سچے مسیحی خدا کے کلام کا احترام کرتے ہیں
”تیرا کلام سچائی ہے۔“—یوح ۱۷:۱۷۔
اِن سوالوں کے جواب تلاش کریں:
سن ۴۹ء میں رسولوں اور بزرگوں نے جو اجلاس منعقد کِیا، یہ اُن مجلسوں سے کیسے فرق تھا جو چرچ کے رہنما منعقد کرتے آ رہے ہیں؟
کچھ ایسے مسیحیوں کے بارے میں بتائیں جنہوں نے رسولوں کی موت کے بعد خدا کے کلام کا دفاع کِیا؟
سن ۱۸۷۰ء میں کچھ خلوصدل مسیحیوں نے بائبل کا مطالعہ کرنے کا کونسا طریقہ اپنایا؟ یہ طریقہ اچھا کیوں تھا؟
۱. بہت سے لوگوں کو یہوواہ کے گواہوں سے بات کرتے وقت کونسی بات اچھی لگتی ہے؟
کیا آپ کو وہ موقع یاد ہے جب آپ کی پہلی بار یہوواہ کے گواہوں سے باتچیت ہوئی تھی؟ اُس وقت آپ کو کونسی بات اچھی لگی؟ بہت سے بہنبھائی کہیں گے کہ ”مجھے جو بات سب سے اچھی لگی، وہ یہ تھی کہ یہوواہ کے گواہوں نے میرے ہر سوال کا جواب بائبل سے دیا۔“ ہم یہ جان کر کتنے خوش ہوئے تھے کہ یہوواہ خدا زمین کو فردوس بنائے گا، ہمیں موت سے ڈرنے کی ضرورت نہیں اور مُردے زندہ ہوں گے۔
۲. آپ کو بائبل کیوں اچھی لگتی ہے؟
۲ پھر جوںجوں ہم یہوواہ کے گواہوں سے بائبل کی تعلیم حاصل کرتے گئے، ہمیں پتہ چلا کہ بائبل میں صرف زندگی، موت اور مستقبل کے بارے میں ہی نہیں بتایا گیا بلکہ اِس میں بہت سے اچھےاچھے اصول بھی دئے گئے ہیں۔ یہ اصول ہر دَور اور ہر قوم کے لوگوں کے لئے فائدہمند رہے ہیں اور جو اِن پر عمل کرتے ہیں، اُن کی زندگی خوشگوار ہو گئی ہے۔ (زبور ۱:۱-۳ کو پڑھیں۔) سچے مسیحیوں نے ہمیشہ بائبل کو ”آدمیوں کا کلام سمجھ کر نہیں بلکہ . . . خدا کا کلام جان کر قبول کِیا۔“ (۱-تھس ۲:۱۳) آئیں، مسیحیوں کی تاریخ پر غور کرتے ہیں۔ اِس طرح ہمیں پتہ چل جائے گا کہ اُن مسیحیوں میں کیا فرق ہے جو بائبل کا احترام کرتے ہیں اور جو اِس کا احترام نہیں کرتے۔
ایک بہت بڑا مسئلہ
۳. (الف) پہلی صدی میں کلیسیا کا اتحاد کیوں خطرے میں پڑ گیا؟ (ب) یہ اِتنا بڑا مسئلہ کیوں تھا؟
۳ کُرنیلیس غیرقوموں میں سے پہلے نامختون شخص تھے جن پر پاک روح نازل ہوئی۔ اِس واقعے کے ۱۳ سال بعد ایک ایسا مسئلہ کھڑا ہو گیا جس سے کلیسیا کا اتحاد خطرے میں پڑ گیا۔ بہت سے غیریہودی، مسیحی مذہب کو قبول کر رہے تھے۔ لہٰذا یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا غیریہودی مردوں کو بپتسمہ لینے سے پہلے ختنہ کروانا چاہئے یا نہیں؟ جو مسیحی، یہودی قوم سے تعلق رکھتے تھے، اُن کے لئے یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ بات یہ تھی کہ دیندار یہودی کسی نامختون کے گھر میں قدم تک نہیں رکھتے تھے۔ تو پھر وہ نامختون لوگوں کو بھائی کے طور پر کیسے قبول کرتے؟ جن یہودیوں نے اپنا مذہب چھوڑ دیا تھا، اُن کو مذہب بدلنے کی وجہ سے پہلے ہی بڑی اذیت کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ لیکن اگر وہ نامختون لوگوں کے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک کرنے لگتے تو یہ اَور بھی واضح ہو جاتا کہ مسیحی اور یہودی مذہب میں کتنا فرق ہے۔ یوں اُن کو پہلے سے کہیں زیادہ اذیت کا نشانہ بنایا جاتا۔—گل ۲:۱۱-۱۴۔
۴. (الف) ختنے کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے کونکون جمع ہوئے؟ (ب) اگر اُس موقعے پر کوئی تماشائی ہوتا تو اُس کے ذہن میں کیا سوال اُٹھتے؟
۴ یسوع مسیح کے رسول اور کلیسیا کے وہ بزرگ جو یروشلیم میں رہتے تھے، یہودی قوم سے تعلق رکھتے تھے۔ سن ۴۹ء میں وہ ختنے کے مسئلے پر ”غور کرنے کے لئے جمع ہوئے۔“ (اعما ۱۵:۶) اُنہوں نے ایک ایسا مذہبی مباحثہ منعقد نہیں کِیا جس میں گھنٹوں تک غیرضروری باتوں پر بحثوتکرار کی گئی بلکہ اُنہوں نے اِس اہم مسئلے کو پاک کلام کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کی۔ وہاں موجود بزرگوں اور رسولوں نے بڑے جوش سے اِس مسئلے پر اپنیاپنی رائے پیش کی۔ اگر وہاں کوئی تماشائی ہوتا تو شاید اُس کے ذہن میں یہ سوال اُٹھتے: ”کیا یہ لوگ اِس مسئلے کو اپنی ذاتی رائے یا کسی تعصب کی بِنا پر حل کریں گے؟ کیا اُن میں سے ایک یہ مشورہ دے گا کہ پہلے اسرائیل میں مسیحیوں کے حالات میں بہتری آنے دو، پھر اِس مسئلے کا فیصلہ کریں گے؟ یا پھر کیا یہ لوگ مسئلے کو جلد نمٹانے کے لئے ایک ایسی بات پر اتفاق کر لیں گے جس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ یہ بائبل کی تعلیم کے مطابق نہیں ہے؟“
۵. رسولوں اور بزرگوں نے ۴۹ء میں جو اجلاس منعقد کِیا، یہ اُن مجلسوں سے کیسے فرق تھا جو چرچ کے رہنما منعقد کرتے ہیں؟
۵ آجکل چرچ کی مجلسوں میں مذہبی رہنما جان چھڑانے کے لئے اکثر کسی ایسی بات پر اتفاق کر لیتے ہیں جو اُن کے خیال میں غلط ہے۔ اِس کے علاوہ وہ اپنی بات منوانے کے لئے طرحطرح کے حربے بھی استعمال کرتے ہیں۔ لیکن جب رسولوں اور بزرگوں نے یروشلیم میں اجلاس منعقد کِیا تو اُنہوں نے کوئی ایسی حرکت نہیں کی۔ اُس اجلاس پر جو فیصلہ کِیا گیا، اُس سے سب ہی متفق اور خوش تھے۔ اِس کی وجہ یہ تھی کہ وہاں موجود تمام لوگ خدا کے کلام کا احترام کرتے تھے اور اُنہوں نے مسئلے کو حل کرنے کے لئے اِسی کا سہارا لیا۔—زبور ۱۱۹:۹۷-۱۰۱ کو پڑھیں۔
