بھیڑوں اور بکریوں کیلئے کیا مستقبل؟
”وہ ایک کو دوسرے سے جُدا کریگا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جُدا کرتا ہے۔“—متی ۲۵:۳۲۔
۱، ۲. بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کو ہمارے لئے دلچسپی کا حامل کیوں ہونا چاہئے؟
یسوؔع مسیح واقعی زمین پر ایک عظیمترین اُستاد تھا۔ (یوحنا ۷:۴۶) اُس کے تعلیم دینے کے طریقوں میں سے ایک تمثیلوں یا مثالوں کا استعمال تھا۔ (متی ۱۳:۳۴، ۳۵) یہ سادہ مگر گہری روحانی اور نبوّتی سچائیوں کو دوسروں تک پہنچانے کیلئے نہایت مؤثر تھیں۔
۲ بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل میں، یسوؔع نے اپنی بابت اُس وقت کی نشاندہی کی جب وہ ایک خاص حیثیت میں کام کریگا۔ ”جب ابنِآدم اپنے جلال میں آئیگا اور . . .“ (متی ۲۵:۳۱) یہ ہمارے لئے دلچسپی کی حامل ہونی چاہئے کیونکہ یہ وہ تمثیل ہے جس کیساتھ یسوؔع نے اس سوال کیلئے اپنے جواب کا اختتام کِیا تھا: ”تیرے آنے [”موجودگی،“ اینڈبلیو] اور دُنیا کے آخر ہونے کا نشان کیا ہوگا؟“ (متی ۲۴:۳) لیکن اسکا ہمارے لئے کیا مطلب ہے؟
۳. اپنی ابتدائی گفتگو میں، یسوؔع نے بڑی مصیبت شروع ہونے کے فوراً بعد کس چیز کے واقع ہونے کا ذکر کِیا؟
۳ یسوؔع نے بڑی مصیبت کے شروع ہونے کے ”فوراً . . . بعد“ حیرانکُن واقعات کی پیشینگوئی کی، واقعات جن کے ہم منتظر ہیں۔ اُس نے کہا کہ اُس وقت ”ابنِآدم کا نشان“ ظاہر ہوگا۔ یہ بڑی حد تک ”زمین کی سب قوموں“ پر اثرانداز ہوگا جو ”ابنِآدم کو بڑی قدرت اور جلال کیساتھ آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھیں گی۔“ ابنِآدم ”اپنے فرشتوں“ کے ساتھ ہوگا۔ (متی ۲۴:۲۱، ۲۹-۳۱)a بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کی بابت کیا ہے؟ جدید بائبلیں اسے ۲۵ باب میں تحریر کرتی ہیں، لیکن یہ اپنے جلال میں آنے اور ”سب قوموں“ کی عدالت کرنے پر توجہ مرکوز کرنے کی بابت مزید معلومات فراہم کرتے ہوئے یسوؔع کے جواب کا ایک حصہ ہے۔—متی ۲۵:۳۲۔
تمثیل میں اشخاص
۴. بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل شروع ہی میں یسوؔع کی بابت کیا کہتی ہے، اور مزید کون منظرِعام پر آتا ہے؟
۴ یسوؔع یہ کہتے ہوئے تمثیل کا آغاز کرتا ہے: ”جب ابنِآدم . . .آئیگا۔“ غالباً آپ جانتے ہیں کہ ”ابنِآدم“ کون ہے۔ اناجیل نویسوں نے اکثر اس اصطلاح کا اطلاق یسوؔع پر کِیا۔ بِلاشُبہ ”ایک شخص آدمزاد کی مانند“ کو قدیمالایّام تک پہنچتے اور ”سلطنت اور حشمت اور مملکت“ حاصل کرنے والی، دانیؔایل کی رویا کو ذہن میں رکھتے ہوئے خود یسوؔع نے بھی ایسا ہی کِیا۔ (دانیایل ۷:۱۳، ۱۴؛ متی ۲۶:۶۳، ۶۴؛ مرقس ۱۴:۶۱، ۶۲) اگرچہ اس تمثیل میں یسوؔع اہمترین ہستی ہے، مگر وہ تنہا نہیں ہے۔ اپنی گفتگو کے شروع ہی میں، جیسےکہ متی ۲۴:۳۰، ۳۱ میں بیان کِیا گیا ہے، اُس نے کہا تھا کہ جب ابنِآدم ’بڑی قدرت اور جلال کیساتھ آئیگا‘ تو اُس کے فرشتے ایک اہم کردار ادا کرینگے۔ اسی طرح، بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل یسوؔع کیساتھ فرشتوں کو بھی دکھاتی ہے جب وہ عدالت کرنے کیلئے ’اپنے جلال کے تخت پر بیٹھتا ہے۔‘ (مقابلہ کریں متی ۱۶:۲۷۔) لیکن منصف اور اُس کے فرشتے آسمان پر ہیں، پس کیا تمثیل میں انسانوں کا ذکر کِیا گیا ہے؟
