’تم میرے دوست ہو‘
”جوکچھ مَیں تُم کو حکم دیتا ہوں اگر تُم اُسے کرو تو میرے دوست ہو۔“—یوح ۱۵:۱۴۔
۱، ۲. (ا) یسوع مسیح کے دوست کونسے فرقفرق پسمنظر سے تعلق رکھتے تھے؟ (ب) ہمارے لئے یسوع کے دوست بننا اتنا اہم کیوں ہے؟
بالاخانہ میں یسوع مسیح کے ساتھ بیٹھے اشخاص فرقفرق پسمنظر سے تعلق رکھتے تھے۔ پطرس اور اُس کا بھائی اندریاس ماہیگیر تھے۔ متی پہلے محصول لیتا تھا جو ایک ایسا پیشہ تھا جسے یہودی حقیر خیال کرتے تھے۔ بعض جیسا کہ یوحنا اور یعقوب یسوع مسیح کو بچپن سے جانتے تھے۔ جبکہ نتنایل اور دیگر شاگرد محض چند سال سے اُسے جانتے تھے۔ (یوح ۱:۴۳-۵۰) پھربھی یروشلیم میں عیدِفسح کے اِس اہمترین موقع پر حاضر یہ تمام اشخاص اِس بات پر پورا یقین رکھتے تھے کہ یسوع ہی مسیح اور زندہ خدا کا بیٹا ہے۔ (یوح ۶:۶۸، ۶۹) اِس موقع پر یسوع مسیح نے اُن سے کہا: ”تمہیں مَیں نے دوست کہا ہے۔ اِس لئے کہ جو باتیں مَیں نے اپنے باپ سے سنیں وہ سب تُم کو بتا دیں۔“ (یوح ۱۵:۱۵) یسوع کے اِن الفاظ کو سن کر اُنہیں یقیناً یہ محسوس ہوا ہوگا کہ وہ اُن سے کتنی محبت رکھتا ہے!
۲ اگرچہ وفادار رسولوں سے کہے گئے یسوع مسیح کے اِن الفاظ کا اطلاق بنیادی طور پر ممسوح مسیحیوں پر ہوتا ہے لیکن یہ الفاظ یسوع کی ’اَور بھیڑوں‘ پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ (یوح ۱۰:۱۶) خواہ ہم کسی بھی پسمنظر سے تعلق رکھتے ہوں ہم سب یسوع مسیح کے دوست بننے کا شرف حاصل کر سکتے ہیں۔ یسوع مسیح سے دوستی کرنا بہت اہم ہے کیونکہ اُس کے دوست بننے سے ہم یہوواہ خدا کے دوست بننے کے قابل ہوں گے۔ دراصل یسوع مسیح کے قریب جائے بغیر یہوواہ خدا کی قربت حاصل کرنا ناممکن ہے۔ (یوحنا ۱۴:۶، ۲۱ کو پڑھیں۔) پس یسوع کے دوست بننے اور پھر اِس دوستی کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ اِس سوال کا جواب حاصل کرنے سے پہلے ہم اِس بات پر غور کریں گے کہ یسوع نے ایک اچھا دوست بننے کے سلسلے میں عمدہ مثال کیسے قائم کی۔ ہم یہ بھی سیکھیں گے کہ یسوع کے شاگردوں نے اُس کی دوستی کے لئے کیسا ردِعمل دکھایا۔
یسوع دوستی کی عمدہ مثال
۳. یسوع مسیح کن لوگوں سے دوستی رکھنے کی وجہ سے مشہور تھا؟
۳ بادشاہ سلیمان نے لکھا: ”مالدار کے دوست بہت ہیں۔“ (امثا ۱۴:۲۰) اِس میں کوئی شک نہیں کہ انسان اُن لوگوں کے ساتھ دوستی کرنے کی طرف مائل ہوتے ہیں جن سے اُنہیں فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ تاہم، یسوع نے کبھی اِس وجہ سے کسی سے دوستی نہیں کی تھی۔ وہ کبھی کسی کی مالی یا معاشی حیثیت سے متاثر نہیں ہوا تھا۔ یہ سچ ہے کہ ایک مرتبہ یسوع کو ایک امیر شخص پر پیار آیا اور اُس نے اُسے اپنا پیروکار بننے کی دعوت دی۔ لیکن اِس کے ساتھساتھ یسوع نے اُسے یہ ہدایت بھی دی کہ اپنا سب کچھ بیچ کر غریبوں کو دے دے۔ (مر ۱۰:۱۷-۲۲؛ لو ۱۸:۱۸، ۲۳) یسوع مسیح دولتمندوں اور ممتاز لوگوں سے نہیں بلکہ حقیر اور کمتر خیال کئے جانے والے لوگوں سے دوستی رکھنے کی وجہ سے مشہور تھا۔—متی ۱۱:۱۹۔