۶، ۷. ختنے کے مسئلے کو کس صحیفے کی روشنی میں حل کِیا گیا؟ وضاحت کریں۔
۶ ختنے کے مسئلے کو حل کرنے میں عاموس ۹:۱۱، ۱۲ کا صحیفہ کام آیا۔ اِس صحیفے کا حوالہ اعمال ۱۵:۱۶، ۱۷ میں پایا جاتا ہے جس میں لکھا ہے: ”مَیں لوٹ آؤں گا اور داؤد کے گھر کو جو گِر گیا ہے، دوبارہ سے بناؤں گا۔ مَیں اِس کے کھنڈروں کی مرمت کروں گا اور اِسے دوبارہ سے تعمیر کروں گا تاکہ وہ جو آدمیوں میں سے باقی رہ گئے ہیں، غیرقوموں کے لوگوں کے ساتھ مل کر پورے دل سے یہوواہ کے طالب ہوں۔ یہ لوگ میرے نام سے کہلاتے ہیں۔“—نیو ورلڈ ٹرانسلیشن۔
۷ لیکن شاید اب کوئی یہ اعتراض اُٹھائے: ”اِس صحیفے میں یہ تو نہیں کہا گیا کہ جب غیرقوموں کے لوگ ایمان لائیں گے تو اُنہیں ختنہ کروانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔“ یہ بات درست ہے۔ لیکن جو مسیحی، یہودی قوم سے تعلق رکھتے تھے، وہ اِس حوالے کی اہمیت کو سمجھ جاتے۔ دراصل یہودی، غیرقوموں کے مختون لوگوں کو یہودی ہی خیال کرتے تھے۔ وہ اُن کو ’غیرقوموں کے لوگ‘ نہیں خیال کرتے تھے۔ (خر ۱۲:۴۸، ۴۹) مثال کے طور پر جب یہودیوں نے عبرانی صحائف کا ترجمہ یونانی زبان میں کِیا تو اُنہوں نے آستر ۸:۱۷ کا ترجمہ یوں کِیا: ”غیرقوموں کے بہت سے لوگوں نے اپنا ختنہ کروایا اور یہودی بن گئے۔“ لہٰذا جب صحیفوں میں کہا گیا کہ ”وہ جو آدمیوں میں سے باقی رہ گئے ہیں،“ (یعنی یہودی اور ایسے غیریہودی جنہوں نے ختنہ کروا کر یہودی مذہب اپنایا تھا) ”غیرقوموں کے لوگوں“ (یعنی غیریہودی نامختونوں) کے ساتھ مل کر ایک ایسی قوم بن جائیں گے جو خدا کے نام سے کہلائے گی تو مسیحی سمجھ گئے کہ غیریہودیوں کو بپتسمہ لینے سے پہلے ختنہ کروانے کی ضرورت نہیں۔
۸. ختنے کے سلسلے میں جو فیصلہ کِیا گیا، اِس کو قبول کرنے میں دلیری کی ضرورت کیوں تھی؟
۸ رسولوں اور بزرگوں نے خدا کے کلام اور پاک روح کی رہنمائی سے ”ایک دل ہو کر“ ختنے کا مسئلہ سلجھایا۔ (اعما ۱۵:۲۵) یہودی قوم سے تعلق رکھنے والے مسیحی جانتے تھے کہ اُس اجلاس پر جو فیصلہ ہوا تھا، اِس کی وجہ سے اُنہیں مزید اذیت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن جو مسیحی خدا اور اُس کے کلام کا احترام کرتے تھے، اُنہوں نے بڑی دلیری سے اِس فیصلے کو قبول کِیا۔—اعما ۱۶:۴، ۵۔
مسیحی مذہب میں جھوٹے عقیدوں کا جنم
۹. (الف) مسیحی جھوٹے عقیدوں کو کیوں اپنانے لگے؟ (ب) اِس کے نتیجے میں کس جھوٹے عقیدے نے جنم لیا؟
