یسوع مسیح نے جہنم کے بارے میں کونسی تعلیم دی؟
یسوع مسیح نے کہا: ”اگر تیری آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اُسے نکال ڈال۔ کانا ہو کر خدا کی بادشاہی میں داخل ہونا تیرے لئے اِس سے بہتر ہے کہ دو آنکھیں ہوتے جہنم میں ڈالا جائے۔ جہاں اُن کا کیڑا نہیں مرتا اور آگ نہیں بجھتی۔“—مرقس ۹:۴۷، ۴۸۔
ایک اَور موقعے پر یسوع نے اُس وقت کا ذکر کِیا جب وہ لوگوں کی عدالت کرے گا اور بدکاروں سے کہے گا: ”اَے ملعونو میرے سامنے سے اُس ہمیشہ کی آگ میں چلے جاؤ جو اِبلیسؔ اور اُس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ اور یہ ہمیشہ کی سزا پائیں گے مگر راستباز ہمیشہ کی زندگی۔“—متی ۲۵:۴۱، ۴۶۔
اِن حوالوں کو پڑھ کر پہلے تو یوں لگتا ہے کہ یسوع مسیح نے دوزخ کے عقیدے کو فروغ دیا۔ لیکن خدا کے کلام میں لکھا ہے کہ ”مُردے کچھ بھی نہیں جانتے۔“ (واعظ ۹:۵) ظاہر ہے کہ یسوع مسیح کبھی کوئی ایسی تعلیم نہ دیتا جو خدا کے کلام میں بتائی گئی سچائیوں کے برعکس ہوتی۔
لہٰذا جب یسوع مسیح نے کہا کہ کچھ لوگوں کو ’جہنم میں ڈالا جائے گا‘ تو اُس کے کہنے کا مطلب کیا تھا؟ اور جب اُس نے ”ہمیشہ کی آگ“ کا ذکر کِیا تو کیا وہ اصلی آگ کا ذکر کر رہا تھا یا علامتی آگ کا؟ بدکار کس لحاظ میں ”ہمیشہ کی سزا پائیں گے“؟ آئیں ہم اِن سوالوں پر غور کریں۔
جب یسوع مسیح نے کہا کہ کچھ لوگوں کو ’جہنم میں ڈالا جائے گا‘ تو اُس کے کہنے کا مطلب کیا تھا؟ انجیل میں مرقس ۹:۴۷ میں جس لفظ کا ترجمہ ”جہنم“ کِیا گیا ہے یہ یونانی زبان کے لفظ گیہینّا کا ترجمہ ہے۔ یہ لفظ ایک ایسے عبرانی لفظ سے لیا گیا ہے جس کا مطلب ”ہنوم کی وادی“ ہے۔ یہ یروشلیم کے باہر ایک وادی کا نام تھا۔ اِس وادی میں اسرائیل کے سرکش بادشاہوں کے زمانے میں بچوں کو آگ میں جلا کر بُتوں کے نام قربان کِیا جاتا تھا۔ خدا کو ایسے کاموں سے نفرت تھی۔ اُس نے کہا کہ وہ اِن بُتپرستوں کو اِن حرکتوں کی وجہ سے ہلاک کر دے گا۔ خدا نے فرمایا کہ ہنوم کی وادی کو ”وادیِقتل“ بھی کہا جائے گا جہاں ”اِس قوم کی لاشیں“ دفنائے بغیر پڑی رہیں گی۔ (یرمیاہ ۷:۳۰-۳۴) یہوواہ خدا نے یہ نہیں کہا کہ ہنوم کی وادی میں زندہ لوگوں کو اذیت پہنچائی جائے گی بلکہ اُس نے کہا کہ اِس وادی میں لاشوں کو ڈالا جائے گا۔
یسوع مسیح کے زمانے میں یروشلیم کے باشندے ہنوم کی وادی کو کوڑاکرکٹ ڈالنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ وہ مجرموں کی لاشوں کو بھی اِس وادی میں پھینکتے تھے۔ وہ اِس میں ہمیشہ آگ جلائی رکھتے تاکہ کوڑاکرکٹ اور مجرموں کی لاشیں جل کر راکھ ہو جائیں۔