۴. یسوع مسیح کے دوستوں میں کون سی خامیاں پائی جاتی تھیں؟
۴ بِلاشُبہ، یسوع کے دوستوں میں خامیاں پائی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر، بعض مواقع پر پطرس معاملات کو یہوواہ کی نظر سے دیکھنے میں ناکام ہو گیا۔ (متی ۱۶:۲۱-۲۳) اِس کے علاوہ، یوحنا اور یعقوب نے خود کو افضل سمجھتے ہوئے یسوع سے اُس کی بادشاہت میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے درخواست کی۔ جب یسوع کے دیگر رسولوں نے یہ سنا تو وہ ناراض ہوگئے کیونکہ وہ سب اکثر اِس بات پر بحث کِیا کرتے تھے کہ اُن میں سے بڑا کون ہے۔ تاہم، یسوع مسیح نے اُن پر غصہ کرنے کی بجائے تحمل سے اُن کی سوچ کو درست کرنے کی کوشش کی۔—متی ۲۰:۲۰-۲۸۔
۵، ۶. (ا) یسوع مسیح نے اپنے گیارہ رسولوں کے ساتھ دوستی قائم کیوں رکھی؟ (ب) یسوع مسیح نے یہوداہ سے دوستی ختم کیوں کر دی؟
۵ اپنے شاگردوں کی خامیوں کے باوجود یسوع مسیح نے اُن سے دوستی برقرار رکھی۔ اِس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ اُن کی خامیوں کو دیکھ نہیں سکتا تھا یا اُن کی غلطیوں کو معمولی سمجھتا تھا بلکہ اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اُن کی خوبیوں پر توجہ دیتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اُن کی نیت نیک ہے۔ مثال کے طور پر، پطرس، یعقوب اور یوحنا کٹھن وقت میں یسوع کا ساتھ دینے کی بجائے سو گئے۔ اگرچہ یسوع اُنہیں سوتا دیکھ کر بہت مایوس ہوا توبھی وہ اُن کے دل کو جانتا تھا۔ اُس نے کہا: ”رُوح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے۔“—متی ۲۶:۴۱۔
۶ اِس کے برعکس، یسوع مسیح نے یہوداہ اسکریوتی کے ساتھ اپنی دوستی ختم کر دی۔ اگرچہ یہوداہ ظاہری طور پر یسوع کے ساتھ دوستی قائم رکھے ہوئے تھا توبھی یسوع مسیح اچھی طرح جانتا تھا کہ یہوداہ کے دل میں لالچ بھرا ہے۔ یہوداہ نے دُنیا سے دوستی کرکے خود کو خدا کا دشمن بنا لیا تھا۔ (یعقو ۴:۴) اِس لئے یسوع نے اپنے گیارہ وفادار رسولوں سے دوستی کا اظہار کرنے سے پہلے یہوداہ کو اُن میں سے نکال دیا۔—یوح ۱۳:۲۱-۳۵۔
۷، ۸. یسوع مسیح نے اپنے دوستوں کے لئے محبت کیسے ظاہر کی؟
