نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں
”ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر بےدل نہ ہونگے تو عین وقت پر کاٹیں گے۔“—گلتیوں ۶:۹۔
۱، ۲. (ا) خدا کی خدمت کرنے کے لئے صبر کیوں ضروری ہے؟ (ب) ابرہام نے صبر کا مظاہرہ کیسے کِیا اور اس کے لئے کس چیز نے اُس کی مدد کی؟
یہوواہ کے گواہوں کے طور پر ہم خدا کی مرضی بجا لانے سے خوشی حاصل کرتے ہیں۔ ہم شاگردی کا ”جؤا“ اُٹھانے سے بھی تازگی محسوس کرتے ہیں۔ (متی ۱۱:۲۹) اسکے باوجود مسیح کے ساتھ یہوواہ کی خدمت کرنا ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔ پولس رسول نے ساتھی مسیحیوں کو یہ تاکید کرتے ہوئے اس بات کو واضح کِیا: ”تمہیں صبر کرنا ضرور ہے تاکہ خدا کی مرضی پوری کرکے وعدہ کی ہوئی چیز حاصل کرو۔“ (عبرانیوں ۱۰:۳۶) واقعی صبر کرنا ضروری ہے کیونکہ خدا کی خدمت کرنا کٹھن ہو سکتا ہے۔
۲ ابرہام کی زندگی یقیناً اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ اُسے بہتیرے پیچیدہ انتخابات اور پریشانکُن حالات کا سامنا ہوا۔ اُور کی پُرآسائش زندگی چھوڑنے کا حکم تو محض شروعات تھی۔ بہت ہی جلد اُسے قحط، پڑوسیوں کی مخالفت، بیوی کے چھن جانے کے خطرے، رشتہداروں کی دُشمنی اور جنگی بربریت کا سامنا ہوا۔ اس سے بھی بڑی آزمائشیں ابھی آنی تھیں۔ تاہم، ابرہام نے نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاری۔ یہ واقعی قابلِتوجہ بات ہے کیونکہ آج ہماری طرح اُسکے پاس خدا کا مکمل کلام موجود نہیں تھا۔ لیکن وہ بِلاشُبہ اُس پہلی پیشینگوئی سے واقف تھا جس میں خدا نے بیان کِیا: ”مَیں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالونگا۔“ (پیدایش ۳:۱۵) یہ نسل چونکہ ابرہام کے وسیلہ سے آنی تھی اسلئے ظاہر ہے کہ وہ ابلیس کے حملوں کا ہدف تھا۔ اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد ابرہام کو بِلاشُبہ اپنی آزمائشیں خوشی سے برداشت کرنے میں مدد ملی ہوگی۔
۳. (ا) آجکل یہوواہ کے لوگوں کو آزمائشوں کی توقع کیوں کرنی چاہئے؟ (ب) گلتیوں ۶:۹ ہماری کیا حوصلہافزائی کرتی ہے؟
۳ آجکل یہوواہ کے لوگوں کو بھی آزمائشوں کی توقع کرنی چاہئے۔ (۱-پطرس ۱:۶، ۷) مکاشفہ ۱۲:۱۷ ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ شیطان ممسوح بقیے کیساتھ ’لڑ‘ رہا ہے۔ ممسوح اشخاص کیساتھ قریبی رفاقت کی وجہ سے ’دوسری بھیڑیں‘ بھی شیطان کے غضب کا نشانہ ہیں۔ (یوحنا ۱۰:۱۶) مسیحیوں کو عوامی خدمتگزاری میں مخالفت کے علاوہ اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی آزمائشوں کا تجربہ ہو سکتا ہے۔ پولس ہمیں نصیحت کرتا ہے: ”ہم نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں کیونکہ اگر بےدل نہ ہونگے تو عین وقت پر کاٹیں گے۔“ (گلتیوں ۶:۹) جیہاں، اگرچہ شیطان ہمارے ایمان کو تباہ کرنے کے درپے ہے توبھی ہمیں ایمان میں مضبوط اور پُرعزم ہو کر اُسکا مقابلہ کرنا چاہئے۔ (۱-پطرس ۵:۸، ۹) ہماری وفاداری کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟ یعقوب ۱:۲، ۳ وضاحت کرتی ہے: ”اَے میرے بھائیو! جب تم طرح طرح کی آزمایشوں میں پڑو۔ تو اسکو یہ جان کر کمال خوشی کی بات سمجھنا کہ تمہارے ایمان کی آزمائش صبر پیدا کرتی ہے۔“
براہِراست حملہ
۴. شیطان نے براہِراست حملوں کے ذریعے خدا کے لوگوں کی راستی توڑنے کی کوشش کیسے کی ہے؟
۴ واقعی ابرہام کی زندگی اُن ”طرح طرح کی آزمایشوں“ کی عکاسی کرتی ہے جنکا آج ایک مسیحی کو سامنا ہو سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اُسے سنعار کی فوجوں کے حملے کے خلاف جوابی کارروائی کرنی پڑی۔ (پیدایش ۱۴:۱۱-۱۶) یہ کوئی تعجبانگیز بات نہیں کہ آجکل شیطان اذیت کے ذریعے براہِراست حملہ کرتا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سے کئی ممالک نے یہوواہ کے گواہوں کے مسیحی تعلیمی کام پر پابندی لگا دی ہے۔ مثال کے طور پر، ۲۰۰۱ ایئربُک آف جیہوواز وِٹنسز میں انگولا کے مسیحیوں کی اپنے دُشمنوں کے ہاتھوں اذیت برداشت کرنے کی سرگزشت ملتی ہے۔ ایسے علاقوں میں ہمارے بھائیوں نے یہوواہ پر توکل کیساتھ اپنی راستی برقرار رکھتے ہوئے ہار نہیں مانی! اُنہوں نے تشدد یا بغاوت کی بجائے بڑی دانشمندی سے منادی جاری رکھی ہے۔—متی ۲۴:۱۴۔
۵. مسیحی نوجوان سکول میں اذیت کا نشانہ کیسے بن سکتے ہیں؟
۵ تاہم، اذیت میں تشدد کا ہونا ضروری نہیں ہے۔ بالآخر، ابرہام کو دو بیٹوں—اسمٰعیل اور اضحاق—سے نوازا گیا۔ پیدایش ۲۱:۸-۱۲ ہمیں بتاتی ہے کہ اسمٰعیل اضحاق کو ”ٹھٹھے مارتا“ تھا۔ گلتیوں کے نام اپنے خط میں پولس نے ظاہر کِیا کہ یہ محض بچوں کا کھیل نہیں تھا کیونکہ اسمٰعیل اضحاق کو ستاتا تھا! (گلتیوں ۴:۲۹) پس ہممکتبوں کا تمسخر اور مخالفین کی سخت کلامی کو بجا طور پر اذیت خیال کِیا جا سکتا ہے۔ ایک نوجوان مسیحی رائن کو اپنے ہمجماعتوں کی طرف سے بڑی اذیت برداشت کرنی پڑی جسکی بابت وہ بیان کرتا ہے: ”بس میں گھر سے سکول اور سکول سے گھر کا سفر صرف ۱۵ منٹ کا تھا لیکن مجھے یہ کئی گھنٹوں کا لگتا تھا کیونکہ راستے میں سب مجھ پر آوازیں کستے اور میرا مذاق اُڑاتے تھے۔ وہ سگریٹ لائٹر سے پیپر کلپ گرم کرکے میرے جسم پر لگاتے تھے۔“ اس بُرے سلوک کی وجہ؟ ”تھیوکریٹک تربیت کی وجہ سے مَیں سکول کے دوسرے نوجوانوں سے مختلف تھا۔“ اسکے باوجود اپنے والدین کی حمایت کیساتھ رائن وفاداری سے اس بُرے سلوک کو برداشت کرنے کے قابل ہوا۔ اَے نوجوانو، کیا آپکے ہمسروں کا تمسخر آپکو بےحوصلہ کرتا ہے؟ پس ہمت نہ ہاریں! وفاداری کیساتھ برداشت کرتے رہنے سے آپ یسوع کے اِن الفاظ کی تکمیل کا تجربہ کرینگے: ”جب میرے سبب سے لوگ تم کو لعنطعن کریں گے اور ستائینگے اور ہر طرح کی بُری باتیں تمہاری نسبت ناحق کہینگے تو تم مبارک ہو گے۔“—متی ۵:۱۱۔
روزمرّہ کی پریشانیاں
۶. آجکل کونسی چیزیں ساتھی مسیحیوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پیدا کر سکتی ہیں؟
۶ آجکل ہماری بیشتر آزمائشیں روزمرّہ کی پریشانیوں پر مشتمل ہوتی ہیں۔ ابرہام کو بھی اپنے چرواہوں اور لوط کے چرواہوں کے درمیان پیدا ہونے والی رنجش کو برداشت کرنا پڑا تھا۔ (پیدایش ۱۳:۵-۷) اسی طرح آجکل بھی شخصی اختلافات اور چھوٹی چھوٹی بدگمانیاں تعلقات میں کشیدگی پیدا کرنے کے علاوہ کلیسیا کے امن کیلئے خطرہ بن سکتی ہیں۔ ”جہاں حسد اور تفرقہ ہوتا ہے وہاں فساد اور ہر طرح کا بُرا کام بھی ہوتا ہے۔“ (یعقوب ۳:۱۶) ابرہام کی طرح ہمارے لئے بھی تکبّر کی بجائے صلح کو ترجیح دینا اور دوسروں کے مفادات کا خیال رکھنا نہایت ضروری ہے!—۱-کرنتھیوں ۱۳:۵؛ یعقوب ۳:۱۷۔
۷. (ا) اگر ایک مسیحی کو دوسرے مسیحی سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اُسے کیا کرنا چاہئے؟ (ب) ابرہام نے دوسروں کیساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے میں عمدہ مثال کیسے قائم کی؟
۷ جب ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ کسی ہمایمان نے ہمارے ساتھ زیادتی کی ہے تو صلحپسند بننا بڑا مشکل ہو سکتا ہے۔ امثال ۱۲:۱۸ بیان کرتی ہے: ”بےتامل بولنے والے کی باتیں تلوار کیطرح چھیدتی ہیں۔“ معصومیت سے کہی گئیں بےتامل باتیں بھی انتہائی تکلیفدہ ہو سکتی ہیں۔ اگر ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ ہمیں تہمت اور فضولگوئی کا نشانہ بنایا گیا ہے تو یہ تکلیف مزید بڑھ جاتی ہے۔ (زبور ۶:۶، ۷) تاہم، ایک مسیحی جذبات کو ٹھیس پہنچنے کی وجہ سے بےحوصلہ نہیں ہوگا! اگر آپ ایسی صورتحال میں مبتلا ہیں تو جس شخص نے آپ کے جذبات مجروح کئے ہیں اُس کے ساتھ مہربانہ انداز میں باتچیت کرنے کیلئے پہل کریں۔ (متی ۵:۲۳، ۲۴؛ افسیوں ۴:۲۶) اُس شخص کو معاف کرنے کے لئے تیار رہیں۔ (کلسیوں ۳:۱۳) خفگی دُور کرنے سے ہم اپنے جذبات کے علاوہ اپنے بھائی کیساتھ اپنے رشتے کو بھی بحال کرنا ممکن بناتے ہیں۔ ابرہام نے لوط کے لئے اپنے دل میں کوئی آزردگی نہیں رکھی تھی۔ ابرہام تو لوط اور اُس کے خاندان کو بچانے کے لئے فوراً تیار ہو گیا!—پیدایش ۱۴:۱۲-۱۶۔