۵. ہم یسوؔع کے ”بھائیوں“ کی شناخت کیسے کر سکتے ہیں؟
۵ تمثیل پر ایک سرسری سی نظر تین گروہوں کو آشکارا کرتی ہے جنہیں ہمیں پہچاننے کی ضرورت ہے۔ بھیڑوں اور بکریوں کے علاوہ، ابنِآدم تیسرے گروہ کا اضافہ کرتا ہے جسکی شناخت بھیڑوں اور بکریوں کو پہچاننے کیلئے بنیادی نکتہ ہے۔ یسوؔع اس تیسرے گروہ کو اپنے روحانی بھائی کہتا ہے۔ (متی ۲۵:۴۰، ۴۵) وہ ضرور سچے پرستار ہونگے کیونکہ یسوؔع نے کہا تھا: ”جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی اور میری بہن اور ماں ہے۔“ (متی ۱۲:۵۰؛ یوحنا ۲۰:۱۷) زیادہ مناسب طور پر، پولسؔ نے اُن مسیحیوں کو لکھا جو ”ابرہام کی نسل“ کا حصہ ہیں اور جو خدا کے فرزند ہیں۔ اُس نے اُنہیں یسوؔع کے ”بھائی“ اور ”آسمانی بلاوئے میں شریک“ کہا تھا۔—عبرانیوں ۲:۹–۳:۱؛ گلتیوں ۳:۲۶، ۲۹۔
۶. یسوؔع کے بھائیوں میں ”سب سے چھوٹے“ کون ہیں؟
۶ یسوؔع نے اپنے بھائیوں میں سے ”سب سے چھو ٹے“ کا ذکر کیوں کِیا ہے؟ جو کچھ رسولوں نے اُسے پہلے کہتے سنا تھا یہ الفاظ اُس کی صدائےبازگشت تھے۔ یوؔحنا اصطباغی کا جو یسوؔع سے پہلے وفات پا گیا تھا، اور اسلئے زمینی اُمید رکھتا تھا، اُن کیساتھ موازنہ کرتے وقت جو آسمانی زندگی حاصل کرینگے، یسوؔع نے کہا: ”اُن میں یوؔحنا بپتسمہ دینے والے سے بڑا کوئی نہیں ہوا لیکن جو آسمان کی بادشاہی میں چھوٹا ہے وہ اُس سے بڑا ہے۔“ (متی ۱۱:۱۱) ہو سکتا ہے کہ آسمان پر جانے والے بعض لوگ کلیسیا میں نمایاں رہے ہوں، جیسےکہ رسول اور دیگر اُن سے کمتر لوگ، لیکن وہ سب یسوؔع کے روحانی بھائی ہیں۔ (لوقا ۱۶:۱۰؛ ۱-کرنتھیوں ۱۵:۹؛ افسیوں ۳:۸؛ عبرانیوں ۸:۱۱) لہٰذا، اگرچہ اُن میں سے بعض زمین پر زیادہ نمایاں نہ بھی دکھائی دئے ہوں تو بھی وہ اُس کے بھائی تھے اور اسلئے اُن کیساتھ اسکی مطابقت میں برتاؤ کِیا جانا چاہئے تھا۔
بھیڑیں اور بکریاں کون ہیں؟
۷، ۸. یسوؔع نے بھیڑوں کی بابت کیا کہا، پس ہم اُن کی بابت کیا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں؟
۷ ہم بھیڑوں کی عدالت کی بابت پڑھتے ہیں: ”[یسوؔع] اپنے دہنی طرف والوں سے کہے گا آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایِعالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔ کیونکہ مَیں بھوکا تھا۔ تُم نے مجھے کھانا کھلایا۔ مَیں پیاسا تھا۔ تُم نے مجھے پانی پلایا۔ مَیں پردیسی تھا۔ تُم نے مجھے اپنے گھر میں اُتارا۔ ننگا تھا۔ تُم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ بیمار تھا۔ تُم نے میری خبر لی۔ قید میں تھا۔ تُم میرے پاس آئے۔ تب راستباز جواب میں اُس سے کہیں گے اے خداوند! ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا یا پیاسا دیکھ کر پانی پلایا؟ ہم نے کب تجھے پردیسی دیکھ کر گھر میں اُتارا؟ یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنایا؟ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے؟ بادشاہ جواب میں اُن سے کہیگا مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تُم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ یہ سلوک کِیا تو میرے ہی ساتھ کِیا۔“—متی ۲۵:۳۴-۴۰۔
