عالمگیر پیمانے پر نفرت کا خاتمہ
کوئی دو ہزار سال قبل، ایک چھوٹا سا گروہ نفرت کا شکار ہوا تھا۔ ٹرٹولینؔ ابتدائی مسیحیوں کے متعلق مروّجہ رومی رویے کی وضاحت کرتا ہے: ”اگر آسمان سے بارش نہ ہوتی، اگر کوئی زلزلہ آ جاتا، اگر قحط پڑ جاتا یا وبا پھیل جاتی تو فوراً چیخوپکار شروع ہو جاتی کہ ’مسیحیوں کو شیروں کے آگے ڈال دو!‘“
نفرت کا نشانہ بننے کے باوجود، ابتدائی مسیحیوں نے ناانصافی کا انتقام لینے کی آزمائش کی مزاحمت کی۔ اپنے مشہور پہاڑی وعظ میں، یسوؔع مسیح نے فرمایا: ”تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت۔ لیکن مَیں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کے لئے دُعا کرو۔“—متی ۵:۴۳، ۴۴۔
یہ یہودیوں کی زبانی روایت تھی جو اِس نظریے کی حمایت کرتی ہے کہ ’دشمن سے نفرت کرنا‘ صحیح کام ہے۔ تاہم، یسوؔع نے فرمایا کہ ہمیں صرف اپنے دوست سے ہی نہیں بلکہ اپنے دشمن سے بھی محبت کرنی چاہئے۔ یہ مشکل تو ہے مگر ناممکن نہیں۔ کسی دشمن سے محبت کرنے کا مطلب اُسکی تمام روِشوں یا اُسکے اعمال کو پسند کرنا نہیں ہے۔ متی کے بیان میں پایا جانے والا یونانی لفظ اَگاپے سے مشتق ہے، جو ایسی محبت کو بیان کرتا ہے جو اُصول کی مطابقت میں عمل کرتی ہے۔ ایک شخص جو اَگاپے، اُصولی محبت کو ظاہر کرتا ہے وہ دشمن سے بھی نیکی کرتا ہے جو اُس سے نفرت اور بدسلوکی کرتا ہے۔ کیوں؟ اسلئے کہ یہ مسیح کی نقل کرنے کا طریقہ ہے اور یہ نفرت پر غالب آنے کا طریقہ ہے۔ ایک یونانی عالمِدین نے تحریر کِیا: ”[اَگاپے] ہمیں غصے اور تلخی کیلئے ہمارے فطرتی رجحان پر غلبہ پانے کے قابل بناتی ہے۔“ لیکن کیا آجکل نفرت بھری دُنیا میں یہ کارگر ہوگی؟
مسلمہ طور پر، وہ سب جو مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مسیح کے نمونے کی پیروی کرنے کا پُختہ عزم نہیں رکھتے۔ رواؔنڈا کے اندر حالیہ مظالم نسلی گروہوں کے ذریعے ہی ڈھائے گئے تھے جن کے زیادہتر ممبر مسیحی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ رواؔنڈا میں ۲۰ سال تک خدمت کرنے والی ایک رومن کیتھولک راہبہ پیلرؔ ڈیز ایسپلوسن، ایک اثرآفرین واقعہ بیان کرتی ہے۔ ایک آدمی نیزہ اُٹھائے جسے وہ یقیناً استعمال کرتا رہا تھا اُس کے چرچ کے قریب آیا۔ راہبہ نے اُس سے پوچھا: ”لوگوں کو قتل کرکے یہ تم کیا کرتے پھرتے ہو؟ تمہیں مسیح کا کوئی خیال نہیں ہے؟“ اُس نے دعویٰ کِیا کہ اُسے خیال ہے اور چرچ میں داخل ہوا، گھٹنے ٹیکے اور بڑے جوش کیساتھ روزری پڑھی۔ لیکن جب اُس نے ختم کی تو پھر قتلوغارت جاری رکھنے کیلئے باہر نکل گیا۔ ”اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم موزوں طریقے سے انجیل کی تعلیم نہیں دے رہے ہیں،“ راہبہ نے تسلیم کِیا۔ تاہم، ایسی ناکامیوں کا مطلب یہ نہیں کہ یسوؔع کا پیغام ہی اَدھورا ہے۔ سچی مسیحیت پر عمل کرنے والے لوگ نفرت پر غالب آ سکتے ہیں۔
