باب 113
سُست اور محنتی غلام
یسوع مسیح نے سرمایہکاری کرنے والے غلاموں کی مثال دی
یسوع مسیح ابھی بھی چار رسولوں کے ساتھ کوہِزیتون پر تھے۔ اِس دوران اُنہوں نے رسولوں کو ایک اَور مثال دی۔ اِس کا تعلق بھی یسوع مسیح کی موجودگی اور دُنیا کے آخری زمانے سے تھا۔ کچھ دن پہلے جب وہ یریحو میں تھے تو اُنہوں نے دس پاؤ چاندی کی مثال دی تھی تاکہ رسول سمجھ جائیں کہ خدا کی بادشاہت کے قائم ہونے میں ابھی دیر ہے۔ جو مثال وہ اب دینے والے تھے، وہ دس پاؤ چاندی والی مثال سے کافی ملتی جلتی تھی۔ اِس کے ذریعے اُنہوں نے اپنے شاگردوں کو تاکید کی کہ وہ اُن ذمےداریوں کو لگن سے نبھائیں جو وہ اُن کے سپرد کرنے والے تھے۔
یسوع مسیح نے کہا: ”آسمان کی بادشاہت اُس آدمی کی طرح ہے جس نے پردیس جانے سے پہلے اپنے غلاموں کو بلایا اور اُنہیں اپنے مال کی دیکھبھال کرنے کی ذمےداری دی۔“ (متی 25:14) یہ ”آدمی“ کس کی طرف اِشارہ کرتا تھا؟ کچھ دن پہلے یسوع مسیح نے خود کو ایک نواب سے تشبیہ دی تھی جو ”بادشاہت حاصل کرنے کے لیے ایک دُوردراز ملک میں گیا۔“ (لُوقا 19:12) لہٰذا رسول سمجھ گئے کہ یہ ”آدمی“ یسوع ہی تھے۔
اِس آدمی نے پردیس جانے سے پہلے اپنا قیمتی مال امانت کے طور پر اپنے غلاموں کے سپرد کِیا۔ یسوع مسیح نے اپنے ساڑھے تین سالہ دورِخدمت کے دوران خدا کی بادشاہت کی مُنادی کرنے پر دھیان دیا اور اِس کام میں اپنے شاگردوں کو بھی تربیت دی۔ اب وہ آسمان پر جانے والے تھے لیکن اُنہیں پکا یقین تھا کہ شاگرد اِس کام کو ضرور پورا کریں گے۔—متی 10:7؛ لُوقا 10:1، 8، 9؛ اِس کے علاوہ یوحنا 4:38؛ 14:12 پر غور کریں۔
مثال میں مالک نے اپنا مال غلاموں میں کیسے تقسیم کِیا؟ یسوع مسیح نے بتایا: ”اُس نے غلاموں کی صلاحیت کے مطابق اُن کو چاندی دی: ایک کو پانچ من، دوسرے کو دو من اور تیسرے کو ایک من۔ پھر وہ پردیس چلا گیا۔“ (متی 25:15) غلاموں نے اُس مال کے ساتھ کیا کِیا جو اُن کے سپرد کِیا گیا تھا؟ کیا وہ محنت کرنے کو تیار تھے تاکہ وہ اِس سے مالک کے لیے منافع کما سکیں؟
یسوع مسیح نے رسولوں سے کہا: ”جس غلام کو پانچ من چاندی ملی، اُس نے فوراً جا کر اِس چاندی سے کاروبار کِیا اور پانچ من اَور کمائی۔ اِسی طرح جس غلام کو دو من چاندی ملی، اُس نے دو من اَور کمائی۔ لیکن جس غلام کو ایک من چاندی ملی، اُس نے زمین کھودی اور اپنے مالک کی چاندی چھپا دی۔“ (متی 25:16-18) جب مالک واپس آیا تو کیا ہوا؟
