وفاداری سے مسیح کے بھائیوں کی حمایت کریں
”جب تُم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ یہ سلوک کِیا تو میرے ہی ساتھ کِیا۔“—متی 25:40۔
1، 2. (الف) یسوع مسیح نے اپنے قریبی دوستوں کو کون سی تمثیلیں بتائیں؟ (اِس مضمون کی پہلی تصویر کو دیکھیں۔) (ب) ہمیں بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کے بارے میں کیا جاننے کی ضرورت ہے؟
یسوع مسیح اپنے قریبی دوستوں پطرس، اندریاس، یعقوب اور یوحنا سے بات کر رہے تھے۔ یسوع مسیح نے اِن کو دیانتدار اور عقلمند نوکر، دس کنواریوں اور توڑوں کی تمثیل بتائی۔ پھر یسوع مسیح نے اُنہیں اُس وقت کے بارے میں بتایا جب ”اِبنِآدم“ ’سب قوموں‘ کی عدالت کرنے آئے گا۔ اِس سلسلے میں یسوع مسیح نے اُنہیں ایک اَور تمثیل بتائی جس میں اُنہوں نے دو گروہوں کا ذکر کِیا۔ ایک گروہ کو بھیڑیں قرار دیا گیا جبکہ دوسرے گروہ کو بکریاں۔ تمثیل میں اُنہوں نے ایک اَور خاص گروہ کا بھی ذکر کِیا جسے اُنہوں نے بادشاہ کے ”بھائی“ کہا۔—متی 25:31-46 کو پڑھیں۔
2 کافی عرصے سے خدا کے بندوں کو اِس تمثیل میں بہت دلچسپی رہی ہے کیونکہ اِس میں یسوع مسیح نے جو بات بتائی، اُس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو ہمیشہ کی زندگی ملے گی اور کچھ لوگوں کو ہمیشہ کے لیے ہلاک کر دیا جائے گا۔ اگر ہم ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اِس تمثیل کو سمجھیں اور اِس میں دیے گئے سبق پر عمل کریں۔ اِس لیے ہمیں اِن سوالوں پر غور کرنا چاہیے: گزرتے سالوں میں خدا نے ہماری مدد کیسے کی تاکہ ہم اِس تمثیل کو اَور اچھی طرح سے سمجھ سکیں؟ یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ اِس تمثیل میں مُنادی کے کام کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے؟ مُنادی کے کام کی ذمےداری کن کو دی گئی ہے؟ اور یہ اِتنا اہم کیوں ہے کہ ہم اِس وقت ”بادشاہ“ اور اُس کے ”بھائیوں“ کے وفادار رہیں؟
اِس تمثیل کی وضاحت میں تبدیلی کیسے آتی گئی؟
3، 4. (الف) بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کا مطلب سمجھنے کے لیے ہمیں کیا جاننے کی ضرورت ہے؟ (ب) 1881ء کے زائنز واچٹاور میں اِس تمثیل کی وضاحت کیسے کی گئی ہے؟
3 بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کا مطلب سمجھنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ (1) ”اِبنِآدم“ یا ”بادشاہ“ کون ہے؟ بھیڑیں اور بکریاں کون ہیں؟ اور بادشاہ کے ”بھائی“ کون ہیں؟ (2) اِبنِآدم کب بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرے گا؟ اور (3) بعض کو بھیڑیں اور بعض کو بکریاں کیوں قرار دیا گیا ہے؟
4 سن 1881ء کے زائنز واچٹاور میں بتایا گیا کہ ”اِبنِآدم“ یا ”بادشاہ“ یسوع مسیح کی طرف اِشارہ کرتے ہیں۔ پہلے بائبل سٹوڈنٹس سمجھتے تھے کہ اِصطلاح ”میرے بھائیوں“ نہ صرف اُن لوگوں کی طرف اِشارہ کرتی ہے جو مسیح کے ساتھ حکمرانی کریں گے بلکہ اُن تمام لوگوں کی طرف بھی اِشارہ کرتی ہے جو گُناہ سے پاک ہو کر زمین پر ہمیشہ کی زندگی پائیں گے۔ بائبل سٹوڈنٹس کو لگتا تھا کہ بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرنے کا کام مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کے دوران ہوگا۔ اُن کا ماننا تھا کہ جو لوگ ہر بات میں خدا کی طرح محبت ظاہر کریں گے، اُنہیں بھیڑیں قرار دیا جائے گا۔
