اپنی ترقی ظاہر کریں
”اِن باتوں کی فکر رکھ۔ ان ہی میں مشغول رہ تاکہ تیری ترقی سب پر ظاہر ہو۔“—۱-تیمتھیس ۴:۱۵۔
۱. آپ کیسے بتا سکتے ہیں کہ کوئی پھل کب پک کر کھانے کے لئے تیار ہوتا ہے؟
ذرا اپنے پسندیدہ پھل کا تصور کریں—شاید آڑو، ناشپاتی، آم وغیرہوغیرہ۔ کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہ کب پک کر کھانے کے لئے تیار ہوتا ہے؟ یقیناً۔ اس کی خوشبو، رنگ اور لمس ہی سے آپ کے مُنہ میں پانی آ جاتا ہے۔ اِسے کھاتے ہی آپ کو بڑی تسکین محسوس ہوتی ہے۔ کتنا رسیلا! کتنا شیرین! آپ اس سے بہت لطفاندوز ہوتے ہیں۔
۲. پختگی کیسے ظاہر ہوتی ہے اور اسکا ذاتی رشتوں پر کیا اثر ہوتا ہے؟
۲ زندگی کے دیگر حلقوں میں اِس سادہ مگر راحتانگیز تجربے کے مماثل دیکھے جا سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر، جیسے پکا ہوا پھل پہچانا جاتا ہے ویسے ہی کسی شخص کی روحانی پختگی بھی مختلف طریقوں سے عیاں ہو جاتی ہے۔ کسی شخص کی بصیرت، حکمت اور فہم کو دیکھ کر ہم اُس کی پختگی کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔ (ایوب ۳۲:۷-۹) یہ سچ ہے کہ جو لوگ اپنے رُجحانات اور افعال میں ایسی صفات کی عکاسی کرتے ہیں اُن کے ساتھ ملناجلنا اور اُن کے ساتھ کام کرنا واقعی خوشی بخشتا ہے۔—امثال ۱۳:۲۰۔
۳. اپنے زمانے کے لوگوں کی بابت یسوع کے بیان نے پختگی کی بابت کیا آشکارا کِیا؟
۳ اس کے برعکس، ایک شخص جسمانی طور پر تو بڑا ہو جاتا ہے مگر اپنے قولوفعل سے ظاہر کرتا ہے کہ وہ جذباتی اور روحانی طور پر ناپُختہ ہے۔ مثال کے طور پر، اپنے زمانے کی سرکش نسل کا ذکر کرتے ہوئے، یسوع مسیح نے کہا: ”یوؔحنا نہ کھاتا آیا نہ پیتا اور وہ کہتے ہیں کہ اُس میں بدرُوح ہے۔ ابنِآؔدم کھاتا پیتا آیا اور وہ کہتے ہیں دیکھو کھاؤ اور شرابی آدمی۔“ اگرچہ یہ لوگ جسمانی طور پر پُختہ تھے مگر یسوع نے کہا کہ وہ ”بچوں“ کی مانند بالکل ناپُختہ ہیں۔ لہٰذا، اُس نے مزید کہا: ”مگر حکمت اپنے کاموں سے راست ثابت ہوئی۔“—متی ۱۱:۱۶-۱۹۔
۴. ترقی اور پختگی کن طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے؟
۴ یسوع کی اس بات کے مطابق ہم کسی شخص کے کاموں اور اُن کے نتائج سے دیکھ سکتے ہیں کہ آیا اُس میں سچی حکمت—پختگی کا امتیازی نشان—ہے یا نہیں۔ اس ضمن میں، تیمتھیس کے لئے پولس کی مشورت پر غور کیجئے۔ اُن تمام چیزوں کا ذکر کرنے کے بعد جن کی تیمتھیس کو جستجو کرنی چاہئے، پولس نے کہا: ”ان باتوں کی فکر رکھ۔ اِن ہی میں مشغول رہ تاکہ تیری ترقی سب پر ظاہر ہو۔“ (۱-تیمتھیس ۴:۱۵) جیہاں، پختگی کی جانب کسی مسیحی کی ترقی ”ظاہر“ یا بآسانی قابلِشناخت ہوتی ہے۔ ایک چراغ کی طرح مسیحی پختگی بھی کوئی پوشیدہ یا ناقابلِشناخت صفت نہیں ہوتی۔ (متی ۵:۱۴-۱۶) لہٰذا، ہم ترقی اور پختگی ظاہر کرنے کے دو بنیادی طریقوں پر غور کرینگے: (۱) علم، سمجھ اور حکمت میں ترقی (۲) روح کے پھلوں کا مظاہرہ۔