۷ یسوع نے اپنے وفادار دوستوں کی غلطیوں کو نگاہ میں رکھنے کی بجائے اُن کی بھلائی کے لئے کام کِیا۔ مثال کے طور پر، اُس نے اپنے باپ سے دُعا کی کہ وہ مصیبت کے وقت اُس کے شاگردوں کی حفاظت کرے۔ (یوحنا ۱۷:۱۱ کو پڑھیں۔) نیز، یسوع مسیح نے اُن کی جسمانی کمزوریوں کو بھی مدِنظر رکھا۔ (مر ۶:۳۰-۳۲) اِس کے علاوہ، وہ نہ صرف شاگردوں کو اپنی سوچ کے بارے میں بتاتا تھا بلکہ اُن کے خیالات کو سننے اور احساسات کو سمجھنے میں بھی دلچسپی رکھتا تھا۔—متی ۱۶:۱۳-۱۶؛ ۱۷:۲۴-۲۶۔
۸ یسوع مسیح نے نہ صرف اپنی زندگی سے بلکہ اپنی موت سے بھی اپنے دوستوں کو فائدہ پہنچایا۔ یہ سچ ہے کہ یسوع نے اپنے باپ کے انصاف کے معیار کو پورا کرنے کے لئے اپنی زندگی کو پیش کِیا۔ (متی ۲۶:۲۷، ۲۸؛ عبر ۹:۲۲، ۲۸) لیکن اصل میں یسوع کا اپنی جان قربان کرنا اُس کی محبت کا ایک اظہار تھا۔ یسوع مسیح نے کہا: ”اِس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کے لئے دیدے۔“—یوح ۱۵:۱۳۔
یسوع کی دوستی کے لئے شاگردوں کا ردِعمل
۹، ۱۰. یسوع کی محبت اور فیاضی پر لوگوں نے کیسا ردِعمل دکھایا؟
۹ یسوع مسیح ہمیشہ دوسروں کے لئے وقت نکالتا تھا۔ وہ لوگوں کے ساتھ پیارومحبت سے پیش آتا اور فیاضی سے اُن کی ضروریات کو پورا کرتا تھا۔ اِس کے نتیجے میں لوگ یسوع کی طرف کھنچے چلے آتے اور خوشی کے ساتھ اپنے مال سے اُس کی خدمت کِیا کرتے تھے۔ (لو ۸:۱-۳) لہٰذا، یسوع اپنے تجربے سے یہ کہہ سکتا تھا: ”دیا کرو۔ تمہیں بھی دیا جائے گا۔ اچھا پیمانہ دابداب کر اور ہلا ہلا کر اور لبریز کرکے تمہارے پلے میں ڈالیں گے کیونکہ جس پیمانہ سے تُم ناپتے ہو اُسی سے تمہارے لئے ناپا جائے گا۔“—لو ۶:۳۸۔
۱۰ بِلاشُبہ، کچھ لوگ صرف اپنا مطلب پورا کرنے کے لئے یسوع مسیح کے پیچھے چلتے تھے۔ لیکن جب یہ جھوٹے دوست یسوع کی تعلیم کو صحیح طور پر نہیں سمجھ پائے تو اُسے چھوڑ کر چلے گئے۔ یسوع پر بھروسا رکھنے کی بجائے اُنہوں نے فوراً ہی ایک غلط نتیجہ اخذ کر لیا اور پھر اُس کے ساتھ نہ رہے۔ اِس کے برعکس، رسول یسوع کے وفادار رہے۔ اگرچہ یسوع کے ساتھ دوستی رکھنے کی وجہ سے اُنہیں آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا توبھی اُنہوں نے ہر اچھےبُرے وقت میں اُس کا ساتھ دیا۔ (یوحنا ۶:۲۶، ۵۶، ۶۰، ۶۶-۶۸ کو پڑھیں۔) زمین پر اپنی آخری رات کے دوران، یسوع نے اپنے شاگردوں کے لئے قدردانی کا اظہار کرتے ہوئے یوں کہا: ”تُم وہ ہو جو میری آزمایشوں میں برابر میرے ساتھ رہے۔“—لو ۲۲:۲۸۔
۱۱، ۱۲. (ا) یسوع نے اپنے شاگردوں کو کس بات کا یقین دلایا، اور کیسے؟ (ب) اِس پر شاگردوں نے کیسا ردِعمل دکھایا؟
۱۱ یسوع مسیح نے اپنے شاگردوں کی وفاداری کی تعریف کی لیکن اِس کے تھوڑی ہی دیر بعد وہ اُسے چھوڑ کر چلے گئے۔ اگرچہ وقتی طور پر انسانی خوف مسیح کے لئے اُن کی محبت پر غالب آ گیا پھربھی اُس نے اُنہیں معاف کر دیا۔ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد یسوع مسیح اپنے شاگردوں پر ظاہر ہوا اور اُنہیں اپنی دوستی کا یقین دلایا۔ نیز، اُس نے اُنہیں ایک اہم کام سونپا کہ وہ ”سب قوموں“ کو شاگرد بنائیں اور ”زمین کی انتہا تک“ اُس کے بارے میں گواہی دیں۔ (متی ۲۸:۱۹؛ اعما ۱:۸) شاگردوں نے اِس حکم کے لئے کیسا ردِعمل دکھایا؟