ایک مرکزِاسیران میں نفرت پر غالب آنا
میکسؔ لیبسٹر ایک پیدائشی یہودی ہے جو یہودی قتلِعام سے زندہ بچ نکلا۔ اگرچہ اُسکے خاندانی نام کا مطلب ”پیارا“ ہے، اُس نے اپنے لئے بہت زیادہ نفرت کو دیکھا ہے۔ نازی جرمنی میں محبت اور نفرت کی بابت اُس نے جو کچھ سیکھا وہ اُسے بیان کرتا ہے۔
”مَیں نے ۱۹۳۰ کے دہے کے دوران، مینہائم، جرمنی کے قریب پرورش پائی تھی۔ ہٹلرؔ نے دعویٰ کِیا کہ تمام یہودی سب سے بڑے سُودخور ہیں جو جرمن لوگوں سے ناجائز فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ میرا باپ محض ایک ادنیٰ موچی تھا۔ تاہم، نازی پروپیگنڈے کے اثر کی وجہ سے، ہمسائے ہمارے خلاف ہونا شروع ہو گئے۔ جب مَیں ابھی نوعمر ہی تھا تو ایک دیہاتی آدمی نے زبردستی میری پیشانی پر سؤر کا خون مل دیا۔ یہ برملا توہین مستقبل میں ہونے والی باتوں کا پیشخیمہ تھی۔ ۱۹۳۹ میں گسٹاپو (نازی خفیہ پولیس) نے مجھے گرفتار کر لیا اور میرا تمام مالواسباب ضبط کر لیا۔
”جنوری ۱۹۴۰ سے مئی ۱۹۴۵ تک، مَیں نے پانچ مختلف مراکزِاسیران میں سے بچ نکلنے کی کوشش کی: زاکسنہاؤزن، نیوبُڈکِنّانگامے، آشواتز، بُونا اور بوخنوالٹ۔ میرا والد، جسے بھی زاکسنہاؤزن میں بھیج دیا گیا، ۱۹۴۰ کے نہایت سرد موسم میں وفات پا گیا۔ مَیں خود اُسکی لاش کو اُٹھا کر لاشسوز بھٹی تک لے گیا، جہاں لاشوں کا ڈھیر جلائے جانے کے انتظار میں پڑا تھا۔ کُل ملا کر، میرے خاندان کے آٹھ افراد نے ایسے مراکز میں وفات پائی۔
”قیدیوں کے درمیان ایسایس گارڈز سے بھی زیادہ نفرت کاپوس سے کی جاتی تھی۔ کاپوس وہ قیدی تھے جنہوں نے ایسایس کے ساتھ تعاون کر لیا تھا اور یوں چند مراعات سے استفادہ کرتے تھے۔ اُنہیں خوراک تقسیم کرنے پر فائز کِیا گیا اور وہ دوسرے قیدیوں کو بُری طرح مارتے پیٹتے بھی تھے۔ اکثر وہ غیرمنصفانہ اور ظالمانہ طریقے سے عمل کرتے تھے۔ میرے خیال میں ایسایس اور کاپوس دونوں سے نفرت کرنے کیلئے میرے پاس کافی وجوہات تھیں، لیکن اپنی قید کے دوران، مَیں نے سیکھا کہ محبت نفرت سے زیادہ طاقتور ہے۔