۸ واضح طور پر، بھیڑیں جو یسوؔع کے دہنی طرف کھڑے ہونے کی عزت اور کرمفرمائی کی مستحق قرار پاتی ہیں انسانوں کی ایک جماعت کی نمائندگی کرتی ہیں۔ (افسیوں ۱:۲۰؛ عبرانیوں ۱:۳) وہ کیا کرتی ہیں اور کب؟ یسوؔع کہتا ہے اُنہوں نے رحمدلی سے، باعزت اور فیاضانہ طور پر اُسے کھانا، پانی اور کپڑے دئے، اور جب وہ بیمار یا قید میں تھا تو اُس کی مدد کی۔ جب بھیڑیں کہتی ہیں کہ اُنہوں نے ذاتی طور پر یسوؔع کیساتھ ایسا نہیں کِیا ہے تو وہ نشاندہی کرتا ہے کہ اُنہوں نے اُسکے روحانی بھائیوں، ممسوح مسیحیوں کے بقیے کی حمایت کی ہے تو گویا یہ ایسے ہی ہے کہ اُنہوں نے اُس کیساتھ کِیا ہو۔
۹. تمثیل کا اطلاق عہدِہزارسالہ کے دوران کیوں نہیں ہوتا؟
۹ تمثیل کا اطلاق ہزار سال کے دوران نہیں ہوتا، کیونکہ اُس وقت ممسوح بھوک، پیاس، بیماری یا قید کی تکلیف اُٹھانے والے انسان نہیں ہونگے۔ اگرچہ، اُن میں سے بہتیروں نے، اس نظامالعمل کے خاتمے کے دوران اس کا تجربہ کِیا ہے۔ جب سے شیطان کو زمین پر گرا دیا گیا ہے، اُس نے بقیے پر تمسخر، اذیت اور موت لاتے ہوئے اُنہیں اپنے غضب کا خاص نشانہ بنایا ہے۔—مکاشفہ ۱۲:۱۷۔
۱۰، ۱۱. (ا) یہ سوچنا کیوں نامناسب ہوگا کہ بھیڑوں میں وہ سب شامل ہیں جو یسوؔع کے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرتے ہیں؟ (ب) بھیڑیں موزوں طور پر کس کی نمائندگی کرتی ہیں؟
۱۰ کیا یسوؔع یہ کہہ رہا ہے کہ ہر ایک جو اُس کے بھائیوں میں سے کسی کیساتھ کچھ نیکی کرتا ہے، جیسےکہ روٹی کا ایک ٹکڑا یا پانی کا ایک گلاس پیش کرنا وہ ان بھیڑوں میں سے ایک کے طور پر اہل ثابت ہوتا ہے؟ مانا کہ ایسی مہربانیاں کرنا انسانی مہربانی کو منعکس کر سکتا ہے، لیکن درحقیقت، ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس تمثیل کی بھیڑوں میں اور بہت کچھ شامل ہے۔ مثال کے طور پر، شاید ہی یسوؔع، اُن دہریوں یا پادریطبقہ لوگوں کا حوالہ دے رہا تھا جو اُس کے بھائیوں میں سے کسی کیساتھ رحمدلی سے پیش آتے ہیں۔ اسکے برعکس، یسوؔع نے دو مرتبہ ”راستبازوں“ کو بھیڑیں کہا۔ (متی ۲۵:۳۷، ۴۶) لہٰذا بھیڑیں لازماً وہی اشخاص ہونگے جو کافی عرصہ سے—سرگرمی سے حمایت کرتے ہوئے—مسیح کے بھائیوں کی مدد کو آئے ہیں اور جنہوں نے خدا کے حضور ایک راست حیثیت حاصل کرنے کی حد تک ایمان کا مظاہرہ کِیا ہے۔