5. سن 1923ء میں بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کے بارے میں کون سی نئی وضاحت کی گئی؟
5 بعد میں یہوواہ کے بندوں نے اُس کی رہنمائی میں اِس تمثیل کی وضاحت میں کچھ تبدیلی کی۔ 15 اکتوبر 1923ء کے دی واچٹاور میں اِس بات کی تصدیق کی گئی کہ ”اِبنِآدم“ یسوع مسیح ہیں۔ لیکن صحیفوں کی روشنی میں یہ وضاحت دی گئی کہ تمثیل میں ذکرکردہ ”بھائی“ صرف اُن لوگوں کی طرف اِشارہ کرتے ہیں جو یسوع مسیح کے ساتھ آسمان سے حکمرانی کریں گے۔ اِس میں یہ بھی بتایا گیا کہ بھیڑیں اُن لوگوں کی طرف اِشارہ کرتی ہیں جو مسیح کی بادشاہت کے تحت زمین پر زندگی حاصل کرنے کی اُمید رکھتے ہیں۔ چونکہ تمثیل میں بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ مسیح کی بھائیوں کی مدد کرتے ہیں اِس لیے یہ نتیجہ اخذ کِیا گیا کہ بھیڑوں اور بکریوں کو جُدا کرنے کا کام اُس وقت ہوگا جب مسیح کے بھائی زمین پر ہی موجود ہوں گے یعنی ہزار سالہ حکمرانی شروع ہونے سے پہلے۔ اِس مضمون میں یہ بھی بتایا گیا کہ وہ لوگ بھیڑیں قرار دیے جائیں گے جو مسیح کو اپنا خداوند مانتے ہیں اور اِس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اُس کی بادشاہت زمین پر بہتر حالات لائے گی۔
6. سن 1995ء میں ہماری وضاحت میں کیا تبدیلی کی گئی؟
6 اِس نئی وضاحت کی وجہ سے خدا کے خادموں کو لگتا تھا کہ آخری زمانے کے دوران یہ فیصلہ کِیا جا رہا ہے کہ کن لوگوں کا شمار بھیڑوں میں ہوتا ہے اور کن کا بکریوں میں۔ یہ فیصلہ اِس بِنا پر کیا جاتا تھا کہ لوگ ہمارے پیغام کے لیے کیسا ردِعمل دِکھاتے ہیں۔ لیکن 1995ء میں اِس سلسلے میں ہماری وضاحت میں پھر سے تبدیلی کی گئی۔ مینارِنگہبانی 1 دسمبر 1995ء میں دو مضامین میں یہ بتایا گیا کہ متی 24:29-31 اور متی 25:31، 32 میں درج یسوع مسیح کے بیانات میں کچھ مشابہتیں پائی جاتی ہیں۔ (اِن آیتوں کو پڑھیں۔)a اِس بِنا پر یہ نتیجہ اخذ کِیا گیا کہ بھیڑوں اور بکریوں کی عدالت مستقبل میں ہوگی۔ اِس شمارے میں بتایا گیا کہ یہ مستقبل میں اُس وقت ہوگی جب ”بڑی مصیبت“ کے دوران اِبنِآدم ”اپنے جلال میں آئے گا۔“ اُس وقت وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ کون بھیڑیں ہیں اور کون بکریاں اور پھر وہ بُرے لوگوں کو ہلاک کرے گا۔
7. آج بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کے بارے میں ہماری وضاحت کیا ہے؟