خودساختہ آزمائشیں
۸. (ا) مسیحی ’اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے کیسے چھلنی‘ کر سکتے ہیں؟ (ب) ابرہام مادی چیزوں کی بابت ایک متوازن نظریہ قائم کرنے کے قابل کیسے ہوا تھا؟
۸ یہ بات درست ہے کہ بعض آزمائشیں خودساختہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر یسوع نے اپنے شاگردوں کو حکم دیا: ”اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں۔“ (متی ۶:۱۹) اس کے باوجود بعض بھائی مادی حاصلات کو بادشاہتی مفادات پر ترجیح دیکر ”اپنے دلوں کو طرح طرح کے غموں سے چھلنی“ کر لیتے ہیں۔ (۱-تیمتھیس ۶:۹، ۱۰) ابرہام خدا کی خوشنودی کی خاطر مادی آسائشوں کو بھی قربان کرنے کیلئے تیار تھا۔ ”ایمان ہی سے اُس نے ملکِموعود میں اس طرح مسافرانہ طور پر بودوباش کی کہ گویا غیرملک ہے اور اؔضحاق اور یعقوؔب سمیت جو اُس کیساتھ اُسی وعدہ کے وارث تھے خیموں میں سکونت کی۔ کیونکہ وہ اُس پایدار شہر کا اُمیدوار تھا جسکا معمار اور بنانے والا خدا ہے۔“ (عبرانیوں ۱۱:۹، ۱۰) مستقبل کے ”شہر“ یا الہٰی حکومت پر ایمان رکھنے سے ابرہام کی مدد ہوئی کہ وہ مالودولت پر تکیہ نہ کرے۔ کیا ہمارے لئے ایسا ہی کرنا دانشمندی نہیں ہوگی؟
۹، ۱۰. (ا) اعلیٰ مرتبے کی خواہش کیسے آزمائش بن سکتی ہے؟ (ب) آجکل ایک بھائی خود کو کیسے ”چھوٹا“ ظاہر کر سکتا ہے؟
۹ ایک اَور پہلو پر بھی غور کریں۔ بائبل یہ پُرزور ہدایت کرتی ہے: ”اگر کوئی شخص اپنےآپ کو کچھ سمجھے اور کچھ بھی نہ ہو تو اپنےآپ کو دھوکا دیتا ہے۔“ (گلتیوں ۶:۳) اسکے علاوہ ہمیں نصیحت کی گئی ہے کہ ”تفرقے اور بیجا فخر کے باعث کچھ نہ کرو بلکہ فروتنی سے ایک دوسرے کو اپنے سے بہتر سمجھے۔“ (فلپیوں ۲:۳) بعض لوگ اس مشورت پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے خود کو آزمائشوں میں مبتلا کر لیتے ہیں۔ وہ ”اچھے کام“ کرنے کی بجائے اعلیٰ مرتبہ حاصل کرنے کی خواہش سے تحریک پاتے ہیں اور جب کلیسیا میں انہیں استحقاقات حاصل نہیں ہوتے تو وہ برہم اور بےحوصلہ ہو جاتے ہیں۔—۱-تیمتھیس ۳:۱۔