۱۱ صدیوں کے دوران، اؔبرہام جیسے بہتیرے لوگوں نے راست حیثیت سے لطف اُٹھایا ہے۔ (یعقوب ۲:۲۱-۲۳) نوؔح، اؔبرہام اور دیگر ایماندار لوگوں کا شمار ”دوسری بھیڑوں“ میں ہوتا ہے جو خدا کی بادشاہت کے تحت فردوس میں زندگی حاصل کرینگے۔ حالیہ وقتوں میں مزید لاکھوں لوگوں نے دوسری بھیڑوں کے طور پر سچی پرستش کو اختیار کِیا ہے اور ممسوحوں کیساتھ ”ایک گلّہ“ بن گئے ہیں۔ (یوحنا ۱۰:۱۶؛ مکاشفہ ۷:۹) زمینی اُمید والے یہ لوگ یسوؔع کے بھائیوں کو بادشاہت کے ایلچیوں کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور اسلئے اُنہوں نے—ظاہری اور روحانی طور پر—اُنکی مدد کی ہے۔ دوسری بھیڑیں زمین پر اُسکے بھائیوں کیلئے جو کچھ کرتی ہیں یسوؔع اُسے ایسے خیال کرتا ہے کہ گویا اُسکے ساتھ کِیا گیا ہے۔ ایسے اشخاص جو اُس وقت زندہ ہونگے جب وہ قوموں کی عدالت کیلئے آتا ہے تو اُنکی عدالت بھیڑوں کے طور پر کی جائیگی۔
۱۲. کیوں بھیڑیں یہ سوال کر سکتی ہیں کہ اُنہوں نے کیسے یسوؔع کیساتھ نیکیاں کی ہیں؟
۱۲ اگر دوسری بھیڑیں اب ممسوحوں کیساتھ خوشخبری کی منادی کر رہی ہیں اور اُن کی حمایت کر رہی ہیں تو پھر وہ کیوں یہ کہیں گی: ”اے خداوند! ہم نے کب تجھے بھوکا دیکھ کر کھانا کھلایا یا پیاسا دیکھ کر پانی پلایا؟“ (متی ۲۵:۳۷) اسکی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک تمثیل ہے۔ اس کے ذریعے، یسوؔع اپنے روحانی بھائیوں کے لئے اپنی گہری فکر کو ظاہر کرتا ہے؛ وہ اُن کے ساتھ محسوس کرتا ہے، اُن کے ساتھ دُکھ اُٹھاتا ہے۔ یسوؔع پہلے کہہ چکا تھا: ”جو تُم کو قبول کرتا ہے وہ مجھے قبول کرتا ہے اور جو مجھے قبول کرتا ہے وہ میرے بھیجنے والے کو قبول کرتا ہے۔“ (متی ۱۰:۴۰) اس تمثیل میں، یسوؔع اُصول کی توسیع کرتا ہے، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ اُس کے بھائیوں کے ساتھ جو کچھ بھی کِیا جاتا ہے (نیکی یا بدی) وہ آسمان تک پہنچ جاتا ہے؛ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ گویا آسمان میں اُس کے ساتھ کِیا جا رہا ہو۔ نیز، یسوؔع یہاں عدالت کرنے کے یہوؔواہ کے معیار پر زور دیتا ہے، اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ خدا کا فیصلہ، خواہ سازگار ہو یا ناسازگار، وہ معقول اور منصفانہ ہے۔ بکریاں یہ عذر پیش نہیں کر سکتیں کہ ’کاش ہم نے براہِراست تجھے دیکھا ہوتا۔‘
۱۳. بکرینما لوگ یسوؔع کو ”خداوند“ کے طور پر کیوں مخاطب کر سکتے ہیں؟
۱۳ ایک بار جب ہم یہ جان لیتے ہیں کہ جو عدالت اس تمثیل میں دکھائی گئی ہے کب شروع ہوتی ہے تو ہم اس چیز کی واضح سمجھ حاصل کر لیتے ہیں کہ بکریاں کون ہیں۔ اُس کی تکمیل اُس وقت ہوتی ہے جب ”ابنِآدم کا نشان آسمان پر دکھائی دے گا اور اُس وقت زمین کی سب قومیں چھاتی پیٹیں گی اور ابنِآدم کو بڑی قدرت اور جلال کے ساتھ . . . آتے دیکھیں گی۔“ (متی ۲۴:۲۹، ۳۰) بڑے بابلؔ پر آنے والی مصیبت سے بچنے والے جنہوں نے بادشاہ کے بھائیوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کِیا ہے اب شاید مایوسی کی حالت میں اپنی زندگیاں بچانے کی اُمید میں، منصف کو بطور ”خداوند“ مخاطب کریں۔—متی ۷:۲۲، ۲۳؛ مقابلہ کریں مکاشفہ ۶:۱۵-۱۷۔
۱۴. یسوؔع کس بنیاد پر بھیڑوں اور بکریوں کا انصاف کریگا؟