ایمان اور علم میں یگانگت
۵. پختگی کی تشریح کیسے کی جا سکتی ہے؟
۵ اُردو لغات کے مطابق پختگی سے مُراد استحکام، بلوغت اور تجربہکاری ہے۔ جیسا کہ پہلے بیان کِیا جا چکا ہے کہ ایک پھل اپنی نشوونما کے قدرتی مراحل سے گزرنے کے بعد پک جاتا ہے اور اُس کی صورت، رنگ، خوشبو اور ذائقہ پُرکشش ہو جاتا ہے۔ اُسی طرح، پختگی فضیلت، اکملیت حتیٰکہ کاملیت کے مترادف ہے۔—یسعیاہ ۱۸:۵؛ متی ۵:۴۵-۴۸؛ یعقوب ۱:۴۔
۶، ۷. (ا) کیا چیز ظاہر کرتی ہے کہ یہوواہ اپنے تمام پرستاروں کو روحانی پختگی کی جانب ترقی کرتے دیکھنا چاہتا ہے؟ (ب) کس بات سے روحانی پختگی کا گہرا تعلق ہے؟
۶ یہوواہ کی یہ دلی خواہش ہے کہ اُس کے تمام پرستار روحانی پختگی حاصل کریں۔ اسی لئے اُس نے مسیحی کلیسیا کے لئے بہت شاندار بندوبست کِیا ہے۔ افسس کے مسیحیوں کے نام پولس رسول نے لکھا: ”اُسی نے بعض کو رسول اور بعض کو نبی اور بعض کو مبشر اور بعض کو چرواہا اور اُستاد بنا کر دے دیا۔ تاکہ مُقدس لوگ کامل بنیں اور خدمتگذاری کا کام کِیا جائے اور مسیح کا بدن ترقی پائے۔ جب تک ہم سب کے سب خدا کے بیٹے کے ایمان اور اُسکی پہچان میں ایک نہ ہو جائیں اور کامل انسان نہ بنیں یعنی مسیح کے پورے قد کے اندازہ تک نہ پہنچ جائیں۔ تاکہ ہم آگے کو بچے نہ رہیں اور آدمیوں کی بازیگری اور مکاری کے سبب سے اُن کے گمراہ کرنے والے منصوبوں کی طرف ہر ایک تعلیم کے جھوکے سے موجوں کی طرح اُچھلتے بہتے نہ پھریں۔“—افسیوں ۴:۱۱-۱۴۔
۷ اِن آیات میں، پولس کلیسیا کے اندر خدا کے ایسے جامع روحانی بندوبست کی وجوہات میں سے چند ایک کو واضح کرتا ہے کہ سب ’ایمان اور صحیح علم میں ایک ہو جائیں،‘ ”کامل انسان“ بنیں اور ”مسیح کے پورے قد کے اندازہ تک“ پہنچیں۔ صرف اِسی صورت میں ہم روحانی بچوں کی طرح جھوٹے نظریات اور تعلیمات سے گمراہ ہونے سے بچ سکیں گے۔ پس ہم مسیحی پختگی کی جانب ترقی کرنے اور ”خدا کے بیٹے کے ایمان اور اُسکی پہچان میں ایک“ ہو جانے کے مابین قریبی تعلق دیکھ سکتے ہیں۔ پولس کی مشورت میں کئی ایسی باتیں ہیں جنہیں دلنشین کرنا ہمارے لئے مفید ہوگا۔
۸. ایمان اور علم میں ”ایک“ ہونے کے لئے کیا ضروری ہے؟