۱۰ ابرہام نے ’جیسا سمجھنا چاہئے اُس سے زیادہ اپنےآپ کو نہ سمجھنے‘ کے معاملے میں بھی ایک عمدہ مثال قائم کی۔ (رومیوں ۱۲:۳) جب ملکِصدق سے اُسکی ملاقات ہوئی تو اُس نے خدا کیساتھ اپنی متشرف حالت کی وجہ سے خود کو افضل قرار دینے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اسکے برعکس اُس نے ملکِصدق کو دسواں حصہ دیکر کاہن کے طور پر اُس کے اعلیٰ مرتبے کیلئے احترام ظاہر کِیا۔ (عبرانیوں ۷:۴-۷) آجکل بھی مسیحیوں کو اعلیٰ مرتبے کی جستجو کرنے کی بجائے خود کو ”چھوٹا“ خیال کرنا چاہئے۔ (لوقا ۹:۴۸) اگر کلیسیا کے پیشوا آپکو کچھ استحقاقات نہیں دیتے تو اپنی شخصیت یا مختلف حالات کے تحت اپنے طرزِعمل کا دیانتدارانہ جائزہ لیں۔ ہمیں جو استحقاقات حاصل نہیں اُن کی بابت کڑھنے کی بجائے اس استحقاق—یہوواہ کو جاننے میں دوسروں کی مدد کرنے کا استحقاق—سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے جو ہمیں حاصل ہے۔ جیہاں، ”خدا کے قوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو تاکہ وہ تمہیں وقت پر سربلند کرے۔“—۱-پطرس ۵:۶۔
اَندیکھی چیزوں پر ایمان
۱۱، ۱۲. (ا) کلیسیا کے بعض افراد فوری تعمیل کا احساس کیوں کھو سکتے ہیں؟ (ب) ابرہام نے خدائی وعدوں پر ایمان کو اپنی ساری زندگی کا محور بنانے سے کیسے عمدہ نمونہ قائم کِیا؟
۱۱ اس شریر نظاماُلعمل کے خاتمے میں ظاہری تاخیر بھی آزمائش بن سکتی ہے۔ ۲-پطرس ۳:۱۲ کے مطابق مسیحیوں کو ”[یہوواہ] کے اُس دن کے آنے کا . . . منتظر اور مشتاق“ رہنا ہے۔ تاہم، بہتیرے سالوں سے اور بعض تو عشروں سے اس ”دن“ کے منتظر ہیں۔ نتیجتاً، کچھ بےحوصلہ ہو کر فوری تعمیل کا احساس کھو سکتے ہیں۔
۱۲ ایک بار پھر ابرہام کی مثال پر غور کریں۔ خدائی وعدوں پر ایمان اُسکی ساری زندگی کا محور تھا حالانکہ اُسکی زندگی میں اِن سب کی تکمیل کا کوئی امکان نہیں تھا۔ یہ بات سچ ہے کہ وہ اپنے بیٹے اضحاق کے جوان ہونے تک زندہ رہا تھا۔ تاہم، ابرہام کی نسل کا موازنہ ”آسمان کے تاروں“ یا ”سمندر کے کنارے کی ریت“ سے کرنے کیلئے صدیوں کا عرصہ درکار تھا۔ (پیدایش ۲۲:۱۷) پھربھی ابرہام اس بات سے بےحوصلہ یا برہم نہیں ہوا تھا۔ پس، پولس رسول نے ابرہام اور دیگر آبائی بزرگوں کی بابت بیان کِیا: ”یہ سب ایمان کی حالت میں مرے اور وعدہ کی ہوئی چیزیں نہ پائیں مگر دُور ہی سے اُنہیں دیکھ کر خوش ہوئے اور اقرار کِیا کہ ہم زمین پر پردیسی اور مسافر ہیں۔“—عبرانیوں ۱۱:۱۳۔
۱۳. (ا) آجکل مسیحی ’مسافروں‘ کی مانند کیسے ہیں؟ (ب) یہوواہ اس نظاماُلعمل کو ختم کیوں کریگا؟
۱۳ اگر ابرہام اپنی زندگی اُن وعدوں پر مُرتکز کر سکتا تھا جنکی تکمیل ابھی ”دُور“ تھی توپھر آجکل ہمیں اَور بھی زیادہ ایسا کرنا چاہئے کیونکہ اب انکی تکمیل بہت قریب ہے! ابرہام کی طرح ہمیں بھی شیطان کے نظام میں خود کو ”مسافر“ خیال کرتے ہوئے لذتپرستانہ طرزِزندگی اپنانے سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ تو قدرتی بات ہے کہ ہم یہی چاہینگے کہ ”سب چیزوں کا خاتمہ“ کل کی بجائے آج ہی ہو جائے۔ (۱-پطرس ۴:۷) شاید ہم بہت بیمار ہیں۔ یا شاید ہم معاشی دباؤ تلے دبے ہوئے ہیں۔ تاہم، ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ یہوواہ ہمیں ان افسوسناک حالتوں سے آزاد کرانے کیلئے ہی نہیں بلکہ اپنے نام کی تقدیس کیلئے خاتمہ لائیگا۔ (حزقیایل ۳۶:۲۳؛ متی ۶:۹، ۱۰) خاتمہ ہماری مرضی کے وقت کی بجائے یہوواہ کے مقاصد کیلئے موزوں وقت پر آئیگا۔
۱۴. خدا کا تحمل آجکل مسیحیوں کیلئے کیسے فائدہمند ہے؟
۱۴ یہ بھی یاد رکھیں کہ ”[یہوواہ] اپنے وعدہ میں دیر نہیں کرتا جیسی دیر بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ تمہارے بارے میں تحمل کرتا ہے اس لئے کہ کسی کی ہلاکت نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ سب کی توبہ تک نوبت پہنچے۔“ (۲-پطرس ۳:۹) غور کریں کہ خدا ”تمہارے“—مسیحی کلیسیا کے ارکان—کے ”بارے میں تحمل“ کرتا ہے۔ بدیہی طور پر، ہم میں سے بعض کو ”اُسکے سامنے اطمینان کی حالت میں بیداغ اور بےعیب نکلنے“ کی خاطر ردوبدل کرنے کیلئے زیادہ وقت درکار ہے۔ (۲-پطرس ۳:۱۴) پس کیا ہمیں خدا کے تحمل کیلئے شکرگزار نہیں ہونا چاہئے؟
رکاوٹوں کے باوجود خوشی حاصل کرنا
۱۵. یسوع نے آزمائشوں کے دوران اپنی خوشی کیسے برقرار رکھی اور آجکل اُسکی نقل کرنا مسیحیوں کیلئے کیسے مفید ثابت ہوتا ہے؟
۱۵ ابرہام کی زندگی آجکل کے مسیحیوں کو بہتیرے سبق سکھاتی ہے۔ اُس نے نہ صرف ایمان بلکہ تحمل، ہوشیاری، دلیری اور بےلوث محبت بھی ظاہر کی۔ اُس نے یہوواہ کی پرستش کو اپنی زندگی میں مقدم رکھا۔ تاہم، یہ بات یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہمارا سب سے بہترین قابلِتقلید نمونہ یسوع مسیح ہے۔ اُس نے بھی بیشمار امتحانوں اور آزمائشوں کا سامنا کِیا لیکن ان سب کے دوران اُس نے اپنی خوشی کبھی نہیں کھوئی تھی۔ کیوں؟ اسلئے کہ اُس نے اپنی توجہ مستقبل کی اُمید پر مرکوز رکھی۔ (عبرانیوں ۱۲:۲، ۳) پس پولس نے دُعا کی: ”خدا صبر اور تسلی کا چشمہ تُم کو یہ توفیق دے کہ مسیح یسوؔع کے مطابق آپس میں یکدل رہو۔“ (رومیوں ۱۵:۵) مناسب ذہنی رُجحان کیساتھ ہم شیطان کی طرف سے آنے والی رکاوٹوں کے باوجود خوشی حاصل کر سکتے ہیں۔
۱۶. جب ہمارے مسائل بظاہر ناقابلِبرداشت دکھائی دیں تو ہم کیا کر سکتے ہیں؟