۱۲ شاگردوں نے بادشاہتی پیغام کو پھیلانے کے لئے سخت محنت کی۔ یہوواہ خدا کی پاک رُوح کی مدد سے جلد ہی اُنہوں نے تمام یروشلیم میں یسوع کی تعلیمات کو پھیلا دیا۔ (اعما ۵:۲۷-۲۹) اگرچہ اِس کام میں اُن کی جان بھی جا سکتی تھی توبھی اُنہوں نے شاگرد بنانے کے متعلق یسوع کے حکم کو پورا کِیا۔ اِس حکم کے تقریباً ۳۰ سال بعد پولس رسول یہ لکھنے کے قابل ہوا کہ خوشخبری کی مُنادی ”آسمان کے نیچے کی تمام مخلوقات میں“ کر دی گئی ہے۔ (کل ۱:۲۳) بِلاشُبہ، اِن شاگردوں نے یہ ثابت کِیا کہ وہ یسوع کے ساتھ دوستی کے شرف کی بہت قدر کرتے تھے۔
۱۳. یسوع کے شاگردوں نے کن طریقوں سے اُس کی تعلیمات پر عمل کِیا؟
۱۳ یسوع کے شاگرد بننے والے اشخاص نے اُس کی تعلیمات پر عمل بھی کِیا۔ بہتیرے شاگرد اپنی شخصیت اور چالچلن میں بڑی تبدیلیاں لائے۔ اِن میں سے بعض پہلے زناکار، ہمجنس پسند، چور اور شرابی تھے۔ (۱-کر ۶:۹-۱۱) جبکہ دیگر کو دوسری نسل سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے متعلق اپنی سوچ میں تبدیلی لانی پڑی۔ (اعما ۱۰:۲۵-۲۸) اُنہوں نے یسوع کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے پُرانی انسانیت کو اُتار دیا اور نئی انسانیت کو پہن لیا۔ (افس ۴:۲۰-۲۴) ”مسیح کی عقل“ کو جاننے سے وہ اُس کی سوچ کو سمجھنے اور اُس کے نقشِقدم پر چلنے کے قابل ہوئے۔—۱-کر ۲:۱۶۔
آجکل مسیح کے ساتھ دوستی
۱۴. ”دُنیا کے آخر“ کے دوران یسوع نے کیا کرنے کا وعدہ کِیا تھا؟
۱۴ پہلی صدی کے بہتیرے مسیحی یسوع کو ذاتی طور پر جانتے تھے جبکہ دیگر نے اُسے جی اُٹھنے کے بعد دیکھا تھا۔ یہ سچ ہے کہ ہمیں یہ شرف حاصل نہیں ہوا۔ توپھر ہم یسوع کے دوست کیسے بن سکتے ہیں؟ اِس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم دیانتدار اور عقلمند نوکر کی طرف سے ملنے والی ہدایات پر عمل کریں۔ یہ نوکر جماعت یسوع کے اُن ممسوح بھائیوں پر مشتمل ہے جو ابھی تک زمین پر موجود ہیں۔ یسوع نے وعدہ کِیا تھا کہ وہ اِس نوکر کو ”دُنیا کے آخر“ کے دوران اپنے ”سارے مال“ کا مختار کر دے گا۔ (متی ۲۴:۳، ۴۵-۴۷) آجکل یسوع کے ساتھ دوستی کی خواہش رکھنے والوں کی اکثریت اِس نوکر جماعت کا حصہ نہیں ہے۔ یہ لوگ نوکر جماعت کی طرف سے ملنے والی ہدایات کے لئے جو ردِعمل دکھاتے ہیں وہ مسیح کے ساتھ اُن کی دوستی پر کیسے اثرانداز ہوتا ہے؟
۱۵. یہ کیسے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک شخص بھیڑوں میں شامل ہے یا بکریوں میں؟