۱۴ تاہم، یسوؔع کی عدالت ماضی کے چرچ جانے والوں، دہریوں یا دیگر لوگوں کے قطعاً مایوسکُن دعوؤں پر مبنی نہیں ہوگی۔ (۲-تھسلنیکیوں ۱:۸) اس کی بجائے، منصف لوگوں کی دلی کیفیت اور ماضی میں اُن کے ”ان سب سے چھوٹوں [اُس کے بھائیوں]“ کے ساتھ سلوک کا جائزہ لے گا۔ اس بات کو ماننا پڑتا ہے کہ زمین پر ممسوح مسیحیوں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ تاہم، جب تک ممسوح جو ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کو تشکیل دیتے ہیں، وہ روحانی خوراک اور راہنمائی فراہم کرنا جاری رکھتے ہیں، امکانی بھیڑوں کے پاس نوکر جماعت کے ساتھ بھلائی کرنے کا موقع ہے، جیسےکہ ’ہر ایک قوم اور قبیلہ اور اُمت کی ایک بڑی بھیڑ‘ نے کِیا ہے۔—مکاشفہ ۷:۹، ۱۴۔
۱۵. (ا) بہتیرے لوگوں نے خود کو بکریوں کی مانند کیسے ثابت کِیا ہے؟ (ب) ہمیں یہ کہنے سے کیوں گریز کرنا چاہئے کہ آیا کوئی بھیڑ ہے یا بکری؟
۱۵ مسیح کے بھائیوں اور اُنکے ساتھ ایک گلّہ کے طور پر متحد دوسری بھیڑوں کے لاکھوں لوگوں کیساتھ کیسا برتاؤ کِیا گیا ہے؟ متعدد لوگوں نے شاید ذاتی طور پر مسیح کے نمائندوں پر حملہ نہ کِیا ہو، لیکن اُنہوں نے اُس کے لوگوں کیساتھ مشفقانہ برتاؤ بھی نہیں کِیا ہے۔ بدکار دُنیا کو ترجیح دیتے ہوئے، بکرینما اشخاص بادشاہتی پیغام کو مسترد کرتے ہیں، خواہ وہ اسے بِلاواسطہ یا بالواسطہ سنتے ہیں۔ (۱-یوحنا ۲:۱۵-۱۷) یقیناً، آخری تجزیے میں، یسوؔع ہی وہ شخص ہے جو عدالت کرنے کیلئے مقرر کِیا جاتا ہے۔ اس بات کا تعیّن کرنا کہ کون بھیڑیں ہیں اور کون بکریاں ہیں ہمارا کام نہیں ہے۔—مرقس ۲:۸؛ لوقا ۵:۲۲؛ یوحنا ۲:۲۴، ۲۵؛ رومیوں ۱۴:۱۰-۱۲؛ ۱-کرنتھیوں ۴:۵۔
ہر گروہ کا مستقبل کیا ہے؟
۱۶، ۱۷. بھیڑوں کا مستقبل کیا ہوگا؟
۱۶ یسوؔع نے بھیڑوں کی بابت اپنا فیصلہ سنا دِیا تھا: ”آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایِعالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔“ کیا ہی پُرتپاک دعوت—”آؤ“! کس لئے؟ ہمیشہ کی زندگی کیلئے، جیسےکہ اُس نے خلاصہ کے طور پر بیان کِیا: ”راستباز ہمیشہ کی زندگی [میں داخل ہونگے]۔“—متی ۲۵:۳۴، ۴۶۔
۱۷ توڑوں کی تمثیل میں، یسوؔع نے ظاہر کِیا کہ اُن سے کیا تقاضا کِیا جاتا ہے جو اُسکے ساتھ آسمان میں بادشاہی کرینگے، لیکن اس تمثیل میں وہ ظاہر کرتا ہے کہ بادشاہت کی رعایا سے کیا توقع کی جاتی ہے۔ (متی ۲۵:۱۴-۲۳) خاص طور پر، مسیح کے بھائیوں کیلئے اپنی غیرمنقسم حمایت کی وجہ سے، بھیڑیں اُس کی بادشاہت کے زمینی قلمرو میں جگہ حاصل کرتی ہیں۔ وہ فردوسی زمین پر زندگی سے لطفاندوز ہوں گی—ایک ایسا مستقبل جو خدا نے چھٹکارا پانے کے قابل انسانوں کیلئے ”بنایِعالم سے“ تیار کِیا تھا۔—لوقا ۱۱:۵۰، ۵۱۔
۱۸، ۱۹. (ا) یسوؔع بکریوں کو کیا سزا سنائے گا؟ (ب) ہم یہ یقین کیسے رکھ سکتے ہیں کہ بکریاں ابدی تکلیف کا سامنا نہیں کرینگی؟