”اُن قیدیوں کے صبر نے جو کہ یہوؔواہ کے گواہ تھے مجھے قائل کر لیا کہ اُنکا ایمان صحائف پر مبنی تھا—اور مَیں خود بھی ایک گواہ بن گیا۔ اؔرنسٹ وائیور، ایک گواہ جس سے مَیں نیوبُڈکِنّانگامے کے اذیتی مرکز میں ملا، اُس نے مجھے مسیح جیسا ذہنی رجحان پیدا کرنے کی تاکید کی۔ بائبل کہتی ہے کہ ’نہ وہ گالیاں کھاکر گالی دیتا تھا اور نہ دُکھ پاکر کسی کو دھمکاتا تھا بلکہ اپنے آپ کو سچے انصاف کرنے والے کے سپرد کرتا تھا۔‘ (۱-پطرس ۲:۲۳) مَیں نے بھی ایسا ہی کرنے کی کوشش کی یعنی انتقام کو خدا کے ہاتھوں میں سونپ دیا جو سب کا منصف ہے۔
”کیمپوں میں کاٹے گئے میرے برسوں نے مجھے سکھایا کہ لوگ اکثر غلط کام جہالت کی وجہ سے کرتے ہیں۔ سارے ہی ایسایس گارڈز بُرے تو نہیں تھے—ایک ایسا بھی تھا جس نے میری جان بچائی تھی۔ ایک دفعہ مجھ پر اسہال کا بڑا شدید حملہ ہوا اور مَیں اتنا کمزور ہو گیا کہ اپنے کام سے چل کر کیمپ تک نہیں آ سکتا تھا۔ مَیں اگلی صبح آشواتز کے گیس چیمبر میں پھینکا جانے والا تھا، لیکن ایک ایسایس گارڈ نے میری خاطر مداخلت کی جو جرمنی کے اُسی علاقے سے آیا ہوا تھا جہاں کا مَیں رہنے والا تھا۔ اُس نے مجھے ایسایس کیفےٹیریا میں کام پر لگا دیا جہاں مَیں اپنے دوبارہ تندرست ہو جانے تک کچھ آرام حاصل کرنے کے قابل ہوا۔ ایک دن اُس نے میرے سامنے اعتراف کِیا: ’میکسؔ مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے مَیں ایک ایسی ٹرین پر بیٹھا ہوں جو بہت تیز رفتاری سے اور کنٹرول کے بغیر سفر کر رہی ہے۔ اگر مَیں کود جاؤں تو ہلاک ہو جاؤں گا۔ اور اگر بیٹھا ہی رہوں تو برباد ہو جاؤں گا!‘
”اِن لوگوں کو بھی محبت کی اُتنی ہی ضرورت تھی جتنی کہ مجھے تھی۔ دراصل، خدا پر میرے ایمان کیساتھ یہ محبت اور رحم ہی تھا جس نے مجھے ایسی سنگین حالتوں اور روزانہ سزائے موت کے خطرے کا مقابلہ کرنے کے قابل بنایا۔ یہ کہنا سچ نہیں ہوگا کہ مَیں بغیر کوئی زخم کھائے زندہ بچ نکلا مگر میرے جذباتی زخم بہت کم تھے۔“
میکسؔ کے اندر سے ۵۰ سال کے بعد بھی ابھی تک جوش اور شفقت کی نکلنے والی شعاعیں اُس کے لفظوں کی حقیقت کی واضح شہادت ہیں۔ میکسؔ کا معاملہ کوئی منفرد نہیں ہے۔ اُسکے پاس نفرت پر غالب آنے کی ٹھوس وجہ تھی—وہ مسیح کی نقل کرنا چاہتا تھا۔ دیگر لوگوں نے جنکی زندگیوں نے صحائف سے ہدایت پائی ہے اِسی طریقے سے عمل کِیا ہے۔ سیموؔن، فرانسؔ سے یہوؔواہ کے گواہوں میں سے ایک، وضاحت کرتی ہے کہ اُس نے یہ بات کیسے سیکھی کہ بےلوث محبت کا درحقیقت کیا مطلب ہے۔
”میری امی، اؔیما نے، جو دوسری عالمی جنگ سے کچھ ہی عرصہ پہلے گواہ بنی، مجھے سکھایا کہ لوگ اکثر بُرے کام اسلئے کرتے ہیں کیونکہ وہ کوئی اچھائی جانتے ہی نہیں۔ اُس نے وضاحت کی کہ اگر ہم بھی بدلے میں اُن سے نفرت کریں تو ہم سچے مسیحی نہیں ہیں، چونکہ یسوؔع نے کہا تھا کہ ہمیں اپنے دشمنوں سے محبت کرنی چاہئے اور اپنے ستانے والوں کیلئے دُعا کرنی چاہئے۔—متی ۵:۴۴۔