۱۶ جب مسائل بظاہر ناقابلِبرداشت دکھائی دیں تو یاد رکھیں کہ یہوواہ ابرہام کی طرح آپ سے بھی محبت رکھتا ہے۔ وہ آپکی کامیابی کا خواہاں ہے۔ (فلپیوں ۱:۶) اس اعتماد کیساتھ یہوواہ پر پورا بھروسا رکھیں کہ ”وہ تم کو تمہاری طاقت سے زیادہ آزمایش میں نہ پڑنے دیگا بلکہ آزمایش کے ساتھ نکلنے کی راہ بھی پیدا کر دیگا تاکہ تم برداشت کر سکو۔“ (۱-کرنتھیوں ۱۰:۱۳) روزانہ خدا کا کلام پڑھنے کو عادت بنا لیں۔ (زبور ۱:۲) برداشت کیلئے یہوواہ سے مدد کی درخواست کرتے ہوئے دُعا میں مشغول رہیں۔ (فلپیوں ۴:۶) وہ ”اپنے مانگنے والوں کو رُوحالقدس“ ضرور دے گا۔ (لوقا ۱۱:۱۳) اپنی روحانیت کو برقرار رکھنے کیلئے یہوواہ کی فراہمیوں، بائبل پر مبنی مطبوعات سے فائدہ اُٹھائیں۔ علاوہازیں برادری کی مدد بھی حاصل کریں۔ (۱-پطرس ۲:۱۷) وفاداری سے مسیحی اجلاسوں پر حاضر ہوں کیونکہ ان سے آپ برداشت کیلئے درکار حوصلہافزائی حاصل کرینگے۔ (عبرانیوں ۱۰:۲۴، ۲۵) اس اعتماد سے خوشی حاصل کریں کہ آپکی برداشت خدا کے حضور مقبولیت پر منتج ہوتی ہے اور آپکی وفاداری اُسکے دل کو شاد کرتی ہے!—امثال ۲۷:۱۱؛ رومیوں ۵:۳-۵۔
۱۷. مسیحیوں کو مایوسی کا شکار کیوں نہیں ہونا چاہئے؟
۱۷ خدا ابرہام سے اپنے ”دوست“ کے طور پر محبت رکھتا تھا۔ (یعقوب ۲:۲۳) اسکے باوجود ابرہام کی زندگی میں کئی کٹھن آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں۔ پس مسیحیوں کو اس ”اخیر زمانہ“ میں کچھ کم کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ درحقیقت، بائبل ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ ”بُرے اور دھوکاباز آدمی . . . بگڑتے چلے جائیں گے۔“ (۲-تیمتھیس ۳:۱، ۱۳) افسردہ ہونے کی بجائے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم جن تکالیف کا سامنا کرتے ہیں وہ دراصل شیطان کے اس بدکار نظام کے قریبی خاتمے کا ثبوت ہیں۔ تاہم، یسوع ہمیں یاددہانی کراتا ہے کہ ”جو آخر تک برداشت کریگا وہ نجات پائیگا۔“ (متی ۲۴:۱۳) پس ’نیک کام کرنے میں ہمت نہ ہاریں!‘ ابرہام کی نقل کریں اور ”ایمان اور تحمل کے باعث وعدوں کے وارث“ بننے والوں میں شریک ہوں۔—عبرانیوں ۶:۱۲۔
کیا آپ نے غور کِیا؟
• آجکل یہوواہ کے لوگوں کو آزمائشوں اور مصیبتوں کی توقع کیوں کرنی چاہئے؟
• شیطان کن طریقوں سے براہِراست حملے کر سکتا ہے؟
• مسیحیوں کے درمیان ذاتی اختلافات کیسے حل کئے جا سکتے ہیں؟
• تکبّر اور خودپسندی آزمائش کا سبب کیسے بن سکتے ہیں؟
• ابرہام نے خدا کے وعدوں کی تکمیل کا انتظار کرنے کے سلسلے میں کیسے ایک عمدہ نمونہ قائم کِیا؟
[صفحہ ۲۶ پر تصویر]
بہتیرے مسیحی نوجوان ہمسروں کے طنز کا نشانہ بننے سے اذیت اُٹھاتے ہیں
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
ابرہام کے زمانے میں خدا کے وعدوں کی تکمیل اگرچہ ”دُور“ تھی توبھی اُس نے اِنہیں اپنی زندگی کا محور بنایا