۱۸ بکریوں پر صادر کی جانے والی سزا اس کے کسقدر برعکس ہے! ”پھر وہ بائیں طرف والوں سے کہیگا اے ملعونو میرے سامنے سے اُس ہمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ جو ابلیس اور اُسکے فرشتوں کیلئے تیار کی گئی ہے۔ کیونکہ مَیں بھوکا تھا تُم نے مجھے کھانا نہ کھلایا۔ پیاسا تھا تُم نے مجھے پانی نہ پلایا۔ پردیسی تھا تُم نے مجھے گھر میں نہ اُتارا۔ ننگا تھا تُم نے مجھے کپڑا نہ پہنایا۔ بیمار اور قید میں تھا۔ تُم نے میری خبر نہ لی۔ تب وہ جواب میں کہینگے اے خداوند! ہم نے کب تجھے بھوکا یا پیاسا یا پردیسی یا ننگا یا بیمار یا قید میں دیکھ کر تیری خدمت نہ کی؟ اُس وقت وہ اُن سے جواب میں کہیگا مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تُم نے ان سب سے چھوٹوں میں سے کسی کیساتھ یہ سلوک نہ کِیا تو میرے ساتھ نہ کِیا۔“—متی ۲۵:۴۱-۴۵۔
۱۹ بائبل طالبعلم جانتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہو سکتا کہ بکرینما اشخاص کی غیرفانی جانیں ہمیشہ کی آگ میں تکلیف اُٹھاتی رہیں۔ جینہیں، کیونکہ انسان جانیں ہیں؛ وہ غیرفانی جانیں نہیں رکھتے۔ (پیدایش ۲:۷؛ واعظ ۹:۵، ۱۰؛ حزقیایل ۱۸:۴) بکریوں کو ”ہمیشہ کی آگ“ میں جانے کی سزا دینے سے منصف کی مُراد بغیر کسی مستقبل کی اُمید کے خاتمہ ہے، جوکہ ابلیس اور اُس کے شیاطین کا بھی مستقل خاتمہ ہوگا۔ (مکاشفہ ۲۰:۱۰، ۱۴) لہٰذا، یہوؔواہ کا منصف ناسازگار سزائیں سناتا ہے۔ وہ بھیڑوں سے کہتا ہے، ”آؤ“؛ بکریوں سے، ”میرے سامنے سے چلے جاؤ۔“ بھیڑیں ”ہمیشہ کی زندگی“ حاصل کرینگی۔ بکریاں ”ہمیشہ کی سزا“ پائینگی۔—متی ۲۵:۴۶۔b
ہمارے لئے یہ کیا مطلب رکھتا ہے؟
۲۰، ۲۱. (ا) مسیحیوں کے پاس کرنے کیلئے کونسا اہم کام ہے؟ (ب) اب جدائی کا کونسا کام ہو رہا ہے؟ (پ) جب بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل تکمیل پانا شروع کرتی ہے تو لوگوں کی حالت کیا ہوگی؟
۲۰ چار رسول جنہوں نے یسوؔع کی موجودگی اور دُنیا کے آخر ہونے کے نشان کی بابت اس کے جواب کو سنا اُن کے پاس غوروخوض کرنے کیلئے بہت کچھ تھا۔ اُنہیں جاگتے اور خبردار رہنے کی ضرورت ہوگی۔ (متی ۲۴:۴۲) اُنہیں مرقس ۱۳:۱۰ میں متذکرہ گواہی دینے کا کام کرنے کی بھی ضرورت ہوگی۔ آجکل یہوؔواہ کے گواہ سرگرمی کیساتھ اس کام میں مشغول ہیں۔
۲۱ تاہم، بھیڑوں اور بکریوں کی اس تمثیل کی نئی سمجھ ہمارے لئے کیا مطلب رکھتی ہے؟ لوگ پہلے ہی سے کسی ایک فریق کا ساتھ دے رہے ہیں۔ بعض ’چوڑے راستے پر ہیں جو ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے،‘ جبکہ دوسرے تنگ راستے پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں ”جو زندگی کو پہنچاتا ہے۔“ (متی ۷:۱۳، ۱۴) لیکن وہ وقت جب یسوؔع بھیڑوں اور بکریوں کے خلاف حتمی فیصلہ صادر کریگا جسکی تصویرکشی تمثیل میں کی گئی ہے وہ ابھی آنے والا ہے۔ جب ابنِآدم منصف کے روپ میں آتا ہے تو وہ اس بات کا یقین کر لیگا کہ بہت سے سچے مسیحی—درحقیقت مخصوصشُدہ بھیڑوں کی ”ایک بڑی بھیڑ“—”بڑی مصیبت“ کے آخری حصہ میں سے گزر کر نئی دُنیا میں داخل ہونے کے لائق ہوگی۔ یہ امکان اب خوشی کا باعث ہونا چاہئے۔ (مکاشفہ ۷:۹، ۱۴) اسکی دوسری جانب، ”تمام قوموں“ میں سے ایک بڑی تعداد نے خود کو سرکش بکریاں ثابت کر دیا ہوگا۔ وہ ”ہمیشہ کی سزا پائینگے۔“ زمین کیلئے کیا ہی اطمینان!