”مجھے ایک سنگین صورتحال یاد ہے جس نے اِس اعتقاد کو امتحان میں ڈال دیا۔ فرانسؔ پر نازی قبضے کے دوران، امی نے ہماری ایک پڑوسن کے ہاتھوں بڑی مصیبت اُٹھائی۔ اُس نے گسٹاپو پولیس کو امی کی رپورٹ کر دی اور نتیجتاً میری امی نے جرمنؔ کے مراکزِاسیران میں دو سال کاٹے جہاں وہ تو تقریباً مر ہی گئی تھی۔ جنگ کے بعد، فرانسیسی پولیس چاہتی تھی کہ امی اُس عورت کو جرمنؔ کارندہ ہونے کا مجرم قرار دینے والے ایک کاغذ پر دستخط کر دے۔ لیکن میری امی نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ’نیکی اور بدی کا منصف اور اجر دینے والا خدا ہی ہے۔‘ چند سال بعد، وہی پڑوسن جانلیوا کینسر میں مبتلا ہوگئی۔ اُسکی بدبختی پر خوش ہونے کی بجائے، میری امی نے اُس کی زندگی کے آخری مہینوں کو جتنا ممکن ہو سکا آرامدہ بنانے کے لئے کئی گھنٹے صرف کئے۔ مَیں نفرت پر محبت کی اِس فتح کو کبھی نہیں بھولونگی۔“
یہ دو مثالیں ناانصافی کے پیشِنظر اُصولی محبت کی طاقت کو ظاہر کرتی ہیں۔ تاہم، بائبل یہ کہتی ہے کہ ”محبت کا ایک وقت ہے اور عداوت کا ایک وقت ہے۔“ (واعظ ۳:۱، ۸) یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
نفرت کرنے کا ایک وقت
خدا ہر طرح کی نفرت کی مذمت نہیں کرتا۔ یسوؔع مسیح کے سلسلے میں بائبل کہتی ہے: ”تُو نے راستبازی سے محبت اور بدکاری سے عداوت رکھی۔“ (عبرانیوں ۱:۹) تاہم، بُرائی سے نفرت کرنے اور بُرائی کرنے والے شخص سے نفرت کرنے میں فرق ہے۔
یسوؔع نے محبت اور نفرت کے درمیان مناسب توازن کو مثال دیکر سمجھایا۔ اُس نے ریاکاری سے نفرت کی مگر اُس نے ریاکاروں کو مدد دینے کی کوشش کی تاکہ وہ اپنے اندازِفکر کو تبدیل کریں۔ (متی ۲۳:۲۷، ۲۸؛ لوقا ۷:۳۶-۵۰) اُس نے تشدد کی مذمت کی مگر اُس نے اُن کے لئے دُعا کی جنہوں نے اُسے اذیت دی۔ (متی ۲۶:۵۲؛ لوقا ۲۳:۳۴) اور اگرچہ دُنیا نے اُس سے بِلاوجہ ہی نفرت کی، اُس نے دُنیا کو زندگی دینے کی غرض سے اپنی زندگی دے دی۔ (یوحنا ۶:۳۳، ۵۱؛ ۱۵:۱۸، ۲۵) اُس نے ہمارے لئے اُصولی محبت اور خدائی نفرت کا ایک کامل نمونہ چھوڑا۔
ناانصافی ہمارے اندر اخلاقی برہمی کو پیدا کر سکتی ہے جیسے کہ اِس نے یسوؔع کے اندر پیدا کر دی تھی۔ (لوقا ۱۹:۴۵، ۴۶) تاہم، مسیحیوں کو انتقام لینے کا اختیار نہیں ہے۔ ”بدی کے عوض کسی سے بدی نہ کرو،“ پولسؔ نے روم کے مسیحیوں کو نصیحت کی۔ ”جہاں تک ہو سکے تم اپنی طرف سے سب آدمیوں کیساتھ میلملاپ رکھو۔ . . . اپنا انتقام نہ لو . . . بدی سے مغلوب نہ ہو بلکہ نیکی کے ذریعہ سے بدی پر غالب آؤ۔“ (رومیوں ۱۲:۱۷-۲۱) جب ہم ذاتی طور پر نفرت کو فروغ دینے سے یا کسی غلطی کا بدلہ لینے سے انکار کرتے ہیں تو محبت فتح پاتی ہے۔
