یہوواہ کا کلام زندہ ہے
مرقس کی کتاب سے اہم نکات
چاروں اناجیل میں سے مرقس کی انجیل سب سے مختصر ہے۔ یوحنا مرقس نے اِسے یسوع کی موت سے تقریباً ۳۰ سال بعد لکھا۔ اُس نے یسوع مسیح کی ساڑھے تین سالہ خدمتگزاری کی داستان بڑی سنسنیخیز انداز میں درج کی۔
لگتا ہے کہ مرقس نے اپنی انجیل غیریہودیوں کے لئے اور خاص طور پر رومیوں کے لئے لکھی تھی۔ اُس نے یسوع مسیح کے معجزوں اور بادشاہت کی مُنادی کرنے میں اُس کے جوش پر توجہ دلائی۔ یسوع کی تعلیم کی بجائے مرقس نے اُس کے کاموں پر زیادہ زور دیا۔ مرقس کی انجیل پر غور کرنے سے مسیح پر ہمارا ایمان زیادہ مضبوط ہو جائے گا اور خوشخبری سنانے کے کام میں حصہ لینے کے لئے ہمارا جوش بھی بڑھ جائے گا۔—عبر ۴:۱۲۔
گلیل میں یسوع مسیح کی خدمتگزاری
(مر ۱:۱–۹:۵۰)
مرقس اپنی کتاب کے شروع میں یوحنا بپتسمہ دینے والے کے بارے میں بتاتا ہے اور اُن ۴۰ دنوں کا ذکر کرتا ہے جن کے دوران یسوع مسیح جنگل میں رہا۔ وہ اِن واقعات کو محض ۱۴ آیات میں بیان کرتا ہے۔ پھر وہ بتاتا ہے کہ یسوع نے گلیل میں خوشخبری کی مُنادی کرنا شروع کی۔ لفظ ”فیالفور“ بار بار استعمال ہوتا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یسوع نے خدا کی خدمت کرنے کو بہت اہم خیال کِیا۔—مر ۱:۱۰، ۱۲۔
یسوع مسیح نے بادشاہت کی منادی کرنے کی خاطر تین سال میں تین بار گلیل کا دَورہ کِیا۔ مرقس کی انجیل میں واقعات عام طور پر تاریخی ترتیب میں درج کئے گئے ہیں۔ پہاڑی وعظ سمیت یسوع کی اُن تقریروں کا ذکر نہیں کِیا گیا ہے جو زیادہ طویل ہیں۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱:۱۵—کس بات کے لئے ”وقت پورا ہو گیا“ تھا؟ یسوع کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اُس کے لئے بادشاہت کی منادی کرنے کا وقت آ گیا تھا۔ وہ خدا کی بادشاہت کے مقررہ بادشاہ کے طور پر حاضر تھا اس لئے خدا کی بادشاہی نزدیک آ گئی تھی۔ خلوصدل لوگوں کو یسوع کی تعلیم کو قبول کرنے کا موقع دیا گیا اور وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے قدم اُٹھا سکے۔
۱:۴۴؛ ۳:۱۲؛ ۷:۳۶—یسوع کیوں نہیں چاہتا تھا کہ اُس کے معجزوں کا چرچا کِیا جائے؟ یسوع یہ نہیں چاہتا تھا کہ لوگ ایسی کہانیوں کے ذریعے اُس کے معجزوں کے بارے میں سنیں جو بڑھا چڑھا کر بتائی گئی ہوں۔ اس کی بجائے وہ چاہتا تھا کہ لوگ خود اُس کے مسیحا ہونے کے ثبوت پر غور کریں اور انفرادی طور پر اُسے قبول کریں۔ (یسع ۴۲:۱-۴؛ متی ۸:۴؛ ۹:۳۰؛ ۱۲:۱۵-۲۱؛ ۱۶:۲۰؛ لو ۵:۱۴) البتہ جب یسوع نے گراسینیوں کے علاقے میں ایک آدمی سے بدروحیں نکالی تھیں تو صورتحال فرق تھی۔ اُس علاقے کے لوگوں نے یسوع سے درخواست کی تھی کہ یہاں سے چلا جا۔ لہٰذا یسوع اُس علاقے میں زیادہتر لوگوں سے براہِراست نہیں مل سکا۔ اس لئے یسوع نے اُس آدمی کو حکم دیا کہ گھر لوٹ کر اپنے رشتہداروں کو اِس معجزے کے بارے میں بتاؤ۔ چونکہ سوأروں کے مرنے پر اُن کا نقصان ہوا اس لئے کئی لوگ یسوع سے ناراض تھے۔ لیکن یسوع کے معجزے کے بارے میں بتانے سے وہ آدمی اِس بُرے تاثر کو ختم کر سکا۔—مر ۵:۱-۲۰؛ لو ۸:۲۶-۳۹۔
۲:۲۸—اس کا کیا مطلب ہے کہ یسوع ”سبت کا بھی مالک ہے“؟ پولس رسول نے لکھا کہ ”شریعت . . . میں آیندہ کی اچھی چیزوں کا عکس ہے۔“ (عبر ۱۰:۱) شریعت میں ایک حکم یہ تھا کہ چھ دن کام کرنے کے بعد لوگ سبت منائیں۔ یسوع اکثر سبت کے روز ہی لوگوں کو شفا بخشتا تھا۔ سبت کا دن مسیح کی ہزار سالہ حکمرانی کی طرف اشارہ کرتا ہے جب انسانوں کو شیطان کے ظالمانہ راج سے آرام ملے گا۔ اُس وقت یسوع مسیح انسانوں کو بہت سی نعمتوں سے نوازے گا۔ اس لئے یہ موزوں ہے کہ یسوع کو ’سبت کا مالک‘ کہا جاتا ہے۔—متی ۱۲:۸؛ لو ۶:۵۔
۳:۵؛ ۷:۳۴؛ ۸:۱۲—مرقس کو یسوع کے جذبات کا اتنا گہرا علم کیسے تھا؟ مرقس کا شمار نہ تو ۱۲ رسولوں میں تھا اور نہ ہی وہ یسوع کے قریبی دوستوں میں شامل تھا۔ عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مرقس کے قریبی ساتھی پطرس نے اُسے یہ ساری تفصیلات بتائی تھیں۔—۱-پطر ۵:۱۳۔
۶:۵۱، ۵۲—شاگردوں نے ”روٹیوں کے بارے میں“ کیا نہ سمجھا تھا؟ اِس واقعے سے چند ہی گھنٹے پہلے یسوع نے صرف پانچ روٹیوں اور دو مچھلیوں سے ۵،۰۰۰ مردوں اور لاتعداد عورتوں اور بچوں کو کھلایا۔ ”روٹیوں کے بارے میں“ شاگردوں کو یہ سمجھ لینا چاہئے تھا کہ یہوواہ خدا نے یسوع کو معجزے دکھانے کے لئے بڑی قوت عطا کی ہے۔ (مر ۶:۴۱-۴۴) اگر وہ اِس بات کو سمجھ گئے ہوتے کہ خدا نے یسوع کو کتنی قوت دی ہے تو وہ یسوع کو جھیل پر چلتے دیکھ کر اِس قدر حیران نہ ہوتے۔
۸:۲۲-۲۶—یسوع نے اندھے آدمی کی بینائی کو درجہبدرجہ کیوں بحال کِیا؟ یسوع نے اُس کا لحاظ رکھتے ہوئے ایسا کِیا۔ اُس آدمی نے بہت عرصے سے روشنی نہیں دیکھی تھی۔ یسوع نے اُس کی بینائی اس لئے آہستہ سے بحال کی ہوگی تاکہ اُس کی آنکھیں سورج کی روشنی کی عادی ہو جائیں۔
ہمارے لئے سبق:
۲:۱۸؛ ۷:۱۱؛ ۱۲:۱۸؛ ۱۳:۳۔ مرقس نے ایسی رسومات، الفاظ، عقیدوں اور جگہوں کی وضاحت کی جن سے غیریہودی واقف نہیں تھے۔ اُس نے بتایا کہ فریسی ’روزہ رکھتے تھے۔‘ اُس نے وضاحت کی کہ عبرانی لفظ ”قربان“ ایک ایسی چیز کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ”خدا کی نذر ہو چکی“ ہے۔ اُس نے یہ بھی معلومات فراہم کی کہ صدوقی ”کہتے ہیں کہ قیامت نہیں ہوگی۔“ اور اُس نے یہ بھی بتایا کہ ”زیتون کے پہاڑ“ سے ہیکل نظر آتی ہے۔ مسیحا کا نسبنامہ صرف یہودیوں کے لئے اہمیت رکھتا تھا اس لئے مرقس نے اِس کا ذکر نہیں کِیا۔ ہم مرقس کی مثال سے اہم سبق سیکھ سکتے ہیں۔ مُنادی کے کام میں یا کلیسیا میں تقریر پیش کرتے وقت ہمیں اُن لوگوں کے پسمنظر کو مدِنظر رکھنا چاہئے جن سے ہم بات کر رہے ہوتے ہیں۔
۳:۲۱۔ یسوع مسیح کے رشتہدار اُس پر ایمان نہیں لائے تھے۔ لہٰذا جب مسیحیوں کو بےایمان رشتہداروں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہوتا ہے تو یسوع اِن کے جذبات کو اچھی طرح سے سمجھتا ہے۔
۳:۳۱-۳۵۔ بپتسمہ لیتے وقت یسوع مسیح روحانی مفہوم میں خدا کا بیٹا بن گیا اور ”عالمِبالا کی یروشلیم“ اُس کی ماں بن گئی۔ (گل ۴:۲۶) اُس وقت سے اُس نے اپنے رشتہداروں کی نسبت اپنے شاگردوں کو زیادہ عزیز رکھنا شروع کر دیا۔ اِس مثال سے ہم سیکھ سکتے ہیں کہ ہمیں بھی روحانی باتوں کو اپنی زندگی میں پہلا درجہ دینا چاہئے۔—متی ۱۲:۴۶-۵۰؛ لو ۸:۱۹-۲۱۔
۸:۳۲-۳۴۔ اگر کوئی ہم سے کہے کہ خدا کی خدمت میں اتنی جاںفشانی نہ کریں بلکہ اپنے آرام کا بھی خیال رکھیں تو ہمیں ایسے خیالات کو فوراً رد کرنا چاہئے۔ مسیحیوں کو ”اپنی خودی کا انکار“ کرنا یعنی خودغرض خواہشات اور منصوبوں کو ترک کرنا چاہئے۔ ہمیں ’اپنی صلیب اُٹھانی‘ چاہئے یعنی ہمیں مسیح کے نام کی خاطر مشکلات، اذیت، یہاں تک کہ موت کا بھی سامنا کرنے کو تیار ہونا چاہئے۔ اس کے علاوہ ہمیں یسوع کے نقشِقدم پر چلتے ہوئے ’اُس کے پیچھے ہو لینا‘ چاہئے۔ یسوع مسیح کے شاگردوں کے طور پر ہمیں اُس کی طرح قربانیاں دینے کو تیار ہونا چاہئے۔—متی ۱۶:۲۱-۲۵؛ لو ۹:۲۲، ۲۳۔
۹:۲۴۔ ہمیں دوسروں کے سامنے اپنے ایمان کا اقرار کرنے سے نہیں جھجکنا چاہئے۔ اس کے علاوہ ہم ہچکچائے بغیر خدا سے یہ درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ ہمارے اعتقاد کو بڑھائے۔—لو ۱۷:۵۔
یسوع کی زندگی کا آخری مہینہ
(مر ۱۰:۱–۱۶:۸)
سن ۳۲ کے آخری حصے میں یسوع مسیح ”یہوؔدیہ کی سرحدوں میں اور یرؔدن کے پار آیا“ اور وہاں بھی بہت سے لوگ اُس کے پاس جمع ہو گئے۔ (مر ۱۰:۱) اُس علاقے میں تعلیم دینے کے بعد یسوع یروشلیم کی طرف چل دیا۔
نیسان کی ۸ ویں تاریخ کو یسوع مسیح شہر بیتعنیاہ میں تھا۔ جب وہ کھانا کھانے بیٹھا تو ایک عورت نے آ کر اُس کے سر پر خالص عطر ڈالا۔ پھر یسوع مقررہ بادشاہ کے طور پر یروشلیم میں داخل ہوا۔ اُس واقعے سے لے کر یسوع کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے تک مرقس نے تمام واقعات اُسی ترتیب میں درج کئے جن میں وہ پیش آئے۔