۲۲، ۲۳. چونکہ تمثیل کا تکمیل پانا ابھی مستقبل میں ہے، آجکل ہمارا منادی کرنے کا کام اتنا ضروری کیوں ہے؟
۲۲ جبکہ عدالت جیسےکہ تمثیل میں بیان کِیا گیا ہے مستقبل قریب میں ہے، اب بھی ایک اہم بات واقع ہو رہی ہے۔ ہم مسیحی، زندگی بچانے والے پیغام کا اعلان کرنے کے کام میں مشغول ہیں جوکہ لوگوں کے درمیان فرق پیدا کرتا ہے۔ (متی ۱۰:۳۲-۳۹) پولسؔ نے لکھا: ”جو کوئی خداوند [”یہوؔواہ،“ اینڈبلیو] کا نام لیگا نجات پائیگا۔ مگر جس پر وہ ایمان نہیں لائے اُس سے کیونکر دُعا کریں؟ اور جسکا ذکر اُنہوں نے سنا نہیں اُس پر ایمان کیونکر لائیں؟ اور بغیر منادی کرنے والے کے کیونکر سنیں؟“ (رومیوں ۱۰:۱۳، ۱۴) خدا کے نام اور اُس کے نجات کے پیغام کیساتھ ہماری عوامی خدمتگزاری ۲۳۰ سے زیادہ ممالک میں لوگوں تک پہنچ رہی ہیں۔ مسیح کے ممسوح بھائی ابھی تک اس کام میں پیشوائی کر رہے ہیں۔ کوئی پانچ ملین دوسری بھیڑیں اب اُن کے ساتھ شامل ہو گئی ہیں۔ اور پوری دُنیا میں لوگ یسوؔع کے بھائیوں کے ذریعے اعلانکردہ پیغام کیلئے جوابی عمل دکھا رہے ہیں۔
۲۳ جب ہم گھرباگھر یا غیررسمی طور پر منادی کرتے ہیں تو بہتیرے ہمارے پیغام سے واقف ہوتے ہیں۔ دوسرے شاید ایسے طریقوں سے یہوؔواہ کے گواہوں کے بارے میں اور جس چیز کی ہم نمائندگی کرتے ہیں اُس کی بابت جان لیتے ہیں جن سے ہم واقف نہیں ہیں۔ جب عدالت کا وقت آتا ہے تو یسوؔع کس حد تک اپنے علاقے کے لوگوں کی اجتماعی ذمہداری اور خاندانی ساکھ کا پاسولحاظ رکھیگا؟ ہم کچھ نہیں کہہ سکتے اور اسکی بابت قیاسآرائی کرنا فضول ہے۔ (مقابلہ کریں ۱-کرنتھیوں ۷:۱۴۔) بہتیرے اب کان بند کر لیتے ہیں، تمسخر اُڑاتے ہیں یا خدا کے لوگوں کو براہِراست اذیت دینے میں حصہ لیتے ہیں۔ پس، یہ فیصلہکُن وقت ہے؛ ایسے لوگ شاید ان میں شامل ہو رہے ہوں جنکی یسوؔع بکریوں کے طور پر عدالت کریگا۔—متی ۱۰:۲۲؛ یوحنا ۱۵:۲۰؛ ۱۶:۲، ۳؛ رومیوں ۲:۵، ۶۔
۲۴. (ا) لوگوں کیلئے ہماری منادی کے لئے موافق ردِعمل دکھانا کیوں اہم ہے؟ (ب) اس مطالعہ نے آپکو ذاتی طور پر اپنی خدمتگزاری کی بابت کونسا رجحان رکھنے میں مدد دی ہے؟