7 آج ہم بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کو واضح طور پر سمجھ گئے ہیں۔ ہم جان گئے ہیں کہ ”اِبنِآدم“ یا ”بادشاہ“ یسوع مسیح ہیں۔ بادشاہ کے ”بھائی“ وہ مرد اور عورتیں ہیں جو پاک روح سے مسح ہیں اور جو مسیح کے ساتھ حکمرانی کریں گے۔ (روم 8:16، 17) بھیڑوں اور بکریوں کا اِشارہ سب قوموں کے لوگوں کی طرف ہے۔ یہ لوگ پاک روح سے مسح نہیں ہیں۔ اِن لوگوں کی عدالت آنے والی بڑی مصیبت کے آخر پر ہوگی۔ ہم جانتے ہیں کہ اِن لوگوں کی عدالت اِس بِنا پر کی جائے گی کہ وہ مسیح کے اُن ممسوح بھائیوں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں جو ابھی زمین پر موجود ہیں۔ ہم یہوواہ خدا کے بہت شکر گزار ہیں کہ اُس نے گزرتے سالوں میں ہماری مدد کی تاکہ ہم بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل اور متی 24 اور 25 ابواب میں درج دیگر تمثیلوں کو اَور اچھی طرح سے سمجھ سکیں۔
تمثیل میں مُنادی کے کام کی اہمیت پر زور کیسے دیا گیا ہے؟
8، 9. بھیڑوں کو ”راستباز“ کیوں کہا گیا ہے؟
8 بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل میں یسوع مسیح نے مُنادی کے کام کا ذکر نہیں کِیا۔ تو پھر یہ کیوں کہا جا سکتا ہے کہ اِس میں مُنادی کے کام کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے؟
9 سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یسوع مسیح تمثیل کے ذریعے تعلیم دے رہے تھے۔ ظاہری بات ہے کہ وہ حقیقی بھیڑوں اور بکریوں کو جُدا کرنے کی بات نہیں کر رہے تھے۔ اِسی طرح وہ یہ بھی نہیں کہہ رہے تھے کہ ہر وہ شخص جسے بھیڑ قرار دیا جائے گا، وہ سچ مچ یسوع مسیح کے بھائیوں کو کھانا اور کپڑا دے گا؛ بیماری میں اُن کا خیال رکھے گا یا اُنہیں قید میں ملنے جائے گا۔ دراصل اِس تمثیل کے ذریعے یسوع مسیح یہ بتا رہے تھے کہ جو لوگ مجازی معنوں میں بھیڑیں ہوں گے، وہ مسیح کے بھائیوں کے ساتھ کیسے پیش آئیں گے۔ اُنہوں نے بھیڑوں کو ”راستباز“ کہا کیونکہ وہ اِس بات کو پہچانتی ہیں کہ زمین پر یسوع مسیح کے بھائیوں کا ایک گروہ ہے اور وہ وفاداری سے اِس آخری زمانے میں اِس گروہ کی حمایت کرتی ہیں۔—متی 10:40-42؛ 25:40، 46؛ 2-تیم 3:1-5۔
10. بھیڑیں مسیح کے بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتی ہیں؟
10 دوسری وجہ جاننے کے لیے تمثیل کے سیاقوسباق پر غور کریں۔ یسوع مسیح اپنی موجودگی اور دُنیا کے آخر ہونے کے نشان کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ (متی 24:3) مثال کے طور پر اُنہوں نے بتایا کہ اِس نشان کا ایک حصہ یہ ہوگا کہ ”خوشخبری کی مُنادی تمام دُنیا میں ہوگی۔“ (متی 24:14) پھر بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل دینے سے پہلے یسوع مسیح نے توڑوں کی تمثیل دی۔ جیسا کہ پچھلے مضمون میں بتایا گیا ہے، یسوع مسیح نے توڑوں کی تمثیل کے ذریعے اپنے ممسوح بھائیوں کو نصیحت کی کہ وہ محنت سے مُنادی کا کام کریں۔ لیکن زمین پر ممسوح مسیحیوں کی تعداد بہت کم ہے اور مُنادی کا کام بہت زیادہ ہے۔ اُنہیں یہ ذمےداری دی گئی ہے کہ وہ خاتمہ آنے سے پہلے ”سب قوموں“ میں مُنادی کریں۔ بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل میں ظاہر کِیا گیا ہے کہ اِس کام میں ممسوح مسیحیوں کی مدد کی جائے گی۔ لہٰذا بھیڑوں کے لیے مسیح کے بھائیوں کی مدد کرنے کا ایک اہم طریقہ یہ ہے کہ وہ مُنادی کے کام میں اُن کا ساتھ دیں۔ لیکن وہ ایسا کیسے کر سکتی ہیں؟ کیا اِس کے لیے صرف عطیات دینا یا اُن کی حوصلہافزائی کرنا ہی کافی ہے؟
