے فراہم کی جانے والی ہدایات پر عمل کرنے سے خود کو فرمانبردار ثابت کریں گے؟ (لو ۱۲:۴۲) واقعی، ’دل سے فرمانبرداری‘ سیکھنا بہت اہم ہے!—روم ۶:۱۷۔
۱۹ پختگی حاصل کرنے کے لئے ہمیں اپنے حواس کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم خدا کے کلام سے اچھی طرح واقف ہونے اور فرمانبرداری سیکھنے سے ایسا کرتے ہیں۔ خاص طور پر نوجوانوں کو پختگی کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ اگلے مضمون میں یہ بتایا جائے گا کہ نوجوان کیسے کامیابی سے ایسی مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
[فٹنوٹ]
a بعض نام بدل دئے گئے ہیں۔
آپ نے کیا سیکھا ہے؟
• روحانی پختگی سے کیا مراد ہے، اور ہم اِسے کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
• خدا کے کلام سے اچھی طرح واقف ہونا پختگی کی طرف قدم بڑھانے میں ہماری مدد کیسے کرتا ہے؟
• ہم فرمانبرداری کرنا کیسے سیکھتے ہیں؟
• پختگی کی طرف قدم بڑھانا کس طرح ہمارے لئے فائدہمند ثابت ہوتا ہے؟
[صفحہ ۱۴ پر تصویر]
بائبل میں درج ہدایات پر عمل کرنے سے ہم مشکلات کو اچھی طرح حل کرنے کے قابل ہوتے ہیں
[صفحہ ۱۶ پر تصویر]
یسوع مسیح کی آگاہی پر عمل کرنے سے پہلی صدی کے مسیحیوں کی زندگیاں بچ گئیں