۸ پہلی بات تو یہ ہے کہ ”ایک“ ہونے کیلئے پُختہ مسیحی کو ایمان اور علم کے اعتبار سے ہمایمانوں کیساتھ متحد اور ہمآہنگ ہونا چاہئے۔ وہ بائبل کی سمجھ کے سلسلے میں ذاتی آراء پر اصرار نہیں کرتا اور نہ ہی اپنے نظریات کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے برعکس، وہ یہوواہ خدا کے بیٹے، یسوع مسیح اور ”دیانتدار اور عقلمند نوکر“ کے ذریعے آشکارا سچائی پر مکمل بھروسا رکھتا ہے۔ مسیحی مطبوعات، اجلاسوں، اسمبلیوں اور کنونشنوں کے ذریعے ”وقت پر“ فراہم کی جانے والی روحانی غذا باقاعدگی کے ساتھ کھانے سے ہم ایمان اور علم میں ہمایمانوں کے ساتھ ”ایک“ ہو سکتے ہیں۔—متی ۲۴:۴۵۔
۹. افسیوں کے نام خط میں پولس کی اصطلاح ”ایمان“ کے مفہوم کی وضاحت کریں۔
۹ دوم، اصطلاح ”ایمان“ ہر مسیحی کے انفرادی اعتقاد کی بجائے ہمارے مجموعی اعتقادات یعنی اِنکی ”چوڑائی اور لمبائی اور اُونچائی اور گہرائی“ کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ (افسیوں ۳:۱۸؛ ۴:۵؛ کلسیوں ۱:۲۳؛ ۲:۷) درحقیقت اگر کوئی مسیحی اِس ”ایمان“ کے کسی مخصوص حصے کو ہی مانتا ہے تو وہ ہمایمانوں کے ساتھ ایک کیسے ہو سکتا ہے؟ اسکا مطلب یہ ہے کہ ہمیں بائبل کی بنیادی تعلیمات یا سچائی کے مبہم یا جزوی علم پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے۔ اسکے برعکس، ہمیں یہوواہ کے کلام کی تحقیق کرنے کے لئے اُسکی تنظیم کی تمام فراہمیوں سے فائدہ اُٹھانے میں دلچسپی رکھنی چاہئے۔ ہمیں خدا کی مرضی اور مقصد کی درست اور مکمل سمجھ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس میں بائبل اور اس پر مبنی مطبوعات کا مطالعہ، خدا کی مدد اور ہدایت کے لئے دُعا، اجلاسوں پر باقاعدہ حاضری اور بادشاہتی منادی اور شاگرد بنانے میں بھرپور شرکت شامل ہے۔—امثال ۲:۱-۵۔
۱۰. افسیوں ۴:۱۳ میں ”ہم سب کے سب“ کی اصطلاح کا کیا مفہوم ہے؟
۱۰ سوم، پولس ”ہم سب کے سب“ کا جزوِجملہ استعمال کرتے ہوئے تہرے مقصد کی وضاحت کا آغاز کرتا ہے۔ بائبل کی ایک دستی کتاب اس اصطلاح کے لئے ”ایکایک، علیٰحدہعلیٰحدہ کی بجائے تمام“ کے معنی پیش کرتی ہے۔ باالفاظِدیگر، ہم سب کو پوری برادری کے ساتھ ملکر مسیحی پختگی کا نصبالعین حاصل کرنے کی معقول کوشش کرنی چاہئے۔ دی انٹرپریٹرز بائبل بیان کرتی ہے: ”جس طرح پورے بدن کی مدد کے بغیر کوئی عضو پوری طرح نشوونما نہیں پا سکتا اُسی طرح کوئی بھی شخص علیٰحدہ رہ کر روحانی کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔“ پولس نے افسس کے مسیحیوں کو یاد دلایا کہ اُنہیں ”سب مُقدسوں“ کے ساتھ ملکر ایمان کی مکمل سمجھ حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔—افسیوں ۳:۱۸الف۔
۱۱. (ا) روحانی ترقی کرنے کا مطلب کیا نہیں ہے؟ (ب) ہمیں ترقی کرنے کیلئے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟
۱۱ پولس کی بات سے یہ واضح ہے کہ روحانی ترقی کا مطلب صرف اپنے ذہن کو بہت زیادہ علم اور معلومات سے معمور کرنا نہیں ہے۔ پُختہ مسیحی دوسروں کو اپنی ذکاوت سے مغلوب نہیں کرتا۔ بلکہ، بائبل بیان کرتی ہے: ”لیکن صادقوں کی راہ نورِسحر کی مانند ہے جس کی روشنی دوپہر تک بڑھتی ہی جاتی ہے۔“ (امثال ۴:۱۸) غور کیجئے کہ اُس شخص کی بجائے ”راہ“ کی ”روشنی . . . بڑھتی ہی جاتی ہے۔“ اگر ہم یہوواہ خدا کے کلام کی اُس درخشاں سمجھ کو حاصل کرنے کی مسلسل کوشش کرتے ہیں جو وہ اپنے لوگوں کو دیتا ہے تو ہم روحانی ترقی کریں گے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں آگے بڑھتے رہنا ہے جو ہم سب کر سکتے ہیں۔—زبور ۹۷:۱۱؛ ۱۱۹:۱۰۵۔
”روح کے پھل“ ظاہر کریں
۱۲. روحانی ترقی کی جستجو میں روح کے پھل ظاہر کرنا کیوں اہم ہے؟
۱۲ ’ایمان اور صحیح علم میں ایک ہونے‘ کے علاوہ اپنی زندگی کے ہر پہلو میں خدا کی روح کے پھل ظاہر کرنا بھی اہم ہے۔ کیوں؟ اسلئے کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ پختگی کوئی پوشیدہ یا ناقابلِشناخت صفت نہیں ہے بلکہ یہ بالکل واضح ہوتی ہے اور دوسروں کو فائدہ اور تقویت پہنچا سکتی ہے۔ بِلاشُبہ، روحانی ترقی کی جستجو کا مطلب کسی طرح کے بناوٹی آدابواطوار یا وضعقطع اختیار کرنا نہیں ہے۔ اس کے برعکس، جب ہم خدا کی روح کی راہنمائی میں روحانی طور پر آگے بڑھیں گے تو ہمارے رُجحانات اور افعال میں حیرانکُن تبدیلی واقع ہوگی۔ پولس رسول نے بیان کِیا کہ ”روح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش کو ہرگز پورا نہ کرو گے۔“—گلتیوں ۵:۱۶۔
۱۳. کونسی تبدیلی ترقی کا واضح ثبوت ہے؟
۱۳ اسکے بعد پولس ”جسم کے کام“ بیان کرتا ہے جو متعدد اور ”ظاہر“ ہیں۔ ممکن ہے کہ خدا کے تقاضوں کو سمجھنے سے پہلے کسی شخص کا طرزِزندگی بالکل دُنیاوی تھا اور پولس کے مطابق وہ یہ کام کرتا تھا: ”حرامکاری۔ ناپاکی۔ شہوتپرستی۔ بُتپرستی۔ جادوگری۔ عداوتیں۔ جھگڑا۔ حسد۔ غصہ۔ تفرقے۔ جُدائیاں۔ بدعتیں۔ بغض۔ نشہبازی۔ ناچرنگ اور اَور ان کی مانند۔ ان کی بابت تمہیں پہلے سے کہے دیتا ہوں جیسا کہ پیشتر جتا چکا ہوں کہ ایسے کام کرنے والے خدا کی بادشاہی کے وارث نہ ہونگے۔“ (گلتیوں ۵:۱۹-۲۱) لیکن جب وہ شخص روحانی ترقی کرتا ہے تو وہ ان ناپسندیدہ ”جسم کے کاموں“ پر رفتہرفتہ قابو پا لیتا ہے اور ”روح کے پھل“ پیدا کرتا ہے۔ یہ واضح تبدیلی اس بات کا ثبوت ہوتی ہے کہ وہ شخص مسیحی پختگی کی جانب ترقی کر رہا ہے۔—گلتیوں ۵:۲۲۔
۱۴. ”جسم کے کام“ اور ”روح کے پھل،“ اِن دونوں اظہارات کی وضاحت کریں۔