یسوع مسیح نے کہا: ”بہت عرصے کے بعد مالک واپس آیا اور اپنے غلاموں سے حساب لینے لگا۔“ (متی 25:19) پہلے دو غلاموں نے اپنی اپنی ”صلاحیت کے مطابق“ مالک کے مال کو بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ دونوں نے محنت اور لگن سے اُس مال سے منافع کمایا تھا جو اُن کے سپرد کِیا گیا تھا۔ جس غلام کو پانچ من چاندی ملی تھی، اُس نے پانچ من اَور کمائی تھی اور جسے دو من چاندی ملی تھی، اُس نے دو من اَور کمائی تھی۔ (اُس زمانے میں ایک مزدور کو ایک من چاندی کمانے کے لیے تقریباً 20 سال مزدوری کرنی پڑتی تھی۔) لہٰذا مالک نے دونوں غلاموں کو داد دی اور کہا: ”شاباش، اچھے اور وفادار غلام! تُم نے تھوڑی چیزوں کی ذمےداری کو اچھی طرح نبھایا۔ اِس لیے مَیں تمہیں بہت سی چیزوں کی ذمےداری دوں گا۔ آؤ، اپنے مالک کی خوشی میں شریک ہو۔“—متی 25:21۔
لیکن جب وہ غلام آیا جس کو ایک من چاندی ملی تھی تو کیا ہوا؟ اُس نے کہا: ”مالک! مَیں جانتا ہوں کہ آپ سخت آدمی ہیں۔ آپ وہاں سے فصل کاٹتے ہیں جہاں آپ نے بیج نہیں بویا ہوتا اور وہاں سے اناج جمع کرتے ہیں جہاں آپ نے محنت نہیں کی ہوتی۔ اِس لیے مَیں ڈر گیا اور مَیں نے آپ کی چاندی زمین میں چھپا دی۔ یہ رہی آپ کی امانت۔“ (متی 25:24، 25) اُس غلام نے مالک کی چاندی کی سرمایہکاری تک نہیں کی جس سے مالک کو کم از کم تھوڑا سا تو منافع ملتا۔ لہٰذا اُس نے اپنے مالک کا نقصان کِیا۔
مالک نے اِس غلام کو ’بُرا اور سُست‘ کہا۔ جو مال اُس کے پاس تھا، وہ اُس سے لے لیا گیا اور محنتی غلاموں میں سے ایک کو دے دیا گیا۔ پھر مالک نے اِس اصول کا ذکر کِیا: ”جس کے پاس ہے، اُسے اَور بھی دیا جائے گا اور اُس کے پاس کثرت سے ہوگا۔ لیکن جس کے پاس نہیں ہے، اُس سے وہ بھی لے لیا جائے گا جو اُس کے پاس ہے۔“—متی 25:26، 29۔
یسوع کے شاگرد اِس مثال سے بہت سے سبق حاصل کر سکتے تھے۔ وہ دیکھ سکتے تھے کہ یسوع اُنہیں جو ذمےداری سونپ رہے ہیں یعنی شاگرد بنانے کا کام، یہ بہت ہی بیشقیمت شرف ہے۔ یسوع مسیح اُن سے توقع کرتے تھے کہ وہ اِس ذمےداری کو اچھی طرح سے نبھائیں۔ مگر وہ یہ توقع نہیں کرتے تھے کہ تمام شاگرد ایک دوسرے جتنا کام کریں۔ مثال سے پتہ چلتا ہے کہ ہر ایک کو اپنی ”صلاحیت کے مطابق“ اُتنا کام کرنا چاہیے جتنا وہ کر سکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص سُستی سے کام لیتا ہے اور جوشوجذبے سے اُس ذمےداری کو نہیں نبھاتا جو ہمارے مالک یسوع نے اُس کو دی ہے تو یسوع خوش نہیں ہوں گے۔
البتہ رسولوں کو یسوع کی یہ بات سُن کر بڑی ہمت ملی ہوگی کہ ”جس کے پاس ہے، اُسے اَور بھی دیا جائے گا۔“