مُنادی کے کام کی ذمےداری کن کو دی گئی ہے؟
11. بعض لوگوں کے ذہن میں کیا سوال آ سکتا ہے اور کیوں؟
11 آج زمین پر یسوع مسیح کے تقریباً 80 لاکھ شاگرد ہیں جن میں سے زیادہتر ممسوح مسیحی نہیں ہیں۔ اِنہیں یسوع مسیح کی طرف سے توڑے نہیں ملے۔ (متی 25:14-18) لہٰذا سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے: کیا مُنادی کرنے کا حکم اُن لوگوں کو بھی دیا گیا ہے جو روح سے مسحشُدہ نہیں ہیں؟ جی ہاں۔ آئیں، اِس کی کچھ وجوہات پر غور کریں۔
12. ہم متی 28:19، 20 میں درج یسوع مسیح کے الفاظ سے کیا سیکھتے ہیں؟
12 یسوع مسیح نے اپنے تمام شاگردوں کو مُنادی کرنے کا حکم دیا۔ مُردوں میں سے زندہ ہونے کے بعد یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو شاگرد بنائیں اور اُنہیں یہ تعلیم دیں کہ وہ ”اُن سب باتوں پر عمل کریں“ جن کا یسوع مسیح نے حکم دیا ہے۔ اِن باتوں میں شاگرد بنانے کا حکم بھی شامل ہے۔ (متی 28:19، 20 کو پڑھیں۔) لہٰذا مسیح کے سب شاگردوں کو مُنادی کرنی چاہیے، چاہے وہ آسمان پر جانے کی اُمید رکھتے ہوں یا زمین پر ہمیشہ کی زندگی پانے کی۔—اعما 10:42۔
13. یوحنا رسول نے جو رویا دیکھی، اُس سے ہم کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں اور کیوں؟
13 مکاشفہ کی کتاب سے پتہ چلتا ہے کہ ممسوح مسیحیوں کے علاوہ اَور بھی لوگ مُنادی کا کام کریں گے۔ یسوع مسیح نے یوحنا رسول کو رویا میں ”دُلہن“ دِکھائی جو لوگوں کو ’آبِحیات مُفت لینے‘ کی دعوت دیتی ہے۔ یہ دُلہن 1 لاکھ 44 ہزار ممسوح مسیحیوں پر مشتمل ہے جو آسمان پر مسیح کے ساتھ حکمرانی کریں گے۔ (مکا 14:1، 3؛ 22:17) آبِحیات یسوع مسیح کے فدیے کی طرف اِشارہ کرتا ہے جس کی بِنا پر اِنسانوں کو گُناہ اور موت سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔ (متی 20:28؛ یوح 3:16؛ 1-یوح 4:9، 10) فدیہ ہمارے پیغام کا ایک اہم پہلو ہے۔ اور اِس پیغام کو پھیلانے میں ممسوح مسیحی پیش پیش ہیں۔ (1-کر 1:23) لیکن یوحنا رسول نے رویا میں ایک ایسے گروہ کو بھی دیکھا جو ممسوح نہیں ہے۔ یہ گروہ زمین پر زندگی پانے کی اُمید رکھتا ہے۔ اِسے بھی یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو آبِحیات لینے کی دعوت دے۔ لہٰذا اِس رویا سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جو بھی اِس دعوت کو قبول کرتا ہے، اُس پر مُنادی کا کام کرنے کی ذمےداری آ جاتی ہے۔
14. ”مسیح کی شریعت“ پر عمل کرنے میں کیا شامل ہے؟
14 وہ سب جو ”مسیح کی شریعت“ کے پابند ہیں، اُن پر مُنادی کرنے کی ذمےداری آتی ہے۔ (گل 6:2) یہوواہ خدا نے اپنے تمام بندوں کو ایک ہی جیسے قوانین دیے ہیں۔ مثال کے طور پر اُس نے اِسرائیلیوں سے کہا: ”وطنی اور اُس اجنبی کے لئے جو تمہارے بیچ مقیم ہو ایک ہی شریعت ہوگی۔“ (خر 12:49؛ احبا 24:22) آج مسیحی، شریعت کے پابند نہیں ہیں۔ لیکن ہم سب ”مسیح کی شریعت“ کے پابند ضرور ہیں، چاہے ہم ممسوح مسیحی ہوں یا نہ ہوں۔ اِس شریعت میں وہ سب باتیں شامل ہیں جن کی تعلیم یسوع مسیح نے دی۔ اِن میں سب سے اہم تعلیم یہ ہے کہ ہم محبت ظاہر کریں۔ (یوح 13:35؛ یعقو 2:8) خدا، مسیح اور پڑوسی سے محبت ظاہر کرنے کا ایک خاص طریقہ یہ ہے کہ ہم بادشاہت کی خوشخبری سنائیں۔—یوح 15:10؛ اعما 1:8۔