نفرت سے پاک دُنیا
عالمی پیمانے پر نفرت کے ختم ہونے کیلئے، لاکھوں لوگوں کے باطنی رجحانات کو بدلنا لازم ہے۔ یہ کام کیسے سرانجام دیا جا سکتا ہے؟ پروفیسر اؔروِن سٹاؤب مندرجہذیل مشورہ پیش کرتا ہے: ”جنہیں ہم نقصان پہنچاتے ہیں اُنہیں ناچیز خیال کرتے ہیں اور جنکی مدد کرتے ہیں اُنہیں بیشقیمت خیال کرتے ہیں۔ جونہی ہم اُن لوگوں کی مزید قدر کرنے لگتے ہیں جنکی ہم مدد کرتے ہیں اور مدد کے جذبے میں شامل خوشیوں کا تجربہ کرتے ہیں تو ہم خود کو بھی زیادہ خیال رکھنے والا اور مددگار سمجھنے لگتے ہیں۔ لازم ہے کہ ہمارے مقاصد میں سے ایک ایسے معاشرے تعمیر کرنا ہو جن میں دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھنے میں جتنا زیادہ ممکن ہو حصہ لیا جائے۔“—دی روٹس آف ایول۔
باالفاظِدیگر، نفرت کو دل سے نکالنا ایسے معاشرے کی تعمیر کا تقاضا کرتا ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کی مدد کرکے محبت کرنا سیکھتے ہیں، ایک ایسا معاشرہ جہاں لوگ تعصب، قومپرستی، نسلپرستی، اور فرقہپرستی کے باعث پیدا ہونے والی سخت دشمنی کو بھول جاتے ہیں۔ کیا کوئی ایسا معاشرہ موجود ہے؟ چینؔ میں ثقافتی انقلاب کے دوران نفرت کا نشانہ بننے والے ایک آدمی کے تجربے پر غور کریں۔
”جب ثقافتی انقلاب شروع ہوا تو ہمیں سکھایا گیا کہ ’طبقاتی کشمکش‘ میں مصالحت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ نفرت مروّجہ میلان تھی۔ مَیں ایک ریڈ گارڈ (چینؔ میں نوجوانوں کی تنظیم کا ممبر) بن گیا اور ہر جگہ ’طبقاتی دشمنوں‘ کی تلاش شروع کر دی—حتیٰکہ اپنے خاندان میں بھی۔ اگرچہ مَیں اُسوقت صرف ایک نوعمر ہی تھا، مَیں نے گھروں کی تلاشیوں میں حصہ لیا جن میں ہم ’رِجعتپسند رجحانات‘ کے ثبوت کی تلاش کرتے تھے۔ مَیں نے ایک عوامی جلسے کی صدارت بھی کی جس نے ’انقلابشکن شخص‘ کو مجرم ٹھہرایا۔ بِلاشُبہ، بعضاوقات یہ الزامات سیاسی ملاحظوں کی بجائے زیادہتر ذاتی دشمنی پر مبنی ہوتے تھے۔
”مَیں نے بہت سے لوگوں—جوان اور بوڑھوں، مردوں اور عورتوں—کو جسمانی سزا دئے جاتے دیکھا جو زیادہ سے زیادہ سخت ہوتی گئیں۔ میرے سکول کے اساتذہ میں سے ایک—ایک نیک آدمی—کی کُھلےعام تلاشی لی گئی جیسےکہ وہ کوئی مجرم ہو۔ دو ماہ بعد میرے سکول کا ایک اَور کافی عزتدار اُستاد دریائے سوشو میں مرا ہوا پایا گیا اور میرے انگریزی کے اُستاد کو خود کو پھانسی لگا لینے پر مجبور کِیا گیا۔ مَیں بہت حیران اور پریشان ہوا۔ یہ تو رحمدل لوگ تھے۔ اِن کیساتھ ایسا سلوک کرنا غلط تھا! لہٰذا مَیں نے ریڈ گارڈز کیساتھ اپنے تمام تعلقات ختم کر لئے۔