۱۵ متی ۲۵:۳۱-۴۰ کو پڑھیں۔ یسوع نے دیانتدار نوکر جماعت کو تشکیل دینے والے اشخاص کو اپنا بھائی کہا۔ یسوع نے بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرنے کی تمثیل میں واضح کِیا کہ جو سلوک اُس کے بھائیوں کے ساتھ کِیا جاتا ہے وہ ایسے ہی ہے جیسے کہ خود اُس کے ساتھ کِیا گیا ہو۔ درحقیقت، یسوع یہاں یہ کہہ رہا تھا کہ ایک شخص ”[اُس کے] اِن سب سے چھوٹے بھائیوں“ سے جس طرح پیش آتا ہے اُس سے ظاہر ہوگا کہ آیا وہ بھیڑوں میں شامل ہے یا بکریوں میں۔ لہٰذا، جب زمینی اُمید رکھنے والے لوگ دیانتدار نوکر جماعت کی حمایت کرتے ہیں تو اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسیح کے دوست بننا چاہتے ہیں۔
۱۶، ۱۷. ہم مسیح کے بھائیوں کے لئے اپنی دوستی کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں؟
۱۶ اگر آپ خدا کی بادشاہت میں زمین پر زندگی کی اُمید رکھتے ہیں تو آپ یہ کیسے ظاہر کر سکتے ہیں کہ آپ مسیح کے بھائیوں کے دوست ہیں؟ آئیں ایسا کرنے کے تین طریقوں پر غور کریں۔ پہلا، مُنادی کے کام میں بھرپور حصہ لیں۔ مسیح نے اپنے بھائیوں کو پوری دُنیا میں خوشخبری کی مُنادی کرنے کا حکم دیا۔ (متی ۲۴:۱۴) لیکن زمین پر مسیح کے بھائیوں کے بقیہ کے لئے دوسری بھیڑوں کی مدد کے بغیر اِس ذمہداری کو پورا کرنا مشکل ہے۔ لہٰذا، جب بھی دوسری بھیڑوں کے ارکان مُنادی کے کام میں حصہ لیتے ہیں تو وہ اِس اہم حکم کو پورا کرنے میں مسیح کے بھائیوں کی مدد کرتے ہیں۔ مسیح کی طرح دیانتدار اور عقلمند نوکر جماعت بھی دوستی کے اِس اظہار کی بہت قدر کرتی ہے۔
۱۷ دوسرا طریقہ جس سے دوسری بھیڑیں مسیح کے بھائیوں کی مدد کر سکتی ہیں وہ اپنے مال سے مُنادی کے کام کی حمایت کرنا ہے۔ یسوع مسیح نے اپنے پیروکاروں کی حوصلہافزائی کی کہ وہ ”ناراستی کی دولت“ سے دوست پیدا کریں۔ (لو ۱۶:۹) اِس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم یہوواہ خدا یا یسوع مسیح کی دوستی کو خرید سکتے ہیں۔ اِس کے برعکس، جب ہم اپنے مالودولت کو خدا کی خدمت میں استعمال کرتے ہیں تو ہم نہ صرف زبان سے بلکہ ”کام اور سچائی“ سے اُس کے لئے اپنی محبت اور دوستی کا ثبوت پیش کرتے ہیں۔ (۱-یوح ۳:۱۶-۱۸) جب ہم خدمتگزاری میں حصہ لیتے، عبادتگاہوں کی تعمیرومرمت اور مُنادی کے کام کے لئے عطیات دیتے ہیں تو ہم مالی طور پر بادشاہتی کاموں کی حمایت کرتے ہیں۔ خواہ ہم زیادہ دیں یا کم، یہوواہ خدا اور یسوع مسیح خوشی سے دینے والوں کو عزیز رکھتے ہیں۔—۲-کر ۹:۷۔
۱۸. ہمیں کلیسیا کے بزرگوں کی طرف سے دی جانے والی بائبل پر مبنی ہدایت پر عمل کیوں کرنا چاہئے؟