15. ہم یہ کیوں کہہ سکتے ہیں کہ یسوع مسیح نے مُنادی کرنے کا حکم اپنے سب شاگردوں کو دیا؟
15 جو بات یسوع مسیح نے چھوٹے گروہ سے کہی، وہی بات بڑے گروہ پر بھی لاگو ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر یسوع مسیح نے بادشاہت کا عہد اپنے 11 رسولوں کے ساتھ باندھا تھا لیکن اِس عہد میں دراصل 1 لاکھ 44 ہزار اشخاص شامل ہیں۔ (لو 22:29، 30؛ مکا 5:10؛ 7:4-8) اِسی طرح جب یسوع مسیح مُردوں میں سے زندہ ہوئے تو اُنہوں نے اپنے شاگردوں کے ایک چھوٹے گروہ کو مُنادی کرنے کا حکم دیا۔ (اعما 10:40-42؛ 1-کر 15:6) لیکن پہلی صدی میں اُن کے تمام شاگرد اِس بات کو سمجھتے تھے کہ یہ حکم اُن سب پر بھی لاگو ہوتا ہے، بھلے ہی یسوع مسیح نے اُنہیں براہِراست یہ حکم نہیں دیا۔ (اعما 8:4؛ 1-پطر 1:8) آج بھی یسوع مسیح کے 80 لاکھ شاگرد مُنادی کا کام کر رہے ہیں حالانکہ یسوع مسیح نے اُنہیں آمنے سامنے ہو کر یہ حکم نہیں دیا۔ لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ یسوع مسیح پر اپنا ایمان ظاہر کرنے کے لیے مُنادی کرنا لازمی ہے۔—یعقو 2:18۔
وفاداری ظاہر کرنے کا یہی وقت ہے
16-18. (الف) ہم مسیح کے بھائیوں کی مدد کیسے کر سکتے ہیں؟ (ب) مسیح کے بھائیوں کی حمایت کرنے کا یہی وقت کیوں ہے؟
16 شیطان، مسیح کے اُن سب ممسوح بھائیوں سے لڑ رہا ہے جو زمین پر موجود ہیں۔ وہ جانتا ہے کہ اُس کے پاس ”تھوڑا ہی سا وقت باقی ہے۔“ جوںجوں یہ وقت گزرتا جائے گا، اُس کے حملوں میں شدت آتی جائے گی۔ (مکا 12:9، 12، 17) شیطان کے شدید حملوں کے باوجود ممسوح مسیحی مُنادی کے کام میں پیش پیش ہیں۔ آج جتنے بڑے پیمانے پر خوشخبری سنائی جا رہی ہے اُتنے بڑے پیمانے پر پہلے کبھی نہیں سنائی گئی۔ بےشک یسوع مسیح اپنے ممسوح بھائیوں کے ساتھ ہیں اور اِس کام میں اُن کی رہنمائی کر رہے ہیں۔—متی 28:20۔
17 ہم مسیح کے بھائیوں کی مدد کرنے کو اعزاز خیال کرتے ہیں۔ ہم نہ صرف مُنادی کے کام میں بلکہ عطیات دینے، عبادتگاہ اور برانچ کے دفتر تعمیر کرنے سے بھی اُن کی مدد کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ ہم اُن بھائیوں کے فرمانبردار رہتے ہیں جنہیں ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ نے مقرر کِیا ہے۔—متی 24:45-47؛ عبر 13:17۔
18 بہت جلد زمین پر موجود ممسوح مسیحیوں پر حتمی مہر ہونے والی ہے۔ اِس کے بعد فرشتے بڑی مصیبت کی تیز ہواؤں کو اِس دُنیا پر چھوڑ دیں گے۔ (مکا 7:1-3) ہرمجِدّون شروع ہونے سے پہلے ممسوح مسیحیوں کو آسمان پر اُٹھا لیا جائے گا۔ (متی 13:41-43) لہٰذا اگر ہم چاہتے ہیں کہ یسوع مسیح ہمیں بھیڑیں قرار دیں تو ہمیں ابھی وفاداری سے مسیح کے بھائیوں کی حمایت کرنی ہوگی۔
a اِس تمثیل کے بارے میں مزید معلومات جاننے کے لیے مینارِنگہبانی 1 دسمبر 1995ء میں مضامین ”آپ عدالتی تخت کے سامنے کیسے کھڑے ہوں گے؟“ اور ”بھیڑوں اور بکریوں کے لیے کیا مستقبل؟“ کو دیکھیں۔