۱۴ ہمیں اِن دو اصطلاحوں پر غور کرنا چاہئے کہ ”جسم کے کام“ اور ”روح کے پھل۔“ ”کام“ کسی نہ کسی انجام کی دلالت بھی ضرور کرتے ہیں۔ لہٰذا، پولس جسم کے جن کاموں کی فہرست بیان کرتا ہے وہ چونکہ دانستہ طور پر یا ناکامل جسم سے مغلوب ہو کر کئے جاتے ہیں اس لئے ان کا انجام بھی بُرا ہوتا ہے۔ (رومیوں ۱:۲۴، ۲۸؛ ۷:۲۱-۲۵) اس کے برعکس، ”روح کے پھل“ کی اصطلاح اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ یہ خوبیاں کسی کی شخصیت یا کردار کی فضیلت کی بجائے خدا کی روح کے اثر کی بدولت پیدا ہوتی ہیں۔ جس طرح مناسب دیکھبھال سے درخت اچھا پھل دیتا ہے اُسی طرح جب کسی شخص کی زندگی میں روح آزادانہ طور پر کارفرما ہوگی تو وہ بھی روح کے پھل ظاہر کرے گا۔—زبور ۱:۱-۳۔
۱۵. تمام ”روح کے پھلوں“ پر توجہ دینا کیوں اہم ہے؟
۱۵ پولس نے جتنی عمدہ صفات بیان کیں اُن کے لئے اُس نے لفظ ”پھل“ استعمال کِیا جو واقعی ایک اَور قابلِغور نکتہ ہے۔ روح مختلف قسم کے پھل اسلئے نہیں پیدا کرتی کہ ہم ان میں سے اپنی پسند کا اُٹھا لیں۔ پولس نے جتنی بھی صفات—محبت، خوشی، اطمینان، تحمل، مہربانی، نیکی، ایمانداری، حلم، پرہیزگاری—بیان کیں وہ سب یکساں اہمیت کی حامل ہیں اور وہ ملکر نئی انسانیت کو تشکیل دیتی ہیں۔ (افسیوں ۴:۲۴؛ کلسیوں ۳:۱۰) لہٰذا، ہماری اپنی شخصیت اور رُجحانات کے باعث بعض صفات ہماری زندگی میں زیادہ نمایاں ہو سکتی ہیں لیکن اسکے باوجود پولس کے بیانکردہ تمام عناصر پر توجہ دینا اہم ہے۔ ایسا کرنے سے ہم اپنی زندگی میں مسیح جیسی شخصیت کی زیادہ عکاسی کرنے کے لائق ہونگے۔—۱-پطرس ۲:۱۲، ۲۱۔
۱۶. مسیحی پختگی حاصل کرنے کا مقصد کیا ہے اور اس کے حصول کے لئے کیا چیز ضروری ہے؟
۱۶ پولس کی اس ساری گفتگو سے ہم یہ اہم سبق سیکھتے ہیں کہ مسیحی پختگی کی جستجو کا مقصد زیادہ علم حاصل کرنا یا تصنع اختیار کرنا نہیں ہے۔ اسکا مقصد اپنی زندگی کو خدا کی روح سے معمور کرنا ہے۔ جتنا زیادہ ہم اپنی سوچ اور افعال کے سلسلے میں خدا کی روح کی ہدایت کو قبول کریں گے اُتنا ہی زیادہ ہم روحانی طور پر پُختہ ہو جائیں گے۔ ہم یہ نشانہ کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟ ہمیں خدا کی روح کو اپنے دلودماغ پر اثر کرنے دینا چاہئے۔ اس میں مسیحی اجلاسوں پر باقاعدہ حاضری اور شرکت شامل ہے۔ ہمیں خدا کے کلام کا مطالعہ اور اس پر غوروخوض بھی کرنا چاہئے تاکہ اس کے اصول دوسروں کے ساتھ تعلقات، انتخابات اور فیصلوں میں ہماری راہنمائی کریں۔ پس، اس طرح ہماری ترقی یقیناً ظاہر ہوگی۔
خدا کے جلال کیلئے ترقی کریں
۱۷. ترقی ہمارے آسمانی باپ کے جلال کے ساتھ کیسے وابستہ ہے؟