”مَیں نہیں سمجھتا کہ نفرت کا یہ دَور جس نے چینؔ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اپنی نوعیت کا واحد واقعہ تھا۔ اِس صدی نے نفرت کے بہت سے دھماکوں کو دیکھا ہے۔ تاہم، مَیں اِس بات کا قائل ہوں کہ محبت نفرت پر غالب آ سکتی ہے۔ یہ بات مَیں نے ذاتی طور پر دیکھی ہے۔ جب مَیں نے یہوؔواہ کے گواہوں کے ساتھ رفاقت رکھنا شروع کر دی تو مَیں اُس خالص محبت سے متاثر ہوا جو وہ مختلف نسلوں اور پسمنظروں کے لوگوں کیلئے دکھاتے تھے۔ مَیں اُس وقت کا منتظر ہوں، جب، جیسے کہ بائبل وعدہ کرتی ہے، تمام لوگ ایک دوسرے سے محبت کرنا سیکھ چکے ہونگے۔“
جیہاں، یہوؔواہ کے گواہوں کا بینالاقوامی معاشرہ اِس بات کا زندہ ثبوت ہے کہ نفرت کو نیستونابود کِیا جا سکتا ہے۔ اُنکا پسمنظر خواہ کچھ بھی ہو، گواہ تعصب کی جگہ باہمی احترام کو رکھنے اور فرقہپرستی، نسلپرستی، یا قومپرستی کے کسی بھی نامونشان کو مٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اُنکی کامیابی کی ایک بنیاد اُصول سے ہدایت پانے والی محبت کا مظاہرہ کرنے میں یسوؔع مسیح کی نقل کرنے کا اُنکا عزم ہے۔ ایک دوسری بنیاد یہ ہے کہ وہ کسی بھی طرح کی ناانصافی کو جس کے باعث شاید وہ دکھ اُٹھائیں ختم کرنے کیلئے خدا کی بادشاہت پر آس رکھتے ہیں۔
نفرت سے پاک دُنیا حاصل کرنے کیلئے خدا کی بادشاہت یقینی حل ہے، ایک ایسی دُنیا جس میں نفرت کے لائق کوئی بُری چیز بھی نہیں ہوگی۔ بائبل میں ”نئے آسمان“ کے طور پر بیانکردہ یہ آسمانی حکومت ناانصافی سے آزاد ایک دُنیا کی ضمانت دیگی۔ یہ ایک ”نئی زمین“ یا لوگوں کے نئے معاشرے پر حکمرانی کریگی جنہیں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کرنے کی تعلیم دی گئی ہوگی۔ (۲-پطرس ۳:۱۳؛ یسعیاہ ۵۴:۱۳) یہ تعلیم پہلے ہی سے دی جا رہی ہے، جیسےکہ میکسؔ، سیموؔن اور بہت سے دیگر لوگوں کے تجربات ظاہر کرتے ہیں۔ یہ نفرت اور اسکے اسباب کو ختم کرنے کے عالمگیر پروگرام کی پیشگی جھلک ہے۔
اپنے نبی یسعیاؔہ کے ذریعے، یہوؔواہ نتیجے کو بیان کرتا ہے: ”وہ میرے تمام کوہِمُقدس پر نہ ضرر پہنچائینگے نہ ہلاک کرینگے کیونکہ جس طرح سمندر پانی سے بھرا ہے اُسی طرح زمین خداوند کے عرفان سے معمور ہوگی۔“ (یسعیاہ ۱۱:۹) خدا خود نفرت کے خاتمے کا اعلان کر چکا ہوگا۔ یہ واقعی محبت کرنے کا وقت ہوگا۔ (۵ ۶/۱۵ w۹۵)
[تصویریں]
نازیوںنے میکؔس لیبسٹر کے بائیں بازو پر قید کا نمبر داغ دیا
[تصویر]
نفرت بہت ہی جلد گئی گزری بات ہوگی