جب یسوع مسیح نے کہا کہ ہنوم کی وادی میں ”کیڑا نہیں مرتا اور آگ نہیں بجھتی“ تو غالباً وہ یسعیاہ ۶۶:۲۴ کا حوالہ دے رہا تھا۔ اِس آیت میں یسعیاہ نبی نے ”اُن لوگوں کی لاشوں“ کا ذکر کِیا جو ’خدا سے باغی ہو گئے‘ تھے۔ یسعیاہ نبی نے اِن لاشوں کے بارے میں کہا کہ ”اُن کا کیڑا نہ مرے گا اور اُن کی آگ نہ بجھے گی۔“ یسوع کے زمانے میں لوگ جانتے تھے کہ یسعیاہ نبی کے یہ الفاظ اُن بدکاروں کی لاشوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جن کو دفنانے کے لائق نہیں سمجھا جاتا تھا۔
یسوع مسیح نے ہنوم کی وادی یعنی جہنم کو علامتی طور پر استعمال کِیا۔ یہ اُس موت کی علامت ہے جس سے ایک شخص کو زندہ نہیں کِیا جائے گا۔ اِس بات پر زور دیتے ہوئے یسوع مسیح نے خبردار کِیا کہ خدا ”رُوح اور بدن دونوں کو جہنم میں ہلاک کر سکتا ہے۔“ (متی ۱۰:۲۸) اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جہنم دائمی ہلاکت کی علامت ہے نہ کہ دائمی اذیت کی۔
جب یسوع مسیح نے ”ہمیشہ کی آگ“ کا ذکر کِیا تو کیا وہ اصلی آگ کا ذکر کر رہا تھا یا علامتی آگ کا؟ غور کریں کہ متی ۲۵:۴۱ میں جس ”ہمیشہ کی آگ“ کا ذکر کِیا گیا ہے یہ ”اِبلیسؔ اور اُس کے فرشتوں کے لئے تیار کی گئی ہے۔“ ذرا سوچیں: کیا روحانی مخلوقات کو آگ میں جلایا جا سکتا ہے؟ یاپھر کیا یسوع مسیح اِس آگ کو علامتی مفہوم میں استعمال کر رہا تھا؟ متی ۲۵ باب میں ہمیشہ کی آگ کا ذکر کرنے سے پہلے یسوع نے ”بھیڑوں“ اور ”بکریوں“ کا بھی ذکر کِیا۔ یسوع نے واضح کِیا کہ وہ اصلی بھیڑوں اور بکریوں کے بارے میں بات نہیں کر رہا تھا بلکہ لوگوں کے دو گروہوں کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ (متی ۲۵:۳۲، ۳۳) لہٰذا یسوع مسیح نے جس علامتی آگ کا ذکر کِیا اِس سے مُراد مکمل تباہی ہے جو بدکاروں کے حصہ میں آتی ہے۔
بدکار کس لحاظ میں ”ہمیشہ کی سزا پائیں گے“؟ حالانکہ بائبل کے زیادہتر ترجموں میں متی ۲۵:۴۶ میں لفظ ”سزا“ استعمال ہوا ہے لیکن یونانی زبان میں یہاں ایک ایسا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ”درختوں کی شاخوں کو کاٹنا“ یا چھانٹی کرنا ہے۔ لہٰذا علامتی بھیڑوں کو ہمیشہ کی زندگی عطا کی جائے گی جبکہ علامتی بکریاں ”ہمیشہ کی سزا پائیں گے“ یعنی اُنہیں ہمیشہ کے لئے تباہ کر دیا جائے گا۔
آپ کونسا نتیجہ اخذ کریں گے؟
یسوع مسیح نے کبھی یہ نہیں سکھایا تھا کہ انسان کے اندر ایک اندیکھی شے ہے جو مرنے کے بعد زندہ رہتی ہے۔ اِس کے برعکس اُس نے یہ تعلیم دی کہ مستقبل میں مُردوں کو زندہ کر دیا جائے گا۔ (لوقا ۱۴:۱۳، ۱۴؛ یوحنا ۵:۲۵-۲۹) اگر انسان مرنے کے بعد کسی اَور روپ میں زندہ رہتا ہے تو یسوع نے یہ کیوں سکھایا کہ مُردوں کو زندہ کِیا جائے گا؟