۹ پولس رسول نے پیشینگوئی کی تھی کہ جب تمام رسول فوت ہو جائیں گے تو مسیحی جھوٹے عقیدوں کو اپنانے لگیں گے۔ (۲-تھسلنیکیوں ۲:۳، ۷ کو پڑھیں۔) پولس رسول نے بتایا کہ ’صحیح تعلیم کی برداشت نہ کرنے والوں‘ میں ایسے لوگ بھی شامل ہوں گے جو کلیسیا میں اختیار رکھتے ہیں۔ (۲-تیم ۴:۳) اُنہوں نے کلیسیا کے بزرگوں کو آگاہ کِیا کہ ”خود تُم میں سے ایسے آدمی اُٹھیں گے جو اُلٹیاُلٹی باتیں کہیں گے تاکہ شاگردوں کو اپنی طرف کھینچ لیں۔“ (اعما ۲۰:۳۰) لیکن مسیحی جھوٹے عقیدوں کو کیوں اپنانے لگے؟ ایک کتاب میں اِس کی وجہ یوں بتائی گئی ہے: ”جن مسیحیوں نے یونانی فلسفے کی تعلیم پائی تھی، وہ مسیحی عقیدوں کو اِس فلسفے کے مطابق ڈھالنے لگے۔ دراصل وہ اپنی ذہانت کا سکہ جمانا چاہتے تھے اور اعلیٰ تعلیمیافتہ بُتپرستوں کو مسیحی مذہب کی طرف کھینچنا چاہتے تھے۔“ (دی نیو انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا) اِس ملاوٹ کے نتیجے میں جھوٹے عقیدوں نے جنم لیا۔ مثال کے طور پر بائبل میں لکھا ہے کہ یسوع مسیح خدا کے بیٹے ہیں لیکن یونانی فلسفے کے شیدائیوں کا ماننا تھا کہ وہ خدا ہیں۔ لہٰذا یہ سوال اُٹھا کہ یسوع مسیح دراصل کون ہیں؟
۱۰. یسوع مسیح کی شناخت کا مسئلہ کس طرح آسانی سے حل ہو جاتا؟
۱۰ اِس سوال کو حل کرنے کے لئے بہت سی مجلسیں منعقد کی گئیں۔ اگر مذہبی رہنما بائبل کا سہارا لیتے تو اُنہیں جلد ہی اِس سوال کا جواب مل جاتا۔ لیکن زیادہتر رہنماؤں نے ایسا نہیں کِیا۔ وہ تو مجلس پر آنے سے پہلے ہی اپنیاپنی رائے قائم کر چکے تھے اور اِس سے ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں تھے۔ اِن مجلسوں سے جو عقیدے اور بیانات جاری ہوئے، اِن میں مشکل سے ہی بائبل کا ذکر ہوا۔
۱۱. چرچ کے رہنماؤں نے مسئلوں کو حل کرنے کے لئے کس کا سہارا لیا اور اُنہوں نے ایسا کیوں کِیا؟
۱۱ چرچ کے رہنما مسئلوں کو حل کرنے کے لئے بائبل کا سہارا لینے سے کیوں ہچکچاتے تھے؟ تاریخدان چارلز فریمین نے کہا کہ جو لوگ یسوع مسیح کو خدا مانتے تھے، ”وہ اِس بات سے انکار نہیں کر سکتے تھے کہ یسوع مسیح نے خود باربار کہا تھا کہ وہ خدا باپ کے تابع ہیں۔“ اگر چرچ کے رہنما بائبل کا سہارا لیتے تو وہ غلط ثابت ہوتے۔ اِس لئے وہ چرچ کی روایات اور انسانی تعلیم کو زیادہ اہمیت دینے لگے۔ آج بھی بالکل ایسا ہی ہے۔ اگر آپ نے کسی مسیحی عالم کے ساتھ تثلیث کے عقیدے پر بات کی ہے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ بائبل کی نسبت اُن لوگوں کی تعلیمات کو زیادہ مانتے ہیں جنہیں وہ چرچ کے بانی خیال کرتے ہیں۔