۱۸ مسیح کے لئے دوستی ظاہر کرنے کا تیسرا طریقہ کلیسیا کے بزرگوں کی طرف سے دی جانے والی ہدایت پر عمل کرنا ہے۔ اِن اشخاص کو مسیح کے زیرِہدایت روحُالقدس کے ذریعے مقرر کِیا گیا ہے۔ (افس ۵:۲۳) پولس رسول نے لکھا: ”اپنے پیشواؤں کے فرمانبردار اور تابع رہو۔“ (عبر ۱۳:۱۷) بعضاوقات، ہو سکتا ہے کہ ہمیں کلیسیا کے بزرگوں کی طرف سے دی جانے والی بائبل پر مبنی ہدایت پر عمل کرنا مشکل لگے۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہو کہ ہم اُن کی خامیوں سے واقف ہیں۔ لیکن یاد رکھیں کہ کلیسیا کا سر یعنی مسیح اِن خطاکار انسانوں کو استعمال کر رہا ہے۔ اِس لئے ہم اُن کے اختیار کے سلسلے میں جو ردِعمل دکھاتے ہیں وہ مسیح کے ساتھ ہماری دوستی پر اثرانداز ہوتا ہے۔ جب ہم بزرگوں کی خامیوں کو نظر میں نہیں رکھتے اور اُن کی طرف سے ملنے والی ہدایت کو خوشی سے قبول کرتے ہیں تو ہم مسیح کے لئے اپنی محبت کا ثبوت دیتے ہیں۔
ہمیں اچھے دوست کہاں مل سکتے ہیں؟
۱۹، ۲۰. (ا) ہمیں کلیسیا میں کیسے دوست مل سکتے ہیں؟ (ب) اگلے مضمون میں ہم کس بات پر غور کریں گے؟
۱۹ یسوع مسیح نہ صرف بزرگوں کے ذریعے ہماری دیکھبھال کرتا ہے بلکہ وہ ہمیں کلیسیا میں روحانی ماںباپ اور بہنبھائی بھی فراہم کرتا ہے۔ (مرقس ۱۰:۲۹، ۳۰ کو پڑھیں۔) جب آپ نے یہوواہ کے گواہوں کے ساتھ بائبل کا مطالعہ کرنا شروع کِیا تو آپ کے رشتےداروں نے کیسا ردِعمل دکھایا تھا؟ شاید وہ خدا اور مسیح کے قریب جانے کے لئے آپ کی کوششوں سے خوش ہوئے ہوں۔ لیکن یسوع مسیح نے آگاہ کِیا کہ بعضاوقات ”آدمی کے دشمن اُس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔“ (متی ۱۰:۳۶) یہ جاننا کسقدر تسلیبخش ہے کہ کلیسیا میں ہمیں ایسے دوست مل سکتے ہیں جو حقیقی بھائی سے بھی زیادہ محبت دکھاتے ہیں۔—امثا ۱۸:۲۴۔
۲۰ روم کی کلیسیا کے نام اپنے خط کے اختتام پر پولس رسول نے بہت سے قریبی دوستوں کا ذکر کِیا۔ (روم ۱۶:۸-۱۶) یوحنا رسول نے اپنے تیسرے خط کا اختتام اِن الفاظ کے ساتھ کِیا: ”وہاں کے دوستوں سے نام بہ نام سلام کہہ۔“ (۳-یوح ۱۴) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یوحنا نے بھی کلیسیا میں بہت سے دوست بنائے تھے۔ ہم یسوع مسیح اور پہلی صدی کے مسیحیوں کی نقل کرتے ہوئے اپنے مسیحی بہنبھائیوں کے ساتھ دوستی کیسے قائم کر سکتے ہیں؟ اِس سوال کا جواب اگلے مضمون میں دیا جائے گا۔
آپ کا جواب کیا ہوگا؟
• یسوع مسیح نے اچھا دوست بننے کے سلسلے میں کونسی مثال قائم کی؟
• شاگردوں نے یسوع کی دوستی کے لئے کیسا ردِعمل دکھایا؟
• ہم خود کو مسیح کے دوست کیسے ثابت کر سکتے ہیں؟
[صفحہ ۲۲ پر تصویر]
یسوع مسیح اپنے دوستوں کی سوچ اور احساسات میں دلچسپی رکھتا تھا
[صفحہ ۲۴ پر تصویریں]
]
ہم مسیح کے دوست بننے کی خواہش کا اظہار کیسے کر سکتے ہیں؟