یسوع مسیح نے کبھی یہ نہیں سکھایا کہ خدا ظلم کرتے ہوئے بدکاروں کو ہمیشہ کے لئے اذیت پہنچائے گا۔ اِس کی بجائے اُس نے کہا: ”خدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔“ (یوحنا ۳:۱۶) اِن الفاظ سے یسوع نے ظاہر کِیا کہ جو لوگ اُس پر ایمان نہیں لاتے، اُنہیں ہلاک کر دیا جائے گا۔ اگر یسوع کو اِس بات کا یقین ہوتا کہ ایسے لوگوں کو جہنم میں ہمیشہ کے لئے تڑپایا جائے گا تو کیا وہ اِس بات کا ذکر نہ کرتا؟
بائبل میں یہ عقیدہ نہیں پایا جاتا کہ جہنم میں لوگوں کو اذیت پہنچائی جاتی ہے۔ دراصل اِس عقیدے کی جڑ ایسے مذاہب میں پائی جاتی ہے جن میں سچے خدا کی عبادت نہیں ہوتی تھی۔ بعد میں جھوٹے مسیحیوں نے اِس عقیدے کو اپنا لیا۔ (صفحہ ۶ پر بکس ”دوزخ کے عقیدے کی تاریخ“ کو دیکھیں۔) اِن سب باتوں سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ خدا لوگوں کو جہنم میں اذیت نہیں پہنچاتا۔ یہ جاننے سے کیا آپ کے دِل میں خدا کے لئے محبت نہیں بڑھتی؟
[صفحہ ۶ پر بکس]
دوزخ کے عقیدے کی تاریخ
بُتپرستوں کا عقیدہ: قدیم مصری دوزخ کے عقیدے کو مانتے تھے۔ سن ۱۳۷۵ قبلِمسیح کی ایک مصری کتاب میں ایسے لوگوں کا ذکر ہوا ہے ”جنہیں آگ کے گڑھوں میں پھینک دیا جائے گا . . . جہاں سے کوئی نجات نہیں۔ . . . وہ شعلوں سے بچنے کی کوشش کریں گے مگر بچ نہیں پائیں گے۔“ یونانی فلاسفر پلوترخ (تقریباً ۴۶-۱۲۰ عیسوی) نے لکھا کہ جو پاتال میں ہیں ”وہ ہولناک اذیت سہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ چیخیں مارتے اور چلاتے رہتے ہیں۔“
یہودی فرقوں نے اِس عقیدے کو اپنایا: جوزیفس نامی تاریخدان (تقریباً ۳۷-۱۰۰ ء) نے لکھا کہ اسینی فرقے کے عقیدے کے مطابق ”روحیں غیرفانی ہیں اور ہمیشہ تک زندہ رہتی ہیں۔“ اُس نے آگے لکھا: ”یونانی بھی اِس قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ . . . وہ مانتے ہیں کہ بُرے لوگوں کی روحوں کو ایک تاریک غار میں قید کر دیا جاتا ہے جہاں اُنہیں اذیت پر اذیت دی جاتی ہے۔“
مسیحیوں نے اِس عقیدے کو اپنایا: دوسری صدی عیسوی میں ”پطرس کا مکاشفہ“ نامی ایک غیرالہامی کتاب میں بدکاروں کے بارے میں لکھا گیا: ”اُن کے لئے کبھی نہ بجھنے والی آگ ہے۔“ اِس میں یہ بھی لکھا گیا: ”آدمی اور عورتیں شعلوں کے بیچ میں کھڑے ہیں۔ پھر عذاب کا فرشتہ عزرائیل اُنہیں ایک تاریک جگہ میں ڈالتا ہے جہاں عذاب کی روح اُنہیں کوڑے لگاتی ہے۔ یہ انسان کا جہنم ہے۔“ انطاکیہ کے تھیفلُس کے مطابق یونانی نبِیّہ سیبلی نے دیوتاؤں کے پجاریوں کی سزا کے بارے میں یوں نبوّت کی: ”تمہیں بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالا جائے گا جہاں تُم ہمیشہ کے لئے جلتے رہو گے۔“ تھیفلُس نے اِس نبوّت کے بارے میں کہا کہ یہ ”سچ اور فائدہمند اور واجب ہے۔“