۱۲. چرچ کے معاملوں کے سلسلے میں شہنشاہوں کو کس بات کا اختیار مل گیا؟
۱۲ اکثر چرچ کی مجلسوں پر شہنشاہ کا عملدخل ہوتا تھا۔ ایک پروفیسر نے نقایہ کے شہر میں ہونے والی مشہور مجلس کے سلسلے میں کہا: ”جب رومی شہنشاہ قسطنطین نے تخت سنبھالا تو اُنہوں نے [بشپوں] کو اُن کی توقعات سے کہیں زیادہ امیر بنا دیا۔ اُنہوں نے ایک سال کے اندراندر مسیحیوں کو وہ سب کچھ واپس کر دیا جو اُن سے چھینا گیا تھا، مثلاً اُن کے گرجا گھر، عہدے، ملازمتیں وغیرہ۔ . . . شہنشاہ نے چرچ کے رہنماؤں کو ایک ایسا رُتبہ دیا جو بُتپرستوں کے مذہبی رہنماؤں کو حاصل تھا۔“ اِس طرح قسطنطین نے چرچ کے رہنماؤں کو اپنی مٹھی میں کر لیا۔ پھر جب نقایہ میں مجلس منعقد ہوئی تو بشپوں کو قسطنطین کے کہنے پر چلنا پڑا۔ چارلز فریمین کہتے ہیں کہ ”اِس مجلس کے بعد شہنشاہوں کو نہ صرف چرچ کو مضبوط بنانے کا بلکہ اِس کے عقیدوں کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کا اختیار بھی مل گیا۔“—یعقوب ۴:۴ کو پڑھیں۔
۱۳. آپ کے خیال میں چرچ کے رہنماؤں نے بائبل کی تعلیمات کو کیوں نظرانداز کِیا؟
۱۳ جہاں چرچ کے رہنما اِس مسئلے پر بحث کرتے نہیں تھکتے تھے کہ یسوع مسیح دراصل کون ہیں، وہاں عام لوگوں کے لئے اِس بات کو سمجھنا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ چرچ کے رہنما شہنشاہ کی چاپلوسی کرکے امیر بننا اور چرچ میں اُونچے عہدوں پر فائز ہونا چاہتے تھے۔ لیکن عام لوگوں کو اِس بات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ وہ بائبل کا احترام کرتے تھے اِس لئے وہ یسوع مسیح کو خدا کا بیٹا مانتے تھے۔ چوتھی صدی میں چرچ کے ایک عالم نے عام لوگوں کے بارے میں بڑی حقارت سے کہا: ”کپڑا بیچنے والے، بینک کے ملازم اور سودا سلف بیچنے والے، سب کے سب ہی مذہبی عالم بنتے پھرتے ہیں۔ اگر آپ بینک کے ملازم سے پوچھیں کہ پیسوں کی قیمت کیا ہے تو وہ آگے سے آپ کو بتائے گا کہ باپ اور بیٹے میں فرق کیا ہے۔ اگر آپ دُکاندار سے پوچھیں کہ نان کتنے کا ہے تو آگے سے یہ جواب ملے گا کہ باپ بیٹے سے بڑا ہے۔ اگر آپ نوکر سے پوچھیں کہ کیا تُم نے میرے نہانے کا بندوبست کر لیا ہے تو جواب ملے گا کہ بیٹے کو خلق کِیا گیا ہے۔“ اِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام لوگ خدا کے کلام کا احترام کرتے تھے اور اِس کی تعلیم کو مانتے تھے۔ کاش کہ چرچ کے پیشوا بھی اُن کی مثال پر عمل کرتے!