صحیفائی سوالات کے جواب:
۱۰:۱۷، ۱۸—جب ایک شخص نے اُسے ”نیک اُستاد“ پکارا تو یسوع نے اعتراض کیوں کِیا؟ یسوع نے اس خوشامدی آدمی کی بات کو رد کرکے یہوواہ خدا کو جلال دیا۔ ایسا کرنے سے اُس نے ظاہر کِیا کہ خدا ہی نیکی کا سرچشمہ ہے۔ یسوع نے اس سچائی کی طرف بھی توجہ دلائی کہ خالق کے طور پر یہوواہ خدا یہ معیار قائم کرنے کا حق رکھتا ہے کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا ہے۔—متی ۱۹:۱۶، ۱۷؛ لو ۱۸:۱۸، ۱۹۔
۱۴:۲۵—جب یسوع نے کہا کہ ”مَیں . . . انگور کا شِیرہ پھر کبھی نہ پیوں گا اُس دن تک کہ خدا کی بادشاہی میں نیا نہ پیوں“ تو اس کا کیا مطلب تھا؟ یسوع یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ آسمان پر واقعی انگور کا شِیرہ (یعنی مے) پیا جاتا ہے۔ بائبل میں مے کبھیکبھار خوشی کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ یسوع اُس خوشی کے بارے میں بات کر رہا تھا جو وہ اُس وقت محسوس کرے گا جب اُس کے ممسوح پیروکار اُس کے ساتھ آسمان پر ہوں گے۔—زبور ۱۰۴:۱۵؛ متی ۲۶:۲۹۔
۱۴:۵۱، ۵۲—وہ جوان کون تھا جو اپنی ”چادر چھوڑ کر ننگا بھاگ گیا“؟ چاروں اناجیل میں صرف مرقس کی انجیل میں اُس کا ذکر آتا ہے۔ اِس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ وہ جوان مرقس ہی تھا۔
۱۵:۳۴—جب یسوع نے کہا: ”اَے میرے خدا! اَے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟“ تو کیا اُس کا ایمان کمزور پڑ گیا تھا؟ جینہیں۔ ہم یقین سے تو نہیں جانتے ہیں کہ یسوع نے یہ الفاظ کیوں کہے تھے۔ لیکن وہ یہ ضرور جانتا تھا کہ یہوواہ خدا نے اُس کی حفاظت کرنا چھوڑ دی تھی تاکہ یسوع پوری طرح سے اپنی وفاداری کا ثبوت دے سکے۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یسوع نے زبور ۲۲:۱ کی پیشینگوئی پوری کرنے کے لئے اِن الفاظ کو کہا ہو۔—متی ۲۷:۴۶۔
ہمارے لئے سبق:
۱۰:۶-۹۔ خدا چاہتا ہے کہ بیاہتا ساتھیوں کے درمیان ایک مضبوط بندھن ہو۔ اس لئے اُنہیں جلدبازی میں طلاق لینے کی بجائے بائبل کے اصولوں کو عمل میں لا کر شادی میں پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔—متی ۱۹:۴-۶۔
۱۲:۴۱-۴۴۔ کنگال بیوہ کی مثال سے ہم یہ سبق سیکھ سکتے ہیں کہ ہمیں بےغرض ہو کر سچے خدا کی عبادت کو فروغ دینے کے لئے عطیات دینے چاہئیں۔
[صفحہ ۲۹ پر تصویر]
یسوع مسیح نے اِس شخص کو کیوں حکم دیا کہ اپنے رشتہداروں کو بتاؤ کہ تمہارے ساتھ کیا پیش آیا ہے؟