قرونِوسطیٰ میں تشدد کرنے کا بہانہ: انگلینڈ کی ملکہ میری اوّل (۱۵۵۳-۱۵۵۸ء) کو ”خونی میری“ کا لقب دیا گیا کیونکہ اُس نے ۳۰۰ پروٹسٹنٹوں کو سُولی پر جلایا تھا۔ ایک بیان کے مطابق اس ملکہ نے کہا: ”منکروں کی روحیں ہمیشہ تک جہنم کی آگ میں جلیں گی۔ اس لئے یہ واجب ہے کہ مَیں خدا کے عذاب کی نقل کرتے ہوئے اُنہیں زمین پر بھی جلا کر راکھ کر دوں۔“
ہمارے زمانے میں دوزخ کے عقیدے کی تعریف: حال ہی میں چند مذاہب دوزخ کے عقیدے کی اپنی تعریف میں تبدیلی لائے۔ مثال کے طور پر چرچ آف انگلینڈ نے ۱۹۹۵ میں یہ بیان جاری کِیا: ”لفظ دوزخ دائمی اذیت کی طرف اشارہ نہیں کرتا ہے بلکہ یہ اُن لوگوں کے انجام کو ظاہر کرتا ہے جو خدا کی مخالفت کرنے کا اٹل فیصلہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا وجود ہی مٹ جائے گا۔“
[صفحہ ۷ پر بکس/تصویر]
’آگ کی جھیل‘ کیا ہے؟
مکاشفہ ۲۰:۱۰ میں لکھا ہے کہ ابلیس ’آگ کی جھیل‘ میں ڈالا جائے گا جہاں ’وہ رات دن ابدالآباد عذاب میں رہے گا۔‘ ابلیس کو صرف اُس صورت میں ہمیشہ تک اذیت پہنچائی جا سکتی ہے اگر خدا اُسے ہمیشہ تک زندہ رکھے۔ لیکن بائبل میں بتایا گیا ہے کہ یسوع مسیح ’ابلیس کو تباہ کر دے گا۔‘ (عبرانیوں ۲:۱۴) آگ کی جھیل ”دوسری موت“ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ (مکاشفہ ۲۱:۸) یہ موت اُس موت سے الگ ہے جو انسان پر آدم کے گناہ کی وجہ سے آتی ہے اور جس سے مُردوں کو زندہ کِیا جا سکتا ہے۔ (۱-کرنتھیوں ۱۵:۲۱، ۲۲) بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ جو ’آگ کی جھیل‘ میں ہیں اُنہیں آزاد کِیا جائے گا۔ لہٰذا ”دوسری موت“ ایک ایسی موت کی طرف اشارہ کرتی ہے جس سے مخلصی ناممکن ہے۔
تو پھر جو مُردے آگ کی جھیل میں ہیں وہ کس لحاظ سے ہمیشہ تک عذاب میں رہیں گے؟ بائبل کی اصلی زبان میں اصطلاح ”عذاب میں ڈالنا“ قید کرنے کی طرف بھی اشارہ کر سکتی ہے۔ ایک مرتبہ جب یسوع مسیح نے بدرُوحوں کی سرزنش کی تو اُنہوں نے چلّا کر کہا: ”کیا تُو اِس لئے یہاں آیا ہے کہ وقت سے پہلے ہمیں عذاب میں ڈالے؟“ (متی ۸:۲۹؛ لوقا ۸:۳۰، ۳۱) لہٰذا جو ’آگ کی جھیل‘ میں ہیں وہ ہمیشہ تک ”عذاب“ میں رہیں گے یعنی اُنہیں ”دوسری موت“ کی سزا دی جائے گی۔