۱۷ آخرکار، ہماری ترقی ہمارے لئے نہیں بلکہ ہمارے آسمانی باپ، یہوواہ کے لئے جلال اور تعریف کا باعث بنتی ہے جو ہمارے لئے روحانی پختگی حاصل کرنا ممکن بناتا ہے۔ اپنی موت سے پہلے کی رات، یسوع نے اپنے شاگردوں سے کہا: ”میرے باپ کا جلال اسی سے ہوتا ہے کہ تم بہت سا پھل لاؤ۔ جب ہی تم میرے شاگرد ٹھہرو گے۔“ (یوحنا ۱۵:۸) شاگرد روح کے پھل اور خدمتگزاری میں بادشاہتی پھل پیدا کرنے سے یہوواہ کیلئے جلال کا باعث بنے تھے۔—اعمال ۱۱:۴، ۱۸؛ ۱۳:۴۸۔
۱۸. (ا) آجکل کٹائی کا کونسا خوشکُن کام ہو رہا ہے؟ (ب) اس کٹائی کے کام سے کونسے چیلنج کھڑے ہوتے ہیں؟
۱۸ آجکل، یہوواہ اپنے لوگوں کو عالمگیر کٹائی میں برکت دے رہا ہے۔ اب کئی سالوں سے، تقریباً ۳،۰۰،۰۰۰ لوگ ہر سال خود کو یہوواہ کے لئے مخصوص کرتے اور اسکی علامت میں پانی کا بپتسمہ لیتے ہیں۔ اس سے نہ صرف ہم خود خوشی حاصل کرتے ہیں بلکہ یہوواہ کا دل بھی شاد ہوتا ہے۔ (امثال ۲۷:۱۱) تاہم، مسلسل خوشی اور یہوواہ کی حمد کے لئے ان نئے اشخاص کو ’مسیح میں چلتے اور اُس میں جڑ پکڑتے اور تعمیر ہوتے ہوئے ایمان میں مضبوط رہنے‘ کی ضرورت ہے۔ (کلسیوں ۲:۶، ۷) اس سے خدا کے لوگوں کو دوہرے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اگر آپ نئے بپتسمہیافتہ ہیں تو کیا آپ جانفشانی کرنے کی کوشش کرینگے تاکہ آپ کی ”ترقی سب پر ظاہر ہو“؟ دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ کافی عرصہ سے سچائی میں ہیں تو کیا آپ نئے اشخاص کی روحانی بہبود کی دیکھبھال کرنے کی ذمہداری اُٹھانے کا چیلنج قبول کریں گے؟ دونوں حالتوں میں، پختگی کی جانب بڑھنے کی ضرورت بالکل عیاں ہے۔—فلپیوں ۳:۱۶؛ عبرانیوں ۶:۱۔
۱۹. اگر آپ اپنی ترقی ظاہر کرتے ہیں تو آپ کون سی برکات اور استحقاق سے لطفاندوز ہو سکتے ہیں؟
۱۹ اپنی ترقی ظاہر کرنے والوں کے لئے شاندار برکات منتظر ہیں۔ ذرا اِن الفاظ پر غور کیجئے جو پولس نے تیمتھیس کو ترقی کرنے کی تاکید کے بعد کہے تھے: ”اپنی اور اپنی تعلیم کی خبرداری کر۔ ان باتوں پر قائم رہ کیونکہ ایسا کرنے سے تُو اپنی اور اپنے سننے والوں کی بھی نجات کا باعث ہوگا۔“ (۱-تیمتھیس ۴:۱۶) مستعدی سے اپنی ترقی ظاہر کرنے سے، آپ بھی خدا کے نام کی بڑائی کرنے اور اُسکی برکات سے لطفاندوز ہونے کا استحقاق حاصل کر سکتے ہیں۔
کیا آپکو یاد ہے؟
• روحانی پختگی کن طریقوں سے ظاہر کی جا سکتی ہے؟
• کس قسم کا علم اور سمجھ پختگی کی عکاسی کرتا ہے؟
• ”روح کے پھل“ ظاہر کرنا روحانی ترقی کی علامت کیسے ہے؟
• پختگی کی جانب بڑھتے ہوئے ہمیں کونسے چیلنج قبول کرنے چاہئیں؟
[صفحہ ۱۳ پر تصویر]
پختگی بآسانی نظر آ جاتی ہے
[صفحہ ۱۵ پر تصویر]
ہم آشکارا سچائی کیساتھ ساتھ آگے بڑھنے سے روحانی ترقی کرتے ہیں
[صفحہ ۱۷ پر تصویر]
دُعا ”روح کے پھل“ ظاہر کرنے میں ہماری مدد کرتی ہے