گیہوں اور کڑوے دانے ساتھساتھ اُگے
۱۴. ہم کیسے جانتے ہیں کہ پہلی صدی سے لے کر آج تک، ہر دَور میں ممسوح مسیحی رہے ہیں؟
۱۴ یسوع مسیح کی ایک تمثیل سے ظاہر ہوتا ہے کہ پہلی صدی سے لے کر آج تک، ہر زمانے میں زمین پر کوئی نہ کوئی ممسوح مسیحی رہے ہیں۔ یسوع مسیح نے تمثیل میں کہا کہ ممسوح مسیحی گیہوں کی طرح ہیں جو کڑوے دانوں کے ساتھساتھ اُگیں گے۔ (متی ۱۳:۳۰) ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ پچھلی صدیوں میں فلاں شخص ممسوح تھا یا فلاں گروہ ممسوح مسیحیوں پر مشتمل تھا۔ لیکن ہم یہ ضرور جانتے ہیں کہ پہلی صدی سے لے کر آج تک، ہر دَور میں ایسے مسیحی رہے ہیں جنہوں نے بڑی دلیری سے خدا کے کلام کا دفاع کِیا اور چرچ کے عقیدوں کو بےنقاب کِیا۔ آئیں، دیکھیں کہ اِن میں سے کچھ مسیحی کون تھے۔
۱۵، ۱۶. کچھ ایسے مسیحیوں کا ذکر کریں جنہوں نے خدا کے کلام کا احترام کِیا۔
۱۵ فرانس کے شہر لیوں کے آرچبشپ اگوبار (۷۷۹ء-۸۴۰ء) نے مجسّموں اور تصویروں کی پرستش، گرجاگھروں کو مُقدسین کے نام مخصوص کرنے کے رواج اور چرچ کی عبادتوں اور روایتوں کے خلاف آواز اُٹھائی۔ اُن کے ایک ساتھی بشپ کلوڈیوس نے چرچ کی روایتوں، مُقدسین سے دُعا کرنے اور مُقدسین کی ہڈیوں اور استعمال کی چیزوں کی تعظیم کرنے سے انکار کِیا۔ گیارھویں صدی میں فرانس کے شہر ٹوورز کے آرچڈیکن بیرینگارِیس کو چرچ سے خارج کر دیا گیا کیونکہ اُنہوں نے اِس بات سے انکار کِیا تھا کہ پاک شراکت کے دوران روٹی اور مے، یسوع مسیح کے گوشت اور خون میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ وہ یہ بھی تسلیم کرتے تھے کہ بائبل کی تعلیمات چرچ کی روایتوں سے کہیں بلند ہیں۔
۱۶ بارھویں صدی میں شہر بروئی کے رہنے والے پیٹر اور شہر لوسن کے رہنے والے ہنری بائبل سے محبت رکھتے تھے۔ پیٹر کیتھولک چرچ کے ایک پادری تھے لیکن اُن کو چرچ کے اِن عقیدوں اور روایتوں پر اعتراض تھا: ننھے بچوں کو بپتسمہ دینا، روٹی اور مے کا یسوع مسیح کے گوشت اور خون میں تبدیل ہو جانا، مُردوں سے دُعا کرنا اور صلیب کی پرستش کرنا۔ اِس وجہ سے اُنہوں نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ پیٹر کو بائبل سے محبت کرنے کی بھاری قیمت چُکانی پڑی؛ سن ۱۱۴۰ء میں اُن کو زندہ جلا دیا گیا۔ ہنری ایک راہب تھے۔ اُنہوں نے چرچ کے پیشواؤں کی بےہودہ حرکتوں اور غلط طرح کی عبادتوں کے خلاف آواز اُٹھائی۔ اِس کے نتیجے میں اُنہیں ۱۱۴۸ء میں گرفتار کر لیا گیا اور اُنہوں نے باقی زندگی قید میں گزاری۔
۱۷. والڈو اور اُن کے شاگردوں نے کونسا کام انجام دیا؟
۱۷ سن ۱۱۴۰ء کے لگبھگ ایک ایسے شخص پیدا ہوئے، جنہوں نے بائبل کی سچائیوں کو پھیلانے میں بڑا اہم کردار ادا کِیا۔ اُن کا خاندانی نام والدیس یا والڈو تھا۔ وہ چرچ میں کسی عہدے پر فائز تو نہیں تھے لیکن اُن کو بائبل سے اِس قدر محبت تھی کہ اُنہوں نے اپنا سارا مالواسباب لوگوں میں بانٹ دیا اور بائبل کے کچھ حصوں کا ترجمہ فرانس کی ایک بولی میں کروانے کا بندوبست کِیا۔ بعض لوگ بائبل کا پیغام اپنی زبان میں پڑھ کر اِتنے خوش ہوئے کہ اُنہوں نے بھی اپنا سارا کچھ بانٹ دیا اور بائبل کی تعلیم دینے میں مصروف ہو گئے۔ یہ بات چرچ کے پیشواؤں کو بڑی کھٹکی۔ چُنانچہ ۱۱۸۴ء میں پوپ نے اِن خداترس مردوں اور عورتوں کو چرچ سے خارج کر دیا۔ (یہ لوگ بعد میں والدینزی کے نام سے کہلانے لگے۔) اور بشپ نے اِن لوگوں کو اپنےاپنے گھروں سے نکال دیا۔ لیکن اِس کا نتیجہ اچھا ہی نکلا کیونکہ بائبل کا پیغام دُوردراز علاقوں میں پھیل گیا۔ جوںجوں وقت گزرتا گیا، یورپ کے کونےکونے میں والڈو، پیٹر، ہنری اور اُن جیسے دلیر لوگوں کے شاگرد بنتے گئے۔ بارھویں صدی کے بعد بھی ایسے مسیحی آئے جنہوں نے بڑی دلیری سے خدا کے کلام کا دفاع کِیا۔ اِن میں سے کچھ کے نام یہ ہیں: جان وِکلف (۱۳۳۰ء-۱۳۸۴ء)، وِلیم ٹینڈیل (۱۴۹۴ء-۱۵۳۶ء)، ہنری گرو (۱۷۸۱ء-۱۸۶۲ء) اور جارج سٹورز (۱۷۹۶ء-۱۸۷۹ء)۔
”خدا کا کلام قید نہیں“
۱۸. (الف) سن ۱۸۷۰ء میں کچھ خلوصدل مسیحیوں نے بائبل کا مطالعہ کرنے کا کونسا طریقہ اپنایا؟ (ب) بائبل کا مطالعہ کرنے کے لئے یہ طریقہ اچھا کیوں تھا؟
۱۸ بائبل کے دُشمنوں نے اِس کی تعلیمات کو دبانے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ دوسرا تیمتھیس ۲:۹ میں لکھا ہے کہ ”خدا کا کلام قید نہیں۔“ سن ۱۸۷۰ء میں کچھ خلوصدل مسیحیوں نے مل کر بائبل کا مطالعہ کرنا شروع کِیا۔ اُنہوں نے مطالعہ کرنے کا کونسا طریقہ اپنایا؟ اُن میں سے ایک بائبل کے کسی موضوع پر سوال اُٹھاتا۔ پھر سب اِس پر باتچیت کرتے۔ وہ اُن تمام صحیفوں کو پڑھتے جن کا تعلق اُس موضوع سے ہوتا۔ پھر وہ دیکھتے کہ اِن صحیفوں کا ایک دوسرے سے کیا تعلق ہے۔ اِس کے بعد وہ مل کر فیصلہ کرتے کہ بائبل کی روشنی میں سوال کا جواب کیا ہے۔ آخرکار وہ اِس جواب کو لکھ لیتے۔ پہلی صدی میں رسول اور کلیسیا کے بزرگ بھی اِسی طریقے سے خدا کے کلام کا مطالعہ کرتے تھے کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ اُن کے عقیدے بائبل کی تعلیمات کے مطابق ہوں۔ ہم اِس بات کے لئے شکرگزار ہیں کہ اُنیسویں صدی میں بھی ہمارے ممسوح بھائیوں نے اِس بات کو یقینی بنایا کہ اُن کے عقیدے بائبل کے مطابق ہوں۔
۱۹. سن ۲۰۱۲ء کی سالانہ آیت کیا ہے اور گورننگ باڈی نے اِسے کیوں چُنا ہے؟
۱۹ بائبل یہوواہ کے گواہوں کے عقیدوں کی بنیاد ہے۔ اِس لئے گورننگ باڈی نے ۲۰۱۲ء کی سالانہ آیت کے لئے یسوع مسیح کے اِس بیان کو چُنا ہے: ”تیرا کلام سچائی ہے۔“ (یوح ۱۷:۱۷) خدا کا کلام سچائی پر مبنی ہے۔ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہمیں بائبل کی تعلیمات پر چلنا ہوگا۔ آئیں، دل سے خدا کے کلام کا احترام کریں۔
[صفحہ ۱۲ پر عبارت]
سن ۲۰۱۲ء کی سالانہ آیت یہ ہے: ”تیرا کلام سچائی ہے۔“—یوحنا ۱۷:۱۷۔
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
والڈو
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
وِکلف
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
ٹینڈیل
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
گرو
[صفحہ ۱۱ پر تصویر]
سٹورز