۲۴ تاہم، خوشی کی بات ہے کہ بہتیرے سازگار ردِعمل دکھاتے ہیں، خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں، اور یہوؔواہ کے گواہ بن جاتے ہیں۔ بعض جو اس وقت بکرینما دکھائی دیتے ہیں ہو سکتا ہے کہ تبدیل ہو جائیں اور بھیڑوں کی مانند بن جائیں۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ جو اثرپذیر ہو رہے اور سرگرمی کیساتھ مسیح کے بھائیوں کے بقیے کی حمایت کر رہے ہیں اب ایک ایسا ثبوت دے رہے ہیں جو اُن کیلئے اس چیز کی بنیاد فراہم کریگا کہ مستقبل قریب میں، جب وہ عدالت کرنے کیلئے اپنے تخت پر بیٹھتا ہے تو وہ یسوؔع کے دہنی طرف ہوں۔ وہ برکت حاصل کر رہے ہیں اور کرتے رہینگے۔ لہٰذا، اس تمثیل کو ہمیں مسیحی خدمتگزاری میں اور زیادہ پُرجوش کارگزاری کی تحریک دینی چاہئے۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، ہم بادشاہت کی خوشخبری کا اعلان کرنے کیلئے وہ سب کچھ جو ہم کر سکتے ہیں کرنا چاہتے ہیں اور اسطرح دوسروں کیلئے جوابیعمل ظاہر کرنے کا موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد ناسازگار یا اُمیدافزا فیصلہ سنانا یسوؔع کے اختیار میں ہے۔—متی ۲۵:۴۶۔ (۲۳ ۱۰/۱۵ w۹۵)
[فٹنوٹ]
a دیکھیں مینارِنگہبانی مئی ۱۹۹۴، صفحات ۲۶-۳۱۔
b ایل ایونجیلیو ڈی ماٹو بیان کرتا ہے: ”ابدی زندگی قطعی زندگی ہے؛ اس کی ضد قطعی سزا ہے۔ یونانی اسمِصفت ایونیاس بنیادی طور پر دورانیے کو نہیں بلکہ خوبی کو ظاہر کرتا ہے۔ قطعی سزا ابدی موت ہے۔“ ریٹائرڈ پروفیسر جوؔاین ماٹیوس (پونٹیفیکل ببلیکل انسٹیٹیوٹ، رؔوم) اور پروفیسر فرؔننڈو کاماچو (تھیولاجیکل سینٹر، سیویلی)، میڈرڈ، سپینؔ، ۱۹۸۱۔
کیا آپکو یاد ہے؟
▫ متی ۲۴:۲۹-۳۱ اور متی ۲۵:۳۱-۳۳ کے درمیان کونسے مماثل ظاہر کرتے ہیں کہ بھیڑوں اور بکریوں کی تمثیل کا اطلاق مستقبل پر ہوتا ہے، اور یہ کب ہوتا ہے؟
▫ یسوؔع کے بھائیوں میں ”سب سے چھوٹے“ کون ہیں؟
▫ یسوؔع کا اصطلاح ”راستباز“ کا استعمال کن کی شناخت کرنے میں ہماری مدد کرتا ہے یہ کس کی نمائندگی کرتے ہیں اور یہ کن کی نمائندگی نہیں کرتے؟
▫ اگرچہ تمثیل کی تکمیل مستقبل میں ہوگی، ہمارا اب منادی کرنا کیوں اہم اور تعمیلطلب ہے؟
[بکس/تصویر]
مماثل پر غور کریں
بڑی مصیبت کے شروع ابنِآدم آتا ہے
ہو نے کے بعد، ابنِآدم آئیگا
بڑے جلال کیساتھ آتا ہے جلال میں آئیگا اور اپنے جلال
کے تخت پر بیٹھیگا
فرشتے اُس کیساتھ ہیں فرشتے اُس کے ساتھ آئینگے
زمین کی سب قومیں اُسے دیکھتی ہیں سب قومیں جمع کی جاتی ہیں؛
انجامکار بکریوں کی
عدالت کی جاتی ہے
(بڑی مصیبت ختم ہوتی ہے)
[تصویر کا حوالہ]
Garo Nalbandian